پیش لفظ
گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء شام سات بجے سے کچھ پہلے کا وقت تھا، میں اپنی یونیورسٹی کے پاس ایک انٹرنیٹ کیفے میں بیٹھا تھا کہ کینیڈا سے ایک پاکستانی دوست کا پیغام آیا: ’’نیو یارک ٹائمز چیک کرو ایک بہت زبردست کام ہوا ہے‘‘ ۔میں نے جلدی سے نیو یارک ٹائمز کی ویب سائٹ کھولی، وہاں فرنٹ پیج پر بڑے بڑے الفاظ میں لکھا تھا: “America under Attack!” اور اس کے نیچے ورلڈ ٹریڈ سنٹرز پر ہونے والے حملے کی خبر درج تھی۔ ابھی صرف جہاز ٹکرائے تھے، عمارتیں منہدم نہیں ہوئی تھیں ۔ اسی لمحے جنوبی ٹاور کے منہدم ہونے کی خبر بھی آ گئی۔ خبر پڑھ کر خوشی اور جوش کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ میں وہاں سے تیزی سے نکلا اور اپنے ہاسٹل پہنچا اور وہاں سب کو خبر سنائی، سن کر سب خوش ہوئے۔ ہاسٹل میں تب انٹرنیٹ کی سہولت نہیں تھی اس لیے بھاگا بھاگا قریبی انٹرنیٹ کیفے گیا تو شمالی ٹاور کے منہدم ہونے کی خبر بھی آ چکی تھی۔ بس میں ساری رات یہی کرتا رہا۔ اگلے دن جب خبر ہر جانب پھیل گئی تو ہر طرف جوش اور خوشی نظر آنے لگی، کسی کو بھی اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ حملہ مجاہدین نے کیا ہے، سب کو اس پر یقین تھا۔ لیکن پھر……
زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک متبادل بیانیے نے تیزی سے لوگوں کے دل و دماغ میں گھر کرنا شروع کر دیا۔ ایک متبادل بیانیہ جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیلتا جا رہا تھا کہ یہ حملے امریکہ نے خود کروائے ہیں یا یہ کہ یہ ایک ’یہودی سازش‘ ہے۔ ہمارے ہاں ’جو کروا رہا ہے امریکہ کروا رہا ہے‘ کا تصور تو ہمیشہ سے ہی موجود رہا ہے اور ہر واقعے کو ’یہودی سازش‘ قرار دے دینا بھی معمول کی بات رہی ہے اس لیے اس متبادل بیانیے اور اس سے جڑی سازشی تھیوریز کی جانچ پڑتال کرنے یا اس کے سچ یا جھوٹ ہونے کی کھوج لگانے کی کسی نے زحمت نہ کی اور یہی حال شاید باقی دنیا کا بھی ہے اس لیے دنیا کی اکثریت نے یقین کر لیا کہ یہ ایک ’یہودی سازش‘ یا ’Inside Job‘ ہے۔
لیکن یہ تو تئیس سال پرانی بات ہے، جب امریکہ واحد سپر پاور تھا، جب یہ تصور پایا جاتا تھا کہ امریکہ کی اجازت کے بغیر امریکہ میں کوئی پرندہ پر بھی نہیں مار سکتا۔ جب یہ تصور تھا کہ امریکہ اس قدر طاقتور ہے کہ کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ تب ایسا سوچنے والوں کو عذر دیا جا سکتا ہے، لیکن آج تئیس سال بعد جب ان دو دہائیوں میں امریکہ کا سارا غرور، رعونت، رعب اور واحد سپر پاور ہونے کا زعم خاک میں مل چکا،جب ان حملوں کے فیوض و برکات، ان کے دور رس نتائج و اثرات کھل کر سامنے آ چکے اور دنیا ’یونی پولر‘ سے ’ملٹی پولر‘ بن چکی ، آج بھی ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اب بھی گیارہ ستمبر کے با برکت حملوں کو “Inside Job” یا ’’یہودی سازش‘‘ قرار دیتے ہیں۔
آج تئیس سال بعد اس موضوع پر لکھتے ہوئے عجیب محسوس ہو رہا ہے۔ وہ لوگ جو آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حملے امریکہ نے خود کروائے ، یا یہ یہودی سازش ہیں یا ان کی مذمت کرتے ہیں، ان کو سمجھایا جائے یا ان کی عقلوں پر ماتم کیا جائے؟ تئیس سال میں اتنا کچھ گزر جانے کے بعد بھی جن کی آنکھیں نہیں کھلیں، جن کی آنکھیں شیخ اسامہ، شیخ ایمن اور دیگر بہت سے القاعدہ کی قیادت کے بیانات اور گیارہ ستمبر کے استشہادیوں کی وصیتوں کے الفاظ سے نہیں کھلیں انہیں میرے کمزور سے الفاظ کہاں کھول پائیں گے؟ لیکن قبولیت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر اس تحریر سے اللہ تعالیٰ کسی ایک شخص کی بھی آنکھیں کھول دے اور وہ حق اور حقیقت کو جان اور پہچان لے تو بس اس تحریر کا پورا معاوضہ وصول ہو گیا!
اللَّھُمَّ أرِنَا الحق حقًّا وارزقْنا اتِّباعَهُ وأرِنَا البَاطِلَ باطِلًا وارزُقْنا اجتِنابَه.
سازشی نظریات کس نےاور کیوں پھیلائے؟
سازشی نظریات جس انداز سے پھیلائے گئے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہیں پھیلانے کے پیچھے کوئی مقصد کارفرما ہے۔ بات اتنی سادہ نہیں کہ حکومت مخالف طبقے حکومت پر بد اعتمادی کے سبب پھیلا رہے ہوں۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو انہیں کچھ عرصے میں حقیقت کا ادراک ہو جاتا اور یہ نظریات دم توڑ جاتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر ان سازشی نظریات کو پھیلانے میں کس کا فائدہ تھا؟
اس پر جتنا بھی غور و فکر کیا جائے اور جتنا بھی تجزیہ کیا جائے یہی بات سامنے آتی ہے کہ ان نظریات کو پھیلانے کا سب سے زیادہ فائدہ امریکی حکومت کو ہی تھا اس لیے یہ نظریات امریکی حکومت کی جانب سے ہی پھیلائے جانے شروع ہوئے۔ بہت سے لوگ ہوں گے جنہیں اعتراض ہو گا کہ جس کے خلاف یہ نظریات پھیلائے جا رہے ہیں، جسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ خود انہیں کیوں گھڑے گی اور پھیلائے گی؟
لیکن درحقیقت امریکی حکومت کی جانب سے یہ نظریات گھڑنے اور پھیلانے کے پیچھے دو بڑے مقاصد کارفرما تھے۔
مجاہدین امریکہ کے واحد دشمن نہیں تھے، دنیا میں اور بہت سےایسے موجود تھے جو امریکہ سے خار کھائے بیٹھے تھے، لیکن امریکہ نے اپنے سپر پاور ہونے کا ایک ہوّا کھڑا کر رکھا تھا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ امریکہ بہت طاقتور ہے، اس کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا اور اس کی سرزمین پر جا کر اس کو نقصان پہنچانا تو سب کو دیوانے کا خواب ہی لگتا تھا۔ اب اگر لوگوں کے سامنے یہ حقیقت کھل جاتی کہ افغانستان کے غاروں میں بیٹھے بے سر و سامان چند ’دہشت گرد‘ اس قابل ہیں کہ وہ امریکہ میں گھس کر امریکیوں کو اتنے بڑے پیمانے پر ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں، تو امریکہ کے وہ دشمن جو ان سے کہیں زیادہ وسائل کے مالک ہیں وہ کیا کچھ نہیں کر سکتے؟ لیکن دوسری طرف امریکہ سرکاری سطح پر اس بات سے انکار بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ حملے القاعدہ نے کیے۔ اس طرح گیارہ ستمبر کے حملے امریکہ کے گلے میں پھنسی ایسی ہڈی بن گئے جسے نہ وہ نگل سکتا تھا اور نہ ہی اگل سکتا تھا۔ اس مسئلے سے نکلنے کے لیے امریکہ نے متبادل میڈیا کا سہارا لیا۔ ایک طرف مین سٹریم میڈیا پر سرکاری بیانیہ چلایا جبکہ دوسری طرف متبادل میڈیا کے ذریعے سازشی نظریات پھیلانا شروع کر دیے تاکہ لوگوں کے لیے یہ معاملہ مشتبہ ہو جائے اور اس کے دشمنوں پر اس کی طاقت کی دھاک بیٹھی رہے۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ اگر یہ سازشی نظریات نہ پھیلائے جاتے اور سب کو یہی علم ہوتا کہ یہ حملے القاعدہ نے کیے ہیں تو لازمی طور پر لوگ اس بات کی کھوج لگانے کی کوشش کرتے کہ ان حملوں کا سبب کیا تھا اور اگر امریکی عوام کو سبب سمجھ آجاتا تو یہ امریکی حکومت کے لیے موت تھی۔ حالانکہ حملوں کے فوراً بعد سے ہی یہ سازشی نظریات مشہور کر دیے گئے لیکن اس کے باوجود امریکہ میں بڑی تعداد میں لوگوں میں اسلام کے حوالے سے تجسس پیدا ہوا، قرآن کریم کے نسخے امریکہ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئےاور ان حملوں کی ہی برکت سے آنے والے سالوں میں بلامبالغہ لاکھوں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اگر یہ سازشی نظریات نہ ہوتے تو اس کے امریکی معاشرے پر جو اثرات مرتب ہونے تھے وہ امریکی حکومت اور اس کے آقاؤں کے لیے ناقابلِ برداشت تھے۔ آج بھی غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے بعد جب امریکہ کی اسرائیل کے لیے غیر مشروط حمایت کو لوگوں نے دیکھا تو خود امریکہ میں بہت سے لوگوں نے برملا اظہار کیا کہ گیارہ ستمبر کے حملے بر حق تھے اور اس کے بعد شیخ اسامہ کا امریکی عوام کے نام پیغام بہت مشہور ہوا۔ اسے دیکھتے ہوئےپھر سے ان سازشی نظریات کو ہوا دی گئی اور ایک بار نئے سرے سے ان کی تشہیر شروع کی گئی اس خوف سے کہ کہیں حقیقت لوگوں کے سامنے واضح نہ ہو جائے۔
