نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

لامحدود ذہنیت بمقابلہ محدود ذہنیت | پہلی قسط

شاکر احمد فرائضی by شاکر احمد فرائضی
15 نومبر 2024
in فکر و منہج, ستمبر تا نومبر 2024
0

برادر شاکر احمد فرائضی کا تعلق شہید سراج الدولہ، سید تیتومیر اور حاجی شریعت اللہ ﷭ کی سرزمین سے ہے جس کے مشرقی حصے کو آج بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے، برادر شاکر نے یہ تحریر بنگلہ دیش میں ہی قلم بند کی ہے۔ (ادارہ)

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم

إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ أنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَّهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُه . أمابعد

محدود ولا محدود تنازع

محدود و لامحدود ذہنیت کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ محدود تنازع اور لامحدود تنازع کیا ہوتا ہے؟

محدود تنازع

محدود تنازع کے معنی کی وضاحت کے لیے ایک کھیل کی مثال دیتے ہیں۔ مثلاً 100 میٹر کی دوڑ کے کچھ قواعد ہوتے ہیں۔ تمام قواعد کی پابندی کرتے ہوئے، جو کوئی دوڑ پہلے مکمل کرے گا، وہ کھیل جیت جائے گا۔ لیکن اگر کوئی ان قواعد میں سے ایک بھی توڑتا ہے، تو چاہے وہ پہلے ہی دوڑ مکمل کیوں نہ کرلے، اسے فاتح قرار نہیں دیا جائے گا، بلکہ اسے کھیل سے باہر نکال دیا جائے گا۔ سادہ سی بات ہے۔ محدود تنازع بالکل یہی ہے۔

لامحدود تنازع

لامحدود تنازع کے تصور کی وضاحت کرنے کے لیے ہم حق و باطل کے مابین تنازع کی مثال دے سکتے ہیں (حق اور باطل، خیر اور شر کے درمیان جنگ)۔ یہ تنازع آغازِ تخلیق سے جاری ہے، اور یہ دنیا کے خاتمے (قیامت) تک جاری رہے گا۔ یہ تنازع کسی خاص اصولوں کے تحت محدود نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں فریق تمام طے شدہ اصولوں پر عمل کریں گے، جیسے کہ کسی دوڑ میں یا کشتی کے مقابلے میں ہوتا ہے۔ نئی نئی حکمت عملیاں ہمیشہ ابھرتی رہتی ہیں، اصول اور حکمت عملیاں بار بار بدلتی رہتی ہیں۔ ایک خاص وقت گزر جانے سے یہ تنازع ختم نہیں ہو جائے گا۔ یہاں حریف بھی اچھی طرح واضح نہیں ہوتا۔ اگر دو لوگ کشتی کر رہے ہوں تو کوئی تیسرا باہر سے آکر ایک فریق کی مدد نہیں کر سکتا۔ کشتی میں فوائد اور نقصانات اچھی طرح سے واضح ہوتے ہیں۔ لیکن جنگ کی صورتحال دیکھیں، یہاں حریف طے نہیں ہوتا۔ حریف کو شناخت کرنا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ آپ کے اتحادی گروہ کسی بھی وقت آپ سے غداری کر سکتے ہیں۔ وہ آپ کے مخالف بن سکتے ہیں۔ بنو قریظہ ایک معاہدے میں تھے، مدینہ کا دفاع کرنے کا وعدہ کیا، پھر بھی وہ جنگ احزاب میں مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر دشمن بن گئے ۔

یہی چیز لامحدود تنازع کو واضح کرتی ہے۔ یہ دو پہلوانوں کے درمیان کشتی کا مقابلہ نہیں ہے، نہ ہی یہ کوئی دوڑ ہے۔ یہ کسی بھی محدود مقابلے کاحصہ نہیں۔

محدود و لامحدود ذہنیت

اب بات کرتے ہیں محدود اور لامحدود ذہنیت کی۔

11 ستمبر 2001ء کو جڑواں ٹاورز اور پنٹاگون پر حملوں کے بعد، امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا۔ نیٹو بھی اس حملے میں امریکہ کے ساتھ تھا۔ امریکہ جدید دنیا کی تاریخ کی سب سے طاقتور سلطنت ہے۔ اس کے علاوہ نیٹو اتحاد کے ساتھ تقریباً 40 ممالک بھی شامل تھے۔ انہوں نے مل کر ایک ایسے ملک پر حملہ کیا جو دنیا کے سب سے کمزور اور غریب ممالک میں سے ایک تھا۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت، حملہ آور ایک ایسی جماعت تھی جس نے دنیا کی آبادی کا استحصال اس حد تک کیا کہ تاریخ میں کوئی اور اس کا متحمل نہیں ہو سکا۔

