زیر نظر تحریر شیخ منصور شامی (محمد آل زیدان) شہید کے آٹھ عربی مقالات کا اردو ترجمہ ہے۔ آپ محرم ۱۴۳۱ھ میں وزیرستان میں شہید ہوئے۔ یہ مقالات مجلہ ’طلائع خراسان‘ میں قسط وار چھپے اور بعد ازاں مذکورہ مجلّے کی جانب سے محرم ۱۴۳۲ھ میں کتابی شکل میں نشر ہوئے۔ ترجمے میں استفادہ اور ترجمانی کا ملا جلا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ مترجم کی طرف سے اضافہ کردہ باتوں کو چوکور قوسین [] میں بند کیا گیا ہے۔ (مترجم)
جنگ صرف ایک ہی دھوکہ ہے!
صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
الحرب خدعۃ
’’جنگ صرف ایک ہی دھوکہ ہے۔1‘‘
مطلب یہ کہ ایک ہی چال جنگ کا پانسہ پلٹ کر اسے انجام تک پہنچا دیتی ہے2،ضرب المثل مشہور ہے کہ ’رُبّ حیلۃ انفع من قبیلۃ‘ (کچھ تدبیریں پورے ایک قبیلے سے بھی زیادہ کارآمد ہوتی ہیں۔)
لیکن سرِ دست ہمارا مقصد مذکورہ دونوں واقعات میں دشمن کے خلاف اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے’حضرات صحابہ کرام کی جنگی چالوں ‘کی تفصیل بیان کرنا نہیں، بلکہ صرف دو باتوں کی جانب توجہ دلانا مقصود ہے :
اول: دھوکہ دہی یعنی جنگی چال اور بد عہدی میں فرق
امام ابن حجر فرماتے ہیں :
’’[حدیث میں ] دھوکے سے مراد ہے :ایک بات کو ظاہر کرنا جبکہ اس کے برخلاف بات کو دل میں چھپائے رکھنا۔ ‘‘3
امام نووی فرماتے ہیں:
’’علماء اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ میں کفار کو ہر ممکن طریقے سے دھوکہ دینا جائز ہے، البتہ بد عہدی اور امان دے کر پھر اس کی خلاف ورزی جائز نہیں۔‘‘
لہذا بدعہدی کو جنگی چال قرار دینا جائز نہیں، بالکل ایسے ہی جیسے جنگی چال کو بدعہدی کہنا ناروا ہے۔4
اس لیے کعب بن اشرف کے قتل کو غدر کہنا جائز نہیں، کیونکہ وہ رسول اللہﷺ کے حکم سے ہوا۔
امام نووی فرماتے ہیں:
’’قاضی عیاض نے کہا کہ کعب بن اشرف کے قتل کو غدر کہنا کسی کے لیے جائز نہیں، ایک شخص نے حضرت علی کی مجلس میں یہ بات کی تو آپ کے حکم پر اسے قتل کر دیا گیا۔‘‘ 5
دوم: دھوکے اور چالبازی کے فن کو ذہین لوگ ہی اچھی طرح بروئے کار لا سکتے ہیں
چالیں ہمیشہ یکساں نہیں رہتیں ، بلکہ زمان و مکان اور صورتحال و افراد کے اعتبار سے ان میں مستقل تبدیلی آتی ہے، ورنہ وہ چال ہی نہیں رہتیں۔
بدیہی ہونے کے باوجود میں نے یہ نکتہ اس لیے ذکر کیا کہ ہم اپنے بعض بھائیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ دشمن کے خلاف ہمیشہ ایک جیسی جنگی چال چلتے ہیں، دشمن کو دھوکہ دینے کے نئے طریقے نہیں ایجاد کرتے کہ اسے کاری ضرب لگا سکیں، طریقہ جنگ ہمیشہ ایک جیسا رکھتے ہیں، فرسودہ چالوں پر اکتفا کرتے ہیں، بسا اوقات تو اسی پرانی جگہ اور اسی وقت میں سابقہ حربہ اختیار کرتے ہیں جس کے پھر سنگین نتائج نکلتے ہیں، لہذا عقلِ سلیم رکھنے والوں کو اس طرزِ عمل سے باز رہنا چاہیے۔
نیکی میں مسابقت
عبد اللہ بن کعب بن مالک فرماتے ہیں :
