نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home طوفان الأقصی

غزہ کی کہانی…… قرآن کی زبانی

عبید الرحمن المرابط by عبید الرحمن المرابط
10 نومبر 2023
in طوفان الأقصی, اکتوبر و نومبر 2023
0

مومنانِ اسرائیل بمقابلہ مشرکانِ فلستیہ1

حضرت یوشع بن نون کا غزوہ

مومنانِ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ﷤ کے ساتھ ارضِ مبارکہ کی طرف نکلے۔ حضرت موسیٰ﷤ نے ان سے فرمایا:

يٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِيْ كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْنَ ؀ (سورۃ المائدہ: 21)

”تو بھائیو! تم ارضِ مقدس میں، جسے خدا نے تمہارے لیے لکھ رکھا ہے، چل داخل ہو اور (دیکھنا مقابلے کے وقت) پیٹھ نہ پھیر دینا ورنہ نقصان میں پڑ جاؤ گے ۔“

لیکن بنی اسرائیل نے انکار کرتے ہوئے کہا:

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّ فِيْهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ ڰ وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰي يَخْرُجُوْا مِنْهَا ۚ فَاِنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ؀ (سورۃ المائدہ: 22)

”وہ کہنے لگے کہ موسیٰ! وہاں تو بڑے زبردست لوگ (رہتے) ہیں اور جب تک وہ اس سرزمین سے نکل نہ جائیں ہم وہاں جا نہیں سکتے۔ ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم جا داخل ہوں گے۔“

ہمیشہ ظاہری قوت سے انسان خوف کھاتا ہے، جب تک ایمان مضبوط نہ ہو۔ اتنی بڑی تعداد میں سے ایسے بھی تھے جو خدا سے ڈرتے تھے۔ ان ڈرنے والوں میں سے بھی صرف دو افراد کو اللہ کی مدد پر مکمل یقین تھا:

قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوْا عَلَيْهِمُ الْبَابَ ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ ۥ ۚ وَعَلَي اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ؀ (سورۃالمائدہ: 23)

”جو لوگ (خدا سے) ڈرتے تھے ان میں سے دو شخص جن پر خدا کی عنایت تھی کہنے لگے کہ : ان لوگوں پر دروازے کے رستے سے حملہ کردو، جب تم دروازے میں داخل ہو گئے تو فتح تمہاری ہے اور خدا ہی پر بھروسہ رکھو بشرطیکہ صاحبِ ایمان ہو۔“

لیکن ماضی اور حال کی بہت سی امتوں کی طرح بنی اسرائیل کی اکثریت نے بھی مسلمان ہوتے ہوئے قتال سے اعراض کیا اور کہا:

قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِيْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ؀ (سورۃ المائدہ: 24)

”وہ بولے کہ موسیٰ! جب تک وہ لوگ وہاں ہیں ہم کبھی وہاں نہیں جا سکتے، (اگر ضرور لڑنا ہی ہے) تو تم اور تمہارا خدا جاؤ اور لڑو، ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔“

حضرت موسیٰ﷤ نے اللہ سے اس رویے سے نالاں ہو کر فریاد کی، تو اللہ نے جہاد سے منہ موڑنے کے سبب بنی اسرائیل پر 40 سال تک مقدس سر زمین حرام کر دی:

قَالَ رَبِّ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِيْ وَاَخِيْ فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ؀ قَالَ فَاِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ اَرْبَعِيْنَ سَـنَةً ۚ يَتِيْھُوْنَ فِي الْاَرْضِ ۭ فَلَا تَاْسَ عَلَي الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ؀ (سورۃ المائدہ: 25-26)

”موسیٰ نے (خدا سے) التجا کی کہ: پروردگار میں اپنے اور اپنے بھائی کے سوا اور کسی پر اختیار نہیں رکھتا، تو ہم میں اور ان نافرمان لوگوں میں جدائی کردے۔ اللہ نے فرمایا کہ: وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لیے حرام کر دیا گیا (کہ وہاں جانے نہ پائیں گے اور) زمین میں سرگرداں پھرتے رہیں گے۔ تو ان نافرمان لوگوں کے حال پر افسوس نہ کرو۔“

تو کیا سورۂ بقرہ میں آیاتِ جہاد کے بیچ یہ قصہ سنانے کا مقصد یہ تھا کہ یہ حالت بنی اسرائیل کے ساتھ خاص ہے؟ آئیے، تاریخ کی روشنی میں دیکھیں کہ ہوا کیا۔

ان دو آدمیوں میں سے جنہوں نے قوم کو بھروسہ دلایا، ایک حضرت یوشع بن نون ﷤تھے، جو حضرت موسی ﷤کے زیرِ تربیت رہ چکے تھے اور بعد میں بنی اسرائیل کے لیے نبی ٹھہرے۔ ان کی قیادت میں چالیس سال کے بعد یہ علاقہ فتح ہوا جسے آج فلسطین کہا جاتا ہے۔ امام بخاری﷫ حضرت ابو ہریرہ ﷜ سے نبی اکرم ﷺ کی یہ حدیث روایت کرتے ہیں کہ حضرت یوشع بن نون ﷤نے چالیس سال بعد یہ علاقہ جہاد کے ذریعے ہی فتح کیا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

غَزَا نَبِيٌّ مِنَ الأَنْبِيَاءِ فَقَالَ لِقَوْمِهِ لاَ يَتْبَعْنِي رَجُلٌ مَلَكَ بُضْعَ امْرَأَةٍ وَهْوَ يُرِيدُ أَنْ يَبْنِيَ بِهَا وَلَمَّا يَبْنِ بِهَا، وَلاَ أَحَدٌ بَنَى بُيُوتًا وَلَمْ يَرْفَعْ سُقُوفَهَا، وَلاَ أَحَدٌ اشْتَرَى غَنَمًا أَوْ خَلِفَاتٍ وَهْوَ يَنْتَظِرُ وِلاَدَهَا. فَغَزَا فَدَنَا مِنَ الْقَرْيَةِ صَلاَةَ الْعَصْرِ أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ فَقَالَ لِلشَّمْسِ إِنَّكِ مَأْمُورَةٌ وَأَنَا مَأْمُورٌ، اللَّهُمَّ احْبِسْهَا عَلَيْنَا. فَحُبِسَتْ، حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَجَمَعَ الْغَنَائِمَ.

”انبیاء میں سے ایک نبی نے غزوہ پر جاتے ہوئے اپنی قوم سے کہا: میرے ساتھ کوئی ایسا شخص نہ نکلے جس نے شادی کی ہو اور اپنی بیوی کے ساتھ رات نہ گزاری ہو۔ اور نہ ایسا شخص جس نے مکان تعمیر کیا ہو اور صرف چھت ڈالنا باقی رہ گئی ہو۔ اور نہ ایسا شخص جس نے ایسے مال مویشی خریدے ہوں جو بچے جننے کے قریب ہوں۔ پس جب وہ شہر کے نزدیک پہنچے تو عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا یا ہوا چاہتا تھا۔ اُس نبی نے سورج سے کہا: تو بھی مامور ہے اور میں بھی۔ اے اللہ! اسے روکے رکھ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورج کو روک لیا یہاں تک کہ اللہ نے انہیں فتح نصیب کی اور وہ غنائم جمع کرنے لگے۔“ (صحیح بخاری: کتاب فرض الخمس، 4؍86)

دیکھیے! معرکہ برپا کرنے کے لیے کس یکسوئی اور دل جمعی کی ضرورت ہوتی ہے، نماز اور فرائض کا کتنا اہتمام ہوتا ہے۔ اور یہ سب کچھ جہاد وقتال کے دوران…… اور وہ بھی ایک نبی کی قیادت میں۔

امام احمد کی روایت میں نبی اکرم ﷺ نے اس شہر کا نام بیت المقدس اور ان نبی کا نام حضرت یوشع ﷤ بتایا ہے:

إِنَّ الشَّمْسَ لَمْ تُحْبَسْ عَلَى بَشَرٍ إِلَّا لِيُوْشَعَ لَيَالِيَ سَارَ إِلَى بَيْتِ المَقْدِسِ.

