عظمت انسانیت قرآن مجید کا ایک اہم موضوع ہے: وَّلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِيْ آدَمَ (اور ہم نے بنو آدم کو عزت دی ہے) کہہ کر خالق کائنات نے عظمت کا تاج انسان کے سر پر رکھا ہے، لیکن خود انسان کو احترام ِانسانیت کی تلقین فرمائی ہے اور یہاں تک فرمادیا گیا:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢابِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا ۭ وَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا ۭ (سورة المائدة: 32)
’’جس نے کسی کی جان کو بغیر کسی جان کے یا بغیر زمین میں بگاڑ کے قتل کردیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے اس کی زندگی رکھی تو گویا اس نے تمام لوگوں کو زندگی دی۔‘‘
زمانہ جاہلیت میں عورت سرِ بازار رسوائی تھی، اس کی قیمت جانور سے زیادہ نہ تھی، صرف عربوں ہی میں نہیں بلکہ اس وقت کی بڑی بڑی حکومتوں میں اس کو صرف ضرورت پوری کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھا، اسی لیے اگر لڑکی پیدا ہو جاتی تو سر شرم سے جھک جاتے اور کتنے درندہ صفت لوگ اس معصوم کو اپنے ہاتھوں سے قتل کردینے کو باعث فخر جانتے تھے۔ قرآن مجید نے ان کی اس درندگی کی جڑ کاٹ دی، ارشاد فرمایا:
وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّهُوَ كَظِيْمٌ يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْۗءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ ۭ اَيُمْسِكُهٗ عَلٰي هُوْنٍ اَمْ يَدُسُّهٗ فِي التُّرَابِ ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا يَحْكُمُوْنَ (سورة النحل: 58-59)
’’اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ گھونٹ جاتا ہے، اس بری خوشخبری کی وجہ سے وہ لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے، ذلت کے ساتھ اس کو مرنے دے یا مٹی میں داب آئے، خوب سن لو کیسے بدترین فیصلے وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
سورۂ لقمان میں حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت فرمائی ہے قرآن مجید میں اس کونقل کر کے تمام مسلمانوں کے لیے نصیحت کی چیز بتا دیا گیا ہے، اس میں خاص طور پر یہ تین آیتیں اپنے اندر بیش بہا خزانہ رکھتی ہیں اور ان میں سماج کی اصلاح کے لیے کیسے بنیادی اصول بتا دیے گئے ہیں :
يٰبُنَيَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلٰي مَآ اَصَابَكَ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ (سورة لقمان: 17-19)
’’اے میرے بیٹے نماز قائم رکھو بھلائی کا حکم دو برائی سے روکو اور جو مصیبت تمہیں آئے اس پر صبر کرو بیشک یہ فرض کاموں میں سے ہے۔ اور لوگوں سے اپنا رخ نہ پھیرو اور زمین میں تکبر سے نہ چلو بیشک اللہ کسی متکبر اور خود پسند سے محبت نہیں رکھتا۔ اور اپنی چال میں میانہ روی رکھو اور اپنی آواز پست رکھو بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘
اسی طرح سورۂ فرقان میں ’’عِبَادُ الرَّحْمٰنِ‘‘ (ﷲ کے خاص بندوں ) کی جن صفات کا تذکرہ ہے وہ ہرمومن کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہیں، اللہ کا جو بندہ بھی ان اعلیٰ صفات کو اختیار کرے گا وہ رحمتِ الٰہی کا خاص طور پر مستحق ہوگا، اور اللہ کے ساتھ اس کو خاص نسبت حاصل ہوجائے گی:
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ڰ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ڰ اِنَّهَا سَاۗءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا ۙ يُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَيَخْلُدْ فِيْهٖ مُهَانًا ڰ اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَـيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ ۙ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا وَالَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِـرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّعُمْيَانًا وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا اُولٰۗىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّسَلٰمًا ۙ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭحَسُنَتْ مُسْـتَقَرًّا وَّمُقَامًا قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَاۗؤُكُمْ ۚ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُوْنُ لِزَامًا (سورة الفرقان: 63-٧٧)
’’اور رحمن کے خاص بندے وہ ہیں جو زمین پر تواضع کے ساتھ چلتے ہیں اور جب نادان لوگ ان کو مخاطب کرنا چاہتے ہیں، تو وہ سلام کہہ کر گزرجاتے ہیں۔ اور جو اپنے رب کے لیے سجدے کرتے اور قیام میں رات بتادیتے ہیں۔ اور جو یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب جہنم کے عذاب کو ہم سے پھیر دیجیے یقیناً اس کا عذاب بڑی سزا ہے۔ بلا شبہ وہ نہایت بری جائے قرار اور جائے مقام ہے۔ اور جو خرچ کرتے ہیں تونہ زیادتی کرتے ہیں نہ کمی اور وہ اعتدال پر قائم رہتے ہیں۔ اور جو اللہ کے ساتھ اور کسی معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسی جان کو جسے اللہ نے حرام کردیا ہوناحق قتل نہیں کرتے اور زنا نہیں کرتے اور جو ایسا کرے گا وہ بڑے گناہ میں پڑے گا۔ قیامت کے دن اس کا عذاب دوگنا کردیا جائے گا اور ہمیشہ اسی میں ذلیل ہو کر رہے گا۔ ہاں جو توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور اچھے کام کرے، تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اور وہ بڑی مغفرت کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے۔ اور جو رجوع کرے اور اچھے کام کرے تو وہ یقیناً اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔ اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب لغو کے پاس سےگزرتے ہیں تو شریفانہ گزرجاتے ہیں۔ اور جب ان کے رب کی آیتوں سے ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرپڑتے۔ اور جو یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہماری بیبیوں کو اور ہماری اولاد کو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنادیجیے اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا کر دیجیے۔ ایسوں ہی کو بدلہ میں بالا خانے دیے جائیں گے ان کے صبر کے عوض میں اور اس میں ان کو سلام و دعا کے نذرانے پیش کیے جائیں گے۔ اسی میں ہمیشہ رہیں گے، وہ کیا خوب جائے قرار اور جائے مقام ہے۔ آپ کہہ دیجیے کہ اگر ہماری عبادت نہ ہوئی تو تمہارے رب کو تمہاری کوئی پرواہ نہ ہوگی تو تم جھٹلا بھی دیتے تو وہ (عذاب) چمٹ ہی جاتا۔‘‘
قرآن مجید کی سورتوں میں جو سورت اصلاح معاشرہ کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے وہ سورہ حجرات ہے، اس میں سماج کی برائیوں کا تذکرہ بھی ہے اور ان کا علاج بھی، رب العالمین نے جو انسان کا بھی خالق ہے اور اس کی نفسیات کا بھی خالق و مالک ہے اس میں اس نے انسان کی بنیادی کمزوریوں کو بیان فرما دیا ہے۔
اصلاح معاشرہ کے بنیادی اصول سورۂ حجرات کی روشنی میں
قرآن مجید اللہ کا کلام ہے، اس کا لفظ لفظ اعجاز سے بھرا ہوا ہے، دنیا میں بسنے والے ہر ہر انسان کو اس میں خطاب کیا گیا ہے اور ہر ایک کی ذہنی سطح کا اس میں خیال رکھا گیا ہے، اس کی مختلف آیتوں اور مختلف سورتوں میں انسان کی رہنمائی کا پورا سامان موجود ہے، اس کے کسی گوشہ کو تشنہ نہیں چھوڑا گیا، کوئی بھی اگر کھلے دل سے اس کا مطالعہ کرتا ہے تو خواہ وہ ہدایت سے کتنا ہی دور ہو، حقائق اس کے سامنے کھلنے لگتے ہیں اور آہستہ آہستہ وہ اپنے پیدا کرنے والے سے قریب ہوتا جاتا ہے، اس کی تلاوت قربِ الٰہی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اس میں زندگی کا جو دستور دیا گیا ہے وہ پوری دنیا کے لیے سلامتی اور ترقی کا ضامن ہے، سماجی و اخلاقی نظام جو اس میں بنایا گیا ہے وہ کسی بھی سماج کے لیے منارہ نور کی حیثیت رکھتا ہے۔
