مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ بطلِ اسلام، مجاہد قائد، شہیدِ امت، صاحبِ سیف و قلم شیخ یحییٰ ابراہیم السنوار رحمۃ اللہ علیہ کےایمان اور جذبۂ جہاد و استشہاد کو جلا بخشتے ، آنکھیں اشک بار کر دینے والے خوب صورت ناول اور خودنوشت و سرگزشت ’الشوک والقرنفل‘ کا اردو ترجمہ ، قسط وار شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ یہ ناول شیخ نے دورانِ اسیری اسرائیل کی بئر سبع جیل میں تالیف کیا۔ بقول شیخ شہید اس ناول میں تخیل صرف اتنا ہے کہ اسے ناول کی شکل دی گئی ہے جو مخصوص کرداروں کے گرد گھومتا ہے تاکہ ناول کے تقاضے اور شرائط پوری ہو سکیں، اس کے علاوہ ہر چیز حقیقی ہے۔ ’کانٹے اور پھول‘ کے نام سے یہ ترجمہ انٹرنیٹ پر شائع ہو چکا ہے، معمولی تبدیلیوں کے ساتھ نذرِ قارئین ہے۔ (ادارہ)
دوسری فصل
دن گزرتے چلے گئے اور میرے والد اور چچا واپس نہ آئے اور ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی ، میرے دادا ، والدہ اور چچی نے ہر اس شخص یا عورت سے پوچھا جس سے وہ پوچھ سکتے تھے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا ، ہمارا غم ہمارے بہت سے دیگر پڑوسیوں کی طرح تھا ، کیونکہ فلسطینی آزادی فوج کے سپاہیوں یا عوامی مزاحمتی تحریک کے لوگوں میں سے بہت سے لاپتہ تھے ، ہمارے محلے کا حال بھی ویسا ہی تھا جیسا کہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے دوسرے علاقوں کا، یعنی مایوسی، اضطراب اور افراتفری کی حالت میں تھے ، اور لوگ نہیں جانتے تھے کہ آگے کیا ہوگا۔
ہر صبح میرے دادا اپنی چھڑی اٹھاتے اور اپنے بیٹوں کی تلاش میں نکلتے، لوگوں سے پوچھتے تھے چاہے وہ ان کے بارے میں جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، حتیٰ کہ وہ تھکن اور مشقت سے نڈھال ہو جاتے۔ میری والدہ اور چچی، جو جنگ کے خاتمے کے بعد سے ہمارے گھر سے نہیں نکلی تھیں، دروازے کے پاس بیٹھ جاتی تھیں اور دادا کے واپس آنے کی خبر کا انتظار کرتی رہتیں۔ وہ دونوں اپنے شوہروں کے نامعلوم انجام کی فکر اور پریشانی میں جل رہی تھیں۔ میرے بھائی، بہنیں اور چچا کے بچے اچھی طرح جانتے تھے کہ کیا ہو رہا ہے، لیکن میں اتنا چھوٹا تھا کہ پوری طرح سمجھ نہیں پاتا تھا کہ میرے ارد گرد کیا ہو رہا ہے ، میری والدہ اور چچی ہمارا خیال رکھنے کی فکر میں تھیں، تو میری بڑی بہن (فاطمہ) نے ہمیں کھانے پینے کی کچھ چیزیں دینے اور ضروری صفائی ستھرائی کا کچھ کام کرنے کی ذمہ داری سنبھال لی تھی ۔
ایک دن شام کے وقت، جب دادا اپنے بیٹوں کی تلاش سے واپس آرہے تھے، میری والدہ نے دروازہ کھولا اور وہ ابھی گلی کے نکڑ ہی پر تھے کہ وہ ان کے انتظار میں وہاں کھڑی ہو گئیں۔ کچھ دیر بعد دادا اپنی چھڑی کے سہارے نمودار ہوئے۔ وہ اپنے قدم ایسے گھسیٹتے ہوئے آ رہے تھے کہ جیسے ان کے پاس کوئی بری خبر ہے جو ان کے کندھوں پر بھاری پڑ رہی ہے۔ میری والدہ نے میرے بڑے بھائی محمود کو دادا کا استقبال کرنے اور ان کی مدد کرنے کے لیے دوڑایا، محمود دوڑتے ہوئے دادا کی طرف گیا اور ان کے چہرے پر نظر ڈالنے لگا، جو آنسوؤں سے بھرا ہوا تھا۔ محمود کوشش کے باوجود دادا سے کوئی بات نکلوانے میں ناکام رہا، یہاں تک کہ وہ دونوں گھر کے دروازے تک پہنچ گئے۔ دادا دیوار کے سہارے کھڑے ہو گئے، لیکن ان کے ٹانگوں میں ان کو سہارنے کی سکت نہ تھی اور وہ گرنے لگے۔ میری والدہ اور چچی نے انہیں سنبھال کر اٹھایا اور پوچھنے لگیں کہ کیا خبر ہے ؟ کیا معلوم ہوا ؟ کیا ہوا ؟ وہ دونوں خوف و ہراس سے کانپ رہی تھیں کہ دادا کیا خبر لائے ہیں۔ دادا نہ بولنے کے قابل تھے اور نہ ہی حرکت کرنے کے۔ جیسے تیسے انہیں اندر کمرے میں لایا گیا اور ان کے بستر پر بٹھا دیا۔ گھر کے سب افراد ان کے ارد گرد جمع ہو گئے اور ان کے لبوں سے نکلنے والے حرف کا انتظار کرنے لگے۔ میری ماں نے مٹی کا گھڑا اٹھاکر دیا، انہوں نے اسے پکڑ لیا لیکن ان میں اٹھانے کی طاقت نہیں تھی، پھر ماں نے ان کی مدد کی اور انہوں نے چند قطرے پانی کے پی لیے۔
دادا کی نظریں زیادہ تر میری چچی کی طرف مرکوز تھیں، جس سے لگ رہا تھا کہ ان کے پاس چچا سے متعلق کوئی خبر ہے۔ چچی کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی اور وہ التجا کر رہی تھیں ، ’’ابو ابراہیم، کیا ہوا؟ کیا خبر لائے ہیں؟ سب خیر تو ہے نا؟ دادا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ چچی روتے ہوئے چلائیں ، ’’کیا محمود انتقال کرگئے ؟‘‘ دادا نے تصدیق میں سر ہلایا ، چچی کا رونا اور چیخنا بڑھ گیا ، اور وہ اپنے بال نوچنے لگیں۔ میری ماں بھی رونے لگی ، لیکن وہ زیادہ مضبوط دل کی تھیں اور چچی کو تسلی دینے کی کوشش کرتیں، جو مسلسل کہہ رہی تھیں ، ’’مات محمود ، مات محمود‘‘ نہیں ام حسن! وہ مرے نہیں، بلکہ شہید ہوئے ہیں۔ میرے چچا کے بچے، میرے بہن بھائی، سب رو رہے تھے اور میں اپنی جگہ پر ساکت تھا ، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔
دروازے پر دستک ہوتی ہے، میرا بھائی محمود دیکھنے کے لیے جاتا ہے کہ کون ہے ، کچھ ہمسایہ عورتیں آتی ہیں جنہوں نے رونا اور چیخنا سنا تھا اور وہ خبر جاننے اور غم میں شریک ہونے کے لیے آتی ہیں ، کمرہ خواتین سے بھر جاتا ہے۔ میں ہجوم میں گم ہو جاتا ہوں، اور چیخ و پکار بڑھ جاتی ہے۔
دن گزرتے جاتے ہیں اور میرے والد کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملتی۔ آخری بار جنہوں نے انہیں دیکھا تھا، انہوں نے بتایا کہ وہ زندہ ہیں، جب یہودیوں نے شہر پر قبضہ کیا تھا، وہ اور کچھ عوامی مزاحمتی لوگ جنوب کی طرف پسپائی اختیار کر گئے تھے، یہی کچھ معلوم تھا، اور کچھ نیا نہیں پتہ چلا۔ دادا نے چچا کے ایامِ سوگ کے بعد سے دوبارہ میرے والد کو تلاش کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی، لیکن کچھ نیا نہ معلوم ہوا۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ دادا اس نتیجے پر پہنچے کہ انتظار کرنا ہی بہتر ہے، شاید کوئی خبر خود ہی آئے، اور سب کو انتظار کرنا پڑا، کیونکہ میرے والد ہماری جگہ سے واقف تھے اور ہم ان کی جگہ سے ناواقف تھے۔