”سورج کسی شخص کے لیے نہیں روکا گیا ما سوائے حضرت یوشع کے لیے جن راتوں وہ بیت المقدس کی طرف گئے۔“ (مسند امام احمد، مسند ابو ہریرہ، 14؍65)

حضرت داؤد ﷤ کا جہاد

امام ابن کثیر﷫آگے فرماتے ہیں کہ حضرت حزقیل ﷤کی وفات کے بعد بنی اسرائیل نے اللہ سے کیا ہوا وعدہ بھلا دیا۔ نت نئی بدعتیں شروع کیں یہاں تک معاملہ بت پرستی تک جا پہنچا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت الیاس ﷤ کو بھیجا، او ران کے بعد حضرت الیسع ﷤کو۔ انبیاء کی وفات کے بعد پھر سے بنی اسرائیل بدعتوں اور معصیتوں میں مبتلا ہو جاتےتھے۔ سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے بدلے ان پر ظالم بادشاہ مسلط کر دیے جو انبیاء کو قتل کر ڈالتے تھے۔ اور دوسری طرف ان پر بیرونی دشمن بھی مسلط کر دیے جو پے در پے انہیں شکست دیتے گئے۔ اس زمانے میں جب بنی اسرائیل اپنے دشمنوں سے لڑتے تھے تو ساتھ حضرت موسیٰ﷤ کا تابوت تبرک کے لیے لے جاتے تھے۔ اسی طرح ایک جنگ کے موقع پر ان کا مقابلہ غزۃ اور عسقلان کے مشرک باشندوں سے ہوا۔ جس میں مشرک ان پر غالب آ گئے اور بنی اسرائیل سے تابوت بھی چھین کر لے گئے۔ تابوت چھننے کے بعد بنی اسرائیل کا بادشاہ مر گیا اور یہ قوم بغیر کسی سربراہ کے بھٹکنے لگی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی نے شموئل﷤ کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔ بنی اسرائیل نے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے نبی سے ان پر ایک بادشاہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت یوشع اور حضرت شموئل ﷧ کے درمیان 460 سال گزرے تھے۔ (البدایہ والنہایہ: 2؍283-288)

قرآن کریم اس واقعے کو سورۂ بقرہ کی آیت 246 سے آیت 252 میں یوں بیان کرتا ہے:

اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى ۘ اِذْ قَالُوْا لِنَبِىٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ

”بھلا تم نے بنی اسرائیل کے سرداروں کو نہیں دیکھا جنہوں نے موسیٰ کے بعد اپنے پیغمبر (شموئیل) سے کہا کہ: آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیں تاکہ ہم خدا کی راہ میں جہاد کریں۔“

قَالَ ھَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا ۭ

”پیغمبر (شموئیل) نے کہا کہ: اگر تم کو جہاد کا حکم دیا جائے تو عجب نہیں کہ لڑنے سے پہلو تہی کرو۔“

قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَاَبْنَاۗىِٕنَا ۭ

”وہ کہنے لگے کہ: ہم راہ خدا میں کیوں نہ لڑیں گے جب کہ ہم وطن سے (خارج) اور بال بچوں سے جدا کردیے گئے۔“

فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْهُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ؁

”لیکن جب ان کو جہاد کا حکم دیا گیا تو چند اشخاص کے سوا سب پھر گئے۔ اور خدا ظالموں سے خوب واقف ہے ۔“

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا ۭ

”اور پیغمبر (شموئل) نے ان سے (یہ بھی) کہا کہ: خدا نے تم پر طالوت (صاول؍شاول) کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔“

قَالُوْٓا اَنّٰى يَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۭ

”وہ بولے کہ: اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیونکر ہوسکتا ہے۔ بادشاہی کے مستحق تو ہم ہیں اور اس کے پاس تو بہت سی دولت بھی نہیں۔“

قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهٗ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۭ وَاللّٰهُ يُؤْتِيْ مُلْكَهٗ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ؁

”پیغمبر نے کہا کہ: خدا نےاس کو تم پر فضیلت دی ہے اور (بادشاہی کے لیے) منتخب فرمایا ہے۔ اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور تن و توش بھی (بڑا عطا کیا ہے) اور خدا (کو اختیار ہے) جسے چاہے بادشاہی بخشے۔ وہ بڑا کشائش والا اور دانا ہے۔“

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ اِنَّ اٰيَةَ مُلْكِهٖٓ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ التَّابُوْتُ فِيْهِ سَكِيْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَاٰلُ ھٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ؁

”اور پیغمبر نے ان سے کہا کہ: ان کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک صندوق (حضرت موسی﷤ کا تابوت) آئے گا جس کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسلی (بخشنے والی چیز) ہوگی اور کچھ اور چیزیں بھی ہوں گی جو موسیٰ اور ہارون چھوڑ گئے تھے۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو تو یہ تمہارے لیے ایک بڑی نشانی ہے۔“

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْد ِ ۙ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِيْكُمْ بِنَهَرٍ ۚ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّىْ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَطْعَمْهُ فَاِنَّهٗ مِنِّىْٓ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةًۢ بِيَدِهٖ ۚ

”غرض جب طالوت فوجیں لے کر روانہ ہوا تو اس نے (بنی اسرائیل سے) کہا کہ: خدا ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے۔ جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا (اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ) وہ میرا نہیں (اور لشکر میں شامل نہیں)۔ اور جو نہ پیے گا وہ (سمجھا جائے گا کہ) میرا ہے (اور لشکر میں شامل ہے)۔ ہاں اگر کوئی ہاتھ سے چلو بھر پانی پی لے (تو خیر)۔“

فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْهُمْ ۭ

”(جب وہ لوگ نہر پر پہنچے) تو چند افراد کے سوا سب نے پانی پی لیا۔“

فَلَمَّا جَاوَزَهٗ ھُوَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ ۙ قَالُوْا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِهٖ ۭ

”پھر جب طالوت اور مومن لوگ جو اس کے ساتھ تھے نہر کے پار ہوگئے تو کہنے لگے کہ: آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں۔“

قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوااللّٰهِ ۙ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ؁

”جو لوگ یقین رکھتے تھے کہ ان کو خدا کے روبرو حاضر ہونا ہے وہ کہنے لگے کہ: بارہا تھوڑی سی جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر غلبہ حاصل کیا ہے اور خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“

وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ ؀

”اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابل آئے تو (اللہ سے) دعا کی کہ : اے پروردگار ہم پر صبر کے دہانے کھول دے اور ہمیں (لڑائی میں) ثابت قدم رکھ اور (لشکر)کفار پر فتحیاب کر ۔“

فَهَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ

”تو طالوت کی فوج نے خدا کے حکم سے ان کو ہزیمت دی۔“

وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَاٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهٗ مِمَّا يَشَاۗءُ ۭ