’’اللہ کا اپنے رسول ﷺ پر ایک انعام یہ ہوا کہ اوس و خزرج دونوں قبیلے آپ ﷺ کی خوشنودی کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے، اوس قبیلہ جب بھی آپ ﷺ کی خوشنودی والا کوئی کام کرتا تو خزرج قبیلے کہتے :بخدا! اوس قبیلہ اپنے اس کارنامے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے ہاں ہم پر فضیلت نہیں پا سکتا، سو وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک ویسا ہی کوئی کارنامہ نہ کر دکھاتے، اور جب خزرج کوئی کارنامہ انجام دیتا تو اوس کا بھی یہی حال ہوتا، جب اوس نے رسول اللہ ﷺ کے دشمن کعب بن اشرف کا کام تمام کیا تو خزرج نے کہا: اللہ کی قسم! وہ اس میں ہم سے آگے نہیں بڑھ سکتے، تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ابن اشرف جیسا اور کون رسول اللہ ﷺ کا دشمن ہے؟ ابن ابی الحقیق کا نام سامنے آیا جو خیبر میں رہتا تھا، قبیلہ خزرج نے آپ ﷺ سے اس کے قتل کی اجازت چاہی اور اجازت ملنے پر اسے جا کر قتل کر ڈالا۔‘ ‘6
اس سے معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آخرت اور اجر و ثواب کے معاملے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے، یہ جذبۂ مسابقت انسانی فطرت ہے،انسان ہمیشہ دوسروں سے برتر ہونا پسند کرتا ہے اور اسے یہ ناگوار گزرتا ہے کہ کوئی اور اس سے بالاتر ہو، لیکن یہ جاننا لازم ہے کہ مسابقت کا جذبہ دو طرح کا ہے، ایک قسم تو قابلِ تعریف ہے یعنی آخرت کی بابت مسابقت اور ایک قسم مذموم و قابلِ ترک ہے یعنی دنیا اور دنیاوی بڑائی میں مسابقت۔
آخرت میں مسابقت اچھی بات ہے، خواہ یہ مسابقت دو افراد کے درمیان ہو یا دو گروہوں کے بیچ، جب تک مقصود آخرت ہو نہ کہ دنیاوی نام و نمود، اس لیے صدرِ اسلام میں مجاہدین کی جماعتیں قبیلوں کے اعتبار سے بنائی جاتی تھیں، کیونکہ اس سے جذبہ مسابقت پروان چڑھتا ہے اور لشکر کی مضبوطی کا سبب بنتا ہے۔
لیکن چونکہ امتدادِ زمانہ کی وجہ سے غفلت زیادہ ہو جاتی ہے، اس لیے ایک مسلمان کو ہمیشہ چوکنا رہ کر اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے کہ اس کی نیت میں کھوٹ تو نہیں آ گیا؟ اللہ کی خوشنودی کے حصول کے جذبے کی جگہ اپنی ذات کی بڑائی کے احساس نے تو نہیں لے لی؟ اللہ کی رضا کے لیے جماعت و قبیلے سے قوت کے حصول کے بجائے خود جماعت اور قوم کو سربلند کرنا تو مقصد نہیں بن گیا؟
نیت کے اس کھوٹ اور خرابی کو جاننے کے لیے چند علامات ہیں :
- یہ مسابقت دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اس کے ایمانی تعلق،خواہ شخصی سطح پر ہوں یا جماعتی سطح پر، پر اثر انداز ہو، اپنے قبیلے یا جماعت کے فرد کو قریب کرے اور عزت دے، جبکہ دوسروں کے ساتھ اس کا رویہ دوری اور بے مروتی کا ہو۔
- اپنے مسلمان مجاہد بھائی یا جماعت کے لیے اس کے دل میں بغض و حسد پیدا ہو جائے اور وہ ان کے زوال و خاتمے کی تمنا کرنے لگے۔
- اپنے قول و فعل اور سازش کے ذریعے اسے گرانے اور ختم کرنے کی کوشش کرے۔
- اپنی جلن مٹانے کے لیے اس کی خطائیں ڈھونڈے، اس کا مذاق اڑائے اور ان خطاؤں کو نشر کرے۔
- اپنی ذات یا جماعت کو بڑا دکھانے کے لیے اس کی تعریف میں مبالغے کی حدود پار کر جائے اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے صراحتاً یا اشارتاً ان پر طعنہ زنی کرے اور انہیں کمزور دکھائے۔
- اپنی ذات یا جماعت یا اپنے امیر کی غلطیوں کو جائز قرار دینے کی کوشش کرے اور ان کا دفاع کرے، جبکہ پتہ بھی ہو وہ غلطی ہے یا پھر امکان کے باوجود اس کا حکم اور نوعیت جاننے کی کوشش ہی نہ کرے، بلکہ آنکھیں بند کر کے اسے صحیح سمجھے [اور سمجھانے والے کی بات ہی نہ سنے]۔
یہ سب افعال اس پر دالّ ہیں کہ اس کی نیت میں خرابی اپنا راستہ بنا چکی ہے، اب یہ قابلِ تعریف قبائلی یا جماعتی تعاون نہیں رہا، بلکہ مذموم جاہلی عصبیت بن چکا ہے۔
سو ہر مسلمان کو اس سے بچنا چاہیے کہ اس کی جماعت ذریعے کے بجائے مقصود نہ بن جائے اور ہر پَل اپنے دل کو ٹٹولتے رہنا چاہیے، کیونکہ قلبی حالت بدلتی رہتی ہے اور نفس کی تو فطرت ہی یہی ہے کہ وہ قابو سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے، البتہ جو اللہ کا سہارا تھام لے تو صراطِ مستقیم پر وہی گامزن رہ سکتا ہے۔
غزوہ اُحد سے مستفاد دروس
شوال کے مہینے میں مناسب ہے کہ ہم دروس اور عبرتوں سے بھرے غزوے ’غزوہ احد ‘ کا ذکر کریں، یہ غزوہ شوال المکرم تین ہجری کو برپا ہوا، بدر کی شکست کے بعد مشرکین تلملا رہے تھے اور اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنا چاہتے تھے، سو اپنا ساز و سامان لے کر مسلمانوں کے مرکز مدینہ منورہ پر حملہ کر کے انہیں نیست و نابود کے ارادے سے روانہ ہوئے، کافی مشوروں اور غور و خوض کے بعد مسلمان ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مدینہ منورہ سے باہر نکلے اور’اُحد‘ پہاڑ کے پاس ان کا مشرکین کے لشکر سے سامنا ہوا، یہ غزوہ اسباق سے پُر ہے اور اس کے کئی واقعات پر ٹھہر کر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
منافقین کا کردار
جب مسلمان مشرکین کے لشکر کے قریب پہنچے تو منافقین کا سردار عبد اللہ بن اُبی ایک تہائی لشکر کو لے کر جنگ سے پیچھے ہٹ گیا اور بہانہ یہ بنایا: ’ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہم کیوں خود کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر رہے ہیں‘۔ مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے میری بات (مدینہ کے اندر رہ کر جنگ کرنے کی ) نہیں مانی اور دوسری رائے (مدینہ سے نکل کر مقابلہ کرنے کی )پر عمل کیا[اور یہ فیصلہ تو نری ہلاکت ہے ]۔
’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سردارِ منافقین کی یہ دلیل بودی تھی، کیونکہ اگر اسے اپنی رائے پر عمل نہ ہونے کا اتنا ہی قلق تھا تو لشکر کے ساتھ شروع سے ہی نہ نکلتا، لیکن اس نازک موقع پر اس سرکشی اور علیحدگی کا مقصد یہ تھا مسلمانوں کے لشکر میں دشمن کی آنکھوں کے سامنے انتشار پھیلے کہ لشکر کا ایک بڑا حصہ پسپا ہو گیا اور باقی ماندہ کے حوصلے پست ہو جائیں، جبکہ یہ دیکھ کر مشرکین کے لشکر کے حوصلے بلند ہو جائیں اور وہ جلدی سے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے مخلص صحابہ کا کام تمام کر دیں اور سردارِ منافقین کے لیے دوبارہ مدینہ کی سرداری کا راستہ صاف ہو جائے۔
رئیس المنافقین کا یہ گھناؤنا حربہ کامیاب ہونے لگا تھا، قریب تھا کہ مخلصین کے دو قبیلے (بنو حارثہ اوس میں سے اور بنو سلمہ خزرج میں سے ) بھی ہمت ہار بیٹھتے اور پیچھے ہٹ جاتے، لیکن اللہ نے ان کی مدد کی اور انہیں ثابت قدم رکھا، اسی بابت یہ ارشادِ باری ہے :
