۷ اکتوبر کی صبح کا سورج ناجائز ریاستِ اسرائیل کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن کر طلوع ہوا۔ حماس کی القسام بریگیڈ نے جس سبک رفتاری، حکمت عملی اور ترتیب سے مرحلہ وار حملہ کیا اس نے اسرائیلی حکومت، اس کے دفاعی نظام اور دنیا کی نمبر ون مانی جانے والی خفیہ ایجنسی کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا۔
پانچ ہزار راکٹوں کی ایک ساتھ برسات کے ساتھ ہی تین اطراف سے کیا جانے والا حملہ اس قدر پھرتی اور بہترین جنگی منصوبہ بندی سے کیا گیا کہ اسرائیل کی فوج IDF کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ حفاظتی باڑ میں نقب لگا کر اور بلڈوزر سے اسے توڑ کر، خود ساختہ پیرا گلائیڈرز کے ذریعہ سے اور سمندری راستے سے یک مشت حملہ کیا گیا۔ ۲۲ مقامات پر قبضہ کر کے کمین لگائی گئی اور اسرائیل کے اندر تباہی مچا دی گئی۔ ناصرف یہ بلکہ ۱۹۹ اسرائیلیوں کو یرغمال بنا کر واپس غزہ لے آئے اور ساتھ میں ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں بھی لے آئے۔
اسرائیل اس حملے سے اس قدر بوکھلا گیا کہ فوراً ہی اعلانِ جنگ کر ڈالا۔ ۸ اکتوبر سے جو بمباری شروع ہوئی وہ تاحال جاری ہے۔ غزہ میں تمام رسد، پانی، بجلی اور تیل کی بندش کے ساتھ ساتھ پورا انفرا سٹرکچر تباہ کر ڈالا ۔ اس حوالے سے بی بی سی کے ایک سکیورٹی نامہ نگار کی تحریر کا اقتباس ملاحظہ ہو:
حماس کا ’سرپرائز اٹیک‘: دفاعی صلاحیت میں سرفہرست اسرائیلی فوج فوری ردّ عمل دینے میں ناکام کیوں رہی؟ | گورڈن کوریرا
’’ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے چونکا دینے والی برق رفتاری اور حماس کے آپریشن کی وسعت نے اسرائیلی دفاعی نظام کو ناکام بنا دیا جو ایسے حملے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔
حماس کے حملے کا سب سے اہم پہلو ’سرپرائز‘ تھا یعنی اسرائیل کو اس کی بالکل خبر نہ تھی۔
اسرائیلی خفیہ اداروں کو حماس کی جانب سے اس حملے کی منصوبہ بندی کی بھنک بھی نہیں پڑ سکی۔ ایسا لگتا ہے کہ حماس نے طویل مدت تک دھوکے سے یہ تاثر دیا جیسا کہ وہ کسی قسم کا حملہ کرنے کی صلاحیت اور خواہش کھو بیٹھی ہے۔
اس کے علاوہ حماس نے اسرائیلی خفیہ اداروں سے یہ راز چھپانے کے لیے شاید اس حملے کے بارے میں منصوبہ بندی کے دوران پیغام رساں کے لیے الیکٹرانک آلات کا بھی استعمال نہیں کیا۔ اس کے بعد غیر معمولی برق رفتاری اور وسعت کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔
……طویل عرصے سے اسرائیلی فوج اور خفیہ ادارے مشرق وسطیٰ میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں دفاعی صلاحیت کے اعتبار سے اوّلین صف میں شامل کیے جاتے ہیں۔ لیکن شاید انہوں نے اپنے مد مقابل کی صلاحیت کا درست اندازہ نہیں لگایا۔
امریکہ میں اسرائیل پر ہونے والے حالیہ حملوں کا موازنہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حملوں سے کیا جا رہا ہے جب کوئی بھی یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہا کہ طیاروں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسے اکثر ’تصور کی ناکامی‘ کہا جاتا ہے۔
شاید ایسی ہی تصوراتی ناکامی اسرائیل کے مسائل کی وجہ بنی اور وہ اپنے دشمن کی جانب سے اتنے جرأت مندانہ منصوبے کے لیے تیار ہی نہ تھا۔‘‘
[بی بی سی اردو]
ناجائز ریاست اسرائیل نے ۷ اکتوبر کو ہونے والے حملے کو اسرائیل کا ’نائن الیون‘ کہا ہے۔ یہ بیان صاف اشارہ دیتا ہے کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔ جس طرح امریکہ نے نائن الیون کے بعد عراق و افغانستان میں لاکھوں لوگوں کو شہید کیا، اسی راستے پر اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر کے صرف ۶ دن میں ۶۰۰۰ بموں کی بارش کی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی یہ منافقت دنیا کو کیوں نظر نہیں آ رہی کہ ایک طرف روس اور یوکرین جنگ میں یوکرین کی ہمدردانہ حمایت کی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف ظالم وحشی درندوں کی دہائیوں سے جاری ظلم و استبداد سے آنکھیں پھیر کر ان کی اس طرح دادرسی کی جا رہی ہے جیسا کہ وہ مظلوم ہوں۔ اس حوالے سے الجزیرہ کا ایک تجزیہ ملاحظہ ہو:
Israel is manufacturing a case for genocide | Marwan Bishara
ترجمہ: ’’ایسا لگتا ہے کہ مغرب کی نظر میں اسرائیل کے لیے تو اپنے لوگوں کا دفاع کرنا ’فرض‘ ہے، لیکن فلسطینیوں کو اپنی حفاظت کا بھی حق حاصل نہیں جیسے وہ کسی کم تر خدا کے بندے ہوں! بظاہر اسرائیل کو اپنے قبضے اور نسل پرستانہ حکومت کے دفاع اور اسے وسعت دینے کا پورا حق حاصل ہے لیکن فلسطینیوں کو سات دہائیوں کی محرومی، جبر و استبداد اور محاصرے کے بعد اپنی آزادی اور انصاف کے لیے جدو جہد کرنے یا فقط اپنی جھنجھلاہٹ کا اظہار کرنے کا بھی حق حاصل نہیں۔
