نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home طوفان الأقصی

دو ریاستی حل

تمیم البرغوثی by تمیم البرغوثی
10 نومبر 2023
in طوفان الأقصی, اکتوبر و نومبر 2023
0

[’دو ریاستی حل‘ یعنی ’فلسطین اور اسرائیل؛ دو الگ ریاستوں کا قیام‘…… اسے عالمی طاقتوں اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے ’فلسطین اسرائیل مسئلے‘ کے حل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان ریاستوں کی حدود کے حوالے سے کوئی اتفاق نہیں، لیکن اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کی قراردادوں کے مطابق فلسطین کی حدود ۱۹۶۷ء کی جنگ سے ماقبل کی ہوں گی۔ اسی کی حمایت موجودہ اکثر مسلم ممالک کے حکمران بھی کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہودیوں نے پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد مسلمانوں کا جو علاقہ بزور قبضہ کرلیا ہے، اس پر اسرائیل کی عملداری کو تسلیم کرلیا جائے۔ اگرچہ خود اسرائیل اس حل پر راضی نہیں، لیکن کیا یہ حل مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا شرعی جواب تو یقیناً نفی میں ہے اور ایک چپہ بھر زمین جس پر کبھی مسلمانوں کا قبضہ رہا ہو، اسے کافروں کے قبضے میں چھوڑ دینے کی شریعت اجازت نہیں دیتی، جیسا کہ علمائے کرام کے فتاویٰ موجود ہیں۔ شرعی نقطۂ نظر کے علاوہ اگر ہم محض عقلی اور معاشرتی وسیاسی بنیادوں پر اس حل کا جائزہ لیں تو بھی یہ ایک ناکام حل ہے۔ زیرِ نظر تحریر میں ڈاکٹر تمیم البرغوثی نے اسی پہلو سےاس پر بات کی ہے۔ فلسطینی الاصل ڈاکٹر تمیم البرغوثی معروف ادیب اور انقلابی شاعر ہیں۔ استبداد مخالفت اور انقلاب حمایت آپ کی ادبیات اور اشعار کا خاصہ ہے۔ یہاں ’دو ریاستی حل‘ کی بابت آپ کی ایک تقریر کا اردو ترجمہ نشر کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)]

اگر آپ کسی کو جون ۱۹۶۷ء سے قبل کی حدود پر ’فلسطینی ریاست‘ کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے سنیں، جس کا دار الحکومت مشرقی یروشلم ہو، اور اس بنیاد پر اسرائیل کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے کی بات سنیں، تو اس بات سے اتفاق کرنے سے قبل آپ نے جو سنا ہے، اس کے بارے میں تھوڑا سا سوچیں۔ حتیٰ کہ اس کے الفاظ پر بھی نظر ڈالیں، سنیں اور غور کریں۔

یہ ایک ایسی ریاست کے بارے میں بات ہے جس کی سرحدیں اڑتالیس(۱۹۴۸ء) کی جنگ اور سڑسٹھ(۱۹۶۷ء) کی جنگ نے کھینچیں۔ پہلی جنگ کی جنگ بندی لائن نے نقشہ تیار کیا اور دوسری جنگ کے نتیجے میں آپ کے حکمرانوں سے اسے قبول کرلیا۔ گویا یہ وہ ریاست ہے جس کی سرحدیں آپ کے لیے دو شکستوں نے کھینچی ہیں۔ یہ ریاست آپ کو ان دونوں کے درمیان تبادلہ کی دعوت دیتی ہے؛ اپنی پہلی شکست کو قبول کریں تاکہ ہم آپ کو دوسری شکست سے نجات دلائیں۔ یہ ایک ایسی ریاست ہے جسے آپ کے دشمن نے اپنے ہتھیاروں سے دوبار آپ کے لیے ڈیزائن کیا ہے، جیسا کہ ایک مجسمہ ساز کرتا ہےاور مٹی کے برتن بنانے والا کرتا ہے۔ لیکن یہاں تو معاملہ اور بھی برا ہے کہ آپ کے لیے ایسی ریاست ہے جس کی سرحدیں خود ہزیمتیں ہیں۔

