اس تحریر میں مختلف موضوعات پر کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کی آرائ پیش کی جاتی ہیں۔ ان آراء اور کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کے تمام افکار و آراء سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ (ادارہ)
اس شمارے کے کالموں کے جائزے میں درج ذیل موضوعات شامل ہیں:
- پاکستان
- مجموعی صورتحال
- مہنگی بجلی اور آئی پی پیز کی لوٹ مار
- بھارت
- مدھیا پردیش میں توہین رسالت کا واقعہ
- فلسطین
- یحییٰ سنوار: حماس کے نئے سربراہ
- غزہ جنگ میں امریکی کردار
- اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی حالتِ زار
- غزہ میں آگ اور خون کا کھیل
پاکستان | مجموعی صورتحال
پاکستان کے حالات جس نہج پر چل رہے ہیں، یہ کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ حکومت سے ملک سنبھالا نہیں جا رہا، گزشتہ چھ ماہ میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے ہر اعتبار سے ملک کا ستیا ناس کر دیا ہے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ ہے جو ظلم و طاقت کے بل بوتے پر اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دینے کی سعی کر رہی ہے، لیکن بظاہر حالات اس کے کنٹرول سے بھی نکلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عوام الناس میں فوج کے خلاف نفرت ہے جو اندر ہی اندر بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی جھلک سوشل میڈیا پر بھی نظر آ رہی ہے۔ فوج سوشل میڈیا کو تو کنٹرول نہ کر سکی لیکن اس نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پاکستان میں پابندی لگا دی۔ اربوں ڈالر کی فائر وال چین سے منگوا کر پاکستان میں فعال کی تاکہ فوج اور حکومت کے خلاف بولنے والی ہر آواز کا کھوج لگا سکے۔ لیکن اس کے نتیجے میں ملکی انٹر نیٹ انتہائی سست رفتاری کا شکار ہو گیا۔جس کی وجہ سے آن لائن چلنے والے کاروبار بری طرح متاثر ہوئے۔
امن عامہ کی صورتحال مخدوش ہوتی جا رہی ہے
فوج نے اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش میں ’خود احتسابی‘ کا عمل شروع کرتے ہوئے سابقہ ڈی جی آئی ایس آئی بدنامِ زمانہ فیض حمید کو گرفتار کر کے اس کا کورٹ مارشل شروع کر دیا۔ دوسری طرف صحافیوں کو اس کے خلاف لکھنے کی کھلی چھوٹ دے دی۔ (ورنہ کسی کی کیا جرأت کہ فوج کے خلاف قلم اٹھائے۔) حالانکہ فیض حمید نے وہی سب کچھ کیا جو ۷۷ سال سے فوج کے اعلیٰ عہدیدار کرتے آ رہے ہیں ۔ اس اقدام کا مقصد فوج میں خود احتسابی کا عمل دکھا کر عوام کو رام کرنا ہے۔ پاکستانی اخبار اٹھا کر دیکھیں تو صحافیوں کے کالم فیض حمید کی سازشوں، مخفی منصوبوں اور کرپشن کو بے نقاب کرتے نظر آئیں گے اور یہ سب کچھ مقتدرہ کی مرضی سے ہو رہا ہے۔
دوسری طرف دیکھیں تو غریب عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں، ملک میں غربت سے تنگ آ کر خودکشی کرنے کی شرح بڑھ رہی ہے، پچھلے چھ ماہ میں شہباز شریف کی حکومت نے کئی بار بتدریج بجلی مہنگی کی، جس کی وجہ سے اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور بجلی کے بل بھرنا عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہو گیا ہے۔
پاکستان | مہنگی بجلی اور آئی پی پیز کی لوٹ مار
پاکستان میں مہنگی بجلی کی اہم وجہ آئی پی پیز (Independent Power Plants) ہیں۔ جن سے حکومت بجلی خرید کر عوام کو مہیا کرتی ہے۔ یہ آئی پی پیز ماضی میں کیے گئے معاہدوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سستی بجلی بنا کر مہنگے داموں حکومت کو بیچتے ہیں۔ صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ آج امیر ہو یا غریب ہر پاکستانی بجلی کے بلوں کا رونا رو رہا ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے ۲۶ جولائی کو اسلام آباد میں دھرنا دیا جو ۱۴ دن چلا اور حکومت سے ایک تحریری معاہدے کی صورت میں اختتام پذیر ہوا، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے نئے سرے سے نئی شرائط کے تحت کیے جائیں اور بجلی سستی کی جائے۔ اب اس پر عمل کتنا ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ آئی پی پیز اور مہنگی بجلی کے معاملے کو سمجھنے کے لیے چند کالموں سے اقتباس قارئین کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔
حکومتی پہیہ چل نہیں رہا| سہیل وڑائچ
’’ لگتا ہے کہ بہت سی افواہیں بے پرکی اڑائی ہوئی ہیں مگر یہ تو حقیقت ہے کہ اندر ہی اندر گڑبڑچل رہی ہے، مطمئن کوئی نہیں ہے نہ مقتدرہ اور نہ نونی حکومت، مقتدرہ تیز ترین ڈیلیوری کی توقع رکھتی تھی اور نونی اختیار و طاقت نہ ہونے کے شاکی ہیں۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی مقبولیت کا دباؤاور عدالتوں کے پے درپے حکومت کے خلاف فیصلے بھی نظام پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں وزیر اعظم کی رخصتی یا تبدیلی کسی بھی فریق کے لیے سودمند ثابت نہیں ہوگی بلکہ یہ نظام کے مکمل انہدام کا پہلا مرحلہ ہو گا، گو واقعات کا دھارا اسی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے مگر یہ بالآخر نظام کے زوال پر منتج ہو گا۔
سیاست ٹھہرے ہوئے پانی کا جوہڑ نہیں رواں اور بہتے پانی کا دریا ہے۔ ہر حکومت کو نئے چیلنجز درپیش ہوتے ہیں کبھی دہشت گردی سب سے بڑا مسئلہ تھا، کبھی لوڈشیڈنگ سب سے بڑا مسئلہ بن گئی، کبھی خراب معیشت اہم ایشو ہوتا ہے، کبھی خارجہ پالیسی اور کبھی دفاع۔ اس سیاسی حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تو بحران دربحران الجھے ہوئے مسائل ہیں لیکن اب مہنگی بجلی اتنی وبالِ جان بن چکی ہے کہ اسے حل کئے بغیر نہ حکومت چل سکتی ہے اور نہ ریاست چل سکتی ہے۔
