اصلاحِ معاشرہ
اسلام نے انسان کو اجتماعی نظام سے جوڑا تھا لیکن مغرب نے فرد کی آزادی کا دلفریب نعرہ دے کر انسانوں کو خانوں میں بانٹ دیا، ایک انسان سے دوسرے انسان کا تعلق کاروبار بن کر رہ گیا، بعض سفر کرنے والوں نے بتایا کہ انگلینڈ میں جگہ جگہ بورڈ پر لکھا ہوا ملا کہ’’Mind your own business‘‘ یعنی آپ اپنا کام کیجیے(اپنے کام سے کام رکھو)۔ کوئی کچھ بھی کرے چھپ کر کے یا علی الاعلان کرے، کسی کو بولنے کی گنجائش نہیں ، اس لیے کہ یہ اس کی آزادی کے خلاف ہے، لیکن اسی پر ایک سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ دیکھنے والا اگر کچھ کہنا چاہے تو اس پر بندش لگانا کیا آزادیِ رائے کے خلاف نہیں ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ یہ سب خودساختہ اصطلاحات ہیں جن کے پردہ میں انسانوں کو جانوروں کی زندگی اختیار کرنے کی دعوت دی جارہی ہے۔
ایک بڑے عالم کے پاس یورپ کی ایک تنظیم کے کچھ نمائندے آزادیٔ رائے کے سلسلہ میں کچھ سوالات کرنے پہنچے، انہوں نے کہا کہ پہلے میں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں کچھ حدود و قیود ہیں یا نہیں ؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم تو اس میں کوئی قدغن لگانا نہیں چاہتے۔ مولانا نے کہا کہ اگر کوئی یہ رائے رکھتا ہے کہ دنیا بھر کے دولت مندوں کی دولت چھین کر غریبوں میں تقسیم کردینی چاہیے اور وہ اس کے لیے عملی اقدامات شروع کردے تو کیا اس پر کوئی پابندی لگائی جائے گی؟ اگر نہ لگائی جائے تو حالات بگڑتے جائیں گے اور اگر لگائی جائے تو یہ آزادیٔ رائے کے خلا ف ہے۔
اسلام نے بے شک آزادی کی اجازت دی ہے لیکن اس کے حدود متعین کیے ہیں ، ایک آدمی کو کھانے کی اجازت ہے لیکن دوسروں سے چھین کر نہیں ، ضرورت سے زیادہ نہیں ، انسان اپنی جنسی خواہشات پوری کرسکتا ہے لیکن حدود میں رہ کر، اسلام ہم جنسی کی اجازت نہیں دیتا، اور کوئی بھی معقول مذہب اور فلسفہ اس کی اجازت نہیں دے سکتا، ایک مرد صرف اسی عورت سے یہ تعلق رکھ سکتا ہے جس سے اس نے نکاح کیا ہو اور اس کی ذمہ داریاں اپنے ذمہ لی ہوں ، اس کے علاوہ کسی غیر کی طرف غلط نگاہ ڈالنا بھی اسلام میں جرم ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ آج سماج کی خرابیاں اسی مطلق العنان آزادی کی دَین ہیں جس نے انسانوں کو جانور بنادیا ہے اور برائیاں فیشن بنتی جارہی ہیں اور آزادی کے نام پر ان پر دبیز پردے ڈال دیے جاتے ہیں ۔
سماج افراد سے بنتا ہے، اجتماعیت محبت و سلوک سے پیدا ہوتی ہے، افراد جب تک اپنے اندر محبت وا یثار نہ پیدا کریں اس وقت تک اجتماعیت پنپ نہیں سکتی، اس میں صرف اپنی لذت، اپنی راحت، اپنی دولت کا فلسفہ چھوڑنا لازم ہے، سماج کی فکر، اس کو صحیح رُخ پر لانے کی ضرورت کا احساس اور انسانوں کو انسان بنانے کا جذبہ جب تک پیدا نہیں ہوگا، اور اس کے لیے اپنی لذت و راحت کو تج دینے اور ضرورت پڑجائے تو اپنے فائدے سے دست بردار ہوجانے اور دوسروں کے لیے قربانی دینے کا عزم و حوصلہ جب تک پیدا نہیں ہوگا اور اس کے لیے ہر سماج میں کچھ افراد سر بکف کھڑے نہیں ہوجائیں گے اس وقت تک حالات میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔
حد سے زیادہ بڑھی ہوئی مال کی محبت، اسراف و فضول خرچی، نام و نمود کی حرص، بے حیائی، لذت اندوزی کے بے جا جذبات، یہ سب وہ برائیاں ہیں جنہوں نے آج پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، اور اس سے بڑ ھ کر خطرہ کی بات یہ ہے کہ برائیوں کو برائی کہنے والے ختم ہوتے جارہے ہیں اور اگر کوئی اچھی طبیعت رکھنے والا ہمت بھی کرتا ہے تو دس لوگ اس کی ہمت کو توڑنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
اسلام بھلائیوں کو بڑھاوا دیتا ہے، خیر کو پھیلاتا ہے اور خیر پھیلانے والوں کی ہمت افزائی کرتا ہے اور برائیوں پر روک لگاتا ہے، اس نے دنیا میں زندگی گزارنے کا ایک ایسا اجتماعی نظام پیش کیا ہے جس میں ہر طبقے کے لیے بھلائی ہے، اقتصادی نظام سے لے کر معاشرتی اور اخلاقی نظام تک اس میں ایک طرف کچھ آزادی دی گئی ہے، دوسری طرف ایسے حدود متعین کیے گئے ہیں کہ انسان انسانیت کا بھرم قائم رکھے، اپنے اخلا ق و کردار میں وہ ایسا نمونہ پیش کرے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس کی سوچ کچھ اور ہے، اور اس کے لیے یہ دنیا ہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ وہ ایک دوسری زندگی کو سامنے رکھ کر جیتا ہے، زندگی کی لگام اس کے ہاتھ میں ہے، خواہشات اس کو نہیں چلاتیں بلکہ وہ خواہشات کو چلانا جانتا ہے اور ان کو کنٹرول میں رکھتا ہے، اس کی حیثیت حاکم کی ہے محکوم کی نہیں ، وہ اپنے نفس کا غلام نہیں ہے بلکہ نفس کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں ہے۔
اجتماعی زندگی کے اصول جب بھی بنائے جائیں گے اس میں ہر ایک کا خیال رکھنا ہوگا، ہر طبقے کو اس کا حق دینا ہوگا، غریبوں کے حقوق، مالداروں کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، غیروں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، کچھ وقت ساتھ گزارنے والوں کے حقوق، سب کے اپنے اپنے خانے ہیں اور ہر ایک کو اس کی جگہ رکھنا اور توازن کو بگڑنے نہ دینا اسلام کی تعلیم ہے۔
ہر ایک کی اپنی جگہ ہے، اس کو اس کی جگہ اعتدال کے ساتھ قائم رکھنا سماج کے لیے ضروری ہے، لیکن انسانی عقل نے جب بھی اس کا نظام خود طے کیا ہے وہ افراط و تفریط کا شکار ہوئی ہے، ہر عقل کا ایک سانچہ ہوتا ہے جس میں وہ پروان چڑھتی ہے اور ڈھلتی ہے، اس پر ماحول کے بھی اثرات پڑتے ہیں اور تربیت کرنے والوں کے بھی، نظام تعلیم کے بھی اور آس پاس پنپنے والی فکری آراء کے بھی، عقل اپنے اسی ڈھلے ڈھلائے سانچے سے سوچتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے، اس کے نتیجہ میں اس کے اندر جھکاؤ پیدا ہوجاتا ہے اور وہ توازن قائم نہیں رکھ پاتی، اس لیے سماجی نظام کو توازن کے ساتھ باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کے پیدا کرنے والے نے انسانوں کے لیے جو اجتماعی نظام تجویز کیا ہے اور اپنے پیغمبروںؑ کے ذریعہ وہ دنیا کے انسانوں تک پہنچایا ہے اس کا کھلے دل سے مطالعہ کیا جائے اور اس کی روشنی میں پورا نظام طے کیا جائے، وہ نظام خدا کی آخری کتاب قرآن مجید میں موجود ہے، اور آخری نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کو مزید وضاحت اور تفصیل کے ساتھ انسانوں کے سامنے پیش کیا ہے اور ایک ایک چیز کی وضاحت کی ہے۔