”اور (بنی اسرائیل کے لشکر میں سے) داؤد نے (کفار کے بڑے جنگجو) جالوت کو قتل کر ڈالا۔ اور خدا نے اس کو بادشاہی اور دانائی بخشی اور جو کچھ چاہا سکھایا۔“

وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ؁

”اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے (پر چڑھائی اور حملہ کرنے) سے ہٹاتا نہ رہتا تو ملک تباہ ہوجاتا ۔ لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہربان ہے۔“

تِلْكَ اٰيٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْھَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۭ وَاِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ؀

”یہ خدا کی آیتیں ہیں جو ہم تم کو سچائی کے ساتھ پڑھ کر سناتے ہیں (اور اے محمدﷺ) تم بلاشبہ پیغمبروں میں سے ہو۔“

(سورۃ البقرہ: 246-252)

تاریخ اسرائیل و فلستیہ

یہ تقریباً ایک ہزار قبل از مسیح کا واقعہ ہے۔ اہلِ کتاب کی عہد قدیم نامی مجموعۂ کتب میں حضرت یوشع بن نون ﷤کے دور سے حضرت شموئیل ﷤کے دور کو ’دور قضاۃ ‘ کہا جاتا ہے۔ اور قضاۃ سے مراد اس دور کے انبیاء ہیں جن میں سے بعض کے نام گزر چکے ہیں۔ اس عرصے میں انبیاء کا بنیادی کام لوگوں کو اللہ کا پیغام سنانا اور شریعت کے مطابق فیصلے کرنا تھا۔ عہد قدیم کے مطابق دور قضاۃ کے بعد ’دور ملوک‘ شروع ہوتا ہے جب بنی اسرائیل کی قیادت قضاۃ کے بجائے بادشاہوں کو دے دی گئی۔ جن میں سب سے پہلے بادشاہ طالوت تھے ۔ اور ان کے بعد اللہ کے نبی حضرت داود ﷤ بنی اسرائیل کے پہلے طاقتور بادشاہ اور عظیم مملکت اسرائیل کے بانی ٹھہرے۔

یہود و نصاریٰ کے ذرائع بتاتے ہیں کہ حضرت یوشع بن نون ﷤نے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد ارد گرد کے علاقہ پر قبضہ مستحکم کیا اور مختلف قبائل کو مختلف علاقوں میں بسا دیا۔ جب کہ مقامی فلستی مشرک آبادی کچھ ان کے درمیان رہ گئی اور اکثر اطراف میں ساحل سمندر کے قریب منتقل ہو گئی۔ عہد قدیم میں فلستیوں کے کئی مشہور شہر ذکر ہیں جن میں غزہ ، عسقلان، اسدود ، عقرون اور غط (آج کل تل الصافی) شامل ہیں۔ یہ شہر بیت المقدس کے مغرب میں ساحل سمندر کی لمبائی پر واقع تھے۔ فلستیوں کا علاقہ جنوب میں وادی غزہ سے لے کر شما ل میں نہر العوجا تک پھیلا ہوا تھا۔ لیکن جب سے حضرت یوشع ﷤کے ساتھ بنی اسرائیل نے فلسطین کے مرکزی علاقے، بیت المقدس اور گرد و نواح پر قبضہ کیا اس وقت سے ان کی قوت جنوب مغربی اور ساحلی علاقے میں محدود ہو گئی۔ فلسطین کا جنوب مغربی ساحلی علاقہ آج بھی غزہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

قرآن کریم اور کتبِ یہود و نصاریٰ میں حضرت شموئیل ﷤کے دور میں جس قوم سے دیو قامت جنگجو جالوت کا تعلق تھا، وہ یہی مقامی مشرک فلستی تھے۔ عہدِ قدیم کے مطابق ’دورِ قضاۃ‘ میں اسرائیلیوں اور فلستیوں کے درمیان مسلسل لڑائیاں ہوتی رہیں۔ حضرت یوشع ﷤ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل تقسیم ہو گئی اور ان کا کوئی ایک بادشاہ نہ تھا بلکہ ہر قبیلہ کے اپنے سردار ہوتے تھے۔ اس لیے بھی اکثر فلستیوں کا ہی پلڑا بھاری رہتا تھا۔ عہدِ قدیم میں انہیں مملکتِ اسرائیل کا سب سے خطرناک دشمن قرار دیا گیا تھا کیونکہ یہ مشرک تھے اور بنی اسرائیل موحد۔

ان مشہور جنگوں میں سے ایک بیت المقدس اور عسقلان کے درمیان واقع افیق مقام کی جنگ تھی۔ پہلے معرکے میں فلستیوں نے اسرائیلیوں کو شکست دی لیکن مکمل غلبہ نہ ہوا۔ اگلے معرکے میں اسرائیلی جنگ میں تابوتِ موسوی سے تبرک حاصل کرنے کے لیے اپنے ساتھ تابوت بھی لے آئے۔ لیکن اس دفعہ انہیں بری طرح شکست ہوئی یہاں تک کہ فلستیوں نے ان سے مقدس تابوت بھی چھین لیا۔ اس جنگ کا تذکرہ عہدِ قدیم کی کتاب شموئیل (صموئیل) میں درج ہے۔ اس کے بعد ایک معرکہ بیت المقدس کے شمال میں واقع مخماس گاؤں کے قریب تقریبا 1025 قبل از مسیح میں واقع ہوا۔ جس کی قیادت بادشاہ طالوت کے بیٹے جوناثن نے کی اور فلستیوں کو شکست دی۔ لیکن مجموعی طور پر فلستی ہی غالب رہے اور بنی اسرائیل پر ہتھیار رکھنے کی پابندی لگا دی۔ یہاں تک کہ زراعتی اوزار کی مرمت کے لیے بھی اسرائیلی لوہاروں کو فلستیوں کے ہاں جانا پڑتا تھا۔

بالآخر بادشاہ طالوت کے لشکر میں شامل حضرت داود﷤نے جالوت کو موجودہ نہرِ اردن کے مغربی کنارے میں وادی السنط کے قیافہ نامی مقام پر شکست دے دی۔ جنگ کے وقت حضرت داود ﷤ نو جوان لڑکے تھے۔ لیکن اللہ اور اللہ کی کتاب پر ایمان بہت قوی تھا۔ پھر حضرت داود ﷤ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی بادشاہی دی جس کی نظیر ماضی و مستقبل میں کہیں نہیں ملتی۔ یہ اللہ کا مومنوں سے وعدہ تھا۔ اس کے بعد سے فلستی انتہائی کمزور ہو گئے تھے۔ 687 قبل از مسیح میں اسرائیلیوں کے بادشاہ حزقیا ﷤ نے بھی فلستیوں کے خلاف لشکر کشی کرتے ہوئے انہیں جنوب میں غزہ تک دکھیل دیا۔ بالآخر 604 قبل از مسیح میں بخت نصر نے مملکت اسرائیل کو تباہ کرنے کے بعد فلستہ پر بھی قبضہ کر کے اسے بابلی سلطنت میں شامل کر دیا۔ اس کے بعد سے تاریخ میں فلستی مشرک قوم کا ذکر نہیں ملتا اگرچہ یہ علاقہ ان کے نام سے مشہور رہا۔

