بسم الله القوی الحق المجید، والصلاة والسلام على نبینا محمد الصادق الامین، وعلى اله وصحبه ومن اتبعه ونصره الى یوم الدین.
اما بعد؛
علمائے کرام نے غزہ میں مجاہدین کے ترجمان، مجاہد بھائی ابو عبیدہ کی پکار سنی، اللہ ان کی اور ان کے تمام ساتھیوں کی حفاظت فرمائیں، اور انہیں فتح ونصرت عطا فرمائیں، آمین۔
اور ابو عبیدہ سے پہلے علماء نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول سن رکھا تھا:
الَّذِینَ یبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللهِ وَیخْشَوْنَهُ وَلَا یخْشَوْنَ احَدًا الَّا اللهَ (سورۃ الاحزاب: 39)
’’جو لوگ اللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔‘‘
اور یہ قول بھی سن رکھا تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد لیا:
لَتُبَینُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ(سورۃآل عمران: 187)
’’تم ضرور اسے لوگوں پر واضح کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں۔‘‘
اور انہوں نے حق کو چھپانے والے کے لیے اللہ کی شدید وعید بھی سنی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے:
انَّ الَّذِینَ یكْتُمُونَ مَا انْزَلْنَا مِنَ الْبَینَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَینَّاهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتَابِ اولَئِكَ یلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَیلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ(سورۃ البقرة: 159)
’’بیشک وہ لوگ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں، حالانکہ ہم نے اسے لوگوں کے لئے کتاب میں واضح فرمادیا ہے تو ان پر اللہ لعنت فرماتا ہے اور لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔ ‘‘
بلاشبہ طوفان الاقصیٰ جاری ہے، اور اس کا ایک ثمرہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے علمائے امت اور علمائے سلاطین کے درمیان تفریق کر دی ہے، ایک طرف وہ جنہوں نے دنیا کو بیچ کرآخرت کو خریدا، اور دوسری طرف وہ جنہوں نے غیروں کے واسطے اپنی آخرت کو بیچ ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے اس طوفان کے ذریعے حق اور باطل کو واضح کردیا۔ اور حادثات و واقعات تفریق کا یہ عمل دہراتے رہیں گے، یہاں تک کہ لوگ دو خیموں میں تقسیم ہوجائیں گے، حق کا خیمہ جس میں کوئی نفاق نہ ہوگا اور نفاق کا خیمہ جس میں حق نہ ہوگا۔
بے شک علمائے کرام نے اس بابرکت طوفان کے سفر میں اس کا ساتھ دیا۔ ان کے کبار اور مشاہیر کی ایک بڑی تعداد نے واضح فتاویٰ اور قابلِ قدر مواقف اپنائے۔ تاہم یہ بیانات اور فتاوی بدلتے ہوئے حالات، طوفان کے دائرے میں وسعت اور اسرائیل کی طرف سے جنگ کی توسیع کے سبب کافی نہ ہوئے۔ امت کے نوجوانوں اورماہرین پر لازم ہے کہ وہ ان فتاویٰ کے نشر ہونے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے، ان فتاویٰ کو لوگوں تک پہنچانے اور میڈیا کا وہ حصار جو اس نے داعیانِ دین کے گرد کھینچ رکھا ہے، اسے توڑنے کی کوشش کریں۔