اس میں سب سے بڑی ذمہ داری مسلمانوں پر ہے، ان کے پاس نظام ہے، اور مسلمانوں کی پوری تاریخ ہے کہ ہر دور میں اصلاح کرنے والے اور برائیوں پر نکیر کرنے والے پیدا ہوتے رہے ہیں ، اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے پاس کتاب الٰہی اور شریعتِ مصطفویؐ ہے، دوسری قوموں کی تاریخ پڑھی جائیے، صدیوں میں کوئی مصلح نظر آتا ہے، اور اس کی تعلیمات کا بھی اگر جائزہ لیا جائے تو صرف چند ہی چیزوں پر اس کے یہاں زور ملتا ہے، لیکن سماج کا نقشہ کیا ہونا چاہیے اور اس کی کیا بنیادیں ہیں اس کی تفصیلات پیش کرنے سے وہ عاجز ہیں ۔
اس وقت دنیا دوراہے پر کھڑی ہے، اسلام کا پیش کیا ہوا سماجی نظام ہی تنہا وہ متوازن، جامع اور مکمل نظام ہے جو بگڑتے حالات کو سنبھال سکتا ہے، لیکن آج ان لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو اس پر غور کرنے کو تیار نہیں ، اور خود مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس نظام کے صحیح نمائندے نہیں ، ان کے حالات کو دیکھ کر اسلام کی جو تصویر اُبھر کر لوگوں کے سامنے آتی ہے وہ نہایت ناقص تصویر ہے، اس وقت ایک طرف مسلمانوں کی بڑی ذمہ داری ہے، مسلمانوں نے اگر صحیح نظام نہ پیش کیا، اسلام کی صحیح ترجمانی نہ کی اور خود بھی وقت کے دھارے میں بہتے رہے تو دنیا کی تباہی میں وہ بھی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے نظر آئیں گے، اور دوسری طرف دنیا کے ہوش رکھنے والوں اور سمجھ بوجھ رکھنے والوں کی بھی ذمہ داری ہے، وہ دنیا کے مختلف نظاموں کا تجربہ کرچکے، یہودیوں نے تو پہلے ہی دم توڑ دیا، اور وہ بجائے انسانیت کی رکھوالی کے اس کے قاتل بن گئے، عیسائیت بھی دنیا کو کوئی صاف اور بے خطر راستہ نہ دے سکی، اس کی مذہبی کتابوں میں وہ ہدایت موجود بھی نہیں ہے بقول کسی عیسائی مفکر کے: ’’ہدایا تِ حضرت عیسیٰؑ اگر یکجا کی جائیں تو اخبار کے ڈیڑھ کالم سے نہیں بڑھ سکیں گی‘‘۔ اس صورتِ حال میں ڈوبتی دنیا کو اگر سہارا مل سکتا ہے تو صرف اسلام سے! دنیا اس کا تجربہ کرچکی ہے، حضرات خلفائے راشدین کے دور میں جب پورے اسلام پر عمل تھا، دنیا نے امن واطمینان اور راحت و سکون کی صدیوں کے بعد سانس لی تھی، اور پھر عرصہ تک اس کی ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہیں ، ایک عورت بے خوف و خطر ایک شہر سے دوسرے شہر چلی جاتی، کسی کے لیے چوں چرا کی گنجائش نہیں تھی، پھر جب مسلمانوں نے اسلام کو چھوڑا تو حالات کچھ کے کچھ ہوگئے۔
آج دنیا کو دوبارہ پلٹنے کی ضرورت ہے، جو تجربہ ہوچکا اگر وہ دہرا دیا جائے تو شاید حالات پھر بدل جائیں ، لیکن اس کے لیے آسمانی تعلیمات کا سہارا لینے کی ضرورت ہے، قرآن مجید جس کو لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا، اس کی روشنی میں آنے کی ضرورت ہے۔
قرآن مجیدکی تعلیمات
قرآن مجید اﷲ کی آخری کتاب ہے، جس کو اﷲ نے دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کے لیے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم پر اتارا ہے، اس کو ’’ھدی للناس‘‘ بھی کہا گیا ہے، تمام لوگوں کے لیے وہ ایسا راستہ ہے جو اس کو اختیار کرے گا وہ دنیا و آخرت کی زندگی میں اپنی مراد کو پائے گا، اس کو اختیار کرنے والے متقی پرہیزگار کہلاتے ہیں ، ان کی زندگی پاکیزہ اور محتاط ہوتی ہے، وہ ہمہ وقت اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں ، گویا کہ اس سے فائدہ اٹھانے والے متقی ہوتے ہیں اور عملاً ایسے ہی لوگوں کو اس سے راستہ ملتا ہے اسی لیے دوسری جگہ اس کو ’’ھُدَیٰ لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘ یعنی متقیوں کے لیے ہدایت کہا گیا ہے۔
