ملبے کا ڈھیر ہے……ڈھیر پر وہ لیٹاہے۔ جیکٹ کا تکیہ ہے، خاک کا بستر ہے، ننھے ننھے پاؤں جوتوں سے محروم…… بھوک لگی ہے؟…… وہ مڑ کر دیکھتا ہے،خاموشی سے بسکٹ کا بڑھایا ہوا پیکٹ پکڑ لیتا ہے۔ پیاس؟ جوس کا ایک ٹِن…… وہ اب بھی خاموش ہے، آنکھیں ویران، لب ساکت…… شاید وہ کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتا……
عمر چار پانچ سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی……
یہاں کیوں ہو؟
خاموش نظریں جواب دیتی ہیں : جانے کی کوئی جگہ ہی نہیں……!
ساتھ کوئی نہیں؟
……چہرے کی ویرانی کہتی ہے: کسی کی ضرورت بھی نہیں……!
خاموش کیوں ہو؟
وہ کروٹ بدل لیتا ہے:……کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں……!
WCNSF!!
کیا یہ اصطلاح آپ نے سنی ہے؟……WoT، WMD ، IDPs، War refugees اور Collateral damage وغیرہ کے بعد پیشِ خدمت ہے WCNSF…… Wounded Child No Surviving Family……یہ اصطلاح ابھی حال ہی میں غزہ میں وضع کی گئی ہے، اور اس کا مطلب ہے : …… زخمی بچہ جس کے خاندان میں کوئی زندہ نہیں بچا…… زخمی و لا وارث بچہ جس کا اس دنیا میں کوئی نہیں……یہ بچے کون ہیں؟ یہ کہاں سے آئے ہیں؟ یہ امریکہ و یورپ کی سر پرستی اور مکمل مدد و تعاون کے ساتھ غزہ کی بھٹی میں اسرائیل کی تیار کردہ مسلمانوں کی نئی نسل ہے ، جو ’فی الحال‘…… جی ہاں ’فی الحال‘ ……غزہ کے ساتھ مخصوص ہے ……!
آئیے آپ کو آج چند WCNSFs سے ملواتے ہیں۔
یہ وہ بچہ ہے جو ملبے کے ڈھیر پر خاموشی سے سو جاتا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ ماں باپ، بہن بھائی سب کہاں ہیں……؟ اسے نہیں معلوم کہ اسے کھانا کون کھلائے گا، اس کے زخموں سے بہتے خون کو کون صاف کرے گا……؟ اسے نہیں معلوم کہ اس کا گھر کہاں ہے……! پھول سے گالوں والے اس معصوم بچے کا گھر یہی ہے……ملبے کا ایک ڈھیر!
یہ غزہ کے شفا خانے ہیں جہاں ہر گرنے والے بم کے ساتھ زخمیوں اور شہیدوں کی ایک نئی کھیپ داخل ہوتی ہے۔ دھماکوں سے متاثرہ افراد میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ انہی زخمیوں میں رات کے وقت ایک دس سالہ بچی کو لایا جاتا ہے جسے اس کے گھر کے ملبے میں سے زندہ نکال لیا گیا۔ یہ زخمی بچی اپنی مرہم پٹی کرنے والی ڈاکٹر کو جیب سے ایک پرچی نکال کر دیتی ہے، جس پر اس کے گھر کے افراد کے نام درج ہیں۔ اور اس سے کہتی ہے کہ :’’ یہ میرے گھر والے ہیں……خدا کے لیے ان کو ڈھونڈو، یہ ان سب کے نام ہیں، ہاں……‘‘، وہ ایک نام کی طرف اشارہ کرتی ہے،’’یہ میری بہن ہے……اس کو مت ڈھونڈو، مجھے معلوم ہے کہ وہ شہید ہو چکی ہے……!‘‘ ۔
غزہ کے شفا خانوں میں کتنے ہی ننھے منّے، چند ماہ سے لے کر دس سال سے کم عمر بچے ایسے ہیں، جن کی کمر ، بازو یا ٹانگ پر تحریر ہے ’نا معلوم!‘……یہ وہ بچے ہیں جو زخمی حالت میں پائے گئے جبکہ ان کو جاننے پہچاننے والا کوئی فرد نہیں مل سکا۔
خوف سے کپکپاتے اور اپنی کپکپاہٹ پر قابو پانے میں یکسر ناکام ، بڑی بڑی دہشت زدہ آنکھوں والے یہ بچے بھی لاوارث اور نامعلوم ہیں……
