نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پہلی قسط

میں القاعدہ میں کیوں شامل ہوا؟

معین الدین شامی by معین الدین شامی
15 نومبر 2024
in فکر و منہج, ستمبر تا نومبر 2024
0

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للہ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علیٰ أشرف الأنبیاء.

اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!

حرفِ اول

تعصب بدترین جہالتوں میں سے ہے، چاہے قومی ہو، لسانی ہو، خاندانی یا نسلی، رنگ کا یا وطن کا۔ یہ سبھی لائقِ مذمت ہیں۔ دینِ اسلام نے تعصب کی جڑ پر وار کیا ہے اور دوستی و دشمنی، ولاء و براء کا معیار صرف اور صرف اسلام کو قرار دیا ہے1۔ کیسی نادانی بلکہ جہالت کی بات ہو گی کہ ہم قومی و لسانی ، نسلی و مسلکی تعصب کو پیچھے چھوڑ آئیں اور پھر ان سبھی مذکورہ تعصبات کے بعد ایک انتہائی چھوٹا سا گروہی تعصب پال لیں اور پھر اپنی زندگیاں اس کی خاطر برباد کر دیں؟

میرا اشارہ تنظیمی تعصب کی جانب ہے۔ تنظیمیں تو قوم و وطن، خاندان و نسل اور لسان و مسلک سے بہت چھوٹی ہوتی ہیں اور خود تنظیموں کی اپنی تاریخ بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ تو کیسی بد نصیبی ہو گی کہ ہم تنظیمی تعصب کا شکار ہو جائیں؟

تعصب کیا ہے؟ اپنی تنظیم وگروہ کے ساتھ ظلم و زیادتی میں کھڑا ہونا ،اس میں موجود خامیوں سے انکار کرنا اور دوسری تنظیموں میں موجود خیر سے چشم پوشی کرکے انہیں مجسم شر دکھانا، یہ سب تعصب ہے اور یہی وہ تعصب ہے جو فرد و تنظیم کے حق میں خیر و ہدایت کے کام کو بھی شر و ضلالت کے انجام سے دوچار کردیتاہے۔

دورِ جدید کی دینی و جہادی اور احیائے اسلام کے لیے کوشاں تنظیموں میں سے ایک ’القاعدہ‘ بھی ہے۔’لماذا اخترت القاعدۃ؟‘ اللہ ﷻ کی رحمت و عافیت کے سبب تنظیمی تعصب سے پاک ہو کر لکھی گئی اور راقم السطور نے اس کی اردو ترجمانی ’القاعدہ کیوں؟‘ کو بھی محض اللہ ﷻ کی رحمت، فضل اور عافیت کے سبب تنظیمی تعصب کو پسِ پشت پھینک کر ، ان مقاصد و مبادی کو سامنے رکھتے ہوئے کی ہے جو میرے اس تنظیم میں شامل ہونے کا سبب ہیں۔

’لماذا اخترت القاعدۃ‘، عالمِ ربّانی، شہید شیخ، ابو مصعب محمد عمیر الکلوی العولقی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے، جو ۱۴۳۱ھ ؍ ۲۰۱۰ء میں شائع ہوئی اور شیخ ابو مصعب العولقی نے اس تحریر کو اپنی شہادت سے کچھ ہی عرصہ قبل ماہِ ذوالحجۃ الحرام ۱۴۳۰ ھ ؍ دسمبر ۲۰۰۹ءمیں سپردِ قرطاس کیا۔ بے شک قلم کی روشنائی کی گواہی کے ساتھ جب رگِ جاں کے خون کی روشنائی شامل ہو جائے، تو یہ شہادت باقی شہادتوں پر بھاری ہو جاتی ہے۔ شیخ ابو مصعب العولقی شہید رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق ایمان و حکمت کی سرزمین یمن سے تھا اور آپ تنظیم قاعدۃ الجہاد فی جزیرۃ العرب سے وابستہ تھے۔

راقم السطور شیخ ابو مصعب العولقی کی اس تصنیف کو قسط وار اردو زبان میں ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کتاب میں شیخ رحمہ اللہ نے اپنے القاعدہ میں شمولیت کے چھیالیس (۴۶) اسباب بیان کیے ہیں ، اس کتاب میں جماعت قاعدۃ الجہاد کے عمومی نائب امیر شیخ ابو بصیر ناصر الوحیشی رحمۃ اللہ علیہ اور القاعدہ یمن کے شیخ ابو البراء العولقی شہید رحمۃ اللہ علیہ کی تقریظات بھی شامل ہیں اور متبحر عالمِ دین، محبوب و محبِ مجاہدین فی سبیل اللہ، شیخ ابراہیم بن سلیمان الربیش شہید رحمۃ اللہ علیہ کا شیخ ابو مصعب العولقی کی شہادت پر مرثیہ بھی شامل ہے۔ یہ دو تقریظات و مرثیہ شاملِ ترجمہ نہیں ہیں، البتہ گاہے ان کا ذکر شاید آ جائے۔ اسی طرح شیخ ابو مصعب العولقی کی تصنیف کو راقم السطور اپنے اندازِ بیان کے مطابق ڈھال رہاہے، اس تحریر ’القاعدہ کیوں؟‘میں بیان کردہ بیش تر بنیادی نکات و مرکزی خیال شیخ ابو مصعب العولقی ہی کے ہیں، لیکن راقم کی تشریحات و تعبیرات ، حاشیوں اورحذف واضافوں کے ساتھ، غالباً اسی اسلوب کو استفادہ کہا جاتا ہے۔ اس تحریر میں بنا ذکر کیے راقم نے عبقری قائد و منتظم، مفکر و مدبر، فضیلۃ الشیخ ابو مصعب السوری (رحمہ اللہ حیاً أو میتاً) کی بعض باتوں کا اضافہ بھی کیا ہے۔ بڑی ہی نا شکری ہو گی اگر میں یہاں اپنے اساتذہ و مربیین حضرت الأستاذ استاد احمد فاروق، حضرتِ مرشد اسامہ ابراہیم غوری اور شیخِ مکرم استاد اسامہ محمود کا ذکرِ خیر نہ کروں، جن کی صحبت ، ترشید ، محبت، اعتماد اور تربیت نے مجھے دعوت الی اللہ، جہاد اور نفاذِ دین کی سلیم فکر کی طرف متوجہ کروایا2۔

