نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چھٹی قسط

معاصر جہاد کے لیے سیرتِ رسول ﷺ سے مستفاد فوائد و حِکَم!

منصور شامی by منصور شامی
15 نومبر 2024
in اُسوۃ حسنۃ, ستمبر تا نومبر 2024
0

زیر نظر تحریر شیخ منصور شامی (محمد آل زیدان) شہید ﷫ کے آٹھ عربی مقالات کا اردو ترجمہ ہے۔ آپ ﷫ محرم ۱۴۳۱ھ میں وزیرستان میں شہید ہوئے۔ یہ مقالات مجلہ ’طلائع خراسان‘ میں قسط وار چھپے اور بعد ازاں مذکورہ مجلّے کی جانب سے محرم ۱۴۳۲ھ میں کتابی شکل میں نشر ہوئے۔ ترجمے میں استفادہ اور ترجمانی کا ملا جلا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ مترجم کی طرف سے اضافہ کردہ باتوں کو چوکور قوسین [] میں بند کیا گیا ہے۔ (مترجم)

زمین میں کفار کا خون بہانا

جب رسول اللہ ﷺ نے قیدیوں کے بارے میں فدیہ لینے کی رائے کو اختیار کرلیا تو اللہ جل جلالہ نے یہ آیت نازل کی :

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ [الانفال:67]

’’یہ بات کسی نبی کے شایانِ شان نہیں کہ اس کے پا س قیدی رہیں جب تک کہ وہ زمین میں (دشمنوں کا )خون اچھی طرح نہ بہا چکاہو (جس سے ان کا رعب پوری طرح ٹوٹ جائے )۔‘‘

غزوہ بدر میں جب مسلمانوں نے کفار کو قید کرنا شروع کیا تو اس وقت رسول اللہ ﷺ ایک سائبان میں تشریف فرما تھے اور حضرت سعد بن معاذ ﷜سائبان کے دروازے پر تلوار لٹکائے پہرہ زن تھے، رسول اللہ ﷺ نے محسوس فرمایا کہ حضرت سعد کو کفار کا اس طرح سے گرفتار کیا جانا برا لگ رہا ہے، تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا:بخدا اے سعد!شاید تمہیں لوگوں کا یہ کام برا لگ رہاہے؟انہوں نے جواب دیا :

’’جی ہاں یارسول اللہ ﷺ!یہ پہلی بڑی جنگ ہے جو اللہ نے اہلِ شرک پر مسلط کی، سو اہلِ شرک کا خوب قتل کرکے ان کا زور توڑ دینا مجھے ان کے مَردوں کو زندہ رکھنے سےزیادہ محبوب ہے ۔‘‘

[جہاد دین کی دعوت ہے، وسائل کی لوٹ مار نہیں ]

زمین میں خون بہانا مسلمانوں کی کمزوری کے مرحلے میں حکیمانہ عسکری سیاست ہے، تاکہ ایک طرف مدِ مقابل کفار کا زور ٹوٹے تو دوسری طرف دیگر کفار کو بھی عبرت ہو اور وہ ڈر جائیں اور جان لیں کہ مشرکین کے لیے ہمارے دلوں میں کوئی نرمی نہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہوجائے کہ ہم دنیاوی اغراض کی تحت اور ان کے وسائل لوٹنے کے لیے ان سے جنگ نہیں کرتے [بلکہ ہماری جنگ کا مقصد صرف اور صرف اعلائے کلمۃ اللہ ہے، اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو ہمارے بھائی ہیں، ان کے مال وجان کا وہی مقام ومرتبہ ہےجو کسی بھی جدی پشتی مسلمان کو حاصل ہے، اگر اس پر آمادہ نہ ہوں لیکن اسلامی نظام کے آگے ہتھیار ڈال دیں تب بھی ان کے مال وجان کو تحفظ حاصل ہے، ان دو صورتوں میں ہمارے لیے ان کے جان ومال سے تعرض جائز نہیں، اور اگر وہ ان دونوں باتوں پر راضی نہ ہوں تو ہم ان سے محض مال لے کر انہیں یونہی چھوڑ نہیں دیں گے، کیونکہ ہماری جنگ تو اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے ہے، نہ کہ محض مال کے حصول کے لیے، سو ہم ان سے جنگ کریں گے اور یہ جنگ تو دینِ اسلام کے غلبے کے لیے کریں گے، لیکن جنگ کے بعد ان کے اموال ہم جو بطورِ غنیمت لیں گے وہ مقصود نہیں، بلکہ سرفروشی کے بدلے میں دنیا میں ملنے والا الٰہی انعام ہے جو اس امت کی خصوصیت ہے، صحیح حدیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ جو مجاہدین غنیمت لے کر صحیح سالم لوٹ آئیں تو انہوں نے دو تہائی اجر دنیا میں ہی لے لیا اور جو بغیر غنیمت لیے شہید ہوگئے ان کا پورا کا پورا اجران کو ملے گا، سو غنیمت اگرچہ حلال وطیب ہے، بابرکت ہے، لیکن جہاد میں مقصودِ اصلی نہیں، بلکہ ضمناً حاصل ہونے والی نعمت ہے اور جہاد کی حکمتِ عملی مقصودِ اصلی کے حصول پر مبنی ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔

اس نکتے کو واضح کرتے ہوئے حضرت الاستاذ استاد احمد فاروق شہید ﷫اپنی ایک غیر مطبوع تصنیف میں کچھ یوں رقم طراز ہیں:

’’مجاہدین محض اسلحہ نہیں بلکہ ایک دعوت لے کر اٹھے ہیں، ایک پیغام کے حامل ہیں، ایک واضح مقصد رکھتے ہیں۔ اس دعوت و پیغام کا صاف ستھری شکل میں دنیا تک، حتی کہ دشمنوں تک بھی پہنچتے رہنا اساسی حیثیت کا حامل ہے۔جب یہ پیغام دھندلا جائے اور یہ دعوت ٹھیک طرح پہنچ نہ پائے تو قتال کا مقصد ہی ضائع ہونے لگتا ہے۔ ہمیں قتال برائے قتل و غارت مطلوب نہیں بلکہ قتال برائے نشرِ دعوت اور اعلائے کلمۃ اللہ مطلوب ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مجاہدین جہاں ایک طرف دشمن کے پراپیگنڈے کا توڑ کریں وہیں خود بھی ایسے ہر عمل سے حتی الوسع گریز کریں جو امت کے عام فرد کی سمجھ سے بالا تر ہو اور اسے فتنے میں ڈالنے، اس کی تائید کھونے اور اسے دین سے متنفر کرنے کا باعث بنے، اور ساتھ ہی ساتھ دشمن کو بھی یہ موقع دے کہ وہ ہمارے ہی افعال کو نمایاں کر کے امت کے سامنے ہماری خونخوار اور وحشی تصویر بآسانی پیش کر سکے۔ اسی لیے غنائم کے حصول کے دوران بھی ترجیحاً ایسے ہدف ہی چننے چاہییں جن پر ہاتھ ڈالنے سے امت ِ مسلمہ خود بخود مجاہدین کی پشت پر آ کھڑی ہو، بجائے اس کے کہ ایسے اہداف چنے جائیں جن کو نشانہ بنانے کا سبب سمجھانا خود ایک نئی دعوتی مہم طلب کرے۔‘‘

نیز غنائم کی کارروائیوں اور دیگر جہادی کارروائیوں میں ایسا توازن بھی رکھا جانا چاہیے کہ دشمن مجاہدین کو محض اموال کے حریص ٹولے کے طور پر پیش نہ کر سکے اور انصاف کی نگاہ ڈالنے والے ہر شخص پر یہ بات واضح ہو کہ مجاہدین کسی دنیاوی غرض یا مفاد کی خاطر نہیں بلکہ محض اسلام کی خاطر لڑ رہے ہیں، اور غنائم کا حصول محض جہاد اور اہلِ جہاد کو تقویت پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے نہ کہ مقصودِاصلی۔ اسی لیے علامہ سرخسی ﷫نے قیدی کے عوض فدیہ لینے کی ممانعت کی بابت احناف کا اصولی مؤقف ذکر کرتے ہوئےایک دلیل یہ بھی دی ہے کہ:

‘‘…وَلِأَنَّا أُمِرْنَا بِالْجِھادِ لِإِعْزَازِ الدِّينِ، وَفِي مُفَادَاةِ الْأَسِيرِ بِالْمَالِ إظْھارٌ مِنَّا لِلْمُشْرِكَيْنِ أَنَّا نُقَاتِلُھمْ لِتَحْصِيلِ الْمَالِ’’.

’’…اور (کافر قیدی کی رہائی کے عوض فدیہ لینا) اس لیے بھی جائز نہیں کیونکہ ہمیں جہاد کا حکم اس واسطے دیا گیا ہے تاکہ ہم دین کو معزز و سربلند کریں، جبکہ قیدی کی رہائی کے بدلے مال لینے سے ہم کفار کو (اپنے عمل سے) یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم تمہارے خلاف مال کے حصول کے لیے لڑرہے ہیں۔‘‘

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلاف اس بارے میں کتنے حساس تھے کہ مجاہدین سےکوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو عوام الناس کی نگاہ میں دین کی بنیادی دعوت ہی کی شکل بگاڑ دے۔پس آج بھی مجاہدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے عسکری اعمال، خصوصاً حصولِ غنائم کی کارروائیوں کو یوں ترتیب دیں کہ ان سے دعوت کو تقویت پہنچے اور مقاصدِ جہاد کے حصول میں مدد ہو۔

مجاہدین کی صفوں میں موجود بعض نوجوان بھائیوں سے بعض مرتبہ یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ‘اس کی پروا نہ کرو کہ لوگ کیا کہتے ہیں’۔ اس جملے کے دومفہوم ہو سکتے ہیں، ایک درست اور ایک غلط۔

درست مفہوم تو یہ ہے کہ دین کے محکم احکامات کو انسانوں کی پسند کے مطابق بدلا نہیں جا سکتا اور اسی لیے فرائض کی بجا آوری، حرام سے اجتناب اور عقائد کو تھامے رکھنے میں کسی کی ملامت کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ یہی نہیں، بلکہ ایک معمولی سنت بھی عوامی پسند و ناپسند کی نظر نہیں کی جا سکتی، بلکہ اس سے محبت کرنا اور اس کے درست مقام پر اسے زندہ کرنا نہایت افضل عمل ہے۔ میدانِ جہاد کا رخ کرنے والے نوجوان بھی اگر محض عوامی پسند وناپسند اور معاشرے کے مروجہ معیارات کے مطابق چلتے رہتے، تو کبھی دنیاوی مصروفیات کو لات مار کر میدان کا رخ نہ کر پاتے۔ چنانچہ اس معنی میں لوگوں کی رائے کی پروا نہ کرنا تو مطلوب و مستحسن ہے کہ ان کی ملامت مداہنت پر اور شرعی واجبات ترک کرنے پر مجبور نہ کر دے۔

لیکن اس جملے سے ایک غلط مفہوم لینا بھی ممکن ہے۔ بعض مقامات پر شریعت نے خود مصالح و مفاسد کو معتبر ٹھہرایا ہے اور یہ آزادی بھی دی ہے کہ ایک سے زائد جائز راستوں میں سے وہ راستہ اختیار کرو جس میں زیادہ مصلحت ہو۔ انھی جائز دینی مصلحتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مجاہدین کو عوام المسلمین کی تائید حاصل رہے اور وہ اللہ رب العزت کی تائید کے بعد عوام کی تائید کو بھی ساتھ لیں [فرمانِ خداوندی ہے :

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ؀ (سورۃ الانفال:64)

’’اے نبی!تمہارے لیے تو بس اللہ اور وہ مومن لوگ کافی ہیں جنھوں نے تمہاری پیروی کی ہے۔‘‘]

اور امت کی پشت پناہی و معاونت سے کفار کے مقابلے میں قوت پکڑیں۔ اسی طرح یہ بھی ایک جائز دینی مصلحت ہے کہ مجاہدین کی دعوت اپنے اصل رنگ میں کفار تک پہنچتی رہے اور ہر اس تہمت کی جڑ کٹ جائے جو دشمنانِ دین مجاہدین پر لگاتے ہیں۔

تبھی ہم دیکھتے ہیں کہ جب قرآن میں انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا ذکر آتا ہے تو وہ جا بجا اس بات پر زور دیتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں تمہارے اموال سے کوئی غرض نہیں، ہمیں مال کی کوئی طمع نہیں، ہم تو بس اللہ کی اطاعت اختیار کر لینے کے داعی اور آخرت کے طالب ہیں۔ اس لیے ایسے مقامات پر لوگوں کی رائے کی پروا نہ کرنا دین کی تعلیم نہیں۔ مجاہدین کو بھی دورانِ دعوت اس اسوۂ انبیاء کو سامنے رکھنا چاہیے کیونکہ سیاستِ شرعیہ اور جہاد کے ابواب میں تو بالخصوص مصالح و مفاسد کو بہت زیادہ دخل ہے۔ دیگر انبیاء کے علاوہ خود خاتم النبیین محمد مصطفیٰ ﷺ نے بھی اپنے عمل سے یہ تعلیم دی کہ بعض مواقع پر اس کی پرواہ کرنا شرعاًمطلوب ہوتا ہے کہ لوگ مسلمانوں کے کسی فعل سے کیا مفہوم اخذ کریں گے اور فتنہ پرور عناصر کو کیا بات کرنے کا موقع ملے گا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک غزوے کے موقع پر عبداللہ بن ابی منافق نے مسلمانوں کے درمیان فتنہ ڈالنے کی کوشش کی اور نبی ﷺ اور ان کے صحابہؓ کی شان میں یہ گستاخانہ کلمات کہے کہ مدینہ واپس پہنچنے کے بعد عزت والے (یعنی، والعیاذ باللہ،منافقین) ذلت والوں (یعنی، والعیاذ باللہ، نبی ﷺ اور ان کے صحابہؓ) کو باہر نکال دیں گے۔ تو اس موقع پر حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے اس منافق کی گردن اڑانے کی اجازت چاہی۔ نبی ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ شخص قتل کا مستحق نہیں، بلکہ یہ فرمایا کہ:

‘‘دَعْهُ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ’’۔

‘‘اسے چھوڑ دو (قتل مت کرو)، تاکہ لوگ یہ بات نہ کہہ سکیں کہ محمد (ﷺ) اپنے ہی ساتھیوں (یعنی مسلمانوں) کو قتل کرتے ہیں’’۔

علامہ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

‘‘فِيهِ مَا كَانَ عَلَيْهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْحِلْم، وَفِيهِ تَرْك بَعْض الْأُمُور الْمُخْتَارَة، وَالصَّبْر عَلَى بَعْض الْمَفَاسِد خَوْفًا مِنْ أَنْ تَتَرَتَّب عَلَى ذَلِكَ مَفْسَدَة أَعْظَم مِنْهُ، وَكَانَ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَأَلَّف النَّاس…’’۔

‘‘اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کتنے حلیم و بردبار تھے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض مستحسن کاموں کو چھوڑا جا سکتا ہے اور بعض برائیوں پر بھی صبر کیا جا سکتا ہے اگر یہ خوف ہو کہ اس (مستحسن کام کو کرنے یا برائی کو روکنے) سے اس سے بھی بڑی برائی پیدا ہو جائے گی۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کے دل جیتا کرتے تھے…’’۔

یہ ہے لوگوں سے تعامل کرنے کے معاملے میں نبی ء اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کامبارک اور سراپا رحمت اسوہ، جسے مجاہدین اورخصوصاً ان کے امراء کو ہر دم اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور اپنی قوم اور اپنے دشمنوں دونوں سے اسی کی روشنی میں معاملہ کرنا چاہیے۔ نیز یہ نکتہ ذہن میں اچھی طرح بٹھا لینا چاہیے کہ ہر جائز کام کرنا لازم نہیں ہوتا، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیثِ مبارکہ اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے بھی واضح ہے۔

(غیر مطبوع تصنیف: معاصر جہاد میں غنائم کے احکام) ۔

[کفار کا قتل ان کے فتنے کو روکنے کے لیے ہے،بڑھانے کے لیے نہیں ]

کفار کا زور توڑنے کے لیے خونریزی کے اہمیت کے پیشِ نظر قرآن کریم میں اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں :

فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ (سورۃ محمد: ۴)

’’سو جب کفار سے تمہارا سامنا ہوتو ان کی گردنیں مارو۔‘‘

ارشادِباری ہے :

فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ؀ (سورۃ الانفال: ۵۷)

’’لہٰذا اگر کبھی جنگ میں یہ لوگ تمہارے ہاتھ لگ جائیں تو ان کو سامانِ عبرت بناکر ان لوگوں کو بھی تتربتر کرڈالو جو ان کے پیچھے ہیں، تاکہ وہ [یہ انجام ]یاد رکھیں۔‘‘

مرتدین کے خلاف جنگوں میں حضرت ابوبکر صدیق ﷜کی وصیت تھی کہ بغیر کسی نرمی اور کوتاہی کے مرتدین کی گردنیں ماری جائیں۔

سو اس مرحلے میں اس سیاست کا برمحل استعمال انتہائی ضروری ہے، قتل وغارت اور خونریزی کے مہیب مناظر دشمن کی نفسیات پر ایسا اثر ڈالتے ہیں کہ وہ مارے خوف کے خودکشیاں کرنے لگتے ہیں۔

افغانستان میں بگرام جیل کا ایک امریکی پہرے دار ہمارے قیدی مجاہد بھائیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتا تھا، انسانیت کے ناطے نہیں، بلکہ اس کی وجہ اس نے خود بیان کی :

’’میں تم سے حسنِ سلوک اس لیے کرتا ہوں کہ اگر تم مجھے گرفتار کرو تو میرے ساتھ بھی حسنِ سلو ک کرو اور مجھے ذبح نہ کرو جیسے ابومصعب زرقاوی [شہید رحمہ اللہ]کرتا ہے ۔‘‘

[یہ خونریزی فی نفسہ مطلوب نہیں، بلکہ اس سے مقصود کفار کا زور توڑنا اور ان پر رعب قائم کرنا ہے، یہ کوئی تعبدی امر نہیں، بلکہ سیاستِ شرعیہ کے دائرے میں داخل ہے، ورنہ بنو نضیر وقینقاع کی جان بخشی کیوں کی گئی؟ خیبر والوں کو بھی بنو قریظہ کی طرح قتل کیوں نہیں کیا؟ جرم کی سطح، مجرم کی نوعیت، حالات کا تجزیہ کرکے مصلحت ومفسدہ کا تعین ہی طے کرتے ہیں کہ دشمن سے کیا سلوک کیا جائے، اس لیے محسنِ امت شیخ اسامہ رحمہ اللہ نے یومِ تفریق کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک کے سامنے جنگ بندی کی پیشکش بھی رکھی۔ اگر یہ نزاکتیں پیشِ نظر نہ ہوں تو دشمن بڑھا کر جانبی معرکوں میں تو الجھا جا سکتا ہے، شاید شجاعت کی کچھ داستانیں بھی رقم ہوجائیں، لیکن سفر کی سمت بدل جائے گی اور قافلہ منزل تک نہ پہنچ پائے گا۔ مدبرِ جہاد شیخ عطیۃ اللہ شہید ﷫نے غزوہ خیبر میں حضرت علی ﷜کو جھنڈا دے کر رسول اللہ ﷺ نے جو وصیتیں فرمائیں ‘ان کی تشریح میں یہ سارے نکات خود احادیث سے استنباط کیے ہیں، شیخِ محترم کی تشریحات مجلہ طلائع خراسان (عربی) میں قسط وار چھپتی رہیں، آپ ان کی تکمیل سے قبل ہی شہید ہوگئے، یہ بعدازاں ’شرح حدیث:انفذ علیٰ رسلک‘ کے نام سے کتابی شکل میں بھی نشر ہوئیں اور شیخ کے ’مجموع الاعمال الکاملۃ‘ میں شامل ہیں ]

قیدیوں کے ساتھ حسنِ سلوک

بدر کے قیدیوں کے معاملے میں اسلام کی نرمی اور بلنداخلاقی بہت نمایاں ہے،رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرا م کو ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا اور صحابہ ﷢نے اس پر پورا عمل کیا۔

ایک قیدی ابوعزیز بن عمیر (حضرت مصعب بن عمیر ﷜کے بھائی) کہتے ہیں :

’’جب مسلمان بدر سے روانہ ہوئے تو میں انصار کی ایک جماعت کے ساتھ تھا،جب بھی ان کا صبح یا شام کا کھاناآتا تو مجھے باقاعدگی سے روٹی دیتے اور خود کھجور پر گذارا کرلیتے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں ہمارے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا تھا،سو ان میں سے کسی کے ہاتھ روٹی کا کوئی ٹکڑا آتا تو اسے میری طرف بڑھادیتا، میں شرم کے مارے لوٹادیتا، لیکن وہ دوبارہ مجھے دے دیتا، اسے ہاتھ بھی نہ لگاتا!‘‘

اللہ عزوجل اپنے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا۝ (سورۃ الانسان: ۸)

’’وہ [اللہ کے نیک بندے] اللہ کی محبت کی خاطر مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔‘‘

ہم دنیا کے ہر انصاف پسند کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ قیدیوں کے ساتھ اسلام کے حسنِ سلوک اور مسلمان قیدیوں کے ساتھ [انسانی حقوق کے علمبردار] صلیبی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سلوک کے مابین موازنہ کرے! یقیناً کوئی بھی انصاف پسند اسلام کی نرمی اور صلیبیوں کی وحشت کے مابین واضح فرق کو پہچاننے میں نہیں ہچکچائے گا،یہاں میں اس وحشیانہ سلوک کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ اس کی قابلِ نفرت خبریں ہرجگہ پھیل چکی ہیں،بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ مسلمان قیدیوں کے ساتھ ان کے تعامل کی لغت میں نرمی ومہربانی کا اشارہ تک موجود نہیں، اور امریکہ کواپنے اس ظلم کی بھاری قیمت چکانی ہوگی۔ان شاء اللہ

اس غزوے کے نمایاں پہلوؤں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کی کامل نصرت فرمائی،فرشتوں کے لشکر بھیجے جو مسلمانوں کو ثبات دے رہے تھے اور ان کے ساتھ مل کر کفار سے لڑ بھی رہے تھے،ٍاللہ نے ان پربارش اتاری،اونگھ طاری کی یہاں تک کہ مٹھی بھر مٹی اور کنکریوں کو بھی مسلمانوں کی فوج بنادیا!

اور اسی طرح جب بھی مسلمان اپنی طاقت کے بقدر اپنا فریضہ انجام دیں گے تو اللہ اپنی جانب سے اپنے لشکر بھیج کر ان کی امداد کرے گا، یہ طوفان جو امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں اللہ کا ہی ایک لشکر ہیں جو امریکہ کے بڑائی کے دعوؤں پر ایک طمانچہ ہیں، [اس لیے طاقت کے توازن کی بحث میں پڑنا اور عائد فرض کو پسِ پشت ڈال کر ہم اپنا سفر طویل اور منزل بعید تو کرسکتے ہیں، لیکن امت کوکوئی خیر نہیں دے سکتے،پاکستان میں ستر سال سے زائد عرصہ بیت چکا، لیکن انہی بحثوں کی وجہ سے منزل ہنوز نگاہوں سے دور ہے، جبکہ امارتِ اسلامی افغانستان نے مقدور بھر وسائل کے ساتھ عالمی قوتوں کے ساتھ ٹکر لے کر ان کا بھرکس نکال دیا۔

فضائے بدر پیدا کرفرشتے تیری نصرت کو
اترسکتے ہیں گردوں سےقطار اندر قطار اب بھی]

سو طائفہ منصورہ (جب تک صابر اور اجر کا طالب ہے)اللہ کی مزید مدد کا انتظار کرے،اور اللہ کے لشکروں کو تو بس وہ اللہ ہی جانتا ہے۔

ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ اس مبارک مہینے میں ہمیں فتح ِ مبین سے نوازے،پس ہم خوشیوں بھری ایسی عید منائیں جس میں غموں کی تلخی نہ ہو۔

بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Previous Post

اخباری کالموں کا جائزہ | ستمبر تا نومبر 2024

Next Post

یہ غزہ ہے!یہاں زمین کی نہیں، بقاء کی جنگ لڑی جارہی ہے! | (حصہ سوم)

Related Posts

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | دسویں قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | دسویں قسط

14 جولائی 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | نویں قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | نویں قسط

9 جون 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | آٹھویں قسط

25 مئی 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | ساتویں قسط

31 مارچ 2025
عمر ِثالث | پہلی قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | چوتھی قسط

15 نومبر 2024
طوفان الأقصی

یہ غزہ ہے!یہاں زمین کی نہیں، بقاء کی جنگ لڑی جارہی ہے! | (حصہ سوم)

15 نومبر 2024
Next Post

یہ غزہ ہے!یہاں زمین کی نہیں، بقاء کی جنگ لڑی جارہی ہے! | (حصہ سوم)

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version