نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

گیارہ ستمبر کے حملے…… حقائق و واقعات | چھٹی قسط

( استفادہ: عارف ابو زید)

ابو محمد المصری by ابو محمد المصری
14 مارچ 2025
in فکر و منہج, جنوری و فروری 2025
0

یہ تحریر شیخ ابو محمد مصری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’عمليات 11 سبتمبر: بين الحقيقة والتشكيك‘‘ سے استفادہ ہے، جو ادارہ السحاب کی طرف سے شائع ہوئی۔ باتیں مصنفِ کتاب کی ہیں، زبان کاتبِ تحریر کی ہے۔ کتاب اس لحاظ سے اہمیت سے خالی نہیں کہ اس میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے حوالے سے فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ہے، کیونکہ اس کے مصنف خود ان واقعات کے منصوبہ سازوں میں سے ہیں۔ شیخ ابو محمد مصری ﷫شیخ اسامہ بن لادن ﷫کے دیرینہ رفقاء اور تنظیم القاعدہ کے مؤسسین میں سے ہیں اور بعداً تنظیم القاعدہ کے عمومی نائب امیر رہے یہاں تک کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے آپ کو محرم ۱۴۴۲ ھ میں نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔ مجلّے میں کتاب کا انتہائی اختصار سے خلاصہ نقل کیا جا رہا ہے ۔(ادارہ)

وہ غلطی جو چاہیے کہ کسی حساس کام میں نہ دہرائی جائے

  • قاعدہ: کوئی بھی انسانی کام غلطی سے مکمل پاک نہیں ہو سکتا۔

  • قاعدہ: احتیاطی تدابیر میں کوئی نہ کوئی خامی رہ جاتی ہے۔

تینوں بھائی [محمد عطا، زیاد الجراح اور مروان الشحی] مخصوص اسباب کی وجہ سے امریکہ سے باہر نکل آئے۔ زیاد اپنے ملک لبنان واپس آگئے۔ محمد عطا جرمنی گئے جہاں وہ اپنے پرانے دوست رمزی بن الشیبہ سے ملے اور انہیں معاملات کے حوالے سے بریفنگ دی، اور یہ بتایا کہ سب نے اپنی ٹریننگ پوری کرلی ہے اور اب بس افغانستان میں موجود قیادت کی طرف سے احکام کے منتظر ہیں۔ اسی طرح مروان الشحی بھی امریکہ سے اس وقت نکل گئے۔ امریکہ میں صرف حازمی اور ھانی حنجور باقی رہ گئے۔ اب جب تینوں بھائیوں نے دوبارہ امریکہ جانا چاہا تو وہ مشکلات سے دوچار ہوگئے۔ اس مقام پر ٹھہر کر میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

پہلی بات یہ ہے کہ تینوں بھائیوں کا امریکہ سے نکل جانے کا فیصلہ ان کا شخصی فیصلہ تھا۔ یہ کام ان بھائیوں نے قیادت عامہ یا میدانی قیادت کے کہنے پر نہیں کیا تھا۔ اور میری نظر میں یہ کام اصلِ کارروائی کے لیے بہت خطرے کا باعث بن سکتا تھا، کیونکہ امریکہ میں داخل ہونا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ بہت امکان تھا کہ امریکہ کی طرف سے ان تینوں یا کسی ایک کو دوبارہ امریکہ کی زمین پر اترنے کی اجازت نہ ملتی1، اور یوں اس کارروائی میں وہ مزید کوئی کردار ادا نہ کرپاتا۔ اس لیے میں کسی بھی خاص کارروائی میں شریک بھائیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ کبھی بھی کارروائی کے میدان سے مت نکلیں، الا یہ کہ قیادت کی طرف سے انہیں کہا جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ میدانی عمل سے متعلق میرا ناقص تجربہ یہ ہے کہ قائد کا کارروائی کے میدان میں موجود ہونا اور کارروائی میں شریک بھائیوں کے قریب ہونا کارروائی کی درست انجام دہی کے لیے افضل ہے، کیونکہ ایسے میں غلطی کا احتمال کم ہوتا ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ میدانِ عمل کو چھوڑ دینا عمل میں شریک بھائیوں اور قیادت کے درمیان رابطوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے، اور زیادہ رابطے کرنے کے سبب خدشہ ہوتا ہے کہ یہ افراد دشمن کی نظر میں آجائیں۔