دن گزرتے گئے اور زندگی کو معمول کی طرف لوٹنا پڑا ، سب کو نئے حالات کے ساتھ خود کو ڈھالنا پڑا ۔ اسکول دوبارہ کھل گئے اور میرے بہن بھائی اور بڑا چچا زاد بھائی اسکول جانے لگے ، صبح ماں اور چچی انہیں اسکول کے لیے تیار کرتی تھیں اور وہ سب ساتھ نکلتے تھے۔ میں میری چھوٹی بہن اور چچا زاد بھائی ابراہیم گھر میں رہتے تھے۔ دن نکلنے پر دادا گھر سے نکلتے تھے اور کبھی کبھار کچھ سبزیاں، جیسے ٹماٹر، پالک کی گٹھی، آلو یا بینگن لے کر آتے تھے، تاکہ ماں یا چچی انہیں پکا سکیں اور کھانا بچوں کی اسکول سے واپسی پر تیار ہو۔
ہر صبح میری ماں یا میری چچی پانی کے مٹی کے برتن اور لوہے کے پانی کے گرم کرنے والے برتن کو لے کر نکلتی تھیں اور انہیں ایسی ہی دوسری چیزوں کی قطار میں رکھ دیتی تھیں جو نلکے کے سامنے ہوتی۔ یہ نلکہ یونائٹیڈ نیشنز ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی UNRWA نے محلے کے بیچ میں لگایا تھا، جہاں پانی دن میں دو یا تین گھنٹے آتا تھا۔ جس کو نمبر ملتا وہ اپنے برتن بھر لیتا اور جس کو نمبر نہیں ملتا وہ اگلے دن کا انتظار کرتا اور پڑوسیوں سے کچھ پانی ادھار لیتا۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ کوئی پڑوسن جو صبح سویرے اٹھ کر اپنے برتن قطار میں نہیں رکھ پاتی، وہ دوسروں کا نمبر چرانے کی کوشش کرتی اور اپنے برتن دوسروں کے برتنوں سے آگے رکھ دیتی۔ جب یہ بات پکڑی جاتی تو جھگڑا شروع ہو جاتا جو پہلے تو لفظوں کی حد تک رہتا کہ ’’میرا نمبر‘‘، ’’تمہارا نمبر‘‘ اور پھر ہاتھا پائی اور بال کھینچنے تک پہنچ جاتا اور کبھی کبھار تو مٹی کے برتن بھی ٹوٹ جاتے۔
نلکے کے پاس زمین پر مٹی کی ایک تہہ جمی ہوتی۔جب میرے بھائی اور پڑوس کے بچے اسکول سے واپس آتے اور اپنا دوپہر کا کھانا کھا لیتے، تو وہ ’سبع شقف‘(پٹھو گرم سے ملتا جتلا فلسطینی بچوں کا کھیل)کھیلنے کے لیے نکلتے تو وہ نلکے کے پاس سے مٹی کے کنکر لے آتے اور انہیں سات گول کنکروں میں کاٹ لیتے، ہر کنکر دوسرے سے بڑا ہوتا ، پھر وہ انہیں ایک دوسرے کے اوپر رکھتے، سب سے بڑا نیچے اور سب سے چھوٹا اوپر ، پھر وہ ایک گیند بناتے جو پرانے موزے سے بنی ہوتی تھی جسے ہم امدادی سامان سے حاصل کرتے تھے ، جو ہمیں سال میں دو بار ملتا تھا ، وہ اس موزے کو کپڑے سے بھر دیتے اور اسے ہاتھ کی مٹھی جتنی گیند کی شکل میں باندھ اور سی لیتے تھے۔ پھر دو ٹیموں میں تقسیم ہو جاتے، ایک ٹیم کا ایک کھلاڑی چند میٹر کے فاصلے پر کھڑا ہو کر گیند کو مٹی کے کنکروں کی طرف پھینکتا، کوشش کرتا کہ وہ انہیں گرا دے ، اگر وہ ناکام ہو جاتا تو دوسری ٹیم کا کھلاڑی آتا، اور اگر وہ کامیاب ہو جاتا تو وہ اور اس کی ٹیم کے باقی ارکان بھاگ جاتے۔ پھر وہ کھلاڑی جو مٹی کے کنکروں کے پاس کھڑا ہوتا، گیند کو دوسری ٹیم کے ارکان کی طرف پھینکتا، کوشش کرتا کہ انہیں گیند ست مارے اگر وہ کسی کو مار لیتا تو اس کی ٹیم کو مٹی کے کنکروں کو گرانے کا موقع ملتا، اور اگر وہ ناکام ہو جاتا تو وہ انتظار کرتا جب تک کہ اس کی ٹیم کے ارکان اسے گیند واپس نہ کر دیں۔اس دوران پہلی ٹیم کے ارکان مٹی کے کنکروں کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کرتے، اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو کھیل دوبارہ شروع ہو جاتا اور اگر وہ ناکام ہو جاتے، اور جب وہ دیکھتے کہ گیند واپس آ رہی ہے تو وہ دوبارہ بھاگنے کی کوشش کرتے تاکہ گیند انہیں نہ ؛گ جائے۔
لڑکیاں ’پہل دوج‘( سٹاپو) کھیلتی تھیں۔ جہاں وہ ایک نرم پتھر یا ٹائل کا ٹکڑا لے کر زمین پر تین مربعے بناتیں، ہر ایک تقریباً ایک میٹر لمبا اور ایک میٹر چوڑا ہوتا تھا اور پھر تیسرے مربعے کے سرے پر ایک دائرہ بناتیں۔ کھلاڑی لڑکی پتھر کو پہلے خانے میں پھینکتی اور اس میں چھلانگ لگاتی، اور ایک ٹانگ پر کھڑی رہتی۔ پھر پتھر کو اپنی ٹانگ سے ایک خانے سے دوسرے خانے میں دھکیلتی ، اور اس میں چھلانگ لگاتی ، اب بھی وہ ایک ٹانگ پر ہی کھڑی ہوتی۔ پھر وہ پتھر کو تیسرے خانے میں دھکیلتی ، اور اس میں چھلانگ لگاتی۔ پھر وہ اسے دائرے میں دھکیلتی اور اس میں چھلانگ لگاتی ، یہاں وہ اپنی دونوں ٹانگوں پر کھڑی ہو سکتی تھی۔ اگر وہ گر جاتی یا اس کی ٹانگ کسی لائن پر آ جاتی تو وہ ہار جاتی اور اس کی جگہ مدمقابل کی باری آ جاتی۔ کبھی کبھار لڑکیاں رسی کودنے کا کھیل بھی کھیلتی تھیں ۔
کبھی کبھار لڑکے عرب اور یہود کا کھیل کھیلتے، جہاں وہ دو ٹیموں میں تقسیم ہو جاتے، عربوں کی ٹیم اور یہود کی ٹیم۔ ہر ٹیم لکڑی یا چھڑی کے ٹکڑے اٹھاتی، جو بندوقوں کی شکل میں ہوتے اور وہ ایک دوسرے کی جانب اٹھا کر کہتے ’’ٹھاخ! میں نے تمہیں مارا‘‘ تو دوسرا کہتا ’’نہیں ، میں نے تمہیں پہلے مارا‘‘۔ اور اکثر اوقات یہ بات جھگڑے میں تبدیل ہو جاتی کہ کس نے دوسرے کو پہلے مارا۔ لیکن زیادہ تر یہ ہوتا کہ عربوں کی ٹیم یہود کی ٹیم پر جیت حاصل کرتی تھی ، کیونکہ بڑے یا طاقتور لڑکے ہر ٹیم کے اراکین کا انتخاب کرتے تھے اور وہ عربوں کی ٹیم میں ہوتے تھے ۔
میرے دادا مہینے میں ایک بار مرکزِ راشن (سپلائی سنٹر) جاتے تھے، جہاں وہ اپنے ساتھ اپنا، ہمارا اور میرے چچا کے گھر کا راشن کارڈ لے جاتے تھے۔ وہ دوپہردیر تک غائب رہتے اور پھر واپس آتے۔ وہ اور محلے کے دیگر مرد یا عورتیں ایک گدھا گاڑی کے ساتھ واپس آتے تھے جس پر آٹے کے تھیلے، گھی یا تیل کے گیلن اور کچھ ٹوکریاں ہوتی تھیں ، جن میں چھوٹی چھوٹی بوریوں میں مختلف قسم کی دالیں ہوتی تھیں، جیسے چنا اور مسور۔ جب گاڑی ہمارے گھر کے سامنے رکتی تھی، تو بچے اس پر چڑھنے کے لیے دوڑتے تھے، گاڑی چلانے والا انہیں ڈانٹتا اور اپنی چھڑی لہراتا تھا، پھر انہیں دور کرتا تھا۔ میرے دادا اپنا سامان اٹھاتے، اسے گھر کے اندر اتارتے، اور پھر گاڑی چلانے والے کو چند سکے اپنی جیب سے نکال کر دے دیتے۔ گاڑی چلانے والا ان سکوں کو لے کر اپنے تھیلے میں ڈال لیتا اور کہتا ’’اللہ آپ کو خوش رکھے‘‘، اور پھر اپنے گدھے کو لے کر چل پڑتا۔ بچے گاڑی کے پیچھے دوڑتے تھے اور بڑے لوگ انہیں دور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