یہ طوفان مسجدِ اقصیٰ کی خاطر غزہ سے شروع ہوا اورآج امت پر اوّلین فرض ہے کہ وہ اقصیٰ کی حفاظت، اس کو آزاد کرنے اور اسے صہیونیوں کے ناپاک عزائم سے پاک کرنے کی بھرپورکوششیں کریں، جو اسے گرانے، جلانے اور اس کی جگہ اپنے مزعومہ ہیکل کو تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ یہ ایسا شرعی فرض ہے کہ کسی مسلمان کے لیے اللہ کے دربار میں کوئی عذر قبول نہ ہوگا، اگر اس نے اِس فرض کی ادائیگی میں اپنی پوری استطاعت سے کام نہ لیا، یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کی مدد سے روگردانی کی۔
مجاہدین کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے، ہم بعض ثابت شدہ نکات کو، پوری تاکید کے ساتھ، ذیل میں بیان کر رہے ہیں۔ نیز ہم تمام اہل علم کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ امت کے سامنے حق کو بیان کرنے کے واجب کی ادائیگی میں مزید آگے بڑھیں، اور اس سے متعلق جو عمل ہم پر واجب ہے، اس کی ادائیگی میں بھی مزید قدم بڑھائیں، اور امت کی قیادت کا حق ادا کرنے اور امت کی درست سمت کی طرف رہنمائی کرنے میں ہر ممکن وسیلہ اختیار کریں۔
بے شک پورا کا پورا فلسطین، بحیرہ روم سے لے کر دریائے اردن تک، مسلمانوں کی سرزمین ہے، اور کسی کے لیے جائز نہیں کہ اس میں کمی کرے، حتیٰ کہ اس کے بالشت بھر سے بھی تنازل کرے۔ اور مسجدِ اقصیٰ، اپنی تمام تر مساحت اور تمام حصوں سمیت، زمین کے اوپر بھی اور نیچے بھی، مسلمانوں کا خالص حق ہے اور اس پر کسی اور کا ذرّہ برابر حق نہیں۔
اگر دشمن کسی اسلامی سرزمین پر حملہ آور ہو اور اس کے دفاع کے لیے ہر ایک شخص کی قدرت کی ضرورت ہو تو ایسی حالت میں اس زمین والوں پر اور اس کے قریب والوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ پوری قدرت حاصل ہوجائے اور حملہ آور دشمن مغلوب ہوجائے۔ پس یہ فرض داخلِ فلسطین اور اس کے ہمسایہ ممالک کے حوالے سے متاکد ہے، بلکہ اس فرض کا دائرہ بڑھ کر تمام مسلمانوں کو شامل ہوچکا ہے، کیونکہ فلسطین کا جہاد دفاعی جہاد ہے جس میں ہمیں یقین ہے کہ اہل فلسطین میں دشمن کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں، لہٰذا یہ جہاد پوری امت پر فرضِ عین ہے۔ یہ فرضیت امراء وحکام، اسلامی جماعتوں اور تمام مسلم عوام پر ہے، اس حوالے سے جس کا اثر ورسوخ جتنا زیادہ ہوگا، اس پر فرضیت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
جدید جہاد کی بہت سی شکلیں ہیں، کسی بھی مسلمان کے پاس امکان ہے کہ جہاد کے فریضے کی ادائیگی میں ایک سے زائد طریقوں کو بروئے کار لائے، اور ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے طریقۂ کار منتخب کرے جس کے ذریعے وہ اس جہاد میں حصہ لے سکے۔ ان طریقوں میں سے ایک طریقہ مسلح جہاد ہے اور اس کے دائرۂ کار کی اس حد تک توسیع ہے جہاں تک دشمن نے اسے وسعت دی ہے، بلکہ ساتھ ساتھ دشمن جن علاقوں میں توسیع پسندی کا ارادہ رکھتا ہے، جو کسی بھی صاحب فہم وبصیرت سے مخفی نہیں، وہاں بھی اسے نشانہ بنانا اور اس کے اقدام کرنے سے پہلے قدم اٹھانا واجب ہے، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے:
وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ (سورة التوبة: 36)
’’ اور تم سب مل کر مشرکوں سے اسی طرح لڑو جیسے وہ سب تم سے لڑتے ہیں، اور یقین رکھو کہ اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔‘‘
انہی طریقوں میں سے یہ بھی ہے کہ مجاہدین کی اموال سے، ہتھیاروں سے اور ہر اس چیز سے مدد کی جائے جس کی انہیں اپنے بابرکت جہاد میں ضرورت ہے۔ اسی طرح یہ بھی ہے کہ مجاہدین، شہداء، قیدیوں اور ضرورت مندوں کے خاندانوں کی کفالت کی جائے۔ اسی طرح یہ بھی ہے کہ صہیونیت کی حمایت کرنے والے ممالک کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیے جائیں۔ اسی طرح میڈیا پر مہمات چلائی جائیں، الیکٹرانک میڈیا کا استعمال کرکےصہیونی پروپیگنڈوں کا جواب دیا جائے۔ اسی طرح حق کی حمایت اور باطل کو دبانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائے۔ اسی طرح اقتصادی بائیکاٹ کا طریقہ ہے، اور اسی کے ضمن میں صہیونیوں اور امریکیوں کے ساتھ معاملات میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنا ہے، اور ان کے مفادات اور کاروبار میں خلل ڈالنا ہے۔ اسی طرح قابض صہیونیوں کی ویب سائٹس اور اہم مفادات کے خلاف سائبر جہاد اور الیکٹرانک طور پر ان میں خلل ڈالنا ہے۔ نیز جہاد کے سب سے اہم طریقوں میں سے ایک طریقہ نسلِ نو کو تعلیم وتربیت دینا اور آئندہ آنے والی فاتح نسل تیار کرنا ہے۔ اس نئی نسل میں اقصیٰ کی آزادی کے اس منصوبے کی اہمیت بٹھانا ہے جو پچھلے سال سات اکتوبر کو شروع ہوا ، اس تاکید کے ساتھ کہ اس کی چوٹی جہاد ہے، اپنے تمام تر طریقوں اور میدانوں کے ساتھ۔ چاہیے کہ ہم سب کی جہاد ہی کی نیت ہو، خاص طور پر نوجوانوں کی جن پر لازم ہے کہ جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے، اسے بروئے کار لائیں۔
تمام عرب اوراسلامی ممالک کے سربراہان کو چاہیے کہ وہ صہیونی جارحیت کو پسپا کرنے اور مقدسات کو آزاد کرنے کے لیے اپنی فوجوں کو متحرک کریں۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو کم از کم اتنا واجب ہے کہ وہ فلسطین میں اپنے مسلمان بھائیوں کی ہرممکن طریقے سے مدد کریں، جیسا کہ ان پر واجب ہے کہ وہ فلسطین میں صہیونی وجود کی روک تھام کریں۔ اور سب سے کم تر بات کہ اس سے کمتر کوئی بات ان سے قبول نہیں، وہ یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سیاسی اور تجارتی معاہدے ختم کردیں، اور امت کی خواہشات اور مفادات کے خلاف انجام پانے والے ذلت آمیز تطبیع (نارملائزیشن) کے منصوبے کو منسوخ کردیں۔ یہ وہ معاہدے ہیں جن کے بعد بھی دشمن نے ان کا پاس نہ رکھا اور ہر طرح کے مظالم پر اترآیا۔ مسلم حکمرانوں پر لازم ہے کہ صہیونی حکومت پرہر ممکن طریقے سے دباؤ ڈال کرایک سال سے جاری معصوم شہریوں کے قتلِ عام کو رکوائیں۔ مسلم حکمرانوں نے اگر ایسا نہ کیا تو وہ خود پر عائد محکم شرعی حکم کی مخالفت کریں گے، اور شاید وہ نواقضِ اسلام کے مرتکب اور عقائد کے اہم رکن کو پامال کرنے والے شمار ہوں۔
