الشیخ المجاہد احسن عزیز شہید رحمۃ اللہ علیہ کی آج سے بیس سال قبل تصنیف کردہ نابغہ تحریر ’ اجنبی ___ کل اور آج ‘، آنکھوں کو رلاتی، دلوں کو نرماتی، گرماتی ، آسان و سہل انداز میں فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین سمجھانے کا ذریعہ ہے۔ جو فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین( گھر تا ایوانِ حکومت) کا منہج سمجھ جائیں تو یہ تحریر ان کو اس راہ میں جتے رہنے اور ڈٹے رہنے کا عزم عطا کرتی ہے، یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہادت ان کو اپنے آغوش میں لے لے(اللھم ارزقنا شہادۃ في سبیلك واجعل موتنا في بلد رسولك صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ!)۔ ایمان کو جِلا بخشتی یہ تحریر مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں قسط وار شائع کی جا رہی ہے۔(ادارہ)
دل جس کا ہوا، جان بھی وہ لے کے رہے گا!
لیکن جب ہم نے دعوت الی اللہ اور اس کے تقاضوں کو بھلا دیا،غیروں کے تصورات ومعیارات کو اپنا لیا،ان کی اقدار کو قبول کر لیا،اسلام کے ذریعے عزت حاصل کرنے کے بجایے دنیا وی ترقیات کا غم دلوں میں بسا لیا تو اس کے نتیجے میں دلوں کے ساتھ ساتھ ہماری زمینوں اور جسموں پر بھی ان کی حکمرانی ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ ہمیں ہماری اصل بیماریوں اور اس کے نتائج کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں:
’’یُوْشِکُ الْاُمَمُ اَنْ تَدَاعَي عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَي الْاَکَلَۃُ اِلٰی قَصْعَتِھَا۔ فَقَالَ قَائِلٌ وَ مِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ؟ قَالَ بَلْ اَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْرٌ وَلٰکِنَّکُمْ غُثَائٌ کَغُثَائِ السَّیْلِ وَلَیَنْزِعَنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّکُمُ الْمَھَابَۃَ مِنْکُمْ وَلَیَقْذِفَنَّ اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِکُمُ الْوَھْنَ۔ فَقَالَ قَائِلٌ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ مَا الْوَھْنُ؟ قَالَ حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ۔‘‘
(سنن ابي داود،کتاب الملاحم، باب في تداعي الأمم علی الاسلام)
’’قریب ہے کہ کفر کی امتیں تمہارے خلاف جنگ کرنے کے لیے ایک دو سرے کو اس طرح دعوت دے کر بلائیں گی جس طرح بھوکے ایک دو سرے کو د ستر خوان پر دعوت دے کر بلاتے ہیں۔ اس پر ایک پوچھنے والے نے پوچھا کہ کیا اس وقت ایسا ہماری قلتِ تعداد کی و جہ سے ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا بلکہ اس وقت تو تم زیادہ تعداد میں ہوگے لیکن تم سیلابی پانی کے میل کچیل (اور جھاگ) کی طرح ہو گے ۔ اور ا للہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے د لوں سے ضرور ہی تمہاری ہیبت ختم کر دیں گے اور تمہارے دلوں میں وہن (کمزوری) ڈال دیں گے‘‘ توپوچھنے والے نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!یہ وہن کیا ہے؟ فرمایا ’’دنیاکی محبت اور موت کی کراہت‘‘۔