……گنجان آبادی والے غزہ پر متوقع زمینی حملہ، جبکہ وہاں کے رہنے والے لوگوں کو فرار کا کوئی راستہ بھی فراہم نہیں کیا گیا، ہفتوں یا مہینوں کی اس لڑائی کے دوران ہزاروں یا شاید لاکھوں فلسطینیوں کی ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے، خاص طور پر جب حسب توقع اسرائیل اپنی فوج کی ہلاکتوں کو کم کرنے کی کوشش کرنے کے لیے بھاری اسلحے اور شدید بمباری کو استعمال کرے۔ بلاشبہ، اسرائیل کا مستقبل قریب میں ہونے والا حملہ، دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ خونریز شہری تنازع میں بدلنے والا ہے، ایک ’ہرمجدون‘ جس کے انتہائی تباہ کن علاقائی مضمرات ہوں گے۔
……اب وقت آگیا ہے کہ مغربی طاقتیں بالغوں جیسا رویہ اختیار کریں اور طوطے کی طرح اسرائیل کے بے بنیاد جھوٹے دعووں اور جملوں کو طوطے کی طرح دہرانا بند کریں۔‘‘
[Al-Jazeera]
ٹیکنالوجی کے اس دور میں جنگیں میدانِ جنگ میں صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ دشمن کے خلاف اخلاقی و جذباتی فوقیت اور پراپیگنڈہ کے ذریعے اس کے اعصاب پر حاوی ہونا بھی ایک اہم جنگی تدبیر کہلاتا ہے۔ حماس کا ۷ اکتوبر کا ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن بھی عسکری سے زیادہ نفسیاتی حملہ ہے، جو انہوں نے دشمن پر کیا۔ اس حملے کے ذریعے انہوں نے دشمن کو اتنی طاقت اور ٹیکنالوجی کے باوجود غیر محفوظ اور قابل زد ثابت کر دیا ہے۔ یہ حماس کی اسرائیل پر ایک اہم برتری ہے۔
اس حوالے سے الجزیرہ کے ایک تجزیہ نگار کا تجزیہ ملاحظہ ہو:
Analysis: Propaganda, deception and fake news in the Israel-Hamas conflict | Zoran Kusovac
ترجمہ: ’’اسرائیل اور غزہ کے درمیان اسرائیلی حفاظتی رکاوٹوں میں متعدد جگہوں سے غیرمتوقع طور پر رخنا ڈالنے کاکام انتہائی پر عزم اور مؤثر انداز میں انجام دیا گیا۔ یہی معاملہ حماس کے جنگجوؤں کا (یہودی آباد کاروں کی) بستیوں میں اسرائیلی مسلح افواج کے ارکان اور شہریوں کو قتل کرنے اور گرفتار کرنے کے معاملے میں بھی رہا۔
لیکن اس حملے کا بنیادی مقصد عسکری نہیں تھا، سوائے ممکنہ طور پر ایک محدود درجے میں لوگوں کو یرغمال بنانے کے کہ جنہیں زمین پر اسرائیلی مسلح افواج کے (ممکنہ) جوابی حملے کی صورت میں انسانی ڈھال کے طورپر استعمال کیا جا سکے۔
……اس کارروائی کی منصوبہ بندی ایک پیغام کے طور پر کی گئی تھی کہ ’’یہ ہے جو ہم کر سکتے ہیں اور کریں گے‘‘، اور اس طرح یہ جنگ کے ایک فن کا اہم بلکہ انتہائی اہم حصہ ہے جسے ہم نفسیاتی جنگ کہتے ہیں۔
قدیم جنگجو سردار جانتے تھے کہ ’غیر متوقع پن‘ سب سے مؤثر عسکری حکمت عملیوں میں سے ایک ہے۔ اگر آپ اپنے دشمن کو یہ اندازے لگانے پر لگا دیتے ہیں کہ پتہ نہیں آپ کب اور کیسے حملہ کریں گے، خاص طور پر جب آپ کا دشمن کہیں سے بھی اور کسی بھی وقت آپ سے حملہ کی توقع کرنے لگے، تو آپ آدھی جنگ پہلے سے ہی جیت چکے ہیں۔ فتح کا دوسرا حصہ تب حاصل ہوتا ہے جب آپ اپنے دشمن پر تب اور ایسی جگہ سے حملہ کرتے ہیں کہ جہاں سے اس کا گمان نہیں ہوتا اور اس طرح اپنی مزاحمت کی کمزوری پر قابو پانا اس کے لیے ممکن نہیں رہتا۔
……حماس کی طرف سے اسرائیلیوں، بشمول فوجیوں اور عام شہریوں پر گولیاں برسانے کے مناظر اسرائیل اور بیشتر مغربی دنیا میں غم و غصے کا باعث بنے۔ لیکن فلسطینیوں کی نظر میں، زیادہ تر عرب دنیا کی نظر میں اور بہت سے تیسری دنیا کے ممالک کی نظر میں، ان مسلح جنگجوؤں نے عزم و ہمت، فولادی اعصاب، جدید عسکری ٹیکنالوجی کے استعمال میں مہارت، اور اپنی جانوں سے مکمل بے پرواہی کا مظاہرہ ایک ایسی کارروائی میں کیا کہ جس نے ثابت کر دیا کہ کمزور اور ضعیف بھی کامیابی کے ساتھ بڑے اور طاقتور کے تسلط کو کامیابی کے ساتھ چیلنج کر سکتے ہیں۔ حماس نے دنیا کے وسیع حصے میں ایک اہم پراپیگنڈہ فتح حاصل کی ہے۔
……کیا حماس آگاہ تھی کہ اس کی اس کارروائی سے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یقیناً، لیکن ظاہر ہے انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ یہ (خطرہ لینا) قابل قبول ہے جبکہ اس سے وہ اپنے آپ کو ایک نئی روشنی میں دکھا سکیں گے اورفلسطینیوں کی حالتِ زار کے بارے میں بیداری دوبارہ سے پیدا ہوگی۔
اسرائیل کا ردِّ عمل بھی حسب توقع تھا: پہلے اس نے دانستہ طور پر غزہ پر فضائی بمباری کی جس کے عسکری فوائد مشتبہ ہیں، اور پھر فوری طور پر ایک نفسیاتی عسکری مہم کا آغاز ہو گیا۔
پراپیگنڈہ اور بندوقیں ، ایک مستند عسکری حکمت عملی!