مومنانِ فلسطین بمقابلہ یہودیانِ بنی اسرائیل

پھر زمانہ کروٹیں بدلتا رہا۔ حضرت داود ﷤ کی قائم کردہ اسرائیلی مملکت 4 صدیوں تک رہی۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کی حرکتوں کے سبب پھر سے آزمائش کا دور آیا اور بابلی بادشاہ بخت نصر نے 587 قبل از مسیح میں بیت المقدس پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پھر 538 قبل از مسیح میں پارسیوں نے بابلیوں کو شکست دی تو ان کے بادشاہ نے بنی اسرائیل کو پارسی سلطنت کے تحت فلسطین میں ایک نیم خود مختار ریاست بنانے کی اجازت دی۔ لیکن دو سو سال بعد 337 قبل از مسیح میں یونان کے سکندر مقدونی نے حملہ کر کے یہ نیم خود مختاری بھی ختم کر دی۔ یونان کو شکست دینے کے بعد رومیوں نے 70 ء میں ایک دفعہ پھر بیت المقدس کو مکمل تباہ کر دیا۔ اسرائیلیوں کی جانب سے بغاوتوں کو کچلنے کے لیے رومیوں نے 135ء میں یہودیوں کا قتل عام کیا ۔ جس کے بعد باقی ماندہ اسرائیلی دنیا میں بکھر گئے۔ یہودیوں کے بعد عیسائی بھی اس ظلم کا شکار رہے لیکن ان کی دعوت پھیلتی رہی۔ یہاں تک کہ 330ء کے لگ بھگ قیصر روم قسطنطین نے عیسائیت اختیار کر لی۔ اس کے بعد سے فلسطین پر عیسائیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا۔ 15 ہجری (638ء) میں مسلمانوں نے فلسطین فتح کیا۔ حضرت عمر﷜ نے خود آکر بیت المقدس کے حکمران عیسائیوں سے شہر کی چابیاں وصول کیں۔ اور عیسائیوں کی یہ شرط بھی قبول کر لی کہ بیت المقدس میں یہودیوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ یہاں تک کہ جنگ عظیم اول کے دوران 1917ء میں برطانیہ نے غزہ کا علاقہ عثمانی سلطنت سے چھین لیا۔ اور جنگ عظیم دوم کے بعد 1947ء میں صہیونی صلیبی سازش کے تحت اقوام متحدہ نے فلسطین کے علاقے کو تقسیم کر کے آدھے سے زیادہ حصہ اسرائیلیوں کو دے دیا۔

یوں…… جگہ وہی غزہ ہے، فریقین کے نام بھی وہی ہیں۔ ایک طرف اسرائیلی اور دوسری طرف فلسطینی۔ فرق یہ ہے کہ آج کل کے فلسطینی اہل ایمان موحد ہیں۔ جبکہ اسرائیلی یہودی کافر ہیں۔ لیکن اہل ایمان کی اہل کفر کے مقابلے میں حالت وہی ہے جو بادشاہ طالوت اور ان کے دشمن جالوت کے درمیان تھی۔ اہل ایمان متفرق ہیں، بدعتیں پھیل چکی ہیں۔ یہاں تک کہ قرآن و سنت کی من مانی تاویل کر کے صریح قطعیاتِ دین سے انکار کے علاوہ کھلم کھلا ردت کا اعلان کرنا عام ہو چکا ہے۔ اور جیسے اُس وقت صرف ایک چھوٹے سے گروہ کے لوگ ہی حضرت طالوت کے ساتھ جہاد پر نکلے اور ان میں سے بھی انتہائی کم حق کی خاطر لڑ مرنے پر تیار ہوئے، اسی طرح آج بھی امت کے ٹھاٹھیں مارتے سمند رمیں مجاہدین کا ایک مختصر گروہ ہی حق کے لیے جان کی بازی لگانے کے لیے تیار ہے۔ امتِ مسلمہ کے مٹھی بھر نوجوانوں نے اکتوبر 2023ء کو نوجوان حضرت داود ﷤ کے ایمانی جذبے کی پیروی کرتے ہوئے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے خلاف حملہ کر دیا۔

آگے بڑھنے سے پہلے ہم یہاں فلسطین عموماً او راہل غزہ کی خصوصاً معاصر تاریخ کے اہم مراحل پیش کرتے ہیں جس سے اہل ایمان کی قوت میں اضافہ واضح نظر آتا ہے۔

غزہ پر مصری اقتدار

1947ء میں اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق غزہ ڈسٹرکٹ کو عرب فلسطینی حکومت کے تابع ہونا تھا۔ لیکن 1948ء میں عرب اسرائیل جنگ کے دوران مصر نے غزہ کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اگلے سال مصر اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے معاہدہ میں اسرائیل نے غزہ پر مصر کا کنٹرول تسلیم کر لیا ۔ اس کے بعد سے قضاء غزہ کو قطاع غزہ کہا جانے لگا۔ اسرائیل کے قیام اور 1948ء کی جنگ کےنتیجے میں فلسطینیوں کی نا گفتہ بہ صورت حال کے دوران، جسے فلسطینی ’نکبہ‘ کہتے ہیں، بے شمار فلسطینی پناہ گزین دیگر علاقوں سے آکر غزہ میں آباد ہو گئے۔

1956ء میں اسرائیل نے غزہ پر جنگ یہ کہتے ہوئے شروع کی کہ مصر غزہ کو استشہادی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتا ہے۔ لیکن اس کا اصل مقصد برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر نہر ِ سوئز پر قبضہ کرنا تھا۔ چنانچہ مصر پر سہ فریقی (برطانیہ، فرانس اور اسرائیل) حملے میں اسرائیل نے غزہ کے علاوہ جزیرہ نما سینا پر بھی قبضہ کر لیا۔ لیکن عالمی دباؤ اور بڑی طاقتوں کے ذاتی مفادات کے نتیجے میں اسرائیل کو غزہ سمیت سینا سے پسپائی اختیار کرنی پڑی۔

اسرائیل کے قبضے میں

اس کے بعد 1967ء میں عرب اسرائیل کی مشہور چھ روزہ جنگ چھڑ گئی جس میں عرب کو بری طرح شکست ہوئی جسے عرب ’نکسہ‘ کے نا م سے یاد کرتے ہیں۔ اور اسرائیل نے غزہ پر دوبارہ قبضہ حاصل کر لیا۔ اس کے بعد 27 سال تک یہ علاقہ اسرائیلی حکومت کے تحت دیگر مقبوضہ عرب علاقوں کی طرح پسماندگی کا شکار رہا۔

1987ء میں فلسطین کی پہلی انتفاضہ تحریک کا آغاز ہوا تو غزہ کے باشندوں نے متحدہ قومی قیادت کے تحت بھر پور شرکت کی۔ انتفاضہ کے دوران فلسطینی اسرائیلی فوجیوں پر پتھر اور پٹرول بموں سے حملے کرتے تھے، اور فریقین کے درمیان احتجاجات اور جھڑپوں کے مستقل سلسلے جاری رہے۔

فلسطینی اتھارٹی کی حکومت

انتفاضہ اور فلسطینی مزاحمتی تحریک کے سامنے اسرائیل مجبور ہوا کہ مکر و فریب سے فلسطینیوں کو زیر کریں۔ چنانچہ طویل خفیہ مذاکرات کے بعد ستمبر 1993ء میں الفتح تنظیم کے سربراہ یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کے درمیان اوسلو کا پہلا معاہدہ ہوا جس میں یاسر عرفات نے اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کر لیا اور مسلح جد و جہد کو ترک کرتے ہوئے تمام مسائل کو ’پر امن‘ ذرائع سے حل کرنے کا ’یک طرفہ‘وعدہ کیا۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل نے الفتح تنظیم کو فلسطینی قوم کا نمائندہ تسلیم کرتے ہوئے اسے عارضی طور پر محدود صلاحیت کی حامل فلسطینی قومی اتھارٹی قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ اور ساتھ اسرائیل نے یہ بھی عندیہ دیا کہ وہ مغربی کنارے اور قطاع غزہ کا کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کو دے دے گا۔