چند سال کے ان معصومین نے زمین پر وہ قیامت دیکھی ہے کہ جس کے صدمے نے انہیں والدین تک بھلا دیے ہیں۔ ہسپتالوں کی راہداریوں میں دیواروں سے ٹیک لگائے، ایک ایک بستر پر چار پانچ دیگر بچوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے یہ سب بچے WCNSFs ہیں، جو اپنی خوف سے پھیلی آنکھوں اور کانپتے جسموں کے ساتھ، دہشت زدہ اور شدید ٹراما کا شکار…… ہر آنے جانے والے کو دیکھتے ہیں۔
سبز رنگ کی ٹی شرٹ اور گرد و غبار سے اٹے ہوئے سر کے ساتھ یہ ۶؍۷ سالہ بچہ برہنہ پا سڑک پر گھوم رہا ہے۔ ایک ہاتھ سےمضبوطی سے ایک ۲؍۳ سالہ بچی کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے، دونوں بچے جوتوں سے محروم ہیں۔ امدادی سرگرمیوں میں مصروف آتے جاتے لوگ ان سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ کون ہیں……ان کے والدین کہاں ہیں؟ اور وہ کہاں جا رہے ہیں؟
’’……میری امّی میرے بھائی کے ساتھ ہیں……میں ان کو ڈھونڈ رہا ہوں‘‘، وہ بچہ بہن کا ہاتھ پکڑے عجلت میں جواب دیتا ہے، یکایک اس کی نظریں سڑک پار کسی کو دیکھتی ہیں اور وہ چیخ اٹھتا ہے،’’……وہ میرا بھائی ہے…… خدا کی قسم! وہ میرا بھائی ہے……وہ دیکھیں!! وہ اُدھر……وہ میرا بھائی ہے……میں آپ کی منّت کرتا ہوں، میرے بھائی کو میرے پاس لے آئیں……‘‘ ۔
سڑک کے اس پار ایک چھوٹا سا ۳ سالہ بچہ چند لوگوں میں گھِرا کھڑا ہے، ایک فرد اس کو جا کر لے آتا ہے، بڑے بھائی کا ہاتھ پکڑتے ہی چھوٹا رو پڑتا ہے اور کہتا ہے:’’ ماما! مجھے ماما چاہییں……! میری ماما کہاں ہیں……؟!‘‘۔
دو چٹیاؤں میں سمٹے بالوں والی یہ ۹ سالہ بچی ہسپتال کے پارکنگ لاٹ میں ایک بینچ پر بیٹھی رو رہی ہے۔ ایک دھماکے نے اس کی والدہ کی جان لے لی ہے اور شہدا کے کٹے پھٹے جسموں میں اس نے اپنی ماں کو اس کے بالوں کے رنگ سے پہچانا ہے۔ روتی، چیختی، بلکتی اس بچّی کو دنیا میں کچھ نہیں چاہیے……سوائے اپنی ماں کے……!
ایک دوسرے ہسپتال میں ایک زخمی بچی جس کے زخموں سے بہتے تازہ خون نے اس کی قمیض رنگین کر دی ہے، اس کے ماتھے، چہرے اور بازوؤں سے اب بھی خون بہہ رہا ہے مگر وہ اپنے زخم صاف کرنے والے نرس کو مستقل ایک ہی بات کہے جا رہی ہے :
’’…… مش مشکلۃ …… اختی مہم……!!‘‘( میرا کوئی مسئلہ نہیں…… میری بہن کو بچاؤ! میری بہن کی فکر کرو!!)
یہ غزہ کا بچپن ہے…… دور تک بمباری کا شکار سڑک پر دھول اور دھوئیں کے بادل ہیں، ان بادلوں میں سے دو افراد ایک بچے کو سہارا دیے لا رہے ہیں۔ بچے کے سر پر گہرے زخم ہیں، پورا چہرا خون سے تر ہے، کھوپڑی کا کچھ حصّہ غائب ہے……ہاں مگر وہ زندہ ہے……! وہ اب بھی زندہ ہے……!
یہ بچہ سڑک پر کھڑا رو رہا ہے…… بمشکل دس گیارہ سال کا بچہ…اور روتا ہوا اپنے ہاتھ اٹھائے کہے چلا جا رہا ہے کہ
’’میں نے ان ہاتھوں سے ایک جسم اٹھایا ہے……ایک جسم جس کا کوئی سر نہیں تھا!‘‘……
یہ نصیرۃ سے نکلنے پر مجبور ہو جانے والی ایک چھوٹی بچی ہے جو اب الکرامۃ میں رہ رہی ہے، اس نے اپنی دوست کو اس کے پہنے ہوئے کوٹ سے پہچانا……کیونکہ بمباری میں اس کا سر جسم سے الگ ہو گیا!
