نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home فکر و منہج

گیارہ ستمبر کے حملے…… حقائق و واقعات | پانچویں قسط

( استفادہ: عارف ابو زید)

ابو محمد المصری by ابو محمد المصری
3 ستمبر 2024
in فکر و منہج, اگست 2024
0

یہ تحریر شیخ ابو محمد مصری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’عمليات 11 سبتمبر: بين الحقيقة والتشكيك‘‘ سے استفادہ ہے، جو ادارہ السحاب کی طرف سے شائع ہوئی۔ باتیں مصنفِ کتاب کی ہیں، زبان کاتبِ تحریر کی ہے۔ کتاب اس لحاظ سے اہمیت سے خالی نہیں کہ اس میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے حوالے سے فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ہے، کیونکہ اس کے مصنف خود ان واقعات کے منصوبہ سازوں میں سے ہیں۔ شیخ ابو محمد مصری ﷫شیخ اسامہ بن لادن ﷫کے دیرینہ رفقاء اور تنظیم القاعدہ کے مؤسسین میں سے ہیں اور بعداً تنظیم القاعدہ کے عمومی نائب امیر رہے یہاں تک کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے آپ کو محرم ۱۴۴۲ ھ میں نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔ مجلّے میں کتاب کا انتہائی اختصار سے خلاصہ نقل کیا جا رہا ہے ۔(ادارہ)

جرمنی سے آنے والے وفود

جرمنی کی حکومت دیگر یورپی حکومتوں کی طرح چاہتی تھی کہ دنیا کے بہترین دماغوں کو اپنی طرف کھینچے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ ان ممالک نے عربی واسلامی ممالک کے قابل نوجوانوں کو تعلیم کے مفت مواقع فراہم کیے۔ پھر جو نوجوان وہیں قیام کرنے کو ترجیح دیتے تو وہاں کے کارخانے، کمپنیاں اور تعلیمی مراکز انھیں ایسی خطیر تنخواہیں فراہم کرتیں جو ان کے لیے اپنے ملکوں میں محض خواب وخیال ہوتا تھا۔ بہت سے نوجوان تو وہاں شادی کرنے کو بھی ترجیح دیتے تاکہ اس کے ذریعے وہ وہاں کی شہریت حاصل کرلیں۔

ایسے بعض بھائی جہادی محاذوں کی طرف بھی آئے جہاں انھوں نے سیکھا بھی، سکھایا بھی اور جہادی کاموں کو منظم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ مثال کے طور پر میں یہاں چند وہ نام ذکر کردیتا ہوں جو جہادِ روس کے دوران تنظیم القاعدۃ سے وابستہ ہوئے۔ انجینیر ابو عطا تیونسی امریکہ سے آئے تھے، ابو تراب اللیبی امریکہ یا کینیڈا سے آئے تھے، ابو حمزہ لیبی امریکہ سے آئے تھے، انجینیر ابو عبیدہ موریتانی جرمنی سے آئے تھے، انجینئر ابو تراب اردنی امریکہ سے آئے تھے۔ میں یہاں اس بات کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتا، بلکہ چاہتا ہوں کہ واپس ان چند بہترین نوجوانوں پر بات کروں جو جرمنی سے آئے اور انھیں گیارہ ستمبر کے مبارک حملوں میں امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

دراصل شیشان کے واقعات اور شیشان کے مسلمانوں پر روس کے مظالم جرمنی کے مسلمان نوجوانوں کی توجہ کا خاص مرکز تھے۔ خاص طور پر اس زمانے میں ’جحیم الروس‘ نامی ویڈیو وہاں کے مسلم نوجوانوں کی شیشان کی طرف نفیر کا محرک تھی، جس میں عرب نوجوانوں کے، اپنے برادر مجاہد قائد خطاب رحمہ اللہ کی قیادت میں، بہادری کے کارنامے دکھائے گئے تھے۔ جرمنی میں بعض بھائی تھے جو نوجوانوں کو جہاد پر تحریض دلاتے تھے، ان میں سے ****** بھائی1 بہت مشہور تھے جنھوں نے نوجوانوں کو شیشان کے مجاہدین سے جوڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اسی طرح الجماعۃ الإسلامیۃ مصر کے ****** مصری بھائی تھے جو مذکورہ ویڈیو کی کاپیاں کرکے نوجوانوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔

اس زمانے میں ایک بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ جارجیا اور آذر بائیجان کی حکومتوں نے مجاہدین کے راستے تنگ کر دیے، جس کے سبب داخلِ شیشان میں مجاہدین کے لیے حالات تنگ ہوگئے۔ یوں جرمنی سے نوجوانوں کا شیشان کی طرف جانا مشکل تر ہوگیا۔ اس وقت قائد خطاب شہید ﷫نے اعلانیہ بیان میں کہا کہ نوجوانوں کو شیشانی مجاہدین کی صف میں شامل ہونے سے قبل ضروری ہے کہ وہ تربیت کے لیے افغانستان کا رخ کریں۔ اس کام کی نگرانی کے لیے قائد خطاب نے اپنے بعض بھائیوں کو بھی افغانستان بھیجا جن میں ضحاک یمنی اور جنرل قدوری شامل تھے۔ تنظیم القاعدہ نے اپنے معسکرات کے دروازے ایسے نوجوانوں کے لیے کھول دیے اور مذکورہ دونوں بھائیوں کے اشتراک عمل سے ان نوجوانوں کی تربیت کا عمل شروع ہوگیا۔ اسی طرح بعض امور کے انتظام وانصرام کے لیے باقاعدہ مجاہد قائد خطاب شہید ﷫کے نائب حکیم مدنی جلال آباد میں ہم سے آکر ملے۔

****** بھائی کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے جرمنی سے اوّل اوّل آنے والے بھائیوں میں ابو ولید موریتانی ﷫تھے۔ انتہائی عابد و زاہد، ہر مجلس میں اللہ کی طرف بلانے والے تھے۔ بھائیوں میں مشہور تھا کہ جرمنی میں ان سے زیادہ غضِ بصر کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ آپ تربیت حاصل کرنے کے لیے القاعدہ کے معسکرات میں آئے تاکہ اس کے بعد شیشانی بھائیوں سے جا ملیں۔ دوران تربیت آپ نے شیخ اسامہ بن لادن ﷫کے بہت سے دروس سنے جن میں شیخ اسامہ ﷫ امریکہ کو نشانہ بنانے کی اہمیت بیان کرتے تھے۔ ابو الولید بھائی اس دعوت سے متاثر ہوئے اور آپ نے افغانستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ بنیادی تربیت کے بعد آپ تنظیم سے جڑ گئے اور شیخ اسامہ بن لادن﷫کے ہاتھ پر بیعت کرلی، یہاں تک کہ آپ تنظیم کے معسکرات کے بنیادی اساتذہ میں شامل ہوگئے۔

آپ افغانستان پر امریکی حملے تک یہیں تنظیم کے کاموں میں مشغول رہے۔ سقوط کے بعد آپ وزیرستان کی طرف منتقل ہوگئے جہاں آپ نے پشتو زبان پر اچھا عبور حاصل کرلیا۔ اس کی مدد سے آپ نے پاکستانی مجاہدین کے کئی مجموعات کو تربیت دی جن میں ان کے بعض قائدین بھی شامل تھے۔ اسی طرح آپ نے افغان طالبان کے مجموعات کو بھی تربیت دی جن میں ان کے بعض بڑے کمانڈرز بھی شامل تھے۔ آپ افغانستان میں کئی جنگوں میں بھی شریک ہوئے۔ آپ اسی طرح جہادی خدمات کی انجام دہی میں مصروف تھے کہ شہادت پا کر اپنے رب سے جاملے۔ نحسبہ کذلک واللہ حسیبہ۔ ادارہ السحاب کے پاس آپ کی شہادت کےلمحے کا کلپ موجود ہے جس میں آپ شہادت سے پہلے کلمہ شہادت ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ والموفق من وفقہ اللہ!