[Al-Jazeera]
طوفان الاقصیٰ پر پاکستانی ردّعمل
حکومتِ پاکستان نے باقی مسلمان ممالک کی طرح جو سرکاری بیان جاری کیا ہے اس میں وہی پرانا موقف اپنایا گیا ہے کہ ہم فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں اور اسرائیلی حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور بین الاقوامی کمیونٹی اور انسانی حقوق کے ادارے فوراً جنگ بندی کروائیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔
غزہ ۲۰۰۷ء سے اسرائیل کے محاصرے میں ہے۔ جبکہ موجودہ جنگ کے آغاز میں اسرائیل کے وزیر دفاع نے کہا کہ ہم ’انسان نما جانوروں‘ (Human Animals) سے لڑ رہے ہیں۔ اس قسم کی ذہنیت کا حاصل صرف نسل کشی کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے۔
اس حوالے سے روزنامہ ڈان کے اداریے سے اقتباس ملاحظہ ہو:
Gaza Besieged | Editorial
ترجمہ: ’’جو چیز خاص طور پر قابلِ مذمت ہے وہ زیادہ تر مغربی ریاستوں کی طرف سے دکھایا گیا ’منتخب‘ غم و غصہ ہے۔ جہاں بہت سے مغربی رہنما حالیہ جھڑپوں میں اسرائیل کے ہونے والے نقصانات پر آنسو بہا رہے ہیں، وہیں یہی ریاستیں تب اپنا غم و غصہ دکھانے میں کنجوسی سے کام لیتی ہیں جب دہائیوں سے، فلسطینی اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہونے والے اپنے بچوں کو دفنا رہے ہوتے ہیں۔
……ایک صدی کے تین چوتھائی عرصے سے فلسطین کے بیٹے اور بیٹیاں یا تو جلا وطن ہیں، پناہ کی تلاش میں پردیس میں مارے مارے پھر رہے ہیں، یا اپنی ہی سرزمین میں قیدیوں کی طرح مظالم کا شکار ہیں۔ اس نا ختم ہونے والے ’نکبہ‘ کو اب ختم ہونا چاہیے۔
فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے اور ان کی قومیت کا حق سلب کرنے والی کوئی بھی ناقص ’نارملائی زیشن‘ ڈیل کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ لگاتار تشدد اور ذلت جو ان پر انڈیلی جا رہی ہے اس سے قابض کے خلاف انتقام کی پیاس اور بڑھے گی۔
خارجی اور نسل پرست صہیونی تجربہ جسے سلطنتِ برطانیہ کی پشت پناہی حاصل تھی اور سلطنتِ برطانیہ کے جانشینوں کی حمایت حاصل ہے، ناکام ہو چکا۔ ارضِ مقدس میں خونریزی کو ختم کرنے کے لیے، اور وہاں کے تمام رہنے والوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے فلسطینی ریاست کے قیام کا روڈ میپ ہی واحد جواب ہے۔‘‘
[Daily Dawn]
دیگر ملکوں کی طرح پاکستانی عوام میں بھی اسرائیل کے ظلم و ستم کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام میں بھی فلسطین کی آزادی کے حصول کےلیے تڑپ پائی جاتی ہے۔ پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی جماعت کے رہنما لیاقت بلوچ کے اس حوالے سے ایک اخباری کالم سے اقتباس ملاحظہ ہو:
لبیک یا اقصیٰ، لبیک یا غزہ | لیاقت بلوچ
’’قبلہ اوّل کی آزادی کے لیے جہاد کرنا پوری امت پر فرض ہے۔ ناجائز اسرائیلی صہیونی غاصبوں کے خلاف اہل غزہ کے مجاہدین، شہداء اور زخمیوں کا پیغام یہی ہے کہ قبلہ اوّل کی حفاظت کے لیے امتِ مسلمہ کا بچہ بچہ اُن کا ساتھ دے۔ سعودی عرب سمیت بعض مسلم ممالک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی گھناؤنی سازش ختم کی جائے، اہل عرب و عجم اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اُن کی مدد کے لیے میدانِ عمل میں کود جائیں۔ ان شاء اللہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ فلسطین اور کشمیر اگر اقوامِ متحدہ یا او آئی سی کی قراردادوں سے نہیں تو امتِ مسلمہ کے اتحاد سے ضرور آزاد ہوں گے۔‘‘
[روزنامہ نئی بات]
۷۵ سال قبل ۱۹۴۸ء میں جب اسرائیل کی ناجائز ریاست کا اعلان ہوا، ساتھ ہی عرب ممالک نے ان پر حملہ کر دیا۔ جنگ تو نہ جیت پائے لیکن اس کے نتیجے میں فلسطین کی آدھی سے زیادہ آبادی کو اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا، اور ناجائز صہیونیوں نے ان کے گھر بار جائیدادیں اور ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا۔ ان مہاجرین کی نسلیں اب بھی پناہ گزین کیمپوں میں پل رہی ہیں۔ یہ ان فلسطینی مہاجرین کے لیے اتنا بڑا سانحہ تھا کہ اسے ’النکبہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے ’بہت بڑی تباہی‘۔