(شکست کے) دھچکے سے ایک دن قبل کی سرحد پر فلسطینی ریاست کا قیام اس بات کا ضامن ہے کہ دھچکا ہمیشہ رہے گا۔ یہ ایک ایسی ریاست ہوگی جو عسکری طور پر غیر محفوظ، اقتصادی طور پر اسرائیل پر منحصر ہوگی۔ اس کا جو بھی حاکم ہوگا، وہ مجبور ہوگا کہ (اسرائیلی) قبضے کا قائم مقام ہو، اسی کی جگہ لے اور وہی کرے جو کہ اسرائیلی قبضہ کرتا۔ یا تو وہ یہ کرے گا، اور اگر نہیں کرے گا تو پھر وہ سقوط سے دوچار ہوجائے گا۔ اگر آپ کو اس بات میں شک ہے تو نقشہ دیکھ لیں۔

نظری طور پر یہ ریاست مغربی کنارے اور غزہ کے دو علاقوں پر قائم ہوگی۔ مغربی کنارہ اس کا سب سے بڑا خطہ ہوگا اور اس ریاست کی سیاسی اور اقتصادی بنیاد بھی۔ اس وجہ سے اس ریاست کے مفاد میں ہوگا کہ وہ اسرائیل کو مشرقی جانب سے ممکنہ ہر حملے سے بچائے۔ جبکہ اسرائیل چاہے گا کہ جھڑپیں جاری رہیں، اور (اسرائیلی جھڑپوں کے جواب میں) مغربی کنارے کی پہاڑیوں میں فلسطینی ریاست کی زمین پر حملہ ہوگا، نہ کہ اس تنگ ساحلی پٹی پر جہاں اسرائیل نے سن اڑتالیس میں قبضہ کرلیا تھا اور جہاں عبرانی ریاست کی طرف ہجرت کرنے والوں کی اکثریت آباد ہے۔

ہم میں سے بہت سے لوگ نہیں جانتے ہوں گے، کیونکہ یہ کسی حد تک شرمناک معلومات ہیں، کہ بعض علاقوں میں اس پٹی کی مسافت مغربی کنارے کی پہاڑیوں سے بحرِ ابیض متوسط تک پندرہ کلو میٹر سے زیادہ نہیں ہے۔ یعنی دوستو! اگر آپ اسرائیل کے مشرق سے مغرب تک کا سفر کاٹنا چاہیں اور اپنے پیروں پر آہستہ آہستہ چلیں، تو تین گھنٹے سے بھی کم وقت میں سفر کاٹ لیں گے، اور اگر آپ اپنی گاڑی میں ہوں تو یہ سفر دس منٹ سے بھی کم میں طے کرلیں گے، اور اگر ہوائی جہازمیں ہوں تو بس اتنا وقت لگے گا جتنے میں جہاز کے پہیے ’رن وے‘ سے اٹھ جائیں۔

اسی وجہ سے وہ فلسطینی حکام جو مغربی کنارے پر قائم ہونے والی فلسطینی ریاست کی زمام سنبھالیں گے، وہ ہر ممکن کوشش کریں گے کہ ان کی ریاست اسرائیل کی حفاظت کے لیے ’بفرزون‘ کا کام کرتی رہے۔ وہ جانتے ہوں گے کہ اس کام میں ان کی ناکامی کا لازمی مطلب جواباً ان کی زمین پر اسرائیل کا حملہ ہوگا، اور جس سے ان کی حکومت بھی جائے گی، بلکہ شاید ان کی جانیں اور ان کے پیاروں کی جانیں بھی جائیں۔ چنانچہ ان حکام کی سیاسی مصلحت بلکہ ذاتی مصلحت ’اسرائیل کی حفاظت‘ ہوگی، نہ کہ اس کے لیے خطرہ بننا۔

پھر یہ فلسطینی ریاست نہ صرف عربوں اور اسرائیل کے درمیان بفر ہوگی، بلکہ یہ اپنے اور اپنی عوام کے درمیان بھی بفر ہوگی۔ (اس طرح کہ) اس کی نصف آبادی، مغربی کنارے کی ایک تہائی اور غزہ کی دو تہائی آبادی، ان پناہ گزینوں پر مشتمل ہوگی، جو اصل میں ’الجلیل‘ اور ’ساحل‘ کے لوگ ہیں (اور جنہیں یہود نے اپنے علاقوں سے بے دخل کردیا ہے)، پس اس ریاست کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اپنے علاقوں سے عبرانی ریاست پر ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کو روکیں۔ بصورتِ دیگر اسرائیل اپنی حفاظت کے لیے ایسی کارروائی کرے گا جس سے فلسطینی ریاست کا وجود ہی خطرے میں پڑجائے گا۔ پس یہ فلسطینی ریاست اپنی آدھی آبادی کے مقابلے میں، بلکہ اس امت میں سے جو بھی اسرائیل کے خلاف لڑنا چاہے، اس کے مقابلے میں اسرائیل کی حلیف ہوگی۔

