الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین محمد و علیٰ آلہ و صحبہ و ذریتہ اجمعین اما بعد
فقد قال اللہ سبحانہ وتعالیٰ فی کتابہ المجید بعد أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمان الرحیم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (سورۃ الانفال: ۲۴، ۲۵)
صدق اللہ مولانا العظیم
رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ، وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ، يَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ
اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
اے ایمان والو! اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو، إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ جب وہ تمہیں بلائیں اس چیز کی طرف جس میں تمہاری زندگی ہے یا جو تمہیں زندگی بخشتی ہے۔
مفسرین نے اس کے دو معنی بیان کیے ہیں۔
احکاماتِ شریعت میں زندگی ہے
ایک معنی یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پہ لبیک کہوجب تمہیں يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کہہ کر خطاب کیا جائے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی کتاب میں یا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حدیث کے ذریعے تم تک احکام پہنچائیں تو کھلے دل کے ساتھ، شرح صدر کے ساتھ ان کی طرف بڑھنے والے بنو۔ کیوں؟ کیونکہ وہ جس چیز کی طرف بلا رہے ہیں اس میں تمہاری زندگی ہے۔
ہم نے پہلے بات کی کہ شریعت کے جتنے احکامات ہیں وہ ہماری مصلحت کے لیے ہیں، ہماری بھلائی کے لیے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ تو اس سے پاک اور منزہ ہیں کہ اللہ رب العزت کا کوئی مفاد اور ان احکامات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اپنی کوئی غرض ہو۔ جو احکامات دیے گئے وہ سب کے سب ہماری بھلائی اور بہتری کے لیے ہیں۔ اسی طرح اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جو احکامات ہم تک پہنچائے، آپ نے راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ رب العزت کے سامنے رو رو کر جو دعائیں کیں، اور قیامت کے دن جب آپ شفاعت کریں گے سجدے میں جا کر تو وہ بھی اپنی ذات کے لیے یا اپنے کسی مقصد کے لیے نہ تھا نہ ہوگا بلکہ امت سے بے لوث محبت ہے اور ہماری بھلائی اور فلاح اس میں مطلوب ہے۔ تو تمہارا ہی بھلا ہے، تمہاری ہی زندگی کا سامان ہے جس کی طرف یہ احکامات بلاتے ہیں۔
پس وہ معاشرہ جو ان احکامات پہ لبیک کہتا ہے، جو شریعت کی پابندی اختیار کرتا ہے وہ زندہ معاشرہ ہوتا ہے، اور وہ فرد جو شریعت کی پابندی اختیار کرتا ہے وہ زندہ فرد ہوتا ہے۔یہ احکامات، ان پہ عمل، اللہ کو جاننا، اللہ کو پہچاننا، اللہ کے حقوق کو جاننا…… جو معاشرہ اس سب سے واقف ہوتا ہے وہ زندہ معاشرہ ہوتا ہے اور جو اس سب سے تہی ہوتا ہے، جسے حق و باطل کا فرق نہیں معلوم ہوتا، جو اپنے رب کو نہیں جانتا، جو وحی کو نہیں جانتا جو نبی کو نہیں جانتا وہ مردہ معاشرہ ہوتا ہے چاہے ویسے اس میں کتنی ہی چمک دمک اور رونق کیوں نہ نظر آتی ہو۔