اسرائیل نے غزہ کے مکینوں کو شمالی حصے کو خالی کرنے اور جنوب کی طرف نقل مکانی کرنے کی وارننگ دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بمباری بھی جاری ہےا ور روزانہ ہزاروں کی تعداد میں بم برسائے جا رہے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ جنوب کی طرف نقل مکانی کرنے والوں پر بھی اسرائیلی طیاروں نے بمباری کی۔
بی بی سی اردو پر محمد حنیف کے کالم سے اقتباس ملاحظہ ہو:
ایک اور نکبہ، گردن اور تلوار کا مکالمہ | محمد حنیف
’’فلسطینیوں کو اپنے مسلمان بھائی کہنے والی مسلم امت کبھی دھمکی، کبھی دلیل، کبھی منہ زبانی ہمدردی دکھاتی رہی۔ اقوام متحدہ قراردادوں پر قراردادیں پاس کرتی رہی۔ اسرائیل اپنے خدائی مشن کو بڑھاتا گیا۔
پہلے نکبہ کے ۷۵ سال بعد اسی سال کے آغاز میں پہلی دفعہ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں اس کی یاد منانے کی اجازت دی گئی۔ ایک چھوٹی سی تقریب ہوئی، تقریریں ہوئیں، ایک ثقافتی شو ہوا۔ کچھ لوگوں کو لگا کہ تین چوتھائی صدی پہلے شروع ہونے والے مظالم کو اقوام متحدہ روک تو نہیں سکی لیکن کم از کم اب یہ ماننے کو تو تیار ہے کہ ظلم ہوا تھا۔
یورپ کے چند اور شہروں میں بھی نکبہ کے ۷۵ سال مکمل ہونے پر تقریبات ہونے والی تھیں۔ پھر حماس نے اسرائیل پر حملے کیے…… جس کے جواب میں اسرائیل نے کہا کہ تم نے نکبہ دیکھا ہی کہاں ہے، اب تمہیں دکھاتے ہیں کہ نکبہ ہوتا کیا ہے۔
اور اب مہذب دنیا، جمہوریت کے گیت گاتی دنیا، یوکرین پر آنسو بہاتی دنیا، آزادیٔ اظہارِ رائے کے دعوے سناتی دنیا، پاپ کارن لے کر ٹی وی کے سامنے بیٹھی ہے اور نعرے لگا رہی ہے کہ مارو ان دہشت گردوں کو۔ ہم تمہارے اوپر بم گراتے رہیں گے، تم حماس کی مذمت کرتے جاؤ۔
حماس بننے سے بہت پہلے بھی فلسطین میں مزاحمت کی تحریکیں موجود تھیں۔
غسان کنفانی فلسطینی ناول نگار تھے اور مزاحمت کا حصہ تھے۔ ایک انٹرویو میں ان سے ایک دردمند مغربی صحافی نے پوچھا کہ آپ بندوقیں ایک طرف رکھ کر مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟
پہلے غسان کہتے ہیں کہ آپ کا مطلب ہے کہ ہم غلامی قبول کر لیں؟ صحافی مصر تھا کہ مکالمہ ہونا چاہیے۔ غسان کنفانی نے کہا کہ ’یہ ویسا ہی مکالمہ ہو گا جیسا گردن اور تلوار کے بیچ ہوتا ہے‘۔ ‘‘
[بی بی سی اردو]
مسئلہ فلسطین اور مسلم امت کی ذمہ داری کے حوالے سے روزنامہ نئی بات میں ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر کے کالم سے اقتباس ملاحظہ ہو:
نہتے فلسطینی اور مسلم امہ!! | ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
’’کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ نہایت خوش آئند امر ہے کہ حماس نے اسرائیل کے طاقت ور ترین انٹیلی جنس نظام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسے ناکوں چنے چبانے پر مجبور کر دیا۔ دوسری طرف بین الاقوامی امور کے ماہر اور تجزیہ کار اس ساری صورتحال کو کسی گریٹر گیم کا حصہ بھی خیال کر ر ہے ہیں، تاکہ اس حملے کو جواز بناتے ہوئے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کر سکے۔ بہرحال اس سارے قضیے میں سعودی عرب کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سعودی عرب کی اہمیت کے پیش نظر امریکہ گزشتہ کئی برس سے سعودی عرب اور اسرائیل کو قریب لانے کے لیے متحرک ہے۔ اطلاعات تھیں کہ دونوں ممالک کسی معاہدہ کے قریب تھے کہ یہ جنگ شروع ہو گئی۔ اب معلوم نہیں کہ اس جنگ کا انجام کیا ہو گا۔ کیا ہمیشہ کی طرح اسرائیل فلسطینیوں کے مزید علاقوں پر قبضہ کر لے گا؟ کیا ہمیشہ کی طرح مزید فلسطینی شہید ہو جائیں گے اور کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی؟ کیا اس بار بھی دنیا صرف تماشادیکھتی رہے گی؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اب بھی مسلم امہ فلسطینیوں کے حق میں صرف دعائیں کرنے اور زبانی جمع خرچ تک محدود رہے گی؟‘‘
[روزنامہ نئی بات]
اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس نے یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جبکہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات تیزی سے استوار ہوتے نظر آ رہے تھے اور خیال کیا جا رہا تھا کہ سعودی عرب کے دیکھا دیکھی اور مسلم ممالک بھی اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کر لیں گے۔ لیکن حماس کے حملے نے گہری نیند میں اسرائیل کی طرف بڑھتے حکمرانوں کو جھنجھوڑ دیا ہے کہ خدارا ہوش میں آؤ، یہ تم کیا کرنے جا رہے ہو؟