۱۹۹۹ء میں ****** مصری بھائی محمد عطا، زیاد الجراح اور مروان الشحی سے ملے اور انھیں جحیم الروس نامی ویڈیو دی۔ یہ بھائی متدین نوجوانوں میں سے تھے جو جرمنی کے شہر ہمبرگ میں موجودہ اسلامی مراکز میں اکثر جایا کرتے تھے۔ انھی مراکز میں رمزی بن الشیبہ یمنی بھی جایا کرتے تھے اور ان سب میں آپس میں گہرا تعلق تھا، کیونکہ یہ سب ایک ہی جگہ رہتے تھے۔ یہ سب آپس میں امت مسلمہ کے معاملات پر بات کرتے تھے اور جہاد سے متاثر تھے، مگر انھیں ابھی تک کوئی ایسا فرد نہیں ملا تھا جو ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں جہادی میدانوں میں پہنچا دے۔ بس اس کی ابتداء اس وقت ہوئی جب ****** بھائی نے انھیں ویڈیو تھمائی۔ پھر ان بھائیوں نے ان بھائی سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ جہاد کے لیے جانا چاہتے ہیں۔ اس پر ******بھائی نے انھیں ایک دوسرے بھائی کے ساتھ منسلک کردیا جس نے انھیں جانے کا راستہ اور معسکرات سے جڑنے کا طریقہ بتایا۔ اس کام کے لیے انھیں پاکستانی ویزہ لینے کی ضرورت تھی، جس کے سلسلے میں وہ سیف عمر عبد الرحمن2 سے ملے۔ اور پھر انھوں نے ہی ان کے سفر کے تمام معاملات کو انجام دیا۔

میں یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ******بھائی کا تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا، سوائے اس کے کہ ان کے ایک ہم زلف تنظیم کے ساتھ وابستہ تھے۔ یہ بھائی تو صرف جہادِ شیشان کے لیے تحریض دیا کرتے تھے۔ انھیں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا، بلکہ جس طرح لاکھوں مجاہدین کو حملوں کے وقوع کے بعد ان کے بارے میں معلوم ہوا تو ان بھائی کا بھی یہی معاملہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ نے انھیں پکڑا، اور بدنامِ زمانہ گوانتانومو کے جیل خانے میں سالہا سال قید رکھا۔ یہی حال اکثر قیدیوں کا ہے جنھیں امریکہ نے اپنے ناکام انٹیلی جنس اداروں کی جھوٹی برتری ظاہر کرنے کے لیے گرفتار کیا۔

ان تینوں بھائیوں کے کراچی میں تنظیم کے مہمان خانے میں پہنچنے کے فوراً بعد انھیں کوئٹہ بھیجا گیا جہاں سے آگے وہ افغانستان داخل ہوئے۔ افغانستان داخلے کے لیے بعض مقامی رہبروں کی مدد لی گئی جو پیسوں کے بدلے میں کام کرتے تھے۔

جیسے ہی یہ تینوں بھائی قندھار میں تنظیم کے مہمان خانے میں پہنچے تو انھیں باقی بھائیوں سے الگ کرلیا گیا جو تربیت کے لیے جارہے تھے، اور انھیں ایک خاص مہمان خانے میں منتقل کر دیا گیا۔ کیونکہ تنظیم کی قیادت نے اپنی فراست سے محسوس کرلیا کہ یہ افراد اس بڑے کام کی اہلیت رکھتے ہیں جس کا ارادہ تنظیم نے کر رکھا تھا۔ پھر تنظیم کے عسکری مسئول اور شیخ اسامہ کے نائب شیخ ابو حفص کماندان (محمد عاطف)ان بھائیوں سے ملے۔ ان بھائیوں کے ساتھ صہیونی اسرائیلی ریاست کے ساتھ امریکہ کی مدد وتعاون پر بات کی، مسلم خطوں کی غلام حکومتوں کے ساتھ امریکہ کی مدد پر بات کی، اور بتایا کہ ہم نے ارادہ کیا ہے کہ امریکی مفادات پر حملے کیے جائیں۔ جس کی ایک کڑی افریقہ میں امریکی سفارتخانوں پر حملہ تھا۔ شیخ عاطف نے ان بھائیوں کی باتیں بھی سنیں جس سے انھیں اندازہ ہوا کہ یہ بھائی دین میں تصلب اور حالات کا گہرا فہم رکھتے ہیں۔ تنظیم کی قیادت کی ملاقاتوں سے انھیں معلوم ہوا کہ یہ بھائی جرمنی میں رہتے ہوئے بھی طویل عرصے سے دین پر کاربند تھے۔ اس کے بعد شیخ اسامہ بن لادن ﷫خود ان بھائیوں سے ملے اور ان کے ساتھ امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کی ضرورت پر بات کی، اور ان بھائیوں کو ترغیب دی کہ وہ امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کے ہمارے منصوبے میں شامل ہوجائیں، اور شیخ اسامہ ﷫نے محسوس کیا کہ یہ بھائی کام کے لیے تیار ہیں۔ ان بھائیوں کو آئے ابھی دس دن ہی گزرے تھے کہ انھوں نے تنظیم کی بیعت کرلی اور تنظیم کے باضابطہ ارکان بن گئے۔ شیخ اسامہ ﷫نے ان سے یہ عہد لینے کے بعد کہ کام کی رازداری رکھیں گے، انھیں واپس جرمنی جانے اور یورپی اداروں میں ہوا بازی کی تربیت حاصل کرنے کے لیے کہا۔ اسے ان بھائیوں نے جوش وجذبے سے قبول کرلیا، اور واپسی کی تیاری کرنے لگے۔