اس وقت سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مہنگی بجلی ہر گھر کے لئے ناقابل برداشت ہو چکی ہے، صنعت کار بھی اتنی مہنگی بجلی برداشت نہیں کر پا رہے۔آج کی بنگلہ دیش نامنظور تحریک یا لوڈشیڈنگ ختم کرو تحریک مہنگی بجلی ختم کرنے کی ہے جو حکومت یا سیاست دان مہنگی بجلی کو ختم کرائے گا وہ ہیرو ہو گا اور جو مہنگی بجلی قائم رکھنے میں ممدومعاون بنےگا وہ زیرو ہو جائے گا۔
ابھی تک شہباز حکومت آئی پی پیز کے ساتھ کھڑی ہے اگر ان کا مؤقف بدستور یہی رہاتو انہیں سیاسی طور پر مزید نقصان پہنچے گا۔ایسا لگ رہا ہے کہ حکومتی جماعت سے کہیں زیادہ اس مسئلے کی حساسیت کا احساس مقتدرہ کو ہے اور وہ مسلسل اس معاملے کی UPDATEلے رہے ہیں۔
تضادستان اس وقت اپنی تاریخ کے MOTHER OF CRISIS (مادر بحران) سے گزر رہا ہے۔ معاشی بحران، سیاسی بحران، انتظامی بحران، اعتماد کا بحران اور اب مہنگی بجلی کا عذاب، حکومت اگر تیزی سے فیصلے نہیں کرے گی تو بے اطمینانی اور مایوسی اور بڑھے گی۔ نونی حکومت امید دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکی، کوئی خواب تک نہیں دکھا سکی، اگر یہی حال رہا تو ان کے بارے میں نظر آنے والے برے برے خواب کہیں حقیقت نہ بن جائیں…… ‘‘
[روزنامہ جنگ]
مہنگی بجلی کا مستقل حل ضروری ہے| عثمان دوہی
’’پاکستان میں بجلی کے نرخ اتنے زیادہ بڑھ چکے ہیں کہ وہ عوام کی برداشت سے باہر ہوگئے ہیں۔ اس وقت بجلی 70 روپے فی یونٹ تک پڑ رہی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بہت جلد عوام کو سستی بجلی مہیا کرنے کا بندوبست کر رہے ہیں۔ دیکھیے یہ وعدہ کب پورا ہوتا ہے۔ اس وعدے کی تکمیل کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ وزیر توانائی اویس لغاری پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ آئی پی پیز کے معاملے کو حکومت نہیں چھیڑ سکتی کیونکہ ان کے معاہدوں میں ردّ و بدل ناممکن ہے۔ بہرحال اس وقت عوامی سطح پر آئی پی پیز کے خلاف ہر طرف آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔
ادھر مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے صرف پنجاب میں بجلی کے نرخ کم کرنے اور وہ بھی صرف دو ماہ کے لیے یہ سہولت فراہم کرنے پرسخت اعتراض کیا گیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سینئر رہنما مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ پاکستانی صرف پنجاب میں ہی نہیں بستے ہیں بجلی کے نرخ پورے ملک میں یکساں کم کیے جائیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ بجلی کے نرخ کم کرنے کے لیے وفاقی حکومت تیزی سے کام کر رہی ہے تو پھر بیچ میں پنجاب حکومت کاصرف دو ماہ کے لیے بجلی کے نرخ میں کمی کرنے کا اعلان عجیب سا لگتا ہے۔
پنجاب اور وفاقی حکومت چونکہ دونوں ہی (ن) لیگ سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے کہیں ایسا تو نہیں کہ بڑے صوبے کے عوام کو 14 روپے فی یونٹ کا لالی پاپ دے کر اور دیگر صوبوں کے عوام کو ان کی حکومت سے الجھا کر معاملے کو دو مہینے کی طوالت کے بعدٹھنڈا کرنا مقصود ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت وفاقی حکومت بجلی کے معاملے میں بری طرح پھنس چکی ہے یا تو وہ اتنے طاقتور ہیں کہ حکومت کوہلا سکتے ہیں یا پھر ان میں حکومت سے قربت رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ لگتاہے پنجاب حکومت نے وفاق کی مشکل کا حل یہ نکالا ہے کہ وہ اگر 14 روپے فی یونٹ ریلیف دے کر عوام کو خوش کرسکتی ہے تو وفاق18 روپے فی یونٹ سہولت فراہم کرکے معاملے کو نمٹا سکتا ہے مگر اب معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے اب تو پورے پاکستان کے عوام بجلی کے نرخ کم کرائے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘‘
[روزنامہ ایکسپریس]
آئی پی پیز کی لوٹ مار اور مہنگی بجلی، ذمہ دار کون؟| سمیرا سلیم
’’ بجلی کے بلوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ ہر طرف آئی پی پیز کمپنیوں کی لوٹ مار کا ذکر ہو رہا ہے۔ مہنگائی، روزگار کی عدم دستیابی، معاشی چیلنجز اور سیاسی عدم استحکام کے باعث حکومت دباؤ کا شکار ہے۔ ایسے میں حکومتی بنچوں سے بھی بجلی کی ان نجی کمپنیوں سے متعلق آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔
حالیہ الیکشن میں نگران کابینہ کا حصہ رہنے والے ڈاکٹر گوہر اعجاز نے آئی پی پیز کمپنیوں بارے بڑے خوفناک انکشافات کیے ہیں۔ ان کے مطابق 106 آئی پی پیز میں سے 48 فیصد کمپنیاں 40 بڑے خاندانوں کی ملکیت ہیں اور یہ بجلی کی اصل قیمت 30 روپے یونٹ کے بجائے 60 روپے ناجائز وصول کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی پی پیز کمپنیوں سے 30 فیصد بجلی خرید کر 70 فیصد کی ادائیگیاں کی گئیں، یہاں تک کہ جنہوں نے ایک یونٹ بھی نہیں بنایا ان کو بھی کروڑوں میں ادائیگیاں کی گئیں ہیں۔ گوہر اعجاز نے وزیر توانائی اویس لغاری سے ان تمام 106 آئی پی پیز کا ڈیٹا پبلک کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
……ایک رپورٹ کے مطابق نجی کمپنیوں کے زیادہ تر مالکان ممتاز کاروباری شخصیات اور حکمران طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد ہے۔ آئی پی پیز کے مالکان میں جہانگیر ترین، ندیم بابر، سلیمان شہباز، رزاق داؤد سمیت منشا گروپ، حبیب اللہ گروپ اور سفائر گروپ سرفہرست ہے۔ 1994ء میں بینظیر کے دوسرے دور حکومت میں پاور پالیسی کے تحت کئی آئی پی پیز کے ساتھ کانٹریکٹ کیے گئے، جن کے نتیجے میں جون 1996ء میں حب پاور پلانٹ سسٹم میں شامل ہوا۔ ہر آنے والی حکومت نے سستی بجلی کیلئے نئے ہائیڈرل پاور پراجیکٹس لگانے اور ڈیم بنانے کے بجائے آسان راستہ چنا جس میں کمیشن کی صورت میں لمبا مال بنانے کے بھی خوب مواقع میسر تھے۔ بینظیر بھٹو کے دور سے شروع ہونے والی یہ کہانی نواز شریف، پرویز مشرف، زرداری اور پھر 2013ء میں تیسری بار اقتدار میں آنے والے نواز شریف کے عہد تک پھلتی پھولتی رہی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ملک میں آئی پی پیز کا جمعہ بازار لگ گیا ہے۔ ان ادوار کے حکمرانوں نے بجلی کے مہنگے ترین معاہدے کیے جس کا خمیازہ آج عوام بھاری بھرکم بلوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ 2013ء میں نواز شریف جب اقتدار میں آئے تو ان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ان کمپنیوں کا آڈٹ کرائے بغیر تقریباً 500 ارب روپے سرکلر ڈیٹ کی مد میں من پسند آئی پی پیز کمپنیوں کو دے دیے۔ یہ ادائیگیاں بلز کی فوٹو کاپیوں پر قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کی گئیں جو بعد میں ایک بڑے سکینڈل کی شکل میں عوام کے سامنے آئیں۔
……آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کرتے ہوئے حکمران طبقے نے ان کمپنیوں کے مفادات کا خوب تحفظ کیا۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق توانائی سیکٹر کے جن 5 بڑے پاور ہاؤسز کو ٹیکس فری ادائیگیاں کی گئیں ان میں حب پاور کو 260ارب، اینگرو کو 74 ارب، لکی گروپ کو 62 ارب، سفائر کو 34 ارب روپے اور میاں منشا کے پاور ہاؤسز جو کہ صرف 13 فیصد صلاحیت پر چلے، ان کو سالانہ بجلی کی مد میں 25.6 ارب ادائیگی کر کے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی۔ المیہ ہے کہ ایک ایسا ملک جو چند ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف کے سامنے ڈھیر ہے وہاں عوام کے ٹیکس کے اربوں روپے مفت میں چند سرمایہ داروں میں بانٹے جا رہے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف سے 1958 سے لے کر اب تک تقریباً 31 ارب ڈالر کا قرض لیا جبکہ اسی ملک میں صرف منشا گروپ کو کپیسٹی چارجز کی مد میں ایک سال میں 24 ارب روپے ادا کیے گئے۔ ایف پی پی سی کے مطابق آئی پی پیز ماہانہ 150 ارب روپے کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں وصول کر رہی ہیں۔ چونکہ زیادہ تر کمپنیوں کے مالکان کا تعلق حکمران طبقہ سے ہے اس لیے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ تاہم اس بار بجلی کے بھاری بلوں نے جو حشر کیا ہے اس پر عوام کا صبر بھی جواب دے گیا ہے۔ ‘‘
[روزنامہ نئی بات]
بھارت | مدھیا پردیش میں توہین رسالت کا واقعہ
بھارت میں حال ہی میں مدھیا پردیش میں ایک ہندو سادھو مہانت رام گیری ملعون نے اپنی تقریر کے دوران نبی پاک ﷺ کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے، جس کے خلاف مسلمانوں نے مختلف علاقوں میں شدید احتجاج کیا اور رام گیری ملعون کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کی خاطر تھانے کا رخ کیا۔ لیکن پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے نا صرف انکار کیا بلکہ احتجاج کرنے والے افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ ملعون رام گیری نے ایک مراٹھی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندوؤں کو ہوشیار رہنا چاہیے، جو کچھ کہنا تھا میں نے کہہ دیا میں اس کے ساتھ کھڑا ہوں اور نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں۔
مہاراشٹر میں حکومتی سرپرستی میں احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے خلاف کاروائیاں کی گئیں، معاملہ زیادہ بڑھا تو اس ملعون کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی، جس میں شکایت کنندہ نے درج کروایا:
’’رام گیر مہاراج کے الفاظ سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے اور دونوں برادریوں کے درمیان دراڑ پیدا ہو ئی ہے۔‘‘
افسوس کا مقام ہے کہ بھارت میں گاہے بگاہے ہندو انتہا پسند اسلام اور پیغمبرِ خدا ﷺ کے خلاف توہین آمیز بکواس کرتے رہتے ہیں جیسا کہ ماضی میں نوپور شرما ملعونہ نے کیا۔ اکثر مواقع پر تو میڈیا تک بات ہی نہیں آنے دی جاتی، اور نہ ہی کبھی کسی ہندو کو اس معاملے پر گرفتار کیا جاتا ہے نہ سزا دی جاتی ہے۔ رہ گئے مسلمان تو یہ بات وہاں بسنے والے مسلمانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ ’سیکولر انڈیا‘ سے انہیں کیا حاصل ہو رہا ہے، سوائے ذلت و رسوائی، مذہبی منافرت اور حقوق کی سلبی کے؟
اسی موضوع پر اردو ٹائمز میں ندیم عبد القدیر لکھتے ہیں:
اب مسلمان اہانتِ رسول ﷺ کے خلاف پر امن احتجاج بھی نہیں کر سکتا؟ | ندیم عبد القدیر
’’مدھیا پردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے اور وہاں تو یہ صورتحال اس قدر بھیانک ہو گئی کہ رام گیری کے خلاف معاملہ (ایف آئی آر) درج کرنے کی مانگ کرنے والے ایک کانگریسی مسلم لیڈر حاجی شہزاد علی کے مکان پر حکومت نے بلڈوزر چلا دیا۔ مکان ہی نہیں بلکہ مکان کے باہر کھڑی گاڑیوں کو بھی توڑ دیا گیا۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس قدر نفرت انگیز جذبے کے ساتھ یہ کاروائی ہوئی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ رام گیری کی ذلیل حرکت کے خلاف شکایت درج کروانے کی مانگ کرنے والے مسلم نوجوانوں کو پولیس نے زنجیر سے باندھ کر سڑکوں پر ان کا جلوس نکالا۔ یہ سارا کام مسلم قوم کی توہین کرنے، ان کی بے عزتی کرنے کے لیے انجام دیا گیا۔
……اس پورے معاملے کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ معاملے کے کلیدی مجرم یعنی رام گیری کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی، نہ ہی اسے گرفتار کیا گیا، نہ ہی اس کا مکان بلڈوزر سے منہدم کیا گیا اور نہ ہی اسے ہتھکڑی پہنا کر سڑکوں پر گھمایا گیا۔ حکومت کا یہ برتاؤ چیختا ہوا اعلان ہے کہ بی جے پی حکومت رسول پاک ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ گستاخی کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو اس قدر بھیانک سزا دینے کی منشا یہ ہے کہ آئندہ کبھی شانِ رسالت ﷺ میں گستاخی پر مسلمان کوئی احتجاج نہ کرے۔‘‘
[اردو ٹائمز]
فلسطین | یحییٰ سنوار: حماس کے نئے سربراہ