قرآن مجید کی سب سے پہلی دعوت توحید کی ہے، ہر ہر زمانے میں اﷲ نے اپنے پیغمبروں کو اسی کے لیے بھیجا، ہر ایک کی دعوت یہی تھی یَـٰا قَوْمِ اعْبُدُوْا اﷲَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلٰہٍ غَیْرُہٗ 1، ’’اے میری قوم کے لوگو! اﷲ کی بندگی کرو اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ‘‘، قرآن مجید کی بیشتر آیتوں میں اﷲ کی وحدانیت کو صاف صاف بیان کیا گیا ہے، مثالوں سے اس کی ربوبیت کو بتایا گیا ہے، اﷲ کی ذات اور اس کی صفات میں شرک کی جگہ جگہ مذمت کی گئی ہے اور صاف صاف کہہ دیا گیا ہے: إِنَّ اﷲَ لاَ یَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذَلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ2، ’’اﷲ اس کو نہیں معاف کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ جسے چاہے گا معاف کرے گا‘‘۔ جو بھی قرآن مجید میں غور و تدبر سے کام لے گا یا صرف سمجھنے ہی کی کوشش کرے گا، اس کے دل میں شرک سے نفرت بیٹھ جائے گی، قرآن مجید کے ایک بڑے عالم نے یہ بات لکھی ہے: ’’قرآن مجید کا پڑھنے والا سب کچھ ہو سکتا ہے مگر مشرک نہیں ‘‘3۔
اصلاح ِعقیدہ کے بعد جس چیز پر قرآن مجید میں سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے وہ اصلاح معاشرہ ہے، سماجی اور اخلاقی برائیوں کودور کرنے کی جگہ جگہ تلقین کی گئی ہے، انفرادی اور اجتماعی حقوق و معاملات کو بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام میں بعضوں کی بعثت کے مقاصد میں اخلاق و معاملات کی خرابیاں دور کرنے کا تذکرہ ملتا ہے۔
حضرت شعیبؑ کی قوم معاملات کی خرابیوں میں حد سے آگے بڑھ گئی تھی، ناپ تول میں کمی کرنا اور ڈنڈی مارنا ان کا شیوہ بن گیا تھا، حضرت شعیبؑ اسی لیے بھیجے گئے کہ وہ دعوت توحید کے ساتھ ان کی اس بدمعاملگی کو دور فرمائیں ، چنانچہ اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے وہ اس کا تذکرہ فرماتے ہیں :
یَـٰا قَوْمِ اعْبُدُوْا اﷲَ مَا لَکُمْ مِنْ إلٰہٍ غَیْرُہُ وَلاَ تَنْقُصُوْا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ إِنِّيْ أَرَاکُمْ بِخَیْرٍ وَّإِنِّيْ أَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ (سورۃ ھود: ۸۴)
’’اے میری قوم کے لوگو! اﷲ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ تول میں کمی مت کرو، میں تمہیں مزے میں دیکھ رہا ہوں ، اور مجھے تم پر اس دن کے عذاب کا اندیشہ ہے جو گھیر لینے والا ہے۔‘‘
حضرت لوطؑ کی قوم بے حیائی اور بدفعلی میں مبتلا تھی، حضرت لوطؑ کو اسی لیے بھیجا گیا کہ وہ ان کو تنبیہ کریں اور اس گندگی سے ان کو نکالنے کی کوشش فرمائیں ، اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے جگہ جگہ وہ ان کی اس خباثت کا تذکرہ فرماتے ہیں :
أَتَأْتُوْنَ الذُّکْرَانَ مِنَ الْعَالَمِیْنَ وَتَذَرُوْنَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُوْنَ (سورۃ الشعراء:۱۶۵ـ۱۶۶)
’’کیا دنیا جہاں میں تم مردوں سے خواہش پوری کرتے ہو اور تمہارے رب نے جو بیویاں بنائی ہیں ان کو تم نے چھوڑ رکھا ہے البتہ تم حد سے تجاوز کرنے والے لوگ ہو۔‘‘