عبادتِ جہاد سے تعارف تو ہر مسلمان کو ہوتا ہے، اسی طرح مجھے بھی تھا، مزید یہ کہ راقم السطور کے والدِ گرامی (مد ظلہ) کا جہادِ افغانستان ضد الروس اور بعداً جہادِ کشمیر سے تعلق رہا اور میرے دو سگے ماموں جہادِ افغانستان ضد الروس میں براہِ راست افغانستان کے سنگروں اور محاذوں میں شامل رہے۔ اس طرح عملِ جہاد فی سبیل اللہ سے معرفت و محبت ورثے اور مشاہدے دونوں سے حاصل ہوئی۔ لیکن مجھے پہلی بار باقاعدہ، القاعدہ ہی سے وابستہ ایک نہایت شفیق و سخن دل نواز، صاحبِ عزیمت و ہمت داعیٔ دین سے جہاد کی دعوت ملی (اللہ پاک ان کی حفاظت فرمائے اور ان کی مشکلات کو آسان فرما دے)۔ اس دعوت کے ملنے کے بعد راقم القاعدہ ہی میں شامل ہو گیا اور پھر ایک عمر اسی کے ساتھ گزر گئی، لیکن اس شمولیت کے اسباب پر کئی سالوں میں کبھی خاص طور سے غور نہیں کیا۔

راقم السطور نہایت بے بضاعت اور کمزور انسان ہے اور شیخ ابو مصعب العولقی شہید جیسی بلند قامت شخصیت کی تصنیف کا ترجمہ یا اس سے استفادہ کر کے کچھ لکھنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ نہ ہی میں نے کبھی ایسا سوچا تھا کہ میں ایسی کوئی تحریر لکھوں گا یا کسی ایسی تحریر کا ترجمہ کروں گا۔ ۲۰۱۵ء کے نومبر میں میرے ایک دوست و ساتھی، استاد و غم گسار، مجاہد عالمِ دین مولانا حافظ احمد عمر صاحب (زید مجدہٗ) نے کہا کہ ’میرا دل چاہتا ہے کہ جیسے یمن کے ان عالمِ دین نے تحریر لکھی تھی ’’لماذا اخترت القاعدۃ‘‘ تو ایسی ہی تحریر کوئی ہمارے خطے سے بھی لکھے‘۔ پھر مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے کہ ’آپ کیوں نہیں لکھتے؟‘۔ میں نے کہا ’ہم القاعدہ میں اپنے لڑکپن میں شامل ہوئے تھے، اس لڑکپن میں فرض جہاد کی ادائیگی اور شہادت فی سبیل اللہ کا حصول، جہاد سے وابستگی کا سبب بنا اور ہمارا پہلا پڑاؤ القاعدہ میں ہوا، تو ہم نے کیا ’اخترت القاعدۃ‘ کیا؟ یہ تو آپ جیسے حضرات کا کام ہے جو علمی خانوادے سے ہیں، عالمِ دین ہیں، مختلف سیاسی، دعوتی اور جہادی تنظیموں اور جماعتوں کو دیکھ چکے ہیں اور پھر سوچ سمجھ کر القاعدہ میں شامل ہوئے ہیں، یہ تو آپ کا کام ہے!‘۔ وہ حضرت حسبِ عادت مسکرا دیے اور بات آئی گئی ہو گئی۔

پھر راقم السطور پر ماضی قریب میں شاید تقریباً پانچ چھ سال پیش تر کچھ ایسے حالات گزرے جن میں، مَیں اپنے تنظیمی ساتھیوں یعنی القاعدہ کے ساتھیوں سے مکانی طور پر کٹ کر اکیلا رہ گیا۔ پھر ان حالات نے مجھے اپنے القاعدہ کے ساتھ تعلق کے بارے میں سوچنے کا موقع فراہم کیا۔ عملِ جہاد فی سبیل اللہ کا حصہ بنا رہنا تو کوئی ایسا موضوع نہیں ہے کہ جس کے بارے میں زندگی کے کسی بھی موڑ پر سوچا جائے، کہ آج کے زمانے میں یہ تو اللہ کی جانب سے عائد کردہ فریضہ ہے، أھم الفروض الأعیان بعد الإیمان، ایمان کے بعد اہم ترین فریضہ۔ لیکن جہاد اور اقامتِ دین کی محنت القاعدہ ہی کی صفوف میں رہ کر کی جائے ، یہ تو فرضِ عین نہیں۔ یہ وہ موقع تھا جب مجھے القاعدہ کے بارے میں سوچنے کا موقع ملا، جب بفضل اللہ میں نے القاعدہ کو القاعدہ ہی میں رہتے ہوئے اختیار کیا ۔ یہاں یہ بات کہہ دینا مناسب ہو گا کہ مجھے القاعدہ کو اختیار کرنے کا موقع آج دنیا کے سب سے بڑے طاغوت، فرعونِ زمان، امریکہ کی عالمی بدمعاشی، جبر و استبداد، اسلام و اہلِ اسلام اور انسانیت دشمنی نے فراہم کیا، بقولِ اقباؔل رحمۃ اللہ علیہ:

مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

اس کے بعد کئی بار خیال آتا رہا کہ مولانا احمد عمر صاحب نے جوکہا تھا وہ کام کیا جائے، لیکن امراض و امورِ جہاد کے سبب یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ تقریباً ڈیڑھ سال قبل میں نے شیخ ابو مصعب العولقی کی یہ تحریر ’لماذا اخترت القاعدۃ‘ کو پڑھنا شروع کیا اور ان کے اکثر ہی خیالات میرے بھی القاعدہ میں موجود ہونے کا سبب تھے، تو بس یہ خدمت کرنے کا کچھ ارادہ بنا۔

اللہ پاک سے استقامت علی الحق، ثبات علی الجہاد، مقبول خدمتِ دین اور خاتمہ بالخیر بصورتِ شہادت مقبلاً غیر مدبرٍ کا سوال ہے، والله هو الموفق والهادي إلى سواء السبیل!

