بیان: 002_11_AQS
تاریخ:یکم شعبان المعظم ۱۴۴۶ھ بمطابق۳۱ جنوری ۲۰۲۵ء
مجاہد قائد’محمد الضیف‘ کی شہادت
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین، أما بعد
شہادتیں راہِ جہاد کا خاصہ اور کاروانِ جہاد کا ایندھن ہیں۔ معرکۂ بدر سے آج تک، ہر شہادت نے دعوتِ اسلام اور کاروانِ جہاد کو ترقی بخشی ہے۔ اگر سات آسمانوں کے اوپر سے اتارا گیا دین شخصیات کے آنے جانے سے وابستہ ہوتا تو یہ دین ایک بار نہیں، پچھلی پندرہ صدیوں میں ہزاروں بار مٹ چکا ہوتا۔ یہ اللہ کا دین ہے ، وہ دین جو محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت جیسے عظیم ترین سانحے سے بھی نہیں مٹا، تو امت کے باقی صدیقین، شہداء اور صالحین کے آنے جانے سے کیسے اس کی برحق دعوت مٹانا تو دور کی بات، روکی بھی جا سکتی ہے؟
تاریخِ حق و باطل اس امر پر گواہ ہے کہ پرچمِ اسلام کبھی سرنگوں نہیں ہوتا، اس كے غلبے كا وعده تو الله ﷻ نے اپنے کلامِ پاک میں فرمایا ہے:
هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۭ وَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا (سورۃ الفتح: ۲۸)
’’ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے، تاکہ اسے ہر دوسرے دین پر غالب کردے۔ اور (اس کی) گواہی دینے کے لیے اللہ کافی ہے۔ ‘‘
تمام تعریفیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ہیں جس نے اس امت کو سلف جیسے خلف بخشے، جنہوں نے دعوتِ اسلام اور کاروانِ جہاد کو اپنے خون سے سینچا۔ ان مجاہد ابطال میں چند ایسے ہیں جنہیں امت جانتی ہے اور اکثریت ایسوں کی ہے جنہیں ہم نہیں جانتے، لیکن ان کا اللہ ان کو جانتا ہے، وہ بڑا قدر دان اور بہترین اجر دینے والا ہے۔ حق و باطل کی ازلی جنگ آج بھی غزہ تا وزیرستان جاری ہے اور خونِ شہیداں ہی اس کی آبیاری کر رہا ہے۔ جنگ میں کبھی ہار ہوتی ہے تو کبھی جیت، کبھی ہمارے ساتھی شہید ہوتے ہیں تو کبھی دشمن کے لوگ مارے جاتے ہیں، اللہ پاک فرماتے ہیں:
وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ اِنْ يَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَوَلِيُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَمْحَقَ الْكٰفِرِيْنَ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ (سورة آلِ عمران: ۱۴۲–۱۳۹)
’’ (مسلمانو) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غم گین رہو، اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔ اگر تمہیں ایک زخم لگا ہے تو ان لوگوں کو بھی اسی جیسا زخم پہلے لگ چکا ہے۔یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں، اور مقصد یہ تھا کہ اللہ ایمان والوں کو جانچ لے، اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہید قرار دے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ اور مقصد یہ ( بھی) تھا کہ اللہ ایمان والوں کو میل کچیل سے نکھار کر رکھ دے اور کافروں کو ملیامیٹ کر ڈالے۔ بھلا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ( یونہی) جنت کے اندر جاپہنچو گے؟ حالانکہ ابھی تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جانچ کر نہیں دیکھا جو جہاد کریں، اور نہ ان کو جانچ کر دیکھا ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہیں۔‘‘
انہی حالاتِ جنگ میں ہمیں امیر کتائب القسام، عظیم مجاہد قائد، بطلِ اسلام، ابو خالد محمد الضیف کی ان کے ساتھیوں مروان عیسیٰ، رافع سلامۃ، غازی ابو طماعۃ، احمد الغندور، رائد ثابت، ایمن نوفل وغیرہم کی شہادت کی اطلاع ملی ہے، فإنا للہ وإنّا إلیہ راجعون!
ان حضرات، خصوصاً محمد الضیف رحمۃ اللہ علیہ نے جس طرح ایمانی شجاعت اور اسلامی غیرت کے ساتھ فلسطینی مجاہدین کی قیادت کی اور تاریخِ اسلام کے اعلیٰ ترین معرکوں میں سے ایک ’طوفان الاقصیٰ‘ کو برپا کیا ، تو انہی نامور و دیگر گمنام مجاہدوں کے بارے میں اللہ ﷻ کا فرمان ہے:
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا(سورۃ الاحزاب: ۲۳)
’’انہی ایمان والوں میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔ پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جو اپنی نذر کو پورا کر چکے، اور کچھ وہ ہیں جو ابھی انتظار میں ہیں۔ اور انہوں نے (اپنے ارادوں میں) ذرا سی بھی تبدیلی نہیں کی۔‘‘
ہم مجاہد قائد محمد الضیف کی شہادت پر پوری امتِ مسلمہ، مسلمانانِ فلسطین، پوری دنیا میں موجود مجاہدینِ اسلام اور مجاہدینِ قسام اور محمد الضیف و دیگر شہداء کے اہلِ خانہ سے تعزیت کرتے ہیں، اللهم أجرنا في مصيبتنا واخلف لنا خيرا منها!
اسرائیل اور اس کے سب سے بڑے پشت پناہ امریکہ کو خبر ہو کہ معرکۂ طوفان الاقصیٰ جاری ہے اور یہ تب تک نہیں تھمے گا، یہاں تک کہ ہم اہلِ ایمان مسجدِ اقصیٰ میں فاتح بن کر داخل نہ ہو جائیں!پس ہم اہلِ ایمان پر جہاد فرضِ عین ہے، اپنی جانیں، اپنے اموال، اپنی صلاحیتیں، اپنی فکر اور اپنی دعائیں اس جاری معرکے میں کھپانا ہم پر لازم ہے!
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ تعالیٰ علی نبینا الأمین!