لیکن اوسلو معاہدے کے چند مہینوں بعد فروری 1994ء میں ایک شدت پسند یہودی نے حضرت ابراہیم ﷤سے منسوب مسجد الخلیل میں گھس کر 29 نمازیوں کو شہید اور 150 کو زخمی کر دیا۔ جبکہ باہر کھڑے اسرائیلی فوجیوں نے مسجد کے دروازے بند کر دیے۔ تاکہ نہ اندر سے کوئی نکل سکے اور نہ باہر سے کوئی مدد پہنچا سکے۔ جب مسجد سے باہر احتجاجات شروع ہوئے تو ان کو روکتے ہوئے اسرائیلی فوج نے مزید 21 مسلمانوں کوشہید کر دیا۔ جس کے بعد شہر الخلیل میں کرفیو لگا دیا گیا۔ چھ مہینے کرفیو کے بعد زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے مسجد الخلیل کو دو حصوں میں تقسیم کر کے بڑا حصہ یہودیوں کو دے دیا گیا۔ جس سے ثابت ہوا کہ امن معاہدہ محض ایک فریب تھا۔

مئی 1994ء میں اگرچہ شہر کا کنٹرول فلسطینی قومی اتھارٹی نے سنبھال لیا لیکن اسرائیلی فوج وہاں یہودی آباد کاروں کے تحفظ کا بہانہ بناتے ہوئے محض جزوی طور پر نکلی۔ اور بالآخر 2005ء میں غزہ کا فضائی، سمندری اور زمینی محاصرہ کرکے اسرائیل فوج نے مکمل انخلا کیا۔

حماس کا اقتدار

2006ء کے انتخابات میں حماس نے غزہ میں بھاری اکثریت حاصل کی لیکن الفتح تنظیم نے غزہ میں اقتدار منتقل کرنے سے انکار کر دیا۔ جس کے نتیجے میں فریقین کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں۔ بالآخر 2007ء میں حماس قطاع غزہ کا مکمل کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب ہو گئی۔ حماس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ ساتھ مصر نے بھی غزہ کی واحد زمینی گزرگاہ رفح کو بند کرتے ہوئے غزہ کا محاصرہ مکمل کر دیا جو آج تک بدستور جاری ہے۔

غزہ کے مجاہدین نے اس محاصرہ کے خلاف اپنی مدد آپ کے تحت خود ساختہ میزائیل بنائے اور انہیں اسرائیل پر داغا۔ جواب میں دسمبر 2008ء میں اسرائیل نے غزہ کے خلاف وہ جنگ شروع کی جو غزہ کے قتلِ عام (مجزرہ) اور غزہ کے ہولوکاسٹ (محرقہ) سے مشہور ہوئی۔ یہ اعلان کرتے ہوئے کہ جنگ کا مقصد حماس کی حکومت کو گرانا اور فلسطینی مزاحمت کو ختم کرنا ہے، جنگ کا آغاز ایک ہفتے تک سخت فضائی بمباری سے ہوا۔ جس میں پولیس اسٹیشنوں کے علاوہ گھروں، مسجدوں اور ہسپتالوں تک کو نشانہ بنایا گیا۔ صہیونی فوج نے اس دوران غزہ کے مسلمانوں پر تقریبا 10 ہزار ٹن کے برابر گولے برسائے جن میں بین الاقوامی سطح پر غیر قانونی فاسفورس بم بھی شامل تھے۔ اور محاصرے کو مزید تنگ کرتے ہوئے بجلی، ایندھن اور ادویات کی رسد بھی کاٹ دی۔ نہ صرف خود بلکہ ہمسائے عرب ممالک کو بھی امداد دینے سے روک دیا۔ ہزاروں فلسطینی جان بچاتے ہوئے مصر میں پناہ لینے کے لیے رفح گزرگاہ گئے لیکن مصر نے اجازت نہ دی۔ اس جنگ میں تقریبا 5000 فلسطینی شہید ہوئے جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی تھی۔ 8000 زخمی ہوئےاور 20 ہزار گھر تباہ ہوئے۔

18 سال سے شدید محاصرہ

حماس کے انتخابات جیتنے کے بعد سے ہی اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کر دیا تھا۔ جس کو آج تقریباً 18 سال ہونے کو ہیں۔ اور مسلمانانِ غزہ اس پورے عرصے میں بنیادی ضروریات سے محروم رہے ہیں۔ یہاں تک بعض مغربی سیاستدان غزہ کو ’بڑے جیل‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ غزہ کے قتل عام کے بعد 2009ء میں مصر نے غزہ کی سرحد پر زیر زمین آہنی دیوار بنانے کا اعلان کیا تاکہ محصور فلسطینیوں کو سرنگوں کے ذریعے سامان منتقل کرنے سے روکا جائے۔ 2010ء میں کئی فلاحی تنظیموں نے سمندر کے راستے غزہ امداد پہنچانےکی کوشش کی لیکن اسرائیل نے ان کشتیوں پر فوجی کارروائی کر کے منع کر دیا۔ 2011ء میں انقلاب کے بعد مصر کے اخوانی صدر ڈاکٹر مرسی کی طرف سے کچھ عرصے کے لیے رفح گزرگاہ کو کھولا گیا لیکن یہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور صدر مرسی کا تختہ الٹ دیا گیا۔

جنگ جاری ہے!

نومبر 2012ء میں ایک بار پھر اسرائیل نے غزہ پر اندھا دھند راکٹ برسائے۔ جس کے سبب دسیوں فلسطینی شہید ہوئے۔ اس کے جواب میں حماس نے پہلی دفعہ اسرائیل کے اندرونی شہر تل ابیب ، ہرزلیا اور بئر السبع کو میزائلوں سے نشانہ بنایا۔

جولائی 2014ء میں بیت المقدس کے علاقے شعفاط میں یہودی آباد کاروں نے محمد ابو خضیر نامی لڑکے کو اغوا کر کے اذیت کا نشانہ بنایا اور بالآخر زندہ جلا کر شہید کر دیا۔ جس کے نتیجے میں فلسطین بھر میں شدید احتجاجات شروع ہوئے۔ احتجاجات کو روکنے کے لیے اسرائیل نے غزہ پر ’مضبوط چٹان‘ نامی آپریشن کیا۔ جس کا جواب کتائب عز الدین قسام نے ’عصف ماکول‘اور جہادِ اسلامی نے ’بنیانِ مرصوص‘ کی کارروائیوں سے دیا۔

2021ء میں مشرقی قدس کے علاقے شیخ جراح میں اسرائیل نے فلسطینیوں کے مکانات پر قبضہ کر کے یہودی آبادکاروں کو دےدیے جس کے خلاف شیخ جراح کے رہائشیوں نے احتجاج کیا تو فریقین کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اگلا دن جمعۃ الوداع کا تھا جس میں اسرائیلی فوج مسجد اقصیٰ کے اندر داخل ہوئی۔ یوں نمازیوں اور یہودی فوج کے درمیان سخت لڑائی ہوئی جس میں 300 سے زائد زخمی ہوئے۔ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے رد عمل میں پورے فلسطین میں احتجاجات اور جھڑپوں کا سلسلہ پھیل گیا۔ اور مجاہدین نے غزہ سے اسرائیل کی جانب راکٹ داغے ۔ اس پوری جنگ میں 300 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جبکہ 2000 کے قریب زخمی ہوئے۔

اگر ان تمام واقعات پر نظر ڈالیں اور ان کا اکتوبر 2023 ء کے طوفان الاقصیٰ کے معرکے سے موازنہ کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ اسرائیلی ظلم و ستم، عرب ممالک کی خیانت اور امت کی خاموشی کے مقابلے میں مجاہدین فلسطین نے اپنے بل بوتے پر جنگ کے میدان میں نا قابل یقین ترقی کی ہے۔

اور جنگ تا حال جاری ہے……!

