پاکستان اور آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول کی سطح پر ہونے والا معاہدہ 12 جولائی کو طے پایا تھا۔ لیکن اس معاہدے کی حتمی منظوری فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ نے دینی تھی جو اب تک ممکن نہیں ہوئی ہے اور بورڈ کے ۹ ستمبر تک جاری شیڈول میں پاکستان کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے آنے والے دنوں میں پاکستان کی مشکلات مزید بڑھیں گی ۔ ان مشکل حالات میں بھی فوج کی جانب سے ایسے اقدامات واضح دکھائی دیتے ہیں جہاں وہ زیادہ سے زیادہ وسائل لوٹنے میں دلچسپی رکھ رہے ہے۔ چاہے حکومت کو دباؤ میں لاتے ہوئے زمینوں کے حصول کا ایشو ہو، دفاعی بجٹ میں اضافہ ہو یا ایسے پروجیکٹس کی شروعات جہاں ٹھیکے فوج کے ماتحت چلنے والی کمپنیوں کو ہی ملتے ہیں یا مائننگ اور معدنیات کے حوالے سے غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدے، ایسا لگتا ہے انہیں سرے سے احساس ہی نہیں ہے کہ عوام پر کیا بیت رہی ہے۔
أَنَّ ابْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ أَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ(مسند احمد)
حضرت کعب بن مالک سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیے جائیں تو وہ اتنافساد نہیں مچائیں گے جتنا انسان کے دل میں مال اور منصب کی حرص فساد برپا کرتی ہے۔ ‘‘
بجلی کے بلوں کی وجہ سے گھروں میں ہونے والے لڑائی جھگڑوں، قتل اور خودکشیوں کی خبریں آئے روز سامنے آرہی ہیں۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق گزشتہ چار ماہ میں پنجاب کے مختلف شہروں میں ’تنگ دستی سے پریشان‘ 23 افراد نے خود کشی کی۔ بجلی کے بلوں میں موجودہ اضافوں کی ایک بڑی وجہ وہ ظالمانہ معاہدے تھے جو سابقہ حکومتوں نے آئی پی پیز کے ساتھ کیے۔ یہاں بھی معاملات کی درستگی کی بجائے یہ خبریں آرہی ہیں کہ خسارے میں چلنے والی پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) میں پاکستانی فوج کے حاضر سروس بریگیڈیئر کی سربراہی میں پرفارمنس مینجمنٹ یونٹس (پی ایم یوز) کے قیام کی منظوری دے دی گئی ہے ۔
ڈی ایچ اے کو اسلام آباد میں 10 ہزار کنال زمین دینے کی منظوری
ڈی ایچ اے کو اسلام آباد میں 10 ہزار کنال زمین دینے کی کابینہ نے منظوری دے دی۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) اب اسلام آباد میں بھی رہائشی سکیم کی مالک ہوگی کیونکہ وفاقی کابینہ نے وفاقی ترقیاتی اتھارٹی (سی ڈی اے) کی زمین پر کُری ماڈل سوسائٹی تیار کرنے کے لیے ایک مشترکہ منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سی ڈی اے کے پاس 55 فیصد اور ڈی ایچ اے کے پاس 45 فیصد پلاٹ ہوں گے۔دونوں فریق جلد ہی باضابطہ معاہدے پر دستخط کریں گے۔ رواں سال کے آغاز میں سی ڈی اے نے ایک اشتہار میں کہا تھا کہ وہ اس منصوبے کو پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے تیار کرنا چاہتی ہے۔ جواب میں ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن، پارک ویو، فیصل ہلز، نیو سٹی پیراڈائز اور اے کے ڈی گروپ سمیت متعدد ڈویلپرز نے رواں سال فروری میں اپنی درخواستیں جمع کرائیں۔ تاہم درخواستیں موصول ہونے کے بعد سی ڈی اے نے کارروائی کی رفتار سست کر دی۔ اور دعویٰ کیا کہ ’’صرف ایک ڈویلپر معیار کے ساتھ بولی میں سامنے آیا‘‘ اور وہ تھا ڈی ایچ اے۔ ( یہ حال صرف ایک شعبے کا نہیں ہے بلکہ ہر جگہ یہی حال ہے کہ ٹینڈرز فوجی کمپنی کو ہی ملیں گے نہ کہ کسی عام سویلین کمپنی کو) اطلاعات کے مطابق جس زمین پر یہ منصوبہ تیار کیا جا رہا تھا وہ کئی دہائیوں سے غیر قانونی قبضے میں تھی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل بھی ڈی ایچ اے نے ۲،۴۱۶ کنال اراضی سی ڈی اے سے لی تھی اور معاہدوں کے مطابق ان کے بدلے سی ڈی اے کو 729 پلاٹ دیے جانے تھے جو آج تک نہیں دیے گئے۔ دونوں اداروں نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت سی ڈی اے کو 729 پلاٹ ملنے تھے۔ لیکن یہ ابھی تک منظور شدہ پلاٹوں کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ تاہم اب سی ڈی اے حکام نے دعویٰ کیا کہ کُری ہاؤسنگ سکیم کے نئے معاہدے کے تحت ڈی ایچ اے پچھلے 729 پلاٹ بھی سی ڈی اے کو دے گی۔
جنرل(ر)باجوہ کے بھائی کا ایف اے سرٹیفکیٹ جعلی،پی آئی اے سے فارغ
برمنگھم میں تعینات پی آئی اے کے ڈپٹی سٹیشن منیجر اقبال جاوید باجوہ کی ملازمت ختم کر دی گئی۔ ترجمان پی آئی اے کے مطابق لاہور بورڈ سے ایف اے کا سرٹیفکیٹ جعلی ثابت ہونے پر اقبال جاوید باجوہ کو مستعفی ہونے کو کہا گیا تھا، جس پر انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے، اقبال جاوید باجوہ کو 30 جولائی کو پی آئی اے کے فنانس منیجر برمنگھم کے ذریعے شوکاز دیا گیا تھا۔ذرائع کے مطابق اقبال جاوید باجوہ نے 1977ء میں پی آئی اے راولپنڈی آفس میں ملازمت حاصل کی اور اس نے 1980ء کی دہائی کے آخر میں برطانیہ کی شہریت لی۔ذرائع کا بتانا ہے کہ اقبال جاوید باجوہ نے برطانیہ کی شہریت لیتے ہی پی آئی اے میں اپنی ملازمت برطانوی شہری کی حیثیت سے تبدیل کروالی۔ اقبال جاوید باجوہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمرجاوید باجوہ کا بھائی ہے۔ صحافی انیق ناجی نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’کووڈ کے دنوں میں اقبال جاوید باجوہ نے اپنے لیے ایک سیکریٹری رکھنے کا بجٹ مانگا۔ پی آئی اے کے اس وقت کے کنٹری ہیڈ یو کے (Country Head UK)نے جواب دیا سر ہفتے میں ایک چارٹرڈ فلائٹ ہم برمنگھم سے چلاتے ہیں مطلب ہفتے میں چار گھنٹے آپ کام کرتے ہیں اس کے لیے سیکریٹری کا بجٹ کہاں سے لائیں ؟
فیض حمید پنڈورا باکس
فیض حمید کے متعلق انکشافات کا سلسلہ جاری ہے، نیوز چینلز بھی کسی قدر مطمئن ہیں کہ اس وقت ان کے خلاف کیسز اور الزامات کی کوریج سے فوج کو برا محسوس نہیں ہوگا۔ حامد میر نے اپنے ایک حالیہ کالم میں فیض حمید کے متعلق لکھا ہے کہ مجھے ایک کاروباری شخصیت نے کوئی سنی سنائی بات نہیں کہی بلکہ اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے بتایا کہ 2021ء میں ان صاحب پر ایک جھوٹا مقدمہ بنایا گیا اور پھر فیض حمید نے خود انہیں فون کرکے کہا کہ میرا فلاں افسر آپ کو فون کرےگا اس کی بات سن لیجیے گا۔ پھر فیض کے ایک ماتحت نے اس کاروباری شخصیت کو فون کرکے کہا کہ پانچ ارب روپے کیش کا بندوبست کریں۔ اسی طرح کی کئی کہانیاں سن کر میں نے حیرانی سے پوچھا کہ فیض حمید اتنی رقم کہاں رکھتے تھے؟ محفل میں موجود ایک اور صاحب نے بتایا کہ فیض حمید نے باقاعدہ ایک ڈائری میں حساب کتاب لکھ رکھا تھا۔ اس قسم کی رقوم وہ اپنے مختلف پارٹنرز کے حوالے کر دیتے تھے اور وہ ان رقوم کو ہاؤسنگ سکیموں یا دیگر کاروباری منصوبوں میں انویسٹ کر دیتے تھے اور اس ڈائری میں موجود تفصیلات کے مطابق فیض حمید نے مختلف کاروباری منصوبوں میں 30 ارب روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ یہ رقوم کسی بینک کے ذریعے ٹرانسفر ہوئیں نہ کسی تحریری معاہدے میں ان کا ذکر آیا، لہٰذا فیض حمید کا ایک بزنس پارٹنر اب یہ چاہتا ہے کہ فیض صاحب کو ایسی سزا ہو کہ وہ اگلے دس پندرہ سال تک باہر نہ آسکے اور نہ ہی اپنے اربوں روپے کا حساب کتاب مانگ سکے۔
