نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | تیسری قسط

امارت اسلامیہ افغانستان کے مؤسس عالی قدر امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد﷬ کی مستند تاریخ

عبد الستار سعید by عبد الستار سعید
3 ستمبر 2024
in افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ, اگست 2024
0

دوسری فصل: افغانستان اور فتنۂ کمیونزم

افغانستان سلطنتوں کا قبرستان اورحملہ آور دشمن کی جائے تباہی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک تجزیے کے مطابق اس خطے کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کے نصف سے زائد سال بے امنی اور بحران میں گزرے ہیں۔ افغانستان کی تاریخ میں امن و امان کا طویل دور بیسویں صدی عیسوی کی درمیانی دہائیاں تھیں۔ آل یحییٰ (نادرخان، ظاہر شاہ اور داؤد خان) کے پچاس سالہ دورِ حکومت کے دوران افغانستان میں امن و امان تھا۔ ان حکومتوں کے آخری سال ملا محمد عمر مجاہد کے بچپن اور نوجوانی کا دور تھا۔

سرد جنگ کے ان سالوں میں افغانستان نے کافی عرصہ تک عالمی سطح پر پالیسی غیر جانبدارانہ رکھی ۔ لیکن اس دور کے حکمرانوں کی غفلت اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے شمالی اشتراکیت پسند پڑوسی سوویت یونین کے ساتھ مل گئے۔ سوویت یونین افغانستان میں دوستی اور امداد کے لبادے میں کمیونزم اور دہریت کا نظریہ لے کر آیا۔ تعلیم، ذرائع ابلاغ اور فوج سمیت حکومت کے مختلف شعبوں میں اشتراکیت پسند داخل ہوئے۔ افغانی اشتراکیت پسند جن کی پشت پناہی سوویت یونین کررہا تھا اس دور کے حکمرانوں نے ان کےسامنے رواداری کا رویہ اپنایا اور حکومت نے صرف ان اسلام پسندوں کی سرکوبی شروع کردی جو افغانی عوام کو کمیونزم کے خطرات سےآگاہ کررہے تھے۔

اس مرحلے میں کمیونزم کے خلاف دعوتی سرگرمیاں، علمائے کرام اور یونیورسٹیوں کے بعض اسلام پسند جاری رکھے ہوئے تھے۔ اگر چہ گاؤں کے علماء، مدرسین اور خطیبوں کی کوئی منظم جماعت موجود نہیں تھی لیکن وقتاً فوقتاً دعوتی مجالس، اجتماعات اور تحریری بیانات کے ذریعے عوام کو کمیونزم کے خطرات سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ اس وقت ملا محمد عمر مجاہد کی عمر دس سال تھی اور آپ ﷫ اپنی دینی تعلیم ضلع’دہراؤد‘ میں جاری رکھے ہوئے تھے، افغانستان کے علماء نے کابل کی ’پل خشتی مسجد‘ میں ملکی سطح پر ایک بڑے اجتماع کا انعقاد کیا تاکہ نظریۂ اشتراکیت اور باقی انحرافات کی روک تھام کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالا جائے۔

جامعہ مسجد پل خشتی کا اجتماع جون ۱۹۷۰ء میں منعقد کیا گیااور یہ کئی ہفتے جاری رہا، جس میں افغانستان کے تمام صوبوں سے علماء نے شرکت کی۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بجا ئےیہ کہ وقت کے حکمران کثیر تعداد میں اس پُر امن اجتماع میں شرکت کرنے والے علماء کی عزت افزائی کرتے، ان کی دینی تجاویز، مشوروں پر لبیک کہتے، انہوں نے بغیر کسی جرم کے ان علمائے کرام کے خلاف ظلم اور تشدد سے کام لیا ، علمائے کرام پر برقی ڈنڈوں(Baton Stun Guns) سے تشدد کیا گیا اور بالآخر ان کو قیدی بنانے کے بعد ملک کے مختلف دور افتادہ علاقوں میں بھیج دیا گیا تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعے کی نوبت نہ آئے۔

پل خشتی کے واقعے کےچار سال بعد ظاہر شاہ کے چچا زاد داؤد خان نے اپنے اشراکیت پسند حامیوں کے ساتھ مل کر ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا اور اپنے آپ کو نام نہاد جمہوریت کا راہنما قرار دیا۔ داؤد خان کے برسرِاقتدار آنے کے بعد افغانی اشتراکیت پسند ایک قدم مزید اپنے اہداف کے قریب ہوگئے۔ اس بار اشتراکیت پسندوں نے حکومت میں باقاعدہ طور پر جگہ بنا لی اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مخالفین (علمائے کرام اور اسلام پسندوں) کی سرکوبی شروع کر دی۔ داؤد خان کی حکومت کے ابتدائی سال افغانستان کے اہل دین کے لیے انتہائی سخت اور خطر ناک تھے، کثیر تعداد میں داعیانِ دین ملک سے باہر پڑوسی ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور ان کی اصلاحی سرگرمیوں پر مکمل طور پر پابندی لگا دی گئی۔

جب اشتراکیت پسندوں نے داؤد خان کے دور میں حکومت کے اندر اثر و رسوخ بڑھا دیا اور اپنے قدم جما لیے تو داؤد خان کی حکومت کا تختہ الٹنے اور مکمل طور پر اشتراکی حکومت قائم کرنے کی مہم کا آغاز کر دیا۔ اگر چہ داؤد خان اپنے دورِ حکومت کے اواخر میں کمیونزم کے خطرے کو بھانپ گیا تھا اور اس نے اشتراکیت پسندوں کی سرکوبی کے لیے بعض فوری اقدامات بھی کیے لیکن اس وقت پانی سر سے گزر چکا تھا۔ اشتراکیت پسندوں نے ۲۷ اپریل ۱۹۷۸ء کو ایک خونریز بغاوت کے نتیجے میں داؤد خان کے اقتدار کا خاتمہ کردیا اور افغانستان میں مارکسزم اور لینن ازم کی فلسفی بنیادوں پر اشتراکی حکومت کا اعلان کردیا ۔

مدرسہ سے جہادی محاذ کی طرف

ملا محمد عمر مجاہد کا رہائشی علاقہ افغانستان کے ضلع ’دہراؤد‘کے ایک دور افتادہ اور پہاڑی علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں ذرائع ابلاغ نہ ہونے کے برابر تھے اس لیےلوگوں کو حکومتی تبدیلیوں اور سیاسی واقعات کی خبریں دیر سے ملا کرتیں۔ اشتراکی انقلاب کے بعد شہری علاقوں یا شہر کے قرب و جوار میں بہت جلد جہادی تحریکوں کا آغاز ہوگیا۔ لیکن دور افتادہ علاقوں میں اشتراکیت پسندوں کے خلاف جہاد کے آغاز میں تاخیر ہوئی۔

اپریل میں ہونے والی بغاوت کے ایک سال بعد ۱۹۷۹ء کے موسمِ بہار میں صوبہ ارزگان کے ضلع ’دہراؤد‘ میں بھی جہادی تحریک کا آغاز ہوا۔ علاقے کےعلماء، عمائدین اور اشتراکی فتنے سے باخبر افراد نے عوام کو فتنۂ اشتراکیت کے خطرے سے آگاہ کیا اور نئے دہری نظام حکومت کے خلاف اٹھنے کی تحریض دلائی۔ ضلع ’دہراؤد‘ میں جہادی تحریک نے زور پکڑا، مجاہدین حکومت کے حمایت یافتہ اشتراکیت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کرتے، ان کے مراکز کو نشانہ بناتے اور دشمن کو سنگین نقصانات سے دوچار کرتے رہتے۔

اسی سال دسمبر میں اشتراکیت کے خلاف جہاد نے مزید زور تب پکڑا جب سوویت یونین کی افواج نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور اپنے آلۂ کار ببرک کارمل کو اقتدار کی کرسی پر لا بٹھایا۔ اس وقت افغان عوام نے منظم طریقے سے جہاد کے لیے کمر کس لی اور جہادی کارروائیوں کو منظم کرنے کی خاطر جبہات، گروپوں اور محاذوں پر تشکیلات کے سلسلوں کا آغاز ہوا۔

۱۹۷۹ء کے اواخر میں ’دہراؤد‘ کے ایک رہائشی مجاہد کماندان ملا میر حمزہ کی طرف سے جہادی محاذ کھولا گیا، جس کا مرکز ضلع دہراؤد کا علاقہ ’میاندو‘ تھا اور اس گروپ میں اکثرمجاہدین وہیں کے رہائشی طلبہ تھے۔ آغاز میں یہ گروپ کسی تنظیم کا رسمی حصہ نہیں تھا۔ ہر مجاہد اپنے ساتھ بندوق لے آیا اور جن کے پاس اسلحہ نہیں تھا انہوں نے چندہ اور قرضے کے ذریعے اپنے لیے اسلحے کا بندوبست کیا، تاکہ اس اسلحے کے ذریعے سوویت یونین کی افواج کا مقابلہ کرسکیں۔

اس گروپ کے تشکیل پانے کے چند ہفتے بعد ملا معاذ اللہ اخوند نامی ایک جوان جہاد کی نیت سے گروپ میں شامل ہوا۔ ملا معاذ اللہ ضلع دہراؤد کے’ شین غولی‘ گاؤں کا رہنے والا تھا۔ اس کا گاؤں ملا محمد عمر مجاہد کے گاؤں ’شہر کہنہ‘ سے متصل تھا۔ ملا معاذ اللہ اور ملا محمد عمر (دونوں اس وقت شہر کہنہ کے مدرسے میں زیر تعلیم تھے اور) ہم عمر تھے۔ آپ دونوں بچپن کے دوست اور کئی سال مدرسہ میں بھی ہم درس طالب علم رہے۔ اسی گہری دوستی کو جاری رکھتے ہوئے چند ہفتے بعد ملا معاذ اللہ اپنے دوست ملا محمد عمر مجاہد (جن کی عمر اس وقت اٹھارہ سال تھی) کو بھی جہادی گروپ میں لے آئے۔ اسی طرح ملا محمد عمر مجاہد جو اب تک ایک گاؤں کے مدرسے کے طالب علم تھے، جہادی محاذوں کے مجاہد بن گئے۔ یہی آپ﷫ کے جہادی زندگی کا آغاز تھا جسے زندگی کے آخر تک ایک متحرک اور ناقابل تسخیر مجاہد کی حیثیت سے اعلائے کلمۃ اللہ، کفر اور فساد کے خاتمے کی خاطر جاری رکھا۔

جہادی زندگی کے ابتدائی سالوں میں آپ کا زخمی ہونا

ملا محمد عمر مجاہد ضلع ’دہراؤد‘ میں طالبان کے ایک جہادی گروپ میں شامل ہوئے۔ اس وقت مجاہدین کواسلحے اور وسائل کی قلت کا سامنا تھا۔ ان کے گروپ کے پاس صرف ایک عدد کلاشنکوف تھی جوکہ گروپ کے امیر کے پاس ہوا کرتی تھی، اس کے علاوہ ان کے پاس جہادی اسلحے میں شکاری بندوق اور ایک بار میں ایک فائر کرنے والی بندوقیں اور پرانا اسلحہ تھا۔ جہادی کارروائیاں ضلع کے ہیڈکوارٹرپر کی جاتیں جس کے اردگرد اشتراکی نظام کی فوجی چھاؤنیاں اور سکیورٹی چیک پوسٹیں تھیں۔ بعد میں جب داخلی اشتراکیت پسندوں اور سوویت یونین کی افواج نے ملک کے دور پار کے علاقوں اور ضلعوں پر فوجی حملے شروع کردیے اور مجاہدین کے خلاف آپریشن کی غرض سے فوجی کانوائے نکالے گئے تو ضلع ’دہراؤد‘ کے مجاہدین صوبہ ارزگان کے مرکزی شہر کی طرف سے آنے والی سڑک پر ’کوتل مورچہ‘ کے پہاڑی علاقے میں دشمن کے کانوائے پر گھات لگا کر اچانک حملے کرتے تھے۔

’کوتل مورچہ‘ نامی علاقہ، جو صوبہ ارزگان کے مرکزی شہر اور ضلع ’دہراؤد‘ کے درمیان ملحقہ علاقہ ہے، دشوار گزار پہاڑیوں، تنگ پہاڑی گزرگاہوں، چٹانوں اور چھپنے کی جگہیں ہونے کی وجہ سے مجاہدین کے گھات لگانے کے لیے موزوں جگہ تھی۔ ملا محمد عمر مجاہد نے اس علاقے میں سوویت یونین اور داخلی اشتراکیت پسندوں کے خلاف کئی دوبدو معرکوں میں حصہ لیا اور اپنی جہادی زندگی میں پہلی بار اس وقت زخمی ہوئے جب ’کوتل‘ مورچے کے علاقے میں شدید جنگ کے بعد دشمن کی طرف سے داغے گئے ہاون (مارٹر)کا گولہ آپ کے قریب آکر پھٹا۔

ملا محمد عمر مجاہد اپنی مضبوط جسمانی ساخت اور جنگوں میں استقامت و ثبات کی وجہ سے بہت جلد اپنے ساتھیوں کے درمیان ایک دلیر مجاہد کی حیثیت سے معروف ہوئے۔ ضلع ’دہراؤد‘ کے تمام جہادی معرکوں میں شرکت کرتے۔ سال میں دو تین بار ضلع ’دہراؤد‘ میں داخلی و خارجی دشمنوں کےکانوائے محاصرے میں پھنسے اپنے فوجیوں کو سامان رسد منتقل کرنے یا دیہی علاقوں میں مجاہدین کے خلاف آپریشن کی غرض سے آتے تھے۔ ملا محمد عمر مجاہد ان عسکری قافلوں کے خلاف معرکوں میں ہمیشہ آگے رہتے۔

۱۹۸۲ء کے اواخر میں ضلع ’دہراؤد‘ کے مجاہدین نے ضلع کے ہیڈکوارٹر پر فیصلہ کن حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ضلع ’دہراؤد‘ کا ہیڈ کوارٹر صوبہ ارزگان میں حکومت کے اہم مراکز میں سمجھا جاتا تھا۔ یہاں ملکی انتظامیہ کے علاوہ دشمن کی کثیر تعداد موجود تھی۔ ضلع کےارد گرد سکیورٹی مورچے بنے ہوئے تھے جو مجاہدین کے حملے کی صورت میں بڑی رکاوٹ تھے۔ ضلع ’دہراؤد‘ کے مجاہدین نے ضلع فتح کرنے کی خاطر پڑوسی صوبہ ہلمند سے بھی کمک مانگی اور ہلمند کے عظیم مجاہد ملا محمد نسیم اخوندزادہ نے دسیوں مجاہدین مدد کے لیے بھجوا دیے۔ ضلعی ہیڈکوارٹر پر کارروائی سے قبل مجاہدین نے عسکری حکمت عملی کے تحت ساتھیوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ اس وقت ملا محمد عمر مجاہد کے گروپ کے کماندان ملا میر حمزہ قندہار گئے ہوئے تھے، دوران جنگ ان کے ساتھیوں کی ذمہ داری ملا محمد عمر مجاہد کو سونپی گئی، مختلف اہداف کو بیک وقت نشانہ بنانے کے لیے ملا محمد عمرمجاہد اور آپ کے ساتھیوں کو ضلع کے شمال میں موجود دشمن کے ایک اہم مورچے کی نشان دہی کی گئی جس کو مجاہدین ’سرہ خزہ‘ (سرخ مورچہ) کے نام سے جانتے تھے۔ دشمن کا یہ مورچہ ایک پہاڑی چوٹی پر واقعہ تھا اور اس پر حملہ کرنے کے لیے اوپر چڑھنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔

کارروائی کے آغاز کے بعد ملا محمد عمر مجاہد اور آپ کے ساتھیوں نے بھی دشمن پر حملے شروع کر دیے، آپ اور مجاہدین کی مسلسل پیش رفت کی وجہ سے دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا، ملا محمد عمر مجاہد اور آپ کے ساتھی ملا عبدالقیوم، مورچے سے دشمن کے تعاقب کی نیت سے آگے بڑھے لیکن دشمن کے جوابی فائر سے آپ دونوں زخمی ہوگئے اور مزید تعاقب جاری نہیں رکھ سکے۔ ملا محمد عمر مجاہد کو دشمن کی کلاشنکوف کی گولی ران میں لگ گئی اور آگے بڑھنے سے رہ گئے۔ ڈاکٹر امیر خانجان ضلع ’دہراؤد‘ میں زخمی مجاہدین کا علاج کیا کرتے تھے، آپ نے ملا محمد عمر مجاہد کے زخم کی مرہم پٹی کی، آپ﷫ کو لگنے والا زخم گہرا تھا لیکن ٹانگ کی ہڈی محفوظ تھی۔ قندھار جانے تک اس زخم کی وجہ سے آپ﷫ لنگڑا کر چلتے یہاں تک کے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زخم خود ہی ٹھیک ہوگیا۔

ضلع ’دہراؤد‘ کا جہادی گروہ جس کے ساتھ ملا محمد عمر مجاہد وابستہ تھے، تین سال گزرنے کے باوجود کسی تنظیم کے ساتھ منسلک نہیں تھا، ملا محمد عمر مجاہد کا قندھار جانے کے بعد یہ گروپ مولوی محمد نبی محمدی کی تنظیم (حرکتِ انقلابِ اسلامی) کے ساتھ منسلک ہوگیا اور اس کا باضابطہ نام ’جبہۂ طلبہ‘ رکھ دیا گیا۔

اگرچہ اس دوران صوبہ ارزگان میں بھی جہادی کارروائیاں جاری رہی، لیکن قریب میں صوبہ قندھار کا جہادی محاذ زیادہ گرم تھا۔ اگر صوبہ ارزگان کے ضلع ’دہراؤد‘ میں سوویت افواج کے ساتھ آمنے سامنے لڑائی کی نوبت سال میں دو تین بار آتی، تو قندھار میں دوبدو جنگ کی نوبت روز کا معمول تھا۔ مجاہدین بڑے راستوں پر دشمن کے کانوائے پر گھات لگاتے اور آئے روز انہیں بھاری جانی و مالی نقصان سے دوچار کرتے۔ ضلع ’دہراؤد‘ کے کئی مجاہدین جن کےاپنے علاقے میں جہادی کارروائیوں سے پیاس نہ بجھتی، وہ جہاد کی نیت سے قندھار چلے گئے۔ ملا نیک محمد، ملا فدا گل، ملا شاہ ولی، ملا برادر اخوند سمیت دوسرے ’دہراؤد‘ کے وہ طالبان تھے جو ان حضرات سے قبل قندھار کے گرم جہادی محاذوں پر پہنچے تھے۔ ۱۹۸۲ء میں ملا محمد عمر مجاہد کے قریبی ساتھی ملا معاذ اللہ کے قندھار جانے کے بعد ملا محمد عمر نے بھی ’دہراؤد‘ کی جگہ قندھار کے جہادی محاذ کا انتخاب کیا۔

ملا محمد عمر کا قندھار کی طرف روانگی

فیض اللہ اخوند کا گروپ

سوویت یونین کے حملے کے ساتھ افغانستان کے دوسرے صوبوں کی مانند جنوبی صوبوں میں بھی جہاد ایک نئے مرحلے میں داخل ہوا تھا۔ صوبہ قندہار، جس میں سوویت افواج کا افغانستان کے جنوب کی سطح پر بڑا فوجی اڈہ موجود تھا، سٹریٹیجک لحاظ سے بہت اہم سمجھا جاتا تھا جس کی نتیجے میں جہادی میدان بھی اسی اہمیت کا حامل اور حالات کا دھارا بدلنے والا بن گیا تھا۔

قندھار میں اشتراکیت پسندوں کی بغاوت کے خلاف جہادی تحریکوں کا آغاز ہوگیا تھا، یہ تحریکیں پہلی بار مشرقی ضلعوں معروف اور ارغستان میں شروع ہوئی، اور بعد میں مجاہدین آہستہ آہستہ شہر کے مضافات اور قرب و جوار کے ضلع ڈنڈی، پنجوائی، ارغنداب اور میوند میں بھی اتر گئے۔

۱۹۸۰ء کا موسم گرما روس کے لیے افغانستان میں پہلا موسم تھا جس کا وہ سامنا کررہے تھے، قندھار میں بھی خونریز جنگیں جاری تھیں، مجاہدین کی متحد تنظیمیں ان کوششوں میں تھیں کہ اس صوبے میں بھی جہادی گروپوں کی تعداد مزید بڑھا دیں تاکہ سوویت فوجوں کے خلاف مقابلے کا توازن برابر رہے اور حملہ آوروں پر زمین تنگ کردی جائے۔

مولوی محمد نبی محمدی کی قیادت میں حرکت انقلاب اسلامی تنظیم، جس سے وابستہ افراد زیادہ تر دینی علماء اور طلباء تھے، افغانستان کے دوسرے علاقوں کی طرح جنوبی زون کی سطح پر بھی اہم جہادی کردار ادا کررہے تھے۔ جنوبی زون کی سطح پر اس تنظیم کے سرکردہ جہادی رہنما امیر ملا موسی کلیم ۱۱ اپریل ۱۹۸۰ءکو شہید ہوگئے۔ ان کی شہادت سے کچھ ہی عرصہ پہلے حرکت انقلاب اسلامی نے اپنے تنظیمی صف بندی میں قندھار کے لیے ایک نئے گروہ کا اضافہ کر دیا، جس کے امیر فیض اللہ اخوند اور عسکری مسئول کماندان عبدالکریم حیدری تھے۔ ملا عبدالغنی اخوند (جو بعد میں ملا برادر اخوند کے نام سے مشہور ہوکر امارت اسلامیہ کے نائبین کے مقام تک پہنچ گئے) اس گروپ کے بانیوں میں سے تھے۔

اس گروپ نے اپنی جہادی سرگرمیوں کا آغاز ایک ایسے وقت میں قندھار شہر کے قریب’ محلہ جات‘ کے علاقے میں شروع کردیا جب اس علاقے میں مجاہدین اعلانیہ موجود نہیں تھے بلکہ صرف گوریلا کارروائی کرتے رہتے۔ پہلے سال اس گروپ نے ضلع ’پنجوائی‘ کے مرکز پر دوسرے گروپوں کے ساتھ مل کر عبد الکریم حیدری کی قیادت میں حملہ کیا۔

۱۹۸۱ء کے موسم بہار میں اس گروپ کے عسکری کماندان عبدالکریم حیدری گروپ سے الگ ہوگئے ان کی جگہ گروپ کے امیر فیض اللہ اخوندزادہ نے اپنے قریبی ساتھی خان عبدالحکیم کو گروپ کا عسکری کماندان بنایا۔ خان عبداالحکیم اگرچہ باضابطہ طور پرگروپ کے عسکری کماندان تھے لیکن دوران جنگ عملی طور پر جنگی قیادت وہی باصلاحیت مجاہدین کیا کرتے تھے جن کا جنگی امور میں تجربہ تھا۔ اسی سال گروپ کا ہیڈکوارٹر ’محلہ جات‘ کے علاقے سے ضلع میوند کے علاقے ’سنگ حصار‘1 منتقل ہوگیا۔

افغانستان کے شمال اور مرکزی علاقوں میں مجاہدین کے تابڑ توڑ حملوں نے مزار شریف تا کابل روس کے رسد و کمک کے مختصر راستے کو بند کردیا تھا اور کابل سے افغانستان کے جنوب تک سامان رسد بہم پہنچانے والے کانوائے مجاہدین کے حملوں کی زد میں تھے، لہذا روس نے افغانستان کے جنوب میں رسد و کمک پہنچانے کے لیے نسبتاً طویل لیکن پر امن راستے کا انتخاب کیا۔

ترکمانستان سے ہرات اور پھر قندھار تک پھیلا ہوا راستہ اگرچہ طویل ہے لیکن اس کا زیادہ تر حصہ دشت اور صحرا سے گزرتا ہے جس پر مجاہدین کا گھات لگانا ممکن نہیں تھا۔۱۹۸۱ء میں ہرات سے قندھار کی طرف روسیوں کے رسد و کمک کے کانوائےآنا شروع ہوئے جس کی وجہ سے قندھار میں جہادی کارروائیوں کی نوعیت بھی بنیادی طور پر تبدیل ہوگئی۔ کیونکہ پہلے قندھار میں شہروں اور ضلعوں میں موجود اہداف پر تعارضی اور گوریلہ حملے کیے جاتے تھے۔ لیکن سوویت کانوائیز کے آغاز سے ، گھات اور دوبدو لڑائیوں کا مرحلہ شروع ہوا۔

اسی سال فیض اللہ اخوند کے گروپ میں صوبہ ارزگان سے ایک مجاہد آئے جو بعد میں اپنے پر اثر جہادی کردار کی بدولت گروپ کے غیر رسمی عسکری مسئول کی حیثیت سے مشہور ہوگئے۔ اس مجاہد کا نام ملا نیک محمد تھا، صوبہ ارزگان کے ضلع چہار چینو کے گاؤں ’خونی‘ کے رہائشی تھے جو ملا برادر اخوند کے تعلق پر اس گروپ کے ساتھ منسلک ہوئے تھے۔

ملا نیک محمد نے اپنے منفرد جہادی کردار کی بنیاد پرگروپ کو کارروائیوں کے ایک نئے مرحلے میں داخل کردیا۔ آپ نے باقی گروپوں کے مجاہدین کے ساتھ مل کر قندھار سے ہرات کے راستے میں قندھار شہر اورضلع میوند کے درمیان والے علاقہ میں روسیوں کی رسد لے جانے والی گاڑیوں اور فوجی کانوائیز کو تباہ کرنے کی غرض سے شدید جنگوں اور گھات لگانے کا ایک ایسا سلسلہ شروع کردیا جو بعد میں روسی فوجیوں کی پسپائی تک جاری رہا اور اس کے نتیجے میں روسیوں کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جہادی مرحلے میں مجاہدین مختلف حربوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاؤ، نظر جان باغ، اشوغو، پاشمول، سنگ حصار اور دوسری جگہوں میں روسی لشکروں پر حملے کرتے، ان کے ٹینکوں، فوجیوں اور رسد لے جانے والی گاڑیوں کو تباہ کرتے، یہاں تک کہ روسی افواج مجبور ہوگئیں کہ اس راستے سے گزرنے کے لیے ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کریں جوملک کے دوسرے اہم راستوں پر سے گزرنے کے لیے اختیار کی جاتی تھیں۔

اس دور کے ایک مجاہد کے بقول اس راستے پر مجاہدین کے گھات لگا کر حملوں نے اشتراکیت پسندوں اور روسیوں کوبوکھلاہٹ کا شکار کردیا تھا یہاں تک کہ ہرات سے کانوائے روانہ ہونے سے قبل راہ چلتے مسافروں اور گاڑیوں کے ڈرائیوروں سے معلوم کرتے کہ ملا نیک محمد سپین مسجد میں تھے یا نہیں۔2

مجاہدین کے تابڑ توڑ حملوں اور روسیوں کو درپیش نقصانات نے ان کو مجبور کردیا کہ کانوائے کو محفوظ طریقے سے گزارنے سے قبل قندھار کی طرف سے بکتر بند گاڑیوں کا ایک کانوائے اس علاقے کی حفاظت کے لیے لایا جائے۔ لیکن مجاہدین ان بکتر بند گاڑیوں کے کانوائے کو بھی حملے کا نشانہ بناتے رہے ، اگرچہ اس طریقے سےرسد لے جانے والے قافلے کچھ حد تک محفوظ ہوگئے لیکن اشتراکیت پسند افواج کے نقصانات کی سطح کم نہ ہوئی۔

ملا نیک محمد نے ۱۹۸۱ءسے ۱۹۸۳ء تک سنگ حصار کے علاقے میں روسی فوجیوں کے خلاف جہاد جاری رکھا، آپ نے ناصرف اشتراکیت پسند دشمن کے مقابل سخت مزاحمت اور فیصلہ کن جنگ کی بنیاد رکھی بلکہ اپنے ساتھ ان خونریز جنگوں میں بہادر ساتھی ملا لعل محمد، ملا عبدالغنی برادر، ملا معاذاللہ وغیرہ کی تربیت بھی کی، جنہوں نے ان کے بعد جہاد میں بھرپور حصہ ڈالا۔

۱۹۸۳ء کی سردیاں سخت لڑائیوں کی شاہد ہیں، اس سردی میں نا صرف یہ کہ ملا نیک محمد شہید ہو گئے بلکہ ان کے گروپ کے ۳۵ سے زائد مجاہدین بھی شہید ہوئے۔ ملا نیک محمد کی شہادت کے بعد دوسرے سرکردہ جہادی رہبر جن کی طرف سب کی نظریں تھی وہ ملا لعل محمد تھے جو زیادہ تر اوقات قندھار شہر کے قریب ’پنجاؤ‘ کے علاقہ میں دشمن کے کانوائے پر حملے کرتے رہتے۔

ملا لعل محمد قندھار کے ضلع شاولی کوٹ کے رہنے والے تھے، آپ ملا نیک محمد جیسے تجربہ کار اور باصلاحیت مجاہدین میں شمار کیے جاتے تھے۔ ملا لعل محمد کے گروپ کے مجاہدین میں سے ایک ملا معاذ اللہ (ملا محمد عمر مجاہد کے بچپن اور مدرسہ کے ساتھی) بھی تھے جو صوبہ ارزگا ن کے ضلع ’دہراؤد‘ سے یہاں جہاد کے لیے آئے تھے۔ ۱۹۸۳ء میں اس وقت جب ملا محمد عمر مجاہد صوبہ ارزگان میں زخمی ہوگئے تھے اور علاج کے لیے پاکستان کے شہر کوئٹہ چلے گئے تھے۔ انہیں دنوں اتفاقاً ملا معاذ اللہ بھی زخمی ہوگئے اور انہیں بھی کوئٹہ علاج کے لیے لے جایا گیا۔ بعد میں ان کے گروپ کے امیر ملا لعل محمد تنظیم کے ذمہ داران کے ساتھ ملاقات کرنے اور زخمیوں کی عیادت کے لیے کوئٹہ چلے گئے ۔ وہاں انہوں نے ملا معاذ اللہ اور ان کے دوست ملا محمد عمر کو دیکھا۔ اس ملاقات میں ملا معاذاللہ نے ملا محمد عمر کا تعارف کیا کہ ایک دلیر مجاہد اور آر پی جی راکٹ فائر کرنے میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔

ملا لعل محمد، ملا محمد عمر مجاہد کو کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے پر ہمیشہ روسیوں کے کانوائے گزرتے ہیں۔ ہمارے بہت بہادر ساتھی شہید ہوگئے اور اب ہمیں راکٹ لانچر (آر پی جی) میں مہارت رکھنے والے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ ہمارے گروپ میں آجائیں تو شاید ادھر خدمت کے کثیر مواقع مل جائیں۔

ملا محمد عمر مجاہد نے ملا لعل محمد کے ساتھ وعدہ کیا کہ گاؤں واپسی کے بعد فقط ایک بار اپنے گھر ملنے جاؤں گا اور اس کے بعد آپ کے گروپ میں شمولیت اختیار کروں گا۔ حقیقت میں ملا محمد عمر مجاہد کا یہ فیصلہ اس عظیم تحریک اور تاریخ کا نقطۂ آغاز تھا جس نے ’دہراؤد‘ کے زخمی طالب ملا محمد عمر مجاہد کو دنیا کے سامنے امیر المومنین کی حیثیت سے متعارف کروایا۔ اسی فیصلے کی بنیاد پر ملا محمد عمر مجاہد صوبہ ارزگان کے ضلع ’دہراؤد‘ کو چھوڑ کر صوبہ قندھار کے ضلع’میوند‘ کے علاقے سنگ حصار میں رہائش پذیر ہوئے ، آپ نے ادھر ہی سے اپنے جہاد کو جاری رکھا، ادھر ہی کے امام مسجد اور مدرسہ کے طالب علم بنے اور اسی جگہ سے شر وفساد کو ختم کرنے اور امارت اسلامیہ کی بنیاد ڈالنے کی جدوجہد شروع کی۔

قندھار کی طرف روانگی

ملا محمد عمر مجاہد علاج کے بعد صوبہ ارزگان کے ضلع دہراؤد میں اپنے گھر واپس چلے گئے۔ گھر میں گنتی کے چند دن گزار کر ایسی حالت میں ملا معاذاللہ کے ساتھ قندھار کی طرف روانہ ہوئے جب مکمل طور پر شفا یاب بھی نہیں ہوئے تھے اور زخموں کی وجہ سے لنگڑا کر چل رہے تھے۔ قبل اس کے کہ آپ قندھار پہنچتے ملا لعل محمد دشمن کے اسلحہ خانے پر حملے کے دوران مقابل سمت سے آنے والے بھاری گولے سے شہید ہوگئے۔

ملا محمد عمر مجاہد ، ملا لعل محمد کی تدفین کے ایک دن بعد اُدھر پہنچے، آپ نے اپنے وعدے کو پورا کیا لیکن ملا لعل محمد کی ہمراہی نصیب نہ ہوئی۔ انہی دنوں سنگ حصار کے علاقے میں ایک بڑا کانوائے آیا، ملا محمد عمر مجاہد اور ملا لعل محمد کے باقی ماندہ ساتھی ’پنجاؤ‘ کے علاقے سے ’سنگ حصار‘ منتقل ہوئے اور ادھر ہی گروپ کے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر روسیوں کی بڑے کانوائے کے خلاف جنگ شروع کی۔