معرکے در معرکے!

اور فتح بالآخر ایمانی قوت کو حاصل ہو گی!

قرآنی اسباق

قرآن زندہ حقیقت

سید قطب  سورۂ بقرہ کی مذکورہ بالا آیات کی تفسیر 2کے آغاز میں فرماتے ہیں:

”ہمیں اس درس کی اور اس میں مذکور گروہوں اور قدیم امتوں کے تجربوں کی قدر و قیمت تب ہی معلوم ہو گی جب ہم ذہن نشین کرلیں کہ قرآن اس امت کے لیے زندہ کتاب ہے۔ اسے نصیحت کرنے والا راہ نما ہے۔ قرآن وہ مدرسہ ہے جس میں امت اپنی زندگی کے اسباق سیکھتی ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اس قرآن کے ذریعے مسلمانوں کی اوّلین جماعت کی تربیت کی۔ جسے کرۂ ارض پر ربانی منہج قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ یہ عظیم ذمہ داری تب ہی سونپی جب انہیں قرآن کے ذریعے تیار کر لیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ قرآن رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد بھی امت کے لیے زندہ راہنما بنے اور آنے والی نسلوں کی تربیت کرے۔ اور انہیں قیادتِ راشدہ کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرے۔ جس کا وعدہ قرآن نے ان سے کر رکھا ہے۔“

کل اور آج کا موازنہ

پھر دیکھیے صحابہ ﷢ نے قرآن کی ان آیات کو اپنی صورت حال سے کیسے جوڑا۔ امام ابن کثیر ﷫نے امام ابن جریر﷫ اور امام بخاری ﷫ کی سند سے حضرت براء بن عازب ﷜ کی روایت یہاں نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا:

”ہم آپس میں بات چیت کرتے تھے کہ محمدﷺ کے صحابہ بدر کے دن 310 سے کچھ اوپر تھے۔ اتنے ہی جتنے طالوت کے ساتھی تھے جنہوں نے دریا پار کیا۔ اور صرف مومن ہی دریا پار کر سکے تھے۔“

امام ابن کثیر  حضرت براء ﷜ کے آخری جملے کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ یہ انہوں نے اس لیے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں فرمایا:

فَلَمَّا جَاوَزَهٗ هُوَ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ

”جب طالوت اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں نے دریا پار کر لیا۔“

(تفسیر ابن کثیر، 1؍668)

تاریخ سے عبرت

سید قطبؒ تاریخ سے سبق حاصل کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں:

”اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ جانتے تھے کہ اس امت کی کئی نسلوں پر اسی طرح کا زمانہ آئے گا جس طرح بنی اسرائیل پر گزرا تھا۔ اور وہ اپنے دین اور ایمان کے اعتبار سے وہی موقف اختیار کریں گی جسے بنی اسرائیل نے اختیار کیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے امت کو ،تاریخِ بنی اسرائیل کی تصویر کشی کرتے ہوئے ، راستے کی ہر اونچ نیچ سے، جہاں پاؤں پھسلنے کا خطرہ ہو ، خبردار کر دیا۔

حضرت موسیٰ ﷤ کی وفات کے کافی دیر بعد جب بنی اسرائیل کا ملک خراب ہو گیا، ان کے مقدسات چھین لیے گئے اور دشمنوں نے انہیں خوب ذلیل کیا، بنی اسرائیل کو اپنے رب کی ہدایت اور پیغمبروں کی تعلیم سے روگردانی کے سبب تکالیف جھیلنی پڑیں۔ پھر ایک عرصے کے بعد ان کے اندر نیا جذبہ پیدا ہوا، دل میں ایمان جاگ اٹھا اور اللہ کی راہ میں لڑنے کا شوق ابھرا۔ جس کی خاطر انہوں نے اپنے نبی سے قتال کے لیے بادشاہ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔

اس تجربے سے کئی حقائق سامنے آتے ہیں۔ جو ہر زمانے میں مسلمانوں کے لیے طاقتور پیغام کے حامل ہیں۔

سب سے بڑی عبرت تو یہ ہے کہ ایمان کے جاگنے سے جو جذبہ پیدا ہوا، باوجود اپنی تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں کے، اور باوجود یہ کہ راستے کے بیچ ہی اہل ایمان سے قوم کے بڑے بڑے گروہ کٹتے گئے،اس جذبے کے سبب اور اہل ایمان میں سے ایک انتہائی چھوٹے گروہ کی ثابت قدمی کے سبب پوری قوم نے بڑے اہداف حاصل کر لیے۔

جابروں کے ہاتھوں بری شکست، انتہائی ذلت، طویل در بدری اور رسوائی کے بعد انہیں فتح، عزت اور تمکین حاصل ہوئی۔ اور اسی کے نتیجے میں انہیں حضرت داود ﷤ اور ان کے بعد ان کے بیٹے سلیمان﷤ جیسے بادشاہ ملے۔ یہ مملکتِ بنی اسرائیل کے لیے انتہائی عروج کا زمانہ اور سنہرا دور تھا۔ ایسا مقام جو انہیں حضرت موسیٰ﷤ کی نبوت کبری ٰکے دور میں بھی نہ ملا تھا۔

یہ فتح و کامیابی دل کے سیاہ پردوں کے نیچے دبے ایمان کے مدھم انگاروں کے یک دم بھڑکنے کا براہ راست نتیجہ تھی۔ اور پھر اس کے بعد چھوٹی سی جماعت کا جالوت کے طاقتور لشکر کے سامنے ڈٹنے کے سبب تھی۔ “ (فی ظلال القرآن، 1؍261-263)

جہاد ہی حل ہے

آیات میں ذکر ہوا کہ بنی اسرائیل سے ان کے نبی شموئیل نے جب کہا کہ: ایسا نہ ہو کہ تم پر قتال فرض کر دیا جائے پھر تم نہ لڑو۔ تو عمائدینِ بنی اسرائیل نے جواب دیا: ہم اللہ کی راہ میں کیوں نہ لڑیں جبکہ ہمیں اپنے ملک سے اور اہل و عیال سے نکال دیا گیا ہے۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سید قطب ﷫ فرماتےہیں:

”ہم دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے شعور و ادراک اور سمجھ بوجھ میں یہ بات واضح تھی کہ ان کے دشمن، در حقیقت اللہ اور اس کے دین کے دشمن ہیں۔ تب ہی انہوں نے اللہ کی راہ میں قتال کا مطالبہ کیا ۔ اور ایسے دشمن جنہوں نے انہیں اپنے ملک سے نکال کر اہل وعیال کو غلام بنا دیا۔ اس لیے انہیں بخوبی علم تھا کہ اس دشمن کے خلاف قتال اب لازمی ہے۔ بلکہ ان کے سامنے واحد راستہ قتال کا ہی ہے۔ یہ ایسا معاملہ تھا جس کے بارے میں نظر ثانی اور بحث مباحثہ کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔بھلا ہم اللہ کی راہ میں کیوں نہ لڑیں؟

