ایک تہلکہ خیز دن وہ تھا جب گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکہ میں نہایت غیر متوقع حملے نے دنیا بدل کر رکھ دی تھی۔ اگلے بیس سال ساری عسکری قوت افغانستان کو زیر کرنے اور ملّا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دینے میں جھونک دی تھی۔ ۲۰۲۱ء بالآخر ساری ایٹمی طاقتوں کو نکال کر واپس اپنے اصل مقام پر واپس لوٹ آیا۔ ابھی یہ زخم مندمل نہیں ہوا۔ افغانستان دوبارہ امارتِ اسلامیہ کی صورت لاالہ الا اللہ والا جھنڈا سربلند کیے، معیشت کی بحالی میں غیر معمولی استقامت و محنت سے ایستادہ ایک زندہ حقیقت ہے!
اُدھر مغربی دنیا کی گود میں ۱۹۴۸ء سے بیٹھا اپنا انگوٹھا اور فلسطینیوں کا خون چوستا لاڈلا اسرائیل، جسے میلی آنکھ سے دیکھنا منع ہے، یکایک ایک طوفانی بلا میں گھر گیا۔ طوفانی بگولوں کے نام امریکہ، یورپ میں رکھے جاتے ہیں۔ اسرائیل پر اچانک ٹوٹ پڑنے والی راکٹی یلغار کا نام حماس نے ’الاقصیٰ طوفان‘ رکھا۔ اسرائیل کی نہایت ہائی ٹیک مضبوط عسکری قوت، جس میں زمین، آسمان، سمندر، چہار جانب کڑے پہرے کا بھاری بھرکم نظام ہے۔ حساس ترین آلات، ہمہ وقت چوکس نگرانی، کا ناقابل تسخیر انتظام ہے۔ آئرن ڈوم ہر فضائی ہتھیار کو مار گرانے کا مضبوط اورجدید ترین تحفظ فراہم کرتا ہے۔
مگر ایک انہونی ہو گئی۔ ۷ اکتوبر کو علی الصباح یکایک اسرائیل کی زمین، آسمان، سمندر سبھی دشمنی پر اتر آئے۔ ۷ ہزار راکٹوں کی بوچھاڑ ہوئی ( جو جدید اسلحہ ساز کارخانوں سے نہیں، فلسطینی گھروں میں بنے تھے!) پیرا گلائڈرز، اسرائیلی فضاؤں پر اڑتے ابابیلی پرندے (ننھی رکشہ نما سواری کو پر لگے ہوئے!) اور موٹر سائیکلوں پر سوار بندوق بردار اسرائیل پر ٹوٹ پڑے۔ دو ہزار کی تعداد میں ہفتہ بھر کے مذہبی تہوار کی آخری چھٹی کے دن جابجا یہ بگولے آن اترے۔ جنوبی اسرائیل کی سمارٹ خاردار مضبوط باڑ توڑ کر یلغار کر دی۔ ایک جگہ ۶ موٹر سائیکل سوار جنگجو دھاتی دیوار میں سوراخ سے اندر جا گھسے۔ ایک موٹر بوٹ پر سوار مجاہد اسرائیلی فوجی اڈے کے ساتھ واقع قصبے پر چڑھ دوڑے۔ منہ اندھیرے ۵ ہزار راکٹوں کی بوچھاڑ نے جنوبی اسرائیل سے تل ابیب تک ( غزہ سے۷۰ کلومیٹر) دھماکوں سے انہیں ہلا مارا۔ ناقابلِ تسخیر آئرن ڈوم کی سٹی گم ہو گئی۔ وہی سب جو ۷۵ سالوں سے صرف فلسطینیوں کا مقدر تھا۔ پہلی مرتبہ مسلمانوں کے مسمار گھروں پر اپنی جنت بنانے والے آباد کاروں کے گھروں سے دھواں اٹھا، بڑی بلڈنگوں میں آگ بھڑکی۔ جنگ اسرائیل میں آ گھسی۔ ہزاروں گاڑیاں بھسم ہوئیں۔ سڑکوں پر یہودیوں کی لاشیں بکھریں۔ پہلی مرتبہ اسرائیل نے وہ مناظر دیکھے جو آئے دن فلسطینیوں نے بھگتے۔ اب تک ۱۳۰۰ سے زیادہ اسرائیلی ہلاک بشمول ۲۴۷ فوجی اور ۳۰۰۷ زخمی ہیں۔