صہیونی دشمن سے کیے گیے تمام تطبیع کے معاہدے شرعاً حرام ہیں، مسلمان اس حوالے سے کسی قانون کے پابند نہیں۔ نہ انہیں قبول کرنا جائز ہے اور نہ ہی ان کی بنیاد پر صہیونیوں کو حاصل ہونے والی کسی امان کا کوئی اعتبار ہے۔
مجاہدین کی امداد وتعاون سے روکنے والے کسی نظامِ حکومت اور حکمران کی اطاعت جائز نہیں۔ بلکہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ان حالات کا مقابلہ کریں اور مجاہدین سے تعاون میں اپنی تمام توانائیاں صرف کردیں۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔
وہ تمام حکومتیں جو صہیونی دشمن کو پیسے، خوراک، فوجی اور سکیورٹی خدمات، سیاسی حمایت، میڈیا پر پذیرائی یا کسی بھی صورت میں حمایت اور مدد فراہم کرتی ہیں، اسلام سے سنگین خیانت کی مرتکب ہیں۔ پھر ان میں سے جو کوئی اس نیت سے ایسا کر رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں صہیونیوں کو قوت دے رہا ہے تو وہ کافروں سے موالات جیسے عملِ کفر کا مرتکب ہے۔
علمائے کرام فلسطینی مقاومت کی تحریک کی ہر قسم کی حمایت ونصرت کی تائید کرتے ہیں، اور ہر اس عمل کی تائید کرتے ہیں جو ان کے جہاد کی حمایت کرتا ہے اور ان کے دشمنوں کو زک پہنچاتا ہے۔ علمائے کرام استطاعت رکھنے والے ہر شخص کو مذکورہ بالا نکتے کی دعوت بھی دیتے ہیں، اور اس بات کی دعوت بھی دیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے اس مرکزی قضیہ یعنی بیت المقدس کی آزادی پر ترکیز رکھے، اور مجاہدین کی مدد کرے اور خود بھی جہاد کے مختلف ابواب میں سے کسی باب کے ذریعے اس میں شریک ہو۔
علمائے کرام اعلان کرتے ہیں کہ وہ طوفان الاقصیٰ کی تائید کے لیے علمی منصب سنبھالے ہوئے ہیں، جس میں درج ذیل چیزوں کا بیان کرنا شامل ہے، موجودہ جہاد کی مشروعیت، متعلقہ فتاویٰ کا لوگوں میں نشر، مقبوضہ زمین کی آزادی اور قیدیوں کو چھڑانے کے لیے جدوجہد کا وجوب، منافقین وخائنین کے شبہات کا جواب اورمسلمانانِ عالم کو ترغیب کہ وہ مقدس سرزمین میں اپنے بھائیوں کی حمایت کریں۔ بلکہ اس سے بڑھ کر علماء، طوفان الاقصیٰ کی مدد کی صف بندی کے لیے بھی حاضر ہیں۔ ایسے علم کی کوئی قیمت نہیں جوصاحبِ علم کو اس نصرت کے لیے کھڑا نہ کرے جو علماء کے لائق ہے اور طوفان الاقصی کے مناسب ہے۔
آخر میں ہم یہ بھی بیان کرتے چلیں کہ ہم ان علماء، مبلغین اور مصلحین کو نہیں بھولے جو ظالموں کی جیلوں میں بند ہیں۔ پس یہ وہ لوگ ہیں جو آج کل کلمۂ حق کی قیمت اپنی جانوں، اموال اوراپنی زندگیوں سے ادا کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی اللہ کی خاطر کھڑے ہونے والوں سے خالی نہیں رہتی۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنے مجاہد بندوں کو ہر جگہ فتح عطا فرمائیں، اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس امت کے لیے بہتری کے فیصلے فرمائیں، آمین۔