میری ماں کبھی کبھار میری چھوٹی بہن (مریم) کو ایجنسی کے السویدی کلینک لے جاتی تھیں، جو کیمپ کے کنارے پر تھا۔ وہاں اس کا معائنہ ہوتا اور زچہ و بچہ کی دیکھ بھال کے سیکشن میں اس کا وزن کیا جاتا۔ کلینک میں بہت سی عورتیں جمع ہوتی تھیں اور اپنے بچوں کے ساتھ معائنہ کرواتی تھیں۔ عورتیں کمرے میں ان لمبی لکڑی کی بینچوں پر بیٹھتی تھیں جو سفید رنگ سے رنگے ہوئے تھے جبکہ کچھ زمین پر بیٹھ کر باتیں کرتی تھیں۔
ہر ایک اپنی مشکلات اور پریشانیوں کے بارے میں دوسرے سے بات کر رہی ہوتی تھی اور اپنی شکایتیں دوسروں کے سامنے بیان کر رہی ہوتی تھی ، تاکہ ایک دوسرے کا دل ہلکا کر سکیں اور دیکھ سکیں کہ دوسروں کی مشکلات بھی کم نہیں ہیں۔میری ماں کئی بار مجھے السویدی لے جا چکی تھی۔ وہاں دروازے پر کچھ خوانچہ فروش کھڑے ہوتے ، جو مختلف قسم کی مٹھائیاں بیچتے تھے ، جو انہوں نے روزی کمانے کے لیے بنائی ہوتی تھیں۔ میں ہمیشہ اپنی ماں کے کپڑےکھینچ کر اس خوانچہ فروش کی طرف اشارہ کرتا اور ماں سے فرمائش کرتا کہ وہ مجھے نمورا1 کا ایک ٹکڑا خرید دے۔ میرے اصرار پر وہ مجبوراً مجھے وہ خرید کر دیتی ، حالانکہ میرے باپ کی غیر موجودگی طویل ہو چکی تھی اور میرے دادا کے لیے کام کرنا مشکل ہو گیا تھا ، کیونکہ اس وقت نوجوانوں اور طاقتور لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع کم تھے۔ پھر بھی ہماری مالی حالت باقی پڑوسیوں کے مقابلے میں اتنی بُری نہیں تھی، کیونکہ میں نے اپنے دادا یا ماں کے پاس کچھ پیسے دیکھے تھے، جو مجھے معلوم نہیں تھا کہ کہاں سے آئے تھے۔ لیکن میں نے جنگ سے پہلے اپنی ماں کے ہاتھوں پر کچھ سونے کے کنگن دیکھے تھے، جو میں نے جنگ کے بعد کبھی نہیں دیکھے۔ میرے ماموں صالح بھی کبھی کبھار ہمیں ملنے آتے تھے اور میری ماں کو کچھ پیسے دے دیتے تھے ، اسی طرح ہمیں یا میرے چچا کے بچوں کو کچھ پیسے دیتے تھے تاکہ ہم ’ابو جابر‘ کی دکان سے کچھ مٹھائی خرید سکیں۔
میرے ماموں صالح بہت خوش قسمت تھے ، کیونکہ ان کا ایک ٹیکسٹائل کا کارخانہ تھا ، جس میں کچھ برقی ٹیکسٹائل مشینیں تھیں ، جنہیں وہ مصر سے لائے تھے۔ یہ کارخانہ قبضے کے بعد بھی چل رہا تھا، اور یہ اچھی مقدار میں کپڑا پیدا کرتا تھا ، جسے وہ غزہ کے تاجروں کو بیچتے تھے۔ ۱۹۹۷ء کی جنگ کے بعد رفتہ رفتہ مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان نقل و حرکت شروع ہوئی، تو انہوں نے اپنی کچھ پیداوار کو مغربی کنارے کے جنوب میں الخلیل کے علاقے میں بیچنا شروع کیا۔ ان کی مالی حالت اچھی تھی، اس لیے وہ ہر کچھ عرصے میں میری ماں کو کچھ پیسے دیتے تھے۔ میری ماں انکار کرتی تو وہ ناراض ہوتے اور کہتے : اگر میں تمہاری مدد نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا اور تمہارے بچے کیسے زندہ رہیں گے؟ تو وہ سر جھکا کر ان سے پیسے لے لیتی اور ماں کے گالوں پر آنسو بہنے لگتے ، وہ اس پر ناراض ہو کر کہتے : تم ہر بار روتی ہو!
میرے چچا کی بیوی اور ان کے بچے تقریباً مکمل طور پر ہمارے ساتھ رہتے تھے اور ہمارے ساتھ روٹی اور پانی بانٹتے تھے۔ میرے دادا نے میرے بھائی محمود اور میرے چچا کے بیٹے حسین سے کہا کہ وہ دیوار کا حصہ توڑ دیں جو ہمارے گھر اور میرے چچا کے گھر کے درمیان تھی ، تو کچھ پرائیویسی کے ساتھ دونوں گھروں کو ایک گھر بنا دیا گیا ، میرے چچا کے اہل خانہ مشکل حالت میں تھے اور دادا ان کی مدد کرنے کے قابل نہیں تھے، ان کے شوہر شہید ہو چکے تھے اور گھر کی کفالت کرنے والا کوئی نہ تھا۔ وقت کے ساتھ وہ ان پر دباؤ ڈالنے لگے کہ وہ شادی کر لیں، کیونکہ ان کا شوہر فوت ہو چکا تھا، تو ان کے بیوہ رہنے کا کیا جواز ہے؟ اور وہ اس خوف سے انکار کرتی تھیں کہ ان کے بچوں کا کیا بنے گا۔ اور وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرتے تھے کہ اس کے دادا اور چچا کا خاندان اس کا خیال رکھے گی، اور وہ اس کی مدد کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن اسے شادی کرنی چاہیے کیونکہ وہ ابھی جوان ہے اور اس کا مستقبل اس کے سامنے ہے، اسے اپنی جوانی کے وقت اور سالوں کو ضائع نہیں کرنا چاہیے، اسی طرح ہمارے دن ، مہینے اور سال گزرتے گئے۔
ایک مرتبہ ہمارے ماموں ہمیں ملنے آئے اور جب انہوں نے اپنی جیب سے پیسے نکال کر میری ماں کو دینے کی کوشش کی تو اس نے سختی سے انکار کر دیا ، باوجود تمام کوششوں کے وہ اسے راضی نہ کر سکے کہ وہ پیسے لے لیں۔ تب انہوں نے ایک چال چلی ، انہوں نے ماں کو قائل کیا کہ وہ کسی نئے مزدور کو اپنے کارخانے میں صفائی اور ترتیب کا کام نہیں دینا چاہتے، اور چونکہ محمود اور حسن بڑے ہوگئے ہیں اور جوان ہوگئے ہیں، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ وہ دونوں اسکول سے واپسی کے بعد روزانہ کارخانے میں کام کریں اور یہ رقم ان کی ماہانہ تنخواہ کے حساب میں ایڈوانس ہے۔
تب ماں نے صرف اسی شرط پر رقم لی کہ وہ اگلے دن سے ہی کام شروع کریں گے اور واقعی محمود اورحسن نے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری سنبھال لی، وہ دوپہر کو اسکول سے واپس آتے، کپڑے کے بنائے ہوئے اپنے بوری نما بستے رکھتے، ماں ان کے لیے اور باقی بہن بھائیوں اور چچا زاد بھائی کے لیے دوپہر کا کھانا نکالتی، اور پھر لمبی نصیحتوں کی نشست شروع کرتی کہ کس طرح راستے پر چلنا ہے، کس طرح ایمانداری سے کام کرنا ہے، کس طرح صفائی کرنی ہے اور کیسے کیسے ، پھر وہ ان کے کندھوں پر تھپکی دیتی اور دروازے سے باہر تک آ کر انہیں الوداع کہتی ، غروب آفتاب سے کچھ پہلے وہ ان کا استقبال ایسے کرتی جیسے وہ فاتح سپاہی ہوں ، اسی طرح ماموں ماں کو پہلے کی طرح رقم دیتے رہے، گویا یہ محمود اور حسن کی تنخواہ ہو، حالانکہ وہ کارخانے میں جا کر کچھ خاص کام نہیں کرتے تھے۔
اکثر میں فجر کے وقت دادا کی دعاؤں کی آواز پر جاگتا، جب وہ وضو کر رہے ہوتے ، میں اس آواز اور ان دعاؤں کا لطف اٹھاتا ، پھر ان کی آواز میں قرآن مجید کی تلاوت اور فجر کی نماز کے بعد دعا سنتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ میں تقریباً وہ دعائیں یاد کرنے لگا تھا ، جیسے ’’اللهم اهدني فيمن هديت…‘‘۔ دادا مسجد میں فجر کی نماز پڑھنے نہیں جا سکتے تھے کیونکہ اس وقت کرفیو لگا ہوتا اور جو باہر نکلتا وہ قابض فوج کی گولیوں کا شکار ہو سکتا تھا جو کیمپ کی گلیوں میں گشت کر رہی ہوتی یا کہیں چھپی ہوئی ہوتی۔ یہ کرفیو روزانہ شام سات بجے سے صبح پانچ بجے تک ہوتا تھا ، باقی نمازیں دادا عموماً مسجد میں پڑھتے، سوائے کسی مجبوری کے ، جیسے راشن لینے جانا یا کرفیو کے دن۔
