قیامت کے دن کیفیت کے اعتبار سے کفار کی تیسری قسم: التخاصم:
قیامت کے دن ہونے والی بحث و تکرار
مصنف نے چار قسم کے تنازعات بیان کیے ہیں :
العباد والمعبودین: بندوں اور ان کے معبودوں کے درمیان نزاع
الاتباع والمتبوعین: پیروکاروں اور جن کی وہ پیروی کرتے تھے کے مابین تکرار
الانسان وقرینہ: انسان اور اس کے قرین کے مابین نزاع۔ قرین وہ شیطان ہے جو ہر انسان کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔
الانسان واعضائہ: انسان اور اس کے اپنے اعضائے جسم کے مابین جھگڑا۔
پیروکاروں اور جن کی وہ پیروی کرتے تھے کے مابین نزاع:
اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ جَمِيْعًا فَقَالَ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ١ؕ ……﴾ (سورۃ ابراہیم: ۲۱)
’’ اور یہ سب لوگ اللہ کے آگے پیش ہوں گے۔ پھر جو لوگ (دنیا میں) کمزور تھے، وہ بڑائی بگھارنے والوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے پیچھے چلنے والے لوگ تھے، تو کیا اب تم ہمیں اللہ کے عذاب سے بچا لو گے؟ ‘‘
اب یہ نزاع کمزور اور طاقتور کے مابین شروع ہوتا ہے۔قیامت کے دن یہی کمزور سمجھے جانے والے لوگ، جو دنیا میں ان متکبرین کی پیروی کیا کرتے تھے، اپنے بڑوں کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمہارے پیروکار تھے، کیا تم اللہ کے غضب سے آج ہمیں بچا سکتے ہو؟ وہ، جنہیں ان کمزوروں نے بڑا بنا رکھا تھا، کیا کہیں گے؟
﴿……قَالُوْا لَوْ هَدٰىنَا اللّٰهُ لَهَدَيْنٰكُمْ١ؕ سَوَآءٌ عَلَيْنَاۤ اَجَزِعْنَاۤ اَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَّحِيْصٍؒ۰۰۲۱ ﴾ (سورۃ ابراہیم: ۲۱)
’’ وہ کہیں گے : اگر اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہوتی تو ہم بھی تمہیں ہدایت دے دیتے۔ چاہے ہم چیخیں چلائیں یا صبر کریں، دونوں صورتیں ہمارے لیے برابر ہیں، ہمارے لیے چھٹکارے کا کوئی راستہ نہیں۔‘‘
یہ لیڈر جو دنیا میں اپنے پیروکاروں سے یہ کہتے تھے کہ حشر کے دن ہم تمہاری مدد کریں گے اور ہم تمہارے حمایتی و مددگار ہوں گے، کہیں گے کہ ہم تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے ۔ سید قطب رحمہ اللہ نے ان آیات کی تفسیر میں نہایت بصیرت افروز کلمات لکھے ہیں، فرماتے ہیں:
’’ بودے کردار کے کمزور لوگ وہ ہوتے ہیں جو اس اعلیٰ انسانی دولت سے دستبردار ہوجاتے ہیں جو اللہ نے ہر انسان کو دی ہے۔ وہ آزادی کی دولت ہے ، آزادیٔ رائے ہے ، آزادیٔ دین اور نظریہ اور حریتِ عمل ہے۔ ‘‘
انسان کی ایک عظیم خصوصیت کیا ہے؟ اس کا اختیار…… اللہ رب العزت نے انسان کو اختیار اور انتخاب کی آزادی عطا کی ہے۔ اس کائنات کی ہر چیز اللہ رب العزت کے سامنے تسلیم ہے اور یوں اللہ رب العزت کی عبادت کررہی ہے، چاند، سورج ، سیاروں کی گردش، درخت، پودے ہر چیز اللہ رب العزت کا حکم بجا لاتی ہے اوریہی تسلیم و رضا کی کیفیت اللہ کے لیے ان کی عبادت ہے۔ صرف جن و انس وہ مخلوق ہیں کہ جنہیں ایمان لانے یا نہ لانے اور تسلیم ہونے یا نہ ہونے کا اختیار دیا گیا ہے۔ کائنات میں کوئی مخلوق کافر نہیں ہے ماسوا انسانوں اور جنوں میں سے کافروں کے۔ کائنات کی دیگر تمام مخلوقات مسلم ہیں۔ انسان کی ایک منفرد خصوصیت اس کی سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت و اختیار ہے۔اور یہی بات سید قطب فرماتے ہیں کہ انسان نے اپنے اس حق خود اختیاری کو کھو کر، جو اللہ نے اسے عطا کیا تھا، خود کو کمزور کردیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’ یہ کمزوری ان کے لیےکوئی عذر نہیں ہے بلکہ جرم ہے کیونکہ اللہ رب العزت کو کسی کا بھی ضعف مطلوب نہیں ہے‘‘۔ حشر کے دن وہ اپنے اس ضعف کو اللہ رب العزت کے سامنے بطور عذر نہیں پیش کرسکیں گے کہ ہم تو کمزور تھے، ہم نہیں جانتے تھے۔ اللہ رب العزت نے انسان کو انتخاب اور اختیار کا حق اور سوچنے سمجھنےکی صلاحیت عطا کی ہے اور انسان کو وہ وسائل عطا فرمائے ہیں جن کے ذریعے وہ درست راستے کا انتخاب کرسکتا ہے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
﴿وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَيْـًٔا١ۙ وَّ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـِٕدَةَ١ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۰۰۷۸ ﴾(سورۃ النحل: ۷۸)
’’ اور اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ سے اس حالت میں نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے، اور تمہارے لیے کان، آنکھیں اور دل پیدا کیے، تاکہ تم شکر ادا کرو۔ ‘‘
جب انسان پیدا ہوتا ہے تو کیا وہ کچھ جانتا ہے؟ وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ پھر وہ کیسے جاننا اور سمجھنا شروع کردیتا ہے؟ہم آپ اپنی اس موجودہ حالت تک کیسے پہنچے ہیں ؟ اللہ نے ہمیں حصول علم کے وسائل، آنکھیں، کان اور ذہن عطا کیے ۔ ہماری آنکھیں اور کان معلومات ذخیرہ کرتے ہیں اور ہمارے ذہن ان معلومات سے نتائج اخذ کرتے ہیں۔ہم سننے، دیکھنے اور پڑھنے سے سیکھتے ہیں اور اسی طرح ایک بچہ بھی سیکھتا ہے، بلکہ وہ پانچوں حسوں کو استعمال کرتے ہوئے چھونے اور سونگھنے کے ذریعے بھی سیکھتا ہے، مگر مسلم حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ علم ہمیں آنکھوں اور کانوں کے استعمال سے ہی حاصل ہوتا ہے اور ذہن ان معلومات کو عمل میں لاتا ہے…… کیوں؟ اللہ نے یہ نعمتیں کیوں عطا کی ہیں؟ تاکہ تم شکر گزار بنو۔ آنکھ کان اور ذہن کی نعمتیں اللہ نے اس لیے عطا کی ہیں کہ ان کے ذریعے جو معلومات تمہیں حاصل ہوں اور تمہارا ذہن ان معلومات سے جو علم حاصل کرے اس کی وجہ سے اللہ رب العزت کے سامنے تمہارے دل جھک جائیں اور تم اس کے شکرگزار بندے بنو۔ مگر بدقسمتی سے انسان نے ان وسائل کو استعمال کرتے ہوئے جتنا بھی علم حاصل کیا اس کا مقصد صرف اور صرف یہ مادی دنیا ہے، آخرت نہیں۔ انسان کی ترقی کی طرف دیکھیں تو سو سال یا ہزار سال قبل انسان کہاں تھا اور اب مادی ترقی کے کس معیار پر ہے، ہم نے بہت کچھ سیکھا اور ترقی کی اس معراج پر پہنچ گئے کہ روزانہ کی بنیاد پر ٹیکنالوجی ہمیں سینکڑوں کے حساب سے نئی ایجادات عطا کررہی ہے۔ انسانی ذہن جو کچھ حاصل کرنے کے قابل ہوچکا ہے، اس کی ترقی اب لامنتہا نظر آتی ہے۔ لیکن جب حصول علم کے اصل مقصد آخرت کی جانب دیکھیں تو ہم نے اپنے ذہنوں کو معذور اور نااہل بنا چھوڑا ہے۔ہم نے اسے اس کے اصل مقصد کے لیے استعمال ہی نہیں کیا۔ پس حشر کے دن کمزوری کا یہ عذر کچھ کام نہ دے گا۔ یہ فی نفسہ ایک جرم ہے۔ اللہ نے تمہیں سوچنے اور سمجھنے کے لیے وسائل عطا کیے، تم نے انہیں معطل کر چھوڑا اور محض ایک بے بصیرت متبع بن کر رہ گئے۔پھر فرماتے ہیں:
’’اللہ رب العزت کو یہ مطلوب نہیں ہے کہ کوئی بھی اپنی حریت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مادی قوت و طاقت کسی بھی مرد حر کو غلام بنانے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ یہ دنیاوی طاقتیں زیادہ سےزیادہ یہ کرسکتی ہیں کہ جسم کو تکلیف دیں، اسے قید کرکے یا اس پر تشدد کے ذریعے یا اسے سزا دے کر اور جبر کے ذریعے، مگر روح آزاد ہی رہے گی، ذہن و دل آزاد ہی رہے گا اور اسے کوئی طاقت بھی غلام نہیں بنا سکتی۔ ‘‘
یہ دنیا ایک انسان کے جسم کو تکلیف دے سکتی ہے، اسے قید کرسکتی ہے، اس کی جسمانی آزادی سلب کر سکتی ہے مگر دنیا کی کوئی بھی طاقت ایک انسان کے دل و ذہن کو غلام نہیں بنا سکتی ، اس کی سوچ و فکر کی آزادی کو سلب نہیں کرسکتی، الا یہ کہ وہ انسان خود ہی ایسا چاہے۔ آگے فرماتے ہیں:
’’کون ہے جو ان کمزوروں کو عقیدے اور اخلاق میں اپنی پیروی پر مجبور کرسکے؟ کون ہے جو کمزوروں کو متکبرین کا غلام بنا سکے جبکہ اللہ ان سب کے خالق اور رازق ہیں؟ کوئی بھی ایسا نہیں کرسکتا! کوئی ایسا نہیں کرسکتا مگر ان کے اپنے کمزور دل۔ ‘‘
کوئی بھی کسی ذہن کو باطل کا تابع نہیں بنا سکتا بجز اس شخص کے اپنے نفس کی کمزوری کے۔پھر فرماتے ہیں کہ :
’’وہ اس لیے کمزور نہیں ہیں کہ ان کے پاس طاقت والوں سے کم قوت ہے، بلکہ وہ اس لیے کمزور ہیں کہ انہوں نے اس ضعف کو پسند کیا اور اس پر راضی ہوئے۔ وہ کمزور ہیں کیونکہ ان کے دل کمزور ہیں اور وہ روحانی طور پر ضعیف ہیں ۔ ‘‘
پھر فرماتے ہیں:
’’دنیا میں ضعفا کثیر تعداد میں ہیں جبکہ طواغیت چند ہیں۔ کس نے ان چند طواغیت کو ایک کثیر مخلوق پر اختیار دیا؟ طواغیت کبھی بھی ضعفا کی اکثریت پر غلبہ نہیں پاسکتے الّا یہ کہ جمہور خود ہی ایسا چاہے۔ یہ کمزور لوگ بھیڑوں کے گلّوں کی مانند ہیں اور ان کے اندر مضبوط قوت ارادی کی کمی ہے۔‘‘
اب ہم اندھی پیروی کرنے والوں کے حوالے سے کچھ مزید آیات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِيْلَنَا وَ لْنَحْمِلْ خَطٰيٰكُمْ١ؕ وَ مَا هُمْ بِحٰمِلِيْنَ مِنْ خَطٰيٰهُمْ مِّنْ شَيْءٍ١ؕ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ۰۰۱۲ ﴾(سورۃ العنکبوت: ۱۲)
’’اور یہ کافر کہتے ہیں اہل ایمان سے کہ تم ہمارے راستے کی پیروی کرو ہم (آخرت میں) تمہاری خطاؤں کا بوجھ اٹھا لیں گے اور وہ نہیں اٹھانے والے ان کی خطاؤں میں سے کچھ بھی۔ یقیناً وہ جھوٹ بول رہے ہیں ۔‘‘