دوسرا اس میں زندگی اس لیے ہے کہ دل کی زندگی کا سامان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے اندر ہے۔ پس اس کا دل مردہ ہے جس کے پاس ان احکامات کا فہم نہیں ہے، یا جو ان احکامات کے پہنچنے پر ان پہ لبیک نہیں کہتا اور ان پر عمل کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھتا۔ دل مردہ ہو تو انسان مردہ ہی ہوتا ہے اصل میں اور کھوکھلا، دیمک کا کھایا ہوا بے جان لاشہ ہی ہوتا ہے حقیقت میں جس کے اندر کچھ نہیں ہوتا۔ یہ پہلا مفہوم ہے جو مفسرین نے بیان کیا کہ اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جب احکامات آئیں تو مومن کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لپکتا ہے کھلے دل کے ساتھ ، محبت کے ساتھ ان احکامات کی طرف لپکتا ہے اور تنگی کے ساتھ نہیں، بوجھ سمجھتے ہوئے نہیں بلکہ آگے بڑھ کر ان کو خوشی خوشی بجا لاتا ہے۔
اللہ اور رسول جہاد کی طرف بلاتےہیں
دوسرا مفہوم مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ چونکہ یہ سورہ انفال ہے، بدر کے پس منظر میں آیات نازل ہورہی ہیں، مقصود یہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول کس چیز کی طرف بلاتے ہیں، جہاد کی طرف بلاتے ہیں، یہ جہاد کے پس منظر میں بات ہورہی ہے کہ جب اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، یا جب کتاب و سنت تمہیں جہاد کی طرف بلائیں ، جہاد کا موقع آجائے تو اس کی طرف بڑھو اس پہ لبیک کہو، پریشانی، تردد، تذبذب کا شکار نہ ہو، کیونکہ اس میں تمہاری زندگی کا سامان ہے۔ تو جو معاشرہ جہاد کرتا ہے وہ زندہ معاشرہ ہوتا ہے۔ شیخ عبداللہ عزام رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتب میں یہی مثال دیتے ہیں کہ جو جہاد سے خالی معاشرہ ہے وہ کھڑے پانی کی طرح ہے کہ جس میں کائی جم جاتی ہے، گندگی جمع ہوجاتی ہے، کیڑے جس کے اندر جنم لے لیتے ہیں اور جس کی بدبو کی وجہ سے اس کے قریب پھٹکنا مشکل ہوجاتا ہے۔ تو یہ حال ہوتا ہے اس معاشرے کا جو جہاد سے دور ہو کہ وہ مردہ بے جان معاشرہ ہوتا ہے جس میں رذیل اور گھٹیا لوگ اوپر آتے ہیں، اس کے اندر منکرات فروغ پاتے ہیں اور نیکیاں دبتی چلی جاتی ہیں، اہل دین اور اہل صلاح دب کر نیچے بیٹھ جاتے ہیں اور رذیل ترین لوگ حکومت، اقتدار اور قوت میں دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اور اسی لیے ایسے معاشروں میں آپ کو الیکشن کروا کروا کر پتا کروانا پڑتا ہے کہ کون ہے جو اس لائق ہے کہ اس کو اوپر لایا جائے اور پھر بھی لائق کے بجائے سب سے نالائق آدمی ہی چنا جاتا ہے۔
جب کہ جہاد کرنے والا معاشرہ زندہ معاشرہ ہوتا ہے، وہ بہتے پانی کی طرح ہوتا ہے، اتنا صاف شفاف ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ سب مصنوعی ڈرامے نہیں کرنے پڑتے ہیں، وہ خود بخود گندگی کو دھوتا چلا جاتا ہے اور خود بخود ابتلا کی اس بھٹی سے گزر گزر کر پاکیزہ لوگ سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔ ماضی قریب کی مثالیں دیکھیں تو امارت اسلامیہ اگر قائم ہوئی تو کسی الیکشن کے ذریعے نہیں قائم ہوئی اس لیے کہ ایک بہتا زندہ معاشرہ تھا، جہاد