سورۂ حجرات جو صرف اٹھارہ آیتوں پر مشتمل ہے، سماج کے لیے ایک عظیم رہبر سورت ہے، جس میں عقیدہ و اخلاق کی تعلیمات کے ساتھ انسانی حقائق کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ عقل پر سے پردے ہٹتے چلتے جاتے اور ایسے بلند آفاق سامنے آتے ہیں جن کی طرف انسانی عقل کی رسائی بغیر رہبری کے ممکن نہیں تھی، اس میں دل کی غذا اور روح کی شفا کا ایسا سامان موجود ہے کہ اگر اس کو اختیار کرلیا جائے تو سکون و اطمینان کی حقیقی دولت انسان کو نصیب ہوتی ہے۔
اس میں دنیا کے قیام و بقا او رصلاح کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں اور پھر اس کو باقی رکھنے کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے اور ایسے صاف ستھرے سماج کی تشکیل کی گئی ہے جو اشرف المخلوقات کے لیے ضروری ہے اور اس پر اس کی کامیابی کا انحصار ہے۔
سورۂ شریفہ کا آغاز اس بنیادی عقیدہ پر کیا گیا ہے جس پر ہر خیر کی عمارت تعمیر ہوتی ہے، بندہ کا اپنے رب سے کیا تعلق ہونا چاہیے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کیسی ہونی چاہیے، جب تک اس میں استحکام نہ ہو، اگلے سب احکامات تقریباً بے سود ہیں۔
اللہ کا سچا مومن بندہ کسی بھی کام میں جب تک حکم الٰہی نہ معلوم ہو آگے نہیں بڑھتا، اللہ کے سامنے اور اس کے رسول کے سامنے خود اس کی کوئی رائے نہیں ہوتی بلکہ وہ ہر حکم کے آگے سرتسلیم خم کردیتا ہے۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کے بعد ایک دوسرے کے حقوق اور معاملات اور معاشرت کے آداب بیان کیے گئے ہیں، کسی کے بارے میں سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کیا جائے، فیصلہ بغیر تحقیق کے نہ ہو، جب تک پورا اطمینان نہ ہو کوئی غلط رائے قائم نہ کی جائے۔
سرشتِ انسانی دیکھ کر فرشتوں نے کہا تھا کہ یہ تو زمین میں بگاڑ کرنے والے اور خون بہانے والے لوگ ہیں، آپس کی لڑائیاں اور جھگڑے انسانی مزاج میں داخل ہے، اسی لیے صلح صفائی کرادینے کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے، اور باربار یہ کہا گیا کہ اہل ایمان ایک دوسرے سے ایسا تعلق رکھتے ہیں جیسے ایک ہی جسم ہو، ان کو بھائیوں کی طرح مل جل کر رہنا چاہیے، پھر ان امراض کا بیان کیا گیا ہے جن کی جڑیں بڑی گہری ہوتی ہیں اور وہ سماج کو کھوکھلا کرکے رکھ دیتی ہیں جیسے ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، برے ناموں سے پکارنا، بدگمانی کرنا، ٹوہ میں رہنا، غیبت کرنا، دوسروں کے معاملات میں ناحق مداخلت کرنا۔
عام طور پر چونکہ یہ باتیں خودپسندی سے پیدا ہوتی ہیں اس لیے یہ بات بھی صاف کردی گئی کہ سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں،کسی کو کسی دوسرے پر کوئی امتیاز حاصل نہیں، اگر امتیا زہے تو صرف تقویٰ کی بنا پر، اور تقویٰ خود پسندی پر کاری ضرب لگاتا ہے۔
اخیر میں یہ بات بھی وضاحت کے ساتھ بیان کردی گئی کہ انسان کا خود اپنے بارے میں ایمان اور تقویٰ کا دعویٰ کرنا کافی نہیں، اس کے لیے دلیل چاہیے اور وہ دلیل ایسا یقین ہے کہ اس کے بعد پھر جان و مال کی قربانی آسان ہوجائے، یہ سچائی کی علامت ہے، اور اگر اللہ نے کسی کو توفیق عطا فرمادی ہے تو اس کو اللہ کا شکر کرنا چاہیے، اس میں کسی کی شان کو کوئی دخل نہیں، جو ملتا ہے محض اللہ کے فضل سے اور توفیق سے ملتا ہے، اور یہ سب کچھ دل کی گہرائیوں سے ہونا چاہیے، جو صورت حقیقت سے خالی ہو وہ اللہ کے یہاں مقبول نہیں، اور اللہ زمین و آسمان کے ڈھکے چھپے سے بھی واقف اور اندر باہر کے سب کاموں سے بھی واقف ہے۔
أَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَیْطَانِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
’’اللہ کے نام سے جو بہت مہربان، نہایت رحم فرمانے والا ہے۔
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت ہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بلاشبہ اللہ خوب سنتا، خوب جانتا ہے۔ اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر بلند مت کرو، اور جس طرح تم ایک دوسرے کو زور زور سے پکارتے ہو اس طرح نبی کو زور سے مت پکارو کہ کہیں تمہارے سب کام بیکار چلے جائیں اور تمہیں احساس بھی نہ ہو۔‘‘
عظمت ِرسالت
فلسفہ کی تاریخ
انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ دوسروں کی نقل کرتا ہے، کبھی اپنے باپ دادا کے طورطریق اختیارکرتا ہے تو کبھی کسی غیرسے متاثر ہوکر اس کو اپنا مطاع بنالیتا ہے۔ فلسفوں کی تاریخ بھی یہی رہی ہے، بڑے سے بڑا فلسفی، مفکرجب کوئی فلسفہ یا فکر پیش کرتا ہے تواس کے سامنے بھی چندمثالیں ہوتی ہیں، ان کو وہ ایک نئے سانچے میں ڈھال کراس طرح پیش کردیتا ہے کہ وہ بالکل نئی چیز نظر آتی ہے، اگراس کا تجزیہ کیا جائے توسوائے نئے سانچے کے اس میں کوئی نئی بات ملنی مشکل ہے۔
اجزاء کی نئی ترتیب جب قائم کی جاتی ہے توبات کبھی بگڑتی ہے اورکبھی بنتی ہے، یورپ کے فکروفلسفہ کا بھی یہی حال ہے، ان سے کہیں سمجھنے میں غلطی ہوتی ہے اور کہیں نئی ترتیب قائم کرنے میں،اگرکھلے دل سے غور کیا جائے اورغیرجانبدارانہ مطالعہ کیا جائے توتقریباً تمام فلسفوں اور افکار کے پس منظر میں اسلامی فکروفلسفہ نظرآتا ہے۔ لیکن زیادہ تریہ استفادہ منفی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عام طورپران مفکرین نے اسلام کے مطالعہ سے پہلے ہی ایک مفروضہ قائم کررکھا ہے جواسلام کی بالکل غلط تصویر پیش کرتا ہے۔ عام انسانیت کے لیے یہ ایک ناسورسے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سائنسی اکتشافات اورجدید تحقیقات اکثروبیشتر مفید ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلام نے قوت و اخلاق میں توازن کو قائم رکھا تھا، جہاں ایک طرف اسلام قوت و شوکت بڑھانے کی تعلیم دیتا ہے وہیں اس طاقت کے استعمال کا طریقہ بھی بتاتا ہے، عدل وانصاف سکھاتا ہے، حدود و قیود متعین کرتا ہے، جہاں وہ علم و ہنر میں انسان کو بلندیوں تک پہنچاتا ہے، وہیں اس کی تعلیم یہی ہے کہ وہ علم اللہ کے نام کے ساتھ جڑا رہے تاکہ وہ انسانیت کے لیے رحمت وبرکت بن سکے، یہ وہ پیغمبرانہ تعلیم ہے جو اسلام نے پیش کی ہے، آج دنیا نے اس کو فراموش کردیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس باب میں بھی سب سے اونچا نمونہ پیغمبروں کا ہے جن کا براہ راست رابطہ خالقِ کائنات سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان برگزیدہ بندوں کا انتخاب اسی لیے فرمایاکہ وہ عالم انسانیت کی رہنمائی کریں اوراس کوصحیح فکروعمل سے آراستہ کریں۔
پیغمبروں کی ضرورت
انسان اس سے خوب واقف ہے کہ وہ فرشتوں کی نقل نہیں کر سکتا،دونوں کی فطرت الگ ہے، انسان غلطی کرسکتا ہے فرشتے غلطی کرہی نہیں سکتے،اس لیے وہ انسان ہی کی نقل کرتا ہے اوریہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کی قدرت میں ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو انسانو ں میں سے انتخاب کیا، یہ ممکن تھا کہ کوئی فرشتہ آسمان سے اسی لیے اتاردیا جاتا، لیکن اس میں ایک انسان کے لیے مطاع ومقتدابننے کی صلاحیت نہیں تھی۔ انسان یہ عذرپیش کرسکتا تھا کہ یہ مخلوق ہی الگ ہے، اس کی ساخت پرداخت کا انسان سے کوئی جوڑنہیں، ایک انسان فرشتے کی نقل کیسے اتارسکتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں پیغمبروں کوپیدا کیا۔ لیکن یہ بھی انسانی فطرت کا حصہ ہے کہ وہ اتباع اسی کی کرتاہے جس کو بلند سمجھتا ہے اوراس کی عظمت اس کے دل کی گہرائیوں میں ہوتی ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کواونچا اٹھایا، ان کو معصوم بنایا، اوران کو ان صفات و اخلاق سے آراستہ کیا جوانسانیت کے لیے معراج کی حیثیت رکھتی ہیں، پھر ان کو معجزات دے کر وہ بلندی عطا فرمادی جوصرف انہیں کا خاصہ ہے۔
آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ان تمام پیغمبروں میں آخری پیغمبر حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنایا اورآپ کی رسالت کو مکانی اعتبار سے تمام عالم ہی کے لیے نہیں بلکہ کل عالموں کے لیے اورزمانی اعتبار سے قیامت تک کے لیے وسعت عطا فرمائی، اورسارے انسانوں کے لیے جوقیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے آپ صلی اللہ علیہ کی ذات کونمونہ قرادیاگیا۔ اعلان ربانی ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (سورۃ الأحزاب: 21)
’’اورتمہارے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات میں بہترین نمونہ موجود ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ سلسلہ نبوت ختم کردیا گیا اوراعلان ہوگیا:
مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ (سورة الأحزاب: 40)
’’تمہارے مردوں میں سے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ تواللہ کے رسول اورخاتم النبیین ہیں۔‘‘
اسی طرح آپ کی شریعت کو بھی آخری اورمکمل شریعت بتایاگیا، اورصاف صاف کہہ دیاگیا کہ اسلام اپنی مکمل اوردائمی شکل میں آگیا، اب اس میں کمی بیشی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی:
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا (سورة المآئدة: 3)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کومکمل کردیا اورتم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا۔‘‘
چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ عالمی اوردائمی ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمالاتِ انبیاء کا مجموعہ بنایا گیا اور وہ عظمت بخشی گئی جوکسی کو نہ حاصل ہوسکی ہے اورنہ ہوسکے گی۔ امامت انبیاء کا شرف آپ کوحاصل ہوا، مقام محمود آپ کا حق ہے اورقیامت میں شفاعت عظمیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی عظمت کومخفی نہیں رکھا بلکہ اس کا اعلان فرمادیا:.
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ (سورة الشرح: 4)
’’ہم نے آپ کے ذکرکوبلند کیا۔‘‘
آپ کی محبت کو دلوں میں اتاردیاگیا، اس کو ایمان کا حصہ قراردیاگیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا:
لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین۔1
’’تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔‘‘
روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمرنے فرمایا کہ: اللہ کے رسول! ہرایک کی محبت مغلوب ہوچکی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اپنی ذات سے تعلق زیادہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! ابھی نہیں، حضرت عمر نے قدرے توقف کے بعدفرمایا کہ اب تواپنی ذات سے زیادہ آپ کی محبت معلوم ہوتی ہے،فرمایا: ہاں اب (ایمان مکمل ہوا)۔2