اہل قریش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کے پاس آآ کر ان سے کہتے کہ ہماری اتباع کرو۔ہم تمہارے اعمال بد کی ذمہ داری لیتے ہیں، تمہیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور آج بھی یہی کچھ ہورہا ہے، لیڈر اسی قسم کے دعوے اور وعدے کرتے ہیں اپنے متبعین سے۔ اگر تم ہماری پیروی کرو گے تو تمہارے ہر مسئلے کا حل ہمارے پاس ہے، ہم تمہیں جنت کی ضمانت دیں گے۔ بہت سے دینی اور سیاسی لیڈر ایسے ہیں جو اپنے پیروکاروں سے مسائل کے حل کا وعدہ کرتے ہیں، بچانے کا وعدہ کرتے ہیں، جنت کا وعدہ کرتے ہیں…… مگر اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ یہ ان کے گناہوں کا کچھ بوجھ نہ اٹھا سکیں گے، یہ جھوٹے ہیں۔ اللہ رب العزت یوم حشر کا حقیقی نقشہ بیان فرماتے ہیں:
﴿ وَ لَيَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ وَ لَيُسْـَٔلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَؒ۰۰۱۳ ﴾ (سورۃ العنکبوت: ۱۳)
’’ البتہ وہ لازماً اٹھائیں گے اپنے بوجھ بھی اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے بوجھ بھی اور ان سے لازماً باز پرس ہوگی قیامت کے دن اس کے بارے میں جو جھوٹ یہ گھڑ رہے ہیں ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، بخاری شریف کی حدیث کا مفہوم ہے کہ جو شخص بھی کسی کو خیر کی بات بتلائے تو وہ قیامت کے دن تک اس نیکی کا اجر اسی طرح پاتا رہے گا جیسا کہ وہ شخص جس نے اس بات کو سنا اور اس پر عمل کیا۔ اسی طرح جو شخص اعمال بد کی جانب دعوت دے گا اسے اس برے عمل کا گناہ اور ان تمام لوگوں کے اعمال بد کا گناہ قیامت کے دن تک ملتا رہے گا جنہوں نے اس سے وہ برائی سیکھی اور اس پر عمل کیا۔ پس عمل خیر کی جانب دعوت دینا مسلسل بڑھتے چڑھتے منافع کا سودا ہے۔ آپ نے چند لوگوں تک بات پہنچائی، انہوں نے چند مزید تک بات پہنچائی اور آپ کا اجر ثبت ہوتا چلا گیا جبکہ عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی بھی واقع نہیں ہوئی۔ یہ اللہ رب العزت کا فضل ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ دوسری طرف یہی معاملہ برائیوں اور گناہوں کا ہے۔ یہ انسان کا اپنا اختیار ہے کہ وہ اپنے اعمال خیر میں بڑھوتری چاہتا ہے یا اعمال بد میں حصہ ڈالنے کا خواہاں ہے۔ اللہ رب العزت ان لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
﴿ وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَ لَا بِالَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ١ؕ وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ۖۚ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِ ا۟لْقَوْلَ١ۚ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا لَوْ لَاۤ اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِيْنَ۰۰۳۱ ﴾(سورة سبأ :31)
