میرے قاتل کی مذمت میں جو تقریر ہوئی
میرے اشکوں کی جہاں بھر میں یہ توقیر ہوئی
میرے بچوں کے لیے آیا ہے صدقے کا کفن
میری ممتا کی بڑے پیار سے تحقیر ہوئی
میری فریاد گئی جس کے بھی دروازے پر
لفظِ فَاصْبِر کی الگ ڈھنگ سے تفسیر ہوئی
جسدِ واحد کی مثالیں بھی پسِ پشت گریں
پھر سے تاریخ میں شرمندگی تحریر ہوئی
بے حس ہیں زمانے میں فراست کے امیں
میری غیرت تو حماقت سے ہی تعبیر ہوئی
میرے دشمن کے ستم پر جو سدا گنگ رہے
میرا بدلہ بھی وہی کہتے ہیں کہ تقصیر ہوئی
اب میں ہوں تو بن سکتا ہے کل کہ تُو بھی ہدف
ارضِ اقصیٰ پہ پہنچنے میں جو تاخیر ہوئی
تیری چارہ گری کافی نہیں مجھ کو اگر
تیری امداد میں موجود نہ شمشیر ہوئی
شمعِ آزادی نہیں بجھتی بجھانے سے کبھی
اس سے شعلے میں مِرے خون سے تنویر ہوئی
میرے پتھر نے ہی توڑا ہے یہودی کا فسوں
تیری توپوں سے مگر کچھ بھی نہ تدبیر ہوئی
٭٭٭٭٭