یہ گاؤں کی مسجد ایک بڑے کمرے کی مانند تھی جس کی چھت لوہے کی چادروں سے ڈھکی ہوئی تھی، اس میں چند کھڑکیاں تھیں اور ایک چھوٹا سا مینار تھا، جس پر موذن پتھر کی سلوں سے بنی سیڑھیوں سے چڑھ کر اذان دیتا تھا۔ مسجد کے دروازے پر ایک بیت الخلاء ، وضو اور پینے کے پانی کے لیے چند مٹی کےبرتن تھے۔ مسجد کی زمین پر کچھ پرانی اور بوسیدہ چٹائیاں یا قالین بچھے ہوئے تھے ، مسجد کے سامنے ایک چھوٹا سا منبر تھا جو چند لکڑی کی سیڑھیوں پر مشتمل تھا۔
میرے دادا اکثر ظہر کی اذان سے پہلے مجھے مسجد لے جاتے تھے، وہ میرا ہاتھ پکڑتے جو ان کے بڑے ہاتھ میں غائب ہو جاتا تھا۔ ان کی عمر ستر برس سے تجاوز کر چکی تھی اور وہ بہت آہستہ چلتے تھے، لیکن پھر بھی مجھے ان کے پیچھے دوڑنا پڑتا تھا کیونکہ وہ تقریباً مجھے کھینچتے ہوئے لے جاتے تھے۔ ہم اذان سے پہلے مسجد میں نماز پڑھتے، میں اپنے دادا کے ساتھ کھڑا ہوتا اور ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتا۔ میں ان کے پاس بیٹھ کر سر ان کے ہاتھوں میں رکھتا جیسے کہ اچھے بچے کرتے ہیں۔
شیخ حامد اپنی جیب سے گھڑی نکالتے اور وقت دیکھتے ، جب اذان کا وقت قریب آتا تو وہ مینار پر چڑھ جاتے اور اپنی دلکش آواز میں اذان دیتے ، میں خوشی سے ادھر ادھر دیکھنے لگتا۔ جب شیخ حامد اذان مکمل کرتے اور مینار سے نیچے آتے تو ہم سنت پڑھتے۔ میں اپنے دادا کے ساتھ کھڑا ہوکر ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتا۔ کیمپ کے کچھ بڑے لوگ آکر ظہر کی نماز باجماعت ادا کرتے، جن کی تعداد دس سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، سب بوڑھے لوگ ہوتے تھے، سوائے میرے اور ایک یا دو بچوں کے جنہیں ان کے دادا لے آتے تھے۔
میرے دادا اور امی نے شاید میرے والد کے نامعلوم انجام کے بارے میں حقیقت کو قبول کر لیا تھا کیونکہ ان کی باتیں ان کے بارے میں کم ہوتی جا رہی تھیں ، یا شاید وہ سمجھ چکے تھے کہ انتظار کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
اسی طرح دن گزرتے رہے، میں اپنے دادا کی فجر کی نماز اور وضو کی آواز سے جاگتا تھا، پھر امی میرے بہن بھائیوں اور چچازاد بھائی کو جگا کر اسکول کے لیے تیار کرتی تھیں ، اور وہ اسکول روانہ ہو جاتے تھے۔ میرے دادا بازار چلے جاتے تھے، امی گھر کی صفائی شروع کر دیتی تھیں اور میں اپنی چھوٹی بہن مریم کے ساتھ بیٹھ جاتا تھا تاکہ جب تک امی گھر کے کام میں مصروف ہوں اور دادا واپس نہ آجائیں تب تک وہ جاگ کر رونے نہ لگے۔
میرے دادا اکیلے واپس آتے اور میرے بھائی اور چچا کے بیٹے بھی اسکول سے واپس آتے۔ پھر میری ماں ہمارے لیے دوپہر کا کھانا تیار کرتی اور ہم سب مل کر کھانا کھاتے۔ پھر میری ماں اپنے معمول کے مطابق میرے بھائی محمود اور حسن کو نصیحتیں کرتیں اور جب وہ اپنے ماموں کے کارخانے کی طرف کام پر روانہ ہوتے تو انہیں دروازے تک الوداع کہتیں۔ ہم باہر نکل کر کھیلتے، کبھی عرب یہودی کھیلتے، یا ’پٹھو گرم‘ اور لڑکیاں ’پہل دوج‘ کھیلتیں ، یہاں تک کہ شام کا وقت قریب آجاتا اور محمود اور حسن کارخانے سے واپس آتے۔ زندگی اسی معمول کے ساتھ بغیر کسی نئے واقعے کے چلتی رہی ۔
ایک شام محمود اور حسن کارخانے سے واپس نہیں آئے، وہ دیر سے آئے اور اکیلے نہیں بلکہ ان کے ساتھ ہمارے ماموں صالح بھی آئے۔ ہمیشہ کی طرح ہم ان کے گرد جمع ہوگئے اور ہمیشہ کی طرح انہوں نے ہم سب سے ملاقات کی اور ہمیں گرمجوشی سے بوسہ دیا۔ پھر ہر ایک کو ان کا حصہ دیا اور بات چیت شروع کی۔ وہ ہماری ماں سے ہماری خالہ فتحیہ کے رشتے کے بارے میں بات کرنے آئے تھے۔ ایک رشتہ آیا تھا، وہ لوگ مغربی کنارے کے ایک چھوٹے سے قصبے سے تعلق رکھتے تھے، کپڑوں کا کاروبار کرتے تھے اور ہمارے ماموں سے کپڑا خریدنے آتے تھے۔ وہ ہمارے ماموں کو اچھی طرح جانتے تھے اور ان کا مشورہ چاہتے تھے۔ ہماری ماں نے کہا کہ فیصلہ آپ کا ہے، اگر فتحیہ راضی ہے اور آپ بھی راضی ہیں اور آپ ان لوگوں کو جانتے ہیں تو اللہ کا نام لے کر کردیں۔ اس دوران ہماری ماں نے ہمیں ماموں کے پاس چھوڑ دیا اور وہ ہم سے ہمارے بارے میں پوچھنے لگے، ہمارے اسکول کی باتیں اور دیگر باتیں۔
کچھ دیر بعد وہ واپس آئی اور ایک چائے کی چینک تیار کی۔ ہمارے ماموں نے ہمارے ساتھ چائے پی اور پھر جانے کے لیے اٹھ گئے۔ ہماری ماں نے انہیں رات یہاں گزارنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی، مگر انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا : ’’تم جانتی ہو کہ میں گھر سے باہر رات نہیں گزار سکتا ، میری صرف بیٹیاں ہیں‘‘۔ ہماری ماں نے دعا دی: ’’صالح اللہ تمہیں اچھی جگہ عطا کرے۔‘‘ ہمارے ماموں نے کہا کہ وہ لوگوں کو رضا مندی کے بارے میں بتائیں گے اور جب ان کی طرف سے تاریخ معلوم ہو گی تو وہ ہمیں بھی بتادیں گے تاکہ ہم تیار ہو جائیں۔
اگلی صبح سویرے جب ہمارے دادا نے نماز ختم کی تو انہوں نے فوجی جیپوں کے لاؤڈ اسپیکر سے اعلان سنا جو ٹوٹی پھوٹی عربی میں کرفیو کا اعلان کر رہے تھے : ’’ الو الو…… منع تجول تاحکم ثانی‘‘ اور جو اس کی خلاف ورزی کرے گا، وہ موت کے خطرے کا سامنا کرے گا۔ ہماری ماں نے ہم سب کو کہا کہ آج اسکول نہیں جائیں گے اور کسی کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ دوسرے کمرے میں گئی تاکہ دادا اور میرے چچا زاد حسن اور ابراہیم کو اطلاع دیں ۔ ہم سارا دن گھر میں بند رہے اور ہر بار جب کوئی دروازے کے قریب جاتا تو ہماری ماں اسے زور سے منع کرتی اور کہتی کہ اگر دروازہ کھولا تو اسے مارے گی۔
کرفیو لگنے کا اعلان ہم نے بار بار سنا۔ میرے بھائی اور بہنیں گھر کے اندر کھیلنے پر مجبور ہو گئے اور میری ماں نے ہمارے آج دوپہر کے کھانے کے لیے بیصارة تیار کی ، جو کہ ملوخیہ کے خشک پتے کے ساتھ دال کے پکوان کا نام ہے ۔ 2
