نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | گیارہویں قسط

معاصر جہاد کے لیے سیرتِ رسول ﷺ سے مستفاد فوائد و حِکَم!

محمد متین مغل by محمد متین مغل
26 ستمبر 2025
in ستمبر 2025ء, اُسوۃ حسنۃ
0

غزوہ حمراء الاسد (۲)

بیٹا جلیل القدر باپ کے نقشِ قدم پر

اس غزوے کا مطالعہ کرنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے حسین ودلکش مناظر میں سے ایک منظر حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کا طرزِ عمل ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کروا کر لوگوں کو دشمن کا پیچھا کرکے اس کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: ’’ہمارے ساتھ صرف وہی نکلے جو جنگ میں شرکت کرچکا ہو‘‘، تو اس موقع پر حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ ﷺ سے شرکت کی اجازت چاہی اور عرض کیا: یارسول اللہﷺ!مجھے تو یہی پسند تھا کہ آپﷺ کے ساتھ ہر جنگ میں حاضری دوں، لیکن میرے والد نے اپنے پیچھے مجھے اپنی بہنوں کی ذمےداری سونپی تھی [اس لیے میں غزوۂ احد میں شریک نہ ہوسکا] سو اب آپ مجھے دشمن کے تعاقب میں نکلنے کی اجازت مرحمت فرمائیں، رسول اللہﷺ نے آپ کو اجازت دے دی۔

[انہیں جہاد میں’ جانے‘ کا بہانہ چاہیے ہوتا تھا]

عام لوگوں کی ذہنیت سے دیکھا جائے تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا گھر پر رہنا اب زیادہ ضروری تھا، کیونکہ والد صاحب شہید ہوچکے ہیں [پہلے تو صرف عارضی طور پر غیر حاضر تھے]، گھر میں سے ایک کی قربانی کافی ہے، جس وجہ سے پہلے گھر سے نہ نکل سکے، وہ نہ صرف قائم تھی، بلکہ بڑھ چکی تھی، مزید برآں جب رسول اللہﷺ خود فرماچکے کہ صرف وہی نکلے جو غزوۂ احد میں شریک ہوچکا ہو، یہ سب باتیں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے حق میں جہاد کے لیے نہ نکلنے کا قوی عذر بن سکتی تھیں، لیکن حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا رسول اللہﷺ کی معیت میں جہاد کا شوق ان سب [معقول و شرعی] اعذار پر غالب آ کر رہا۔ یوں بیٹا اپنے جلیل القدر باپ کے نقشِ قدم پر گامزن ہوا۔

[اجازت مرحمت ہونے کی حکمتیں]

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو اجازت دی گئی اس کی ایک حکمت تو یہ ممکن ہے کہ ان کا عذر حقیقی تھا، اور چونکہ بیٹا باپ کے جسم کا ایک حصہ شمار ہوتا ہے اس لیے ان کا اس راہ میں نکلنا اپنے والد کی نیابت میں تھا کہ اگر ان کے والد شہید نہ ہوئے ہوتے تو وہ خود نکلتے، [سو ان کی شہادت کے بعد ان کی جگہ ان کا بیٹا نکلا]۔

ایک حکمت یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاہا ہو کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو ہر اس مسلمان بیٹے کے لیے مشعلِ راہ بنائیں جس کے والد نے دین کی خاطر جان دی ہو کہ وہ بھی حضرت جابررضی اللہ عنہ کی طرح اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلے، سچ تو یہ ہے کہ نیکی و قربانی کی ہر صورت کے لیے سیرتِ رسول ﷺ میں ایک مثال ونمونہ موجود ہے۔ اور یہ سب مثالیں اسلام کی حقیقت اور ایمان کے رسوخ پر شاہدِ عدل ہیں اور اس دینِ حق کی عظمت اور اس کے سچے پیروکاروں کے بلند مرتبے کی عکاس ہیں۔

کہنے کو مسلماں ہم بھی ہیں!