لہٰذا کسی بھی بھائی کو میدانِ عمل کو نہیں چھوڑنا چاہیے، الا یہ کہ وہ اپنے ذمہ کا کام پورا کرلے یا قیادت کی طرف سے اسے ایسا کرنے کا کہا جائے۔

اپریل ۲۰۰۱ء کے نصف میں محمد عطا نے رابطہ کار بھائیوں کے ذریعے افغانستان میں موجود قیادت عامہ کو یہ پیغام پہنچایا کہ چاروں ہوا باز بھائی تیار ہیں، اور دیگر بھائیوں کے انتظار میں ہیں، اور یہ کہ دیگر بھائیوں کو وصول کرنے کی ان لوگوں کی تیاری پوری ہے۔

خالد شیخ محمد نے، جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، ان بھائیوں کے سفر سے پہلے ان کے ساتھ مل کر ان تک پیسوں کی ترسیل کی ترتیب بنا لی تھی، اور اس کے لیے ہنڈی کے ذریعے پیسوں کو بھجوایا جاتا تھا۔ تنظیم نے اس معاملے میں کسی بھی قسم کی بینک ٹرانزیکشن نہیں کی، کیونکہ اس کی نگرانی ہوتی ہے۔ افغانستان میں موجودگی کے اس زمانے میں تنظیم کی مالی حالت بھی بہت اچھی نہیں تھی اور وہ مالی بحران کا شکار رہی۔ یہاں تک کہ بعض اوقات اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے گاڑیوں کو بیچا گیا، اور حتیٰ کہ بعض اوقات عام بیت المال سے قرض لیا گیا۔ ایک مرتبہ تو مشورہ کرکے طے کیا گیا کہ تمام اخراجات کو نصف پر لایا جائے اور اس پر تمام افراد نے اتفاق کرلیا۔ یوں اس زمانے میں عام بیت المال سے ۲ لاکھ ڈالر کا قرض لیا گیا۔ البتہ پھر چند ہی مہینے گزرے تھے کہ تنظیم کی مالی حالت بہتر ہوگئی۔ یہ باتیں میں نے اس لیے ذکر کردیں تاکہ ہمارے قارئین کو معلوم ہوجائے کہ تنظیم نے کبھی بھی یا کسی بھی مرحلے پر کسی حکومت یا کسی ملک کے سیاسی لوگوں میں سے کسی فرد سے پیسہ وصول نہیں کیا۔ بلکہ تنظیم کا مالی نظام پورا کا پورا مسلمانوں کی طرف سے ملنے والے عطیات اور زکوٰۃ پر تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ تنظیم نے ہر فیصلہ آزادانہ کیا ہے، کسی کے دباؤ میں نہیں کیا۔ ہم سنتے ہیں کہ اسلامی تحریکات کے بعض ماہرین ٹی وی چینلوں پر آکر یہ باتیں کرتے ہیں کہ تنظیم القاعدہ سعودیہ کے شاہی خاندان کے بعض لوگوں سے پیسے جمع کرتی ہے، یا مغربی افریقہ میں ہیرے جواہرات کی تجارت کرتی ہے2۔ میں نے خود ایک جریدے میں پڑھا کہ خاص میرے بارے میں کہا ہوا تھا کہ میں مغربی افریقہ میں ہیرے جواہرات اور قیمتی پتھروں کی تجارت کی نگرانی کرتا ہوں، تاکہ اس کے منافع سے تنظیم کو مالیات فراہم کی جائیں۔ یہ تمام جھوٹے دعوے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ خود امریکہ کے رسمی اداروں نے بھی ان دعووں کی نفی کی ہے، جیسا کہ امریکی کانگریس کی رپورٹ میں نقل کیا گیا ہے۔ خود دشمن کی اتنی تحقیقات کے بعد آنے والی گواہی کے باوجود بھی باتیں بنانے والے ابھی تک باتیں بنانے میں مصروف ہیں۔