معین الدین شامی

۱۱ ستمبر ۲۰۲۴ء

انتساب

راقم السطور نے ارادتاً اللہ کی رحمت سے، پیش تر گزرنے والے حرفِ اول کی سطور گیارہ ستمبر ۲۰۲۴ءکے دن لکھیں۔ اس گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کی نسبت سے جو اہلِ ایمان کی تاریخ میں ایک عظیم دن اور اہلِ کفر صلیبیوں اور صہیونیوں کی تاریخ کے آخری اور سیاہ ترین باب کے آغاز کا دن تھا۔ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ جس نے اس امت کو گیارہ ستمبر کے بعد سات اکتوبر ۲۰۲۳ء کی صبح طوفان الاقصیٰ بھی دکھایا، مجاہدینِ اسلام کی جانب سے شروع کردہ ایک ایسا طوفان جس کی ابتدا غزہ کی خندقوں اور سرنگوں سے ہوئی اور اس کی انتہا مسجدِ اقصیٰ کی آزادی ہو گی۔

پس میں اس اردو تحریر کا انتساب عز الدین القسام، سیّد قطب، عبد اللہ عزام، احمد یاسین، عبد العزیز رنتیسی، اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، اسماعیل ہنیہ، یحیی السنوار اور ان جیسے دیگر قائدینِ امت کے تیار کردہ ان مجاہدوں کے نام کرتا ہوں جنہوں نے گیارہ ستمبر اور سات اکتوبر کے دنوں کو عزت بخشی اور وہ مجاہدینِ اسلام جو عسر و یسر کے ہمہ قسم حالات میں امریکہ و اسرائیل کو گیارہ ستمبر اور سات اکتوبر سے زیادہ بھیانک دن دکھانے والے ہیں، ان شاء اللہ ، تحقیقاً ولا تعلیقاً!

جہاد طائفۂ منصورہ کا کام ہے اور وہ ہمیشہ غالب رہیں گے!

آگے بڑھنے سے قبل میں یہاں شیخ ابو بصیر ناصر الوحیشی شہید رحمۃ اللہ علیہ کا یہ زریں قول نقل کرنا چاہوں گا (جو شیخ نے اس کتاب کی تقریظ میں فرمایا ہے)جس میں وہ واضح کرتے ہیں کہ یہ امت تو امتِ جہاد ہے، اس کے ہلکے اور بوجھل سبھی جہاد کرتے ہیں اور جہاد کون نہیں کرتا؟

’’فمن لم يجاهد فهو إما قاعد، أو منافق، أو خاذل، أو معذور، فما ثم غير.‘‘

’’پس کون ہے جو جہاد نہیں کرتا، تو جان لیجیے یا تو وہ پیچھے بیٹھ رہنے والا ہے، یا منافق ہے، یا بے توفیقا ہے یا وہ معذور شخص ہے جس کا مقبول عذر اللہ کی شریعت میں بیان کیا گیا ہے ، پس اس کے علاوہ جہاد نہ کرنے والے کی اور کوئی قسم نہیں ہے!‘‘

تابعی حضرت عمیر بن ہانی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو منبر پر تشریف فرما، یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:

سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ عَلَی الْمِنْبَرِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ أَوْ خَالَفَهُمْ حَتَّی يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ عَلَی النَّاسِ.‘‘ (رواه مسلم)

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے ’میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے حکم کو قائم کرتی رہے گی جو ان کو رسوا کرنا چاہے گا یا مخالفت کرے گا تو ان کا کچھ بھی نقصان نہ کرسکے گا اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گے‘۔‘‘

اسی سے ملتے جلتے الفاظ میں دیگر احادیث کے اندر اس گروہ کی صفت علم و جہاد سے مرصع ہونا بھی بیان کی گئی ہے، اسی طرح ان احادیث کو عقیدہ، اہل السنۃ والجماعۃ، اور اہل السنۃ والجماعۃ کے خصائص، جہاد و فضیلتِ جہاد کے ابواب و عناوین میں بھی بیان کیا گیا ہے۔

ہمیں اس امت کے بہترین لوگوں یعنی حضراتِ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فہمِ دین و فہمِ جہاد میں صحیح بخاری میں یہ حدیث بھی ملتی ہے کہ غزوۂ احزاب کے موقع پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم خندق کھود رہے تھے، یہ سردیوں کی ایک صبح تھی، ان ﷢ کو دیکھ کر حضورِ پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اللَّهُمَّ إِنَّ الْخَيْرَ خَيْرُ الْآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ ‘‘

’’ اے اللہ ! خیر تو آخرت ہی کی خیر ہے۔ پس انصار و مہاجرین کی مغفرت کر دے ۔‘‘

یہ سن کر صحابہؓ نے فرمایا:

نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوا مُحَمَّدَا
عَلَی الْجِهَادِ مَا بَقِينَا أَبَدَا

ہمِیں وہ ہیں کہ ہم نے کی ہے یہ بیعت محمدؐ سے
جہاد اب عمر بھر ہر حال میں کرتے رہیں گے ہم

 

اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!