جب رسول اللہ ﷺ حمراء الاسد کے مقام پر پہنچے تو معبد بن ابو معبد خزاعی [جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے] کا وہاں سے گزر ہوا، قبیلہ خزاعہ کے کیا مسلمان اور کیا مشرک، سبھی تہامہ میں رسول اللہ ﷺ کے خیرخواہ اور راز کے امین تھے، ان کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ معاہدہ تھا کہ وہاں ہونے والے کسی کام کو آپﷺ سے نہیں چھپائیں گے، معبد اس وقت مشرک تھے، انہوں نے رسول اللہﷺ سے کہا: اے محمد(ﷺ)! آپ کے ساتھیوں کی بابت آپ جس آزمائش کا شکار بنے بخدا! اس سے ہمیں رنج ہوا ور ہم چاہتے ہیں کہ ان کی بابت اللہ آپ کو عافیت سے نوازے۔ معبد نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کفار کے تعاقب میں حمراء الاسد تک پہنچ چکے ہیں، تو جب روحاء نامی مقام پر ابوسفیان[جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے اور لشکرِ کفار کےسردار تھے] اور کفارِقریش سے اس کا سامناہوا تو انہیں بتایا کہ مسلمان ان کے تعاقب میں آرہے ہیں، اس خبر سے کفار کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ مدینہ منورہ پر چڑھائی کے ارادے سے دستبردار ہوگئے۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ معبد مسلمان ہوگئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیاکہ ابوسفیان کے پاس جاکر ان کے حوصلے پست کریں۔

ذرا ان الفاظ پر غور کریں ’’ قبیلہ خزاعہ کے کیا مسلمان اور کیا مشرک، سبھی تہامہ میں رسول اللہ ﷺ کے خیرخواہ اور راز کے امین تھے‘‘، اور یہ بھی دیکھیے کہ معبد نے (بعض روایات کے مطابق) مشرک ہونے کے باوجود اپنے مسلمان حلیفوں کے ساتھ عہد کی پاسداری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور خواہ زبان سے ہی سہی لیکن ان سے شر کو ٹالنے کی [کامیاب] کوشش کی۔

پھر بعض ان حضرات کے افعال کو بھی دیکھیے جو خود کو نہ صرف مسلمان کہتے ہیں بلکہ ان کی نسبت علم اور دعوت کی طرف بھی کی جاتی ہےکہ اہل جہاد کے ساتھ ان کا طرزِ عمل کیا ہے! حالانکہ انہی اہلِ جہادپر آج بھی حمراء الاسد جیسے سخت حالات گزر رہے ہیں،ہردم موت سے روبرو اور تکلیفیں سہہ رہے ہیں۔

خزاعہ کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کیا تھا،اس کی کیا شرائط تھیں اور انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیسی خیرخواہی کی!

دوسری طرف اسلامی اخوت کے معاہدے اور اس کی شرائط کو دیکھا جائے اور مسلمانوں کے ایک طبقے کی اپنے مسلمان بھائیوں سے لاتعلقی کو دیکھا جائے، تو ان دو انتہاؤں کا سرسری موازنہ بھی انسان کو حیرت [اور افسوس] سے دوچار کردیتا ہے۔

خزاعہ کا معاہدہ تو ایک انسانی معاہدہ تھا، جسے ختم بھی کیا جاسکتا تھا اور خزاعہ کو اس کا حق بھی حاصل تھا، کیونکہ یہ معاہدہ تو دراصل اس معاہدے کا تسلسل تھا جو زمانہ جاہلیت میں بنو ہاشم نے خزاعہ کے ساتھ کیا تھا، اور بظاہر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خزاعہ کے کفار اپنے مشرک بھائیوں کا ساتھ دیتے کیونکہ مسلمان تو ان کے دین کے مخالف تھے، لیکن اس سب کے باوجود خزاعہ نے اپنے عہد کا پا س رکھا، مسلمانوں سے کفار کے شر کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، بے شک یہ قوم اپنے شرک کے باوجود بڑی باوفا تھی۔

دوسری طرف اہلِ اسلام کے مابین اسلامی اخوت کا معاہدہ انسانی نہیں، الہی ہے، ربانی ہے، اسے اللہ نے مسلمانوں پر عائد کیا ہے، سو مسلمان رہتے ہوئے اس معاہدے کی پاسداری کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اسے توڑنے کی کوئی سبیل نہیں، بالکل ایسے ہی جیسے کوئی انسان اپنے ماں جائے سگے بھائی کی بابت [تمام اختلافات کے باوجود] یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ میرا نسبی بھائی نہیں، اللہ جل جلالہ کا فرمان و فیصلہ ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ (سورۃ الحجرات: ۱۰)