امریکی حکومت کی جانب سے ان سازشی نظریات کو چنگاری دکھانے کے بعد اسے بھڑکانے کا کام دوسروں نے کیا۔ امریکہ میں بائیں بازو کا لبرل طبقہ امریکی حکومت کی پالیسیوں اور ان پر یہودی لابی کے اثرات سے ہمیشہ نالاں رہا ہے۔ ماضی میں ہونے والے سی آئی اے کے خفیہ آپریشنز جو منظر عام پر آتے رہے، ان کی وجہ سے اس طبقے نے یقین کرلیا کہ یہ حملے لامحالہ امریکہ نے ہی کروائے ہوں گے۔
ان سازشی نظریات کے پوری دنیا میں مشہور ہونے کے کچھ عرصہ بعد اُدھر عالمِ اسلام میں مین سٹریم میڈیا نے بھی ان نظریات کی تشہیر شروع کی۔ یہاں ایک سادہ سا سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر یہ حملے امریکہ نے ہی خفیہ طور پر کروائے ہوتے تو مسلم ممالک کا مین سٹریم میڈیا جو خود امریکی ٹکڑوں پر پلتا ہے وہ کیسے اس کی تشہیر کر سکتا تھا؟ اور وہ تشہیر کرے اور ان ممالک کے حکمران جو امریکہ کے براہ راست غلام ہیں وہ اسے نشر ہونے دیں اور روکنے کی کوشش بھی نہ کریں؟ واضح پتہ چلتا ہے کہ ان نظریات کی تشہیر ایک منظم منصوبے کے تحت کی جا رہی تھی۔ عالمِ اسلام میں اس بات کا ادراک کہ غاروں میں بیٹھے بے سرو سامان چند مجاہدین نے اٹھ کر امریکہ جیسی سپر پاور کو اس کی سرزمین میں گھس کر کاری ضرب لگائی یہ ایک طوفان برپا کر سکتا تھا اور مجاہدین کی محبت میں لوگ جوق درجوق مجاہدین کی صفوں میں شامل ہونے لگتے اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمِ اسلام کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے۔ اس کی روک تھام کے لیے ان سازشی نظریات کی تشہیر بہت ضروری تھی تاکہ لوگوں کے دلوں میں امریکہ کا رعب قائم رہے۔
حکمرانوں کی آشیرباد سے مین سٹریم میڈیا کی جانب سے کیے گئے اس پروپیگنڈا کو مسلمان عوام میں سیکولر اور لبرل نظریات رکھنے والوں نے سب سے پہلے قبول کیا ۔ یہ طبقہ نصرتِ الٰہی اور برکت جیسے تصورات سے بالکل نابلد ہوتا ہے اور اس کی نگاہیں عالمِ اسباب سے باہر دیکھ ہی نہیں پاتیں۔ اس لیے گیارہ ستمبر جیسے حملے اس طبقے کی نظر میں غاروں میں بسنے والے بے سرو سامان مجاہدین کے لیے ناممکن ہیں۔ اس لیے اس طبقے نے بھی ان سازشی نظریات کی تشہیر میں بھرپور حصہ لیا۔ یہ طبقہ اگر ایسی کسی چیز کو مجاہدین سے منسوب کرنے پر مجبور ہو بھی جائے تو بھی انہیں یقین ہوتا ہے کہ لازمی اس کے پیچھے کسی بڑی طاقت کا ہاتھ ہے۔اس کے علاوہ مغرب کے سامنے اسلامی تعلیمات کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ رکھنے والا ایک طبقہ بھی موجود ہے جو ہمیشہ دلائل دینے کی کوشش میں رہتا ہے کہ اسلام تو امن و سلامتی کا دین ہے ایسی دہشت گرد کاروائیوں سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔ اس طبقے نے بھی ان سازشی نظریات کی تشہیر میں اپنا کردار ادا کیا۔
چند اہم سازشی نظریات کا رد
گیارہ ستمبر کے با برکت حملوں کے بعد درجنوں سازشی نظریات نے جنم لیا۔ ان میں سے بہت سے تو اس قدر مضحکہ خیز تھے کہ انہوں نے دیگر کی ساکھ کو بھی متاثر کیا۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے تھے جو انتہائی کمزور بنیادوں پر کھڑے تھے اور جن کے رد کے لیے ناقابل تردید شواہد موجود تھے، لیکن بعض ایسے بھی رہے جنہیں اگرچہ ٹھوس دلائل کے ساتھ رد کیا گیا اور ان کے رد کے لیے ثبوت بھی پیش ہوئے لیکن یہ سب شواہد اور ثبوت مشرق و مغرب میں سازشی نظریات پر یقین رکھنے والے طبقے نے نظر انداز کر دیے۔ یہ سازشی نظریات درج ذیل ہیں:
جڑواں ٹاورز کو طیاروں کی بجائے اندر سے خود منہدم کیا گیا
ایک نظریہ یہ پایا جاتا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹرز کے جڑواں ٹاورز طیاروں کے ٹکرانے سے تباہ نہیں ہوئے اور نہ ہی ہو سکتے تھے۔ کیونکہ جیٹ فیول (طیاروں میں ڈلنے والے ایندھن) میں اتنی حدت نہیں ہوتی جو سٹیل کے بیموں کو پگھلا سکے۔ دونوں عمارتوں میں مختلف مقامات پر دھماکہ خیز مواد لگا کر منہدم کیا گیا اور ان دھماکوں سے توجہ ہٹانے کے لیے طیارے ٹکرائے گئے۔
اگر ان عمارتوں کو اندر دھماکہ خیز مواد لگا کر منہدم کیا گیا ہوتا تو اتنی بڑی عمارتوں کو سیدھا نیچے گرانے کے لیے جس قدر کام درکار تھا اس کے لیے ہفتوں پہلے سے پوری عمارت میں اہم مقامات پر دھماکی خیز مواد نسب کیا جانے کا کام شروع ہو جانا چاہیے تھا۔ ہر روز ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں پچاس ہزار ملازمین کام کے لیے آتے تھے اس کے علاوہ پورے دن میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد روزانہ ورلڈ ٹریڈ سنٹرز میں آتے جاتے تھے، اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی موجودگی کے ہوتے ہوئے یہ بات ناممکن ہے کہ تقریبا دو لاکھ لوگوں میں سے کسی نے بھی کبھی کسی کو ان عمارتوں میں دھماکہ خیز مواد لگاتے نہیں دیکھا۔ پھر اگر یہ کنٹرولڈ انہدام ہوتا تو ملبے اور اڑنے والی گرد میں دھماکہ خیز مواد کے ذرات اور بو ہونی چاہیے تھی لیکن اس کے بھی کہیں کوئی شواہد نہیں ملے۔