دستخط کنندگان:
جماعتیں اور ادارے:
هیئة علماء فلسطین
الهیئة العالمیة لانصار النبی صلی اللہ علیہ وسلم
رابطة علماء ایریٹیریا؎
هیئة أمة واحدة
منتدى العلماء
ملتقى دعاة فلسطین
رابطة علماء أهل السنة
جمعیة المعالی للعلوم والتربیة بالجزائر
الهیئة العالمیة لمناصرة فلسطین
مجلس الدعاة فی لبنان
دار القران والحدیث امریكا
اتحاد العلماء والمدارس الشرعیة ۔ تركی
مجمع الفقه الإسلامي ۔ انڈیا
اتحاد العلماء والمدارس الإسلامی ۔ تركی
الإئتلاف العراقي لنصرة الأقصى
رابطة علماء المغرب العربي ۔ مراکش
المجمع العلمي لعلماء افغانستان
مؤسسة جسور للتعریف بالاسلام
جمعیة نهضة علماء الیمن
مجمع المدارس الدینیة ۔ افغانستان
یکجہتیٔ اقصی فاؤنڈیشن۔ پاکستان
العالمیة لنصرة فلسطین والامة
وقف فلسطین
شخصیات:
لیبیا کے مفتی اعظم الشیخ الصادق الغریاني
العلامة محمد الحسن ولد الددو
د. نواف تكروری
د. محمد الصغیر
د. الحسن الكتانی
د. عبدالحی یوسف
د. حسین عبدالعال
الشیخ احمد الحسن الشنقیطی
د. وصفی عاشور ابو زید
د. سلمان السعودي
د. سعید بن ناصر الغامدی – جماعت علماء کے سربراہ
د۔ رمضان خمیس – استاذ التفسیر وعلوم القران، جامعة الأزهر
د. مروان ابو راس – رئیس لجنة القدس باتحاد علماء المسلمین
د. سعد رزیقة
الشیخ رضوان نافع الرحالي
الدكتور خلواتي صحراوي – رئیس أكادیمیة أصعد للتأهیل العلمي والدعوي بالجزائر
د. محمود سعید الشجراوي – قسم القدس فی هیئة علماء فلسطین
الشیخ الدكتور نسیم یاسین – رئیس رابطة علماء فلسطین
د. منیر جمعة
د. عمر الشبلی، جامعة الزیتونة
الشیخ مخلص برزق
د. زینب الشیخ الرباني – مركز تكوین العلماء – موریتانیا
د. جاسر عودة
د. طارق رشید – ملتقى دعاة فلسطین – لبنان
د. سعید الشبلی – مفكر اسلام
الشیخ علی الیوسف
د. ابراهیم مهنا
د. اسامة ابوبكر
د. جمال عبد الستار
الشیخ محمد خیر رمضان یوسف
د. سلیمان الأحمر الأنصاري
الشیخ برهان سعید – رئیس رابطة علماء اریتیریا
الشیخ حسن سلمان
الشیخ احمد البنچویني
الشیخ محمد سالم ودود
الشیخ عبد الله بن طاهر باعمر
الملا انور الفارقینی – اتحاد العلماء والمدارس الشرعیة فی تركیا
الشیخ عبد المجید البلوشی – مؤسسة المرتضى للدراسات والدعوة الاسلامیة
الشیخ سامح الجبة
الشیخ سعاد یاسین
د. ابوبكر العیساوي – الائتلاف العراقي لنصرة الأقصى
الشیخ رسلان المصری
الشیخ البروفسور عبدالله جاب الله – كبار علماء الجزائر
الشیخ فرج احمد كندی – عضو مجلس أمناء، هیئة علماء لیبیا
د. مصطفى ذوالفقار – رئیس معهد الدراسات المقارنة – طهران
د. فهمی اسلام جیوانتو
د. عمر بن عبدالعزیز القرشی
د. مجدی شلش
د. حاتم عبدالعظیم
الشیخ سامی الساعدي
الشیخ عبدالحكیم عطوي – لبنان
محمد عمر – نائب رئیس اتحاد علماء تركستان
هارون خطیبي
د. عبدالجبار سعید
الشیخ المختار العربي مؤمن
الشیخ فهمي سالم، رئیس مركز بیت المقدس۔ انڈونیسشیا
الشیخ محمد محفوظ الوالد أبو حفص
الشیخ الامام عبد الله أمین
