جس ذلت و خواری کا آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں، امت پر یہ زبوں حالی راتوں رات مسلط نہیں ہوئی، اور اس کسمپرسی کی وجہ ظالم کافروں کی قوت بھی نہیں، بلکہ مسلمانوں کی اپنی کم ہمتی ہے۔ یہ مسلمانوں کی کم ہمتی اور سستی ہی تھی کہ جس کی وجہ سے اوّل تو بہانے بنا بنا کر اقدامی جہاد میں کاہلی برتی گئی اور پھر نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ اقدامی جہاد پر سوال اٹھائے جانے لگے۔ جی ہاں! وہی جہاد جس کا بنیادی ہدف ہی کفار کا زور توڑنا ہے اور ان کے جنگ کرنے کی صلاحیت کو ختم کرنا ہے۔ اسی سستی اور ناعاقبت اندیشی کا لازمی نتیجہ تھا کہ کفار نے ناصرف طاقت حاصل کی بلکہ عالمی منظر نامےپر ایسے ابھرے کہ مسلمانوں کی جگہ انہوں نے دنیا کی باگ ڈور سنبھال لی اور شر و فساد اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر دیا اور’تیسری دنیا‘ کے وسائل لوٹ کر ’ترقی‘ کی منازل طے کیں۔ دنیا پر حکومت کے اصل مستحق (مسلمان امت) کو نیست و نابود کرنے کا بطورِ خاص اہتمام کیا۔ پہلے سے ہی سستی کا شکار بلکہ بالفاظ دیگر اقدامی جہاد سے فرار امت اب مزید سستی کا شکار ہوئی اور عسکری لحاظ سے زیر ہونے کے بعد فکری لحاظ سے بھی زیر ہونا شروع ہوئی اور مغربی اقدار کو اپنانا شروع کیا، یہاں کہ استعمار کے سامنے خود اپنے دفاع سے بھی ہاتھ کھینچ لیے اور مختلف تلبیسات کرکے سرے سے جہادکے ہی منکر ہو گئے۔ اور پھر جو سر پھرے کفار سے بھڑنے لگے، تو انہیں بھی انجامِ بد سے ڈرانے لگے۔ اور کفار کی طاقت کی ہیبت سے گھبرا کر مظلوموں کو دفاع کرنے کے بجائے مزید ظلم سہنے اور بھیڑیے (حملہ آور دشمن) کے سامنے رحم کی بھیک مانگنے کی تلقین کرتے رہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ امت کمزور سے کم کمزور تر ہوتی گئی اور کفار مزید جری ہوتے گئے۔
مسلمانوں کی اس حالتِ زار کا تذکرہ ایک حدیث شریف میں کیا گیا ہے اور اگر غور کیا جائے تو یہی حدیث رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی ایک دلیل بھی ہے کہ جو پیش گوئی انہوںﷺنے کی تھی وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
یوشک الأمم أن تداعی علیکم کما تداعی الأکلة إلی قصعتها. فقال قائل ومن قلة نحن یومئذ؟ قال: بل أنتم کثیر ولکنکم غثاء کغثاء السیل و لینزعن الله من صدور عدوکم المهابة منکم و لیقذفن الله في قلوبکم الوهن. فقال قائل یا رسول الله وما الوهن؟ قال: حب الدنیا و کراهیة الموت.
’’قریب ہے کہ تم پر دنیا کی اقوام چڑھ آئیں گی (تمہیں کھانے اور ختم کرنے کے لیے) جیسے کھانے والوں کو کھانے کے پیالے پر دعوت دی جاتی ہے۔ کسی نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم اس زمانہ میں بہت کم ہوں گے؟ فرمایا کہ، نہیں بلکہ تم اس زمانہ میں بہت کثرت سے ہو گے لیکن تم سیلاب کے اوپر چھائے ہوئے کوڑے کباڑ کی طرح ہوگے اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہاری ہیبت و رعب نکال دے گا اور اللہ تعالیٰ تمہارے قلوب میں وہن (بزدلی) ڈال دے گا۔ کسی کہنے والے نے کہا، یا رسول اللہ ﷺ وہن (بزدلی) کیا چیز ہے ؟ فرمایا کہ دنیا کی محبت اور موت سے بیزاری۔‘‘ [رواه أبو داود والبيهقي في شعب الإيمان]
یہ انجامِ بد (دنیا کی آسائش کا چھن جانا، در بدر ہونا اور مارے جانے) کا خوف ہی ہے جس کی وجہ سے ہم اتنے بے ہمت ہوگئے کہ اپنا دفاع بھی نہیں کرتے جبکہ مرغی اور بلی بھی اپنا دفاع کر لیتی ہے اور دیگر جانوروں میں بھی دفاع کرنا فطری طور پہ پایا جاتا ہے، لیکن ہم ان سے بھی گئے گزرے بن گئے ۔والعیاذ باللہ!