اس حوالے سے عاصمہ شیرازی کے کالم سے اقتباس ملاحظہ ہو:
تتلی کا بوجھ | عاصمہ شیرازی
’’ فلسطین کا مسئلہ عالمی استعمار کا نشان جبکہ روشن خیال ذہنوں کا امتحان ہے۔ کہنے کو کم و بیش ۷۵ برس پرانہ مسئلہ مگر لہو ہے کہ رکتا نہیں۔ عالمی ادب ہو یا دیگر فنون فلسطین کے خون نے فکر کو ہمیشہ ایک نئی تحریک دی، نیا آہنگ دیا، نئی جلا بخشی جبکہ غزہ کی دہلیز پر تسلط کا رعب دکھاتا جبر ہمیشہ نئی تہذیب کو پرانا زخم دکھاتا رہا اور بیت المقدس کی چوکھٹ پر معصوم فلسطینیوں کی قربان گاہ پر غاصبیت کا جھنڈا لہراتا رہا ہے۔
……کوئی اسے حماس کی غلطی قرار دے رہا ہے تو کوئی نتائج سے آگاہ کر رہا ہے کہ بھگتنا تو بالآخر مظلوم فلسطینیوں کو ہی پڑے گا۔ یہ دلیل درست ہو سکتی ہے تاہم سوال یہ بھی ہے کہ فلسطین اور بالخصوص غزہ کی پٹی میں بسنے والوں کی زندگیاں تھیں ہی کہاں۔ ہزاروں چیک پوسٹوں، سینکڑوں چوکیوں، طویل باڑوں کے درمیان گزرنے والی زندگی کو اگر زندگی کہا جائے گا تو پھر موت کہا ہے؟
……یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب سعودی عرب اور عرب ریاستیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو تسلیم کرنے کا کم از کم ارادہ رکھتی تھیں۔ واشنگٹن اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ایک نئے معاہدے کی خواہش دل میں لیے بیٹھا تھا اور اسرائیل فلسطین کے پاس رہ جانے والی غزہ کی ۴۰ فیصد پٹی پر بھی تسلط کی چاہ رکھے بیٹھا تھا۔
ایک اور ابراہام معاہدے کی راہ ہموار ہو رہی تھی کہ حماس کے اس حملے نے اسرائیل اور حامیوں کو پوائنٹ زیرو پر لا کھڑا کیا۔ نہیں معلوم کہ طاقت کے آگے حماس کب تک لڑ پائے گی اور کب اگ کے شعلے لبنان اور شام کو گھیر لیں گے مگر عالمی ڈیپ فریزر سے یہ معاملہ اب باہر آ چکا ہے۔
سنہ ۱۹۷۳ء کے بعد حماس کے اس حملے نے ایک بار پھر اس بھولے بسرے مسئلے کو زندہ کر دیا ہے، انجام کچھ بھی ہو سلامتی کونسل دو ہی دنوں میں فائل سے گرد ہٹا رہی ہے، عالمی تنظیمیں انگشت بدنداں ہیں۔ بظاہر اسرائیل کے حق کے لیے اٹھ کھڑے ہونے والے دھیمے دھیمے لہجے میں فلسطین کے حق کے لیے بھی دبی دبی آواز اٹھا رہے ہیں۔
دنیا پھر سے تقسیم ہو گئی ہے، دو حصوں میں بٹی دنیا حق اور باطل کے درمیان کھڑی ہے، برسوں چُپ رہنے والے بول پڑے ہیں، ریاستیں اگر ظالم کے ساتھ ہیں تو عوام مظلوم کے ساتھ۔ ریاستیں اگر طاقت کے ساتھ ہیں عوام محکوم کے حق کے لیے عرصہ دراز کے بعد بول پڑے ہیں۔‘‘
[بی بی سی اردو]
جہاں بہت سے کالم نگار جذبۂ ایمانی سے سرشار ہو کر اسرائیل کے خلاف اور فلسطینی مزاحمت کے حق میں لکھ رہے ہیں وہاں بعض ایسے بھی ہیں جو ایمانی جذبے کا مقابلہ مادی وسائل سے کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک کالم نویس مصطفیٰ کمال پاشا کے ایک کالم سے اقتباس ملاحظہ ہو:
اسرائیل کو شکست دینا ممکن نہیں؟ | مصطفیٰ کمال پاشا
’’ اہل حرم بحیثیت مجموعی اور عرب بحیثیت قوم تاریخی اعتبار سے پست ترین سطح پر ہیں۔ پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد ایک کروڑ ۴۴ لاکھ کے قریب ہے جن میں سے ۹۱ لاکھ اسرائیلی باشندے ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد ۱ ارب ۴۴ کروڑ سے زاید ہے جن میں عرب ۳۲ کروڑ کے قریب ہیں جو ۲۶، ۲۷ ریاستوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اقوامِ مغرب یعنی عیسائی دنیا بشمول امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہم اسرائیل کے ساتھ مذہبی جذبے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں یہودی بااثر ہیں، عالمی معیشت کے مراکز پر چھائے ہوئے ہیں۔ دنیا کی قوی الجثہ کمپنیاں ان کی ملکیت ہیں۔ مالیاتی و زری اداروں پر انہیں کنٹرول حاصل ہے، فیصلہ سازی کے عالمی مراکز تک ان کی رسائی ہے۔ تعداد میں انتہائی قلیل ہونے کے باوجود ان کا سیاسی ، سفارتی اور معاشرتی اثر و رسوخ بے انتہا ہے۔