ان تینوں بھائیوں کے افغانستان پہنچنے کے دو ہفتے بعد رمزی بن الشیبہ بھی قندھار میں موجود تھے تاکہ تربیت کے لیے معسکرات کی طرف چلے جائیں۔ اتفاقاً ان تینوں کی ان سے ملاقات ہوگئی۔ ان تینوں نے انھیں اپنی تنظیم سے بیعت کا بتایا اور انھیں بھی ترغیب دی کہ وہ تنظیم کی بیعت کرلیں اور امریکہ کے خلاف تنظیم کے کام میں شریک ہوجائیں۔ ان بھائیوں کا باہمی اعتماد تھا کہ رمزی بن الشیبہ نے بھی تنظیم کی بیعت کرلی اور اس مجموعے کا حصہ بن گئے، تاکہ وہ بھی آئندہ ہونے والے حملے میں ایک ہوا بازکے طور پر شریک ہوسکیں۔

رمزی بن الشیبہ کے قندھار پہنچنے کے ایک ہفتے بعد جرمنی سے اسی گروپ کے دو مزید بھائی بھی آپہنچے۔ لیکن انھیں تنظیم کے اندر اعلامی کام کو منظم کرنے کی ذمہ داری دی گئی، اور اللہ کے فضل سے اور یورپ سے آنے والے بعض بھائیوں کی مدد سے یہ بھائی جماعت کے اعلامی کام کو منظم کرنے اور اس میں جدت لانے میں کامیاب ہوئے۔ میں یہ باتیں محض اس لیے نہیں ذکر کر رہا کہ بس واقعات بیان کروں، بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ امتِ مسلمہ کے نوجوانوں سے کہوں کہ تمہارے پاس وہ طاقت ہے جو تاریخ کا دھارا بدل سکتی ہے۔ یہ چند بھائی تھے جنھوں نے اللہ کے فضل سے معاصر جہاد کی تاریخ کا نیا رخ متعین کیا، اور دشمن کو ایسا سبق سکھانے میں کامیاب ہوئے جسے وہ کبھی نہیں بھولے گا، اور امریکہ پر خود اس کے ملک میں حملہ کرنے میں کامیاب ہوئے، اور اس کی سب سے بڑی اقتصاری وعسکری علامتوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ یہاں تک کہ امریکیوں نے خود کہا کہ گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء ایک ایسے حادثے کا دن تھا جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں۔ پس امت کے لیے ممکن ہے کہ وہ گیارہ ستمبر جیسے حملے بار بار دہرائے، نہ صرف امریکہ کے اندر، بلکہ خود ہمارے مقدسات پر قابض صہیونی ریاست کے اندر بھی۔3

چاروں بھائیوں نے واپسی کی تیاری شروع کردی، تاکہ وہ واپس جاکر ہوا بازی سیکھنے کے کسی ادارے میں داخلہ لے سکیں، اور ہر ایک شخص نے ۵۰۰۰ ڈالر ساتھ لے لیے تاکہ واپس پہنچنے پر اپنے کاموں کو انجام دے سکیں۔ اسی طرح آئندہ کی ضروریات کے لیے محفوظ طریقے سے پیسوں کی منتقلی کے طریق کار پر بھی اتفاق ہوا۔ یوں چاروں بھائیوں نے سفر شروع کردیا، بعد اس کے کہ رمزی بن الشیبہ نے اصرار کیا کہ وہ اس کام میں ایک ہوا باز اور استشہادی کے طور پر شامل ہوں گے۔ مروان الشحی امارات کی طرف گئے، تاہم وہ اپنے ساتھ کوئی رقم نہیں لے گئے کیونکہ انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ اللہ کے فضل سے مالی طور پر مضبوط ہیں، اور وہ چاہتے ہیں کہ اپنی جان اور مال دونوں کے ساتھ جہاد کریں۔