میں القاعدہ میں کیوں شامل ہوا؟

الحمد للہ الھادي إلى الصواب، وأشهد أن لا إله إلا الله الكريم الوهاب، وأشهد أن سيدنا محمد رسول الله من آتاه الله الحكمة وفصل الخطاب، اللهم صلِّ وسلّم وبارك عليه وعلى آله وصحبه ومن أحيا سنته إلى يوم الدين، أما بعد!

بے شک اللہ ﷻ جب کسی کام کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے اسباب بہم کر دیتے ہیں۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میں القاعدہ میں شامل ہوں گا اور اس کا بنیادی سبب میڈیا کا پروپیگنڈا ہے۔ اس کے علاوہ بعض علماء اور طلبائے علمِ دین کے پھیلائے گئے شبہات و اعتراضات بھی اس کا سبب ہیں، ایسے علماء جو دراصل درباری علماء ہیں یا بعض ان میں سے علمائے حق بھی ہیں لیکن ان کے قدم اس معاملے میں ڈگمگا گئے ہیں اور انہی کے بارے میں شاعر کہتا ہے:

رام نفعاً فضر من غیر قصدٍ
ومن البر ما یکون عقوقاً3

جب میں نے القاعدہ کے مخالفین کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کو دیکھا، تو اللہ کے فضل سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی اعتراض دین کی بنیادی و اصولی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے، بلکہ یہ فروعی امور پر اعتراضات ہیں، ایسے امور جن میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ میں نے جب القاعدہ کو طائفۂ منصورہ کی صفات پر پرکھا تو میں نے اس تنظیم کو ان صفات کے مطابق سب سے زیادہ بہتر پایا ، کچھ آگے چل کر میں اس پر روشنی ڈالوں گا۔ میں نے انہیں دینی جماعتوں میں سب سے بہتر اخلاق و کردار اور سب سے زیادہ اللہ کی خاطر اخوت و بھائی چارگی کرنے والا پایا۔ میں نے انہیں اور دیگر مجاہدین کو سخت ترین حالات میں دیکھا جب وہ اسلام کی خاطر دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا مقابلہ کر رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ یہ لوگ اللہ کےلیے غصہ کرتے ہیں اور ہر قسم کے طاغوت سے بیزار ہیں۔ یہ لوگ ہمارے جدِ امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت کے بہترین لوگوں میں سے ہیں۔ میں یہ سب باتیں بے بنیاد نہیں کر رہا، بلکہ عن قریب آپ اس تحریر میں اس دعوے کی تفصیل جان لیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور جانیں قربان کی ہیں۔ میں یہ بات آپ سے مخفی نہیں رکھوں گا کہ میں ان کے ساتھ رہتے ہوئے ایک ایسی سعادت سے بہرہ مند ہوا ہوں جسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ پس اے علمائے کرام، ہمارے طالبِ علم بھائیو، امت میں موجود دیگر داعیانِ اسلام، صحافیو اور قلم کارو، بلکہ امت کے ہر ہر طبقے میں موجود حضرات! اپنے بھائیوں پر اعتراض کرنے سے قبل اللہ سے ڈریے اور اپنے ان دینی بھائیوں کو تنہا نہ چھوڑیے!

میں آپ سب سے کہتا ہوں کہ مجاہدین ، خاص طور پرالقاعدہ سے متعلق نرم رویہ اختیار کیجیے، اس لیے کہ ان مجاہدین پر کی جانے والی تنقید نتیجتاً و عملاً طواغیتِ زمانہ خصوصاً یہودِ نامسعود اور صلیبیوں کے حق میں فائدہ مند ثابت ہوتی ہے، اگرچہ آپ یہ جانتے بوجھتے ہوئے نہیں کرتے۔میری آپ سے گزارش ہے کہ ان کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کیجیے اور مجاہدین سے ان کی غلطیوں پر اسی طرح تعامل کیجیے کہ جس طرح شریعتِ مطہرہ نے اس کی تعلیم دی ہے۔ مجاہدین کو تنبیہ کرتے ہوئے وہی انداز و طریقہ اختیار کیجیے کہ جو سورۃ البقرۃ میں حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے سریے کے موقع پر اللہ پاک کے قرآن نے اختیار کیا ہے۔ وہی طریقہ اختیار کیجیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احد میں اختیار کیا۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور فتحِ مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے والے صحابہ سے جب غزوۂ حنین کی طرف جاتے ہوئے خطا ہو گئی تو ان سب اخطاء پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس انداز و طریقے سے ان صحابہ رضی اللہ عنہم کو تنبیہ کی ، پس آپ بھی وہی اسلوب و طریقہ اختیار کیجیے4۔ مجاہدین کی غلطیوں کی نشاندہی کیجیے، لیکن ایسے نہیں کہ ان کی ساری کی ساری جد وجہد کو بیک جنبشِ قلم رد کر دیں اور نہ شرعی حدود و قیود سے بڑھ کر ان پر کوئی تنقید و تشنیع کیجیے۔ اگر آپ القاعدہ کی غلطیوں پر تنقیدکرتے ہیں تو آپ کو اپنے اس عمل پر بھی تنقید کرنی چاہیے کہ آپ مجاہدین کی مدد و نصرت سے پیچھے رہے ہیں، کچھ لوگ تو آج کے طواغیت کے ساتھ مل بیٹھ چکے ہیں،ان پر تنقید کیوں نہیں؟ آپ کی ذمہ داری تھی کہ آپ عوام المسلمین کو جہاد کے لیے تیار کرتے، جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیاری اور اعداد تو اللہ کا عائد کردہ فریضہ ہے، اس کے لیے کیوں کچھ سامان نہیں کیا گیا؟ پس ہمیں اپنے ان مجاہد بھائیوں کے بارے میں کوئی بات کرتے ہوئے یا کوئی بھی رویہ رکھتے ہوئے اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ ان مجاہدین کی فتح و ظفر اسلام کی فتح و ظفر ہے اور مجاہدین کی شکست سے اسلام کے سوا کسی اور کو ضرر نہیں پہنچے گا۔