اصل نکتہ جس پر یہ ساری کہانی کھڑی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جیٹ فیول ( جہازوں میں ڈلنے والے ایندھن) کی جلنے کے دوران انتہائی حدت ۹۸۰ ڈگری سنٹی گریڈ تک ہوتی ہے جبکہ سٹیل ۱۵۰۰ ڈگری سنٹی گریڈ پر پگھلتا ہے تو پھر جیٹ فیول سٹیل کے بیم کیسے پگھلا سکتا ہے جس سے پوری عمارت گر جائے۔ لیکن یہ نظریہ پیش کرنے والے ایک بہت ہی سادہ اور بنیادی نکتہ نظر انداز کر دیتے ہیں اور وہ یہ کہ ان ٹاورز کی تباہی کے لیے سٹیل بیموں کا پگھلنا کیسے ضروری ہو گیا؟ تعمیراتی سٹیل ۶۰۰ ڈگری سنٹی گریڈ پر اپنی ۵۰ فیصد طاقت کھو دیتا ہے جبکہ ۱۰۰۰ ڈگری سنٹی گریڈ پر ۸۰ فیصد طاقت کھو دیتا ہے، اور دونوں ٹاورز میں درجہ حرارت ۱۰۰۰ ڈگری سنٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ صرف جیٹ فیول نہیں جل رہا تھا، طیاروں کے ٹکرانے کے بعد عمارتوں میں آگ لگ گئی جس کی وجہ سے عمارت میں لاتعداد دیگر چیزیں بھی جلنے لگیں۔ عمارتوں کی لفٹ کی جگہوں سے یہ جیٹ فیول دیگر منزلوں تک بھی گرا اور وہاں بھی آگ بھڑک اٹھی، عمارتوں میں جیٹ فیول کے ساتھ فرنیچر، کاغذات، کارپٹ، پلاسٹک وغیرہ جیسی لاتعداد چیزیں جل رہی تھیں جو آگ کی حدت میں خاطر خواہ اضافہ کر رہی تھیں۔ دونوں ٹاورز میں یہ ۱۰۰۰ ڈگری سنٹی گریڈ تک پہنچی ہوئی بے قابو آگ تقریباً ایک گھنٹے تک جلتی رہی جس سے سٹیل کے بیم وغیرہ شدید کمزور پڑ گئے اس کے ساتھ ساتھ طیاروں کے ٹکرانے سے ان ٹاورز کے ان ستونوں کو شدید نقصان پہنچا تھا جن کے سہارے یہ ٹاورز کھڑے تھے۔ اس لیے یہ ستون اور سٹیل بیم اپنی اوپر کی منزلوں کا وزن برداشت نہیں کر پائے جس سے طیارے کے ٹکرانے کے اوپر کی منزلیں منہدم ہو گئیں ان منزلوں کے انہدام سے نچلی منزلوں پر بوجھ بڑھتا گیا اور وہ بھی بتدریج منہدم ہوتی چلی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ جنوبی ٹاور سے طیارہ بعد میں ٹکرایا جبکہ شمالی ٹاور سے پہلے ٹکرایا تھا، پھر بھی جنوبی ٹاور، شمالی سے پہلے منہدم ہو گیا، اس لیے کہ جنوبی ٹاور سے طیارہ ۷۷ویں سے ۸۵ویں منزل کے درمیان ٹکرایا تھا جبکہ شمالی ٹاور سے طیارہ ۹۳ویں سے ۹۹ویں منزل کے درمیان ٹکرایا تھا اس لیے جنوبی ٹاور کے ستونوں کے لیے اوپر کی منزلوں کا وزن زیادہ تھا اور وہ جلدی ٹوٹ گئے اور پوری عمارت منہدم ہو گئی۔
بلڈنگ ۷ کو خود منہدم کیا گیا
جس سازشی نظریے کا شور جڑواں ٹاورز سے بھی زیادہ مچایا جاتا ہے وہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی بلڈنگ ۷ کی تباہی ہے۔ یہ عمارت جڑواں ٹاورز کے شمال میں واقع تھی، اس میں دیگر کئی سرکاری دفاتر کے ساتھ سی آئی اے کا دفتر بھی تھا۔ شام ۵:۲۰ پر یہ عمارت اچانک مکمل طور پر زمین بوس ہو گئی۔ اس کی تباہی کے حوالے سے زور و شور سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسے خود منہدم کیا گیا کیونکہ اس عمارت سے تو کوئی طیارے نہیں ٹکرائے پھر یہ اس طرح اچانک پوری کی پوری زمین بوس کیسے ہو گئی؟
سب سے پہلے تو جڑواں ٹاورز کی طرح اس عمارت کو بھی خود سے منہدم کرنے کی دلیل کمزور ہے کیونکہ اس کے لیے اہم مقامات پر دھماکہ خیز موادکا لگایا جانا ضروری ہوتا ہے اور اس عمارت میں بھی نہ تو ایسا کرتے ہوئے کسی نے دیکھا اور نہ ہی بعد میں ایسے کوئی شواہد ملے۔ اس کے علاوہ خود سے انہدام کیا جائے تو دھماکوں کی آوازیں بہت واضح اور دور تک آتی ہیں لیکن یہ پوری عمارت خاموشی سے زمین بوس ہو گئی اور دھماکوں کی کوئی آواز نہیں سنی گئی۔
دراصل شمالی ٹاور کی تباہی کے بعد اس کا بہت سا ملبہ بلڈنگ ۷ پر بھی آ کر گرا جس کی وجہ سے پہلی سے دسویں منزل تک عمارت کا تقریبا پچیس فیصد حصہ جنوبی جانب سے تباہ ہو گیا جس سے عمارت کی ساخت کمزور پڑ گئی اور ساتھ میں پوری عمارت میں آگ بھڑک اٹھی۔ جڑواں ٹاورز کے گرنے سے آگ بجھانے کے لیے پانی کی فراہم کا نظام منقطع ہو چکا تھا اور اس عمارت میں آگ بے قابو ہو گئی اور کئی گھنٹوں تک جلتی رہی۔
آگ تقریباً سات گھنٹوں تک جلتی رہی جس کی وجہ سے ملبہ گرنے کی وجہ سے عمارت کا پہلے سے کمزور ہو چکا ڈھانچہ مزید کمزور ہوتا چلا گیا۔ عمارت کو سہارا دینے کے اہم ستون منزل ۷ اور ۱۳ کے درمیان تھے اور انہیں منزلوں پر سب سے زیادہ آگ بھڑک رہی تھی ۔ یہ ستون کمزور ہونے کی وجہ سے پوری عمارت کا وزن برداشت نہیں کر سکے جس کی وجہ سے پوری عمارت بتدریج پوری کی پوری زمین بوس ہو گئی۔
پنٹا گون سے کوئی مسافر طیارہ نہیں ٹکرایا
اور ایک سازشی نظریہ جس کا شد و مد سے ذکر کیا جاتا ہے وہ ہے کہ پنٹاگون سے کوئی مسافر طیارہ نہیں ٹکرایا، بلکہ اسے کسی میزائل یا کسی اور چیز سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے لیے بہت سے دلائل پیش کیے جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا جائزہ یہاں لیتے ہیں۔
ایک دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ جو پنٹاگون کی عمارت میں ٹکرانے سے سوراخ بنا وہ کسی بوئنگ ۷۵۷ کے اعتبار سے بہت چھوٹا تھا اس لیے یا تو اسے کسی میزائل سے نشانہ بنایا گیا ہے یا کسی چھوٹے جہاز سے۔ لیکن سازشی نظریات پھیلانے والے اس حوالے سے مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ بہت سوں کا دعویٰ تو یہ بھی تھا کہ سوراخ صرف ۱۶ فٹ چوڑا تھا، حالانکہ سوراخ تقریباً ۹۶ فٹ چوڑا تھا جو بوئنگ ۷۵۷ کی چوڑائی سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس طیارے کی دم اور پر ہلکے مٹیریل کے بنے ہوتے ہیں اس لیے وہ ٹکراتے ہی ٹوٹ کر علیحدہ ہو گئے جن میں زیادہ تر حصہ جل کر بھسم ہو گیاجبکہ کچھ حصے پنٹاگون کی عمارت سے باہر میدان میں گرے جن کی تصاویر بھی بعد میں میڈیا پر نشر ہوئیں۔
یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ پنٹاگون سے جہاز کا ملبہ نہیں مل سکا۔ حالانکہ فائر فائٹرز اور ابتدائی طبی امداد کے بہت سے افراد نے گواہی دی کہ انہوں نے جہاز کا ملبہ عمارت میں دیکھا جس میں انجن کے ٹکڑے، لینڈنگ گئیر اور دیگر حصے شامل ہیں، اور ان چیزوں کی تصاویر بھی انٹرنیٹ پر نشر ہوئیں۔
اس کے علاوہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کسی بڑے جہاز کے پنٹاگون سے ٹکرانے کے کوئی شواہد موجود نہیں، جو سکیورٹی کیمرے کی فوٹیج سامنے آئی اس سے بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ٹکرانے والا کوئی بڑا جہاز تھا۔ یہ بات اس حد تک درست ہے کہ اس زمانے کے سکیورٹی کیمروں کی کوالٹی اتنی اچھی نہیں تھی کہ وہ ۵۰۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کرتی ہوئی کسی چیز کو واضح طورپر دکھا سکے اس لیے جو سکیورٹی فوٹیج سامنے آئی وہ کچھ دھندلی سی تھی لیکن اس میں پھر بھی اتنا واضح اندازہ ہو جاتا ہے کہ جو بھی چیز پنٹا گون سے ٹکرائی تھی وہ کسی میزائل یا چھوٹے جہاز کی طرح چھوٹی چیز نہیں تھی بلکہ بوئنگ ۷۵۷ کے حجم جیسی کوئی بڑی چیز ہی تھی اور اسی سے سازشی تھیوری پھیلانے والوں کے دعوے کا رد ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بے شمار لوگوں نے بوئنگ ۷۵۷ کے پنٹاگون سے ٹکرانے کی گواہی دی، جن میں سرکاری ملازمین، سکیورٹی اہلکار اور عام شہری بھی شامل ہیں۔
ایک اورغلط فہمی جو پھیلائی جاتی رہی ہے وہ یہ کہ پنٹا گون اتنی محفوظ جگہ تھی کہ وہاں تو اجازت کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ وہاں خودکار میزائل سسٹم نصب تھے جو کسی بھی حملہ آور میزائل یا طیارے کو ٹکرانے سے بہت پہلے خودبخود نشانہ بنا لیتے۔ حالانکہ یہ ایک جھوٹا دعویٰ ہے۔ پہلی بات یہ کہ پنٹاگون وزارت دفاع کا دفتر ہے نہ کہ کوئی ملٹری بیس۔ امریکیوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ اس پر بھی حملہ ہو سکتا ہے اس لیے وہاں ایسا کوئی دفاعی نظام نصب نہیں تھا۔ لیکن اگر فرض کر بھی لیں کہ وہاں ایسا کوئی نظام نصب بھی تھا تو بھی ان کا خودکار نظام کسی مسافر طیارے کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں بنا ہوتا۔ جب تک طیارہ فضا میں دور تھا تب تک کوئی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ یہ پنٹاگون سے ٹکرانے آ رہا ہے اور ٹکرانے سے پہلے طیارہ زمین کے کافی قریب اڑنے لگا تھا ایسے میں کسی فضائی دفاع کے نظام کے لیے اس کی نشاندہی کرنا ناممکن تھا۔
ایک اور دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ زمین کے جتنے قریب سے طیارہ پنٹاگون سے ٹکرایا یہ کسی ناتجربہ کار پائلٹ کے لیے ناممکن تھا۔ لیکن یہ بات بھی درست نہیں۔ یہ کام کسی ناتجربہ کار پائلٹ کے لیے تب ناممکن ہوتا جب اس کا مقصد ایمرجنسی میں طیارے کو بحفاظت اتارنا ہو۔ لیکن جب مقصد ہی طیارے کو ٹکرانا ہو تو جس نے ایمرجنسی لینڈنگ کی کچھ بنیادی تربیت بھی حاصل کی ہو اس کے لیے ایسا کرنا مشکل نہیں تھا اور یہ تربیت اس طیارے کو چلانے والے استشہادی مجاہد ہانی حنجورتقبلہ اللہ نے حاصل کر رکھی تھی۔
یہ حملے ایک یہودی سازش تھے
ایک سازشی نظریہ جس کا آج بھی سب سے زیادہ واویلا مچایا جاتا ہے اور غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے بعد سے اسے مزید اچھالا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ گیارہ ستمبر کے حملے یہودی خفیہ ادارے ’موساد‘ نے کروائے۔ اس کی دلیل کے طورپر دو چیزیں پیش کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہودیوں کو پہلے سے اس حملے کا علم تھا اور اس روز ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں کام کرنے والے یہودی چھٹی پر تھے۔ دوسرا یہ کہ پانچ اسرائیلی ان حملوں کی ویڈیو ریکارڈنگ کرتے ہوئے اور ناچتے اورخوشیاں مناتے ہوئے دیکھے گئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اسرائیل کا کام تھا۔
اس میں سے پہلا دعویٰ تو بالکل جھوٹ ہے جو زیادہ عرصہ نہیں چل سکا اس لیے آج کل ان حملوں کو یہودی سازش کہنے والے اس دعوے کا زیادہ ذکر نہیں کرتے۔ اس بات کے مکمل ثبوت موجود ہیں کہ جڑواں ٹاورز میں کل ۴۰۰ یہودی مارے گئے تھے ۔
جہاں تک بات ہے پانچ ’ناچتے یہودیوں‘ کی تو اس بات میں کسی حد تک سچائی ہے لیکن مکمل نہیں۔ گیارہ ستمبر کے دن حملوں کے دوران ایک گھریلو خاتون نے نیو یارک پولیس کو فون کر کے شکایت درج کروائی کہ اس کے گھر کے باہر پانچ افراد کھڑے جڑواں ٹاورز کی تباہی کی ویڈیو بنا رہے ہیں اور ساتھ میں ناچ رہے ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں۔ پولیس نے فوراً کارروائی کی اور ان پانچوں افراد کو گرفتار کر لیا۔ میڈیا اداروں نے اس خاتون سے پوچھا کہ اس نے درحقیقت کیا دیکھا تھا کیا وہ واقعی ناچ رہے تھے؟ تو اس خاتون نے انکار کیا اور کہا کہ دراصل یہ لوگ مجھے اس واقعہ پر افسردہ یا صدمے کا شکار محسوس نہیں ہوئے جیسے کہ ہم سب ہیں بلکہ مجھے لگا کہ یہ لوگ خوش ہیں اس لیے میں نے شک کی بنا پر ان کی شکایت درج کروائی۔ تحقیقات سے علم ہوا کہ یہ پانچوں افراد اسرائیلی شہری تھے جو وہاں ایک گھر منتقلی کی کمپنی میں ملازمین تھے اور دیگر بہت سے افراد کی طرح اس واقع کی ویڈیو بنا رہے تھے۔ تحقیقات کے بعد ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا اور انہیں رہا کر دیا گیا۔
اس طرح ایک گھریلو خاتون کی مبالغہ آرائی پر مبنی شکایت کی بنا پر ہونے والی پانچ اسرائیلی شہریوں کی گرفتاری کو بنیادبنا کر کسی بھی اور ثبوت کے بغیر اتنا بڑا افسانہ گھڑ لیا گیا کہ یہ حملے اسرائیل نے کروائے۔حالانکہ اسرائیل امریکہ کا بغل بچہ ہے، امریکہ اسرائیل کی بقا کا ضامن ہے وہ کیسے اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتا ہے؟ اگر یہ حملے اسرائیل نے کیے ہوتے تو اس کا لازمی مطلب یہ ہوتا کہ امریکی حکومت بھی اس میں ملوث ہے۔ لیکن اس حملے میں حکومت کے ملوث ہونے کا مطلب ہے کہ یہ منصوبہ اعلیٰ سطح کے چند لوگوں تک محدود نہیں ہو گا بلکہ اس پر عمل درآمد کے لیے بہت سے اداروں اور افراد تک احکامات گئے ہوں گے۔ لیکن تئیس سال گزر گئے کوئی ایک بھی ایسا فرد حکومتی صفوں سے سامنے نہیں آ سکا جو اس سازش کو بے نقاب کر سکے۔ جولین اسانج نے وکی لیکس کے ذریعے بہت سے حکومتی رازوں سے پردہ اٹھایا لیکن گیارہ ستمبر کے حملوں کا کوئی ذکر نہیں۔ جب چھوٹی چھوٹی داخلی سطح کی چیزیں کچھ سالوں بعد لیک ہو جاتی ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ اتنا بڑا واقعہ جس میں اتنے بڑے پیمانے پر لوگ ملوث ہوں، جس کے بارے میں شروع سے لوگ شک کا بھی اظہار کر رہے ہوں، جس کے بارے میں ایک آزادتحقیقاتی کمیشن نے سالوں تک تحقیقات بھی کی ہوں اور اس حوالے سے ایک بھی ثبوت سامنے نہ آ سکا ہو؟
حملوں میں امریکی مقاصد کے دعوے اور ان کا رد
جو لوگ کہتے ہیں کہ گیارہ ستمبر کے حملے امریکہ نے خود کروائے وہ اس میں امریکہ کے تین مقاصد بیان کرتے ہیں:
امریکہ افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے بہانا چاہتا تھا
جو لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں سب سے پہلے ان سے سوال ہےکہ غیر جانبدارانہ انداز میں اچھی طرح سوچیں کہ کیا امریکہ کو واقعی حملہ کرنے کے لیے کسی بہانے کی ضرورت تھی؟ اور بہانہ بھی ایسا کہ جس کے لیے وہ اس قدر انتہا تک چلا جائے کہ اس کا اپنا کھربوں ڈالرز کا نقصان ہو جائے؟ کیا ماضی میں اس کے قریب کیا اس کے چوتھائی درجے کی بھی کوئی مثال ملتی ہے جہاں امریکہ نے کسی پر حملہ کرنے کا بہانہ ڈھونڈنے کے لیے اپنا نقصان کیاہو؟ وہ ملک جو اُس وقت دنیا کی واحد سپر پاور تھا، جو روس کو سرد جنگ میں ہرا کر اب پوری دنیا کا بے تاج بادشاہ بنا بیٹھا تھا، اسے افغانستان جیسے گزشتہ سالوں میں خانہ جنگی کی وجہ سے تباہ حال ملک پر حملہ کرنے کے لیے بہانے کی ضرورت تھی؟ جو لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں وہ جدید عالمی نظام سے بالکل ناواقف ہیں۔ یہاں امریکہ کی عسکری اور خارجہ پالیسیوں کی تاریخ پر ایک اچٹتی نظر ڈالتے ہیں۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں عالمی غنڈوں نے اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اس طرح جنگوں سے اپنے مقاصد حاصل کرنا انہیں بہت مہنگا پڑتا ہے اور اب جبکہ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہو چکا ہے اور جب تقریباً ساری دنیا ہی ان کی مرضی کے نظاموں کے تحت قومی ریاستوں میں تقسیم ہو چکی ہے تو اب انہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جنگیں لڑ کر اپنا نقصان کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اس لیے انہوں نےاقوام متحدہ کا ادارہ بنایا ۔
