نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home آخرت

موت وما بعد الموت | بیسواں درس

قیامت کے دن گناہ گار مسلمانوں کے احوال

انور العولقی by انور العولقی
15 نومبر 2024
in آخرت, ستمبر تا نومبر 2024
0

قیامت کے دن گناہ گار مسلمانوں کے احوال

آج ہم أسأۃ المؤمنین یعنی گناہ گار مسلمانوں کے حوالے سے بات کریں گے۔ وہ مسلمان کہ جو بعض مخصوص گناہوں میں ملوث ہوئے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہوں کی مخصوص سزائیں ہوں گی۔ ہم جنت اور جہنم کی با ت نہیں کررہے بلکہ فی الحال ہم قیامت کے دن لوگوں کی حالت کے حوالے سے بات کررہے ہیں۔ ہماری یہ گفتگو گیارہ نکات پر مبنی ہے۔

  1. ‌زکوۃ ادا نہ کرنے والے

ان کی سزائیں مختلف النوع ہیں۔ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مال دار آدمی جو زکوۃ ادا نہیں کرتا، اس کا مال قیامت کے دن ایک مہیب سانپ کی صورت میں ظاہر ہوگا اور وہ سانپ اس شخص کو اپنی لپیٹ میں لے کر کچلے گا۔ نیز بخاری شریف کی ایک حدیث ہے:

مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ ﴿وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِھٖ ھُوَ خَيْرًا لَّھُمْ ۭ بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ ۭ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ وَلِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ﴾

’’جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور پھر اس نے اس کی زکوۃ نہیں ادا کی تو (آخرت میں) اس کا مال نہایت زہریلا سانپ بن کر، جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں گے، اس کی گردن میں طوق کی طرح پہنا دیا جائے گا۔ پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑ کر کہے گا کہ میں ہی تیرا مال ہوں، میں ہی تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی،’اور جو لوگ اس (مال) میں بخل سے کام لیتے ہیں جو انہیں اللہ نے اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے، اس کے برعکس یہ ان کے حق میں بہت بری بات ہے۔جس مال میں انہوں نے بخل سے کام لیا ہوگا، قیامت کے دن وہ ان کے گلے کا طوق بنادیا جائے گا۔ اور سارے آسمان اور زمین کی میراث صرف اللہ ہی کے لیے ہے، اور جو عمل بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے‘۔‘‘

یہ تو سزا کی ایک قسم ہوئی نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو داؤد کی ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے:

مَا مِنْ صَاحِبِ کَنْزٍ لَا يُؤَدِّي حَقَّهُ إِلَّا جَعَلَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُحْمَی عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْوَی بِهَا جَبْهَتُهُ وَجَنْبُهُ وَظَهْرُهُ حَتَّی يَقْضِيَ اللَّهُ تَعَالَی بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ ثُمَّ يَرَی سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَی الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَی النَّارِ وَمَا مِنْ صَاحِبِ غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي حَقَّهَا إِلَّا جَائَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَوْفَرَ مَا کَانَتْ فَيُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَائُ وَلَا جَلْحَائُ کُلَّمَا مَضَتْ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا حَتَّی يَحْکُمَ اللَّهُ بَيْنَ عِبَادِهِ فِي يَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ۔

’’ جس کے پاس مال ہے اور وہ پھر بھی اس کی زکوۃ نہیں دیتا تو قیامت کے دن اسی مال کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے اس کی پیشانی، پسلی اور پیٹھ کو داغا جائے گا یہاں تک کہ اللہ فیصلہ فرمائے اس دن، جو تمہارے اس دنیاوی حساب سے پچاس ہزار برس کا ہوگا، اس کے بعد اس کو اپنی راہ معلوم ہوگی جنت کی طرف یا دوزخ کی طرف۔ اسی طرح جو بکریوں والا ان کی زکوۃ نہ دے گا تو قیامت کے روز وہ شخص ان بکریوں کے سامنے ایک صاف چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا اور وہ بکریاں اس کو سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے کچلیں گی اور ان بکریوں میں کوئی بکری ٹیڑھے سینگ کی یا بےسینگ کی نہ ہوگی۔ جب ایک مرتبہ یہ بکریاں مار چکیں گی تب پھر دوبارہ سے پہلی والی بکری آئے گی (اور مارنا شروع کرے گی) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا،(وہ دن ) جو تمہارے حساب سے پچاس ہزار برس کے برابر ہوگا ۔‘‘

تھوڑا سا مال ہرگز اتنی حیثیت نہیں رکھتا کہ جس کے لیے کنجوس سے کنجوس شخص بھی پچاس ہزار سال کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوجائے۔ ایسا مال جس میں برکت نہ ہو دنیا میں بھی بے فائدہ ہے اور آخرت میں بھی اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ یہ جمع شدہ مال انسان کبھی نہ کبھی تو خرچ کرے گا ہی اور اگر خرچ نہیں کرے گا تو ورثا کے لیے چھوڑ جائے گا۔ ذرا سے مال کے لیے انسان اپنی عمر سے کئی گنا زیادہ پچاس ہزار سال کی سزا بھگتے، یہ کوئی عقل مندی تو نہیں ہے۔ اس لیے انسان کو مال خرچ کرنے میں کشادگی سے کام لینا چاہیے۔ آپ کھلے ہاتھ سے عطا کریں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کو عطا کریں گے۔ انسان اس حال میں پیدا ہوا کہ وہ خالی ہاتھ تھا، نہ جیب، نہ دھیلا اور نہ ہی کوئی بینک اکاؤنٹ۔ اللہ نے دیا سب کچھ اور اللہ لے بھی سکتے ہیں اور اللہ مزید بھی عطا کرسکتے ہیں۔ جس اللہ نے انسان کو پیدا کیا اس نے اس کے ساتھ اس کا رزق بھی پیدا کیا۔ پس انسان کو جلد یا بدیر وہ مل کر رہے گا جو اس کے نصیب میں لکھا گیا ہے۔

  1. کبر

دوسرا گناہ جو کہ بہت ہی خطرناک ہے اور جس کی وجہ سے اللہ رب العزت نے اپنی بدترین مخلوق ابلیس پر اپنا غضب نازل کیا، تکبر ہے۔ اس تکبر نے ابلیس کو اعلیٰ علیین کے مرتبے سے اسفل السافلین میں پہنچا دیا۔ فقط تکبر…… أنا خیر منہ…… خلقتنی من نار وخلقتہ من طین…… میں بہتر ہوں…… یہ غرور ابلیس کو لے ڈوبا۔یہ گناہ انتہائی خطرناک ہے، اس قدر کریہہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا يدخل الجنة من کان في قلبه مثقال ذرة من کبر (صحیح مسلم)

” ایسا شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا۔“

ایک اور حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی غرور ہوگا وہ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھ سکے گا، یعنی جنت کے قریب بھی نہ پھٹک سکے گا۔ ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن متکبرین کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ ان کی صورتیں انسانوں والی ہوں گی مگر جثہ چیونٹی جتنا ہوگا۔ اور ہر طرف سے انہیں ذلیل کیا جا رہا ہوگا۔

چیونٹی کی ایک بہت ہی چھوٹی قسم ہوتی ہے اسے الذر کہتے ہیں ، جبکہ دیگر چیونٹیوں کو النمل کہا جاتا ہے ۔ متکبرین کو انسانوں کی شکل میں مگر اس چھوٹی چیونٹی الذر کے جثے کے برابر اٹھایا جائے گا۔ ہر طرف سے وہ ذلیل کیے جائیں گے۔ کیسے؟ کیونکہ ہر بھاگنے والا (جیسا کہ قیامت کے دن لوگ چل نہیں رہے ہوں گے بلکہ بھاگ رہے ہوں گے) ان کے اوپر چڑھے گا اور انہیں کچلتا چلا جائے گا۔

تکبر جھوٹ ہے

تکبر کیوں اس قدر بڑا گناہ ہے؟ کیونکہ تکبر جھوٹ ہے۔ انسان اپنی شخصیت کے اوپر تکبر کا ایک مصنوعی لبادہ اوڑھ لیتا ہےجبکہ حقیقت میں وہ ایک عاجز مخلوق ہے۔ اللہ نے انسان کو تخلیق کیا اور وہی اسے عزت عطا کر سکتے ہیں، جسے اللہ عزت نہ دیں اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔

﴿هَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـــًٔا مَّذْكُوْرًا۝﴾ (سورۃ الدھر: ۱)

’’ بےشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر چیز ہی نہ تھا۔‘‘

ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب ہم کچھ بھی نہ تھے ہماری کوئی حیثیت کوئی وجود ہی نہ تھا۔ اللہ رب العزت نے ہمیں عدم سے وجود بخشا اور اللہ ہی نے ہمیں قدر و قیمت عطا فرمائی۔ ہم اللہ کی عاجز مخلوق ہیں، اس کے محتاج ہیں، اللہ کے سوا ہمیں کوئی عزت نہیں دے سکتا، مقام نہیں دے سکتا، لہٰذا ہمیں عاجز ہی بن کر رہنا چاہیے۔ جب انسان تکبر کرتا ہے تو وہ اس چیز کا دعویٰ کرتا ہے جو اس کی ہے ہی نہیں، جو اس کا مقام ہی نہیں ہے، لہٰذا یہ صریح جھوٹ ہے اور اس جھوٹ کا پول قیامت کے دن کھل جائے گا اور متکبرین اس حال میں آئیں گے جس کے وہ سزاوار ہوں گے۔ وہ کسی مقام کے حق دار نہیں ہوں گے لہٰذا اللہ رب العزت انہیں بے مول کردیں گے اور اسی وجہ سے انہیں چھوٹی چیونٹیوں کے بقدر اٹھایا جائے گا۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

أَخْنَعُ الْأَسْمَائِ عِنْدَ اللَّهِ رَجُلٌ تَسَمَّی بِمَلِکِ الْأَمْلَاکِ (صحیح بخاری)

’’ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین ناموں میں اس کا نام ہوگا جو ملک الاملاک (شہنشاہ) اپنا نام رکھے گا۔‘‘

واللہ اعلم یہ کس مخصوص شخص کا ذکر ہے مگر ایک دور ایسا گزرا ہے جب شاہان فارس خود کو شہنشاہ کہلایا کرتے تھے۔ اور یہ شخص جو دنیا میں خود کو بادشاہوں کا بادشاہ کہلایا کرتا تھا، قیامت کے دن اس حال میں پیش ہوگا کہ چھوٹی چیونٹی کے بقدر اس کا قد ہوگا اور لوگ اسے اپنے قدموں تلے کچل رہے ہوں گے اور وہ ذلت کی انتہا پر ہوگا نیز یہ نام، شہنشاہ، اس کے لیے مزید ذلت کا باعث بنے گا کیونکہ اس نے ایسا دعویٰ کیا جس کی کوئی حقیقت ہی نہ تھی۔

  1. وہ جن سے اللہ رب العزت قیامت کے دن کلام نہ فرمائیں گے

بعض گناہ ایسے ہیں کہ قیامت کے دن ان گناہوں کے مرتکبین سے اللہ رب العزت کلام نہ فرمائیں گے۔ اللہ فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَـمَنًا قَلِيْلًا اُولٰۗىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ ښ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ؁ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ ۚفَمَآ اَصْبَرَھُمْ عَلَي النَّارِ ؁﴾ (سورۃ البقرۃ: ۱۷۴، ۱۷۵)

’’ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت وصول کرلیتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ کے سوا کچھ نہیں بھر رہے، قیامت کے دن اللہ ان سے کلام بھی نہیں کرے گا، اور نہ ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی اور مغفرت کے بدلے عذاب کی خریداری کرلی ہے۔ چنانچہ (اندازہ کرو کہ) یہ دوزخ کی آگ سہنے کے لیے کتنے تیار ہیں۔‘‘

یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے پاس احکام اسلام کا علم ہے مگر وہ اسے چھپاتے ہیں۔ پس قیامت کے دن ان کی سزا یہ ہوگی کہ اللہ رب العزت ان سے کلام تک نہ فرمائیں گے۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ أُلْجِمَ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (مسند احمد)

’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے اور وہ اسے خواہ مخواہ ہی چھپائے تو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام دی جائے گی۔‘‘

اللہ رب العزت نے علم تبلیغ کے لیے نازل کیا ہے لہٰذا اس علم کا کیا فائدہ جسے بیان کرنے کے بجائے چھپایا جائے۔فقہ کا ایک اصول ہے کہ لا یجوز تأخیر البیان عن الوقت الحاجۃ، ضرورت کے وقت (مسائل کے) بیان میں تاخیر ناجائز ہے۔ اگر ایک مسئلہ فوری توجہ طلب ہے تو اس سے متعلق علم اسی وقت بیان کیا جانا چاہیے۔تاخیر محض عذر کی بنا پر کی جاسکتی ہے۔ مثلاً آپ اپنے سامنے ایک ایسا گناہ ہوتے دیکھ رہے ہیں جس کی کراہت لوگوں کی سامنے بیان کی جانی چاہیے تو آپ صرف اسی صورت میں خاموش رہ سکتے ہیں جب آپ کے پاس سکوت کی کوئی دلیل موجود ہو۔مثلاً ایک عذر یہ ہوسکتا ہے کہ اگر آپ اسی وقت مسئلہ بیان کریں گے تو لوگ بھڑک جائیں گے اور بے قابو ہوکر کسی بڑے منکر میں کسی بڑی برائی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ عذر موجود نہ ہو تو عمومی اصول یہی ہے کہ ضرورت پڑنے پر مسئلے کی تفصیل بیان کی جائے اور اسے چھپایا نہ جائے۔اور یہ معروف شرعی اصول ہے۔

نیز ایک اور آیت میں ہے:

﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَاَيْمَانِهِمْ ثَــمَنًا قَلِيْلًا اُولٰۗىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَھُمْ فِي الْاٰخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُھُمُ اللّٰهُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ ۠ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ؀﴾ (سورۃ آل عمران: ۷۷)

’’ جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے عہد اور اپنی کھائی ہوئی قسموں کا سودا کر کے تھوڑی سی قیمت حاصل کرلیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، اور قیامت کے دن نہ اللہ ان سے بات کرے گا، نہ انہیں (رعایت کی نظر سے) دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کا حصہ تو بس عذاب ہوگا، انتہائی دردناک ۔‘‘

یہ ان کا ذکر ہے جو اپنے دین کو دنیاوی مفادات کے لیے بیچ ڈال دیتے ہیں، پس پشت ڈال دیتے ہیں، دنیا کے کسی مقصد کے حصول کے لیے اپنے دین پر سمجھوتہ کرتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال علمائے سلطان ہیں۔ یہ سلطان بادشاہ بھی ہوسکتے ہیں اور صدر وزیر اعظم بھی۔ یہ وہ علماء ہوتے ہیں جو حکمران کی خوشنودی کی خاطر فتاویٰ دیتے ہیں اور وہ اپنے علم کو فسق و فجور کا جواز پیش کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کی سزا یہ ہو گی کہ اللہ رب العزت ان کی جانب نگاہ نہ فرمائیں گے، نہ انہیں پاک کریں گے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔

اسی زمرے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اللہ کے نام کی قسم کھاتے ہیں اور پھر جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ اللہ کے نام کو جھوٹ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص یہ کہے کہ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں فلاں اور فلاں بات پر جبکہ وہ بات جھوٹ ہو۔ ایسے لوگ اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا نام استعمال کرتے ہیں۔

ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں اس قبیل کے لوگوں کے حوالے سے بہت سی احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں سے پہلی حدیث مسلم شریف کی ہے:

عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثَةٌ لَا يُکَلِّمُهُمْ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَکِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالَ فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِرَارًا قَالَ أَبُو ذَرٍّ خَابُوا وَخَسِرُوا مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْکَاذِبِ

’’ ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا نہ انہیں گناہوں سے پاک وصاف کرے گا (معاف کرے گا) اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے، ابوذرؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ فرمایا؛ حضرت ابوذرؓنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ لوگ تو سخت نقصان اور خسارے میں ہوں گے، یہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا اور دے کر احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والا۔ ‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی بات کو دہراتے تو اس کا مقصد لوگوں کی مکمل توجہ اس بات کی جانب مبذول کروانا ہوتا تھا۔ ان خائب و خاسر لوگوں میں پہلا شخص وہ ہے جو اپنے لمبے لمبے کپڑے زمین پر گھسیٹتا پھرتا ہے، ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے۔ ایک اور حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ اس عذاب کا مستحق وہ شخص ہے جو تکبر کی وجہ سے اپنے کپڑے گھسیٹتا پھرتا ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جو جھوٹی قسم کھا کر اپنا مال بیچتا ہے۔ مثلاً دکاندار کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم یہ مال میں نے اتنے روپے میں خریدا ہے، جب کہ دراصل وہ کم قیمت میں خریدا گیا ہوتا ہے۔اللہ رب العزت ایسے شخص سے کلام نہ فرمائیں گے جو اللہ کا نام لے کر جھوٹی قسم کھاتا ہے تاکہ اس کا سامان بک جائے۔تیسرا شخص المنّان ہے جو احسان کرکے جتاتا ہے مثلاً کہتا ہے کہ تمہیں یاد ہے کہ ایک سال قبل میں نے تمہیں پانچ سو روپے دیےتھے! فلاں وقت میں نے تمہیں دعوت پر بلایا تھا! فلاں دن میں نے تمہیں اپنی سواری پر بٹھایا تھا، ایسا شخص جو احسان کرکے بار بار جتاتا ہے اس کا عمل بتاتا ہے کہ اس نے یہ نیکی اللہ رب العزت کی رضا کی خاطر نہیں بلکہ اس شخص سے بدلے میں احسان کی خاطر کی ہے۔

بخاری و مسلم کی ایک حدیث ہے:

مَنْ حَلَفَ عَلَی يَمِينٍ وَهُوَ فِيهَا فَاجِرٌ لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ.

’’ جس نے کوئی جھوٹی قسم جان بوجھ کر کھائی تاکہ کسی مسلمان کا مال ناجائز طور پر حاصل کرلے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس حالت میں حاضر ہوگا کہ اللہ پاک اس پر نہایت ہی غضبناک ہوگا۔‘‘

ایک اور حدیث میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

ثَلَاثَةٌ لَا يُکَلِّمُهُمْ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ مَنَعَ ابْنَ السَّبِيلِ فَضْلَ مَائٍ عِنْدَهُ وَرَجُلٌ حَلَفَ عَلَی سِلْعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ يَعْنِي کَاذِبًا وَرَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا فَإِنْ أَعْطَاهُ وَفَی لَهُ وَإِنْ لَمْ يُعْطِهِ لَمْ يَفِ لَهُ (ابو داؤد)

’’ تین قسم کے آدمی ایسے ہوں گے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے کلام نہیں فرمائیں گے: ایک وہ آدمی جس کے پاس اپنی ضرورت سے زائد پانی ہو اور وہ مسافر کو اس پانی سے روک دے، دوسرا وہ شخص جو اپنا سامان فروخت کرنے کے واسطے عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائے، اور تیسرا وہ شخص جس نے کسی حاکم سے بیعت کی ہو اور اگر وہ حاکم اسے کچھ (ہدیہ وغیرہ) دیتا ہے تو وہ وفا داری کرے اور اگر کچھ نہ دے تو وہ وفا داری بھی نہ کرے (دنیا کے مفادات کے لیے بیعت کرے) ۔‘‘

وہ شخص جو کسی مسافر کو پانی کے حصول سے روک دے، جبکہ اس کے پاس اضافی پانی موجود ہو، اللہ رب العزت قیامت کے دن اس سے کلام نہیں فرمائیں گے۔ ایک اور حدیث میں اسی حوالے سے آتا ہے کہ اللہ رب العزت اس شخص سے فرمائیں گے کہ تم نے اس چیز کو کیونکر روکا جو تمہاری ملکیت تھی ہی نہیں۔ پانی ایسی چیز ہے کہ جس پر سب کا حق ہے۔ ہر مخلوق جسے پانی کی ضرورت ہو اس کا پانی پر حق ہے۔ اگر آپ کے پاس اضافی پانی ہے اور کسی ضرورت مند کو اس پانی کی ضرورت ہے تو وہ پانی آپ کی ملکیت نہیں ہے، آپ کو ضرور اسے اس شخص کو دینا چاہیے جسے اس کی ضرورت ہے۔

دوسرا وہ شخص ہے کہ جو عصر کے بعد اپنے سامان ِ تجارت پر قسمیں کھانا شروع کردیتا ہے۔اس کا کیا معنی ہے؟ عموماً تجارت کا اور کام کاج کا وقت دن کا ہوتا ہے اور عصر کے بعد تک اگر کسی کا سامان نہیں بکتا تو اسے وہ سامان گھر لے جانا پڑتا ہے۔ لہٰذا عصر کے بعد سوداگر یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ان کا سامان بک جائے اور انہیں اسے واپس نہ لے جانا پڑے اور اسی لیے وہ اس سامان پر قسمیں کھانا شروع کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم یہ میں نے اتنے اور اتنے میں خریدا ہے وغیرہ اور وہ اپنی ان قسموں میں جھوٹے ہوتے ہیں۔

پہلے پہل لوگ دن کا زیادہ وقت کام کیا کرتے تھے، یعنی سورج نکلنے سے مغرب تک، مگر اب ہمارے کام کرنے کے اوقات کم ہوگئے ہیں لہٰذا ہم ہر وقت یہ شکایت کرتے پائے جاتے ہیں کہ ہمارے پاس اپنے دین کے لیے وقت ہی نہیں ہے ، ہماری ڈیوٹی آٹھ سے پانچ یا نو سے چار تک ہوتی ہے اور اتنے ہی وقت میں ہم نمازیں بھی پڑھیں اور دین کے دیگر احکام بھی پورے کریں، یہ ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ لوگ فجر سے مغرب تک کام کرتے تھے اور اسی تجارت، کھیتی باڑی اور دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ وہ جہاد بھی کرتے تھے، نمازیں بھی ادا کرتے، قیام اللیل بھی کرتے، علم بھی حاصل کرتے، قرآن پاک بھی حفظ کرتے تھے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کے اوقات میں ان کی نیتوں کے اخلاص کی وجہ سے برکت عطا کررکھی تھی۔ اتقوا اللہ وعلّمکم اللہ، تقویٰ اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ تمہیں(علم) سکھا دے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم اخلاص پیش کریں گے تو اللہ ہماری مدد فرمائیں گے۔

تیسرا وہ شخص ہے جو کسی امام (خلیفہ یا امیر) کی بیعت کرتا ہے، اگر تو امام اسے عطا کرتا ہے اور اس کا اچھا خیال رکھتا ہے تو وہ بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا ہے، لیکن اگر امام اسے عطا کرنا چھوڑ دے اور اس کی پروا نہ کرے تو وہ بھی بیعت سے نکل جاتا ہے…… یعنی اصل معاملہ پیسے کا ہے۔ یہ بعض اعرابیوں کا معاملہ تھا کہ جو مسلمان ہوئے مگر وہ ہر اس شخص کے پاس جانے کو تیار ہوجاتے تھے جو انہیں زیادہ نوازتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں عطا کرتے تو یہ لوگ مسلمان بن کر رہتے اور اگر یہود انہیں اپنے پاس بلاتے اور زیادہ پیسے دیتے تو یہ اپنی وفاداریاں ان کے ساتھ منسوب کردیتے، گویا یہ بس پیسے کے وفادار تھے۔ اور یہ وہ خصلت ہے کہ جس کی وجہ سے اللہ رب العزت ایسے لوگوں سے قیامت کے دن کلام نہیں فرمائیں گے۔

چند مزید گناہ ایسے ہیں کہ جن کی بنیاد پر اللہ رب العزت ان کے مرتکبین کے ساتھ کلام نہیں فرمائیں گے، حدیث شریف میں ہے:

ثَلَاثَةٌ لَا يُکَلِّمُهُمْ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَکِّيهِمْ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ شَيْخٌ زَانٍ وَمَلِکٌ کَذَّابٌ وَعَائِلٌ مُسْتَکْبِرٌ (صحیح مسلم)

’’ تین (قسم کے لوگ ) ہیں جن سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ان کو پاک فرمائے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے، بوڑھا زانی ، جھوٹا حکمران اور تکبر کرنے والا عیال دار محتاج ۔‘‘

ان تینوں قسم کے افراد میں مشترکہ بات کیا ہے؟ بوڑھے زانی، جھوٹے بادشاہ اور محتاج مگر مغرور شخص کو ان گناہوں کے ارتکاب کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی، ان کے لیے ان گناہوں میں کوئی رغبت ہی نہیں تھی پھر بھی انہوں نے گناہ کیا۔

ایسا بوڑھا شخص کہ جو پختہ عمر کا ہے، نابالغ، کچی عمر کا نہیں، نیز وہ اپنی اس عمر سے گزر چکا ہے جس میں شہوت نہایت شدید ہوتی ہے، پھر بھی وہ زنا کا ارتکاب کرتا ہے جبکہ رغبت بھی اتنی نہیں ہے جو اسے گناہ پر مجبور کرے تو یہ واضح کرتا ہے کہ یہ معاملہ شہوت کا نہیں بلکہ گناہ پر اصرار کا ہے۔

دوسرا وہ بادشاہِ وقت کہ جو قوت و اختیار رکھتے ہوئے بھی جھوٹ بولے۔ جھوٹ عموماً جان چھڑانے اور اپنے آپ کو مصیبت میں پھنسنے سے بچانے کے لیے بولا جاتا ہے۔ اور جھوٹ کمزور شخص بولتا ہے تاکہ اپنے آپ کو بچا سکے۔ لیکن اگر تمام تر قوت و اختیار رکھنے والا بادشاہ ہو اور پھر بھی جھوٹ بولے تو واضح ہے کہ جھوٹ بولنے کی اسے کوئی ضرورت نہیں ہے۔

تیسرا محتاج مگر مغرور شخص۔ تینوں قسم کے لوگوں میں یہی قدر مشترک ہے کہ انہیں گناہ کے ارتکاب کی ضرورت نہیں بلکہ گناہ کی وجہ ورع اور تقوی کی کمی ہے۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْعَاقُّ وَالِدَيْهِ وَالْمَرْأَةُ الْمُتَرَجِّلَةُ الْمُتَشَبِّهَةُ بِالرِّجَالِ وَالدَّيُّوثُ (مسند احمد)

’’ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :تین آدمی نہ جنت میں داخل ہوں گے اور نہ ہی قیامت کے دن اللہ ان پر نظر کرم فرمائے گا، والدین کا نافرمان، مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورت اور دیوث۔‘‘

والدین کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے۔ والدین کے ساتھ نیکی کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن میں اپنے حق کے فوراً بعد کیا ہے۔جہاں اللہ رب العزت نے اپنی عبادت کا حکم دیا وہیں معاً بعد والدین کی فرمانبرداری کا حکم بھی دیا۔

ایسی عورت جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہے۔ آج کل تو ایسی عورتوں کی بھرمار ہے اور یہ برائی ایک مرض کی طرح پھیلتی چلی جا رہی ہے۔

دیوث بے غیرت بے حمیت شخص کو کہتے ہیں۔ مثلاً کسی شخص کی بیوی، بہن یا ماں فواحش کا ارتکاب کرتی ہو مگر اس شخص کو برا نہ لگتا ہو تو ایسے شخص کو دیوث کہتے ہیں۔

ان تین قسم کے افراد کی جانب اللہ رب العزت قیامت کے دن نظر کرم نہ فرمائیں گے اور نہ ہی ان سے کلام فرمائیں گے۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

لامحدود ذہنیت بمقابلہ محدود ذہنیت | پہلی قسط

Next Post

یومِ تفریق سے طوفانُ الاقصیٰ تک

Related Posts

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | پچیسواں درس

14 اگست 2025
موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس

14 جولائی 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | تئیسواں درس

9 جون 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | بائیسواں درس

25 مئی 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | اکیسواں درس

14 مارچ 2025
عمر ِثالث | پہلی قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | چوتھی قسط

15 نومبر 2024
Next Post

یومِ تفریق سے طوفانُ الاقصیٰ تک

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version