میرے بھائی، بہنیں اور میرے چچا کے بیٹے اپنے اسکول کی کتابیں پڑھ رہے تھے، اور میں بیٹھا ان کی کتابوں کو دیکھ رہا تھا۔ شام کو ہم نے دوبارہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز سنی جو کرفیو کے جاری رہنے کا اعلان کر رہی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ جو بھی اس کی خلاف ورزی کرے گا وہ خطرے میں پڑ جائے گا۔ اگلی صبح میرے دادا کی نماز اور دعاؤں کی آواز کے تھوڑی دیر بعد، لاؤڈ اسپیکر کی آواز آئی جو صبح پانچ بجے کرفیو کے ختم ہونے کا اعلان کر رہی تھی۔ میری ماں نے سب کو جگایا اور اسکول کے لیے تیار کیا اور معاملات معمول کے مطابق چلنے لگے۔
اس دن کی نئی بات یہ تھی کہ ہمیں معلوم ہوا کہ گزشتہ روز کرفیو کیوں لگایا گیا تھا۔ ایک شخص نے قابض فوج کی ایک گشتی گاڑی پر دستی بم پھینکا تھا ، جو دھماکے سے پھٹ گیا اور گاڑی میں موجود فوجیوں کو زخمی کر دیا۔ ان فوجیوں نے بے ترتیبی سے فائرنگ شروع کر دی جس سے کئی لوگ زخمی ہو گئے۔
تیسری فصل
جمعہ کے دن میری ماں نے ہمیں ہمارا بہترین لباس پہنایا جو اُس نے راشن سے ملنے والے کپڑوں کو ادھیڑ بن کر دوبارہ سیا تھا، اور ہمیں اپنے ساتھ خالہ کے گھر لے جانے کی تیاری کی تاکہ انہیں منگنی کی مبارکباد دے سکیں جو جلد ہونے والی تھی۔ پھر ماں نے ہم سات بھائی بہنوں کو ساتھ لیا اور کئی گھنٹوں تک پیدل چلتی رہی ، جہاں ہم نے کیمپ کی حدود پار کیں اور ایک اہم سڑک پر چلنے لگے ، جہاں کبھی کبھار فوجی اور شہری جیپیں چلتی تھیں ،جن میں سپاہی اپنی بندوقیں لہراتے ہوئے لوگوں کو نشانہ بناتے تھے۔ گاڑیاں بہت آہستہ چل رہی تھیں ، ہم کافی دیر تک چلتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے ماموں صالح کے گھر پہنچ گئے۔ ان کا گھر ہمارے گھر سے بہت بہتر تھا کیونکہ ہمارے گھر کی چھت اینٹوں کی تھی جبکہ ان کے گھر کی چھت لینٹر کی تھی۔ فرش پر ٹائلیں لگی ہوئی تھیں اور بجلی بھی تھی۔
میرے بھائی محمود نے آگے بڑھ کر دروازہ کھٹکھٹایا تو ہماری ماموں زاد ’وردہ‘ نے دروازہ کھولا اور فوراً چیخ کر کہا کہ پھوپھی اور ان کے بچے آئے ہیں، ہمیں سلام کیا اور ہم گھر میں داخل ہو گئے جہاں ماموں، ممانی اور ان کی دوسری بیٹی ’سعاد‘ ہمیں سلام کرنے اور خوش آمدید کہنے کے لیے باہر آئے ۔
خالہ نے ہمیں سلام کیا اور ایک ایک کر کے بوسہ دیا۔ ماں، بھائی بہنوں نے انہیں منگنی کی مبارکباد دی جو جلد ہونے والی تھی اور باتیں کرنے لگے ۔ ہم کھیلنے اور ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنے میں مصروف ہوگئے ، شام سے پہلے ہم گھر واپس آ گئے۔ چند دنوں بعد جب محمود اور حسن ماموں کے کارخانے سے کام کر کے واپس آئے تو انہوں نے ماں کو بتایا کہ ماموں نے کہا ہے کہ اگلے جمعے کو خالہ فتحیہ کا نکاح ہوگا۔ اماں نے پھر ہمیں پچھلے جمعے کی طرح تیار کیا اور دوپہر کے بعد ہم ماموں کے گھر گئے۔ تین گاڑیاں آئیں جن میں کچھ مرد اور عورتیں تھیں، وہ اترے اور ماموں کے گھر میں داخل ہوگئے۔ چھوٹے بچے سرگوشیاں کر رہے تھے اور ایک نوجوان گندمی رنگ کے لڑکے کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ یہ دولہا ہے۔ مرد گھر کے ہال میں بیٹھے اور ان کے درمیان مولوی صاحب اپنی سرخ ٹوپی کے ساتھ بیٹھے تھے۔
عورتیں ایک کمرے میں بیٹھ گئیں اور ہم آرام کیے بغیر ادھر ادھر بھاگتے پھر رہے تھے۔ کبھی کمروں میں، کبھی گھر کے باہر اور کبھی گاڑیوں سے چمٹے ہوئے۔ ہم اپنے کھیل میں مگن تھے، مرد نکاح کے کاموں میں مصروف تھے اور عورتیں خالہ فتحیہ کے ساتھ مصروف تھیں۔ وہ دن کبھی نہیں بھول سکتا کہ ہم نے بے حساب بَقلاوہ کھایا ، یہاں تک کہ ماں کو فکر ہوگئی کہ کہیں بیمار نہ ہو جائیں ، آخرکار اسی میں خالہ کو رخصت کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔
تقریباً ایک مہینے بعد رات کے گہرے اندھیرے میں اور خاموشی اور سکون کی چادر میں لپٹے ہوئے، جو کیمپ کے غریب اور بدحال گھروں پر چھائی ہوئی تھی، سوائے دور سے آنے والی کتے کے بھونکنے کی آواز یا بلی کے میاؤں کی آواز جو اپنے بچے کو ڈھونڈ رہی تھی جسے کسی بچے نے اٹھا لیا تھا تاکہ وہ اسے اپنے گھر میں پالے، شاید جب وہ بڑی ہو جائے تو وہ چوہے کھا سکے جو خاندان کا سکون برباد کر دیتے ہیں ، کیمپ کی چھوٹی اور پیچیدہ گلیوں میں، کرفیو کے قانون اور ممکنہ خطرے کے باوجود، ابو حاتم بلی کی طرح ان گلیوں میں چپکے چپکے حرکت کر رہا تھا۔ ہر نئے موڑ پر رک کر وہ ہر طرف دیکھتا تھا کہ کہیں کوئی دشمن حرکت میں تو نہیں ، یا چھپا ہوا تو نہیں، جب اس کو یقین ہو جاتا کہ وہاں کوئی نہیں ہے تو وہ اپنی راہ پر چلتا رہتا۔
ابو حاتم ایک لمبے قد کا، چست اورمضبوط جسم کا آدمی تھا۔ اس کے سر پر کفیہ (روایتی فلسطینی رومال) لپٹا ہوا تھا جو اس کے چہرے کے گرد بھی لپٹا ہوا تھا۔ صرف اس کی آنکھیں نظر آرہی تھیں۔جب مصر کی غزہ پر حکومت تھی تب وہ فلسطین کی آزادی کی فوج کا ایک سپاہی تھا۔ اس نے ۱۹۶۷ء کی جنگ میں بے پناہ بہادری دکھائی، لیکن وہ اور چند بہادر لوگ بحیثیت مجموعی ایک ہاری ہوئی جنگ میں کیا کر سکتے تھے؟ ابو حاتم کیمپ کی گلیوں اور سڑکوں میں چپکے چپکے چل رہا تھا، وہ اپنا راستہ جانتا تھا، تھوڑی دیر رکا، اردگرد کا جائزہ لیا، پھر ایک گھر کی کھڑکی کی طرف بڑھا اور آہستگی سے تین بار کھڑکی کے کنارے پر دستک دی، پھر ایک بار، پھر دوبار دستک دی۔ ’ابو یوسف‘نے کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر اور سر کو قریب کر کے آہستہ آواز میں پوچھا: کون ہے؟ ابو حاتم نے آہستہ آواز میں جواب دیا : ’’ابو حاتم ہوں!‘‘ ابو یوسف نے بڑبڑاتے ہوئے کہا: ’’یہ ناقابل یقین ہے‘‘۔ آواز آئی : ’’قابل یقین ہے ابو یوسف، قابل یقین ہے‘‘۔ ابو یوسف نے کہا : ’’میں دروازہ کھولتا ہوں ‘‘۔ ابو حاتم اندر آ گیا اور ابو یوسف نے دروازہ بند کر دیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگالیا۔ ابو یوسف بڑبڑاتے ہوئے کہہ رہا تھا: ’’ناقابل یقین، شکر ہے کہ تم خیریت سے ہو ابو حاتم‘‘ ۔
ام یوسف بھی جاگ گئی تھی، سر پر دوپٹہ لے کر کمرے سے باہر آئی اور آہستہ آواز میں کہا : شکر ہے کہ تم خیریت سے ہو ابو حاتم، آؤ اندر آؤ! ابو یوسف اور ابو حاتم کمرے میں داخل ہو گئے اور ام یوسف باورچی خانے کی طرف چلی گئی۔ ابو حاتم نے ام یوسف سے کہا ، کھانا یا چائے تیار نہ کرو اور چولہے نہ جلاؤ۔ ام یوسف نے حیرت سے کہا : خیر تو ہے ابو حاتم ! تم ہمارے گھر میں مہمان ہو! ابو حاتم نے مسکرا کر آہستہ آواز میں کہا : آپ سب پر ہزارہا سلامتی ہو اور آپ کی نیکی پر ، لیکن میں بھوکا نہیں ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ چولہا جلانے کی آواز آئے۔ آپ سب پر ہزارہا سلامتی ہو اور آپ کی نیکی پر۔