فلسطینی اپنی زمینوں سے نکالے جا چکے ہیں۔ وہ ۷۵ سال سے بے وطن مہاجرت کی زندگیاں گزارنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ مرنا ان کا مقدر بن چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ حماس نے لڑ کر مرنے کو ترجیح دی اور اسرائیل پر حملہ آور ہو گئے۔ انہوں نے بہادری ، شجاعت اور غیرت کا فقید المثال مظاہرہ کر دکھایا ہے۔ لیکن اسرائیل کو شکست دینا ممکن نہیں ہے، حماس ہو یا عرب، یا سارے مسلمان، سردست اسرائیل کوشکست دینا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔‘‘
[روزنامہ نئی بات]
طوفان الاقصیٰ اور بھارتی میڈیا
بھارت نے اسرائیل غزہ جنگ میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ ماضی میں اس کے سرکاری موقف سے نسبتاً مختلف ہے۔ ماضی میں بھارت جہاں اسرائیل کے ساتھ دوستی اور تعلق کی بات کرتا تھا تو ساتھ میں یہ بھی کہتا تھا کہ ہم آزاد فلسطینی ریاست کے حامی ہیں۔ لیکن ماضی کے برعکس اب مودی نے اعلان کیا ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسرائیل کی اپنے دفاع میں لڑی جانے والی جنگ میں اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔
مودی کے اس موقف سے بھارتی عوام دو آراء میں منقسم ہو چکی ہے۔ مودی اور اس کے حامی بھگوا انتہا پسند ہندو فلسطینی مسلمانوں کے خلاف ہیں، جبکہ بھارتی مسلمان اور بہت سے سیکولر ہندو اسرائیل کی جارحیت کے خلاف فلسطینی مسلمانوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
اس تناظر میں ہندوستان ٹائمز میں شِشِر گپتا نامی ایک لکھاری کے اسرائیل کے حق میں لکھے گئے کالم سے اقتباس ملاحظہ ہو:
Why the world is on a short fuse after Hamas barbarism | Shishir Gupta
ترجمہ: ’’اب جب کہ اسرائیل اپنے جنوبی اور شمالی محاذ پر لڑ رہا ہے اور افق پر ایک مکمل طور پر بنیاد پرست ایران کا خطرہ منڈلا رہا ہے، دنیا ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے کیونکہ ایک عظیم تباہی کے قریب آ پہنچنے کے تمام آثار موجود ہیں۔ مذہبی انتہا پسند مشرق وسطیٰ میں ایجنڈا چلا رہے ہیں جبکہ عالم اسلام کے اندر اعتدال پسند ہمیشہ کی طرح خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ورنہ وہ بھی ہدف بن جائیں گے۔ عالم اسلام کے نام نہاد سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی طرف سے حماس کی طرف سے بے گناہ اسرائیلی یہودیوں کے قتل عام کی مذمت کرنے کی پکار میں جو منافقت ہے وہ بھی عیاں ہے۔ تاہم، ایران کی ایماء پر حماس کے دہشت گردوں کی طرف سے بے گناہ غیر محاربین کا بڑے پیمانے پر قتل اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اسرائیل اس وقت تک دم نہ لے جب تک اس کا انتقام مکمل نہ ہو جائے۔
……یہ دیکھتے ہوئے کہ پوری دنیا میں تنازعات اور دہشت گردی کے حملوں کی روک تھام کرنے میں اقوام متحدہ کی کوئی ساکھ نہیں بچی، اب وقت آ گیا ہے کہ جمہوری دنیا پوری دنیا کے جہادیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک طاقتور اور جارح انسداد دہشت گردی اتحاد قائم کرے۔ غیر متعلقہ اور غیر مؤثر اقوام متحدہ کے بین الاقوامی کنونشنز میں دہشت گردی پر بحث کرنے کی بجائے، دہشت گردی کے حملوں کے متاثرین کو اکٹھے ہونے، انٹیلی جنس وسائل جمع کرنے، اور وحشیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مادی مدد کا عہد کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اقدامات جتنے جلد اٹھائے جائیں اتنا ہی بہتر ہے کیونکہ حماس کے حملوں کی وحشیانہ کامیابی پوری دنیا میں اس قبیل سے تعلق رکھنے والوں کو حوصلہ دے گی کہ مذہب کو بطور سیاسی طاقت استعمال کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات کے لیے اپنے دشمنوں پر حملہ کریں۔‘‘
[Hindustan Times]
حماس کے حملے کے جواب میں ۸ اکتوبر سے اسرائیل کی غزہ کی پٹی پر مستقل بمباری، جس میں سفید فاسفورس کا بھی استعمال ہو رہا ہے، اور نیتن یاہو کی طرف سے غزہ پر ہر قسم کی امداد اور پانی، بجلی ، تیل اور غزائی ضروریات پہنچانے پر پابندی، نہ صرف وحشیانہ اقدام ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی بھی ہے۔
