یہ تحریر تنظیم قاعدۃ الجہاد في جزیرۃ العرب سے وابستہ یمن کے ایک مجاہدلکھاری ابو البراء الاِبی کی تالیف ’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)
انتیسویں وجہ: تنقید یا ملامت کیے جانے کو انتہائی زیادہ محسوس کرنا
بعض افراد نہیں چاہتے کہ انہیں کوئی ملامت کرے، یا ان کا محاسبہ کرے یا ان پر نقد کرے۔ اور اگر ایسا ہو جائے تو اپنے اوپر اس کا اثر طاری کر لیتے ہیں، کام سے رک جاتے ہیں اور راستے سے پھسل جاتے ہیں۔ یا تو اس احساس کے تحت کہ وہ ناکام رہے اور کوئی کام درست نہیں کر سکے، یا اس احساس کے تحت کہ وہ ایسے مرتبے اور مقام تک پہنچ گئے ہیں جہاں ان پر نقد نہیں ہونی چاہیے، یا اس لیے کہ ایسا ویسا شخص کون ہوتا ہے کہ انہیں ہدایات دے اور ان پر نقد کرے۔
کہاں یہ اور کہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رویہ جنہوں نے فرمایا: ”اللہ اس پر رحم کرے جو ہمارے عیب ہمیں ہدیہ کرے !(یعنی بتلائے)“۔
ایک دفعہ آپؓ منبر پر چڑھے اور فرمایا: ”اے لوگو! سنو اور مانو“۔تو رعایا میں سے ایک عام آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا: آپ کی بات نہ سنی جائے گی نہ مانی جائے گی۔ حضرت عمر نے دریافت کیا: ”کیوں ؟اللہ تم پر رحم فرمائے “۔تو اس شخص نے کہا: کیونکہ آپ نے ہمیں ایک ایک کپڑا دیا اور خود دو کپڑے پہنے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ”اٹھو اے عبد اللہ بن عمر “۔ تب حضرت عبد اللہ بن عمر نے اٹھ کر ما جرا بتایا کہ انہوں نے اپنے والد صاحب کو اپنے حصہ کا کپڑا دیا تھا کیونکہ ان کی جسامت بڑی ہے۔
ایک دفعہ آپ نے فرمایا: ”اگر تم مجھ میں ٹیڑھ دیکھو تو اسے سیدھا کر دینا“۔ تو ایک چرواہا اٹھا اور کہنے لگا: اگر آپ میں ٹیڑھ دیکھیں گے تو اپنی تلواروں سے سیدھا کر دیں گے۔
ابن قدامہ مختصر منہاج القاصدین میں لکھتے ہیں:
”اور جان لو، جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے لیے خیر چاہتے ہیں تو اسے اپنے عیب دکھا دیتے ہیں۔ اور جسے بصیرت حاصل ہو اس سے اپنے عیب چھپ نہیں سکتے۔ اور علاج تو تب ہی ممکن ہے جب عیب کا علم ہو جائے۔ لیکن اکثر لوگ اپنے عیوب سے بے خبر رہتے ہیں۔ انہیں دوسرے کی آنکھ میں تنکا نظر آ جا تا ہے لیکن اپنی آنکھ میں شہتیر بھی ہو تو نظر نہیں آتا۔ جو چاہتا ہے کہ اپنے عیب کو جان لے تو اس چاہیے کہ چار میں سے کوئی ایک طریقہ اپنائے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ ایسے شیخ کے سامنے بیٹھے جو نفس کے عیوب کا خوب علم رکھتا ہو۔ ایسا شیخ جو عیوب معلوم بھی کر سکے اور علاج کے طریقوں سے بھی واقف ہو۔ البتہ اس دور میں ایسا شیخ ملنا انتہائی مشکل ہے۔ لیکن جسے ایسا شیخ مل گیا تو در حقیقت اسے ماہر طبیب مل گیا۔ اس لیے پھر چاہیے کہ اس شیخ کو کبھی بھی نہ چھوڑے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ سچا، با بصیرت اور با شرع دوست تلاش کرے۔ اور اسے اپنے اوپر نگران مقرر کر لے تاکہ اخلاق و افعال کی ہر برائی پر وہ اسے خبردار کرتا رہے۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب فرماتے تھے: ’اللہ ایسے شخص پر رحم فرمائے جو ہمیں ہمارے عیوب ہدیہ کرے (یعنی بتلائے)‘۔ اسی طرح جب حضرت سلمان ان کے ہاں آئے تو حضرت عمر نے اپنے عیوب کے بارے میں دریافت کیا۔ حضرت سلمان نے فرمایا: ’میں نے سنا ہے کہ آپ ایک ہی دسترخوان پر دو سالن رکھتے ہیں۔ اور اپنے لیے دو جوڑے استعمال کرتے ہیں، ایک رات کو اور ایک صبح کو‘۔ حضرت عمر نے فرمایا : ’اس کے علاوہ بھی کچھ تم نے سنا ہے؟ ‘حضرت سلمان نے فرمایا : ’نہیں‘۔ پس حضرت عمر نے فرمایا: ’اب یہ دونوں کام میں آئندہ نہیں کروں گا‘۔
حضرت عمر حضرت حذیفہ سے بھی پوچھا کرتے تھے: ’آیا میں منافقوں میں سے تو نہیں؟‘ وجہ یہ ہے کہ جس شخص کو بھی اس کی زندگی میں بلند مرتبہ حاصل ہو گا اتنا ہی اپنے آپ کو مورد الزام ٹھہرائے گا۔ لیکن ہمارے زمانے میں ان صفات کا حامل دوست بھی نایاب ہے۔ دوست یاروں میں مداہنت سے بچنے والے کم ہی ہوا کرتے ہیں۔ ایسے دوست جو عیب بتایا کریں اور حسد نہ کیا کریں۔ گویا مطلوبہ مقدار سے آگے نہ بڑھیں۔ سلف صالحین ایسے لوگوں کو پسند کرتے تھے جو ان کے عیوب پر انہیں خبردار کرتے تھے۔ جب کہ آج کل کے زمانے میں ہم میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جن کے نزدیک عیب بتانے والا شخص سب سے زیادہ مبغوض ہوتا ہے۔ یہ ایمان کی کمزوری پر دلالت کرتا ہے۔ برے اخلاق تو بچھووں کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر ہمیں کوئی چوکنا کرے کہ ہمارے کپڑے کے نیچے بچھو ہے تو ہم اس کے احسان مند ہو جاتے ہیں اور بچھو کو مارنے کی تدبیر میں لگ جاتے ہیں، اور ہر ایک کو معلوم ہے کہ برے اخلاق بچھو سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں (لیکن ان کی نشاندہی کرنے والے کے احسان مند ہونے اور اپنی اصلاح کرنے کے بجائے اسی شخص سے ہم لڑ جھگڑ پڑتے ہیں)۔“
اور دیکھیے حضرت عمر بن عبد العزیز، خلیفۂ راشد، تابعی اور عالم و زاہد ہونے کے باوجود اپنے غلام مزاحم سے کہتے تھے:
”والیوں نے اپنی آنکھیں عوام الناس پر رکھی ہوئی ہیں۔ لیکن میں تجھے اپنے نفس پر نگران مقرر کرتا ہوں۔ پس جب بھی تم مجھ سے ایسی بات سنو جو تمہیں نا گوار ہو، یا ایسا کام جو تمہیں نا پسند ہو، تو مجھے نصیحت کرو اور منع کرو۔“
امام اور واعظ حضرت بلال بن سعد (متوفی 120ھ) نے اپنے دوست سے کہا:
”مجھ تک یہ روایت پہنچی ہے کہ ’مومن مومن کا آئینہ ہے‘، تو کیا تمہیں میری کسی بات کے بارے میں تشویش تو نہیں ہے؟“
فقیہ اور عابدحضرت میمون بن مہران (متوفی 117ھ) نے فرمایا:
”جو بات مجھے نا پسند ہو وہ میرے منہ پر کہا کرو۔ کیونکہ انسان اپنے بھائی کو تب ہی نصیحت کر سکتا ہے جب اس کے منہ پر وہ کہے جو اسے برا محسوس ہو۔“
سلف صالحین میں سے ایک شخص نے فرمایا:
”عقل مند شخص کو چاہیے کہ اپنی رائے کے ساتھ علماء کی آراء کا بھی اضافہ کرے۔ اور اپنی ذہانت کے ساتھ حکماء کی ذہانت بھی شامل کرے۔ کیونکہ شاذ رائے ممکن ہے کہ غلط نکل آئے۔ اور تنہا عقل ممکن ہے کہ گمراہ ہو جائے۔“
٭٭٭٭٭