یوسف کی ماں نے آہستہ سے کہا : ٹھیک ہے، میں تمہارے لیے کچھ روٹی اور زیتون لے کر آتی ہوں ، ابو حاتم مسکراتے ہوئے آہستہ سے بولا : ٹھیک ہے، میں جانتا ہوں کہ تم مجھے کھانا کھائے بغیر جانے نہیں دوگی۔ ٹھیک ہے ام یوسف۔ ابو یوسف مسلسل مسکراتا رہا۔ ابو یوسف اور ابو حاتم نے آہستہ سے باتیں شروع کیں ، ابو یوسف نے پوچھا : تم کہاں تھے؟ خدا کی قسم ، میں نے سوچا کہ تم شہید ہو گئے ہو یا مصر چلے گئے ہو؟ ابو حاتم نے جواب دیا کہ وہ وسطی کیمپوں کے علاقے میں جھڑپوں کے دوران زخمی ہوگیا تھا اور ایک گاڑی کی طرف رینگتے ہوئے پہنچا جہاں ایک بدوی خاندان نے اسے دیکھ لیا ، اس کے زخموں کا علاج کیا، اسے کھانا دیا اور اسے چھپا دیا جب تک وہ صحت یاب نہ ہوگیا۔
ام یوسف سلام کرتی ہوئی داخل ہوئی اور انہوں نے آہستہ سے جواب دیا۔ اس نے ایک ٹوکری میں کچھ روٹیاں اور ایک پلیٹ میں زیتون رکھے اور اس کے ساتھ ایک مٹی کے پانی کا جگ۔ پھر کمرے سے نکل گئی اور بچوں کے کمرے میں جا بیٹھی جہاں مٹی کے تیل کا چراغ لٹک رہا تھا اور اس چھوٹے سرخ چھت والے کمرے کو روشنی دے رہا تھا۔ ابو حاتم اور ابو یوسف ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشی کر رہے تھے، ابو یوسف نے پوچھا : کیا کوئی جوان ابھی بھی زندہ ہے؟ ابو حاتم نے جواب دیا : ہاں ! بہت سے۔ میں اور ابو ماہر خان یونس میں ہیں۔ ابو صقر رفح میں، اور ابو جہاد وسطی کیمپوں میں ہیں۔ میں نے انہیں خود دیکھا اور ان سے دوبارہ مزاحمت شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔
ابو یوسف نے ابو حاتم کے قریب ہو کر چپکے سے کہا کہ مختار کا کیا حال ہے ؟ ابو حاتم نے قریب ہو کر چپکے سے کہا کہ ’’سنا ہے کہ وہ ابھی بھی زندہ ہے اور مشرقی علاقوں میں شجاعیہ اور زیتون کی طرف متحرک ہے۔ میں اسے تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور شاید چند دنوں میں اسے ڈھونڈ لوں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں کام کو منظم کرنا چاہیے تاکہ مزاحمت پورے علاقے میں ایک ساتھ شروع ہو۔ ملک ٹھیک ہے ابو یوسف، ملک ٹھیک ہے اور جوان تیار ہیں اور صرف انہیں منظم کرنے والا اور پہلا قدم اٹھانے والا چاہیے۔ ہم سب کو جمع ہونا چاہیے اور کام کو منظم کرنا چاہیے۔ اگلے جمعے کی صبح صالح محمود اپنی بہن کی شادی کر رہا ہے اور اس کا شوہر اسے الخلیل لے جائے گا اور رات کو ان کا گھر خالی ہوگا۔ میں نے اس سے کہا ہے کہ وہ چابی دروازے کے نیچے رکھ دے ، نوجوانوں کا گروپ وہاں جمع ہوگا اور ہم کام کو منظم کریں گے اور جلد از جلد آغاز کریں گے، ان شاء اللہ۔ تم صالح کا گھر جانتے ہو ،جمعے کی رات کے بعد وہاں ملاقات ہوگی۔ جو شخص دیر سےآئے گا، وہ کھڑکی پر مخصوص طریقے سے دستک دے گا۔ اس دوران ابو حاتم روٹی کے کچھ نوالے اور ہر نوالے کے ساتھ ایک زیتون کھا رہا تھا اور زیتون کی گٹھلی کو خاص انداز سے چوس رہا تھا، جو اس گھر کے مالک سے اس کی محبت اور ام یوسف کے پکائے ہوئے کھانے کے لیے اس کے شوق کو ظاہر کرتا تھا۔
جمعہ کے دن ہم نے صبح سویرے سے ہی تیاری شروع کر دی۔ بہترین لباس پہن کر ہم ماموں صالح کے گھر روانہ ہوئے۔ اگرچہ ہم جلدی پہنچے تھے، پھر بھی ہم نے ماموں کے گھر کو لوگوں اور شادی کی تیاریوں سے بھرا ہوا پایا۔ ہم کھیل میں مصروف ہوگئے اور میری بہنیں دف بجاتی، گاتی رہیں ، ان کے ساتھ ماموں کی بیٹیاں اور دوسری لڑکیاں بھی تھیں۔محمود اور حسن کچھ کاموں میں مصروف تھے جیسے کہ کرسیوں کو ترتیب دینا اور ماموں کے گھر کے سامنے کے صحن میں پانی چھڑکنا تاکہ دھول نہ اڑے۔ میری ماں ، ممانی اور دوسری عورتیں دلہن کو تیار کرنے میں مصروف تھیں، اسکے لباس کا انتظام کر رہی تھیں۔ میرے ماموں ہر طرف دوڑتے پھر رہے تھے اور بیک وقت لاتعداد کاموں میں مصروف تھے۔ اس دن لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور دف کی آواز زیادہ منظم اور درست ہوتی جا رہی تھی ، اس کام کی ذمہ داری خالہ کی ایک بڑی پڑوسن لڑکی اور اس کی سہیلیوں نے سنبھالی ہوئی تھی۔
کچھ دیر بعد کئی گاڑیاں اور ایک بس آئی جس میں دولہے کے خاندان کے کئی افراد سوار تھے۔ گاڑیاں رک گئیں اور ان میں سے دولہے عبدالفتاح سمیت کئی لوگ نکلے، دف بجنے لگا اور مشہور نغمہ ضفاوی لہجے میں گایا جانے لگا۔ وہ سب گھر کی طرف بڑھے جہاں ماموں اور دوسرے مرد ان کا استقبال کرنے کے لیے نکلے۔ مردوں نے مردوں سے مصافحہ کیا اور عورتوں نے عورتوں سے سلام کیا اور ایک دوسرے کو بوسے دیے۔ عورتیں اندر ہال میں چلی گئیں اور مرد گھر کے صحن میں بیٹھ گئے۔ بقلاوہ پلیٹوں میں تقسیم کیا گیا۔ میرا بھائی محمود تقسیم کرنے والوں میں سب سے زیادہ متحرک تھا، اس نے حاضرین میں سرخ مشروب تقسیم کیا۔ عورتوں کے نغمے اور دف کی آواز مسلسل گونجتی رہی۔ یہ سلسلہ تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ ماموں مسلسل دولہا اور اس کے والد سے بات کر رہے تھے، ان کے ساتھ کچھ اور مرد بھی تھے جنہیں میں نہیں جانتا تھا۔ پھر ماموں گھر میں گئے اور سب تیار ہوگئے۔ دولہا اور اس کے والد دروازے پر کھڑے ہوگئے۔ طبل اور نغمے کے ساتھ خالہ نے دلہن فتحیہ کو بازو پکڑ کر باہر نکالا، جو سفید لباس میں ملبوس تھی اور اس کے سر پر سفید دوپٹہ تھا جس نے اس کی خوبصورتی کو اور بڑھا دیا تھا، وہ چاند کی طرح چمک رہی تھی۔