خالد شیخ محمد

اگرچہ خالد شیخ محمد اصلاً بلوچ تھے، مگر وہ کویت میں پلے بڑھے تھے اور عربی زبان پر اچھا عبور رکھتے تھے، اور خلیجی لہجہ بولتے تھے۔ خلیج اور سعودی عرب کے نوجوانوں کے ساتھ آپ کے وسیع تعلقات تھے۔ آپ بارہویں جماعت تک پڑھنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے امریکہ چلے گئے جہاں آپ نے امریکی ریاست شمالی کیرولینا (North Carolina) کی چوان یونیورسٹی (Chowan University) میں داخلہ لے لیا۔ اس کے بعد آپ اسی ریاست میں گرینز بورو (Greensboro) شہر میں واقع نارتھ کیرولینا زرعی وتکنیکی یونیورسٹی (North Carolina A&T State University) میں منتقل ہوگئے جہاں سے آپ نے دسمبر ۱۹۸۶ء میں مکینیکل انجینیرنگ کی ڈگری حاصل کی۔

یونیورسٹی سے فراغت کے چند ماہ بعد ہی آپ روس کے خلاف جہاد میں شرکت کے لیے پاکستان آگئےاور استاذ سیاف کے مجموعے میں شامل ہوگئے۔ان دونوں کے درمیان بہت قوی تعلق قائم ہوگیا جب انہوں نے بہت سے اُن امور میں اپنی مہارت ظاہر کی جن کی استاذ سیاف کو ضرورت تھی۔ جب استاذ سیاف نے بھائی ابو سیاف شیشانی کی نگرانی میں الیکٹرانکس کا شعبہ قائم کیا تو خالد شیخ محمد بھی اس کے ایک رکن تھے اور آپ نے اس شعبے کی ترقی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اسی طرح خالد شیخ محمد نے شیخ عبد اللہ عزام ﷫کے ساتھ بھی بہت وقت کام کیا۔ خالد شیخ محمد نے صرف تکنیکی کاموں میں ہی مدد نہیں کی، بلکہ دعوتی امور میں بھی بہت مدد کی، کیونکہ وہ بہت سی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ آپ اپنی جوانی کے دور میں ہی عربی، انگریزی، اردو، پشتو، بلوچی اور فارسی پر پورا عبور رکھتے تھے اور آپ نے اپنی دعوت کا محور افغان مجاہدین کو بنایا۔ آپ نے یہ دعوتی محنت انہیں ٹھیک طریقے سے تلاوتِ قرآن سکھانے اور تجوید کے احکام سکھانے سے شروع کی۔ آپ کا حلقہ بڑھتا گیا کیونکہ بہت سے نوجوان آپ کے حلقے میں شریک ہونے لگے۔ جس نے بھی آپ سے تعامل کیا، آپ کی شخصیت اس کے لیے بہت جاذب اور محبوب ہوتی۔ خاص طور پر اس کا سبب آپ کا تواضع اور انسانوں سے تعامل کا خاص اسلوب تھا جو آپ نے الاخوان المسلمون میں رہتے ہوئے سیکھا تھا جس میں آپ اپنی جوانی کے آغاز میں شامل ہوئے تھے۔ ان حلقوں میں آپ نے بہت سے افراد کو جہاد میں شرکت کی تحریض دی جو بعد میں افغان طالبان میں بڑے کماندان اور مسؤولین بن گئے اور وہ آج بھی خالد شیخ محمد کے احسانات کو یاد کرتے ہیں۔

پشاور سے نکلنے کے بعد آپ نے قطر کا قصد کیا، جہاں آپ کو بجلی اور پانی کی وزارت میں بطور انجنیئر نوکری مل گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے جہادی عمل ترک نہیں کیا۔ آپ اس زمانے میں افغان مجاہدین کے لیے پیسے جمع کرتے تھے۔ اس زمانے میں استاذ سیاف کے ساتھ آپ نے خاص طور پر بہت مالی تعاون کیا۔ آپ دیگر خلیجی ممالک جا کر بھی چندہ جمع کرتے تھے اور افغان مجاہدین کو بھیجتے تھے۔

روس کی شکست کے بعد جب افغان مجاہدین کے مختلف گروہ آپس میں جنگ کرنے لگے تو تنظیم القاعدہ نے اس جنگ سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا اور تنظیم سوڈان کی طرف منتقل ہوگئی۔ تاہم اس زمانے میں خالد شیخ محمد نے دوسرا مشن اپنایا اور وہ تھا پوری دنیا میں پھیلے امریکہ مفادات کو نشانہ بنانا، کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کے مقدسات پر قابض صہیونی ریاست کے ساتھ امریکہ کا غیر محدود تعاون دیکھ چکے تھے۔

