اللہ کے بندوں پر یہ زمانہ بہت سخت ہے غالبا یہی وہ دور ہے جسے حدیث پاک میں یوں فرمایا گیا۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيهِمْ عَلَى دِينِهِ كَالْقَابِضِ عَلَى الْجَمْرِ (ترمذی: 2260)
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان میں اپنے دین پر صبر کرنے والا آدمی ایسا ہو گا جیسے ہاتھ میں انگارا پکڑنے والا۔“
اس زمانے میں انسان کو اپنے ایمان کی سلامتی اور ایمان کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونا انتہائی دشوار ہے۔ یہی وجہ ہے ہر طرف ضلالت و گمراہی کا دور دورہ ہے ایسے نیک بخت انتہائی قلیل ہیں جو ہدایت کے نور سے بہرہ مند ہیں۔ زندگی جہد مسلسل کا نام ہے اور جب یہ حرکت رک جاتی ہے تو دراصل اسی کا نام موت ہے۔ ایک مومن کی زندگی بھی انہی آزمائشوں سے بھرپور ہوتی ہے۔ باریکی سے دنیا میں پنہاں مصلحتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ زندگی کا کیف بھی انہی مراحل میں ہے اور ان مراحل سے کامیابی سے گزرنے والے فاتح کے ثمر کے تو کیا ہی کہنے!
امت مسلمہ جو دنیا میں حق کی علمبردار ہے لازم ہے کہ اس کی آزمائش بھی اس کے مرتبے کے شایان شان ہو۔ واضح رہے دنیا میں سب سے زیادہ مصائب و آلام رب کے سب سے برگزیدہ بندوں حضرات انبیاء کرام نے برداشت کیے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً قَالَ الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ فَإِنْ كَانَ دِينُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأُخْتِ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً قَالَ الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ (ترمذی: 2398)
سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’انبیاء ورسل پر، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگربندہ اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کے دین کے مطابق مصیبت بھی ہوتی ہے، پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پراس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا‘‘۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں ابو ہریرہ اور حذیفہ بن یمان کی بہن فاطمہ ؓ سے بھی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا کہ مصیبتیں کس پر زیادہ آتی ہیں؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: ’’انبیاء ورسل پر پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں پھر جو ان کے بعد میں ہوں‘‘۔
جب آزمائش بڑی ہو گی تو لازم ہے مرتبے بھی رب بڑے عطا فرمائے گا ایک حدیث پاک میں جزوی فضیلت کے ایسے الفاظ ہیں کہ اہل حق کی دلجوئی کا حق ادا ہو گیا۔
’’بلاشبہ تمہارے بعد صبر کے دن آنے والے ہیں، ان میں (دین و شریعت پر) صبر کرنا (اس پر ثابت قدم رہنا) ایسے ہو گا جیسے آگ کا انگارہ پکڑنا۔ ان لوگوں میں (دین کے تقاضوں پر) عمل کرنے والے کو اس جیسے پچاس عمل کرنے والوں کا ثواب ملے گا۔“ (عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ عتبہ کے علاوہ) مجھے دوسرے نے بتایا کہ سیدنا ابوثعلبہ ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان لوگوں میں سے پچاس عمل کرنے والوں کے برابر ثواب ملے گا؟ آپ نے فرمایا: ”تمہارے پچاس آدمیوں کے برابر۔“ (ابی داؤد: 4341)
اگر آج کے حالات کا مشاہدہ کیا جائے تو مومنین ایک نہیں تین محاذوں پر نبردآزما نظر آتے ہیں۔ اور یہ تینوں محاذ اپنی سختی میں ایک دوسرے پر سبقت لے رہے ہیں لیکن بندہ مومن کو بیک وقت ان تینوں محاذوں پر ڈٹے رہنا ہے۔