موجودہ سماج میں بھی یہ دو برائیاں ایسی ہیں جو ہزار خرابیوں کی بنیاد ہیں ، ایک مال کی حد سے بڑھی ہوئی محبت اور دوسرے بے حیائی۔ رشوت، سود، جھوٹ، وعدہ خلافی، بدعہدی، مال کی بے جاتقسیم، حق تلفی، قتل و غارت گری اور نہ جانے کتنے جراثیم ہیں جن کے پیچھے ان ہی دو خرابیوں کا ہاتھ ہے، جب مال کی محبت حد سے بڑھ جاتی ہے تو دوسروں کے حقوق فراموش ہوجاتے ہیں اور انسان مال حاصل کرنے اور اس کو جمع کرنے کی ہر جائز ناجائز تدبیر کرتا ہے، وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس کو مرنا ہے، اﷲ کے سامنے حاضر ہونا ہے، اس کی پوری زندگی اسی ادھیڑبن میں گزرتی ہے کہ کس طرح دولت بڑھائی جائے پھر وہ اس حد تک گرجاتا ہے کہ خود چند ٹکوں کے لیے دوسروں کا بڑے سے بڑا نقصان کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، اس کا ضمیر ملامت کرنا چھوڑ دیتا ہے اور مال و دولت کے دلدل میں وہ دھنستا چلا جاتا ہے۔
اسی طرح دوسری برائی بے حیائی ہے، یہ بھی ایسا خطرناک مرض ہے کہ انسان اس کے لیے سب کچھ بھلا دیتا ہے، یہاں تک کہ نہ اس کو اپنی عزت کا خیال رہ جاتا ہے اور نہ نسل انسانی کے تحفظ کا، وہ تھوڑی دیر کے مزہ کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر چڑھادینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
یہ دونوں خرابیاں سماج میں بڑھتی چلی جاری ہیں اور اس میں بڑا ہاتھ مغربی تہذیب کا ہے، جس نے انسان کو بالکل جانوروں کی سی آزادی دے دی ہے، ایک شریف انسان جن چیزوں کا پہلے تصور نہیں کرسکتا تھا آج وہ چیزیں برسربازار ہو رہی ہیں اور ان کو ترقی کی علامت سمجھا جانے لگا ہے اور ثقافت کا ایک حصہ قرار دے دیا گیا ہے۔
اسلام نے اس زیادتی پر زبردست نکیر کی ہے، اس کے حدود و قیود متعین کیے ہیں ، جنسی خواہش کی تکمیل سے اسلام نہیں روکتا لیکن اس کے لیے نکاح کی شرط لگاتا ہے تاکہ اعتدال قائم رہے اور نسل انسانی کو گھن نہ لگ جائے، قرآن مجید میں کامیابی حاصل کرنے والوں کی صفات میں اس کا تذکرہ ہے:
وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حَافِظُوْنَ إِلَّا عَلیٰ أَزْوَاجِھِمْ أَوْ مَا مََلَکَتْ أَیْمَانُھُمْ فَإِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ فَمَنِ ابْتَغَیٰ وَرَآئَ ذَلِکَ فَأُوْلٓئِکَ ھُمُ الْعَادُوْنَ( سورۃ المؤمنون:۵-۷)
’’جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ، بجز اپنی بیویوں کے اور اپنی باندیوں کے تو وہاں وہ ملامت کے مستحق نہیں اور جس نے اس سے آگے کچھ خواہش کی تو ایسے ہی لوگ حد سے آگے بڑھ جانے والے ہیں ۔‘‘
زنا کی شدت کا بیان ان الفاظ میں ہے:
وَلاَ تَقْرَبُوْا الزِّنَیٰ إِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّمَقْتاً وَّسَآئَ سَبِیْلاً (سورۃ بنی اسرائیل: ۳۲)
’’اور زنا کے قریب بھی مت جانا وہ تو بڑی بے حیائی ہے اور بدترین راستہ ہے (اپنی خواہش کی تکمیل کا)۔‘‘
بے حیائی کو عام کرنے والوں پر بھی سخت نکیر کی گئی ہے:
إِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ أَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِيْ الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِيْ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ (سورۃ النور: ۱۹)
’’جو لوگ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں اذیت ناک عذاب ہے۔‘‘
اسی لیے زنا کی تہمت لگانے والے کو کوڑے مارنے کا حکم ہے۔