لیکن ایک مسئلہ باقی تھا۔ دنیا پر سرداری کا دعویدار صرف امریکہ ہی نہیں تھا بلکہ روس بھی تھا۔ جس طرح کسی علاقے میں دو کتے ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے، یا کوئی ایک غنڈوں کا گروہ کسی اور کی غنڈہ گردی برداشت نہیں کرتا اسی طرح یہ عالمی غنڈے بھی دنیا پر اپنی سرداری کے دعوے میں کسی اور کو شریک نہیں دیکھ سکتے تھے۔ لیکن رکاوٹ یہ تھی کہ دونوں عالمی غنڈے ایٹمی طاقت کے حامل تھے اور ایٹمی حملے کی تباہی کی ہلکی سی جھلک جاپان میں دیکھے ہوئے ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا تھا، اس لیے طرفین کی حتمی تباہی کی ملٹری ڈاکٹرائن“Mutual Assured Destruction” (MAD)1 نے جنم لیا۔ اسی ’میڈ‘ ڈاکٹرائن نے آگے جا کر ’ڈیٹرنس تھیوری‘ (Deterrence theory) کو جنم دیا۔ ڈیٹرنس تھیوری یہ ہے کہ اپنی عسکری طاقت کا مظاہر کر کے اور اس میں مستقل اضافہ کرتے ہوئے اپنے حریف کو اس قدر خوفزدہ رکھا جائے کہ وہ آپ کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔ اسی ڈیٹرنس تھیوری کا استعمال کرتے ہوئے امریکہ نے ہمیشہ پوری دنیا میں اپنی غنڈہ گردی چلائی اور اپنی من مانی کرتا رہا 2، لیکن درمیان میں ایک ویتنام جنگ بھی آ گئی۔
ویتنام جنگ میں بھی امریکہ براہ راست فل سکیل جنگ میں نہیں گھسنا چاہتا تھا جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔امریکہ کا ہدف آغاز میں صرف جنوبی ویتنام کی حکومت کو عسکری امداد اور تعاون و مشاورت دینے کی حد تک ہی تھا لیکن صورتحال توقع کے برخلاف ہاتھ سے نکلتی چلی گئی اور امریکہ کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ اگر ویتنام کمیونسٹ بلاک میں چلا گیا تو اردگرد کے تمام ہمسایہ ممالک بھی ایک ایک کر کے کمیونسٹ بلاک میں شامل ہوتے چلے جائیں گے اور یہ امریکہ کے لیے ناقابل قبول تھا۔ اس کے بعد امریکی پالیسی سازوں نے شمالی ویتنام اور ویت کانگ (Veit Cong) کی فوج کی اہلیت و قابلیت کے بارے میں غلط تخمینے لگائے اور اپنی طاقت کے نشے میں دھت امریکہ براہ راست تصادم میں گھس گیا لیکن بیس سال تک ۲۷ لاکھ امریکی فوجیوں کو اس جنگ میں کھپانے اور ان میں سے ۵۸ ہزار کو مروانے کے بعد امریکہ کو دم دبا کر بھاگنا پڑا۔
ویتنام کی شکست نے امریکہ کے اندر براہ راست تصادم میں داخل ہونے سے بچنے کی سوچ کو مزید تقویت دی اور اب اس حوالے سے باقاعدہ پالیسیاں بھی بنا دی گئیں۔ ۱۹۷۳ء میں امریکی صدر سے امریکی افواج کو کسی جنگ میں صرف اپنے فیصلے پر داخل کرنے کے ’ایگزیکٹو اختیارات‘ واپس لے لیے گئے اور اسے اس فیصلے کے لیے کانگرس سے اجازت لینے کا پابند کر دیا گیا۔3 ویتنام جنگ کے بعد سے امریکی عوام، اداروں اور پالیسی سازوں میں کسی بھی ملک کے خلاف براہ راست تصادم اور فل سکیل (full scale) جنگ میں گھسنے کی شدید مخالفت پیدا ہو گئی4۔ ویتنام جنگ کے بعد خارجہ تعلقات میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے عسکری تصادم کی جگہ سفارتی و معاشی دباؤ کی ترجیح دی جانے لگی اور ناگزیر عسکری تصادم کی صورت میں بھی فضائی اور بحری طاقت کے استعمال کو ترجیح پر رکھا گیا اور یہ سب چیزیں خلیج جنگ میں نظر بھی آئیں۔
گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے با برکت حملوں نے امریکہ کو ایک مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا۔ اگر تو امریکہ واقعی میں براہ راست تصادم کے لیے بہانے ڈھونڈ رہا ہوتا تو ۱۹۹۸ء میں نیروبی، کینیا اور دارالسلام، تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر ہونے والے حملے اور ۲۰۰۰ء میں امریکی بحری جہاز یو ایس ایس کول (USS Cole) پر ہونے والے حملے اس کے لیے کافی تھے۔ لیکن بیان کردہ ساری تاریخ سے واضح ہے کہ براہ راست جنگ میں اترنا امریکہ کی پالیسی نہیں تھی، بلکہ وہ مذکورہ بالا پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے ہی اپنے مطالبات منوانے کی کوشش میں تھا کہ گیارہ ستمبر کے حملے ہو گئے۔ اب یہ امریکہ کی ساکھ کا مسئلہ بن گیا تھا، اب اگر وہ براہ راست تصادم میں نہ اترتا تو پوری دنیا میں اس کی عزت خاک میں مل جاتی۔ لیکن اس کے بعد بھی امریکہ کا رویہ ویسا نہیں تھا جیسا کسی جنگ کے خواہاں ملک کا ہونا چاہیے تھا۔ امریکہ کے پاس اتنی فوج اور اتنا اسلحہ موجود تھا کہ وہ کسی اور کی مدد کے بغیر بھی افغانستان پر قبضہ کر کے امارت اسلامیہ کی حکومت کو ختم کر سکتا تھا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا ۔ امریکہ جنگ کا سارا بوجھ خود اٹھانے کی بجائے ساری دنیا کے ممالک کو اس میں گھسیٹ لایا اور جنگ کا بوجھ سب پر تقسیم کر دیا۔ پھر بھی امریکہ کو زعم یہی تھا کہ یہ ایک محدود درجے کی جنگ ہو گی امارت اسلامیہ کا تختہ الٹنے کے بعد حکومت شمالی اتحاد کے ہاتھ میں دے دی جائے گی، ان کی ایک فوج تشکیل دی جائے گی جن کو تربیت دینے کے بعد امریکہ افغانستان سے نکل جائے گا اور القاعدہ کے خلاف انٹیلی جنس کاروائیوں کے لیے محدود خصوصی دستے اور کچھ فوجی اڈے پیچھے چھوڑے گا ، لیکن امریکہ کا یہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہو پایا، جنہیں حکومت سونپی گئی وہ شدید بدعنوان اور جو فوج بنائی گئی وہ شدید نا اہل نکلی اور امریکہ نے افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت اور فوج کی تشکیل کی کوشش میں بیس سال گزار دیے اور آخر کار اسے وہاں سے بھی ذلیل و خوار ہو کر نکلنا پڑا۔
ا س ساری تاریخ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ تو گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد بھی مکمل جنگ میں گھسنے سے ہچکچا رہا تھا کجا یہ کہ وہ اس جنگ میں گھسنے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہا ہو۔ لیکن جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ ’امریکہ کے جنگ میں گھسنے سے افغان عوام پر جو آزمائشیں آئیں اگر گیارہ ستمبر کے حملے نہ ہوتے تو نہ آتیں‘، اس کا جواب ان شاء اللہ اس سے متعلقہ عنوان کے تحت آگے آئے گا۔
امریکہ قدرتی وسائل پر قبضے کے لیے جنگ چاہتا تھا
اگرچہ یہ دعویٰ کہ امریکہ جنگ کا خواہاں تھا اور اس کے لیے اس نے گیارہ ستمبر کے حملے کیے اب تک کی تحریر میں پوری طرح سے رد ہو چکا ہے لیکن پھر بھی اس کے اس ذیلی نکتے، کہ جنگ کا مقصد قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا تھا ، پربات کر لیتے ہیں۔
یہاں بھی سب سے پہلے تو یہی سوال اٹھتا ہے کہ امریکہ افغانستان کی جنگ میں یومیہ ۳۰ کروڑ ڈالر خرچ کر رہا تھا۔ ایسے کون سے قدرتی وسائل ہیں جن کے حصول کے لیے ۳۰ کروڑ ڈالر یومیہ خرچ کیا جائے اور اس کے بعد بھی وہ منافع بخش رہیں؟ دوسری بات یہ کہ ان بیس سالوں میں امریکہ نے افغانستان سے کون سے قدرتی وسائل حاصل کیے ہیں؟ ان بیس سالوں میں ایسے کوئی شواہد نہیں ملتے کہ امریکہ نے افغانستان سے کوئی ایسے قدرتی وسائل حاصل کیے ہوں اور بڑی مقدار میں اپنے ساتھ لے کر گیا ہو جن کے بارے میں کہا جا سکے کہ یہ جنگ کی وجہ ہو سکتے ہیں۔
اور سب سے اہم سوا ل یہ ہے کہ افغانستان تو ایک طرف، پوری دنیا سے قدرتی وسائل ہتھیانے کے لیے امریکہ کو جنگ کی ضرورت آخر کب پیش آئی؟ اگر جنگ ہی حل ہوتا تو اس نے ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پھر کس مقصد سے پال رکھا ہے؟
اس وقت پوری دنیا کے قدرتی وسائل کا ۷۴ فیصد حصہ امریکہ اور یورپی یونین استعمال کر رہے ہیں، یعنی پوری دنیا کے قدرتی وسائل کا تقریباً تین چوتھائی حصہ صرف امریکہ اور یورپی یونین کھا جاتے ہیں اور اس میں سے تقریباً سب کچھ ہی انہیں بغیر جنگ کے حاصل ہوا ہے، اور یہ سب کچھ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مرہون منت ہے۔ اس وقت عالم اسلام میں بے شمار امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جو مختلف معاہدوں اور حیلے بہانوں سے ہمارے قدرتی وسائل ہتھیا کر امریکہ لے جا رہی ہیں۔ مثلاً:
سب سے مشہور مثال آرامکو (ARAMCO) کی ہے جو امریکی کمپنی ’’سٹینڈرڈ آئل آف کیلیفورنیا‘‘ [موجودہ شیورون (Chevron) ] نے سعودی عرب سے تیل نکالنے کے لیے بنائی۔ یہ کمپنی عشروں تک سعودی عرب سے تیل نکالنے کے صرف معاوضے کے طور پر ساٹھ فیصد تیل لے جاتی تھی۔ باقی ماندہ ۴۰ فیصد تیل کے معاملے میں بھی امریکی حکومت نے سعودی حکومت سے معاہدہ کر رکھا تھا جس کے تحت امریکہ یہ تیل کوڑیوں کے بھاؤ خریدتا تھا۔۱۹۸۸ء میں یہ کمپنی سعودی حکومت نے اپنی ملکیت میں لے لی اور اس کا نام بدل کر ’سعودی آرامکو‘ رکھ دیا گیا5۔
انڈونیشیا کی گراسبرگ مائن سونے اور تانبے کی دنیا کی سب سے بڑی کانوں میں سے ایک ہے۔ ۲۰۲۳ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس کان سے چھ لاکھ اسّی ہزار ٹن تانبا جبکہ ۵۳ ٹن سونا حاصل کیا جا چکا ہے۔ ۲۰۱۸ء تک اس کان کے تمام حقوق امریکی ملٹی نیشنل کمپنی “Freeport-McMoRan” کے پاس تھے ۔ ۲۰۱۸ء میں انڈونیشیا کی حکومت نے اس کمپنی کے ساتھ نیا معاہدہ کیا جس کے بعد اب اس کے پاس اس کان کے ۴۹ فیصد حقوق ہیں۔ اس کان سے تانبا اور سونا نکالنے کاکام ۱۹۷۲ء میں شروع ہوا۔ اس وقت سے ۲۰۱۸ء تک یعنی چھیالیس سال تک یہ کمپنی بلا شرکت غیرے سارا تانبا اور سونا ہتھیا کر امریکہ بھیجتی رہی اور کوئی اس سے پوچھنے والا نہ تھا اور اب نئے معاہدے کے تحت بھی وہ ۲۰۴۱ء تک اس کان کے تقریباً آدھے سونے اور تانبے کی مالک ہے۔
قازقستان کے شمال مغرب میں تنگیز آئل فیلڈ دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے گہری آئل فیلڈ میں سے ایک ہے۔ اس آئل فیلڈ میں موجود قابل استعمال تیل کا تخمینہ ۶ سے ۹ ارب بیرل لگایا جاتا ہے۔ ۱۹۹۳ء میں اس فیلڈ سے تیل نکالنے کا آغاز ہوا اور اسے دو امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں شیورون (Chevron) اور ایگزون موبل (ExxonMobil) نے شروع کیا۔اس آئل فیلڈ میں شیورون کے شیئرز ۵۰ فیصد ہیں جبکہ ایگزون موبل کے شیئرز ۲۵ فیصد ہیں۔ اس طرح یہ دونوں کمپنیاں اس آئل فیلڈ کی ۷۵ فیصد پیداوار امریکہ لے جاتی ہیں۔
ان تین مثالوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ کس طرح امریکہ آج بھی اسلامی خطوں سے قدرتی وسائل بغیر کوئی جنگ کیے ہتھیا رہا ہے اس لیے یہ بات بالکل بے بنیاد ہے کہ امریکہ ہمارے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے جنگ شروع کرنا چاہتا تھا۔
اسلحہ ساز فیکٹریاں جنگ کی خواہاں
یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ اسلحہ ساز فیکٹریوں نے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس (Military-Industrial Complex)6 کی مدد سے حکومت کو جنگ کرنے پر اکسایا جس کی وجہ سے گیارہ ستمبر کا ’ڈرامہ‘ رچایا گیا۔ یہاں بھی اگرچہ ہم خاص گیارہ ستمبر کے حوالے سے بات رد کر آئے ہیں لیکن اس مفروضے پر بات کر لیتے ہیں کہ کیا ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس چاہے گا کہ امریکہ افغانستان میں ایک فل سکیل جنگ میں گھسے اور اس کا بہانہ بنانے کے لیے گیارہ ستمبر کے حملے بھی کرے؟
اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ امریکہ میں اس ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا دفاعی پالیسیوں اور جنگوں کے حوالے سے فیصلوں پر بہت اثرو رسوخ ہوتا ہے۔ یہ گٹھ جوڑ خالص زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے قائم ہے لیکن نہ تو یہ اتحاد اس قدر بااثر ہے اور نہ ہی یہ خود کبھی چاہے گا کہ اپنے فوری اور تیز منافع کے لیے امریکہ کو خودکشی کی راہ پر ڈال دے۔ اپنے ہی ملک میں گیارہ ستمبر کے حملے کروا کر معیشت کو کھربوں ڈالر کا نقصان کروانا اور پھر اس کی وجہ سے امریکہ کو ایک فل سکیل جنگ میں دھکیل دینا اس اتحاد کے لیے بھی بہت مفید فیصلہ نہیں ہو سکتا جبکہ انہیں اپنے مطلوبہ اہداف ’ڈیٹرنس تھیوری‘سے ہی حاصل ہو رہے ہوں۔7
اس اتحاد کی ہمیشہ سے کوشش یہی رہی ہے کہ امریکہ میں ایک مستقل خطرے کا احساس قائم رہے جس کے سبب دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوتا رہے اور حکومت زیادہ سے زیادہ اسلحہ خریدتی رہے۔ یہ اتحاد لابنگ، پروپیگنڈا اور حکومتی اداروں میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے یقینی بناتا ہے کہ خطرے کا احساس کم نہ ہونے پائے بلکہ بڑھتا رہے تاکہ یہ منافع کماتے رہیں۔ اس کے علاوہ یہ اتحاد امریکی پالیسی سازوں کو دیگر ممالک کے آپسی تنازعات میں ٹانگ اڑانے اور کسی ایک فریق کی عسکری مدد کرنے کی جانب بھی مائل کرتا ہے تاکہ ان کی عسکری مدد کے نام پر امریکی حکومت انہیں اسلحہ فراہم کرے اور یہ اتحاد اس سے منافع کمائے۔ پھربھی اگر فرض کر لیا جائے کہ اس اتحاد کو صرف اپنے منافع سے غرض ہے اسے امریکی مفادات کی کوئی پرواہ نہیں تب بھی اس اتحاد کے پاس امریکہ کو فل سکیل جنگ میں دھکیلنے کے بہت سے مواقع اور طریقے موجود تھے، پچھلے سالوں میں ایسے بہت سے واقعات ہو چکے تھے جن کو بنیاد بنا کر یہ اتحاد امریکہ کو بڑی جنگ میں جھونک سکتا تھا، یہی نہیں بلکہ آزادی، جمہوریت، مساوات، انسانی حقوق جیسے نعرے ہی امریکی حکومت کو قائل کرنے کے لیے کافی تھے کہ افغانستان میں امارت اسلامیہ کی ’قدامت پرست‘ اور ’انتہا پسند‘ حکومت کو گرانے اور وہاں کی عوام کو ’جمہوریت‘، ’آزادی‘ ، ’مساوات‘ اور ’انسانی حقوق‘ بالخصوص ’حقوقِ نسواں‘ فراہم کرنے کے لیے افغانستان پر حملہ کر دے۔ یہ اتحاد بھی اپنے منافع کی لالچ میں اتنا اندھا نہیں ہو سکتا کہ اس کے لیے اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی دے مارے۔
گیارہ ستمبر کے حملوں پر عالمِ اسلام سے اعتراضات
یہ حملے غیر شرعی تھے
ان حملوں کے حوالے سے عالمِ اسلام میں جو سب سے زیادہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ حملے غیر شرعی تھے، ان میں بے گناہ شہری مارے گئے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
اس حوالے سے سب سے پہلے تو یہ وضاحت ضروری ہے عالم اسلام کے بعض کبار علماء نے ان حملوں کے جواز کا فتویٰ دیا تھا، جن میں پاکستان کے بھی کئی علمائے کرام شامل ہیں ان میں پاکستان میں سب سے نمایاں نام مفتی نظام الدین شامزئی کا ہے۔ اس کے علاوہ عالم عرب میں سب سے نمایاں نام شیخ حمود بن عبد اللہ بن عقلاء الشعیبی کا ہے جنہوں نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے حق میں فتویٰ دیا، ان کے علاوہ شیخ سلیمان العلوان، شیخ ناصر الفہد اور شیخ ابو قتادہ فلسطینی نے بھی گیارہ ستمبر کے حملوں کے حق میں فتاویٰ جاری کیے۔