لیکن الحمد للہ! یہ امت بالکل بانجھ بھی نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مایوسی پھیلانے والے زیادہ ہیں اور ہمت و حوصلہ دینے والے مفقود ہیں، امت میں ایک ایسا طبقہ ابھرا جس نے نا صرف کفار کی ’بے مثال طاقت‘ کے جعلی سحر کو توڑ ڈالا بلکہ امت کےلیے ایک مثال بھی قائم کی کہ کیسے مٹھی بھر مسلمان بھی تیاری کرکے اور صبر و استقامت کے ساتھ کفار پر ایسی کاری ضربیں لگا سکتے ہیں کہ جس سے ان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔
امت کے انہیں سر پھروں میں سے وہ بھی ہیں جو صہیونی غاصبوں پر طوفان بن کے جھپٹ پڑے۔ رات کی تاریکی میں کالے پتھر پر چلنے والی چیونٹی پر نظر رکھنے کا دعویٰ کرنے والے ایک ایسے طوفان سے بے خبر رہے جس نے ان کی انٹیلی جنس اور ٹیکنالوجی کا پول پوری دنیا کے سامنے کھول دیا، اور صہیونی غاصبوں کو وہ نقصان اٹھانا پڑا جو انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔
مولانا عاصم عمر فرماتے ہیں کہ جہاد تو کمزورں کو طاقتور بنانے کے لیے فرض کیا گیا ہے۔
ذرا تصور تو کیجیے کہ کیسے مٹھی بھر مجاہدین کے سامنے صہیونیوں کے اسلحے سے لیس لشکر بے بس ہوگئے، اور وہ گھبراہٹ میں اپنے دیگر اتحادیوں کو جنگ میں کودنے کی دعوت دینے لگے۔ اور امریکہ، کینیڈا اور یورپی یونین بالفعل مدد کے لیے آ پہنچے۔
کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ۳۶۵ مربع کلو میٹر کے علاقے کے لوگ اتنی بڑی طاقتوں سے نبردآزما ہیں اور اپنے عقیدے سے چمٹے ہوئے ہیں اور جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ جہاد ہی کی برکت ہے کہ اتنے چھوٹے علاقے کے لوگ بھی وہ مزاحمت دکھا رہے ہیں جو کہ دنیا کی آدھی آبادی یعنی مسلمان بھی نہیں دکھا پا رہے۔
انجامِ بد سے خائف ہوکر اگر یہ مجاہدین گھر بیٹھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے تو آج ان کا حال بھی باقی بے حس مسلمان ممالک کی افواج کی طرح ہو جاتا جو کفار کے در کی چاکری کرنا تو جانتے ہیں لیکن اسلام اور امت کے دفاع کے لیے اپنی جگہ سے ہلنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ان کے ہتھیار اور ایٹم بم زنگ آلود ہوکر ناکارہ تو ہوجائیں گے لیکن مسلمانوں کے کسی کام نہ آسکیں گے۔
مبارک ہو طوفان الاقصی برپا کرنے والے مجاہدین کو کہ ان کے لیے رب کی طرف سے دو میں سے ایک وعدہ ہے، جو ان کے رب نے اپنے کلام مجید میں کیے ہیں کہ یا تو فتحیاب ہو کے غازی ٹھہریں گے، یا پھر شہید ہو کر رب کی جنتوں کے مستحق ٹھہریں گے، ان شاء اللہ۔
٭٭٭٭٭