جہاں متشدد قوم پرست ہندو کھل کر اسرائیل کے ہر ہر اقدام کی مکمل حمایت کر رہے ہیں وہیں بہت سے سیکولر ہندو ایسے ہیں جو اسرائیل کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک لکھاری اپوروانند کی تحریر سے اقتباس ملاحظہ ہو:
Without Israel’s Oppression of Palestinians, Hamas Terrorism Would Have Never Existed | Apoorvanand
ترجمہ: ’’دنیا خاموشی سے اسرائیل کو تمام بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ اس خبر کے سامنے آنے کے بعد کہ اسرائیل سفید فاسفورس استعمال کر رہا ہے، جسے اقوام متحدہ کی کنونشن نے غیر قانونی قرار دیا ہے، کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں کیا گیا۔ امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اپنے اسٹیٹ سیکریٹری انتھونی بلنکن کو تیزی سے تل ابیب روانہ کیا۔ اس نے یہ دعویٰ کر کے اسرائیل کی طرف سے غزہ کے شہریوں کو نشانہ بنانے کو جائز قرار دینے کی کوشش کی کہ حماس لوگوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور یہ وجہ سامنے رکھی کہ اسرائیل کے پاس اس ڈھال کو توڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، جس کے لیے غزہ کے لوگوں کا قتلِ عام کرنے کی ضرورت تھی۔
……جب غزہ کے وجود کو ملیا میٹ کیا جا رہا ہے، امریکی صدر،حماس کے عسکریت پسندوں کی جانب سے بچوں کے سر قلم کرنے کے بارے میں بتائے جانے کے بعد محسوس ہونے والی ہولناکی کے بارے میں بات کر کے، اس کے لیے بہانہ فراہم کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس کے اپنے دفتر نے بعد میں اس بات کی تردید کی کہ اس نے یہ تصویریں ذاتی طور پر دیکھی تھیں۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے اسرائیل نے غزہ پر حملہ کرنے کے لیے زمین برابر کی ہو۔
……پچھلے سات دن کے تناظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حماس نے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کی۔ لیکن اسرائیل کی طرف سے اس کی مسلسل خلاف ورزیوں کے پچھلی دہائیوں کے بڑے اور طویل تر تناظر کو ایک طرف نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر اسرائیلی دہشت گردی نہ ہوتی تو حماس کی دہشت گردی کا وجود نہ ہوتا۔ اگر دنیا حماس کو غیر مؤثر کرنا چاہتی ہے تو پھر اسے سب سے پہلے اپنے لاڈلے اسرائیل کو قابو کرنا ہو گا جو پچھی سات دہائیوں سے غنڈہ گردی کر رہا ہے۔‘‘
[The Wire]
مودی حکومت کا موقف سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی ایک جنگ چھڑ گئی۔ اس حوالے سے اعظم شہاب کے کالم سے اقتباس ملاحظہ ہو:
فلسطین و اسرائیل جنگ: غلیل سے ٹینک کی تباہی…… | اعظم شہاب
’’دلچسپ بات یہ ہے کہ پردھان سیوک کے ذریعہ اسرائیل کی حمایت کے اعلان کے بعد ایکس پر ’آئی سٹینڈ وِد اسرائیل‘ کا ہیش ٹیگ چلنے لگا۔ اس میں تو کچھ ایسے بھگت بھی نظر آئے جن کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل جا کر فلسطینیوں سے لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ کمال کے ہیں یہ اندھ بھگت لوگ بھی، ان عقل کے اندھوں سے اگر یہ پوچھ لیا جائے کہ بھائی صاحب آپ تو اسرائیل جا کر لڑنے کے لیے تیار ہیں، بھلا یہ تو بتائیے کہ اسرائیل ہے کہاں؟ اور یہ جنگ ہو رہی ہے وہ کیوں ہو رہی ہے؟ تو یہ بیچارے بغلیں جھانکنے لگیں گے۔ ایسے لوگوں کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ اصل معاملہ کیا ہے، یہ کہوں ہو رہا ہے، حماس کون ہیں، اسرائیل کی فوجی طاقت کیا ہے۔ یہ لوگ ایکس پر ٹرینڈ چلا رہے ہیں کہ ’آئی سٹینڈ وِد اسرائیل‘، لیکن اگر ان سے اس جملے کا کیا مطلب ہے یہ ہی پوچھ لیا جائے تو کچھ کی تو سیٹی ضرور بج جائے گی۔ ان بیچاروں کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ان کے صاحب نے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر دیا تو وہ بھی وہی کر رہے ہیں۔
……اب اسلاموفوبیا کا شکار ہو کر بھلے ہی کوئی اسرائیل کی حمایت کرے، اس کی طاقت سے کوئی مرعوب نہیں ہو گا۔ اس جنگ نے یہ بتا دیا ہے کہ اسرائیل صرف اسی وقت شیر بنتا ہے جب اس کے سامنے کوئی کمزور ہو، لیکن جیسے ہی اسے اندازہ ہوتا ہے کہ سامنے والا موت سے نہیں ڈرتا تو پھر وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ جنگ فلسطینی مسلمان اپنے حوصلے اور جنون سے لڑ رہے ہیں جو یہ ثابت کر رہا ہے کہ فلسطین غلیل سے اسرائیلی ٹینک اور آئرن ڈوم پر بھاری پڑ رہے ہیں۔‘‘