جب بھی جنگ یا محاذ کا لفظ پڑھنے یا سننے کو ملتا ہے تو ذہن میں پہلا خیال سیاسی غلبے کی لڑائی کی طرف ہوتا ہے جس میں عموماً لوہے کے بنے ہتھیار استعمال ہوتے ہیں۔ فی زمانہ یہ جنگ تو دنیا بھر کے مسلمانوں پر فرض عین بھی ہے اور پوری قوت سے مسلط بھی کر دی گئی ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اسلام کے مقابل جو ہتھیار میزائل ، طیارے اور دیگر انواع و اقسام کے موذی ہتھیار آج عالم کفر کے زیر استعمال ہیں ان کا تاریخ انسانیت میں چشم فلک نے نظارہ تو درکنار کسی بندے بشر کے لیے تصور تک کرنا محال تھا۔ چنانچہ آج اللہ کا دین غالب کرنے کی لڑائی کی ہولناکی پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ کفر کو ایک انچ زمین پر بھی اللہ کے مبارک دین کا نفاذ ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں۔ جس کی بڑی مثال امارت اسلامیہ افغانستان ہے جہاں عالمی کفر امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی پہلی حکومت پر حملہ آور ہونے کے لیے پر تول ہی رہا تھا کہ اسلام کے شیروں نے اقدام کر کے اسے اس کے گھر میں گھس کر کاری ضرب لگائی حالانکہ اس وقت ابھی سو فیصد افغانستان کا کنٹرول مجاہدین نے حاصل نہیں کیا تھا لیکن کفر کی نیندیں حرام کر رکھی تھی۔ اور پھر بیس سال عالمی کفر کا متحدہ لشکر افغانستان کے پہاڑوں میں آتش و آہن کی بارش کرتا رہا لیکن اہل ایمان کو شکست نہ دے سکا اور اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہا۔ بالآخر فتح و نصرت اس کے مومن بندوں کے حصے میں آئی۔ لیکن آج بھی کفر کی پوری کوشش ہے کسی طرح اسلامی نظام کے اس نور سے ظلمت و گمراہی میں ڈوبی دنیا کو دور رکھا جا سکے اس نظام کو ناکام ثابت کرنے کے لیے امارت اسلامیہ افغانستان کے راستے میں ہر ہر ممکن رخنہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کہ کہیں اس مبارک نظام کی کرنیں پوری دنیا میں نہ پھیل جائیں۔
گویا سیاسی غلبے کی یہ لڑائی پوری امت کے لیے اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
دوسرا محاذ اس سے زیادہ سخت اور اہم ہے کیونکہ عالم تکوین کو عالم روحانیت کے تابع رکھا گیا ہے۔ لہذا اس لڑائی کی بنیاد پر مادی لڑائی کے بھی فیصلے ہوتے ہیں۔ نفس اور شیطان سے جنگ مومنین کے لیے ہمیشہ سے ایک سخت جنگ رہی ہے۔ لیکن آج کے زمانے میں فتنوں کی بارش اتنی تیز ہے کہ قوی سے قوی صاحب ایمان کو بھی تعلق مع اللہ کی مضبوط چھتری درکار ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کا خاص فضل ہی ہے جس کے طفیل ان ایمانی آزمائشوں سے کامیابی حاصل کرنا ممکن ہے۔ جان کی آزمائش سے ایمان کی آزمائش میں بڑے نقصان کا خطرہ ہوتا ہے اسی لیے اس آزمائش کی حساسیت زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ بندہ مومن پر لازم ہے کہ ہر حال میں رب کی معصیت سے بچے اور اسکے قرب کے وظیفہ میں ہر آن مشغول رہے۔
ضرورت ہے کہ ہر آن ہر گھڑی ہر ساعت اسے یہی فکر ہو کہ حق تعالیٰ شانہ کا کون سا حکم میری طرف متوجہ ہے جسے میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عین طریقے اور ان کی کامل اتباع سے سر انجام دوں۔ گناہوں اور فتنوں سے بچنے کا بھی سب سے سہل طریقہ یہی ہے کہ نیکی کے کاموں پر دوام حاصل کریں۔ یہ محاذ ایسا ہے گویا اپنے دائیں بائیں دیگر دو محاذوں پر نبردآزما مومن کو دونوں بازوؤں سے اس کا سہارا بن کر تھام رکھا ہو۔ پس اگر مومن بننے کے یہ عملی تقاضے پورے ہوں جن میں فرائض کی پابندی، منکرات سے اجتناب اور قرب الٰہی کی سعی شامل ہو تو اللہ کے وعدہ کے مطابق زمینی جنگ میں بھی نصرت الٰہی اس کے ہمرکاب ہوتی ہے اور فتح و ظفر سے نوازہ جاتا ہے۔
وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (سورۃ آل عمران: 139)
اور تم اندیشہ نہ کرو اور غم نہ کھاؤ، اگر تم ایمان والے ہو تو تم ہی غالب آؤ گے ۔
نوافل کی کثرت ، ہر لمحہ ذکر کا معمول اور تلاوت قرآن سے رغبت قرب الٰہی کے زینے تیزی سے طے کرواتی ہیں۔ اگر صحت و حالات کی موافقت ہو تو نفلی روزے اور انفاق فی سبیل اللہ وہ قیمتی ذرائع ہیں جو اپنے اندر فوائد کا سمندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ صدقہ سے بلاؤں کا ٹلنا تو الحمدللہ مسلم معاشرے میں بچوں کو بھی پتہ ہوتا ہے، تاہم اہل ذوق نے ایک عجیب نقطہ بیان فرمایا ہے کہ توبہ سے گناہ تو معاف ہو جاتا ہے لیکن بعض دفعہ اس کی نحوست و شناعت کے اثرات باقی رہ جاتے ہیں جن سے نجات میں صدقہ کو خاص دخل حاصل ہے۔ جبکہ نفلی روزے صحت کے لیے بھی مفید ہیں اور شہوات کو بھی تھامنے والا عمل ہیں۔ ہر ماہ آیام بیض اور سوموار و جمعرات کے روزوں کو سنت کی خاص نسبت کا فیضان بھی حاصل ہے۔
آج کے زمانے میں نظروں کی حفاظت ہو یا اپنی سماعتوں کو حرام سے محفوظ رکھنا، بلاشبہ یہ آسان کام نہیں لیکن ناممکن بھی بہرحال نہیں۔ اگر انسان نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے تو اس کے اندر برائی سے نفرت کا فطری جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جو اسے ان کاموں کے اہتمام میں معاون ہوتا ہے جو گناہوں سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر ہوں۔ کیونکہ ماضی کے برعکس فی زمانہ گناہوں کے ارتکاب کے لیے اہتمام کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ گناہوں سے اجتناب کے لیے باقاعدہ اہتمام درکار ہوتا ہے۔ تب ہی اخلاقی و دیگر برائیوں سے بچنا سہل ہو سکتا ہے۔
تیسرا محاذ ذہن اور فکر کی جنگ کا ہے جس میں بطور ہتھیار ذرائع ابلاغ سرفہرست ہیں۔ یہ اتنا خطرناک محاذ ہے جس میں ٹھوکر کھانے والا انسان خود کو حق پر سمجھتا رہتا ہے، بلکہ بعض دفعہ اہل حق کو ہی گمراہ اور جہالت پر سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ کفر کے ہاں اس محاذ پر کثیر سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے۔ بلا مبالغہ لاکھوں کی تعداد میں تنظیموں ، این جی اوز اور دیگر اداروں کا جال بچھا کر اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ کرۂ ارض پر موجود ایک بھی انسان صراط مستقیم پر چلنے والا نہ ہو۔ چنانچہ اسی فکری گمراہی کے حوالے سے حدیث پاک کی تطبیق درست معلوم ہوتی ہے:
عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” بادروا بالاعمال فتنا كقطع الليل المظلم، يصبح الرجل مؤمنا ويمسي كافرا، ويمسي مؤمنا ويصبح كافرا، يبيع احدهم دينه بعرض من الدنيا ” (ترمذی: 2195)
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ نیک اعمال کی طرف جلدی کرو، ان فتنوں کے خوف سے جو سخت تاریک رات کی طرح ہیں جس میں آدمی صبح کے وقت مومن اور شام کے وقت کافر ہو گا، شام کے وقت مومن اور صبح کے وقت کافر ہو گا، دنیاوی ساز و سامان کے بدلے آدمی اپنا دین بیچ دے گا۔“