اتفاق کی بات یہ ہے کہ جس وقت یہ بھائی یہاں پہنچے تھے تو اس وقت نواف الحازمی نے اپنی تربیت پوری کرلی تھی اور وہ افغانستان سے باہر نکل رہے تھے، تاکہ اپنا پاسپورٹ بدل کر امریکہ کا ویزہ لیں تاکہ وہاں ہوا بازی سیکھنے کے لیے جاسکیں۔ وہ جب افغانستان سے نکلے تو ان کی ملاقات پاکستان میں تنظیم کے مہمان خانے میں بعض بھائیوں سے ہوئی جو بعد میں اس مبارک حملے میں شریک ہوئے، اور وہ تھے غامدی برادران۔ جرمنی سے آنے والے بھائیوں پر مزید بات کرنے سے قبل میں یہاں رک کر دونوں ابطال نواف الحازمی اور خالد المحضار پر مختصر بات کروں گا۔

خالد المحضار اور نواف الحازمی4

جنوری ۲۰۰۰ء کے آخر میں خالد اور نواف دونوں نے قیادت کی رہنمائی اور خالد شیخ کی مشاورت سے ارضِ معرکہ امریکہ میں لاس اینجلس (Los Angeles) کے شہر میں قدم رکھے۔ تاہم ابھی انھیں حملے کے لیے مطلوبہ حالت تک پہنچنے میں کافی سفر کاٹنا تھا۔ ایک تو ان کی انگریزی زبان سے شناسائی بہت کمزور تھی، اور دوسرا ان کے پاس یورپی ممالک کے سفر اور وہاں رہنے کا تجربہ نہیں تھا۔ ہاں، ایک بات جو ان میں تھی، وہ امریکہ پر حملے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کا عزم مصمم تھا۔ ان دونوں کا انتخاب اس وقت ہوا تھا جب ابھی جرمنی سے بھائیوں کا وفد نہیں پہنچا تھا۔

خالد شیخ محمد نے انھیں سمجھایا کہ وہ ایک عام دنیا دار انسان کی طرح وہاں زندگی گزارنے کی کوشش کریں جو پڑھائی کے لیے امریکہ آیا ہو۔ ابتدائی دنوں میں ہی لاس اینجلس میں مقیم چند عرب بھائیوں سے ان کی جان پہچان ہوئی تو ان کی مدد سے انھوں نے ایک تعلیمی ادارے میں انگریزی زبان سیکھنے کے لیے داخلہ لے لیا۔ امریکی میڈیا نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ لاس اینجلس کی مسجد الملك فہد کے امام فہد ثمیری نے، جو سعودی کونسل خانے سے وابستہ سفارتکار بھی تھا، ان دونوں بھائیوں کی مدد کی اور انھیں داخلہ دلوانے میں کردار ادا کیا۔ امریکی میڈیا کا مقصد یہ تھا کہ وہ یہ ثابت کرے کہ القاعدہ کے ان حملوں میں سعودی حکومت کا بھی کردار ہے۔ حالانکہ طویل تحقیقات کے بعد خود امریکہ نے تسلیم کرلیا کہ القاعدہ اور سعودی حکومت کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ کانگریس کی رپورٹ میں واضح کہا گیا کہ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ فہد الثمیری نے ان دونوں بھائیوں کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہیں کیا۔

یہ دونوں بھائی اپنے منصوبے پر عمل پیرا رہے، یہاں تک کہ خالد شیخ محمد نے ان سے کہا کہ ان کے لیے زیادہ مفید یہ ہے کہ یہ امریکی شہر سان ڈیاگو (San Diego) چلے جائیں۔ چنانچہ یہ دونوں بھائی وہاں چلے گئے، اور وہاں انھیں عرب کمیونٹی سے وابستہ بعض اچھے دوست مل گئے، جنھوں نے ان کے تعلیمی سفر کے جاری رکھنے میں مدد دی۔ تاہم کچھ عرصے کی محنت سے ان دونوں بھائیوں نے یہ اندازہ کیا کہ انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنا اور اس کے بعد ہوا بازی سیکھنے کا کام ان دونوں کی استطاعت سے باہر ہے۔ ہاں! اس عرصے میں ان دونوں بھائیوں کا امریکہ پر استشہادی حملہ کرنے کا عزم مزید پختہ ہوگیا، کیونکہ انھوں نے امریکیوں کے مظالم کو خوب جان لیا۔ خالد شیخ محمد اس عرصے میں ان کی رہنمائی کرتے رہے اور انھیں ہدایات بھیجتے رہے، لیکن وہ بھی بالآخر اس نتیجے پر پہنچ گئے جس پر یہ دونوں بھائی پہنچے تھے۔