خود شیخ اسامہ نے اپنے متعدد بیانات میں ان حملوں کی شرعی حیثیت کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں الجزیرہ کے نمائندے تیسیر العلونی کو انٹرویو دیتے ہوئے شیخ اسامہ نے ان حملوں کی شرعی حیثیت پر تفصیل سے گفتگو کی ہے8۔
گیارہ ستمبر کے حملوں کا خمیازہ افغانستان کو بھگتنا پڑا
جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ان سے سب سے پہلے یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ اگر گیارہ ستمبر کے حملے نہ ہوتے تو کیا امریکہ، جو اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور تھا، جو ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کا علمبردار تھا، امارت اسلامیہ جیسی خالص اسلامی اور جدید عالمی نظام کی منکر حکومت کا وجود قبول کر لیتا؟ وہ جو آج بدترین شکست کھا کر ذلیل و خوار ہونے کے بعد امارت اسلامیہ کا وجود برداشت نہیں کر پا رہا اور بے بسی سے اپنی انگلیاں چبا رہا ہے اور امارت اسلامیہ کو بدنام کرنے کے لیے پوری ہٹ دھرمی سے سفید جھوٹ پر مبنی رپورٹوں پر رپورٹیں ہر کچھ عرصے بعد اپنے چیلے چانٹوں سے شائع کرواتا رہتا ہے، وہ اپنے غرور و تکبر کے عروج کے دور میں امارت اسلامیہ کا وجود برداشت کر لیتا؟
کبھی بھی نہ کرتا! لیکن ہونا یہ تھا کہ وہ زمین پر اپنی فوجیں نہ اتارتا بلکہ دیگر ہتھکنڈوں سے امارت کو تباہ کرنے کی کوشش کرنی تھی۔ جس کو عراق پر پابندیاں لگا کر دس لاکھ بچے، ادویات کی عدم فراہمی کے ذریعے، قتل کرنے پر کوئی احساسِ جرم نہ ہو، کیا اس کے لیے مشکل تھا کہ وہ اتنے ہی یا اس سے کئی گنا زیادہ بڑے جرم کا ارتکاب افغانستان میں بھی کرتا؟ وہ معاشی پابندیاں لگاتا، عراق کی طرح خوراک اور ادویات پر پابندیاں لگاتا، کروز میزائلوں اور فضائی بمباریوں سے ٹارگٹڈ حملے کرتا اور ان سب چیزوں کے ذریعے سے امارت اسلامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتا۔ اس کے برعکس گیارہ ستمبر کے حملوں نے نہ صرف امریکہ کے دل میں اسے کھربوں ڈالر اور ہزاروں افراد کا نقصان پہنچایا بلکہ یہی حملے اسے شیر کی کچھار میں ہانک لائے، لیکن وہ اکیلا نہیں آیا بلکہ اپنے سب چیلے چانٹوں اور غلاموں کو بھی ساتھ گھسیٹ لایا۔ اور پھر بیس سالوں میں جو ان سب کی درگت بنی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گیارہ ستمبر کے حملے نہ بھی ہوتے، خوراک، ادویات اور دیگر معاشی پابندیوں اور فضائی بمباریوں کے سبب شہادتیں تب بھی ہوتیں، لیکن وہ شہادتیں مظلومیت اور بے بسی کے ساتھ ہوتیں اور امریکہ کا بال بھی بیکا نہ ہوتا، گیارہ ستمبر کے حملے ہوئے، شہادتیں تب بھی ہوئیں لیکن غیرت کے ساتھ، بہادری کے ساتھ، سینہ تان کر، دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے، اسے بے تحاشا جانی و مالی نقصان پہنچاتے ہوئے ہوئیں۔ تو سوال یہ ہے کہ نقصان گیارہ ستمبر کے حملوں سے ہوا یا اگر وہ نہ ہوتے تب ہوتا؟
بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے نتیجے میں جو جنگ شروع ہوئی اس سے پہلے کی امارت اور اس کے بعد کی امارت کا تقابل کر کے دیکھ لیں۔
تب دنیا کے سامنے امارت اسلامیہ کی ساکھ یہ تھی کہ یہ ’’ مدرسوں کے طالب علموں پر مشتمل ایک گروہ ہے جس نے ملک میں فساد برپا کرنے والی مقامی سابقہ جہادی تنظیموں کو شکست دے کر حکومت حاصل کی۔‘‘ لیکن آج امارت اسلامیہ وہ ہے جس نے نہ صرف امریکہ جیسی واحد سپر پاور کو بلکہ اس کی سربراہی میں پوری دنیا کی افواج پر مشتمل ایک عالمی اتحاد کو شکست دے کر حکومت حاصل کی ہے۔
تب افغانستان برسوں کی خانہ جنگیوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہو چکا تھا، انفراسٹرکچر ناپید تھا، شہر اجڑ کر کھنڈر بن چکے تھے، آمدنی کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے، بیت المال خالی تھا، اگر گیارہ ستمبر کے حملے نہ ہوتے اور امریکہ مکمل جنگ شروع نہ کرتا اور اس کی بجائے اقتصادی پابندیوں اور دیگر ہتھکنڈوں کا سہارا لیتا تو افغانستان اُن حالات کو کتنا عرصہ برداشت کرپاتا؟ اس کے برعکس ان بیس سالہ جنگوں کے بعد آج افغانستان جہاں کھڑا ہے اور امارت اسلامیہ جہاں کھڑی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ان بیس سالوں میں بہت شہادتیں ہوئیں، بہت کچھ قربان ہوا لیکن عظمتیں، عزیمتیں، فتوحات اور کامیابیاں کبھی بھی قربانیوں کے بغیر حاصل نہیں ہوتیں، اگر یہ کبھی قربانیوں کے بغیر حاصل ہو بھی جائیں تو نہ ان کی قدر ہوتی ہے اور نہ ہی زیادہ عرصہ قائم رہ پاتی ہیں۔ آج اگر امارت اسلامیہ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے اور روز بروز نئے نئے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا جا رہا ہے، معیشت بہتر، کرنسی مستحکم اور روزگار کے مواقع بڑھ رہے ہیں تو یہ انہی بیس سالہ قربانیوں کا ثمرہ ہے۔بیس سال قبل کسی کا یہ اعتراض کرنا سمجھ میں آتا تھا کہ ہر کوئی اتنا صاحب بصیرت نہیں ہوتا کہ کسی واقعے کے دور رس نتائج کو بھانپ سکے، لیکن آج جب ان حملوں کے فیوض و برکات، نتائج و ثمرات کھل کر سامنے آ چکے ہیں، آج کسی کا یہ اعتراض کرنا سراسر نا انصافی ہے۔
وہی اعتراض طوفان الاقصیٰ پر
بدقسمتی سے جس طرح گیارہ ستمبر کے حملوں کے بارے میں عالم اسلام میں بعض طبقے شکوک و شبہات پھیلا رہے تھے اسی طرح طوفان الاقصیٰ کے بارے میں بھی عالمِ اسلام میں بعض طبقے ہیں جو شکوک و شبہات پھیلا رہے ہیں۔ جس طرح گیارہ ستمبر کے حملوں پر اعتراض کیا گیا وہی اعتراض یہاں بھی ہے کہ اس کا خمیازہ غزہ کی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ غزہ کی غیور اور بہادر عوام کے منہ سے ایک بار بھی اپنے مجاہد بیٹوں کے لیے حرفِ شکایت سننے میں نہیں آیا، ان کا شکوہ تو پوری امت مسلمہ سے ہے جس نے انہیں تنہا چھوڑ دیا، ان لوگوں سے ہے جو خود تو نہ کچھ کر رہے ہیں نہ ہی کچھ کرنے کے قابل ہیں لیکن اپنی آرام گاہوں میں بیٹھے جنہوں نے اسرائیل کو ایک تاریخ ساز ضرب لگائی ہے ان پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں۔
گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد شروع کے سالوں میں اعتراض کرنے والوں کو عذر دیا جا سکتا ہے لیکن طوفان الاقصیٰ پر اعتراض کرنے والے اس لائق نہیں کہ انہیں کوئی عذر دیا جا سکے کیونکہ یہ مسئلہ اس قدر واضح ہے کہ آنکھوں کا اندھا بھی اسے آسانی سے سمجھ سکتا ہے، ہاں عقل کے اندھے کی بات اور ہے۔ اعتراض کرنے والوں کو کیا پچھلے ۷۶ سال سے بھی زیادہ عرصے سے ہونے والی بمباریاں، شہادتیں، گرفتاریاں، در بدریاں اور بستیوں پر بستیوں کی تباہی نظر نہیں آتی؟ کیا جو کچھ آج غزہ میں ہو رہا ہے وہ طوفان الاقصیٰ کے بعد شروع ہوا؟ کیا طوفان الاقصیٰ سے قبل مسجدِ اقصیٰ کی مسلسل ہونے والی بے حرمتی کسی سے ڈھکی چھپی تھی؟ کیا مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے اور اس کی جگہ دجالی ہیکل تعمیر کرنے کے یہودی منصوبے خفیہ تھے؟ یہودی تو کھل کر مسجدِ اقصیٰ کو شہید کرنے کے نعرے لگا رہے تھے۔ اور اگر فلسطینی مجاہدین مصلحت کا شکار ہو جاتے، اپنی عوام کی بڑی تعداد میں ایک ساتھ شہادتوں اور بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کا سوچ کر رک جاتے، طوفان الاقصیٰ کا معرکہ نہ ہوتا اور خاکم بدہن مسجد اقصیٰ شہید کر دی جاتی پھر؟ پھر یہی اعتراض کرنے والے فلسطینی مجاہدین کو بزدلی کا، جہاد چھوڑ بیٹھنے کا اور گھٹنے ٹیک دینے کا طعنہ دے رہے ہوتے۔