میں جانتا ہوں کہ اکثر طلبائے علمِ دین کے ذہن میں جو شبہات ہیں یہ ان کی اپنی تحقیق نہیں، بلکہ ان کے فہم کی بنیاد دیگر حضرات کی بیان کی ہوئی باتوں کی تقلید و پیروی ہے۔میں القاعدہ میں کیوں شامل ہوا، اس کے چالیس سے زائد اسباب ہیں۔ میں اللہ پاک سے توفیق اور اخلاص کا خواستگار ہوں اور میری خواہش ہے کہ یہ تحریر ہدایت اور درست منہج کے طلب گاروں کے لیے پہلا زینہ بن جائے۔

یہ پیغام راتوں رات تیار نہیں ہو گیا بلکہ یہ طویل غور و خوض ، گہری سوچ ، واضح فکر اور دلیل کے راستے پر چلنے کا نتیجہ ہے۔

پس تدبر کیجیے اور عمل کی راہ لیجیے کہ ہماری زندگی مختصر ہے اور ہمیں اس دنیا سے اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ راستے کی مشکلات سے خوف زدہ نہ ہوں کہ اس کا نتیجہ بعد میں ملامت اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں۔ بے شک حق واضح ہے، وہ غالب آنے والا ہے اور باطل مغلوب ہونے والا ہے، پس ان لوگوں میں سے نہ بنیں جو سلامتی کی راہ پر چلنے سے زیادہ اپنی سلامتی کو ترجیح دیتے ہیں۔

آگے اس امر کا نکتہ وار بیان ہے کہ میں کیوں القاعدہ میں شامل ہوا؟

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ. ربّ اشرح لي صدري، ويسّر لي أمري، واحلل عقدة من لساني، يفقهوا قولي، واجعل لي وزيرا من أهلي، آمين يا ولي المستضعفين! ثم أما بعد!

۱.اس لیے کہ انہوں نے منہجِ جہاد کا انتخاب کیا ہے

میں القاعدہ میں اس لیے شامل ہوا کیونکہ القاعدہ نے نے منہجِ جہاد کو اختیار کیا ہے، اور جہاد ہی نصوصِ شریعت سے ثابت شدہ وہ راستہ ہے جس کے ذریعے ذلت کی گھاٹی سے نکلا جا سکتا ہے، اور اسی راستے سے امتِ مسلمہ کی عزت و کرامت کو لوٹایا جا سکتا ہے۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ امتِ مسلمہ من حیث المجموع ضعف کی حالت سے گزر رہی ہے اور ’خلافتِ اسلامیہ کو دوبارہ کیسے قائم کیا جائے؟‘ اس منزل کے حصول کے طریقے کے بارے میں دینی جماعتوں اور تنظیموں میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ چند مشہور آراء اور مناہج یہ ہیں:

  1. اسلامی ممالک میں قائم جدید قومی ریاستوں کے آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے ، مذہبی پارٹیاں بنا کر جمہوری سیاست میں حصہ لینا اور نفاذِ اسلام کے لیے جہاد و قتال کی فکر کی تردید کرنا۔

  2. بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آج مسلم ممالک کے حکام شرعی اولو الامر ہیں، حالانکہ ان حکمرانوں میں بہت سے خلافِ شرع امور بلکہ کفری باتیں بھی پائی جاتی ہیں ان سب کے باجود یہ حضرات ان حکمرانوں کی اطاعت کو واجب قرار دیتے ہیں۔

  3. کچھ حضرات فقط تربیت و اصلاحِ معاشرہ کو غلبۂ دین کا طریقہ سمجھتے ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ محض اصلاحِ عقائد سے معاشرہ تبدیل ہو جائے گا۔

  4. کچھ حضرات فقط خیراتی اداروں کے قیام اور ان کے ذریعے دعوت و ارشاد کے فروغ کو کافی سمجھتے ہیں ۔

جبکہ جماعت القاعدہ امت کو اس گھٹا ٹوپ اندھیرے، اس ذلت و پستی کی کھائی سے نکالنے اور خلافتِ اسلامیہ کے دوبارہ قیام کا ذریعہ جہاد فی سبیل اللہ کو سمجھتی ہے۔ پچھلی سطور میں موجود چار میں سے دو طریقوں کو ہم درست نہیں سمجھتے(اور اس کا بیان آگے آئےگا)، لیکن مؤخر الذکر دو طریقے خود بھی ضروری ہیں، تربیت و اصلاحِ معاشرہ، اصلاحِ عقائد، دعوت و ارشاد : یہ سب بھی القاعدہ کے منہج میں صد فیصد شامل ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ القاعدہ ان کو ہیچ جانتی ہے، حاشا وکلا۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ نظامِ اسلامی کا خاتمہ اورباطل نظاموں کا اس کی جگہ نفاذ، قوت و زور سے کیا گیا ہے اور جو چیز قوت سے چھینی جاتی ہے اس کو قوت ہی کے ذریعے سے واپس حاصل کیا جاتا ہے ۔