[روزنامہ قومی آواز]
الجزیرہ کے ایک نامہ نگار نے انڈیا کی طرف سے آنے والی فلسطین مخالف غلط معلومات اور جھوٹی خبروں پر تحقیق کی ہے۔ پراپیگنڈہ کی اس جنگ میں جھوٹی اور غلط خبریں دشمن کا ایک بہت بڑا ہتھیار ہیں، جو لوگوں کو بہت آسانی سے گمراہ اور بدگمان کر سکتی ہیں۔ مذکورہ مقالے سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
Why is so much anti-Palestinian disinformation coming from India | Marc Owen Jones
ترجمہ: ’’فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے ساتھ، غلط معلومات اکثر فلسطینی مخالفت اور اسلاموفوبیا کا پہلو لیے آتی ہیں۔ سوشل میڈیا سے تقویت پا کر ان کے اثر میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر ایلن مسک کی ایکس (X) کی قیادت میں، جسے پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا چاہتا تھا۔
لیکن ۷ اکتوبر کوحماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد سے سوشل میڈیا پر پھیلنے والی غلط معلومات کا ایک دلچسپ عنصر یہ ہے کہ اس کا بہت بڑا حصہ ہندوستان کے دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اکاؤنٹس کے ذریعے تیار یا پھیلایا گیا ہے۔
ان میں سے کچھ جعلی کہانیوں میں حماس کا ایک یہودی شیر خوار بچے کو اغوا کرنا اور ایک ٹرک کے پیچھے ایک نوجوان لڑکے کا سر قلم کرنا شامل ہیں۔ نیلے ٹک والے اکاؤنٹس نے جھوٹی رپورٹوں کو وائرل کیے جانے کے دائرے میں دھکیل دیا ہے۔ ہزاروں لوگوں کی طرف سے شیئر کی گئی ایک انتہائی مقبول ٹویٹ نے یہاں تک دعویٰ کر دیا کہ حماس کا حملہ اصل میں امریکہ کی زیر قیادت ایک نفسیاتی کارروائی (Psyop) تھی۔
……بہت سے اکاؤنٹ جو (اس جنگ کے حوالے سے) جھوٹی ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں وہ اپنا زیادہ تر وقت X پر مسلم مخالف تبصرے کرنے میں گزارتے ہیں۔
’سنہا‘ نامی ایک اکاؤنٹ جس نے حماس کے ہاتھوں ایک لڑکے کا سر قلم کرنے کی جھوٹی ویڈیو شیئر کی تھی اس نے اپنی اسی پوسٹ میں #IslamIsTheProblem کا ہیش ٹیگ بھی شامل کیا تھا۔
……دیگر فلسطین سے اپنی نفرت کے اظہار میں زیادہ کھلے ہیں۔ ایک انڈین اکاؤنٹ، جس کے متعلق دعویٰ ہے کہ یہ ایک ریٹائرڈ ہندوستانی فوجی کا ہے، نے کہا کہ ’’اسرائیل کو فلسطین کو اس سیارے سے فنا کر دینا چاہیے‘‘۔
……آسٹریلیا میں قائم اسلامک کونسل آف وکٹوریہ کی ایک رپورٹ میں تحقیق کی گئی ہے کہ اسلاموفوبیا پر مبنی تمام ٹویٹس کی اکثریت ہندوستان سے نکل رہی ہیں۔
فلسطینیوں کی حالت زار نے اسلامو فوبیا کا شکار لوگوں کو ایسے کھینچا ہے جیسے پتنگے روشنی کی طرف کھنچتے ہیں اور اس کا مشاہدہ سوشل میڈیا پر کیا جا سکتا ہے۔ اس آن لائن نفرت کے کچھ شواہد بی جے پی کا ’آئی ٹی سیل‘ کہلائی جانے والی ٹیم کے بارے میں ملتے ہیں، جس نے ان نفرت کے شعلوں کو ہوا دی ہے۔
سواتی چترویدی نے اپنی کتاب ’میں ایک ٹرول ہوں‘ میں بی جے پی کی آن لائن سوشل میڈیا فوج کے بارے میں بات کی ہے۔ سادھوی کھوسلا، جس سے چترویدی نے انٹرویو لیا، کے مطابق، بی جے پی کے پاس رضاکاروں کا ایک پورا نیٹ ورک ہے جو سوشل میڈیا سیل اور اس سے منسلک دو اور تنظیموں سے ہدایات وصول کرتا ہے اور پھر تنقید کرنے والوں کو ٹرول کرتا ہے۔
……حقائق کی جانچ کرنے والی ہندوستانی نان پرافٹ ویب سائٹ AltNews کے شریک بانی اور ایڈیٹر پراتک سنہا نے ٹویٹ کیا: ’’اب جبکہ بھارت اسرائیل کی حمایت میں اپنے غلط معلومات پھیلانے والے اداکاروں کو مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر برآمد کر رہا ہے، امید ہے کہ اب دنیا کو اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح ہندوستانی دائیں بازو نے انڈیا کو دنیا کا ’ڈس انفارمیشن کیپٹل‘ بنا دیا ہے‘‘۔
اسرائیل کی مغربی حمایت، بڑی کمپنیوں کے مواد کی جانچ پڑتال سے تازہ ترین لاتعلقی، اور انڈیا سے دائیں بازو کے اسلامو فوبیا پر مبنی اکاؤنٹس کی ڈیجیٹل رسائی، غزہ کے بحران کو فلسطینیوں اور مسلمانوں کو نفرت کا نشانہ بنانے والے پلیٹ فارم میں تبدیل کر دیا ہے۔‘‘
[Al-Jazeera]
٭٭٭٭٭