شیخ اسماعیل ہنیہ کی شہادت بلاشبہ فلسطینی مزاحمتی تحریک کے لیے بہت بڑا دھچکا تھی لیکن حماس کی شوریٰ نے جلد ہی متفقہ طور پر یحییٰ سنوار کو حماس کے سربراہ کے طور پر چن لیا۔ یحییٰ سنوار کا نام ہی بزدل اسرائیلیوں کے لیے ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔
یحییٰ سنوار اس وقت خود غزہ میں موجود ہیں اور وہیں سے اسرائیلی جارحیت کے سامنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مضبوط چٹان کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ اللہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی حفاظت فرمائیں اور انہیں اسرائیل کی تباہی اور شکست کا سبب بنا دیں۔ آمین۔
یحییٰ سنوار جنہیں ۷ اکتوبر کے مبارک حملوں کا انجینئر بھی کہا جاتا ہے، میڈیا کے سامنے بہت کم آتے ہیں اور اسماعیل ہنیہ کی طرح پبلک فگر نہیں، لیکن ان کی بہادری، اولوالعزمی اور اسرائیل کے خلاف مؤثر حکمت عملی ہی ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کی ہٹ لسٹ میں پہلے نمبر پر ہیں۔ انہوں نے دو دہائیاں اسرائیلی قید میں اسرائیلی ظلم و تشدد برداشت کیا اور اسی قید کے دوران انہوں نے عبرانی زبان پر مکمل عبور حاصل کر لیا۔ شیخ احمد یاسین نے جب حماس کا عسکری ونگ ’القسام بریگیڈز‘ بنایا تو یہ اس کے بانی اراکین میں شامل ہوئے اور اسرائیل کے خلاف کئی اہم کاروائیوں میں شرکت کی۔
۲۰۲۱ء میں وائس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں یحییٰ سنوار نے کہا تھا:
’’اگرچہ فلسطینی جنگ کے خواہاں نہیں، کیونکہ یہ (انسانی جان کے اعتبار سے) بہت مہنگی پڑتی ہے، لیکن وہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:
’’ایک لمبے عرصے تک ہم نے پر امن اور عوامی مزاحمت کی کوشش کی۔ ہمیں توقع تھی کہ دنیا، آزاد لوگ اور عالمی ادارے ہماری عوام کا ساتھ دیں گے اور قابضین کو جرائم کے ارتکاب اور لوگوں کے قتل عام سے روکیں گے، لیکن بدقسمتی سے، دنیا کھڑی تماشہ دیکھتی رہی۔‘‘
جب حماس کی حکمت عملیوں کے بارے میں پوچھا گیا، جن میں ایسی راکٹ فائرنگ شامل ہے جو شہریوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ فلسطینی اپنی دسترس میں موجود وسائل کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ جان بوجھ کر بڑے پیمانے پر فلسطینی شہریوں کا قتل کر رہا ہے، حالانکہ اس کے پاس جدید اور درست نشانہ لگانے والے ہتھیار موجود ہیں۔
انہوں نے کہا:
’’ کیا دنیا ہم سے توقع رکھتی ہے کہ ہم درندوں کا شکار بنتے ہوئے بھی اچھا برتاؤ کریں؟ ہمیں ذبح کیا جا رہا ہو اور ہم چوں بھی نہ کریں؟‘‘
جس طرح شیخ اسماعیل ہنیہ کو شہید کر کے ناپاک اسرائیل نے فلسطینیوں کو ایک پیغام دیا، اسی طرح یحییٰ سنوار کو حماس کا سربراہ مقرر کر کے اسرائیل کو بھی ایک طاقتور پیغام دیا گیا۔
مڈل ایسٹ مانیٹر پر ایک کالم نگار یہی پیغام ہمیں بتا رہے ہیں، جس کے اقتباس کا ترجمہ ذیل میں پیش ہے:
3 messages portrayed to the world by choosing Sinwar to succeed Haniyeh| Mahmoud Allouch
’’ سنوار کا انتخاب حماس تحریک کی جانب سے تین اہم پیغامات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے:
پیغامِ یکجہتی اور اسرائیل کو چیلنج
غزہ اور اس سے باہر اپنے دھڑوں کے درمیان تعلقات کی سطح پر داخلی یک جہتی کا مظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ، سنوار کا انتخاب قابضین کو چیلنج کرنے کا پیغام بھی دیتا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ تحریک اب بھی مضبوط اور ہنیہ کی شہادت کے بعد جنگ کے نئے دور کی وجہ سے پیش آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نئی قیادت پیدا کرنے کے قابل ہے۔
اب جبکہ اسرائیل تحریک کے سیاسی بیورو کے سربراہ کو بیرون ملک قتل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے تاکہ غزہ میں تحریک کے حوصلے پست کر سکے اور اپنی عسکری اور انٹیلی جنس صلاحیتوں کا اظہار اپنے ڈیٹرنس کے تصور کو بحال کرنے کی خاطر کرسکے، جو ۷ اکتوبر کے بعد چکنا چور ہوگیا تھا، اسے سنوار کا سامنا کرنا ہو گا، نا صرف طوفان الاقصیٰ کے انجینئر اور زمین پر مزاحمت کے راہنما کے طور پر، بلکہ حماس کے سیاسی راہنما کے طور پر بھی۔
نیتن یاہو کے لیے ذلت کا پیغام
ہنیہ کے بعد سنوار کا انتخاب کر کے، تحریک نیتن یاہو کو ذلیل کرنا اور اس کی داخلی ہزیمت میں اضافہ کرنا چاہ رہی ہے جس کا اسے سنوار تک پہنچنے، جسے اسرائیل ۷ اکتوبر کے حملوں کا بنیادی ذمہ دار قرار دیتا ہے، اور اسے قتل کرنے میں اپنی عسکری اور انٹیلی جنس ناکامی کی وجہ سے سامنا ہے۔
اس انتخاب کے بعد، نیتن یاہو کو ہنیہ کے قتل اور القسام بریگیڈز کے کمانڈر محمد ضیف، اور ان کے نائب مروان عیسٰی کے قتل کے بارے میں اپنے دعووں کی تشہیر کرنے میں شدیدخجالت کا سامنا کرنا پڑے گا، جنہیں وہ جنگ کے مقاصد کے حصول میں کامیابی قرار دیتا ہے۔
مذاکرات میں طاقت
ہنیہ کے قتل نے مذاکرات میں نیتن یاہو کی طرف سے معاہدے سے بچنے اور جنگ کو ممکنہ حد تک طول دینے کے لیے کی جانے والی دھوکہ دہی کو واضح طور پر ظاہر کیا۔ ہنیہ کے جانشین کے طور پر سنوار کا انتخاب، حماس کی جانب سے مذاکرات کے معاملے میں تین واضح پیغامات دیتا ہے۔
- پہلا یہ ہے کہ جب تک نیتن یاہو دنیا کے ساتھ دھوکہ دہی کرتا رہے گا، حماس مزید ان مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے تیار نہیں۔
- دوسرا یہ ہے کہ تحریک کا حتمی موقف زمین پر مزاحمت کے ذریعہ طے ہوگا۔
- تیسرا یہ ہے کہ اب سے ثالثوں کو مستقبل میں کسی بھی ممکنہ معاہدے کے دائرۂ کار کا تعین کرنے کے لیے سنوار کے ساتھ معاملات کرنے ہوں گے ۔‘‘
[Middle East Monitor]
فلسطین | غزہ جنگ میں امریکی کردار