حضرت خبیب کوجب پھانسی پر لٹکایا گیا توکسی مشرک نے کہا کہ ہاں اب توتم یہ سوچتے ہوگے کہ (معاذ اللہ) محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تمہاری جگہ ہوتے اورتم چھوٹ جاتے؟ حضرت خبیب نے فرمایا کہ ’’مجھے تویہ بھی پسند نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک میں کانٹا بھی چبھے اورمیں چھوٹ جاؤں۔‘‘ حضرات صحابہ کی محبت وعقیدت کا حال یہ تھا کہ مشرکین مکہ نے اس کی گواہی دی، صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود ثقفی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرکے مشرکین مکہ کے پاس گیاتواس نے کہا کہ ’’میں نے عرب وعجم کے بادشاہوں کو دیکھا ہے، ان کے درباروں میں گیاہوں لیکن بخدا میں نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھیوں کو جتنا محمد کا فدائی دیکھا اس کی مثال مجھے کہیں نہ ملی، وہ تھوکتے ہیں توتھوک زمین پر گرنے نہیں پاتا، وضو کرتے ہیں تووضو کا پانی وہ اپنے ہاتھوں میں لے کراپنے منہ پر مل لیتے ہیں۔‘‘3
محبت و اطاعت کی مثالیں
حضرات صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوّلین مخاطب تھے، آپ کے تربیت یافتہ تھے، ان کے واسطے سے سارے عالم میں دین پھیلنا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو بھی منتخب بنایاتھا۔ اس جماعت کے دل ودماغ پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وعظمت کے جوگہرے نقوش ثبت ہوئے تھے اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ اسی محبت وعظمت کا نتیجہ تھا کہ اطاعت و اتباع میں بھی وہ اپنی مثال آپ تھے۔ شراب کی حرمت سے پہلے ان میں ایک بڑی تعداد اس کی عادی تھی،لیکن جس لمحہ اس کی حرمت کا اعلان ہوا منہ سے لگے جام انہوں نے الٹ دیئے، مٹکے توڑدیے گئے، مدینہ منورہ میں شراب بہہ رہی تھی۔4
ایک صحابی ریشم کا لباس پہن کر حاضر خدمت ہوئے،آپؐ نے ناپسندیدگی ظاہرفرمائی اور اظہار کراہت کے لیے فرمایا کہ اس کو جاکرجلادو، وہ گھر گئے تنور کی آگ بھڑک رہی تھی، جاکر وہ اس میں ڈال دیا، دوبارہ آپ کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لباس تم نے کیا کیا؟ انہوں نے کہا کہ میں نے آگ میں جلادیا۔ آپ نے فرمایا کہ عورتوں کے لیے وہ حلال تھا وہ تم گھر میں دے دیتے، انھوں نے کہا کہ آپ کے فرمان کے بعد اس کی گنجائش ہی کہاں تھی کہ میں اس کو باقی رکھتا۔5
ان کی محبت وعظمت کا حال یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چشم وابرو کے وہ منتظر رہتے، ارشاد ہوتے ہی پہلے مرحلہ میں عمل شروع فرمادیتے، کبھی کبھی اس کی تفصیل ووضاحت بعدمیں ہوتی، اس کی مثال اوپر آچکی ہے،کچھ اسی طرح کا واقعہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے ساتھ پیش آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، وہ مسجدنبوی کے دروازے تک پہنچے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ تمام لوگ بیٹھ جائیں،وہ وہیں بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اندرآجاؤ، انہوں نے فرمایا کہ آپ کے ارشاد کے بعد اس کی گنجائش ہی کہاں تھی کہ ام عبد کا بیٹا کھڑا رہتا۔6
نقل واتباع کے مزاج کی بہترین تصویر صحابہ کی زندگی تھی، انھوں نے پوری طرح سے اپنے رخ کواس ایک ذات کی طرف کردیاتھا جس سے بہتر کسی کی زندگی لائقِ اتباع نہیں ہوسکتی تھی،انہوں نے ساری محبت وعظمت کا محوراسی ذات کو قرار دیا تھا جس نے ان کونئی زندگی بخشی تھی، اس کے آگے اب کسی محبت وعظمت کی کوئی حیثیت نہیں تھی اورتھی تواسی کے واسطے سے تھی، اس ذات کے اشارہ کے آگے جانیں قربان تھیں۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب حب الرسول من الایمان:۱۵، وصحیح مسلم:۴۴
2 بیہقی، شعب الایمان، ۱۴/۱۳۷۱
3 صحیح بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد:۱۵
4 ابوداؤد، کتاب الاشربہ:۱۹۸
5 ابواداؤد، باب فی الحمرۃ :۴۰۶۸، صحیح مسلم، باب النھی عن لبس الرجل الثوب المعصفر:۵۵۵۷، مصنف ابن ابی شیبہ و ابن ماجہ، باب کراھیۃ المعصفر للرجال:۳۷۳۴
6 مستدرک حاکم، کتاب الجمعہ/۱۰۴۸