2001ء سے 2021ء تک یہ غیر مساوی جنگ تقریباً 20 سال تک جاری رہی۔ اگر ہم جنگ کے تمام اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ نیٹو اتحاد ہر شعبے میں آگے تھا۔ نیٹو اتحاد اور طالبان کے درمیان طاقت کا فرق اتنا بڑا تھا کہ اس کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اموات اور نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان کے نقصانات نیٹو اتحاد کی نسبت کئی گنا زیادہ تھے۔

لیکن اتنے شدید عدم توازن کے باوجود، مسلمانوں نے آخرکار فتح حاصل کر لی۔ اس کے پیچھے بنیادی وجہ کیا تھی؟ وہ ’ایکس فیکٹر‘ کیا تھا جس نے مسلمانوں کو امریکہ اور نیٹو اتحاد سے آگے بڑھنے میں مدد کی؟

وہ ایکس فیکٹر یہ ہے کہ امریکہ یہاں چند دن، چند مہینوں یا چند سال کے لیے لڑنے آیا تھا۔ ان کا ہدف افغانستان کی اپنی مرضی کے مطابق تعمیر نو تھا۔ وہ آتے، چند سال قیام کرتے، طالبان کو اقتدار سے نکالتے اور اپنی پسند کا کوئی شخص اقتدار میں لا بٹھاتے اور پھر وہ افغانستان چھوڑ دیتے۔ انہوں نے میڈیا میں اس سب کے حوالے سے بڑی ڈینگیں بھی ماریں۔ یہ امریکی ذہنیت در حقیقت محدود ذہنیت کا اظہار تھا۔ وہ ایک لامحدود تنازع میں اپنی محدود ذہنیت کے ساتھ داخل ہوئے۔

دوسری طرف طالبان تھے، جن کا ذہن ا سے بالکل متضاد تھا۔ ان کی ذہنیت یہ تھی کہ یہ ہماری جنگ کفر کے خلاف ایمان کی جنگ ہے، حق اور باطل کے درمیان تنازع ابدی ہے اور ہمارا جہاد اس کا ایک حصہ ہے۔ ہم زندگی اور موت کی ابدی جدوجہد میں انصاف کے لئے ہمیشہ لڑتے رہیں گے اور ہماری جنگ جاری رہے گی۔ 20 سال تک لڑنے کے بعد، اگر ہمیں مزید 20 سال لڑنا پڑا، تب بھی ہم لڑیں گے۔ طالبان میں جنگ سے اکتاہٹ و تھکاوٹ کا کوئی نشان نہیں تھا۔

طالبان نے ابتدائی طور پر ایک معاہدے پر دستخط کیے جب ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں تھا۔ تاہم، جب بائیڈن اقتدار میں آیا تو کچھ بحث و مباحثہ چھڑ گیا کہ آیا یہ معاہدہ باقی رہے گا یا نہیں؟ بہرحال، اس وقت طالبان کی ذہنیت کیا تھی جب اس معاہدے کو ٹرمپ کے ساتھ طے کیا گیا؟ اس سوال کا جواب اس وقت کے طالبان رہنماؤں کے انٹرویو سے مل سکتا ہے۔ طالبان نے کہا کہ اگر یہ جنگ مزید 20 سال بھی جاری رہے، تو یہ ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں، ہم جہاد کرنے میں فرحت محسوس کرتے ہیں۔

سابق امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے عہدے کے آخر میں ایک تقریر میں کہا:

’’میں زیادہ خوشنما تصویر پیش نہیں کرنا چاہتا۔ افغانستان میں صورتحال ابھی بھی مشکل ہے۔ 30 سال سے زیادہ عرصے سے جنگ افغانستان کی زندگی کا حصہ رہی ہے۔ امریکہ نہ طالبان کو ختم کر سکتا ہے اور نہ ہی ملک سے تشدد کا خاتمہ کر سکتا ہے۔‘‘

اسی طرح کا بیان ٹرمپ کی زبانی بھی سنا جا سکتا ہے۔ اُس وقت، ٹرمپ کے کئی بیانات وائرل ہوئے۔ اس کا طالبان کے بارے میں کہنا تھا:

’’ان کا کام ہی لڑنا ہے۔ جیسے ہم ہر سال فٹ بال کھیلتے ہیں، ویسے ہی وہ لڑتے ہیں۔ یہ ان کا کام ہے، یہ ان کی پسندیدہ چیز ہے۔‘‘

سابق سوویت یونین کے جنرل کا ایک بہت مشہور بیان ہے، جس میں جنرل نے کہا:

’’انہیں ہماری بندوق کی نال تلے جنت نظر آتی ہے۔ ہم ان سے کیسے لڑیں گے؟‘‘

حقیقت یہ ہے کہ ایسی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کے خلاف لڑ کر جیتنا ناممکن ہے۔ لوگوں کے ایک گروہ کی ذہنیت ایسی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ چاہے کتنا بھی وقت لگ جائے، ہم اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک لڑنا ضروری ہے۔ ان لوگوں کو دورانِ جنگ فرحت و سکون میسر آتا ہے۔ ایسے گروہ کو شکست دینا ناممکن ہے۔

حق اور باطل کے درمیان جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گی۔ حضرت آدم ﷤ اور ابلیس شیطان کے درمیان یہ جنگ روزِ قیامت تک جاری رہے گی۔ ایک مسلمان کو اپنی زندگی کے آخری سانس تک معرکۂ ایمان و کفر لڑنا ہو گا۔ شیطان آخری لمحے تک گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لیے ایک مسلمان کی لڑائی ہمیشہ کے لیے ہے۔ جب تک آپ زندہ ہیں، آپ کی جنگ جاری رہے گی، دشمن تبدیل ہوں گے لیکن جنگ برقرار رہے گی۔

تاریخ سے اس معاملے کی وضاحت ہوتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ روم اور فارس مسلمانوں کے بنیادی دشمن تھے۔ پھر وقت بدلنے کے ساتھ دشمن بھی بدلتے گئے۔ پھر ایک وقت آیا کہ برطانوی اور فرانسیسی ہمارے بدترین دشمن بن گئے۔ لیکن اب سب سے بڑے دشمن اسرائیل اور امریکہ ہیں۔ ایک وقت تھا جب اسرائیل نام کا کوئی ملک نہیں تھا۔ لیکن اب یہ دونوں ہمارے اساسی دشمن ہیں۔

ہماری جنگ صرف جسمانی جدوجہد تک محدود نہیں۔ اس جنگ کی کوئی انتہا نہیں ہے، لیکن پھر بھی ہم اس دائمی جنگ کو مخصوص وقت کی حدود میں قید کر دیتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ اگلےپانچ یا دس سالوں میں ہم پورابرصغیر فتح کر لیں گے۔ اس کے ساتھ ہم صومالیہ اور مالی سمیت پورا افریقہ بھی فتح کر لیں گے۔ 15 سال بعد ہم یورپ پر حملہ آور ہوں گے۔ پھر ہم ایک طاقتور بحریہ بنائیں گے تاکہ امریکہ کی سرزمین پر حملے شروع کر سکیں۔ یوں، ہم دنیا فتح کر لیں گے۔ یعنی ہمارے ذہن میں چالیس پچاس سال کا ہی منصوبہ ہے۔ حقیقت یہ ہے، یہ جنگ، جو ہمارے ساتھ شروع نہیں ہوئی، ممکنہ طور پر ہمارے ساتھ ختم بھی نہیں ہوگی۔ یہ جنگ، جو حضرت آدم ﷤کے وقت سے شروع ہوئی، روزِ قیامت تک جاری رہے گی۔ اس سے قبل ہم اپنے تمام دشمنوں کو ختم کر دیں، یہ کسی طور ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ کافروں کو دنیا میں موجود رکھے گا تاکہ ہمیں آزما سکے۔ ہم سب یہ جانتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں۔

لیکن پھر بھی ہم اپنی سوچ کے تانے بانے ایک محدود وقت کے دائرے میں بنتے ہیں۔ یہ محدود ذہنیت ہے۔ اگر ہمارا یقین ہے کہ جہاد روزِ قیامت تک جاری رہے گا، تو ہم یہ کیسے امید کر سکتے ہیں کہ 40 یا 50 سال بعد ہم پورے عالم کو فتح کر لیں گے؟ تو کیا آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ قیامت ہماری زندگیوں میں ہی آ جائے گی؟

ٹھیک ہے، یہ بات درست ہے کہ آخر الزمان کی کئی علامات اب نظر آ رہی ہیں۔ لیکن ’’ہمارے دور میں ہی، قیامت کے وقوع ہونے کا یقین‘‘ ایسا سوچنا درست نہیں ۔ ہو سکتا ہے ہمارے دور میں بہت سے خاص واقعات پیش آئیں، ہو سکتا ہے ہماری زندگی میں امام مہدی کا ظہور ہوجائے اور ہو سکتا ہے نہ ہو۔

لیکن یہ کہنا کسی طور درست نہیں کہ قیامت ہماری زندگی میں قائم ہو جائے گی۔

تو، قیامت کے دن تک کافر بھی ہوں گے اور مومن بھی۔ جس طرح مومنین ختم نہیں ہوں گے اسی طرح کفار بھی ختم نہیں ہوں گے۔روزِ قیامت سے قبل، اللہ ایک نرم ہوا بھیجے گا تاکہ تمام مومنین کی جانیں لے لی جائیں، اور پھر قیامت کافروں پر قائم ہوگی۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