کررہا تھا، ایک جہادی تحریک تھی جو اٹھی اور جس نے قربانیاں دیں اور جس نے خون پیش کیا اور اپنے دل کے ٹکڑے اس رستے میں دیے تو خود بخود جو سب سے قربانی میں آگے تھا، صلاح و تقوی میں آگے تھا، صلاحیت میں آگے تھا، جس نے مردانگی کے میدان میں مردانگی دکھائی وہ خود ابھر کر سامنے آگیا اور صرف وہی نہیں بلکہ اس کے بعد والے بھی سامنے آگئے جنہوں نے اس کی شوری بننا تھا، بالکل اسی طرح جس طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر کسی الیکشن کی ضرورت نہیں پڑی اس لیے کہ جو مقام تئیس سالہ اس جدوجہد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تھا وہ کسی اور کا ہو نہیں سکتا تھا۔ ان قربانیوں نے واضح کردیا تھا کہ کون اس کا مستحق ہے کہ وہ اس مقام کو سنبھالے اور آپ کے بعد حضرت عمر اور ان کے بعد حضرت عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین، پس خود بخود زندہ جہادی معاشروں کے اندر یہ صفائی کا ایک عمل ہے جو چلتا ہے اور اس معاشرے سے فاسد مادے کٹتے چلے جاتے ہیں، مٹتے چلے جاتے ہیں۔ پس جہاد میں اس امت کی زندگی ہے، جب امت جہاد چھوڑتی ہے تو ذلیل ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ آج یہ سبق پڑھاتے ہیں کہ کمزوری کا عالم ہے لہٰذا جہاد نہیں کرسکتے اور جہاد کریں گے تو بہت نقصان ہوگا، سب تباہ ہوجائے گا اور ہنستے بستے ملک اجڑ جائیں گے۔ سوچنے اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ قریباً صدی بھر کا عرصہ گزر گیا کہ جب سے خلافت ہم سے چھنی اور خلافت کا جو آخری عرصہ ہے اس میں بھی علاقے مستقل چھن ہی رہے تھے، ہسپانیہ چھنے تو سو کی بجائے پانچ سو سال ہوگئے ہیں، تو وہاں سے ہمارا رجوع شروع ہوتا ہے کہ ایک ایک کرکے علاقے ہاتھ سے نکلتے ہیں۔ تو جو نقصان جو ذلت اور جو بربادی، جو عصمتوں کی پامالی جہاد چھوڑنے سے ہمارے ساتھ ہوئی اور جو نقصان ہمیں اس کی وجہ سے اٹھانا پڑا وہ زیادہ بڑا تھا یا وہ جو جہاد کے اندر، خوشی خوشی، اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے خون دیا وہ زیادہ تھا؟ تو کوئی تھوڑی سی بھی عقل استعمال کرے تو آج تو سروے ہو سکتے ہیں، اعداد و شمار آج ریکارڈڈ شکل میں سامنے موجود ہوتے ہیں ــ کچھ عرصہ قبل فلسطین کے دونوں انتفاضہ کے حوالے سے رپورٹ پڑھنے کو ملی تو اتنا واضح فرق ہے، انتفاضہ سے قبل اور انتفاضہ سے بعد کی شہادتوں کا جو تناسب ہے اس میں اور اپنے اور دشمن کے مارے جانے کے تناسب میں کہ کوئی عقل مند آدمی وہ پڑھنے کےبعد یہ نہیں کہہ سکتا کہ جہاد نہیں کرنا چاہیے یا ہتھیار نہیں اٹھانے چاہیے ہیں۔ جہاد کرنے سے ایک دفعہ خون دینا پڑتا ہے لیکن پھر رستہ مختصر ہوجاتا ہے، عزتیں محفوظ ہوجاتی ہیں، دین محفوظ ہوجاتا ہے اور بالآخر جو نقصان ہے وہ بہت بہت تھوڑا ہے اس نقصان سے جو ذلت قبول کرکے بیٹھ جانے اور غلامی پر راضی رہنے سے اٹھانا پڑتا ہے۔
پس جہاد میں زندگی ہے اور جہاد چھوڑنے میں ذلت ہے، رسوائی ہے اور اس کی وجہ سے ذلیل لوگوں کی حکومت قبول کرنی پڑتی ہے اور کافروں کا غلبہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پس اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو یعنی جہاد کے لیے جب بلایا جائے تو لبیک کہو کیونکہ اس میں تمہاری زندگی ہے۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ اور یہ کہ تم سب کو لوٹ کے اللہ ہی کی طرف جانا ہے۔
توفیق کا زائل ہوجانا بڑا خسارہ ہے
پس ساتھ ہی ڈرا بھی دیا گیا، ایک تحذیر بھی، ایک دھمکی بھی ساتھ ہی دے دی گئی اور وہ یہ کہ جب حکم آئے اور پہلے پہل جب اس پر عمل کا وقت ہو اس میں کوتاہی کرے ، اس وقت اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر لبیک نہ کہے ، اس وقت جہاد کے حکم پر لبیک نہ کہےتو اس کے بعد ڈرو اس بات سے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمہارے دل کے درمیان حائل ہوجائیں، اگر تم چاہو بھی نیکی کی طرف قدم بڑھانا تو اللہ توفیق نہ دیں، اللہ دل کو کسی گندگی کی طرف پھیر دیں، اللہ دل کو دین سے ہٹا دیں، اپنے احکامات کی اطاعت سے ہٹا دیں۔ تو ہر حکم کے لیے دل کی کیفیت یہ ہو کہ انسان کو یہ خوف ہو کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس کے بعد توفیق ہی نہ چھین لیں مجھ سے ، اس لیے جب پہلی ہی مرتبہ حکم آئے تو انسان لبیک کہنے والا ہو اس پہ اور اس کی طرف بڑھنے والا ہو۔ ورنہ ایک مرتبہ کی کوتاہی کی بات ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ توفیق چھیننے پر آئیں تو انسان چاہے بھی تو، وما تشاءون الا أن یشاء اللہ، تم چاہ بھی نہیں سکتے یہاں تک کہ اللہ چاہیں ،تو انسان پھر کہیں کا بھی نہیں رہتا، نیکی کی طرف قدم نہیں بڑھا پاتا اور اللہ تعالیٰ نیکی کی ناقدری کے نتیجے میں اس سے توفیق سلب کرلیتے ہیں۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کثرت سے مانگا کرتے تھے کہ اللھم یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک، اے دلوں کو پھیرنے والے، میرے دل کو اپنے دین پر مضبوطی سے جمادے ۔ تو دل کو دین پر جمانے کا ایک سبب دعا کے علاوہ یہ بھی ہے کہ انسان احکامات کی طرف بھاگتا ہو، اس کی طرف لپکتا ہو تاکہ اللہ تعالیٰ اسے کبھی بھی توفیق سے محروم نہ کریں اور اس کے دل کو نیکی سے پھیر نہ دیں۔
وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ اور جان لو کہ تمہیں لوٹ کے بھی اللہ کی طرف جانا ہے۔ یعنی یہ کہ اگر ابھی اللہ کے احکامات سے منہ پھیرو گے بھی تو یہ ایک حقیقت ہے جس سے کوئی مفر نہیں۔ سورج سر پر چمک رہا ہو، اس کی تپش محسوس ہورہی ہو، اس کی روشنی دکھائی دے رہی ہو مگر پھر بھی آپ کہیں کہ نہیں ہے تو نہ پسینہ آنے میں کوئی کمی ہوگی، نہ گرمی محسوس ہونا بند ہوجائے گی، وہ جو حقیقت ہے وہ ہے۔ موت کا آنا اس سے زیادہ اٹل حقیقت ہے اور اللہ کی طرف لوٹائے جانا اور پھر قیامت کے دن حساب کتا ب ہونا یہ ان ابدی ازلی حقیقتوں میں سے ہے جس کا انکار کرنے سے اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے سمجھ لو یہ بات کہ لوٹ کر اللہ ہی کی طرف جانا ہے سو اسی لیے اللہ کے احکامات کے سامنے سرجھکانے ، اللہ کی طرف لپکنے والے، اپنے دل کی رضا اور پسند کے ساتھ اس کی طرف لپکنے والے بن جاؤ۔
فتنے میں کون مبتلا ہوں گے؟