۱۹۹۲ء میں رمزی یوسف جو خالد شیخ محمد کے بھانجے تھے، انہوں نے نیو یارک کے تجارتی جڑواں ٹاوروں میں سے ایک کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کام میں ان کا رابطہ خالد شیخ محمد کے ساتھ تھا اور خالد شیخ محمد انہیں مالیات فراہم کر رہے تھے۔ میری معلومات کی حد تک آپ نے اموال کی فراہمی کے علاوہ اس کام میں کوئی مزید شرکت نہیں کی۔ آخر ۲۶ فروری ۱۹۹۳ء کو رمزی یوسف نے ایک ٹاور کی پارکنگ میں بارود سے بھری گاڑی پہنچادی اور اس پر ٹائمر لگا کر ایئر پورٹ پہنچ گئے تاکہ امریکہ سے نکل جائیں۔ جب گاڑی پٹھی تو ٹاور کا بہت نقصان ہوا اور ایک ہزار کے قریب افراد مرے یا زخمی ہوئے۔ رمزی یوسف نے اپنے قریبی ساتھیوں کو بتایا کہ یہ کارروائی جیسا کہ ان کا پلان تھا، اس طرح نہ ہوسکی، کیونکہ ان کا پلان تھا کہ پورا ٹاور زمین بوس ہوجائے۔

امریکی تحقیقات کے دوران رمزی یوسف کا نام سامنے آگیا، اور امریکہ پاکستان کی مدد سے اس کوشش میں لگ گیا کہ کسی طرح رمزی یوسف کو پکڑا جائے3۔

اس زمانے میں خالد شیخ محمد نے بھی قطر چھوڑ دیا کیونکہ خطرہ تھا کہ انہیں بھی تعاون کے نام پر پکڑ لیا جائے گا۔ وہ پاکستان آگئے اور یہاں آکر رمزی یوسف سے ملے اور کارروائی کی پوری تفصیلات حاصل کیں۔ پھر دونوں میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ امریکی مفادات کو ضرب لگانے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔

اس دفعہ یہ طے کیا گیا کہ امریکی مسافر طیاروں میں بارود نصب کرکے انہیں اڑانا چاہیے۔ اور اس کام کے لیے ان کے نزدیک سب سے آسان جگہیں ایشیا کے سیاحتی ممالک تھے، مثلا ً فلپائن یا تھائی لینڈ وغیرہ۔ ان دونوں کے درمیان فلپائن پر اتفاق ہوا تو دونوں پاکستان سے نکل کر مانیلا پہنچ گئے۔ ۱۹۹۴ء میں ان بھائیوں کو وہاں کچھ بارود بھی دستیاب ہوگیا جس سے مائن بن سکے اور انہوں نے تجرباتی طور پر ایک ہوائی جہاد میں لگایا بھی جو ہانگ کانگ جا رہا تھا، مگر تجربہ کامیاب نہ ہوسکا۔فلپائن میں رہتے ہوئے ان بھائیوں نے اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کو مارنے کی بھی پلاننگ کی جو فلپائن کے دورے پر تھا۔ لیکن حکومت کی طرف سے سخت سکیورٹی کے اقدامات کے سبب یہ لوگ وہاں کام جاری نہ رکھ سکے۔