پھر جب انہوں نے لڑنے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اللہ ظالموں سے خوب واقف ہے۔ یعنی ان کی اکثریت کے فیصلہ کو اللہ تعالیٰ نے برا جانا۔ اس اکثریت کا فیصلہ جس نے مطالبہ کرنے کے بعد اور عملی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے ہی فرضِ جہاد سے منہ موڑ لیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ اکثریت ظالم ہے۔ اس نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ اپنے نبی کے ساتھ ظلم کیا۔ اس حق کے ساتھ ظلم کیا جسے جاننے کے باوجود اس کی تائید کرنے کی بجائے باطل گروہ کے لیے چھوڑ دیا۔ جو جانتا ہو کہ وہ حق پر ہے اور اس کا دشمن باطل پر ہے، جیسے کہ بنی اسرائیل کے اشراف کو علم ہو چکا تھا ، تب ہی انہوں نے اپنے نبی سے ایسے بادشاہ کا مطالبہ کیا جس کے ساتھ وہ اللہ کی راہ میں قتال کریں ۔ پھر ایسا شخص جہاد کو چھوڑ جائے، اور اس حق کے لیے نہ کھڑا ہو جسے وہ حق جانتا ہے، اور اس باطل کا مقابلہ نہ کرے جسے وہ باطل جانتا ہے، یہ شخص یقیناً ظالموں میں سے ہے جسے اپنے ظلم کی جزا ملے گی۔اور اللہ ظالموں سے خوب واقف ہے۔“

اہل ایمان کی تحریض

امام ابن کثیر فرماتے ہیں:

”لیکن پار کرتے ہوئے ان اہلِ ایمان نے کہا:

”ہم میں جالوت اور اس کے لشکر سے لڑنے کی طاقت نہیں“۔

یعنی اپنے دشمن کی کثرت دیکھ کر اپنے آپ کو کمزور جانا اور دشمن کے مقابلے سے ہٹنے لگے۔ تب ان کے علماء نے انہیں تحریض دلائی۔ وہ جو جانتے ہیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ کیونکہ فتح و نصرت تو اللہ کی دین ہے، کثرتِ تعداد اور کثرتِ اسلحہ کے مرہونِ منت نہیں۔ اس لیے انہوں نے فرمایا: جو لوگ یقین رکھتے تھے کہ ان کو خدا کے روبرو حاضر ہونا ہے وہ کہنے لگے کہ: بارہا تھوڑی سی جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر غلبہ حاصل کیا ہے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“

(تفسیر ابن کثیر، 1؍668)

ایمانی تربیت اور آزمائش

آگے فرماتے ہیں:

”اگرچہ عہد شکنی، وعدہ خلافی اور آدھے راستے میں ساتھ چھوڑنا بنی اسرائیل کے ساتھ ایک جڑی خاصیت تھی، لیکن یہ رویہ بہر حال ایک انسانی رویہ بھی ہے۔ ہر اس جماعت میں جس کی ایمانی تربیت ایک اونچی سطح تک نہیں بلند ہوئی، قیادت کو اس رویہ کا سامنا ہر زمانے میں ہو سکتا ہے، لہٰذا بنی اسرائیل کے تجربے سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔“

مزید فرماتے ہیں:

”انسان پر طاری ہونے والے جذبات کا امتحان صرف پہلی آزمائش تک محدود نہیں رہتا۔ بلکہ یہ بار بار لیا جاتاہے۔ بنی اسرائیل کی اکثریت تو اسی وقت پیچھے ہٹ گئی جب ان کے مطالبے کے مطابق ان پر قتال فرض کر دیا گیا۔ اور ایک چھوٹا گروہ ہی نبی کے ساتھ کیے گئے وعدہ پر قائم رہا۔ یہ وہ افراد تھے جو طالوت کی بادشاہی اور قیادت پر اعتراض اور بحث مباحثے کے بعد بھی ان کے ساتھ لشکر میں نکل پڑے۔ لیکن پھر اس لشکر کی اکثریت بھی پہلے مرحلے میں نا کام ہو گئی جب حضرت طالوت نے ان کے صبر اور ثابت قدمی کو آزمانے کے لیے دریا سے پانی نہ پینے کا امتحان لیا۔ پھر اس آزمائش میں کامیاب ہونے والا مختصر گروہ بھی آخر تک ثابت قدم نہ رہا۔ بلکہ دہشت اور رعب کے منظر کے سامنے، جب دشمن کی کثر ت اور قوت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، اس وقت بہت سوں کا عزم اور ارادہ ٹوٹ گیا، اور دلوں میں لرزہ پیدا ہوا، اس کم ہمتی کے مقابلے میں صرف چنیدہ چھوٹی سی ٹولی ہی بچ سکی، جس نے اللہ پر بھروسہ کیا اور کہا:

كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ

”بارہا تھوڑی سی جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر غلبہ حاصل کیا ہے۔“

اسی تھوڑی سی جماعت نے جنگ کا پلڑا بدلا۔ اسے فتح نصیب ہوئی۔ اور عزت و تمکین کی حقدار ٹھہری۔“

آگے فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ اس یقین کی ضرورت قیادت کو ہوتی ہے:

”اہم بات یہ ہے کہ قیادت دیکھ رہی تھی کہ لڑنے والوں کی تعداد ہر آزمائش کے بعد کم سے کم ہوتی جا رہی ہے، لیکن ہمت نہ ہاری۔ آخر میں طالوت کے ساتھ مختصر سی جماعت ہی ثابت قدم رہی ۔ لیکن ان کے خالص ایمان کی قوت پر یقین رکھتے ہوئے اور اہل ایمان کے لیے اللہ کے وعدے کو حق مانتے ہوئے طالوت ان کو لے کر جنگ میں کود پڑا۔“

قوتوں کا موازنہ

سید قطب  سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں ایک جگہ فرماتے ہیں:

”ایک مسلمان کے لیے انسانی قوتیں دو قسم کی ہو سکتی ہیں۔ ایک ہدایت یافتہ، اللہ پر ایمان لانے والی اور منہجِ ربانی کی پیروی کرنے والی قوت۔مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس قوت کی تائید کرے اور خیر، حق اور بھلائی کے کاموں میں اس کے ساتھ تعاون کرے۔

دوسری قوت گمراہ قوت ہے، جو نہ اللہ سے جڑتی ہے نہ اللہ تعالیٰ کے منہج کی پیروی کرتی ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس قوت کا مقابلہ کرے، اس سے جنگ کرے اور اس پر حملہ آور ہو۔

مسلمان کو نہیں ڈرنا چاہیے کہ یہ گمراہ طاقت بہت بڑی اور ظالم ہے۔ کیونکہ یہ قوت اپنے اوّلین مصدر، یعنی اللہ کی قوت، سے بھٹکنے کے سبب اپنی حقیقی قوت کھو بیٹھتی ہے۔ یہ قوت اس دائمی غذا سے محروم رہتی ہے جو کسی بھی طاقت کو محفوظ رکھنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے اجرامِ فلکی میں دہکتے ہوئے سیارے سے ایک بڑا جسم ٹوٹ کر علیحدہ ہو جاتا ہے۔ لیکن کچھ ہی دیر میں ٹھنڈا پڑ کر بجھ بھی جاتا ہے۔ اس کی روشنی مدھم اور تپش ختم ہو جاتی ہے۔ چاہے اس ٹوٹے جسم کا حجم خود کتنا بڑا ہو۔ اور اس کے بر عکس ایک چھوٹے سے ذرے میں قوت، حرارت اور روشنی اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک وہ اپنے اصل منبع سے جڑا رہے۔

كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ

”بارہا تھوڑی سی جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر غلبہ حاصل کیا ہے۔“

اس چھوٹے گروہ کا غلبہ قوت و طاقت کے اوّلین مصدر سے جڑنے کے سبب ہے، وہ سرچشمہ جس سے وہ قوت اور عزت دونوں حاصل کرتا ہے۔“ (فی ظلال القرآن، 1؍25)

جبکہ سورۂ بقرہ کی آیات کی تفسیر میں فرمایا:

”یہ اصول کہ: مومن گروہ تھوڑا ہو۔ یہ اس لیے ہے کہ یہی گروہ وہ مشکل اقدام اٹھانے کے لیے آگے بڑھتا ہے جس سے وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب اور پسندیدہ مرتبے تک پہنچ جاتا ہے۔ اس قلت کے باوجود یہی گروہ غالب ہوتا ہے کیونکہ وہ قوت کے منبع سے جڑ کر کائنات میں غالب قوت کی نمائندگی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قوت جو سب پر غالب ہے، اپنے بندوں پر قاہر ہے، جابروں کی کمر توڑ ڈالتا ہے، ظالموں کو رسوا کر دیتا ہے۔“

اللہ سے تعلق کا کمال

اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کے سبب زاویۂ نظر میں عظیم فرق آنے کے بارے میں فرماتے ہیں:

”جو دل اللہ سے جڑا ہو اس کے پیمانے اور تصورات ہی بدل جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ در پیش چھوٹی اور محدود حالت کو ایسی آنکھ سے دیکھتا ہے جو اس حالت کے پیچھے بڑی اور لامحدود حالت سے جڑی ہوتی ہے۔ یہ چھوٹا سا مومن گروہ جو ثابت قدم رہا اور معرکہ میں کود پڑا۔ پھر اسے فتح بھی نصیب ہوئی۔ اپنی قلتِ تعداد اور دشمن کی کثرت کواسی طرح دیکھ رہا تھا جیسے کہ دوسرا گروہ جس نے کہا : آج جالوت اور اس کے لشکر کے سامنے ہمیں طاقت نہیں،لیکن اس چھوٹے گروہ نے اس صورت حال پر وہ حکم نہیں لاگو کیا جو بڑے گروہ نے لاگو کیا، بلکہ علیحدہ موقف اختیار کیا، یہ کہتے ہوئے کہ :

كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ

”بارہا تھوڑی سی جماعت نے خدا کے حکم سے بڑی جماعت پر غلبہ حاصل کیا ہے۔“

پھر فوراً اپنے رب کی طرف دستِ دعا بلند کیے اور کہا:

رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ

”اے پروردگار ہم پر صبر کے دہانے کھول دے اور ہمیں (لڑائی میں) ثابت قدم رکھ اور (لشکر)کفار پر فتحیاب کر۔“

اس گروہ کو یقین تھا کہ قوت کا ترازو کافروں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ بلکہ صرف اور صرف اللہ جل جلالہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے اللہ سے ہی فتح و نصرت طلب کی۔ اور اسی ذات سے اسے فتح و نصرت نصیب ہوئی جو فتح و نصرت کی مالک تھی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچے لگاؤ سے حقائق کے تصورات اور پیمانے بدل جاتے ہیں۔ تب ہی جاکر درست ایمان دل میں گھر کر جاتا ہے۔ اور اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ دلوں کو واضح نظر آنے والے الٰہی وعدے کی بناپر جو برتاؤ کیا جائے گا وہ زیادہ حقیقی ہوگا۔ بنسبت آنکھوں کو نظر آنے والی عارضی حالت کے بنا پر اٹھائے جانے والے اقدامات کے۔“ (فی ظلال القرآن، 1؍261-263)

”اس وقت داؤد ﷤ بنی اسرائیل کے ایک نو جوان لڑکے تھے، جبکہ جالوت ایک طاقتور بادشاہ اور خوفناک قائد تھا۔ لیکن اللہ نے چاہا کہ وہ قوم کو دکھا دے کہ واقعات اپنے ظاہر کے مطابق نہیں بلکہ حقیقت کی بنا پر واقع ہوتے ہیں۔ اور حقیقت کو وہی اللہ جانتا ہے۔ اور حقائق کے تمام اندازے اس کی قدرت میں ہیں۔ ان پر تو صرف یہ فرض تھا کہ وہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے، اور اللہ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرتے۔ اس کے بعد وہ ہونا تھا اور اسی طرح ہونا تھا جو اللہ کو منظور تھا۔ اللہ تعالیٰ کو منظور تھا کہ اس جابر متکبر کی ہلاکت اس چھوٹے لڑکے کے ہاتھوں ہو، تاکہ لوگ جان جائیں کہ وہ جابر صاحبِ سطوت جن سے وہ ڈرتے ہیں در حقیقت انتہائی کمزور ہیں۔ اتنے کمزور ہیں کہ چھوٹے نواجوان بھی ان پر غلبہ حاصل کر لیتے ہیں، جب اللہ چاہے کہ وہ ہلاک ہو جائیں۔“

……

اور ہمیں اپنے رب کے وعدے پر یقین ہے۔ آج نہیں تو کل…… اور کل جو ہو گا جیسے آج ہو چکا۔ اب ہر کوئی دیکھ لے وہ ایمان کے کس درجے پر کھڑا ہے اور لشکرِ اسلام کے کس حصے میں شامل ہے۔ ہم وہی کہتے ہیں جو ان مومنین نے کہا:

”اے پروردگار ہم پر صبر کے دہانے کھول دے اور ہمیں (لڑائی میں) ثابت قدم رکھ اور (لشکر)کفار پر فتحیاب کر ۔“

٭٭٭٭٭


1 فلستیہ سے مراد 1200 سال قبلِ مسیح کی مشرک قوم ہے۔ اگرچہ یہ قوم 600 سال قبلِ مسیح بخت نصر کے حملے میں ختم ہو گئی لیکن اس علاقے کو بعد کے ادوار میں فلسطین سے یاد کیا جاتا رہا۔ خیال رہے کہ آج کل کے فلسطینیوں کا مذکورہ قوم سے کوئی تعلق نہیں۔

2 ہم نے ان آیات کی تفسیر کا یہاں باختصار و تصرف ترجمہ کیا ہے۔ (فی ظلال القرآن، 1؍260-270)

Previous Post

نوائے فلسطین

Next Post

خونی چاند ، اسرائیل اور مسلمان

Related Posts

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

کوئی غنڈہ اپنے بل پر غنڈہ نہیں ہوتا

13 اگست 2025
غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!
طوفان الأقصی

غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!

13 اگست 2025
مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!

13 اگست 2025
فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت
طوفان الأقصی

فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت

13 اگست 2025
اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل
طوفان الأقصی

اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل

13 اگست 2025
طوفان الأقصی

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان – مراکش

12 اگست 2025
Next Post
خونی چاند ، اسرائیل اور مسلمان

خونی چاند ، اسرائیل اور مسلمان

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version