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً اور ڈرو اس فتنے سے جو تم میں سے انہی لوگوں تک محدود نہیں رہے گا جنہوں نے ظلم کیا۔ یہ آیت قرآن کی سخت ترین آیات میں سے ہے کہ دھمکی اس کو دی جارہی ہے جس نے براہ راست ظلم نہیں کیا، جس نے براہ راست گناہ نہیں کیے، لیکن اس کو بھی کہا جارہا ہے کہ اس فتنے سے ڈرو جو صرف ظالموں تک ہی محدود نہیں رہے گا، دیگر لوگوں تک بھی جس فتنے کا شر پھیل جائے گا اور جس کا وبال دوسروں کے اوپر بھی پڑے گا۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ منکرات کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ منکر جو کسی کی ذاتی زندگی تک محدود ہو اور لوگوں کی نگاہوں سے چھپا ہوا ہو۔ کوئی چھپ کر کوئی فحش کام کرتا ہے، کوئی چھپ کر چوری کرتا ہے اور کسی کو پتا بھی نہیں چلتا کہ کیا ہوا اور کہاں سے چیز اٹھا لی گئی، کوئی چھپ کر شراب پیتا ہے، کوئی چھپ کر نماز چھوڑتا ہے، کوئی چھپ کر کسی بھی قسم کی گندگی میں ملوث ہوتا ہے جس سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے منع فرمایا ہے تو یہ انداز کوئی اختیار کرے تو یہ منکر اس کی ذات تک محدود ہے، اس کا وبال دوسروں تک نہیں منتقل ہورہا اس لیے ایک یہ ہے کہ دوسروں کے سامنے ہوا نہیں کہ ان سے پوچھا جائے کہ تم نے روکا یا نہیں روکا ۔ لیکن ایک وہ منکر ہے جو علی الاعلان ہوتا ہو جو جہاراً و نہاراً ہوتا ہو، جو بغیر کسی شرم و حیا کے معاشرے کے سامنے دھڑلے سے کیا جاتا ہو اور اس کو کوئی نہ روکتا ہو، اس کے سامنے کوئی نہ بند باندھتا ہو تو یہ وہ منکر ہے کہ جس کا وبال صرف کرنے والے پر نہیں ہے، یہ وہ ظلم ہے کہ جس پر معاشرے کے باقی لوگوں سے بھی سوال ہونا ہےکہ تمہارے سامنے اللہ کی حدیں ٹوٹ رہی تھیں، تمہارے سامنے اللہ کے احکامات پامال ہورہے تھے، تم نے کیا کیا اس کو روکنے کے لیے؟ تو اس فتنے سے بچنے کا رستہ مفسرین نے لکھا کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے، یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، یہ عبادت جو کرے گا وہ اس فتنے کی لپیٹ سے بچ جائے گا۔ وہ ان لوگوں میں سے ہوگا کہ اگر منکرات عام بھی ہورہے ہوں اور وہ اپنی حد تک یہ فرض پورا کررہا ہو، وہ نیکی کا حکم دیتا ہو اور برائی سے روکتا ہو، منکرات کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہوتا ہو ان سے ٹکراتا ہو اور استطاعت بھر کوشش کرتا ہو ان کو مٹانے کی تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کو اس فتنے کی لپیٹ سے بچائیں گے۔جیسے بنی اسرائیل کے حوالے سے قرآن بتلاتا ہے کہ جب انہوں نے سبت کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کےساتھ کھیل تماشا شروع کیا تو وہ تین فریقوں میں بٹ گئے۔ ایک فریق تو وہ تھا جو خود اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پامال کرتا تھا اور دوسرا وہ گروہ تھا کہ جس کے سامنے وہ سب کچھ ہوتا تھا مگر وہ خاموش رہتا تھا، اور تیسرا وہ گروہ تھا جو کہتا تھا کہ قالو معذرۃ إلی ربکم ، کہ ہم ان کو گناہ کرنے سے اس لیے منع کرتے ہیں تاکہ اللہ کے ہاں اپنا عذر پیش کرسکیں۔ تو وہ تین گروہ تھے، جو روکتے تھے، جو گناہ کرتے تھے اور جو خاموش رہتے تھے۔ اللہ رب العزت نے صرف ایک گروہ کے بارے میں کہا کہ ان کو عذاب سے بچا لیا گیا اور وہ گروہ ان لوگوں کا تھا جو نہی عن المنکر کرتے تھے۔