’’بے شک تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔‘‘

حدیث میں آتاہے:

المسلم اخو المسلم لایظلمہ و لایسلمہ

’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے،وہ نہ خود اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ کسی ظالم کے حوالے ہی کرتا ہے۔‘‘

بلکہ مسلمانوں کا تعلق تو خونی رشتوں سے بھی زیادہ مضبوط ہے، کیونکہ تمام ایک جسم کی مانند ہیں، جیسے حدیث میں آیا ہے:

’’باہمی محبت، رحم دلی اور یگانگت میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے، جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے سارا جسم بے خوابی اور بخار کا شکار ہوجاتا ہے۔‘‘

مصائبِ دہر اور گردشِ زمانہ سے یہ اسلامی رشتہ کمزور نہیں پڑتا، بلکہ موت اور حشر کی ہولناکیوں سے بھی یہ متاثر نہیں ہوتا۔

تو اتنے پختہ عہد (اخوتِ اسلامی) کا تقاضا تو یہ تھا کہ زبانی مدد سے آگے بڑھ کر جانوں کے ساتھ اسلام اور اہلِ سلام کی نصرت کی جاتی، لیکن افسوس ایک گروہ نے پہلے قدم پر ہی ساتھ چھوڑ دیا، اور ساتھ چھوڑنے پر ہی بس نہیں کی، بلکہ مخالفین کی صف میں جا کھڑے ہوئے، اور ان کی زبانی مخالفت ہمارے لیے اصل دشمن کی توپ وتفنگ کی گھن گرج سے زیادہ تکلیف دہ ہے، اخوتِ ایمانی کے عہد سے وفا نبھانے کی جگہ انہوں نے ہمارے اور اپنے دشمن کی طرف دستِ تعاون دراز کیا اور کفار و مرتدین کی خیر خواہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمیں ان سے سوائے دغا و دشنام کچھ حاصل نہیں ہوا، بجائے اس کے کہ وہ ہمیں تسلی دیتےاور کہتے کہ آپ کی تکلیف کا ہمیں بھی دکھ ہے، الٹا ہماری آزمائش پر خوشیاں منانے لگے اور طرح طرح کے الزامات دھرنے لگے۔ ان سے ہمارا خیر کی توقع رکھنا بعینہ ٖ اس کہاوت کی طرح ثابت ہوا جس میں ایک شخص کی مثال دی گئی ہے جو بارش سے بچنے کے لیے پرنالے کے نیچے جا کھڑا ہوا۔ اور ہم یہ تمنا کرنے لگے کہ کاش! یہ لوگ کم از کم خاموش رہتے اور ہمیں تنہا (ان کی مدد کے بغیر) ہی کفار سے لڑنے کے لیے چھوڑ دیتے، اگر ہم غالب آجاتے تو یہ غلبہ انہی کا (یعنی ان کے دین کا) ہوتا اور اگر برعکس معاملہ ہوتا تو ہم شہادت پاکر کامیاب ٹھہرتے اور انہیں بھی ہم پر ردکرنے کی ضرورت نہ رہتی۔ لیکن افسوس صد افسوس اس گروہ نے اپنے لیے یہی پسند کیا کہ طاغوتوں کا دفاع کرے اور اہلِ ہمت مجاہدین کی مخالفت کرے۔ بلکہ آج کے دور میں یہ بات بھی حقیقت سے بعید نہیں کہ جو عالم مجاہدین کی مخالفت سے خاموش رہے وہ مجاہدین کا حامی ہے، کیونکہ مخالفین کا زور اتنا زیادہ ہے کہ خاموش کی خاموشی اور مخالفت نہ کرنا بھی نصرت ہے، وحسبنا اللہ ونعم الوکیل!

ہرحال میں ہروقت صبر واستقامت

ابوسفیان رضی اللہ عنہ جب اپنے لشکر کو لے کر واپس مکہ جارہے تھے تو راستے میں مدینہ جانے والے عبد القیس قبیلے کے ایک قافلے سے ان کا آمنا سامنا ہوا،ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا تم محمد (ﷺ) کو میرا ایک پیغام پہنچاؤ گے؟ بدلے میں جب تم مکہ آؤگے تو ایک اونٹنی کے بوجھ کے بقدر تمہیں کشمش معاوضے میں دوں گا۔