یہ دو دن سے ملبے تلے دبے رہنے کے بعد زندہ نکال لی جانے والی بچی ہے۔ اسے جلدی سے ہسپتال کے بستر پر لا لٹایا گیا ہے، ڈاکٹر اور نرسیں اس کا معائنہ کر رہی ہیں۔ دو دن سے ملبے تلے دبے رہنے کے سبب اس کا ڈائپر گندا اور بھرا ہوا ہے……چھوٹی سی یہ بچی دو دن سے بھوکی اور پیاسی ہے……مگر اس سب سے بڑھ کر یہ اس جنگ کی دہشت ہے جس نے اسے مفلوج کر دیا ہے، جو وہ سہمی ہوئی نظروں سے سب کو دیکھتی ہے مگر کچھ بولتی نہیں……
ڈاکٹر نام پوچھ رہے ہیں……اس کے گھر والوں کے بارے میں پوچھ رہے ہیں……لانے والے کہتے ہیں : ’’لا اھلھا……!!‘‘، کوئی بچا ہی نہیں!
یہ غزہ میں نور شمس کیمپ ہے…… پناہ گزینوں کا ایک کیمپ …… یہاں بچوں کے ایک گروہ سے کہا گیا کہ (اسرائیلی) فوج کا کیمپ میں داخل ہونے کا خدشہ ہے……سننے والے بچوں میں سے ایک جواب دیتا ہے:’’یہ معمول کی بات ہے……وہ کیمپ میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔ ہم اپنے پیاروں کو کھوتے ہیں، وہ شہید ہوتے ہیں……اور ان کے بعد مزید لوگ آ جاتے ہیں۔ ہم مزاحمت کرتے رہیں گے……
اور ان کی ناکیں توڑتے رہیں گے! وہ ہمیں ہمارے گھروں سے نکال پھینکنا چاہتے ہیں……ہر گز نہیں! یہ ہماری زمین ہے اور یہ ہماری عزت ہے……وہ چاہے اپنی مشینیں اور بلڈوزر اور بارود و بم بھی لے آئیں، مگر ہمارا ربّ ہمارے ساتھ ہے اور وہ ہمارا حامی ہے……ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا! ہم سب فلسطین کے لیے قربان ہوجائیں گے، ہم سب فلسطین پر فدا ہو جائیں گے!!‘‘۔
یہ غزہ کے ایک ہسپتال کی راہداری ہے، زخمیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کمروں کے بعد زخمی افراد راہداریوں، لابی، اور حتی کے پارکنگ لاٹ تک میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اس راہداری میں چند چھوٹے چھوٹے بچے کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے ایک چھوٹا سا کپڑابچھا کر اس میں ایک دو سالہ بچے کو لٹا رکھا ہے۔ کپڑے کے کونے پکڑے ان بچوں میں سے کوئی بھی ۶؍۷ سال سے زیادہ عمر کا نظر نہیں آتا۔
وہ کپڑے میں ڈالے بچے کو راہداری کے ایک کونے سے اٹھا کر دوسرے کی جانب لے جا رہے ہیں۔
دیکھنے والے متبسم چہروں سے دیکھتے ان سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ کیا کھیل رہے ہیں، معصومین ِ غزہ مڑ کر دیکھتے ہیں، شرماتے جھینپتے ہوئے مسکراتے چہروں کے ساتھ بتاتے ہیں:’’یہ شہید حبیب اللہ ہے……یہ شہید ہو گیا ہے،ہم شہید کا جنازہ لے جا رہے ہیں……!‘‘۔
جس ملت، جس قوم ، جس امت کے بچوں کا ’کھیل‘ شہیدوں کے جنازے کا جلوس نکالنا اور اپنے شہیدوں کی شہادت پر خوشیاں منانا ہو…… کیا ایسی ملت، قوم اور امت کو دنیا کی کوئی طاقت ہرا سکتی ہے؟!
یہ ملتِ احمدؐ مرسل ہے، اک شوقِ شہادت کی وارث
اس گھر نے ہمیشہ ’بچوں‘ کو مقتل کے لیے تیار کیا!
٭٭٭٭٭