اگر یہ کہا جائے کہ یہ ریاست مضبوط ہوسکتی ہے اور باقی فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے ایک پلیٹ فارم بن سکتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس ریاست کے قیام کی قیمت ہی اسرائیل کو اس بات کی ضمانت دینا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ فلسطین کی موجودہ ’خودمختار اتھارٹی‘ کے قیام کی شرط بھی اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون اور اس کے سامنے فلسطین کی عسکری قوت کا ہمیشہ منکشف رہنا ہے۔ تو پھر اس (مزعومہ) ریاست کے ساتھ ایسا معاملہ کیوں نہ ہوگا؟

اس ریاست کے پاس صرف پولیس کے ہتھیار ہوں گے جو اس کے اپنے لوگوں پر چلائے جائیں گے، اس کے علاوہ یہ ریاست غیر مسلح ہوگی۔ اور اگر مسلح ہوگئی تو گویا خود کو اپنے اوپر حملے کے لیے پیش کردے گی۔ اور اگر اسے مسلح ہونے کی جازت مل گئی تو اسے اسلحہ تیاری کا صنعتی اڈہ بنانے میں کتنی صدیاں لگیں گی، جو ایسا اسلحہ بنائے جو اسرائیل کے اسلحے کے مقابل نہیں، اس کے اسپانسر عالمی طاقتوں کے اسلحے کے مقابل ہو؟

اگر آپ کہیں کہ اسرائیل کا مقابلہ ہلکے ہتھاروں سے کیا جائے گا، گوریلا جنگ کی صورت میں، تو میں آپ سے کہوں گا کہ یہ موثر ہے اور ممکن ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہوگا کہ اس ریاست کے حکام، حکام سے ’فدائیوں‘ میں بدل جائیں اور محلات سے نکل کر غاروں میں جانے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اور یہ ہونا حکمرانوں میں ایک نادر چیز ہے۔ پھر اگر انھوں نے ایسا کرلیا تو اس کا مطلب ریاست کا خاتمہ اور واپس اس صورتحال کی طرف لوٹنا ہوگا جس میں اسرائیل کے ساتھ امن عمل سے پہلے تھے، یعنی اسرائیل کا قبضہ اور فلسطینی مزاحمت۔

اس ریاست کی اقتصاد بھی اسرائیل کے تابع ہوگی،جیسا کہ براہِ راست اسرائیلی قبضے کے دنوں میں ہے۔ تاجر اسرائیلی فیکٹریوں سے اشیاء خریدیں گے اور مغربی کنارے میں ان اسرائیلی مصنوعات کو فروخت کریں گے، اور فلسطینی مزدور گرین لائن سے پَرے (یعنی داخلِ اسرائیل میں) تعمیراتی کام کریں گے۔ پس اس فلسطینی ریاست کے مالدار اور غریب دونوں ہی اسرائیل کے محتاج ہوں گے۔ پھر اس فلسطینی ریاست کا انحصار ’بین الاقوامی امداد‘ پر ہوگا جو اسرائیل کے ساتھ امن قائم رکھنے کے ساتھ مشروط ہوگی۔

یہ ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ ان کی خوشحالی کا وعدہ کرے گی، اس شرط پر کہ وہ امن وامان سے رہیں، لیکن یہ وعدہ پورا نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ یہ ممکن نہیں کہ یہ ریاست ’جمہوری‘ ہو، کیونکہ اس کی نصف آبادی ساحل اور الجلیل سے تعلق رکھنے والے مہاجرین پر مشتمل ہوگی اور ریاست ان مہاجرین کی واپسی کے حق سے دستبرداری پر قائم ہوگی۔ پس اگر انہیں منصفانہ انتخابات کرانے کی اجازت دی گئی تو غالب امکان ہے کہ ایسی حکومت قائم ہوجائے جو امن معاہدوں کو منسوخ کردے، کہ جن پر ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔ پس ضروری ہوگا کہ یہ استبدادی ریاست ہو جس میں مؤثر منتخب ادارے نہ ہوں۔ اس کا مطلب ہوا کہ اس ریاست میں مالیات پر احتساب نہ ہوگا، کیونکہ منتخب نمائندوں کی پارلیمان اسی لیے وجود میں آتی ہے کہ حکومتی اخراجات پر نگرانی رکھی جائے۔ پس جب مالیات پر نگرانی نہ ہوئی تو کرپشن آسان ہوگی اور عام ہوگی۔ بین الاقوامی اسپانسرز کی طرف سے جو امداد موصول ہوگی، وہ محض چند حکام کے ہاتھ میں ہوگی، جس سے محکوم رعایا کی غربت اور بدحالی میں اضافہ ہوگا۔ پس نہ مہاجرین الجلیل اور ساحل کی اپنی زمینوں میں واپس جائیں گے، نہ انہیں سیاسی آزادی ملے گی اور نہ ہی اجتماعی رشوت کے ذریعے مال ودولت ان کے حصے میں آئے گی، حالانکہ وہ اس ریاست کے لیے اپنے ان تمام حقوق سے دستبردار ہوئے ہوں گے۔