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو طاقت کے نشے میں اس قدر مست اور اندھا ہو گیا ہے کہ اپنے یرغمالیوں کی پرواہ کیے بغیر فلسطینیوں کی نسل کشی اور پورے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ اس دوران جنگ بندی کے مذاکرات جتنی دفعہ بھی ہوئے ہیں اس میں رخنہ ڈالنے میں اور مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے میں نیتن یاہو اور اس کی کابینہ میں موجود چند مذہبی جنونی وزراء ملوث ہیں۔ شیخ اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنا بھی جنگ بندی کے معاملے کو ناممکن بنانے کی ہی ایک کڑی ہے۔ اس طرح کی سیاسی چالیں صہیونی اور ان کے چیلے ماضی میں بھی چلتے آئے ہیں۔ اس متعلق الجزیرہ پر ایک تجزیہ نگار کی تحریر سے اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
‘Less flexible?’ Just say it NYT, Israel is sabotaging a ceasefire deal | Belén Fernández
’’ اب جبکہ غزہ کی پٹی نہ صرف ’مشرق وسطیٰ کے تنازعات کا مرکز‘ بن چکی ہے، بلکہ یہاں ایک کھلی نسل کشی بھی وقوع پذیر ہوئی ہے، نیو یارک ٹائمز ایک بار پھر خبریں تخلیقی انداز میں ہلکی کر کے دکھانے کی کوشش کر رہا ہے، جیسے کہ منگل کی شہ سرخی تھی: ’دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل نے حالیہ غزہ کے جنگ بندی مذاکرات میں لچک کا کم مظاہرہ کیا‘۔
بالفاظ دیگر: اسرائیل ایک ایسی جنگ میں جنگ بندی کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہا ہے جو اب سے بہت پہلے ہی جنوری میں غزہ کی آبادی کا ایک فیصد مار چکی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ۷ اکتوبر کے بعد سے تقریباً چالیس ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ ایک ’لنسینٹ جائزے‘ کے مطابق حقیقی ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ چھیاسی ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اپنی جانب سے، جوبائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو اضافی بیس ارب ڈالر کے اسلحے کی منتقلی کی منظوری دی ہے، حالانکہ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ وہ جنگ بندی کے لیے کوشاں ہے۔
بہرحال، اگرچہ اسرائیل کبھی بھی امن کے لیے سنجیدہ نہیں رہا، پورا اسرائیلی منصوبہ ہی جنگ اور قتل کے استمرار پر مبنی رہا ہے، کسی کو اسرائیل کی نہ صرف جنگ بندی معاہدوں بلکہ بالعموم نام نہاد ’’امن عمل‘‘ کو سبوتاژ کرنے کی طویل تاریخ سے آگےدیکھنے کی ضرورت نہیں، لیکن اسی دوران وہ فطرتاً کسی حل پر پہنچنے میں ہر طرح کی تمام ناکامیوں کے لیے فلسطینیوں کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔
۲۰۰۵ء میں اسرائیل کے غزہ کی پٹی سے باضابطہ انخلاء سے ایک سال قبل، جس سے علاقے سے اسرئیلی قبضے کے خاتمے کو قیاس کیا جاتا ہے، اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شارون کے سینئر مشیر ڈوو ویسگلاس نے روزنامہ ہاریٹز کو اس معاہدے کی تفصیلات ذکر کیں۔ ویسگلاس نے ہاریٹز کو بتایا:
’غزہ سے انخلاء کے منصوبے کی اہمیت امن عمل کو منجمد کرنے سے کسی درجے کم نہیں تھی۔‘
اس نے مزید کہا:
’اور جب آپ اس عمل کو منجمد کرتے ہیں، تو آپ فلسطینی ریاست کے قیام کو روک دیتے ہیں، اور پناہ گزینوں، سرحدوں اور یروشلم پر بات چیت کو روک دیتے ہیں۔‘
اور وہی ہوا:
’در حقیقت، اس پورے پیکیج کو جو فلسطینی ریاست کہلاتا ہے، اور اس کے ساتھ جو کچھ بھی وابستہ ہے، ہمارے ایجنڈا سے لامحدود مدت کے لیے ہٹا دیا گیا ہے…… یہ سب [امریکی] صدارتی حمایت اور دونوں ایوانوں کے کانگریس کی توثیق کے ساتھ ہوا ہے۔‘
یقیناً، آپ صرف سب کو قتل کر کے بھی اس سارے فلسطینی ریاست کے پیکج کو ایجنڈے سے ختم کر سکتے ہیں۔ اور جیسے جیسے نسل کشی میں تیزی آ رہی ہے جبکہ جنگ بندی مذاکرات کا اگلا دور جمعرات سے شروع ہونے والا ہے، نیو یارک ٹائمز کا یہ کہنا کہ ’معاہدے پر پہنچنا شاید مشکل ہو سکتا ہے‘ دراصل حقیقت کو کم تر کر کے دکھانا ہے۔ ‘‘
[Al Jazeera English]
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ خود ثالث بن کر جنگ بندی کے لیے مذاکرات کروا رہا ہے۔ حالانکہ امریکہ ہی کی شہ پر اب تک اسرائیل پوری جرات سے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور اس میں استعمال ہونے والا اسلحہ بھی امریکہ ہی فراہم کر رہا ہے۔ مڈل ایسٹ مانیٹر پر امریکہ کی اس منافقانہ پالیسی اور غزہ کی صورتحال پر غزہ میں موجود ایک صحافی معتصم کی تحریر سے اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ کریں:
The US is not a credible ceasefire mediator, but a genocide partner | Motasem A Dalloul
’’ امریکہ مذاکرات کی سربراہی کر رہا ہے اور اس کو صرف اسرائیل کی سلامتی اور خطے میں اپنے مفادات کی فکر ہے۔ امریکہ کو فلسطینیوں اور عربوں کی بھلائی کی ہرگز بھی پرواہ نہیں۔ چاہے جو بھی ہو۔
اس کی جنگ بندی کی کوششوں میں شمولیت کا جائزہ لیا جائے تو بعض کا ماننا ہے کہ امریکہ واقعی جنگ بندی اور غزہ میں خونریزی اور اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کے خاتمے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ تاہم، صورتحال کی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ منافقت: امریکہ صرف وقت حاصل کر رہا تھا جس کی ضرورت اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو مشن مکمل کرنے کے لیے تھی، یعنی غزہ میں فلسطینی مزاحمت سے چھٹکارا حاصل کرنا۔
نسل کشی کے آغاز سے ہی، امریکہ نے غزہ کے مقبوضہ اورشدید محصور علاقے میں ’طویل‘ اور ’تباہ کن‘ جنگ کے لیے خود کو تیار کر لیا تھا، کیونکہ خطے میں یہ واحد مقام ہے جو اسرائیل اور امریکہ کے استعماری منصوبوں کی راہ میں کانٹے کی حیثیت رکھتا ہے۔
لہٰذا، ابتدائی مرحلے میں، امریکہ نے ۷ اکتوبر کو ہونے والی فلسطینی مزاحمت کی کاروائی کو حماس سے چھٹکارا پانے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، چاہے اس کوشش کی کتنی ہی انسانی اور مالی قیمت کیوں نہ چکانی پڑ جائے۔ ‘‘