’’ اور کہتے ہیں یہ کافر ہرگز نہیں ایمان لائیں گے ہم اس قرآن پر اور نہ ان (کتابوں) پر جو اس سے پہلے آچکی ہیں۔ اور کاش تم دیکھو وہ سماں جب ظالم لوگ کھڑے کیے جائیں گے اپنے رب کے حضور، ڈال رہے ہوں گے وہ ایک دوسرے پر الزام۔ کہیں گے وہ لوگ جو دبا کر رکھے گئے تھے ان لوگوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے کہ اگر نہ ہوتے تم تو ضرور ہوتے ہم مومن ۔ ‘‘
اللہ رب العزت قیامت کے دن پیروکاروں اور جن کی پیروی کی جاتی تھی انہیں آمنے سامنے لے آئیں گے اور وہ ایک دوسرے سے بحث کریں گے، ایک دوسرے کو برے القابات سے پکاریں گے اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہیں گے اور اپنے لیڈروں پر الزام لگاتے ہوئے کہیں گے کہ تمہاری وجہ سے ہی ہم ایمان نہ لاسکے، یہ لیڈر کون ہیں؟ یہ مذہبی لیڈر بھی ہوسکتے ہیں اور یہ میڈیا بھی ہوسکتا ہے، یہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ اب تو ایسا دور ہے کہ اگر آپ سڑک پر لوگوں سے اسلام کے بارے میں رائے لینا شروع کریں تو بیشتر آرا منفی میں ہوں گی۔ یہ منفی تصور کہاں سے آیا؟ یہ میڈیا نے پیدا کیا۔ ہالی ووڈ دہائیوں سے اس پر کام کررہا ہے، اس نے تو ہمیشہ ہی، نہ کہ اکثر، ہمیشہ ہی اسلام اور مسلمانوں کو منفی کردار میں پیش کیا ہے۔ میڈیا کی تاریخ میں الّا ما شاء اللہ ہی کوئی ایسی چیز پائی جاسکتی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کا اچھا روپ اور مثبت پہلو پیش کرے۔ مغرب میں کا ایک چوٹی کا مصنف کہتا ہے کہ ’’اسلام مغرب کا تاریک نقطہ (blind spot) ہے۔‘‘، یہ منفی تاثر کہاں سے آتا ہے؟ یہ سیاسی اور میڈیائی لیڈروں سے ہی آتا ہے جو نہیں چاہتے کہ صورت حال تبدیل ہو اور اسلام کا روشن چہرہ کسی کو دکھائی دے۔ حشر کے دن لوگ حقیقت کو کھلی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور جان لیں گے کہ انہیں گمراہ کرنے والے لوگ کون تھے، پس وہ انہیں الزام دیں گے اور کہیں گے کہ تمہاری وجہ سے ہم ایمان نہ لائے۔ ان کےلیڈر کیا جواب دیں گے؟
﴿ قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْۤا اَنَحْنُ صَدَدْنٰكُمْ عَنِ الْهُدٰى بَعْدَ اِذْ جَآءَكُمْ بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِيْنَ۰۰۳۲ ﴾ (سورۃ سبا: ۳۲)
’’ اور کہیں گے وہ لوگ جو بڑے بنے ہوئے تھے ان سے جو دبا کر رکھے گئے تھے : کیا ہم نے زبردستی روکا تھا تم کو ہدایت سے اس کے بعد کہ آگئی تھی وہ تمہارے پاس ؟ نہیں بلکہ تم خود ہی تھے مجرم۔ ‘‘
کافر لیڈر اپنے پیروکاروں سے کہیں گے کہ تم ہماری وجہ سے گمراہ نہیں ہوئے بلکہ تمہارے اپنے نفسوں میں کجی تھی جبکہ حق تو واضح تھا۔ قرآن موجود تھا، حق واضح تھا، پھر کیوں نہ تم نے حق کو تلاشنے کا فریضہ خود ہی انجام دیا اور کیوں ہمارے بیانات اور رپورٹوں پر تکیہ کیا؟ اور حقیقت حال یہ ہے کہ جو بھی حق کی تلاش میں نکلتا ہے اور اس کے لیے تحقیق کرتا ہے اور منفی پراپیگنڈہ کی تصدیق یا تردید چاہتا ہے، بالآخر وہ حق پانے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی صحبہ وسلم
٭٭٭٭٭