اورجس طرح احتساب کی عدم موجودگی کے سبب ظلم واستبداد کرپشن کو راستہ دیتا ہے تو کرپشن آگے ظلم واستبداد میں مزید اضافہ کرتی ہے، تاکہ مظلوموں کے غضب وغصے سے چور لٹیرے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ پس یہ ریاست ایک ڈراؤنا خواب ہوگا، جیسا کہ عرب دنیا کی دیگر ریاستوں کا حال ہے۔عوام ہے جن کا پیسہ لوٹ لیا گیا، ان کی آواز بند کر دی گئی، یہ اپنے حکام کا انتخاب نہیں کرتے، حکام ان کا دفاع نہیں کرتے، بلکہ ان پر حملہ آوروں کی ان سے حفاظت کرتے ہیں۔ وہ حملہ آوروں کو آرام دینے کے لیے ان عوام کو تھکادیتے ہیں۔ پس اس حال اور براہِ راست اسرائیلی قبضے میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس جدید کو ’آزادی‘ کہا جائے گا اور اسی نام پر پائیدار ہوگا۔

’دو ریاستی حل‘ اپنے جوہر میں نسل پرستی کی تقدیس ہے۔ یہ حملہ آوروں کوزمین کا اسّی(۸۰) فیصد حصہ دیتا ہے جہاں ان کی مضبوط فوج ہو، ایٹمی ہتھیار ہوں اور آزاد معیشت ہو، جبکہ حملہ زدگان کو زمین کا بیس(۲۰) فیصد حصہ دیتا ہے جہاں نہ ان کے پاس اپنا اسلحہ ہو اور نہ ہی اموال۔ پھر یہ حل اسرائیل کو سمندر اور دریا کے درمیان موجود فلسطین کی نصف آبادی سے مطمئن کردیتا ہے۔ یہ حل نصف فلسطینی آبادی کو زمین کے پانچویں حصے میں محصور کردیتا ہے، اس کے بدلے کہ وہ جنگ میں غیرجانبدار رہیں اور باقی نصف آبادی کو تنہا چھوڑ دیں۔

یہ ’حل‘ ہے جسے آپ آج دیکھ رہے ہیں، جبکہ یہ اس کے بعد ہمیشہ ’وعدہ‘ ہی رہے گا۔ تاکہ یہ فلسطینیوں کو تقسیم کرے اور ان میں سے بعض کو بعض دوسروں کے مقابلے میں غلامی کی بہتر شرائط قبول کرنے پر بہکائے، یوں سب کو غلام بنالے۔

یہ ایسا ’حل‘ ہے جو فلسطینی عوام کی اکثریت، جو سمندر اور دریا کے درمیان جمع ہے، کو سیاسی اور عسکری فوائد سے عملاً محروم کردے،جس کے سبب ملک میں نسل پرستی کی بنیاد پر قائم (اسرائیلی) نظام کو گرانے کا گمان بھی مشکل ہوجائے۔

لیکن فاتح حملہ آور کو اکثر اس کی قوت گھمنڈ میں مبتلا کرتی ہے، اوراس کی لالچ اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ اگرچہ ’دو ریاستی حل‘ اسرائیل میں نسل پرست نظام کی بقا کی واحد ضمانت ہے، لیکن یکے بعد دیگرے اسرائیلی حکومتیں دائیں بازو کی طرف جھکیں، انتہا پسندوں اور ان آبادکاروں کی طرف مائل ہوئیں جومغربی کنارے کو بھی (اسرائیل میں) ضم کرنے کے خواہشمند ہیں۔ گویا اسرائیل چاہتا ہے کہ فلسطینی نیشنل اتھارٹی اس کی خدمت کرے، بغیر اس کے کہ اسے وہ وسائل دیے جائیں جن کی مدد سے وہ اسرائیل کی خدمت کرسکے۔ پس برائے نام آزادی عملی غلامی کی شرط ہے، جیسا کہ عملی غلامی برائے نام آزادی کی شرط ہے۔

پس جب اسرائیل ’دو ریاستی حل‘ کو قبول نہیں کرتا، اس لالچ میں کہ وہ مغربی کنارے کو بھی اپنے اندر ضم کرلے، جبکہ اسی وقت سمندر اور دریا کے درمیان بڑے پیمانے پر پھیلی فلسطینی آبادی سے بھی ڈرتا ہے، تو آج کی اسرائیلی قیادت کے ذہن میں وہی حل ابھرتا ہے جو کل ان کے اسلاف کے ذہن میں آیا تھا۔ یعنی ایک جدید ’نکبہ‘ (تباہی)…… مغربی کنارے سے فلسطینیوں کی بے دخلی، آہستہ آہستہ یا اچانک۔ اس کی تیاری میں اسرائیل فلسطینیوں کی غالب اکثریت کو زمین کے کم سے کم ممکنہ حصے میں محصور کررہا ہے، جہاں باقی آبادی کو بھی بعد میں ضم کردے۔ اور یہی ’صفقۃ القرن‘ (صدی کے سودے) کا جوہر تھا، اور یہی سبب تھا کہ یہودی بستیوں پر اسرائیلی قانون کا اطلاق کیا گیا اور انہیں اسرائیل کی سرزمین کا حصہ بنالیا گیا، اور اہلِ مقدس کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا، وغیرہ۔

میری نظر میں ’دو ریاستی حل‘ کا مفروضہ فلسطینی ریاست میں استبداد، کرپشن اور غلامی کو جنم دے گا، اور نسل پرست نظام اسرائیل میں دینی ونسلی بنیاد پر انسان کُشی کی کوشش کرے گا۔ یہ ایسا ’حل‘ ہے جو اسرائیل کی نسل پرست نظامِ حکومت کی زندگی کو طول دے گا۔ تاہم غاصبوں کا لالچ اور غرور انہیں اس ’حل‘ کا خون کرنے پر مجبور کریں گے، تاکہ وہ ایک اور ’نکبہ‘ (تباہی) کی طرف بڑھیں اور ایسی زمین کو حاصل کریں جو بسنے والوں کے بغیر ہو۔

لیکن مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ یہ لوگ تو کئی سال ہوگئے غزہ پر قبضہ نہیں کرسکے، اور اس سے قبل سیناء پر قبضہ نہیں کرسکے، نہ ہی بیروت، صور، صیدااور نہ ہی جنوبی لبنان کی سرحدی پٹی حاصل کرسکے۔ اور تکبر کرنے والا تو شکست ہی کھاتا ہے۔ دائیں بازو کی اسرائیلی حکومتیں اس جنگ میں ثابت قدمی سے شکست کی طرف بڑھ رہی ہیں، اور ہم فتح کی طرف بڑھ رہے ہیں، اگر ایک دوسرے کو تنہا نہ چھوڑیں۔ میرے والد کہا کرتے تھے:

(شعر کا ترجمہ) ’’انسان ایک خلا کو دو چھلانگوں سے پر نہیں کرتا، اور نہ ہی ہوا میں معلق رہتے ہوئے دو مرحلوں میں اسے عبور کرتا ہے۔‘‘

پس آدھی فتح کے بھیس میں حاصل ہوتی شکست سے بچیں۔ وہ شخص لالچی نہیں ہوتا جو اپنے اور دوسرے لوگوں کے درمیان مکمل مساوات کا خواہاں ہو، لیکن جو آدھاانسان ہونا قبول کرلے تو وہ مکمل کمینہ بن جاتا ہے۔ پس بے وقوف نہ بنیں۔ تاریخ کا صفحہ آپ کے سامنے ہے، اگر چاہیں تو ’آزاد‘ کے طور پر اس پر دستخط کریں اور چاہیں تو ’غلام‘ کے طور پر اس پر دستخط کریں، قلم آپ کے ہاتھ میں ہے۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

اب تمہاری باری ہے

Next Post

طوفان الاقصیٰ: عالمی میڈیا پر آراء کا جائزہ

Related Posts

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

کوئی غنڈہ اپنے بل پر غنڈہ نہیں ہوتا

13 اگست 2025
غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!
طوفان الأقصی

غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!

13 اگست 2025
مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!

13 اگست 2025
فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت
طوفان الأقصی

فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت

13 اگست 2025
اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل
طوفان الأقصی

اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل

13 اگست 2025
طوفان الأقصی

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان – مراکش

12 اگست 2025
Next Post
طوفان الاقصیٰ: عالمی میڈیا پر آراء کا جائزہ

طوفان الاقصیٰ: عالمی میڈیا پر آراء کا جائزہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version