ماضی کی سب مثالیں ایک طرف اور آج غزہ میں جاری اہلِ اسلام کا قتلِ عام ایک طرف۔ ذرا سوچیے کیا اسرائیل و امریکہ کا مقابلہ جہاد کے علاوہ بھی کسی ذریعے سے کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہم آج اپنی آنکھوں سے ان جدید ریاستوں اور ان ریاستوں کے اوپر موجود اقوامِ متحدہ میں، انہی قومی اور بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے غزہ میں اہلِ اسلام کا قتلِ عام رکوانے کی کوششیں، مسلم ممالک کے حکمرانوں کا غزہ میں جاری قتلِ عام میں اسرائیلی حمایت و نصرت پر مبنی عمل نہیں دیکھ رہے؟ تربیت و تزکیے کا دین میں بڑا بلند مقام ہے، لیکن کیا تربیت و تزکیے کی محنت سے اس قتلِ عام کو رکوایا جا سکتا ہے؟ بے شک آج جو خیراتی ادارے امتِ مسلمہ کی خدمت کر رہے ہیں اور اسی ذریعے سے دعوت و ارشاد کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں، یہ بہت بڑا کام ہے۔ بے شک اہلِ غزہ کے حق میں مظاہرے امت کی زندگی کا ثبوت ہیں لیکن ایسے مظاہرے جو میدانِ جہاد میں ڈٹے مجاہد کو فائدہ نہ پہنچا سکیں ، کیا یہ کچھ سود مندہیں؟

پس جہاد ہی وہ شرعی راستہ ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح ہدایت فرمائی ہے:

’’إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ وَتَرَکْتُمْ الْجِهَادَ سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْکُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّی تَرْجِعُوا إِلَی دِينِکُمْ .‘‘ (رواه أبو داود بإسناد حسن)

’’ جب تم عینہ کی بیع کرنے لگو گے(ایک سودی لین دین) ، بیلوں کی دمیں پکڑ لو گے ، کھیتی باڑی ہی پر مطمئن ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ بیٹھو گے تو اللہ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جو کسی طرح زائل نہ ہوگی حتیٰ کہ تم اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ ۔ ‘‘

پس جہاد ہی آج کے دکھوں کا علاج ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے:

قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ۝ وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ وَيَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ؀ (سورة التوبۃ: 14،15)

’’ان سے جنگ کرو تاکہ اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے، انہیں رسوا کرے، ان کے خلاف تمہاری مدد کرے، اور مومنوں کے دل ٹھنڈے کردے۔ اور ان کے دل کی کڑھن دور کردے، اور جس کی چاہے توبہ قبول کرلے اور اللہ کا علم بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل ۔‘‘

اور اللہ پاک نے فرمایا:

وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ (سورة الانفال: 39)

’’ اور (مسلمانو) ان کافروں سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ (کفر کا)فتنہ باقی نہ رہے، اور دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے ۔‘‘

تنظیم القاعدہ کے جہاد میں، ہماری اپنی ہی قوم سے تعلق رکھنے والے مرتد حکمرانوں کے خلاف جہاد بھی شامل ہے۔حضرت عبادہ ابنِ صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم (صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین) سے بیعت لیتے ہوئے یہ بیعت بھی لی کہ:

’’وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ قَالَ إِلَّا أَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَکُمْ مِنْ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ.‘‘ (بخاري ومسلم)

’’اقتدار کے معاملے میں حكمرانوں سے تنازع نہیں کریں گے‘‘۔اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: ’’ہاں، اگر تم ان میں کھلم کھلا کفر دیکھو جس کے (کفر ہونے پر) تمہارے پاس (قرآن اور سنت سے) واضح آثار موجود ہوں‘‘۔

ہمیں ان حکمرانوں کے علاج کے لیے کسی تاویل یا فلسفوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس ہم پر تو لازم ہے کہ ہم جہاد کا راستہ اختیار کریں تاکہ امتِ مسلمہ ذلت و خواری سے نکل سکے اور کفارِ اصلی اور مرتد حکمرانوں سے نجات پا سکے۔5

اللہ پاک راقم و قاری پر رحم فرمائے، ہم جانتے ہیں کے اللہ کی شریعت کے مقابل انسانی ساختہ وضعی قوانین کفر ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں ﯚ وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ﯙ، ’’ اور (مسلمانو) ان کافروں سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ (کفر کا)فتنہ باقی نہ رہے، اور دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے ‘‘، ہم بخوبی جانتے ہیں کہ آج دنیا کا نظام، آج دین پورا کا پورا اللہ کا نہیں ہے یعنی اللہ کا دین باقی ادیانِ باطلہ پر غالب نہیں ہے، بلکہ باقی دنیا کو چھوڑیے اسلامی ممالک میں بھی اللہ کا دین غالب نہیں ہے۔حدود اللہ معطل ہیں بلکہ حدود اللہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے، حقوقِ نسواں کے نام پر زنا بالرضاء کی اجازت دیتا زنا بل اور ہم جنس پرستی اور شہوت رانی کو فروغ دیتا ٹرانس جینڈر ایکٹ آئین و قانون کا حصہ ہیں (معاذ اللہ)، معیشت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلانِ جنگ یعنی سود پر مبنی ہے۔ امام ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’فإذا كان بعض الدين لله وبعضه لغير الله وجب القتال حتى يكون الدين كله لله.‘‘ (الفتاوی الکبری، ۵؍۵۳۴)

’’پس اگر نظام کا کچھ حصہ اللہ کے احکام پر مبنی ہو اور کچھ حصہ غیر اللہ کے احکام پر مبنی ہو تو (ایسے نظام کے خلاف) قتال کرنا واجب ہے، یہاں تک کہ دین و نظام پورا کا پورا اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔‘‘