وہ آہستہ آہستہ دروازے تک پہنچی جہاں دولہا نے اس کا بازو تھاما اور عورتوں نے زوردار زغردہ (شادیانے یا خوشی کی آواز) بلند کیا۔ دلہن اور دولہا ایک گاڑی کی طرف بڑھے، اور سب لوگ ان کے پیچھے چلنے لگے۔ میری ماں مسلسل خالہ کے پاس ماموں اور ممانی کے ساتھ ساتھ تھی۔ دلہن اور دولہا سجی ہوئی گاڑی میں سوار ہوگئے، اور مردوں اور عورتوں نے گاڑیوں اور بس میں سوار ہونا شروع کر دیا۔ میری ماں نے محمود کو تلاش کرتے ہوئے زور سے آواز دی: ’’اپنے بھائیوں کو لے آؤ اور دادا کے ساتھ واپس گھر جاؤ، میں جلد واپس آجاؤں گی ، گھر میں سب کچھ تیار ہے بیٹا۔ تمہیں میری واپسی تک کسی چیز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ دادا اور چچا کے بیٹوں کا خیال رکھنا، کرفیو سے پہلے دروازہ بند کر دینا اور سورج طلوع ہونے تک دروازہ نہ کھولنا۔ محمود نے ہمیشہ کی طرح سر ہلاتے ہوئے رضامندی ظاہر کی، وہ ہمیشہ میری ماں کی ہدایات کو سمجھتا اور فوراً عمل کرتا تھا۔ فاطمہ نے مریم کو اپنی بانہوں میں اٹھا رکھا تھا۔ میری ماں، خالہ، میری بہنیں اور خالہ کی بیٹیاں ایک گاڑی میں سوار ہو گئیں اور محمود ہم سب کو دادا کے پاس لے آیا جو اپنی چھڑی پر ٹیک لگائے کھڑے تھے۔
سب کے گاڑیوں میں سوار ہونے کے بعد میرے ماموں اور دولہا کے والد انتظامات دیکھ رہے تھے، تو میرے ماموں نے گھر کو بند کرنے کی اجازت طلب کی اور ان سے کچھ دیر انتظار کرنے کو کہا۔ وہ تیزی سے گھر واپس آئے اور باورچی خانے سے ایک تھیلا اٹھایا اور اسے مہمانوں کے کمرے میں رکھ دیا۔ پھر بیرونی دروازہ بند کیا۔ ان کے ہاتھ سے کچھ گرا اور انہوں نے اسے اٹھانے کے لیے جھک کر گھر کی چابی دہلیز کے نیچے چھپا دی۔ پھر وہ گاڑی میں سوار ہو گئے اور قافلہ روانہ ہو گیا۔ جبکہ ڈھول کی آواز اور عورتوں کا نغمہ گونجتا رہا، یہاں تک کہ وہ غائب ہو گئے۔ پھر ہم اپنے دادا کے ساتھ گھر واپس آگئے۔ ہم غروب آفتاب سے پہلے پہنچے، اس دن کے کھیل، کھانے اور خوشی نے ہمیں تھکا دیا تھا۔محمود نے دروازہ مضبوطی سے بند کیا اور ہم گہری نیند میں ڈوب گئے۔
رات نے غزہ پر اپنے سیاہ پردے ڈال دیے اور اسے ایک اندھیرے سمندر میں ڈبو دیا، جہاں کوئی اپنی انگلی بھی مشکل سے دیکھ سکتا تھا۔ شہر کی مرکزی سڑکوں پر قابض فوج کا گشت جاری تھا اور لاؤڈ اسپیکرز سے کرفیو کے وقت کا اعلان ہو رہا تھا۔ ایک گہری خاموشی چھا گئی، جسے صرف کبھی کبھار گشتی گاڑیوں کی آواز توڑتی، جو اپنی موجودگی کا احساس دلاتی اور امن و امان کی صورتحال کو یقینی بناتی۔ سات آدمی خاموشی سے میرے ماموں کے گھر کی طرف بڑھ گئے، انہوں نے دہلیز کے نیچے سے چابی نکالی، روشنی نہیں جلائی جب تک کہ سب اندر نہ آ گئے ، پھر انہوں نے پردے گرا دیے اور پردوں کے اوپر کمبل ڈال دیے تاکہ کوئی روشنی باہر نہ جا سکے ۔ اس کے بعد انہوں نے روشنی جلائی تو انہیں وہ تھیلا ملا جو میرے ماموں نے رکھا تھا۔ ابو حاتم نے اسے کھولا تو وہ کھانے اور مٹھائیوں سے بھرا ہوا تھا ، انہوں نے کہا : صالح واقعی شریف اور کریم ہے، چاہے وہ گھر سے باہرہی کیوں نہ ہو۔ آدمی ایک چھوٹے سے دائرے میں بیٹھ گئے اور گھنٹوں تک سرگوشیاں کرتے رہے۔ پھر آدھی رات کو سو گئے۔ باری باری سب پہرہ دیتے رہے۔ جب فجر قریب ہوگئی ، تو وہ ایک ایک کر کے گھر سے نکلنے لگے۔ آخر میں ابو حاتم نے دروازہ بند کیا اور چابی دہلیز کے نیچے رکھ دی اور اللہ کے بھروسے پر یہ آیت پڑھتے ہوئے روانہ ہو گئے:
وَجَعَلْنَا مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاَغْشَيْنٰهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ (سورۃ یس: ۹)
میں دادا کی نماز فجر کی آواز سے بیدار ہوا، اور محمود جلدی اٹھ کر ماں کا کردار ادا کرنے لگا۔ اس نے میرے بھائی حسن ، محمد، اور میرے چچا زاد حسن اور ابراہیم کو جگایا اور انہیں ناشتہ دیا، اور وہ پانچوں اسکول روانہ ہو گئے جبکہ میں اور دادا گھر میں اکیلے رہ گئے۔
اس دن دادا بازار نہیں گئے، اور جب سورج بلند ہوا تو مجھے لے کر اس کی گرم شعاعوں کے نیچے بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے جوانی کے دنوں اور کھوئے ہوئے ملکوں کی باتیں سنانی شروع کیں۔ پھر انہوں نے اپنی چھوٹی سی تھیلی نکالی اور اس میں سے ایک پیسہ نکال کر مجھے دیا اور کہا : جاؤ، اپنے لیے کچھ خرید لو اور جلدی واپس آؤ۔ میں ’ابو خلیل‘ کی دکان کی طرف دوڑا گیا اور چند کھٹی میٹھی گولیاں خرید لایا۔ جب میں واپس آیا تو ایک گولی منہ میں ڈال رکھی تھی ، دادا نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر پوچھا کہ کیا خریدا؟ میں نے انہیں ہاتھ میں پکڑی چیز دکھائی اور ایک گولی ان کی طرف بڑھا دی۔
وہ بہت ہنسے اور بولے : نہیں، یہ تمہارے لیے ہے میرے پیارے۔ میں ان کے پاس بیٹھ گیا اور دھوپ کی کرنوں کا مزہ لیتے ہوئے ان گولیوں کو چوسنے لگا۔ دوپہر کا وقت قریب تھا ، دادا اپنی لاٹھی کے سہارے اٹھے اور بولے : آؤ احمد، مسجد چلیں، ظہر کی نماز پڑھیں۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم روانہ ہو گئے۔ مسجد پہنچ کر دادا وضو کرنے بیٹھ گئے اور میں ان کی نقالی کرتے ہوئے وضو کرنے لگا۔ وہ مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ رہے تھے ، شیخ حامد آئے اور مسکراتے ہوئے دادا سے بولے : ان شاء اللہ یہ بچہ دیندار بنے گا۔ دادا نے زیر لب کہا : ان شاء اللہ، ان شاء اللہ۔
دن آہستہ آہستہ گزرتے رہے اور میں اپنے ارد گرد کی چیزوں کو زیادہ سمجھنے لگا۔ نئی چیز جو واضح طور پر نظر آ رہی تھی وہ مزاحمت کی شروعات تھی، ہر دن قبضہ گروں کی گشتی پارٹیوں پر فائرنگ، یا دستی بم حملے، یا بارودی مواد کا دھماکہ ہوتا۔ ہر بار قابض فوجی پوری طاقت اور شدت کے ساتھ نہتے شہریوں پر حملہ کرتے، لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کرتے، مارتے اور زخمی کرتے۔ پھر مزید کمک آتی اور علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا جاتا اور مردوں کو اسکول میں جمع ہونے کا حکم دیا جاتا۔ وہاں فوجی مردوں کو مارتے، ذلیل کرتے اور بعض کو گرفتار کر لیتے۔ یہی مناظر اور آوازیں کئی دنوں تک دہرائی جاتی رہیں۔ مزاحمت بڑھتی گئی اور زیادہ جری ہوتی گئی، یہاں تک کہ ہم نے کچھ نقاب پوش مردوں کو دیکھا جو انگریزی بندوقیں یا کارلوستاف بندوقیں اور دستی بم لے کر کیمپ کی گلیوں میں گھومتے تھے۔ خاص طور پر شام کے قریب ، یہ ہمارے لیے معمول بن گیا کہ ہم جانتے تھے کہ رات کا کرفیو محض ایک جھوٹ ہے جو ہم بچوں، ہماری ماؤں اور کچھ معصوم لوگوں پر نہیں چلتا۔ مزاحمت سے جڑے مرد رات کو کیمپ پر قابض ہو جاتے اور قابض فوج کی گشتی پارٹیاں گلیوں میں داخل نہیں ہو سکتی تھیں اور صرف مرکزی سڑکوں پر رہتی تھیں۔ صبح ہوتے ہی مزاحمت کے مرد غائب ہو جاتے۔