ہر غلط نظریہ کی ستائش کی جاتی ہے، فتنوں کی ترویج میں ریاستی سرپرستی فراہم کی جاتی ہے۔ ہر غلط نظریہ کی ترویج و اشاعت کے لیے خوب اسباب فراہم کیے جاتے ہیں۔ عقائد میں گمراہی کی مہم تو پوری شدومد سےجاری ہے، کوشش کی جاتی ہے کہ ایک ایک سنت تک کو عوام میں مشتبہ اور غیر مقبول کیا جائے۔ اعمال صالحہ سے روکنے کے لیے طرح طرح کے عذر تراش دیے جاتے ہیں، ایسے میں نفس کا غلبہ فورا ًایسے عذر کو قبول کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
اہل اللہ کی صحبت اور چودہ سو سال سے امت (اہل سنت) کے اجماعی عقائد و نظریات کو دانتوں سے مضبوط پکڑنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ فتنوں سے بچنے کا ایک آزمودہ نسخہ یہ بھی ہے کہ ہر ایرے غیرے کو نہ سنا جائے، دین کے معاملات میں مستند علمائے کرام ہی کی رائے معلوم کی جائے اور اسے ہی معتبر خیال کیا جائے۔ ظاہر ہے اگر سپیرے کے علاوہ ہر عامی سانپ کو پکڑے گا تو نتیجتاً سانپ ضرور ڈسے گا۔ فتنہ کہتے ہی اسے ہیں جو حق کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہو یعنی حق و باطل کا باہم خلط ملط ہونا۔ اوپر مذکورہ حدیث پاک میں اندھیری رات کے لفظ سے بھی یہی اشارہ ملتا ہے ورنہ اعلانیہ باطل کا پہچاننا اور اس کا تدارک نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ بعض فتنے تو اتنے منظم اور خطرناک ہوتے ہیں کہ عقل کے مات کھا جانے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں، ایسے میں بھی اللہ کی خصوصی نظر عنایت درکار ہوتی ہے۔ لہذا اللہ کی رضا حاصل کرنے کی جدوجہد کو باقی تمام کاموں پر اسی لیے سبقت حاصل ہے۔
وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ(سورۃ التوبة: 72)
اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو جنتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے، اور جنات عدن میں عمدہ مکانات کا وعدہ کیا ہے، اور اللہ کی خوشنودی سب سے بڑھ کر ہوگی، یہی عظیم کامیابی ہوگی۔
جہاد و مجاہدین کے خلاف سب سے زیادہ زور صرف کیا جاتا ہے نہ صرف جہاد سے بدظن کرنے کے لیے بلکہ عین جہادی میدانوں میں انہیں جہاد کے ثمرات کو ضائع کرنے پر ابھارنے کے لیے اور مبارک جہادی تحریکوں کو غلط سمت میں موڑنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کا فائدہ کفر کو ہو اور نقصان اسلام کو۔ چنانچہ حال ہی میں خوارج کا فتنہ (داعش) نمودار ہوا اور اسلام کو اتنا نقصان پہنچایا جتنا کفر براہِ راست حملوں میں نہ پہنچا سکا۔ جہادی تحریکوں کو نقصان پہنچا اور جہاد کو گالی بنا دینے کا خواب کفر کو پورا ہونے کی امید نظر آنے لگی۔ امت میں جہاد کے حوالے سے اضطراب پیدا ہوا اور جہادی تحریکوں کو شک کی نظر سے دیکھنے میں اضافہ ہوا۔ خوارج کی بے اعتدالیوں نے جہاد کے روشن چہرے کو عوام کی نظر میں مسخ کیا۔ آج امت کی جو حالت ہے وہ دوسرے اور تیسرے محاذ پر دشمن کی بڑے پیمانے پر کامیابی کی وجہ سے ہے ورنہ میدانِ حرب و ضرب میں تو اسلام کے شیروں کے مقابل اسے ہمیشہ ہزیمت ہی اٹھانی پڑتی ہے۔ قلیل سے قلیل تعداد و وسائل سے بڑے سے بڑے دشمن اور تمام تر مادی وسائل کو مجاہدین اسلام یوں شکست دیتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اور بالآخر اسے نصرت خداوندی قرار دینے پر جا منتج ہوتی ہے جو مجاہدین اسلام کی حقانیت کی ایک اور دلیل بن جاتی ہے۔
پس مومن پر لازم ہے کہ ان تینوں محاذوں پر ڈٹا رہے کیونکہ یہ محاذ ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور دراصل محاذ تین ہیں جنگ تو ایک ہی ہے۔
یاد رہے جو کچھ تم کرتے ہو اللہ سب دیکھتا ہے ۔
٭٭٭٭٭