آج ہمارے معاشروں سے یہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ مٹ گیا ہے۔ شیطان نے طرح طرح کی تاویلوں میں پھنسا کے اس سے روکا ہے۔ بہت سے نیک لوگ نہ بولنے کا یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ بھئی ہم تو اتنے نیک ہیں ہی نہیں کہ دوسروں کو برائی سے روکیں، ہمارے تو اپنے اندر کمزوری ہے۔ تو بھئی یہ کمزوری اور عدم کمزور ی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ تو خود ایک جرم ہے کہ انسان نیکی کا حکم نہ دے رہا ہو، یہ خود فتنے کی لپیٹ میں، اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں لانے کا ذریعہ ہے۔ پس ہم میں جو بھی کمزوری ہو مگر ہم نے اپنے آپ کو بھی ٹھیک کرنا ہے اور اپنے اردگرد موجود منکرات سے بھی لڑنا ہے۔ ویسے بھی ایک گندگی اور برائیوں سے بھرے ہوئے معاشرے میں انسان محض دفاع کرتے کرتے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے۔ جب تک وہ آگے نہیں بڑھے گا، منکرات سے نہیں ٹکرائے گا، اردگرد کے ماحول کو صاف کرنے کی کوشش نہیں کرے گا وہ اس گندگی کے طوفان میں بہہ جائے گا ۔ تو یہی چیز آج نظر آتی ہے ۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ ایک ایسا ملک کہ جس کے اندر بہت بڑی بڑی دینی تنظیمات موجود ہیں کہ جن کے اجتماعات میں لاکھوں افراد شریک ہوتے ہوں اور جن کے متبعین کی تعداد بعض شہروں میں ہزاروں جبکہ بعض دیگر شہروں میں لاکھوں تک پہنچ جاتی ہو تو ان کی موجودگی میں، ان کے بڑے بڑے اجتماعات کی موجودگی میں آپ دیکھتے ہیں کہ تھوڑا سا باہر نکلیں اس اجتماع گاہ سے تو فحش تصاویر ہر سمت لگی ہوئی نظر آئیں گی، کوئی نہیں ہلے گا، کوئی نہیں کوشش کرے گا کہ آگے بڑھا جائے اور اس منکر کو روکا جائے اور فحاشی یا فحش تصاویر تو منکر کی بس ایک قسم ہے، ورنہ رشوتیں کیا ہماری سڑکوں چوراہوں پر دن دہاڑے نہیں لی جاتیں؟ کیا ہماری عدالتوں کا پورا نظام جو بالاصل بھی کفر پر قائم ہے مزید اس کے اندر بھی رشوت خوری کیا دن دہاڑے نہیں ہورہی ہوتی؟ ہمار اکون سا سرکاری دفتر ہے جو اس کے بغیر چلتا ہے؟ حالانکہ حدیث کہتی ہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں، یعنی کوئی چھوٹا موٹا جرم بھی نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں کیا موسیقی اس طرح سے عام نہیں ہے جس طرح کہ ایک مسلمان معاشرے میں اللہ کی کتاب کا سنے جانا عام ہونا چاہیے تھا؟ کتنے لوگ ہیں جو اسے روکتے ہیں اور اسے منکر سمجھتے ہیں؟ سودی لین دین، ناپ تول میں کمی کیا یہ چیزیں اتنی عام نہیں ہیں کہ ہر بندہ حتیٰ کہ چھوٹے بچے تک روز مرہ زندگی میں اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ یہ تمام احکامات اللہ تعالیٰ کے توڑے جارہے ہیں، ایسے احکامات کہ جن کے توڑے جانے پر گزشتہ قوموں پر عذاب نازل ہوجایا کرتے تھے، عورتوں کا معاشروں اور بازاروں میں بے پردہ پھرنا، کتنے لوگ ہیں جو ان منکرات کو روکنے کی سنجیدہ کوشش و سعی کرتے ہیں؟ اپنے گھروں کے اندر اپنا سگا بھائی فرض نمازیں چھوڑ رہاہوتا ہے، جس کا چھوڑنا انسان کے ایمان تک کو خطرے میں ڈال دیتا ہے، تو کتنے لوگ ہیں جو اس کے خلاف بولتے ہیں؟ گھروں کے اندر ٹی وی چل رہا ہوتا ہے اور اس کے اندر ہر قسم کی فحاشی آرہی ہوتی ہے کتنے لوگ ہیں جو اس کے اوپر زبان کھولتے ہیں اور اپنے گھروں کے اندر ان منکرات کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں؟ پردہ نہیں ہے تو کتنے لوگ اس کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ تو یہ سارے احکامات پامال ہوتے ہیں اور وہی لوگ جو اپنی ذات کی خاطر غصے میں آنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگاتے، اللہ کے احکامات ٹوٹنے پر ذرہ برابر بھی غصہ نہیں کرتے۔ ایسی کیفیت میں اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ احادیث میں آتا ہے کہ:
’’تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور ضرور برائی سے روکو گے ورنہ وہ وقت آجائے گا کہ تم اللہ سے دعائیں مانگو گے اور اللہ دعائیں قبول نہیں فرمائیں گے‘‘۔
نجانے کتنی ہی چیزیں ہیں جنہیں اللہ نے امر بالمعروف سے جوڑا ہے، دعاؤں کی قبولیت کو اس سے جوڑا ہے، آسمان اور زمین سے برکتوں کے نزول کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے جوڑا ہے، عمومی عذاب کے بستیوں میں پھیل جانے کو اللہ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے جوڑا ہے تو یہ روح اپنے اندر زندہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم منکرات کو برداشت نہیں کریں گے۔ جس جگہ ہم رہیں گے، جس معاشرے میں آنکھیں کھولیں گے، وہاں منکرات کو برداشت نہیں کرنا، اس کو ڈھانا ہے اس کے سامنے کھڑے ہونا ہے ، نیکی کو عام کرنا ہے اور منکر کے سامنے بند باندھنا ہے۔ تو اتنی بڑی تعداد میں ایک معاشرے میں مدارس و مساجد موجود ہوں دینی تنظیمات موجود ہوں، دین سمجھنے والے لوگ موجود ہوں اور پھر بھی دن بدن منکر قوت پکڑتا جارہا ہواور یہاں تک حالت پہنچ جائے، جو قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، کہ کھلے میدان میں ایک شخص بدکاری کرے گا، تو جو لوگوں میں سب سے نیک ہوگا وہ بھی بس اتنا ہی کہے گا کہ اوٹ میں ہو کر یہ کام کرلو۔ تو یہ حالت اپنے معاشروں میں کھلی آنکھوں دیکھنے کو ملتی ہے کہ ڈرتے ڈرتے کوئی بہت نصیحت کرے بھی تو بس اتنی سی نصیحت کردیتا ہے تو سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اللہ رب العزت اس قسم کے رویوں پہ عذاب کی دھمکی دیتے ہیں ۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے
پس اس عبادت کو زندہ کیا جائے ۔ مجاہدین اپنی معاشرت میں اس کو زندہ کریں اور اس معاملے میں ایک دوسرے کی حیا نہ کریں ۔ امیر کسی فرض کو چھوڑ رہا ہو یا کسی حرام کا ارتکاب کررہا ہو یا کوئی عام فرد کررہا ہو یا کوئی انصار کررہا ہو، ہر جگہ ہی اسے روکنا چاہیے، اس منکر کو مٹانے کی اور اس کی جگہ نیکی رائج کرنے کی کوشش ہونے چاہیے۔ اسی طرح عام معاشرے میں رہنے بسنے والے بھائیوں کے لیے بھی یہی ہے کہ وہ وہاں منکرات کے سامنے کھڑے ہوں اور ان کے سامنے بند باندھیں اور ان کو روکنے کی اور کم از کم اس لیے روکنے کی کوشش کریں کہ اللہ کےہاں اپنا عذر وہ پیش کرسکیں۔