روسیوں کو مجاہدین کے پے درپے حملوں نے تنگ کر کے رکھ دیا تھا اور کانوائیز کی حفاظت کے لیے فوجی قطاریں بھی ان کے کام نہ آئیں تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ راستے میں حفاظتی مورچے بنادئیے جائیں تاکہ مجاہدین کو حملوں سے روکا جا سکے۔ ا س مقصد کے لیے روسی فوجیوں اور ان کے داخلی غلام علاقے میں ایک بڑی قوت کے ساتھ داخل ہوئے تاکہ علاقے کو مجاہدین سے صاف کرکے وہاں حفاظتی مورچے بنادئیے جائیں۔ روسی فوجیوں نے نا صرف یہ کہ راستوں میں حفاظتی مورچے بنا دیے بلکہ راستے کے کناروں پر بعض دیواروں کو بھی مسمار کردیا اور ندیوں کو بھر دیا تاکہ مجاہدین گھات لگانے کے دوران انہیں چھپنے کے لیے استعمال نہ کرسکیں۔ ایسے وقت میں جب مجاہدین کے حملے جاری تھے روسی فوجیوں نے مضبوط مورچے بنا دئیے اور بعض علاقوں میں مورچوں کے گرد پرسنل مائنز بھی لگا دیں تاکہ وہ مورچوں پر مجاہدین کے حملوں میں رکاوٹ بن سکیں۔

مجاہدین نے روسیوں کی اس جنگی چال کے مقابل بالمثل حربے کا استعمال کیا۔ مختلف گروپوں کے مجاہدین نے دشمن کے ہر مورچے پر نظر رکھنے کے لیے ایسے مورچے بنا دئیے جس سے وہ ہر لمحہ دشمن کی حرکات پر نظر رکھتے اور دشمن کے فوجیوں کونظر میں آتے ہی یا مورچے سے باہر نکلتے وقت نشانہ بناتے۔

مجاہدین نہ صرف یہ کہ روسی اور ان کے حواریوں کو ہلکے ہتھیاروں کے ذریعے نشانہ بناتے بلکہ ہاون، ۸۲ ایم ایم توپ اور باقی بھاری اسلحے کا بھی استعمال کرتے، بعد میں مجاہدین کو بی ایم (۱۲) راکٹ لانچر بھی مل گئے اور ان کے پے درپے واروں سے روسی مراکز کو نشانہ بناتے۔

کماندان ملا محمد صادق (جو قندھار کے مسئول مجاہدین میں سے تھے) کا کہنا ہے کہ ان جنگوں میں ملا محمد عمر مجاہد کا کردار بہت اہم تھا، ان کے بقول ملا صاحب کے اندازہ لگانے کی قوت بہت قوی تھی جب بھی وہ ہاون یا دوسرے کسی بھاری اسلحے سے دشمن کے مراکز کا نشانہ لیتے تو ان کا ہدف ہرگز خطا نہ جاتا، جب روسی چوکیوں اور مورچوں پر بھاری اسلحے کا براہ راست نشانہ لے کر فائر کرنا زیادہ موثر نہ ہوتا تو ملا صاحب ۸۲ ایم ایم توپ کے ذریعے سے قوسی انداز میں گولے فائر کرتے اور اس کے ذریعے دشمن کے مورچوں کو بالکل درست انداز میں نشانہ بناتے۔ حملوں کا یہ سلسلہ نا صرف یہ کہ دشمن کی نقل و حرکت اور رسد و کمک کے لیے رکاوٹ بنا بلکہ اس نے مورچوں میں موجود سوویت فوجیوں اور ان کے مقامی آلۂکار فوجیوں کی بھی نیند حرام کر رکھی تھی۔

٭٭٭٭٭


1 سنگ حصار یا سنگیسار قندھار شہر کے مشرق میں ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔ یہ علاقہ پہلے وقتوں میں ضلع میوند کا حصہ تھا، بعد میں میوند اور پنجوائی سے بعض علاقوں کو الگ کر کے ’’ژڑئی‘‘ ضلع بنایا گیا، سنگ حصار اب ضلع ژڑئی کے تحت آتا ہے۔

2 سپین مسجد ہرات اور قندھار کے درمیا ن سنگ حصار کے حدود میں ایک جگہ کا نام ہے جوکہ مجاہدین کی اہم کمین گاہ تھی اور روسیوں کے کئی رسد لے جانے والے کانوائے یہاں جل کر راکھ ہوگئے۔

Previous Post

امیر االمومنین ملا عمر رحمۃ اللہ علیہ کی پیشن گوئی اور امریکہ کا زوال

Next Post

توحید کے علمبردار

Related Posts

عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | نویں قسط

12 اگست 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | آٹھویں قسط

14 جولائی 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | ساتویں قسط

9 جون 2025
عمر ِثالث | پہلی قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | چھٹی قسط

26 مئی 2025
عمر ِثالث | پہلی قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | پانچویں قسط

14 مارچ 2025
عمر ِثالث | پہلی قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | چوتھی قسط

15 نومبر 2024
Next Post
توحید کے علمبردار

توحید کے علمبردار

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version