ایران روزانہ ۵۰ سے ۶۰ لاکھ لیٹر تیل پاکستان سمگل کرتا ہے: پاکستانی فوج
پاکستان کی فوج کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ ملک میں روزانہ لاکھوں لیٹر ایرانی تیل سمگل کیا جا رہا ہے، لیکن اس نے ان دیرینہ الزامات کو مسترد کر دیا کہ فوج کا بھی اس غیر قانونی تجارت میں کوئی عمل دخل ہے۔ فوج کے ترجمان، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ تیل کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے ایران کے ساتھ ملک کی 900 کلومیٹر سے زیادہ طویل سرحد پر سکیورٹی بڑھانے کے لیے ’’مسلسل کوششیں‘‘ کی جا رہی ہیں۔ احمد شریف نے کہا کہ ’’اگر آپ اعداد و شمارکو دیکھیں تو فوج، فرنٹیر کور، نفاذ قانون اور انٹیلی جنس اداروں کی مشترکہ کوششوں کی بدولت (ایندھن کی سمگلنگ) ڈیڑھ کروڑ لیٹر سے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ لیٹر یومیہ سے کم ہو کر پچاس سے ساٹھ لاکھ لیٹر یومیہ پر آ گئی ہے‘‘۔ شریف چودھری وہ پہلا پاکستانی عہدے دار ہے جس نے دونوں ملکوں کے درمیان تیل کی بڑے پیمانے پر جاری غیر قانونی تجارت کے بارے میں عوامی سطح پر تخمینے شیئر کیے ہیں۔ طویل عرصے سے جاری اس غیر قانونی تجارت کے بارے میں پاکستان کے دو سرکاری جاسوسی اداروں کی تیار کردہ ایک غیر معمولی جامع تحقیقاتی رپورٹ میں، جو گزشتہ مئی میں مقامی میڈیا میں لیک ہوئی تھی، انکشاف کیا گیاتھا کہ ایرانی تاجر سالانہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی مالیت کا پٹرو ل اور ڈیز ل پاکستان ا سمگل کرتے ہیں۔ تحقیقات سے پتا چلا کہ ایندھن کی غیر قانونی سپلائی پاکستان کی سالانہ کھپت کا تقریباً 14 فیصد ہے، جس کے نتیجے میں ’’خزانے کو‘‘ کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ رپورٹ میں تیل کے 200 سے زائد سمگلروں کے ساتھ ساتھ حکومتی اور سیکورٹی اہلکاروں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جو تیل کی منافع بخش غیر قانونی تجارت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2000 گاڑیاں، جن میں سے ہر ایک 3200 سے لے کر 3400 لیٹر تک تیل لے جا سکتی ہیں، روزانہ سرحد پار سے ڈیزل کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ،تقریباً 1300 کشتیوں کو بھی ایرانی تیل سمگل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جن میں سے ہر ایک میں تیل لے جانے کی گنجائش 1600 سے 2000 لیٹر ہے۔ پیٹرولیم ڈیلرز نے سرحد پار سے سمگلنگ میں اضافے کی وجہ ایرانی تیل کے شعبے پر امریکی قیادت کی مغربی پابندیوں کو قرار دیا، جن کے نتیجے میں تہران اپنی برآمدات کے لیے متبادل منڈیوں کی تلاش پر مجبور ہوا۔ ایرانی تاجر مبینہ طور پر پاکستان کے صوبے بلوچستان میں خریداروں کو مقامی کرنسی میں ایندھن فروخت کرتے ہیں اور پاکستانی مارکیٹ سے ڈالر وصول کرتے ہیں۔ پھر اس غیر قانونی تیل کو ملک میں دوسرے مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے۔ اسلام آباد اپنا ایندھن بنیادی طور پر مشرق وسطیٰ سے حاصل کرتا ہے۔ حکومت نےبین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے تقریباً سات ارب ڈالر کا نیا قرضہ حاصل کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں حالیہ مہینوں میں ایندھن کی قیمتوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے باعث نقدی کی کمی کا شکار پاکستان ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایرانی تیل کو ملک میں سمگل کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ شریف چودھری نے گفتگو کرتے ہوئے خبردار کیا کہ متبادل ذریعہ معاش کے مواقع فراہم کیے بغیر طویل عرصے سے جاری تیل کی سمگلنگ روکنے کے لیے ایران کے ساتھ سرحد بند کرنے سے غربت زدہ اور پسماندہ پاکستانی سرحدی شہروں کے لیے تباہ کن نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔ مئی میں شائع ہونے والی انٹیلی جنس کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ شورش زدہ بلوچستان میں لگ بھگ 24 لاکھ افراد اپنے گزر بسر کے لیے ایرانی تیل کی اسمگلنگ پر انحصار کرتے ہیں اور اگر یہ غیر قانونی تجارت بند ہو جاتی ہے تو ان کے پاس اپنی بقا کے وسائل ختم ہو جائیں گے۔ پاکستانی فوج کا خود پر یہ بھرپور اعتماد اور میڈیا مینجمنٹ ہی ہے کہ فوج اس حقیقت کے ادراک کے باوجود کہ کم ازکم بلوچستان کا تو بچہ بچہ واقف ہے کہ تیل کی اس سمگلنگ پر بھتہ فوجی افسران ہی لیتے ہیں، پھر بھی فوج کمال ڈھٹائی سے اس حقیقت کا انکار کررہی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اس سمگلنگ سے کوئی مالی فائدہ نہیں اٹھا رہی بلکہ فقط انسانی ہمدردی کے تحت یہ سمگلنگ نہیں روک رہے کہ بلوچستان میں کوئی متبادل روزگار نہیں ہے۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امریکی پابندیوں پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے ایران سے تجارت کو بذریعہ سمگلنگ چلانے کا فیصلہ کس کا ہے؟ کیا سیاستدانوں کی اتنی اوقات ہے کہ وہ یہ فیصلے کرسکیں؟
ایس آئی ایف سی کی کارکردگی پر لگے سوالیہ نشانات
پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اتحادی حکومت نے گزشتہ سال جون میں ایس آئی ایف سی قائم کی تھی۔ بظاہر تو سامنے پی ڈی ایم حکومت تھی لیکن اس کے معاملات اور ڈرائیونگ سیٹ فوج کے کنٹرول میں ہی نظر آرہی ہے۔ اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف مارکیٹ اکانومی (پرائم) کی جانب سے شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایس آئی ایف سی درحقیقت بورڈ آف انوسٹمنٹ کی ہی ایک نئی شکل ہے۔ بورڈ اس سے قبل پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری لانے اور اس کے لیے بہتر ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے اور ملک میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی نہ لائی جاسکی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس کی بنیادی وجہ ملک کے غیر موزوں معاشی اور سیاسی حالات رہے ہیں۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ایس آئی ایف سی کا قیام در حقیقت بورڈ آف انویسٹمنٹ (بی او آئی) کی ناکامی کا ایک طرح سے اعتراف ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فیصلہ سازی کے عمل میں فوج کی بڑھتی ہوئی شمولیت اور ماضی کی اس طرح کی مثالوں نے بھی عوام میں ناراضی پیدا کی ہے۔ مطلوبہ مہارت کے بغیر فوج کو معاشی فیصلہ سازی میں شامل کرنا نہ صرف ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈالے گا بلکہ اقدامات کی ناکامی کا باعث بھی بنے گا۔ بات اگر صرف نااہلی کی حد تک ہوتی تو الگ بات تھی لیکن اس ادارے کو بھی فوج نے وسائل اور زمینوں کی لوٹ مار کا ٹول بنا دیا ہے۔ اسپیشل انویسٹمنٹ فسلی ٹیشن کونسل (SIFC)کی حالیہ دستاویزات کے مطابق، کارپوریٹ ایگری کلچر فارمنگ کے لیے فوج کے زیر انتظام ایک کمپنی کو لیز پر دینے کے لیے 4.8 ملین ایکڑ سرکاری اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ 9 اگست کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران، ایک رکن پارلیمنٹ نے وزیر برائے قومی غذائی تحفظ سے زرعی کاشت کو فروغ دینے کے لیے حکومت کی کوششوں کے بارے میں سوال کیا۔ جواب میں، وزیر رانا تنویر حسین نے مختلف ریاستی منصوبوں کا خاکہ پیش کیا جن کا مقصد گزشتہ پانچ سالوں میں فصل کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور کاشت کے علاقوں کو بڑھانا ہے۔ حسین نے انکشاف کیا کہ، SIFC کی ہدایت پر، حکومت کے گرین پاکستان انیشی ایٹیو نے کارپوریٹ فارمنگ کے لیے ملک بھر میں 4.8 ملین ایکڑ ’’بنجر‘‘ زمین مختص کی ہے۔ یہ زمین پنجاب کے کل رقبہ کا تقریباً 9.5% ہے۔ جبکہ گرین پاکستان انیشی ایٹو کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق ’’زرعی ترقی کو بڑھانے‘‘ کے لیے پاکستانی حکومت اور فوج کے درمیان ایک مشترکہ کوشش ہے۔ وزیر نے مزید بتایا کہ 4.8 ملین ایکڑ میں سے تقریباً آٹھ لاکھ چونسٹح ہزار(864000) ایکڑ یا تو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے یا پہلے ہی گرین پاکستان انیشی ایٹو کو نجی شعبے کے معاہدوں یا غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے مستقبل میں کاشت کے لیے مختص کیا گیا ہے، جبکہ ایک لاکھ پانچ سو ایکڑ پر کاشت شروع ہو چکی ہے۔ ایک سینئر سرکاری اہلکار کے مطابق ،سندھ اور خیبر پختونخواہ میں اضافی رقبے کے ساتھ، کارپوریٹ فارمنگ اور لائیو سٹاک کے لیے مختص زمین کا زیادہ تر حصہ پنجاب میں ہے۔ اہلکار نے تصدیق کی کہ ان مقاصد کے لیے پنجاب اور سندھ میں سرکاری اراضی پہلے ہی منتقل کی جا چکی ہے۔ تاہم اہلکار نے ہر صوبے کے ان علاقوں کی تفصیل فراہم نہیں کی جہاں زمین لیز پر دی گئی ہے۔ ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بھی اگست میں گرین پاکستان انیشی ایٹو کے تحت رجسٹرڈ ہوئی۔ دستاویزات کے مطابق کمپنی کے 90 فیصد سے زیادہ شیئرز پاکستانی فوج کے پاس ہیں۔ کمپنی مشترکہ منصوبے کے معاہدوں کے ذریعے 30 سالہ لیز پر سرکاری زمین حاصل کرے گی اور پھر اسے کارپوریٹ فارمنگ پروجیکٹس کے لیے سرمایہ کاروں کو مختص کرے گی۔ پچھلے سال، لاہور ہائی کورٹ (LHC) میں پنجاب میں کارپوریٹ فارمنگ کے لیے ریاستی اراضی مختص کرنے سے متعلق کیس کے دوران، یہ انکشاف ہوا تھا کہ منافع کی تقسیم کا ایک طریقہ کار موجود ہوگا، جس میں منافع کا 20% تحقیق اور ترقی کے لیے وقف کیا جائے گا، اور بقیہ منافع صوبائی حکومت اور فوج کے درمیان 50-50 تقسیم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کے معاہدے پر سندھ حکومت اور فوج نے گزشتہ سال بھی دستخط کیے تھے۔ گزشتہ سال جون میں، LHC نے پنجاب میں ریاستی اراضی کی منتقلی کو معطل کر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ آئین فوج کو تجارتی منصوبے شروع کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ تاہم بعد میں اسی عدالت کے ایک اور بنچ نے زمین کی منتقلی کو آگے بڑھنے کی اجازت دے دی۔
٭٭٭٭٭