دریں اثناء خالد المحضار کے یہاں بیٹی ہوئی تو انہوں نے واپس اپنے گھر کی طرف چکر لگانے کا ارادہ کیا۔ لیکن خالد شیخ محمد اس کی اجازت دینے میں اس لیے متردد تھے کہ اس طرح نواف اکیلے رہ جائیں گے۔ لیکن نواف نے انھیں بتایا کہ اس عرصے میں انہیں سان ڈیاگو میں اچھے دوست مل گئے ہیں۔ یہ جان کر خالد شیخ محمد کا نواف کے بارے میں تنہائی کا احساس کم ہوگیا۔

اسی طرح خالد شیخ محمد نے انھیں اطلاع دی کہ وہ عنقریب ایک نئے دوست کو ان کی طرف بھیجیں گے، اور وہ نئے دوست تھے ہوا باز ھانی حنجور۔ یوں یہ بھائی عام شہری کی طرح وہاں وقت گزارتے رہے، جس سے کسی کو بھنک تک نہیں پڑی کہ یہ بھائی کس کام کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ اور یہ اپنے آپ کو چھپانے کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔

جرمنی سے آنے والے نوجوانوں پر اس قدر جلد اعتماد کیسے کرلیا گیا؟

اب دوبارہ سے جرمنی سے آنے والے وفد پر بات کرتے ہیں۔ بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ تنظیم کی قیادت اور جہاد میں نئے آنے والے بھائیوں کے درمیان اس قدر جلد اعتماد کیسے قائم ہوگیا؟ جواب میں کہوں گا کہ اول وآخر فضل تو اللہ تعالیٰ کا ہی ہے، پھر اس کے بعد قیادت کی فراست تھی کہ انھیں ان بھائیوں میں مطلوبہ اہلیت نظر آئی۔ اسی طرح ان بھائیوں کا ایک زمانے سے جرمنی میں رہتے ہوئے اسلام پر کاربند رہنا، اور معتمد افراد کے تزکیہ (یعنی ضمانت)کے ساتھ ہمارے پاس آنا بھی ایک سبب تھا۔ پھر جب ان سے ملاقاتیں ہوئیں تو معلوم ہوا کہ ان بھائیوں کو امت کی حالت کا بھی پورا ادراک ہے۔ ان چیزوں سے قیادت کا ان بھائیوں پر اعتماد قائم ہوگیا۔ اب محض ایک بات باقی تھی اور وہ ان کے سامنے استشہادی حملہ کرنے کی تجویز پیش کرنا، جو جیسے ہی ان کے سامنے پیش کی گئی، انھوں نے جوش وجذبہ سے قبول کرلی۔

تینوں بھائیوں کا جرمنی واپس جانے کے بعد پہلا کام یہ تھا کہ وہ اپنے پاسپورٹ نئے بنوائیں، تاکہ سابقہ پاسپورٹ جس پر پاکستان کا ویزہ لگا ہوا تھا، اس سے جان چھڑالی جائے۔ الحمد للہ، تینوں بھائی اس کام میں کامیاب ہوگئے۔ پھر تینوں ہوا بازی سیکھنے کے لیے مناسب ملک کی تلاش میں لگ گئے اور سب کا اس پر اتفاق ہوا کہ امریکہ سے بہتر کوئی ملک نہیں ہے جہاں ہوا بازی سیکھی جائے، کیونکہ وہاں آسانی سے داخلہ مل جاتا ہے۔ بس مروان الشحی نے امریکی ویزہ کے لیے درخواست دی تو انہیں جنوری ۲۰۰۰ء میں ویزہ مل گیا، جبکہ محمد عطا اور زیاد کو مئی میں ویزہ ملا۔ رمزی بن الشیبہ کو کوشش کے باوجود امریکی ویزہ نہیں مل سکا۔