اسرائیل کا واویلا ہے کہ حماس نے ۲۲ مقامات پر حملہ کیا۔ یو این میں اسرائیلی سفیر چلّا اٹھا: یہ ہمارا ’نائن الیون‘ ہے! حماس قاتل دہشت گرد ہے! (اور تمہاری ۷۸ سالہ خونی دہشت گردی؟) آئرن ڈوم کی کارکردگی کیونکر معطل ہوئی! واحد کارفرما قوت ایسے ایمانی معرکوں میں (جس کی بنیاد حق و باطل ہو) وہی ہے جسے جھٹلاتے دنیائے کفر ہلکان بلکہ ہلاک ہوگئی!۔ ’’پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا۔ (اور مومنوں کے ہاتھ جو استعمال ہوئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی سے گزار دے، یقیناً اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔ یہ معاملہ تو تمہارے ساتھ ہے اور اللہ کافروں کی چالوں کو کمزور کرنے والا ہے۔ (ان کافروں سے کہہ دو) اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو فیصلہ تمہارے سامنے آگیا۔… تمہاری جمیعت خواہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی، اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (انفال: ۱۷، ۱۸، ۱۹)
انہیں پریشانی ہے کہ آخر ایسا کیونکر ہوا کہ اسرائیل اتنی بڑی بے خبری کا شکار ہوگیا؟ خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے۔ بلکہ ساری بجلیاں انہی پر جاگریں! خوفناک عبرت ناک مناظر ظہور پذیر ہوئے۔ ایک جگہ صحرا میں رات بھر ناچتے جشن مناتے ۳۰۰۰ مرد و زن عیش و طرب میں ڈوبے، تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ اڑتے رکشوں پر سوار مسلح سورما آسمانی بلا بن کر اچانک ٹوٹ پڑیں گے۔ گویا شیاطین پر بوچھار کرنے والے شہابِ ثاقب ہوں۔ میوزک (مذہبی پارٹی تھی!) کی جگہ چیخیں، افراتفری میں فرار ہوتے (AP رپورٹ) ۲۶۰ مارے گئے، کئی پکڑے گئے۔ مذہبی تہوار کے نام پر مخلوط حیا باختہ رقص (یہودی ہیکل سلیمانی / مذہبیت کی آڑ میں اقصیٰ پر آئے روز حملہ آور ہیں۔) پر غضب کے بگولے آن گرے۔ ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ۔
سرزمین کے اصل مکین، غزہ کی ۲۵ میل لمبی ۱۰ میل چوڑی پٹی پر ۲۳ لاکھ یوں محصور کر دیے گئے ہیں کہ وہ سمندر، اسرائیل اور (دشمنی پر کمربستہ) سیسی کے مصر کی بد ترین قید میں ہیں۔ اب ان کی یہ غیر معمولی یلغار ہوش گم کر دینے والی ہے۔ اسرائیل کے پشت پناہ بھی حیرت و غم و غصے سے ہاتھ چبا رہے ہیں۔ فلسطینی شیر اسرائیلی فوجی گاڑیاں چلا کر ساتھ لے آئے، بمع ۱۵۰ سے ۲۰۰ اسرائیلی فوجی جن میں سینئر افسران بھی پکڑے جو غزہ میں قید ہیں۔ (قیدی پکڑنے کا مقصد اپنے قیدیوں کو بدلے میں اسرائیلی جیلوں میں دہائیوں کی قید سے چھڑانا بھی ہے۔ جہاں نہایت کم عمر بچے، خواتین بھی اسرائیلی فوجیوں کو پتھر مارنے کے جرم میں قید ہیں!) جواباً اسرائیل نے اندھا دھند بزدلانہ (بمقابلہ فلسطینی شیر جنگجوؤں کے) فضائی حملوں سے غزہ میں رہائشی آبادیوں پر بمباری کر کے ۱۸۰۰ شہید اور ۷۳۸۸ زخمی کر دیے ہیں۔ اس وقت غزہ پر قیامت برپا ہے۔ مگر یہ ان کے لیے کچھ نیا تو نہیں۔ اسرائیل نے ۲۰۰۸ء میں ۲۳ دن تک، ۲۰۱۲ء میں ۸ دن، ۲۰۱۴ء میں ۵۰ دن، ۲۰۲۱ء میں ۱۱ دن تک ان پر یک طرفہ حملے کیے۔ غزہ پر مسلط جنگوں سے شہادتوں، معذوریوں، علاج سے محرومی، بے روزگاری، بنیادی سہولیات(بجلی، پانی، گیس) کی بد ترین قلت جیسی بلائیں پھیلی ہیں۔ غربت ۲۰۲۲ء میں اکسٹھ عشاریہ چھے فیصد پر جا پہنچی۔ مگر پھر بھی وہ دہشت گرد ہیں، دنیا کی مظلوم ترین آبادی!
پچھلے تمام حملوں میں فلسطینی ہزاروں میں شہید ہوئے اور اسرائیلی ہلاکتوں کی تعداد ۶ سے ۸ یا ایک آدھ مرتبہ زیادہ ہوئی بھی تو پچاس کے لگ بھگ۔ حماس کمانڈر محمد حنیف نے حملے کے بارے میں بیان دیا: ہم نے یہ کہنے کا فیصلہ کر لیا ہے کہ بس بہت ہو چکی۔ آج ہم نے قبضہ ختم کروانے کو سب سے بڑی جنگ چھیڑی ہے۔ زمین پر نسلی منافرت پر مبنی آخری حکومت کو ختم کیا جانا ہے۔ یہ جواب ہے الاقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی /تقدس پامال کرنے کا۔ آباد کاروں کے فلسطین پر بڑھتے حملوں کا۔
دوسری جانب اہم عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل سے تعلقات بحالی کو مسلم عوام میں غم و غصے کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا۔ عوام کا موڈ فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل مخالف بڑے مظاہروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بحرین میں ’اسرائیل کے لیے موت‘ کے بینر تلے، کویت میں ’صیہونی اللہ کے دشمن‘ نعروں کے ساتھ، ترکی میں تکبیروں کی گونج، یمن، اردن، لبنان، غرض مشرق وسطیٰ کا موڈ سمجھنا مشکل نہیں۔ غازی حماد، حماس ترجمان نے واضح طور پر کہا کہ یہ آپریشن عرب ممالک کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں۔ یہ ایک دشمن مملکت ہے ہمیں اسے روکنا ہے۔
ابھی تو سعودی اور اسرائیلی مل کر کلمے والا سعودی جھنڈا اور ستارۂ داؤد والا اسرائیلی جھنڈا شانہ بشانہ لہرا لہرا کر (قدامت پسند یہودیوں کے ساتھ موسیقی پر) رقص کرتے ویڈیو میں دیکھے گئے اور یہ بھاری سوال حماس نے کھڑا کر دیا! سعودی عرب سیاحت کے شوق میں اپنے دروازے یہودی سیاحوں کے لیے کھولنے کو تعلقات بحال کرنے چلا تھا کہ فلسطینی ایمانی سیاحت پر کمر بستہ ہو گئے۔ (اسلام میں سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے! انہی سیاحوں میں محمد بن قاسم، طارق بن زیاد جیسے، ابن بطوطہ کو پیچھے چھوڑ گئے!) اس تعلقات بحالی مہم کے بھی راکٹوں نے پرخچے اڑا دیے! اسرائیلی تذلیل کا بد ترین دن ۷ اکتوبر (امریکہ کے لیے بھی المیہ)، دوہرا غم یہ کہ افغانستان پر امریکی گھمنڈی حملہ بھی ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو ہوا۔ ۱۹۷۳ء کا اسرائیل پر اچانک مصر و شام کا حملہ ۶ اکتوبر کا تھا! تاریخ دہرائی جا رہی ہے!
٭٭٭٭٭