شاید اعتراض کرنے والوں کو اعتراض اس بات پر ہے کہ طوفان الاقصیٰ سے پہلے جو شہادتیں اور گھروں کی تباہیاں جاری تھیں وہ ’’حسبِ معمول‘‘ تھیں، وہ میڈیا پر بڑی خبر نہیں بنتی تھیں، وہ ایسی نہیں تھیں کہ زبردستی امت کے ضمیر کو خوابِ غفلت سے جھنجھوڑ کر اٹھا سکیں۔ طوفان الاقصیٰ نے امت کیا پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا ہے۔ ہمارے اپنے ہزار مسائل ہیں، ہم ان سے باہر نہیں نکل پاتے اوپر سے غزہ کے معاملے میں ہمارا ضمیر ہمیں ملامت کرتا ہے، یہ سارا قصور طوفان الاقصیٰ برپا کرنے والوں کا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ہمیں یہ اذیت اٹھانا نہ پڑتی۔
یومِ تفریق سے طوفان الاقصیٰ تک
گیارہ ستمبر کے با برکت حملےدورِ حاضر میں اللہ تعالیٰ کی نصرت و برکت کی عظیم ترین اور واضح ترین نشانی تھے۔ اس منصوبے میں لاتعداد عوامل کارفرما تھے لیکن اس کے باوجود پورے منصوبے کا کامیابی کے ساتھ تکمیل پا جانا اللہ کی نصرت کی واضح نشانی ہے۔ لیکن ان حملوں کے نتیجے میں جو دشمن کا نقصان ہوااس میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے ساتھ برکت بھی نظر آتی ہے۔ جس طرح سے دونوں ٹاورز کا انہدام ہوا یہ شاید اس حملے کے منصوبہ سازوں نے بھی نہ سوچا ہو گا۔ پھر ان ٹاورز کے ملبے کی وجہ سے ارد گرد کی عمارتوں کو جو نقصان ہوا، جڑواں ٹاورز کے ساتھ موجود میریٹ ہوٹل ملبے تلے دب کر ختم ہو گیا، بلڈنگ ۷ مکمل منہدم ہو گئی، اس کے علاوہ کئی دیگر عمارتیں تھیں جنہیں اس قدر نقصان پہنچا کہ وہ ناقابل استعمال بن گئی اور انہیں خود منہدم کرنا پڑا۔ یہ سب نقصان اصل حملوں کے اوپر برکت ہے۔
جو کچھ ان حملوں کے دوران ہوا وہ ایک طرف لیکن ان حملوں کے جو فیوض و برکات بعد میں حاصل ہوئے اور آج تک حاصل ہو رہے ہیں انہیں شمار میں لانا ناممکن ہے۔ جو جہادی تحریک پہلے افغانستان کے دشتوں اور پہاڑوں تک محدود تھی آج پوری دنیا میں پھیل چکی۔ وہ حکمت عملی، کہ امریکہ کو مختلف محاذوں پر مصروف کرنے سے اس کی گرفت مسلم خطوں پر کمزور ہونے لگے گی اور ان خطوں میں جہادی تحریکیں کامیابی کی جانب بڑھنے لگیں گی، اس کی کامیابی کے آثار ان حملوں کے دس سال بعد ہی عیاں ہونے لگے تھے۔ بیس سال بعد امارت اسلامیہ فتح یاب اور سرخرو ہو کر ابھری اور امریکہ اپنے سب چیلے چانٹوں سمیت دم دبا کر بھاگ نکلا اور اب اپنے بل میں گھس کر زخم چاٹنے پر مجبور ہے۔ شیخ اسامہ کی اس قسم کی بازگشت آج بھی کانوں میں تازہ ہے کہ امریکہ اور اس کے رہنے والے اس وقت تک امن کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے جب تک ہم فلسطین میں حقیقی امن نہ دیکھ لیں اور جب تک کفار سرزمینِ حرمین سے نکل نہ جائیں۔ پچھلے تئیس سالوں سے ہم کھلی آنکھوں سے اس قسم کو پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں، اور ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو اسرائیل پر ہونے والے گیارہ ستمبر ہی کی طرح تاریخ ساز حملے ’طوفان الاقصیٰ‘ نے اسے اور زیادہ واضح کر دیا ہے۔
یومِ تفریق سے طوفان الاقصیٰ تک عظیمتوں، قربانیوں، شجاعت، استقامت اور جوانمردی پر مشتمل ایک عظیم داستان کا تسلسل ہے جس میں قربانیاں دینے والوں نے اپنے لہو سے ثابت کیا کہ ’’الجہاد المسلح ھوا الحل‘‘، مسلح جہاد ہی درحقیقت اصلی حل ہے۔ عدم تشدد اورنام نہاد پر امن طریقوں کے نام لیوا پون صدی سے ہوا میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں لیکن کچھ ہاتھ تو کیا آتا جہاں سے چلے تھے وہاں سے بھی کوسوں پیچھے جا کھڑے ہوئے۔ لیکن مسلح جہاد کرنے والوں نے اپنے عزم و ثابت قدمی سے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے دو عشروں میں وہ کچھ کر دکھایا کہ آج دوست و دشمن سب ہی انگشت بدنداں ہیں۔
لیکن آج پوری امت کا امتحان ہے! ابھی بھی ہم منزل تک نہیں پہنچے،ابھی بھی عالمی غنڈوں میں دم خم باقی ہے۔ ابھی منزل تک پہنچنے کے لیے مزید یومِ تفریق اور مزید طوفان الاقصیٰ برپا کرنے کی ضرورت ہے تب ہی جا کر پورے عالم پر خلافت علی منہاج النبوۃ کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو پائے گا۔
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
٭٭٭٭٭
1 اس ڈاکٹرائن کے تحت دونوں فریقوں کے پاس اتنی مقدار میں اٹیمی ہتھیار موجود ہوتے ہیں کہ وہ دوسرے کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے کافی ہوں۔اگر ایک فریق کسی بھی وجہ سے دوسرے فریق پر ایٹمی حملہ کرتا ہے تو فوری طور پر اتنی ہی شدت کا یا اس سے زیادہ شدت کا حملہ جواب میں اس پر بھی ہو گا جس سے دونوں فریقوں کی مکمل اور حتمی تباہی یقینی ہو گی۔ اس طرح سے کوئی بھی فریق پہلے حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔
2 پوری دنیا کے سمندروں میں امریکی بحری بیڑوں کی موجودگی کا مقصد بھی ’ڈیٹرنس‘ ہی ہے۔
3 اس قانون کا نام “War Powers Resolution 1973” ہے۔
4 اس رویے کو بالعموم ’ویتنام سنڈروم‘ (Vietnam Syndrome) کا نام دیا جاتا ہے۔
5 یہ بات قابل ذکر ہے کہ ۱۹۸۸ء میں آرامکو کی نیشنلائزیشن کے بعد ۱۹۹۰ء کی جنگِ خلیج میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو پوری جنگی مہم کے دوران تیل سعودی عرب نے مفت فراہم کیا۔
6 Military-Industrial Complexکی اصطلاح دفاعی ٹھیکیداروں، فوج اور مخصوص حکومتی عہدوں کے ایک گٹھ جوڑ کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ اصطلاح ۱۹۶۱ء میں اس وقت کے امریکی صدر ڈوائٹ ایلسن ہاور نے استعمال کی جب اس نے اس گٹھ جوڑ کے حکومتی دفاعی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کا ذکر کیا۔
7 ڈیٹرنس تھیوری (Deterrence Theory) کا معاملہ صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ ساری دنیا نے اسے اپنایا ہے۔ جدید قومی ریاستوں کے قیام کے بعد ان قومی ریاستوں کے شہریوں میں حب الوطنی کے جذبات کو ہمیشہ تازہ رکھنے کے لیے ایک حریف اور دشمن کے وجود کو ضروری تصور کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے کہ دشمنی بھی ہمیشہ قائم رہے اور کوئی بڑے پیمانے کی جنگ بھی نہ ہو ڈیٹرنس تھیوری کو ان قومی ریاستوں میں بھی عمل میں لایا گیا اور ان قومی ریاستوں کو اس راہ پر لگا دیا کہ اپنے دشمن کو حملہ کرنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ اسلحہ جمع کیا جائے تاکہ دشمن خوفزدہ رہے۔ اس طرح سے قومی ریاستوں کے درمیان اسلحے کی دوڑ کا آغاز ہوا ۔ اور ظاہر ہے اس کا براہ راست فائدہ انہی اسلحہ ساز فیکٹریوں اور ان کی مالک عالمی طاقتوں کو ہی ہوا اور آج تک ہو رہا ہے۔
8 مذکورہ انٹرویو شمارۂ ہٰذا میں ’’اس‘‘ عنوان کے تحت دیکھا جا سکتا ہے۔ (ادارہ)