۷ فروری ۱۹۹۵ء کو پاکستانی اداروں نے رمزی یوسف کو پکڑ لیا اور اسے امریکیوں کے حوالے کر دیا۔ اس وقت خالد شیخ محمد پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور افغانستان چلے گئے۔ افغانستان میں استاذ سیاف نے انہیں جگہ بھی دی اور ان کی حفاظت کا بھی سامان کیا۔ لیکن خالد شیخ محمد کے منصوبے رکنے والے نہیں تھے، چنانچہ آپ افغانستان سےسوڈان چلے آئے تاکہ شیخ اسامہ بن لادن ﷫ سے ملیں اور ان کے سامنے اپنا نیا منصوبہ پیش کریں۔ وہاں آپ نے شیخ اسامہ بن لادن ﷫سے ملاقات کی اور ان کے سامنے یہ منصوبہ پیش کیا کہ دس امریکی مسافر بردار جہازوں کو ہائی جیک کیا جائے، اور اپنے مطالبات سامنے رکھے جائیں۔ مطالبات نہ مانے جائیں تو ان جہازوں کو ہوا میں اڑا دیا جائے۔ مطالبات میں سے اہم مطالبہ شیخ عمر عبد الرحمن ﷫کی رہائی تھی۔ تاہم ضروری تھا کہ ان کے منصوبے کو تنظیم کی فکر کے مطابق ڈھالا جائے۔ سوڈان سے خالد شیخ محمد کو یمن کی طرف بھیجا گیا تاکہ وہ وہاں اعلیٰ سطح کے امنیاتی تدابیر کے دورہ سے گزریں، جس میں ان کے ساتھ بھائی ابو ہانی مصری ﷫اور دیگر بھائی شریک تھے۔ وہاں سے وہ دوبارہ افغانستان آگئے اور جہادی کاموں کے سلسلے میں افغانستان وپاکستان میں آتےجاتے رہے۔

۱۹۹۶ء میں جب تنظیم کا مرکزی حصہ دوبارہ افغانستان کی طرف منتقل ہوگیا تو خالد شیخ محمد ﷫کی تنظیم سے قربت بڑھتی گئی۔ آپ کا تنظیم کےقائدین کے ساتھ قوی تعلق قائم ہوگیا۔ آپ نے تنظیم کے اعلامی کام کو منظم کرنے میں بھی خوب مدد کی جبکہ اس زمانے میں آپ خود اس کا براہ راست حصہ نہ تھے۔ اسی طرح قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ خالد شیخ محمد نے اس زمانے میں اپنے دیرینہ دوست کماندان خطاب ﷫کو نہیں بھولا، اور آپ یہاں موجود ان کے نائبین بھائی ضحاک یمنی اور بھائی جنرل قدوری کے ساتھ مدد وتعان کرتے رہے۔

۱۹۹۸ء میں نیرونی اور دارالسلام میں امریکی سفارتخانوں پر حملے کے بعد خالد شیخ محمد کو اعتماد ہوگیا کہ شیخ اسامہ بن لادن ﷫امریکی مفادات کو ہدف بنانے میں سنجیدہ ہیں، جس سے انہیں پھر سے تحریض ملی کہ وہ اپنے منصوبہ پر شیخ اسامہ ﷫کو راضی کریں۔ یوں تنظیم کے ساتھ کئی ملاقاتوں اور بہت سی مجالس کے بعد یہ نئی فکر وجود میں آئی کہ ان جہازوں کو خود ایک اسلحے میں تبدیل کردیا جائے جن کے ذریعے، اللہ کی توفیق سے، امریکی اہداف پر حملہ کیا جائے۔4

یوں ۱۹۹۹ء کے نصف میں شیخ خالد محمد تنظیم کے مرکزی لوگوں میں شامل ہوچکے تھے۔ اس وقت آپ کو تنظیم کی طرف سے بھائی ابو حسین مصری کی جگہ اعلامی شعبہ کا مسؤول متعین کیا گیا۔ چند ہی مہینوں میں آپ کی مدد سے اعلامی شعبہ فعال ہوگیا۔ آپ کے حسنِ سلوک کی وجہ سے اعلام سے متعلق سبھی بھائی آپ سے بہت محبت کرتے تھے۔ آپ نے اپنے تعلقات سے فائدہ اٹھا کر بہت سا ضرورت کا اعلامی سامان یورپ سے منگوا کر شعبے کو دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ امریکہ میں کارروائی کے لیے منتخب افراد کی نگرانی بھی کر رہے تھے۔ نیز پاکستان میں نئے آنے والے افراد کے لیے ترتیبات کی بھی نگرانی کرتے تھے۔ اسی طرح بعض اوقات اموال کی وصولی کے کام میں بھی مدد کیا کرتے تھے۔ میں تو انہیں ۱۱ ستمبر کے حملوں کی پٹاخی (detonator) کانام دیتا ہوں۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے بعد آپ ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے اس کارروائی کو مکمل کرنے میں سب سے زیادہ اور بنیادی کردار ادا کیا۔ اس کارروائی کے ہر ہر مرحلے میں آپ ہی کا کردار نمایاں تھا۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)