ایک اور روایت میں ’’موت کی کراہت ‘‘کی جگہ قتال کی کراہت کے الفاظ مذکور ہیں۔لہٰذا پتہ چلا کہ ہماری کمزوری کا سبب دنیا کی محبت اور جہاد سے نفرت ہے۔یہ کمزوری دشمنوں کے دلوں سے ہماری ہیبت نکلوا دیتی ہے ۔اور جب ہیبت نکل جایے تو پھر کفارکے لیے ہم پر ٹوٹ پڑنا آسان ہی نہیں بلکہ ’’ضروری‘‘ ہو جاتا ہے ،کیونکہ اندھیرے کی بقا کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ روشنی اور اس کے منبعوں پر یلغارکر دے۔
ہمارے انھی رویوں اور اس کے نتائج کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ارشادات بھی فرمایے ہیں:
’’اِذَا تَبَایَعْتُمْ بِالْعِیْنَۃِ وَاَخَذْتُمْ اَذْنَابَ الْبَقَرِ وَرَضِیْتُمْ بَالزَّرْعِ وَ تَرَکْتُمُ الْجِہَادَ سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ ذُلًّا لَا یَنْزِعُہٗ حَتّٰی تَرْجِعُوْا اِلٰی دِیْنِکُمْ‘‘ (سنن ابي داود، کتاب البیوع)
’’جب تم عینہ کے مطابق (سودی) سودے کرنے لگوگے اور گایے بیلوں کی دمیں پکڑ لوگے، زراعت ا ور باغبانی(کی زندگی پر)پر مطمئن ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کردے گا جو اس وقت تک وہ نہیں ہٹایے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف واپس پلٹ نہ آؤ۔‘‘
کیا ہمارے یہی رویے ((وَسَیَعُوْدُ غَرِیْبًا)) ’’ عنقریب یہ( اسلام )پھرسے اجنبی ہو جایے گا‘‘کی عملی شرح نہیں ہیں؟کیا زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ذلت کے مسلط ہونے کی جو خبر دی گئی ہے ،ہماری موجودہ حالت کی اس کے علاوہ بھی کوئی تعبیر کی جا سکتی ہے؟
پھر وہی غربتِ اسلام کا زمانہ ہے
اسلام کی غربت اور اپنی درماندگی و ذلت کو جانچنا،پرکھنا آج کیا مشکل ہے؟دور کیوں جائیے___ آئینہ دیکھیے، اپنی گھڑی کی طرف دیکھیے، اپنی مصروفیات اور ترجیحات کا میزانیہ بناییے، اپنی نمازیں، قرآن کی تلاوت و تعلیم، سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کے اتباع کی حرص اور روز مرّہ کے مسائل میں شریعت سے رجوع کا جائزہ لیجیے۔پھراپنے آرام کدوں میں بھی جھانکیے، گھر کے دالان میں نشریاتی رابطوں پر کیا نشر ہورہا ہے؟ سب اہلِ خانہ مل کر کیا دیکھ اور سن رہے ہیں؟ تہذیب ِکفرجو کچھ ہمیں سنا اور دکھا رہی ہے کیا وہ سبھی حرام و حلال کی تمیز کے بغیر کانوں میں اترتا اور آنکھوں میں ڈھلتا تو نہیں جا رہا ؟ میز پر پڑے رسائل و جرائد میں چھپے نقوش اور تحریروں کو سمجھیے،نئی نسل کے اندازو اطوار کاتجزیہ کیجیے ،اپنے بچوں کی نصابی کتابوں کا تجزیہ کیجیے، اپنی بچیوں کے لباس کو جانچے، محلے کے جوانوں کی مصروفیات ،ان کے مستقبل کی ترجیحات کو دیکھیے ، بستی کی آبادی اور پھر مسجد میں نمازیوں کے تناسب کا شمار کیجیے، زکوٰۃ ادا کرنے والوں ، وراثت کی شرعی تقسیم کرنے والوں کا(بشمول دیندار کہلانے والوں کے) تناسب نکالیے، چوپالوں کے مشاغل اور موضوعاتِ گفتگو سنیے، بینک کھاتوں اور سکیموں کی نوعیت کو سمجھیے، سُود سے بچنے والوں کی گنتی کیجیے ۔ بسنت، نوروز، کرسمس میں اہلِ اسلام کا رنگ دیکھیے۔عدالتوں میں نافذ قوانین کو پڑھیے، بلادِ اسلام کے اہلِ تخت و تاج پر نگاہ ڈالیے ، پارلیمان میں پاس ہونے والے بلوں کا جائزہ لیجیے، این جی اوز کے لائحۂ عمل اور ان کے اثرات دیکھیے ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی آمدنیوں کا سرسری اندازہ لگائیے ۔ پھر فلپائن اور گجرات کے مسلمانوں کی حالت پر نظر ڈالیے، شیشان کی بستیوں کاخیال کیجیے، بغداد کے ہسپتالوں،فلوجہ کی مسجدوں، فلسطین کے بچوں، کشمیر کی ماؤں کا سوچیے، افغانستان کی شاہراہوں، دشتِ لیلیٰ،باگرام، گوانتانامواور ابوغریب سے گزریے ،بوسنیا کے وہ بیس ہزار بچے ،جنھیں صلیبی اپنا ہم مذہب بنانے کے لیے پورے مشرقی اور مغربی یورپ میں بکھیر چکے ___ ان کا تصور کیجیے۔ ڈیزی کٹر(بم)، ٹام ہاک(میزائیل) اور تابکاریورانیم ملے گولوں کے اہداف اور عالمِ اسلام کی سمندری حدود پر لنگر انداز بحری بیڑوں کے گھیراؤ کو دیکھیے۔ تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، شیشان، ترکی،پاکستان، لبنان، فلسطین، اردن، الجزائر، مصر، یمن، کویت، قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات ، عراق ،افغانستان، انڈونیشیا میں قائم صلیبی صہیونی فوجی اڈوں کو دیکھیے، قبلۂ اوّل کی چوکھٹ پر لگے جھنڈے کوپہچانیے، بیتِ کعبہ___ جی ہاں بیتِ کعبہ جہاں آپ ہر سال لبیک اللّٰھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک کہتے ہوئے جاتے ہیں___ اس کے نواح و عقب میں ’نحن شرکاء لہٗ‘ کا نعرہ بلند کرنے والے، دنیا کو فساد سے بھرنے والے فرعونیوں کے اڈّوں اور ان میں کھڑے جہازوں اور عظیم تر اسرائیل کے نقشوں کو لیکن ___مت دیکھیے کیونکہ آنکھیں آپ سے حساب مانگیں گی___ اور مشکل پیش آجائے گی___
اتنا پانی کہاں تھا قلزم میں
بہہ رہا ہے جو خونِ دل ہے مرا
یہ سب منظر دیکھ کرخود فیصلہ کیجیے کہ آج اسلام اجنبی،انجان،پردیسی اور نا مانوس ہے یا نہیں!
پرکھوں سے وہ نسخۂ شفا کیوں نہیں لیتے؟
سوال یہ ہے کہ ایسے میں نجا ت کا راستہ کیا ہے ؟کن لوگوں کے لیے ہے؟ فرمایا کہ (( فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ)) ’’بھلائی (اور سعادت) اجنبیوں کے لیے ہے‘‘۔ اور کہا جا رہا ہے کہ ((……حَتّٰی تَرْجِعُوْا اِلٰی دِیْنِکُمْ))’’……یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف واپس پلٹ آؤ‘‘۔یعنی بتا یا جا رہا ہے کہ جس راستے پر پہلے(والے) تھے ،اُس کی طرف لوٹ آنا۔جیسے وہؓ تھے ویسے ہو جانے کی کوشش کرناتاکہ تمہیں بھی یہ بشارت مل جایے۔ ظاہر و باطن میں،سوچ اور فکر میں، ترقی کے تصور اور فلاح کے عقائد میں،حقوق اللہ اور حقوق العباد میں، اولیاء اللہ کی ولایت اور اعداء اللہ کی عداوت میں،کفرو فسق اور گناہوں سے کراہت اور زینتِ ایمان کی محبت میں___موت کی یاد اور آخرت کی تیاری میں،اندازواطوار، پسندو ناپسند،محبت و نفرت،معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست میں ___تقویٰ، خشیت، انابت الی اللہ کی تڑپ اور جہاد فی سبیل اللہ___ ان سب میں اُن کی مثال سامنے رکھنا! دنیا کے دھوکے میں مت آنا ،اللہ ہی کی طرف بلانا،اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر ،جب وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہاری زندگی ہے، تو دیر مت کرنا،جہاد کو اسی طرح فرض جاننا جیسے یہ ﯚکُتِبَ عَلَیْکُمْ……ﯙکے الفاظ میں نازل ہوا ہے۔ لیکن دیکھو اگر تم یہ سب کچھ کرو گے تو تمہیں ہاتھوں ہاتھ نہیں لیا جایے گا،بلکہ تم’’غرباء‘‘___ غیرمانوس اور انجان بن جاؤ گے،جیسے پہلے والے بن گئے تھے۔ اگر تم ایسے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا کیے بغیر ___ دنیا والوں کے چلن سے بچ گئے اور اللہ والوں کی راہ اختیار کر گئے تو تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانِ مبارک سے ابدی خوشحالی کا پروانہ ( فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ) مل جائے گا۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ جب آپ نے اجنبیوں کے لیے خیر و سعادت کی بشارت سنائی تو لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجنبی کون ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ((اَلنُّزَّاعُ مِنَ الْقَبَائِلِ )) (احمد، مسند عبداللّٰہ بن مسعودؓ ) ’’اپنے قبیلوں سے (دین کی خاطر) نکل کھڑے ہونے والے لوگ‘‘۔
مُسند ِ احمد کی ایک اور روایت کے مطابق، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے ،آپؐ نے فرمایا:
(( طُوْبٰی لِلْغُرَبَائِ))۔فَقِیْلَ:مَنِ الْغُرَبَاءُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ قَالَ ((اُنَاسٌ صَالِحُوْنَ فِیْ اُنَاسٍ سُوْئٍ کَثِیْرٍ مَنْ یَّعْصِیْھِمْ اَکْثَرُ مِمَّنْ یُّطِیْعُھُمْ۔))
(احمد، مسند عبداللّٰہ بن عمرو بن العاصؓ)
’’خوشخبری ہے اجنبیوں کے لیے ‘‘ تو پوچھا گیا ،کون اجنبی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ فرمایا ’’برے لوگوں کی کثرت میں (گھِرے ہوئے) نیک لوگ۔جو اُن کی نافرمانی کریں گے، وہ ان کا کہنا ماننے والوں کے مقابلے میں زیادہ ہوں گے‘‘۔
اسلام کی اجنبیت کے اس دورمیں اجنبیوں کا راستہ ___ نسخۂ شفا یہی ہے ۔بدی کے سمندر سے اپنے آپ کو بچا نکالنا ،اور بروں کی پروا کیے بغیر نیکی اور اصلاح کو اپنا شعار بنا لینا،اور دورِ اولین کے غرباء کی طرح اپنے دین کی جانب واپس پلٹ آنا ہی بڑی کامیابی ہے۔لیکن ظاہر ہے کہ خزاں کے موسم میں بہار کا رنگ تواسی وقت جم سکتا ہے جب ا وّل تو خزاں کو خزاں کہا جائے اور پھر اس اعتراف کے ساتھ قافلۂ بہار کے ان پھولوں کا سا رنگ و بو اختیار کر لیا جائے جنؓ کا ایمان بھی معتبر:
ﯚ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْاﯙ (البقرۃ:۱۳۷)
’’پس اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں۔‘‘
اور جنؓ کا عمل بھی اسوہ ہے :
ﯚوَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِوَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُﯙ(التوبۃ: ۱۰۰)
’’اور جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے) پہلے (ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی ا ور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ(قیامت تک) ان کے پیروہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا ا ور وہ سب اس سے راضی ہوئے۔‘‘
پس صحابہؓ کے اسوے کی پیروی میں اللہ کی رضا ہے ۔ اسی میں ہماری دنیاو آخرت کی بھلائی اور نجات ہے،اور یہی مطلب ہے دین کی طرف پلٹ کر آنے کا۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