اے میرے مسلمان بھائی! جو لوگ امریکی ٹینکوں پر بیٹھ کر آئے اور اہلِ افغانستان پر حاکم بن گئے کیا وہ مسلمان تھے؟ اور وہ لوگ جو عراق کے مسلمانوں کو امریکی حکم و اشارے پر ، امریکہ ہی کہ وضع کردہ نظام میں رہتے ہوئے کہتے تھےکہ عراقی مسلمان امریکیوں اور ان کے آلۂ کاروں کے خلاف جہاد چھوڑ کر بیلٹ بکسوں میں ووٹ ڈالنے کے عمل میں شریک ہو جائیں، کیا یہ لوگ مسلمان ہیں؟ جو بش کے ایک فون پر امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی بن کر دنیا کی واحد اسلامی حکومت ’امارتِ اسلامیہ افغانستان ‘ کو گراتے ہیں، اس کے سفیر کو برہنہ کر کے امریکی سی ون تھرٹی طیارے میں بھر کر گوانتانامو بھیجتے ہیں، اپنے ہی ملک کے مسلمانوں کو سوات تا وزیرستان اور لال مسجد میں نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے پر خون میں نہلا دیتے ہیں، جو اپنی ہم قوم بہن اور امت کی بیٹی عافیہ صدیقی کو بیچ دیتے ہیں، کیا یہ حکمران مسلمان ہیں؟

یہی حکمران کعبۃ اللہ کی چھت پر بھی چڑھتے ہیں، کچھ اسلامی شعائر پر عمل بھی کرتے ہیں، کیا ہم یہ بات قبول کر لیں گے کہ یہ حکمران کچھ باتوں میں اللہ کی شریعت کے مطابق عمل کریں اور باقی معاملاتِ حکومت میں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مخالف فیصلے جاری کریں اور ان کو نافذ کریں؟ کیا یہی اتباعِ شریعت ہے؟

اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاۗءُ مَنْ يَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يُرَدُّوْنَ اِلٰٓى اَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۝ (سورة البقرة: 85)

’’ کیا تم بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو، تم میں سے جو بھی ایسا کرے، اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی اور قیامت کے عذاب کی مار، اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بےخبر نہیں۔ ‘‘

کیا اللہ کی شریعت ایک حکمران سے اسی کا تقاضا کرتی ہے؟ آج کے یہ حکمران جنہوں نے اللہ کی شریعت کے احکام کو پسِ پشت ڈال کر یہودیوں اور عیسائیوں سے دوستی کی اور پھر یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ مل کر اسلام و اہلِ اسلام کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی اور نان نیٹو اتحادی ہونے کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا، کیا ان حکمرانوں اور بنو امیہ ،بنو عباس، خلافتِ عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کے حکمرانوں کا موازنہ کیا جا سکتا ہے؟ ماضی کے ان مسلمان حکمرانوں سے بھی لغزشیں ہوئیں لیکن یہ لغزشیں جزوی قسم کی ، فروعی معاملات میں تھی۔ ماضی کے ان حکمرانوں نے اللہ کی شریعت کو نافذ کیا، حتیٰ کہ ان حکمرانوں میں سے بدترین لوگوں میں برِّ صغیر میں اکبر جیسے بادشاہ کی حکومت بھی رہی جس نے اپنا نیا دین بھی ایجاد کر لیا (حکیم الامت حضرت تھانوی قدّس سرہ نے اکبر کے آخری زمانے میں اس کے توبہ کرنے کا ذکر بھی کیا ہے)، اس اکبر کے زمانے میں بھی قانونِ حکومت ’فقہِ حنفی‘ نافذ تھا۔ اموی، عباسی، عثمانی اور مغل سلاطین و حکمران اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے لشکر بھیجنے والے تھے، بلکہ کتنے فخر کی بات ہے کہ ان حکمرانوں میں سے کثیر تعداد براہِ راست خود جہاد فی سبیل اللہ میں شرکت کرتے اور اپنی فوجوں کی کمان کیا کرتے تھے اور ’غازی پادشاہ‘ کہلاتے تھے۔ پھر اس سے بھی زیادہ فخر کی بات یہ ہے کہ انہی مجاہد بادشاہوں میں سے کئی ’غازی پادشاہ‘ کے بعد میدانِ جنگ میں شہید ہو کر ’ غازی پادشاہ شہید ‘ کہلائے۔ کیا ان حکمرانوں سے آج کے ابنِ سلمانوں، ابنِ زایدوں، سیسیوں، زرداریوں، شریفوں، نیازیوں، عاصم منیروں اور اردگانوں کا موازنہ کیا جا سکتا ہے؟ فیا للعجب!

القاعدہ کا راستہ جہاد کا راستہ ہے اور جو جہاد کا راستہ اختیار کر لے تو کسی کا اس کا ساتھی بن جانا یا چھوڑ جانا اور کسی کا اس کی مخالفت کرنا، اس سب سے سالکِ جہاد کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرے بھائی !اگر تم ان سب باتوں پر حیرت زدہ ہو گئے ہو تو اپنی حیرت ان نصوص و احکامِ شریعت کو دیکھ کر دور کر لو اور لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آؤ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَاللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْكِيْلًا ۝ (سورة النساء:84)

’’لہٰذا تم اللہ کے راستے میں جنگ کرو، تم پر اپنے سوا کسی اور کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہاں مومنوں کو ترغیب دیتے رہو، کچھ بعید نہیں کہ اللہ کافروں کی جنگ کا زور توڑ دے۔ اور اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست ہے اور اس کی سزا بڑی سخت۔ ‘‘

پس اگر آج کوئی یہ سوال اٹھائے کہ: جنگ تب کرنی چاہیے جب جنگ سے کفار کا ظلم ختم ہونے کی امید ہو، اور اگر یہ امید نہ ہو تو جنگ نہیں کرنی چاہیے۔ تو ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ: کیا آج کے دور میں بذریعۂ جنگ کفار کاظلم ختم ہونے کی امید ہے یا نہیں؟