الشیخ احمد مزید بن محمد عبد الحق البوني
الشیخ عبدالله أعیاش المكناسي
د. عبدالرحمن محمد عارف، كردستان العراق
فرج احمد كندی – عضو هیئة علماء لیبیا
عماد بن احمد المبیض – المشرف العام على مؤسسة اتحاد الدعاة في بریطانیا
د. عامر عید – كاتب صحفی ونقیب الصحفیین الأسبق
احمد داود علی محمد
عبدالله طاهر عبدالعزیز علی عبدالعزیز
جواد احمد – مدیر جامعة حسان بن ثابت رضی الله عنه – كابل – افغانستان
الأستاذ عصام محمد احمد جاد
د. محمد همام ملحم
الدكتور عبدالله بن عبدالمجید الزندانی
الدكتورة هالة سمیر
دكتورة زهراء البكري – تخصص الفقه الإسلامي والقضاء، جامعة سكاریا التركیة
الشیخ علاء الشعار – امام مسجد النور بتركیا
احمد فتحی عبد العظیم كامل – عضو الإتحاد العالمي لعلماء المسلمین
الشیخ الدكتور عبدالحق الحبیبی الصالحي
د. نور محمد امراء – الجامعة الاسلامیة العالمیة، اسلام آباد، پاکستان
الشیخ مبشر عباسي – التضامن الباكستاني مع الأقصى
محمد سعید باه – أمین عام، المنتدى الإسلامي للتنمیة والتربیة، سینیگال
الشیخ عبدالله ابو الحسن – کابل – افغانستان
ابو مهدی راشد – غزنی – افغانستان
الشیخ عبدالحمید سیرت – کابل – افغانستان
خالد محمود خان – مدیر العلاقات الخارجیة فی الجماعة الاسلامیة – كشمیر
د. محیی الدین غازی – امین الجماعة الاسلامیة بالهند
مفتی ابو الیاس خلیل احمد رؤوفی – هرات – افغانستان
اسامه محمود العرند – امام وخطیب المركز الاسلامی۔ اسكاٹ لیند
حشمت فایز ابو المجد محمد – دكتوراه من جامعة الأزهر – امام وخطیب
حسن عبدالله الخطیب – امام وخطیب – فلسطین
الشیخ محمد مصطفى احمد – داعیة مصری
الشیخ شیرعلي حیدري الغزنوي
الشیخ محمد المنصوري – داعیة مصري
محمد شاهد بن محمد ابراهیم – افغانستان
نور الأمین – خطیب المسجد الكبیر۔ برما
د. محمد یونس إبراهیمي – افغانستان
د محمود القلعاوی – رئیس إتحاد علماء الأزهر بتركیا – رئیس أكادیمیة بسمة للسعادة الزوجیة
زكي عرعراوي – الأمین العام للهیئة العالمیة لنصرة فلسطین والامة – ورئیس وقف فلسطین
د. محمد عبد الرحمن محمد صالح – السودان
د. طارق عبدالوهاب سلیم ابراهیم
الاستاذ مصطفى الونسافي – رئیس تحریر موقع كاینابریس
الشیخ حسام الجزیري – عضو رابطة علماء المغرب العربي
الشیخ مفتی محمد سرور رسولي – مدیر جامعة هرات – افغانستان
د. محمود یوسف الشوبكي – أستاذ العقیدة والمذاهب المعاصرة في الجامعة الإسلامیة في غزة سابقاً
الشیخ رحال مراد – مراکش
د جمال الأحمر الأنصاري – ممثل الأندلسیین في شتاتهم العالمي
اسماعیل البلوشي – افغانستان
د. محمد ریاض الخولي
ابو صالح شفیق الرحمن – بدخشان، افغانستان
د. ابراهیم الهلالي – باحث فی الدراسات القرانیة، المغرب– عضو الإتحاد العالمي لعلماء المسلمین
الدكتور عمر امكاسو – استاذ باحث فی التاریخ الاسلامي – عضو اتحاد علماء المسلمین
الشیخ ابو البشر توفیق زین الدین الدكالي – عضو رابطة علماء المغرب العربي
د. ایمن البلوی – دكتوراة اصول الفقه
٭٭٭٭٭