ا نہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔

ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: محمد ﷺ کو پیغام دو کہ ہم نے آپ اور آپ کے صحابہ کی بیخ کنی کے لیے دوبارہ حملے کا پختہ ارادہ کر رکھا ہے۔

یہ قافلہ مسلمانوں کے پاس سے اس وقت گزرا جب وہ حمراءالاسد میں تھے اور انہیں ابو سفیان کا پیغام دیا، اس سارے واقعے کو اللہ رب العزت نے قرآن میں یوں بیان کیا ہے:

اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ؁ فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْھُمْ سُوْۗءٌ ۙ وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِيْمٍ؁ (سورۃ آل عمران: 173، 174)

’’ (اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار)وہ لوگ ہیں جن سے کہنے والوں نے کہا تھا: یہ ( مکہ کے کافر) لوگ تمہارے ( مقابلے) کے لیے (پھر سے) جمع ہوگئے ہیں، لہذا ان سے ڈرتے رہنا، تو اس (خبر) نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بول اٹھے کہ: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔نتیجہ یہ کہ یہ لوگ اللہ کی نعمت اور فضل لے کر اس طرح واپس آئے کہ انہیں ذرا بھی گزند نہیں پہنچی اور وہ اللہ کی خوشنودی کے تابع رہے۔اور اللہ فضلِ عظیم کا مالک ہے۔‘‘

صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس نے مروی ہے کہ حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہا جب انہیں آگ میں ڈالا گیااور محمد ﷺ نے اس وقت کہا جب لوگوں نے ان سے کہا: یہ ( مکہ کے کافر) لوگ تمہارے (مقابلے) کے لیے (پھر سے) جمع ہوگئے ہیں، لہذا ان سے ڈرتے رہنا، تو اس (خبر) نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بول اٹھے کہ: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔

لوگ اہلِ حق کو دشمن کی تعداد اور سازوسامان سے جتنا زیادہ ڈراتے ہیں اتنا ہی ان کے ایمان وتوکل میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اور جتنی زیادہ ان پر آزمائشیں اور مشکلیں آتی ہیں ان کے حوصلے اور ثابت قدمی اور زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں انبیاءعلیہم السلام اور ان کے صحابہ کی اس صفت کو سراہا ہے، ارشادِ باری ہے:

وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ قٰتَلَ ۙ مَعَهٗ رِبِّيُّوْنَ كَثِيْرٌ ۚ فَمَا وَهَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُوْا ۭ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الصّٰبِرِيْنَ؁ (سورۃ آل عمران: 146)

’’اور کتنے ہی نبی ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے اللہ والوں نے جنگ کی، نتیجتاً انہیں اللہ کی راہ میں جو تکلیفیں پہنچیں ان کی وجہ سے نہ انہوں نے ہمت ہاری، نہ وہ کمزور پڑے اور نہ انہوں نے اپنے آپ کو جھکایا، اللہ ایسے صابر (و ثابت قدم )لوگوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘

ان مجاہدین فی سبیل اللہ سے جن مذموم اوصاف کی نفی کی گئی ہے ان کو ذکرکرنے کی ترتیب بھی بڑی دقیق ہے، وہن یعنی ارادے کی کمزوری پہلا مرحلہ ہے، جس کی وجہ سے انسان جہاد میں ضعف یعنی عمل کی کمزوری دکھاتا ہے اور یہ ضعف بھی ایک طرح سے ناکامی اور شکست ہے، تیسرا مرحلہ استکانت یعنی بے بسی کے ساتھ دشمن کے مطالبات مان لینا جو کہ کسی کو آقا مان کر اس کی غلامی اپنانے کا انتہائی پست درجہ ہے، اور ایسی صورت میں زمین کی پشت سے اس کا پیٹ بہتر ہے، ایسی ذلت کی زندگی سے موت کا تلخ گھونٹ بدرجہا اچھا ہے۔

آزمائشوں سے اہلِ حق کا اللہ کے وعدوں پر ایمان بڑھتا ہے،ان کے نزدیک آزمائشیں اس بات کی علامت ہیں نصرت قریب آن لگی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ ۙ قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ۡ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا؀ (سورۃ الأحزاب: ۲۲)

’’اور جب اہلِ ایمان نے لشکروں کو دیکھا تو کہا:یہ وہی (آزمائش )ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا،اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا،اس بظاہر ہیبت ناک نظارے ) سے ان کی ایمان و اطاعت ہی میں اضافہ ہوا۔‘‘