اِذْ ھَمَّتْ طَّاۗىِٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا ۙوَاللّٰهُ وَلِيُّهُمَا ۭ وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (سورۃ آل عمران: ۱۲۲)
’جب تم ہی میں سے دو گروہ ہمت ہارنے کا ارادہ کر بیٹھے، حالانکہ اللہ ان کا حامی و ناصر تھا اور اللہ ہی پر اہلِ ایمان کو توکل کرنا چاہیے۔‘‘‘7
اسی صورتحال کو دیکھ کر مشرکین کے سپہ سالار حضرت ابو سفیان (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے انصار کو یہ پیغام بھجوایا کہ’ ہماری تم سے کوئی جنگ نہیں، ہمارے اور ہمارے ہم قبیلہ دشمنوں کے بیچ سے ہٹ جاؤ‘۔ انصار نے اس کی اس پیشکش کا بڑا سخت جواب دے کر اسے مایوس کیا، یہی حال ابو عامر فاسق کی کوشش کا بھی ہوا۔
ان سب ریشہ دوانیوں کے باوجود اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو آپ کے صحابہ کو ثابت قدم رکھا اور ا ن کے پائے استقلال میں لرزش نہ آنے دی۔
یہ وہ منظر نامہ ہے جو آئے دن ہمارے سامنے آتا ہے، یعنی نفاق کی صورتیں اور ایمان کی صورتیں، قرآن و سنت سے جُڑے لوگوں کے لیے منافقین کی صورتوں کو پہچاننا دشوار نہیں، کیونکہ خود قرآن و سنت نے ان کے خدوخال واضح کر دیے ہیں، جہاد کو ختم کرنے اور مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے ان کے ہتھکنڈوں کو کھول کھول کر بیان کیا ہے۔
نفاق کے اس اژدھے نے مجاہدین کو ہر دور میں تکلیفیں پہنچائی ہیں، یہ کبھی اپنی فطرت سے باز نہیں آتا، ہمیشہ اپنے زہر سے مجاہدین کو کمزور کرتا ہے، کبھی انہیں گمراہ جماعت کہتا ہے، کبھی ان کے جہاد کی مشروعیت پر سوال اٹھاتا ہے، کبھی ان کے مقتولین کے شہید ہونے کا انکار کرتا ہے، غرض کفار کے زر خرید یہ منافقین ہمیشہ مجاہدین کو نقصان پہنچانے اور انہیں بدنام کرنے کی تاک میں رہتے ہیں۔
مجاہدین پر اعتراضات کا ایک معروف سبب تو دنیا اور دنیاوی جاہ و منصب کی طلب و چاہت ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی ایک سبب ہے جس کی وجہ یہ منافقین مجاہدین کے خلاف پروپیگنڈے کرتے ہیں، وہ یہ کہ اللہ کے فضل سے مجاہدین نے ہی توحید کا صحیح معنی میں حق ادا کیا اور سیرتِ رسول ﷺ کو اپنایا، جس سے دعوت و جہاد کا جھوٹا نعرہ لگانے والے منافقین کا پردہ چاک ہوا اور جب بھی ایسا ہوتا ہے تو منافقین خود سے نظریں ہٹانے کے لیے مخلصین کے کردار و عمل میں کیڑے نکالنے لگتے ہیں۔
لیکن اہلِ صدق و ایمان اس سب کے باوجود اور مخالفین کی کثرت کے علی الرغم آگے سے آگے بڑھتے رہتے ہیں، اسی لیے رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک انہیں ’طائفہ منصورہ‘کا لقب ملا ہے، مخالفین کی مخالفت سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ ان لمبی زبان والے منافقین کے لیے ہر دور کے اہلِ صدق و وفا کا جواب وہی ہے جو انصار نے ابو عامر فاسق کو دیا تھا:
’’اے فاسق! اللہ کبھی تیری آنکھ کو ٹھنڈا نہ کرے۔‘‘
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 صحیح بخاری،کتاب الجہاد والسیر،باب:الحرب خدعۃ
2 فتح الباری،تحت ھذا الحدیث
3 ایضاً
4 شرح صحیح مسلم، کتاب الجہاد والسیر،باب :جواز الخداع فی الحرب
5 شرح صحیح مسلم،کتاب الجہاد والسیر،باب:قتل کعب بن اشرف
6 البدایہ والنھایہ،ج ۴ ص ۱۳۷
7 الرحیق المختوم؛۲۹۹