گرمیوں کی چھٹیاں آ گئیں اور میری ماں نے مجھے اسکول میں داخل کروا دیا۔ میں چند دنوں بعد اسکول جانے کی تیاری کرنے لگا، تو میری ماں نے مجھے ایک نیا جوتا دیا، جو میرے لیے نیا تھا، لیکن پہلے سے استعمال شدہ تھا۔ دکانوں پر استعمال شدہ جوتے ہوتے تھے جو کیمپ کے بازار میں بیچے جاتے تھے، لیکن کچھ رنگ و روغن کرنے کے بعد یہ بالکل نئے جیسے دکھائی دینے لگتے تھے۔ اس کا سرخ رنگ مجھے بہت پسند آیا اور میرے دادا کو بھی بہت پسند آیا۔ میری ماں نے پرانے کپڑوں سے ایک چھوٹا سا بستہ بھی تیار کیا۔ اسکول کے لیے میرے پاس سب کچھ تیار تھا۔
گرمیوں کی چھٹیوں کے ختم ہونے سے پہلے، مزاحمت کا ایک جنگجو ایک گلی میں قابض فوج کی گشتی پارٹی پر گھات لگا کر بیٹھ گیا۔ جب وہ قریب پہنچے تو اس نے ان پر بم پھینکا جو پھٹ گیا اور جیپ میں موجود کئی فوجیوں کو زخمی کر دیا۔ جیپ ایک قریبی دیوار سے ٹکرا کر رک گئی۔ فوجیوں کی چیخ و پکار سنائی دینے لگی۔ جو زندہ بچ گئے تھے انہیں جب ہوش آیا تو انہوں نے ہر چیز پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ فوراً بڑی تعداد میں فوجی کمک پہنچ گئی اور لاؤڈ اسپیکر سے کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کر دیا گیا اور کہا گیا کہ خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جائے گی۔ لوگ اپنے گھروں میں جانے لگے۔ پھر فوجی درجنوں کی تعداد میں کیمپ کے کنارے والے گھروں میں گھسنے لگے اور عورتوں، مردوں اور بچوں کو لاٹھیوں سے بری طرح مارنے لگے۔
لاؤڈ اسپیکر سے ۱۸ سال سے ۶۰ سال کے مردوں کو اسکول جانے کا حکم دیا گیا۔ جب لاؤڈ اسپیکر خاموش ہوئے تو کچھ لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں جو سب کو باہر نہ نکلنے کی تلقین کر رہی تھیں اور بتا رہی تھیں کہ وہ کیمپ میں داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ مزاحمت کے جنگجو ہر طرف موجود ہیں اور تیار ہیں۔ واقعی، صرف وہ لوگ اسکول گئے جن کے گھر کیمپ کے کنارے تھے جہاں تک قابض فوج کو پہنچنے میں زیادہ خطرہ نہیں تھا۔ جب فوجی کیمپ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے تو ہر بار گلیوں کے کونوں سے بندوقوں اور مشین گنوں کی گولیاں ان پر برسنے لگتیں ، وہ بھاگنے اور چیخنے پر مجبور ہو جاتے۔
جو لوگ اسکول گئے، انہیں دوگنا مارا گیا اور بے عزت کیا گیا۔ پھر انہیں کیمپ واپس جانے کی اجازت دی گئی۔ کرفیو پورا ہفتہ جاری رہا ، جس نے ہمیں بیصارا، دال، چنے اور زیتون پر گزارا کرنے پر مجبور کیا۔ اگرچہ یہ کھانا خوف کے ساتھ ملا ہوا تھا، لیکن یہ ہمیں قبضے کے آغاز سے لے کر اب تک کا سب سے مزیدار کھانا لگا، کیونکہ ہر کوئی مزاحمت کی حفاظت میں عزت محسوس کر رہا تھا۔ کرفیو کے پہلے دو دن گزرنے کے بعد لوگ اپنے گھروں سے باہر نکلنے اور گلیوں میں اپنے گھروں کے دروازوں کے پاس بیٹھنے کی جرأت کرنے لگے، خاص طور پر کیمپ کی گہرائی میں تنگ گلیوں میں جہاں قابض فوج آسانی سے نہیں پہنچ سکتی تھی۔ وہاں پہلے ہی سے مزاحمت کے مرد حضرات اپنی جگہوں پر تیار بیٹھے تھے، اور کسی کونے یا دیوار کے پیچھے سے دشمن کی تاک میں تھے۔ میں نے بہت سے مزاحمت کرنے والے مردوں کو دیکھا، لیکن کسی کو پہچان نہیں سکا کیونکہ وہ سب فلسطینی رومال باندھے ہوئے ، اپنے ہتھیار اٹھائے اپنی جگہوں پر موجود تھے۔
میں نے محلے کے کئی پڑوسیوں کو ایک کونے میں بیٹھے چائے پیتے، سگریٹ بنا کر پیتے اور اپنے جذبات اور خوف و ہراس پر بات کرتے دیکھا۔ وہ قابض فوج کی طرف سے ذلت و رسوائی کا شکار ہونے کے باوجود عزت اور وقار محسوس کر رہے تھے لیکن انجان مستقبل کے خوف میں بھی مبتلا تھے۔ کیا حالات ایسے ہی رہیں گے؟ کیا وہ بڑی فوج کے ساتھ کیمپ پر حملہ نہیں کریں گے؟ کیا وہ کیمپ کو توپوں سے گولہ باری کرکے یا اسے جلا کر اس کے باشندوں کے سروں پر تباہی نہیں لائیں گے؟ آراء مختلف تھیں، لیکن صبر و استقامت کی ضرورت پر مبنی رائے غالب تھی اور بار بار دہرائی جانے والی بات یہی تھی کہ ’’ہمارے پاس کھونے کے لیے کیا ہے؟ ہمارے پاس صرف زنجیر اور ایجنسی (اقوامِ متحدہ)کا گھر ہی تو ہے، تو پھر خوف کس بات کا؟‘‘ اس طرح ہر گفتگو ختم ہوتی تھی۔ ہاں بھائی، بالکل صحیح، ایک منٹ کی عزت اور وقار کی زندگی ہزار سال کی ذلت بھری زندگی سے بہتر ہے۔ یہ صرف ہمارے کیمپ میں نہیں تھا بلکہ پورے غزہ کے کیمپوں میں، اور بہت سے شہروں اور دیہاتوں کی سڑکوں پر بھی یہی حالت تھی۔ مغربی کنارے اور غزہ میں مزاحمت بڑھ رہی تھی ، کچھ منظم اور بہت سے انفرادی اور مقامی آزاد منش لوگوں کی طرف سے اقدامات کیے جا رہے تھے۔ ہم نے خاص طور پر ہمارے قریب جبالیہ کیمپ میں مزاحمت کے کارناموں کے بارے میں سننا شروع کیا۔ وہاں ابو حاتم مزاحمت کی قیادت کررہے تھے، اور کیمپ کے نوجوانوں اور مردوں سمیت قریبی علاقوں کے درجنوں افراد اس میں شامل ہو چکے تھے ، سب ہی اسے ’’مخیم الثورة‘‘ کہنے لگے تھے۔
خبریں کیمپ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی تھیں، لوگوں کی خوشی بڑھا رہی تھیں اور حوصلے بلند کر رہی تھیں۔ ہم بچوں پر بھی اس کا اثر تھا، یہاں تک کہ ہمارے کھیل ’’عرب اور یہودی‘‘ میں بھی، ہم اسے روزانہ کھیلنے لگے اور یہ عام قاعدہ بن گیا کہ عرب غالب آئیں گے اور اپنے دشمنوں کو مار ڈالیں گے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 ’نمورا‘ ایک مشہور مصری مٹھائی ہے جو سوجی، دہی، چینی، اور ناریل سے تیار کی جاتی ہے اور اس کے اوپہر پر بادام یا پستے ڈالے جاتے ہیں۔ نمورا کی ساخت میں نرمی اور خشکی کا ایک خوبصورت امتزاج ہوتا ہے، اور اسے اکثر شربت یا عطر کی خوشبو سے مزیدار بنایا جاتا ہے۔ یہ مٹھائی خاص مواقع، تہواروں اور مہمان نوازی کے لیے بہت پسند کی جاتی ہے۔
2 ’بیصارۃ‘ ایک مشہور مصری پکوان ہے جو سبزی خور افرادمیں زیادہ مقبول ہے، یہ پکوان بنیادی طور پر فوا اور مصالحوں کا استعمال کرکے تیار کیا جاتا ہے۔ اس میں پیاز، لہسن، دھنیا، زیرہ اور دیگر مصالحے شامل کیے جاتے ہیں تاکہ اسے مزیدار بنایا جا سکے۔ بیصارۃ عام طور پر ایک گاڑھی پیسٹ کی شکل میں تیار کی جاتی ہے اور اسے روٹی یا چاول کے ساتھ کھایا جاتا ہے ۔