[Middle East Monitor]
فلسطین | اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدوں کی حالتِ زار
یوں تو اسرائیل کی قید میں فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اذیت ناک، انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے ، لیکن سات اکتوبر کے بعد سے جس غیر انسانی سلوک سے فلسطینی قیدی گزر رہے ہیں اس نے گوانتانامو بے اور ابو غریب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ پچھلے کچھ ماہ سے زندہ بچ کر آ جانے والے فلسطینی قیدی بھی وہاں کیے جانے والے مظالم کی تفصیلات میڈیا کو بتا رہے ہیں۔ خصوصا ً ’سدی تیمان حراستی مرکز‘ جہاں فلسطینی قیدیوں کو رکھا جاتا ہے، وہاں جنسی زیادتی اور تشدد کے ایسے واقعات قیدیوں نے بتائے ہیں کہ روح کانپ اٹھے۔ لیکن مغربی دنیا اور عالمی حقوق کی تنظیمیں اندھی اور بہری ہو چکی ہیں۔ فلسطینی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کو تجزیہ نگاروں نے موضوعِ قلم بنایا ہے۔ اقتباسات ملاحظہ کریں:
A call for collective global action in support of Palestinian prisoners | Qadura Fares
’’ جن فلسطینیوں کو رہا کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ ان پر جو گزرا وہ ابو غریب اور گوآنتانامو حراستی مراکز میں ہونے والی چیزوں سے زیادہ ہولناک تھا، جہاں امریکی افواج عرب اور دیگر مسلم مردوں کو تشدد کا نشانہ بناتی تھیں اور غائب کر دیتی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی گواہی دی کہ بعض حراست میں لیے گئے افراد کو تشدد اور شدید مار پیٹ کے ذریعے قتل کیا گیا۔بیت الحم سے تعلق رکھنے والے ایک قیدی، معزز ابیت نے، جنہیں جولائی میں رہا کیا گیا، الزام لگایا کہ بن گویر نے ذاتی طور پر اس پر تشدد میں شرکت کی۔
اسرائیلی حکام نے قیدیوں کے وکلا، خاندان، اور یہاں تک کہ طبی عملے، بشمول ریڈ کراس کو قیدیوں سے ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کر رکھا ہے۔ انہوں نے اجتماعی سزا کے اقدامات کیے ہیں، ان کے خاندانوں کے گھر تباہ کیے ہیں، ان کے رشتہ داروں کو گرفتار کیا ہے اور انہیں یرغمال رکھا ہے، اور کچھ کو خفیہ حراستی کیمپوں اور فوجی اڈوں میں غیر قانونی طور پر منتقل کیا ہے بغیر یہ بتائے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے، جو کہ جبری گمشدگی کے جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں کی مذمتوں کے باوجود، بن گویر اور اسرائیلی حکومت کےباقی اراکین نے ان پالیسیوں پر اصرار کیا ہے۔ بن گویر نے یکم جولائی کو بیان دیا کہ:
’قیدیوں کو سر میں گولی مار کر ہلاک کیا جانا چاہیے اور فلسطینی قیدیوں کی سزائے موت کا بل پارلیمنٹ کو منظور کرنا چاہیے، تب تک ہم انہیں زندہ رہنے کے لیے کم سے کم کھانا دیں گے۔ مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔‘
اسرائیل نے، جو کہ ایک قابض طاقت ہے، بڑے پیمانے پر حراست کے ذریعے ۱۹۶۷ء سے فلسطینی سماجی، معاشی اور نفسیاتی ساخت کو منظم طور پر تباہ کیا ہے۔ تب سے لے کر آج تک دس لاکھ سے زائد فلسطینی گرفتار کیے جا چکے ہیں، ہزاروں کو انتظامی حراست کے تحت طویل عرصے تک کے لیے یرغمال بنایا گیا، اور ۲۵۵ قیدی اسرائیلی جیلوں میں ہلاک ہوئے۔
فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جرائم اکتوبر ۲۰۲۳ء میں شروع نہیں ہوئے بلکہ یہ ۱۹۴۸ء سے بھی پہلے سے شروع ہونے والی نسل کشی، بے گھر کر دینے اور نسل پرستانہ نظام کے ایک منظم عمل کا تسلسل ہیں۔
اسرائیل کو ان بھیانک جرائم کے ساتھ بچ کر نکلنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ‘‘
[Al Jazeera English]
فی قیدی تین چمچ چاول | وسعت اللہ خان
’’ ایک لیک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اسے اسرائیل کے چینل بارہ پر ایک رپورٹ کی شکل میں دکھایا گیا ہے۔لگ بھگ تیس فلسطینی قیدی گودام نما ہال میں اوندھے بندھے پڑے ہیں۔ سب کی آنکھوں پر پٹی ہے۔کیمپ کی حفاظت پر مامور اسرائیل کے ریزرو یونٹ نمبر سو کے دس سے گیارہ فوجی اس ہال میں داخل ہوتے ہیں اور ایک قیدی کو بازؤوں سے پکڑ کے ہال کے ایک کونے میں لے جاتے ہیں۔ان فوجیوں نے نگراں کیمروں سے بچنے کے لیے اپنے اوپر حفاظتی ڈھالیں تانی ہوئی ہیں۔دوسرے منظر میں لیٹے ہوئے قیدی کے اوپر تین ڈھالیں ہیں اور ان کے سائے تلے جو دو فوجی نظر آ رہے ہیں وہ کوئی کارروائی کر رہے ہیں۔
جب اس قیدی کو کئی گھنٹے بعد حالت انتہائی غیر ہونے کے سبب جیل کے ہسپتال پہنچایا جاتا ہے اور ڈاکٹر معائنہ کرتے ہیں تو خود انھیں یقین نہیں آتا کہ کس طرح کوئی نوکیلی دھاتی شے کسی انسان کی پشت میں ایسے گھسائی جائے کہ اس کی انتڑیاں تک ادھڑ جائیں اور مسلسل خون رسنے سے دھڑ مفلوج ہو جائے۔
جب خاردار تاروں کے پار کی دنیا نے یہ ویڈیو رپورٹ دیکھی تو عراق کی ابوغریب جیل اور گوانتانامو میں تشدد کو اگلے لیول تک پہنچانے والے ملک امریکہ کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ شاگرد (اسرائیل) گرو ( امریکہ ) سے اس میدان میں بھی بازی لے گیا۔ ترجمان نے میڈیا کا منہ بند کرنے کے لیے کہا کہ قیدیوں کے انسانی حقوق کی پامالی اور ریپ جیسی اذیتوں کی بابت امریکہ کی پالیسی ’زیرو ٹالرنس‘ ہے۔امید ہے اسرائیلی فوج کا محکمہ انصاف مجرموں کو جلد از جلد کیفرِ کردار تک پہنچائے گا۔
مگر خود اسرائیل میں کیا ہوا؟ ملٹری پولیس نے سدی تیمان کیمپ میں متعین دس ریزرو فوجیوں کو حراست میں لے لیا۔ ان میں سے تین کو رہا کر دیا گیا۔ باقی سات کے خلاف ہنوز چھان بین جاری ہے اور باضابطہ فردِ جرم دو ہفتے بعد بھی عائد نہیں ہو پائی۔ سیکڑوں اسرائیلی شہریوں نے سدی تیمان کیمپ کو گھیرے میں لے لیا۔ انہوں نے قومی جھنڈے بلند کیے ہوئے تھے اور گرفتار ’ریپ ہیروز‘ کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔
……اگر انتہائی ’بااخلاق فوج‘ لاکھوں لوگوں کو گھروں سے بے دخل کر کے سرحد پار دھکیل سکتی ہے، ہزاروں عورتوں بچوں کو غیر معینہ عرصے تک قید رکھ سکتی ہے، نسل کشی کے لیے ہردم تیار ہے اور ریپ سمیت ہر ممکن ہتھیار آزما سکتی ہے تو سوچیے اگر یہی فوج ’بداخلاق‘ ہوتی تو کیا کیا نہ کرتی؟
یہ کوئی ایک قید خانے کی داستان نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل کو اس وقت غزہ نامی دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بند تئیس لاکھ قیدیوں کی زندگیوں سے کھیلنے اور بھوک پیاس اور دواؤں کے قحط سے مارنے کی کس قدر لامتناہی کھلی چھوٹ ہے۔
……کسی بھی جیل میں بین الاقوامی ریڈ کراس کا داخلہ بند ہے، اندر کی خبریں یا تو چھوٹنے والے قیدیوں یا ضمیر کے ہاتھوں نوکری چھوڑنے والے گنتی کے پہرے داروں کے ذریعے رستی رستی پہنچ جاتی ہیں۔ مثلاً ایک جیل سے باہر آنے والے ایک زندہ قیدی عاطف اواد کے مطابق گیارہ قیدیوں کو روزانہ دو پلیٹ بھر چاول ملتے ہیں۔ یعنی فی کس تین چمچے چاول۔ عاطف جب قید سے نکلا تو اس کا وزن پچیس کلو تک کم ہو چکا تھا۔ گھر والے بھی نہ پہچان پائے۔
اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزل سموترخ نے تازہ بیان میں کہا ہے کہ جب تک اسرائیلی یرغمالی رہا نہیں ہوتے بیس لاکھ فلسطینیوں کو بھوکے مارنا جائز ہے۔ یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزف بوریل اور جرمنی و فرانس کے وزرائے خارجہ نے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے نیتن یاہو حکومت سے وزیر کی بجائے وزیر کے بیان سے لاتعلقی کا مطالبہ کیا ہے (ایک زوردارِ قہقہہ بر اشرافیہِ غرب)۔
ایسا نہیں کہ مسلمان ممالک اس المیہِ عظیم سے لاتعلق ہیں۔گزشتہ ہفتے جدہ میں اسلامی کانفرنس وزرائے خارجہ کے یک روزہ غیر معمولی ہنگامی اجلاس میں ایک بار پھر موئے اسرائیل کو اسی طرح بددعائیں دی گئیں جس طرح دوپٹے پھیلا پھیلا کے ردالیاں لاش پر بین کرتی ہیں۔‘‘
[روزنامہ ایکسپریس]
فلسطین | غزہ میں آگ اور خون کا کھیل
سرکاری اندازے کے مطابق غزہ میں تادم تحریر شہداء کی تعداد چالیس ہزار چھ سو سے زائدہو گئی ہے۔ جبکہ ایک اندازے کے مطابق حقیقت میں ملبے تلے دبی ہوئی لاشوں کی تعداد، مختلف بیماریوں اورطبی وسائل کی محرومی سے جانوں کا ضیاع اور بھوک اور خوراک کی کمی کی وجہ سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کو اگر ملا دیا جائے تو ایک لاکھ چھیاسی ہزار کی تعداد بنتی ہے۔ اسی طرح زخمیوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیلی بمباری سے غزہ کی دو تہائی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ تقریباًچار کروڑ بیس لاکھ ٹن ملبہ جمع ہو گیا ہے۔ اس سارے ملبے کو اٹھانے میں پندرہ سے بیس سال لگ سکتے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ غزہ میں کیا قیامت برپا ہے۔
روزنامہ نئی بات میں ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر لکھتی ہیں:
بھاڑ میں جائیں انسانی حقوق! | ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
’’ ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں ہے کہ انسان کے بچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح ہوتے رہیں، لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے؟ قاتل سے کوئی جواب دہی اور پوچھ گچھ نہ ہو؟ الٹا اسے تھپکی دی جائے۔ یعنی چالیس ہزار لوگوں کا خون اس قدر معمولی بات ہے۔ اطلاعات آتی ہیں کہ اسرائیل کی بمباری کے بعد انسانی اعضاء اور کٹی پھٹی لاشیں متاثرہ علاقے میں بکھر جاتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی لاشوں کے ٹکڑے پھیل جاتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا لہو، ان کی لاشیں، ان کے بچوں کے جسموں کے ٹکڑے دنیا کی نظر میں نہایت ارزاں ہیں۔ اس مغربی دنیا کی منافقت ملاحظہ کریں، دنیا کے کسی خطے میں کسی انسان پر کوئی ظلم ہوتا ہے تو طاقت ور ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیمیں چیخنے چلانے لگتی ہیں۔ کسی عورت کے ساتھ کوئی واقعہ ہو جائے تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ مختاراں مائی اور ملالہ جیسے واقعات پر یہ ممالک اور ان کی تنظیمیں سالہا سال بلکہ دہائیوں تلک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ہمیں کٹہرے میں کھڑا رکھتی ہیں۔ ہمیں شرمندہ بلکہ ذلیل و رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ لیکن غزہ میں اسرائیل کی بمباری سے ہزاروں خواتین اور بچے ہلاک ہو جائیں، تب کسی کی زبان نہیں ہلتی۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بھی ان ممالک کا یہی طرزِ عمل ہے۔
……اسرائیل کی ڈھٹائی دیکھیں کہ یہ غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالتا ہے، یہ ادویات وغیرہ کی بروقت فراہمی میں رخنہ ڈالتا ہے، یہ ہسپتالوں کے انکیوبیٹر میں پڑے نومولود بچوں کے لئے آکسیجن کی ترسیل روکتا ہے، یہ حاملہ خواتین کو دورانِ آپریشن بے ہوش کرنے والی دوا یعنی انیستھیزیا کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالتا ہے، یہ عالمی میڈیا کو اپنی شرائط پر غزہ تک رسائی دیتا ہے، یہ غزہ میں بجلی، پانی اور ایندھن کی بندش کرتا ہے، یہ کسی قانون ، کسی ضابطے کو گھاس نہیں ڈالتا لیکن اس سب کے باوجود، آج بھی امریکہ، برطانیہ اور دیگر طاقتورممالک اس کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اس کو غیر مشروط امداد اور حمایت کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔
دوسری طرف پونے دو ارب آبادی کے حامل 57 مسلمان ممالک ہیں۔ بیشتر ممالک تیل وغیرہ کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ان میں سعودی عرب جیسے اچھے خاصے اثر و رسوخ کے حامل ممالک بھی ہیں۔ پاکستان جیسے ایٹمی قوت رکھنے والے ممالک بھی۔ لیکن یہ سب صم بکم کی تصویر بنے فلسطین میں جاری خونی کھیل دیکھ رہے ہیں۔ مسلمان ممالک وقتاً فوقتا ًتھوڑی بہت بھاشن بازی یا بیان بازی کرتے ہیں۔ کوئی ایک آدھ قرارداد بھی منظور کر لیتے ہیں۔ امدادی سامان بھی بھجوا دیتے ہیں۔ تاہم عملی طور پر مسلمان ممالک کی طرف سے کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ ممالک خود تفرقے کا شکار ہیں۔ان کے مابین اسلامی بھائی چارے اور اخوت نامی رشتہ قائم نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات، سوڈان، مراکش اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی روابط قائم ہیں، مزید مسلمان ممالک اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے خواہشمند ہیں، پاکستان میں بھی ایسی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں۔ اس صورتحال میں اسرائیل کو کوئی ڈر خوف نہیں ہے۔ وہ فلسطینیوں پر بمباری کرئے، معصوم بچوں کو ذبح کرے، یہاں تک کہ نہایت دیدہ دلیری سے اسماعیل ہنیہ کو قتل کر ڈالے۔ اسے بخوبی معلوم ہے کہ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘‘
[روزنامہ نئی بات]
یوں تو غزہ کے مسلمانوں پر ہر روز ہی بمباریوں، تباہی، دربدری، بھوک اور افلاس میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن واقعات و شواہد اس بات کا ثبوت ہیں کہ فلسطینی خواتین اور بچے اسرائیل کا خاص ٹارگٹ ہیں۔ پناہ گزین کیمپ ہوں یا سکول و ہسپتال کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں۔
الجزیرہ کے مطابق، اس وقت غزہ کے پچاسی فیصد سکولوں کو اسرائیل نے خصوصی نشانہ بنا کر تباہ کر دیا ہے۔ جہاں ہزاروں پناہ گزین رہ رہے تھے۔ یہ صاف صاف نسل کشی اور قتل عام ہے۔ دس اگست کو اسی طرح کے ایک حملہ میں اسرائیلی فوج نے التبین سکول پر عین فجر کے وقت بمباری کی، جبکہ بالائی منزل میں خواتین اور بچے تھے اور زیریں منزل میں فجر کی جماعت کھڑی تھی۔ بمباری نے پہلے بالائی منزل کو نشانہ بنایا پھر جب وہ تباہ ہو گئی تو زیریں منزل کو تباہ کیا۔ اس بمباری میں سو سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ نجانے کس قسم کا دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا کہ لاشیں تک گل گئیں اور پہچان کے قابل نہ رہیں۔ اس قدر ہولناک منظر تھا کہ ان کی مدد کو جانے والے بھی اس قدر ذہنی صدمے کا شکار ہوئے کہ ان کے لیے مدد کرنا مشکل ہو گیا۔
وسعت اللہ خان اس واقعہ کے متعلق لکھتے ہیں:
فرض کرلیں یہ آپکے پیارے کی لاش ہے| وسعت اللہ خان
’’ سات اکتوبر کے بعد سے اب تک دربدر بیس لاکھ سے زائد فلسطینیوں میں سے اکثر نے ہسپتالوں، عبادت گاہوں اور سکولوں میں پناہ لی۔ مگر ان کے لیے ان پناہ گاہوں میں بھی پناہ کہاں؟
چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق تعلیمی اداروں کو کسی بھی نوعیت کی جنگ میں براہِ راست نشانہ بنانا جنگی جرائم میں شامل ہے۔ مگر مقبوضہ فلسطین سے متعلق اقوامِ متحدہ کی خصوصی ایلچی فرانچسکا البنیز کا کہنا ہے کہ امریکی اور یورپی ہتھیاروں سے مسلح اسرائیل نے تاک تاک کر ایک ایک محلے، ہسپتال، سکول، پناہ گزین کیمپ اور سیف زونز کو نشانہ بنایا۔ اگر یہ نسل کشی نہیں تو پھر نسل کشی کیا ہوتی ہے؟
یونیسیف کے مطابق چھ جولائی تک اسرائیل نے پانچ سو چونسٹھ اسکولوں کو براہ راست نشانہ بنایا۔ ان میں تین سو نو سرکاری سکول، ایک سو ستاسی اقوامِ متحدہ کے تحت چلنے والے سکول اور اڑسٹھ نجی سکول شامل ہیں۔ جب کہ جولائی سے اگست کے وسط تک پندرہ مزید سکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔
تازہ ترین حملہ گزشتہ ہفتے ال تلبینی سکول پر کیا گیا۔ سو سے زائد عورتیں اور بچے شہید ہوئے۔اکثر کی لاشیں اس بری طرح جل کے ریزہ ریزہ ہو گئیں کہ رضاکاروں نے لواحقین کو سرمہ ہونے والی ہڈیاں تھیلوں میں بھر کے دیں اور تلقین کی کہ فرض کر لیں کہ یہ ان کے پیارے کی لاش ہے۔ اس حملے میں جو بم استعمال ہوئے ان کے سبب تین پورے پورے خاندان راکھ کی صورت فضا میں تحلیل ہو گئے۔ ‘‘
[روزنامہ ایکسپریس]
یہ واقعہ کس قدر تکلیف دہ اور تباہ کن تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل نے اس سکول پر کل تین بم گرائے اور ہر بم ۹۰۷ کلو گرام وزنی تھا۔ زخمیوں میں بھی بہت سے اس قدر نازک حالت میں ہیں کہ ان کی زندگیاں بچانی بھی مشکل ہو رہی ہیں۔ درجنوں کے جسم کے حصے کٹ گئے اور بہت سوں کے جسم پارچوں سے بھرے ہوئے ہیں جبکہ طبی امداد بھی وسائل کی کمی کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس واقعہ کے بعد برطانوی صحافی اور سیاستدان جارج گیلووے نے سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ لکھی جس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’اگر مسلم دنیا سیاسی اعتبار سے کوئی حقیقی چیز ہوتی، تو آج صبح غزہ میں فجر کی نماز پڑھنے والے ایک سو سے زائد نمازیوں کا قتلِ عام آخری حد ہوتی۔ زمین اب انتقام کے لیے لرز اٹھتی۔ لیکن ایسا نہیں ہو گا……‘‘ [George Galloway]
جارج گیلووے کا یہ بیان امتِ مسلمہ بالخصوص مسلم ممالک کے حکمرانوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے کہ جن کی بے شرمی و بے غیرتی ساری دنیا کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ یہ منافقین کا ٹولہ امتِ مسلمہ کی طاقت اور وسائل پر قابض ہوا بیٹھا ہے اور اپنے اپنے ملکوں میں مسلمانوں کی غزہ کے لیے اٹھائی گئی ہر آواز پر قدغن لگا رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہر مسلم ملک میں رہنے والے عوام اٹھیں، علماء اٹھیں اور ایسے بے غیرت حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کر دیں۔
آج نہیں تو کل فلسطین کے مظلوموں کی آہ و بکا ہی ان حکمرانوں کے انجام کا تازیانہ ثابت ہوگی کیونکہ مظلوم کی آہ اور عرش کے درمیان کوئی شے حائل نہیں ہوتی۔
٭٭٭٭٭