1 امریکہ کے ویزے کے طالب کے سامنے امریکہ کڑی شرائط عائد کرتا ہے۔ اس لیے ضروری نہیں کہ کوئی شخص ایک مرتبہ امریکی ویزہ پر امریکہ میں داخل ہوجائے تو وہ دوبارہ بھی داخل ہونے پر قادر ہوگا، کیونکہ ریاست سے متعلق مخصوص احوال کی وجہ سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ ایسا بہت سے لوگوں کے ساتھ ہوا ہے، اور امریکہ کے انکار کا سبب بھی معلوم نہیں ہوسکا ہے۔ میری رائے ہے کہ امریکہ میں محض داخل ہونا مجاہدین کے لیے ایک خصوصی کارروائی کے مرادف ہے، لہٰذا جو ایک مرتبہ اس مرحلے سے گزر جائے تو اسے چاہیے کہ وہیں رہے، یہاں تک کہ کارروائی انجام دے لے۔

2 ہیروں یا قیمتی پتھروں یا سونے یا دیگر چیزوں کی تجارت بیشک مشروع اعمال ہیں، البتہ تنظیم کے افراد کو کبھی فارغ وقت نہیں ملا کہ وہ اپنی جہادی مصروفیات کے ساتھ اس قسم کی تجارت کرسکیں۔ ایسی تجارت بغیر ماہر افراد کے نہیں ہوتی جو صرف اسی کام کے لیے کل وقتی فارغ ہوں۔

3 امریکی حکومت نے رمزی یوسف کے بارے میں معلومات دینے والے کے لیے انعام کا اعلان کیا۔ رمزی یوسف کا ایک دوست تھا جو جنوبی افریقہ میں رہتا تھا، اور ان دونوں کا تعلق تھائی لینڈ میں رہتے ہوئے بہت بڑھ گیا تھا۔ یہ تعلق امریکی تجارتی ٹاور کی کارروائی کے بعد بھی رہا۔ اس دوست نے امریکی اداروں سے بات کی کہ اس کے پاس معلومات ہیں، لیکن وہ اس شرط پر معلومات دے گا کہ پہلے اسے اس خیانت کا انعام دیا جائے۔ امریکیوں نے پہلے یہ تسلی چاہی کہ واقعی جس فرد کے بارے میں یہ بتاتا ہے، وہی رمزی یوسف ہیں یا نہیں، اس کام کے لیے امریکیوں نے اس شخص کو ایک کتاب دی کہ وہ اس کتاب کو رمزی یوسف تک پہنچائے، اور اس کتاب پر رمزی یوسف کے ہاتھوں کے نشان (fingerprints) جمع کرکے کتاب واپس امریکیوں تک لائے۔ چنانچہ جب کتاب واپس امریکیوں نے حاصل کرلی تو انہوں نے ٹریس کرلیا کہ واقعی یہی فرد رمزی یوسف ہے۔ پھر پاکستانی اداروں کے تعاون سے ۱۹۹۵ء میں رمزی یوسف کو پکڑ لیا گیا اور امریکہ کے حوالے کردیا گیا۔ یہ روایت خود خالد شیخ محمد ،اللہ تعالیٰ انہیں رہائی دیں،نے بیان کی۔

4 میری جس قدر مجالس اس زمانے میں خالد شیخ محمد کے ساتھ ہوئیں تو وہ ہمیشہ یہ دہراتے تھے کہ میری خواہش ہے کہ میں اپنی آنکھوں سے نیو یارک کے تجارتی مراکز کو زمیں بوس ہوتے دیکھوں۔

Previous Post

قدس کی آزادی کا راستہ

Next Post

مجاہد قائد’محمد الضیف‘﷬ کی شہادت

Related Posts

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

13 اگست 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چھٹی قسط

13 اگست 2025
کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط
فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط

13 اگست 2025
کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟
فکر و منہج

کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟

13 اگست 2025
ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!
فکر و منہج

ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!

17 جولائی 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | پانچویں قسط

13 جولائی 2025
Next Post

مجاہد قائد’محمد الضیف‘﷬ کی شہادت

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version