ذٰلِكَ ړ وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ (سورۃ محمد: ۴)

’’ تمہیں تو یہی حکم ہے اور اگر اللہ چاہتا تو خود ان سے انتقام لے لیتا، لیکن (تمہیں یہ حکم اس لیے دیا ہے) تاکہ تمہارا ایک دوسرے کے ذریعے امتحان لے۔‘‘

اگر اللہ کی یہ منشا ہوتی، تو ان سب چیزوں کا خاتمہ ہو جاتا۔ ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے کے ذریعے آزماتا ہے۔ وہ ہمیں کافروں کے ذریعے آزمائے گا۔ اور اگر قیامت تک جہاد جاری رہے گا، اور بے شک جہاد قیامت تک جاری رہے گا، تو کافر وہاں ضرور ہوں گے تاکہ جہاد کی شرائط پوری ہوں۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے، لیکن مسلمانوں کے داخلی تنازعات کو جہاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ہم ہمیشہ اپنے مقاصد کو ’خاص امور‘ اور خاص وقت کی حدود‘ میں بند کرنا چاہتے ہیں۔

ٹھیک ہے، بلاشبہ ہمارے مخصوص منصوبے ہوں گے، لیکن ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ:

  1. مکمل مثالی منصوبہ بندی ممکن نہیں

  2. وقت کی حد کو متعین کرنا ممکن نہیں (مستقبل کے نتائج یا واقعات کے حوالے سے)۔

درحقیقت، ہم انتہائی کمزور ہیں۔ ہمارے پاس صورت حال کوقابو میں کرنے کے لیے کوئی طریقہ کارنہیں ہے۔ ٹھوس اور مثالی منصوبہ بندی کرنا ہم پر فرض نہیں ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ ہمیں وقت، وسائل اور مواقع کا درست اور برآور استعمال کرنے کے لیے کچھ منصوبوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے ایسے مخصوص منصوبے ہوں کہ ہمیں یہ مقاصد لازمی اگلے 5، 7 یا 10 سالوں میں حاصل کرنے ہیں۔ ورنہ، میں تنظیم پر اعتماد نہ کر پاتا! میں امراء کو بار بار جوابدہ ٹھہراتا! میں بار بار شکایت کرتا اور کبھی مطمئن نہ ہوتا! میں سوچتا کہ تنظیم کی حکمت عملی گمراہ کن ہے! لہذا، ایسے غیر حقیقت پسندانہ خیالات اور محدود ذہنیت سے نکلنا بہت ضروری ہے۔ حقیقت پسندانہ منصوبوں کی روشنی میں، ہمیں لامحدود ذہنیت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔

اگر ہم جہاد کی دشوار گزار راہ پر چلنا چاہتے ہیں تو ہمیں لامحدود ذہنیت اپنانا ہوگی۔ جنگ ہمیشہ جاری رہے گی۔ چاہے صورت حال کیسی بھی ہو، ہم اس راستے پر چلتے رہیں گے جب تک کہ ہم اپنے اللہ عز وجل سے مل نہ جائیں، ہماری ذہنیت ایسی ہونی چاہئے۔

شیخ یوسف العییری ﷫ نے فرمایا:

’’آپ کو اپنے سپاہیوں کے لیے، جس قتال کا آغاز انہوں نے کیا ہے اس کی خاطر، شرعی اصولوں کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہاں ایسے شخص کو نہ لائیں، جو صرف جذبات کے ساتھ آیا ہو۔ وہ شخص جو عقیدہ اور اصولوں کے ساتھ آیا ہے، وہی آپ کو درکار ہے، اور بلاشبہ، وہ مرتے دم تک آپ کے ساتھ رہے گا۔ جو لوگ جو کوئی خواب لے کر آتے ہیں وہ ایک کوئی اور خواب لے کر واپس پلٹ جایا کرتے ہیں۔ اور وہ جو عقیدہ لے کر آتے ہیں، وہ کبھی پیٹھ نہیں پھیریں گے یہاں تک کہ شہادت سے سرفراز نہ ہو جائیں۔‘‘

واللہ تعالیٰ اعلم۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

فرض کی ادائیگی اور ابو عبیدہ کی پکار کے جواب میں علمائے طوفان الاقصیٰ کا بیان

Next Post

موت وما بعد الموت | بیسواں درس

Related Posts

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

13 اگست 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چھٹی قسط

13 اگست 2025
کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط
فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط

13 اگست 2025
کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟
فکر و منہج

کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟

13 اگست 2025
ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!
فکر و منہج

ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!

17 جولائی 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | پانچویں قسط

13 جولائی 2025
Next Post
موت وما بعد الموت | سترھواں درس

موت وما بعد الموت | بیسواں درس

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version