جواب: جنگ مجاہدین کا میدان ہے۔ مجاہدین ہی جنگ کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے ہیں، مجاہدین براہِ راست دشمن سے نبرد آزما ہیں اور وہ دشمن کی حقیقت باقی سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ برخلاف ان لوگوں کے جو دشمن کی طاقت کا اندازہ میدانِ جنگ میں اترے بغیر لگاتے ہیں، شاید یہ لوگ میڈیا کی جھوٹی چکا چوند کے سبب (جیسے میڈیا دشمن کی قوت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور اس کی سب سے بہترین مثال ہالی ووڈ ہے) دشمن کی اصل قوت کے بارے میں دھوکے کا شکار ہیں۔ علماءکو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں مجاہدین سے مشورہ کریں، اس لیے کہ اس معاملے میں مجاہدین ہی اس کے ماہر ہیں۔ جیسے علمائے طب یا دیگر امور میں اہلِ طب یا متعلقہ امور کے ماہرین سے مشورہ لیتے ہیں ، اسی طرح انہیں جہاد کے معاملات میں مجاہدین سے مشورہ کرنا چاہیے۔ اس پر مستزاد یہ کہ آج کے حالات مجاہدین ہی کے موقف کی تصدیق و تثبیت کرتے ہیں ۔ آج ہم اپنی آنکھوں سے صومالیہ و مالی میں مجاہدین کی فتوحات ملاحظہ کر رہے ہیں۔ امریکہ جسے دنیا خدا سمجھتی ہے، اس امریکہ کو محض انیس جوان مجاہد، اسی امریکہ کے اندر، اسی امریکہ کے چار عدد طیارے، محض پیپر کٹر چاقوؤں کی بدولت اغوا کر کے اس کے اقتصادی، عسکری اور سیاسی مراکز کی طرف موڑ دیتے ہیں، اور اپنے اس عمل سے امریکہ کے سپر پاور ہونے، نعوذ باللہ اس کے ’all seeing and all hearing‘ ہونے کی جھوٹی شان کو مٹی میں ملا دیتے ہیں۔ سات اکتوبر کی صبح دنیا کی چالاک ترین لومڑی، بہترین عسکری و انٹیلی جنس قوت اسرائیل کو چند نوجوان اپنے پیراشوٹوں ، کلاشن کوفوں اور دیسی ساختہ القسام اور الیاسین میزائیلوں سے نشانہ بناتے ہیں، اس کے آئرن ڈوم کو ریت کا گھروندا ثابت کر کے اس عیار و ہوشیار لومڑی کو سگِ دیوانہ بنا دیتے ہیں۔ پھر اس سب سے بڑھ کر ہمارے سامنے افغانستان میں مجاہدین کی عظیم الشان کامیابی کی مثال ’امارتِ اسلامیہ افغانستان‘ کی صورت میں موجود ہے ۔ امارتِ اسلامیہ نے ’جہاد فی سبیل اللہ‘ کے ذریعے امریکیوں کو ان کے پچاس سے زائد اتحادیوں اور اشرف غنی کی مقامی حکومت سمیت عسکری و سیاسی شکست سے دوچار کیا اور پھر اسی جہاد کے راستے کو اپناتے ہوئے اللہ کی شریعت کو افغانستان کے حدودِ اربعہ میں نافذ بھی کیا، وللہ الحمد والمنۃ!

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْااِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ؀ ’’ اے لوگو ! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے، اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو، درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔ یقین رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز سے باخبر ہے۔ ‘‘ (سورۃ الحجرات: ۱۳)

2 یہاں جو اچھی باتیں ہیں تو یقیناً ان کا سہرہ ان حضرات کو جاتا ہے، البتہ جو سہو ہو جائے تو یہ میری ہی خطا ہے۔

3 انہوں نے فائدہ پہنچانے کا ارادہ کیا تھا لیکن نادانستہ ضرر پہنچا بیٹھے، نیکیوں میں سے بعض نیکیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو نافرمانی بن جاتی ہیں۔

4 پر اس بات کا یہ مطلب بھی نہیں کہ القاعدہ یا دیگر تنظیموں میں موجود مجاہدین اپنی غلطیوں پر جری ہو جائیں بلکہ مجاہدین کو بھی اپنی غلطیوں کی اصلاح کے لیے امت کے اہلِ علم کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہیے اور اپنی خطاؤں پر اصرار ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔

5 آج مسلم ممالک پر مسلط حکمران بعض ایسے اعمال و افعال میں مبتلا ہیں جن کے سبب ایمان جاتا رہتا ہے یہ حکمران مسلمان ہیں یا نہیں ؟ اس بحث میں پڑے بغیر بھی بعض اہم وجوہات کے باعث ان کے خلاف جہاد و قتال فرض ہے۔ اس موضوع پر ’مطبوعاتِ نوائے غزوۂ ہند‘ کی جانب سے حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’برِّ صغیر کے حکمرانوں کے خلاف لڑنا کیوں واجب ہے‘ مؤلفہ مولانا مفتی فضل الرحمن قاسمی (دامت برکاتہم) لائقِ مطالعہ ہے۔ نیز ’الهیئة العالمیة لأنصار النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘ کا اسی شمارے میں شائع ہونے والا فتویٰ ’فرض کی ادائیگی اور ابو عبیدہ کی پکار کے جواب میں علمائے طوفان الاقصیٰ کا بیان‘ بھی دیکھنے اور عمل کے لائق ہے۔

Previous Post

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے!

Next Post

اصلاحِ معاشرہ | دوسری قسط

Related Posts

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

13 اگست 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چھٹی قسط

13 اگست 2025
کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط
فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط

13 اگست 2025
کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟
فکر و منہج

کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟

13 اگست 2025
ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!
فکر و منہج

ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!

17 جولائی 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | پانچویں قسط

13 جولائی 2025
Next Post
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط

اصلاحِ معاشرہ | دوسری قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version