باقی ضمنی بات یہ ضرور ہے کہ منکر کو روکنے کے اپنے آداب ہیں۔ کسی جگہ منکر کو خود براہ راست ہاتھ سے آگے بڑھ کے روک دینا ہی فریضہ ہوتا ہے اور یہی تقاضا ہوتا ہے اور اسی طرح منکر رکتا ہے اور کسی جگہ آپ کو یقین ہے کہ آپ کے روکنے سے نہیں رکے گا بلکہ ہو سکتا ہے کہ اور قوی ہوجائے وہ منکر تو آپ کسی ایسے فرد کو ڈھونڈتے ہیں جو منکر کرنے والے پر اثر رکھتا ہے اور اس کے ذریعے منکر کو رکوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن آداب کی آڑ میں یا آداب کی بات کرکے یہ نتیجہ نکالنا کہ پھر جو ہو رہا ہے ہوتا رہے اور اسے روکا ہی نہ جائے اور ہمیشہ ادنیٰ ترین درجے یعنی دل میں برا جاننے پر راضی ہوجایا جائے یہ مومن کا رویہ نہیں ہوتا۔ مومن سے یہی مطلوب ہے کہ وہ ہر حال میں منکرات کو روکنے کی طرف بڑھ رہا ہو، اس کی طرف قدم بڑھا رہا ہو۔
جہاد فی سبیل اللہ بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہی کا ایک ذریعہ ہے
امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہی کا ایک باب جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے جو سب سے عظیم ترین صورت ہے منکرات کو روکنے کی اور نیکیوں کو عام کرنے کی، اس لیے کہ جہاد سب سے بڑے منکر یعنی کفر کو، کفر کے غلبے کو روکتا ہے ۔ اور جب کفر کا غلبہ ٹوٹتا ہے، حکومت ٹوٹتی ہے کفر کی تو خود بخود نیچے کی کتنی ہی منکرات ہیں جن کا خاتمہ اس کے ساتھ ہوجاتا ہے ۔ تو جو جہاد کے رستے میں ہے وہ تو اس کی عظیم ترین یعنی بہترین صورت کو بھی ادا کررہا ہے۔ یہ نہیں کہ اپنے ارد گرد کے منکرات سے نگاہیں چرا لی جائیں، ان کو بھی روکنا ہے، لیکن جہاد فی سبیل اللہ سب سے بڑے منکر کے ساتھ، کفر و شرک کے ساتھ ٹکرانے کا نام ہے اور اسی لیے یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی بہترین صورت ہے اور جب تک یہ صورت نہیں ہوگی اور اس صورت کو تقویت نہیں بخشی جائے گی تب تک منکرات کا مکمل علاج ہمارے معاشروں میں کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ ڈرو اس فتنے سے جو تم میں سے صرف ظالموں ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گااور جان لو کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں۔ جو کوئی بھی اللہ کے احکامات سے منہ پھیرے گا ، جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی حدوں کو ٹوٹتا دیکھ کر خاموش بیٹھے گا تو وہ جان لے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سخت پکڑ کرنے والے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں اپنی زندگیوں کو شریعت کے مطابق ڈھالنے کی توفیق دیں ، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اردگرد کو بھی شریعت کے مطابق بنانے کی کوشش کرنے والا بنائیں۔
سبحانک اللھم و بحمدک ونشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک و نتوب الیک و صلی اللہ علی النبی
٭٭٭٭٭