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ابن عباس رضی اللہ عنہما اور قتادہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہاں اہلِ ایمان نے اللہ کے جس وعدے کا ذکرکیا ہے اس سے مراد سورہ بقرہ کی یہ آیت ہے:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ؁ (سورۃ البقرۃ: ۲۱۴)

کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہوجاؤگے، حالانکہ ابھی تمہیں اس جیسے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلے لوگوں کو پیش آئے تھے، ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں اور انہیں ہِلا ڈالا گیا، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان والے بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ یادرکھو! اللہ کی مدد نزدیک ہے۔‘

یعنی اللہ نے جس امتحان کا بتایا تھا جس کے بعد نصرت قریب آجاتی ہے وہ یہی آزمائش ہے۔‘‘

اہلِ ایمان کے پاس صبر کرنے اور غالب آنے کے سارے اسباب موجود ہیں، اور اہلِ کفر کے پاس سوائے شکست وہزیمت کے اسباب کے کچھ نہیں۔

مسلمان حق پر ہیں، اللہ کی خاطر لڑتے ہیں، ان کے مقتول جنتی ہیں، انہیں اللہ سے جن انعامات کی امید ہے کافروں کو ان کی کوئی امید نہیں [امید ہوبھی کیسے! جب اس کا یقین ہی نہیں]، اللہ ان کے ساتھ ہے، ان کا حامی وناصر ہے، اور جس کے ساتھ اللہ ہو اسے کس کا خوف؟ تو یہ ممکن ہی نہیں وہ کمزور پڑیں۔

وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ؁ اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ ۭ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ؁ (سورۃ آل عمران: 139، 140)

اور تم کمزور نہ پڑو اور نہ غمگین ہو تمہی غالب ہو اگر تم (حقیقی) مومن ہو، اگر تمہیں زخم لگا ہے (غزوہ اُحد کی شہادتوں کا) تو دوسرے لوگوں (کافروں ) کو بھی ویسا زخم لگ چکا ہے (غزوہ بدر میں سرداروں کے قتل کا) اور ان (دنوں کو ہم لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں، اور (یہ زخم) اس لیے (بھی لگا) کہ اللہ تم میں سے ایمان والوں کو جانے (یعنی جانچے) اور تم میں سے کچھ کو شہید بنائے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

کفار باطل پر کھڑے ہیں،ان کے مقتول جہنمی ہیں، اللہ سے ان کی دشمنی ہے اور جس کی دشمنی اللہ سے ہو وہ کس سے یاوری کی امید رکھے؟َ وہ طاغوت کی خاطر لڑتے ہیں، جوکہ شیطان ہے، تو جس کا مددگار شیطان ہو وہ کس قدر خسارے کا شکار اور کمزور ہے!

ارشادِ باری ہے:

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِيَاۗءَ الشَّيْطٰنِ ۚ اِنَّ كَيْدَ الشَّيْطٰنِ كَانَ ضَعِيْفًا؀ (سورۃ النسآء: ۷۶)

’’جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، تو تم لڑو ان شیطان کے دوستوں سے، بے شک شیطان کی چال (اور اس کا لاؤ لشکر تمام ظاہری چکاچوند اور ٹھاٹھ بھاٹھ کے باوجود) کمزور ہے۔‘‘

اہلِ حق میخ کی مانند ہیں جو ضرب لگنے سے مزید پختگی سے اندر دھنستی اور مضبوط ہوجاتی ہے، یہ سختیوں سے مضبوط ہوتے ہیں، مصائب اور بلائیں ان کے لیے دوائیں [بلکہ شفائیں] ہیں، امتحانات ان کے لیے انعامات ہیں۔

اللھم اجعلنا منھم ومثلھم آمین

٭٭٭٭٭

Previous Post

اصلاحِ معاشرہ | نویں قسط

Next Post

موت وما بعد الموت | چھبیسواں درس

Related Posts

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | آٹھویں قسط

26 ستمبر 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | سولھواں درس

26 ستمبر 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | دسویں قسط

26 ستمبر 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | ساتویں قسط

26 ستمبر 2025
اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چھٹی قسط

26 ستمبر 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چھتیس (۳۶)

26 ستمبر 2025
Next Post
موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس

موت وما بعد الموت | چھبیسواں درس

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version