یوں جون ۲۰۰۰ء میں تینوں بھائی امریکہ میں ہوا بازی سیکھنے والے اداروں میں پہنچ چکے تھے۔ خالد اور نواف کے برعکس یہ تینوں بھائی انگریزی زبان پر بھی اچھا عبور رکھتے تھے اور یورپی ممالک میں رہنے کا تجربہ بھی ان کے پاس تھا۔ لہٰذا ان تینوں کو کسی قسم کی کوئی دقت نہیں ہوئی، اور یہ تینوں الگ الگ اداروں میں ہوا بازی سیکھنے لگے۔ انھوں نے داخلہ لینے کے بعد اپنے ویزہ کو سیاحتی ویزہ سے ہٹا کر تعلیمی ویزہ کرلیا۔ البتہ رمزی بن الشیبہ نے کئی بار کوشش کی مگر انھیں امریکی ویزہ نہیں مل سکا، چنانچہ انھیں باقی تینوں بھائیوں کے ساتھ معاملات کے سلسلے میں خالد شیخ محمد کے ساتھ معاون کے طور پر ذمہ داری سونپ دی گئی۔

اس سارے عرصے میں خالد شیخ محمد ان بھائیوں کے معاملات دیکھتے رہے، اور ان بھائیوں کو امریکہ تک پیسوں کی ترسیل کا کام انجام دیتے رہے۔ خالد شیخ محمد کے سامنے یہ چیلنج تھا کہ کس طرح محفوظ انداز میں یہ رقم امریکہ پہنچ جائے اور خفیہ اداروں کو علم بھی نہ ہو۔ الحمد للہ، خالد شیخ محمد اس کام میں کامیاب ہوئے اور آپ نے دبئی5 اور دیگر ممالک سے ایک لاکھ ڈالر امریکہ میں ان بھائیوں کو پہنچائے ، جنھیں ان بھائیوں نے اپنی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے میں خرچ کیا۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)


1 شیخ ابو محمد رحمہ اللہ کی نشر شدہ کتاب میں ان بھائیوں کے نام حذف کیے گئے، غالباً اس کا سبب یہ ہوگا کہ یہ بھائی بقیدِ حیات ہوں گے اور قوی خدشہ ہے کہ ان کے نام کے ذکر سے یہ بھائی دشمنانِ اسلام کی طرف سے اذیت کا نشانہ بنائے جائیں۔ (کاتب)

2 یہ شیخ عمر عبد الرحمن مصری رحمہ اللہ کے بیٹے تھے۔ روس کے خلاف جہاد میں شرکت کے لیے اپنے بڑے بھائی اسد عمر عبد الرحمن کے ساتھ افغانستان آئے۔ آپ نے وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے میں شہادت پائی، نحسبہ کذلک واللہ حسیبہ۔

3 اللہ تعالیٰ شیخ ابو محمد پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں، وہ آج زندہ ہوتے تو دیکھ لیتے کہ امت کے بیٹوں نے سات اکتوبر ۲۰۲۳ء کو یہ کر دکھایا، اور صہیونی ریاست کے اندر ان پر ایسی ضرب لگائی جو ایک طوفان تھا، جو اب اُس وقت تک نہیں تھمے گا جب تک صہیونی ریاست اور اس کی پشت پناہ صہیونی صلیبی امریکہ اس طوفان کی زد میں آکر تباہ نہ ہوجائیں اور ہماری اقصیٰ اور دیگر مقدسات آزاد نہ ہوجائیں۔ وما ذلك على الله بعزيز! (کاتب)

4 یاد رہے کہ یہ دونوں وہ بھائی ہیں جو سب سے پہلے اس مبارک حملے کے لیے منتخب کیے گئے۔

5 دبئی اگرچہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، مگر تجارتی شہر ہونے کی وجہ سے وہاں پیسے پہنچانا یا وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل کرنا ایک عام بات ہے۔ خالد شیخ محمد نے اس نکتے سے فائدہ اٹھایا اور وہاں موجود اپنے ایک معتمد آدمی کے ذریعے وہاں سے امریکہ پیسوں کی ترسیل کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ خالد شیخ محمد گیارہ ستمبر کے حملوں کے بنیادی محرک تھے۔

Previous Post

اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۴

Next Post

مدرسہ و مبارزہ | پہلی قسط

Related Posts

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

13 اگست 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | چھٹی قسط

13 اگست 2025
کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط
فکر و منہج

کفار کا معاشی بائیکاٹ | چوتھی قسط

13 اگست 2025
کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟
فکر و منہج

کیا ریاست (State) اسلامی ہو سکتی ہے؟

13 اگست 2025
ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!
فکر و منہج

ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!

17 جولائی 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | پانچویں قسط

13 جولائی 2025
Next Post
مدرسہ و مبارزہ | پہلی قسط

مدرسہ و مبارزہ | پہلی قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version