جنسی خواہش ہر ایک میں ہوتی ہے، اس کو ختم کردینے سے بھی منع کیا گیا ہے، بعض صحابہ نے اس کی اجازت چاہی تھی لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمادیا، البتہ فرمایا کہ ایسے شخص کو نکاح کرلینا چاہیے اور اگر نکاح پر قدرت نہ ہو تو روزوں کی کثرت اس کے لیے مفید ہے اس سے یہ خواہش کم ہو جاتی ہے اور نفس پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔
اسی طرح اسلام مال کی محبت سے روکتا ہے اس میں غلو اور انتہا پسندی پر قدغن لگاتا ہے، نہ وہ بقدر ضرورت مال کو رکھنے سے روکتا ہے، اور نہ مطلق جمع کرنے سے منع کرتا ہے اگر اس کے حق کی ادائیگی ہوتی رہے، اﷲ کے راستے میں خرچ کیا جاتا رہے، سینت سینت کر رکھنے والوں اور خرچ نہ کرنے والوں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
{وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الَّذَہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَھَا فِيْ سَبِیْلِ اﷲِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ یَّوْمَ یُحْمَیٰ عَلَیْھَا فِيْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوَیٰ بِھَا جِبَاھُھُمْ وَجُنُوْبُھُمْ وَظُہُوْرُھُمْ ھٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لأِنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ(سورۃ التوبۃ: ۳۴،۳۵)
’’جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اﷲ کے راستہ میں اس کو خرچ نہیں کرتے تو ان کو دردناک عذاب کی خوش خبری دے دیجیے۔ جس دن اس کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ا ن کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، یہی وہ ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کرکے رکھا تھا، بس جو تم نے جمع کیا تھا اس کا مزہ چکھو۔‘‘
خرچ کرنے والوں کے بارے میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہاں تک ارشاد فرمایا:
’’لا حسد إلا في إثنتین رجل آتاہ اﷲ مالا، فسلطہٗ علی ھلکتہٖ في الحق، ورجل آتاہ اﷲ حکمۃ فھو یقضی بھا ویعلمھا۔‘‘( صحیح بخاری ۱/۱۵۲ـ۱۵۳)
’’دو طرح کے لوگ قابل رشک ہیں ، ایک وہ جس کو اﷲ نے مال دیا ہو اور صحیح جگہ خرچ کرنے پر اس کو لگا دیا ہو، دوسرے وہ شخص جس کو اﷲ نے حکمت و دانائی دی ہو تو وہ اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہو اور اس کی تعلیم دیتا ہو۔‘‘
سماج کی اور خرابیوں کو بھی مختلف آیات میں واضح کیا گیا ہے اور ان سے بچنے کی تلقین کی گئی، ایک دوسرے کے حقوق بتائے گئے ہیں اور ان کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، ان میں سب سے بڑا حق ماں باپ کا بتایا گیا ہے، مخصوص مقامات پر اﷲ جل شانہ نے اپنے حق کے ساتھ والدین کے حق کا تذکرہ فرمایا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے:
أَنِ اشْکُرْ لِيْ وَلِوَالِدَیْکَ إِلَيَّ الْمَصِیْرُ (سورۃ لقمان: ۱۴)
’’میرے احسان مند ہو اور اپنے ماں باپ کے اور میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘
آگے فرمایا جارہا ہے:
وَإِنْ جَاہَدَاکَ عَلَیٓ أَنْ تُشْرِکَ بِيْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلاَ تُطِعْھُمَا وَصَاحِبْھُمَا فِيْ الدُّنْیَا مَعْرُوْفاً (سورۃ لقمان: ۱۵)
’’اور اگر وہ تمہیں اس پر مجبور کریں کہ تم میرے ساتھ شریک کرو جس کے بارے میں تم علم نہیں رکھتے تو ان کی بات مت ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی کرتے رہنا۔‘‘
ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت اسماء بنت صدیقؓ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میری والدہ مشرکہ ہیں وہ چاہتی ہیں کہ میں ان کے ساتھ (اچھا )سلوک کروں ۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ان کے ساتھ (اچھا) سلوک کرتی رہو۔
شرک جیسی مبغوض ترین چیز کے باوجود دنیا میں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کی خدمت کرنے کی جو تلقین کی جارہی ہے اس سے ہمیں اس کی اہمیت معلوم ہوتی ہے، مغربی تہذیب نے ماں باپ کے تعلق کو بھی جس طرح تار تار کر دیا ہے وہ اس کے خاص تاجرانہ ذہن کا نتیجہ ہے۔ امریکہ میں رہنے والے ایک صاحب نے اپنا واقعہ سنایا کہ جب میری اہلیہ ڈیلیوری (Delivery)کے سلسلہ میں ڈاکٹر کے یہاں گئیں تو اس نے پہلا سوال یہ کیا کہ آپ شادی شدہ ہیں ؟ پھر جب بچہ کی ولادت ہوئی تو اس نے سوال کیا کہ کیا آپ بچہ کو لے جائیں گی؟ ایک ڈیڑھ سال بعد جب دو بارہ ضرورت پڑی تو اس نے گھور کر دیکھا۔
اس پوری گفتگو سے مغربی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے کہ اوّل تو حفاظت نسب کا تصور ہی وہاں مٹ کر رہ گیا ہے۔ دوسری بات جو سامنے آئی ہے اس سے ان کی شقاوت قلبی کا پتہ چلتا ہے کہ بچہ کی ولادت ہونے کے بعد بھی ماں کو بچہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اسی لیے لوگ بچوں کو ہسپتال میں چھوڑ کر فارغ ہوجاتے ہیں ۔ تیسرے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک کے بعد دوسرا بچہ ان کے یہاں ایک عجوبے کی چیز ہے، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہ حساب لگاتے ہیں کہ بچہ ہوگا تو اتنے ہزار ڈالر خرچ ہوں گے، اس کی تعلیم پر اتنے ہزار ڈالر خرچ آئے گا اور جب وہ کسی قابل ہوگا تو وہ الگ ہو جائے گا اور بوڑھے ماں باپ کا سہارا بننے کے بجائے ان کو بوڑھوں کے گھر (Old House) میں لے جاکر ڈال دے گا۔
اس ذہنیت نے ماں باپ کے پاکیزہ رشتوں میں بھی ایسی دراڑیں ڈال دی ہیں کہ پورا نظام کرپٹ (Corrupt)ہو کر رہ گیا ہے۔
قرآن مجید اس تاجرانہ ذہنیت کی نفی کرتا ہے، اور ماں باپ کے رشتے کو بڑی اہمیت سے بیان کرتا ہے، اور یہ حکم دیتا ہے کہ خواہ دنیا کے اعتبار سے بے فائدہ ہو کر رہ جائیں لیکن ان کی خدمت سعادت اخروی کا راستہ ہے، جنت کو ماں کے قدموں کے نیچے بتایا گیا ہے اور باپ کو جنت کا قیمتی دروازہ کہا گیا ہے اور یہاں تک ارشاد ہوتا ہے:
{وَإِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُھُمَا أَوْ کِلَاھُمَا فَلاَ تَقُلْ لَھُمَا أُفٍّ وَّلاَ تَنْہَرْھُمَا وَقُلْ لَھُمَا قَوْلاً کَرِیْماً وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِيْ صَغِیْراً(سورۃ بنی اسرائیل: ۲3-۲۴)
’’تمہارے پاس اگر دونوں یا دونوں میں سے ایک بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اف بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان دونوں سے نرم بات کرنا، اور ان کے لیے محبت و رحمت کے ساتھ سراپا تواضع بن جانا اور کہنا کہ اے رب ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انھوں نے بچپن میں مجھے پالا پوسا۔‘‘
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 سورۃ الاعراف: ۶۵
2 سورۃ النساء: ۴۸
3 اسلام کے تین بنیادی عقائد از حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی