الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین، أما بعد
ہمیں نہایت دکھ کے ساتھ یہ اطلاع ملی ہے کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں اہلِ غزہ کی حمایت میں جاری دھرنے میں دو جوان شہید اور متعدد دیگر شرکاء (ابتدائی معلومات کے مطابق پاکستان فوج کے ایک کارندے کے اہلِ دھرنا پر گاڑی چڑھانے کے سبب) زخمی ہوگئے ہیں۔ اللہ پاک شہداء کی مغفرت فرمائیں، ان پر رحم کریں، جنت الفردوس کو ان کا مسکن بنائیں، پسماندگان کو صبرِ جمیل اور اجرِ جزیل عطا فرمائیں اور زخمیوں کو جلد صحت یاب فرمائیں، آمین!
اسلام آباد دھرنے کی نسبت سے ہم چند امور امتِ مسلمہ کے سامنے پیش کرنا چاہیں گے:
اولاً، اسلام آباد میں جاری دھرنے پر پاکستان فوج کے ایک کارندے کا، پولیس و انتظامیہ کے سامنے، گاڑی چڑھا کر دو جوانوں کو شہید اور چار دیگر کو زخمی کرنا اس بات پر دلیل ہے کہ پاکستان کی فوج اور حکومت، مسلمانوں اور اسلام کی محافظ نہیں بلکہ فکراً و عملاً صہیونی اور صہیونی امریکہ کی غلام ہیں۔ شرکائے دھرنا تو پر امن تھے اور احتجاج بھی اسرائیل کی غزہ پر جارحیت کے خلاف کر رہے تھے، اس کے باوجود فورسز کا مظاہرین پر یہ جارحیت کرنا ان فورسز کے صہیونی و امریکہ غلام ہونے کے سوا اور کس بات پر دلالت کرتا ہے؟
دراصل پاکستانی جرنیل غلام ہیں اور صہیونی امریکہ ان کا آقا ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے یہاں اقتدار عوامی نمائندوں کا نہیں بلکہ کبھی سامنے اور کبھی پس منظر میں رہتے ہوئے یہاں اصلی حکومت ان جرنیلوں ہی کی رہی ہے ۔ پچھلے پچیس سال سے عالمی ’وار آن ٹیرر‘ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی ہونے کا ’تمغہ‘ بھی اس فوج کے سینے پر سجا ہے۔یوں ایسی فوج و حکومت سے اہلِ غزہ کی نصرت کا مطالبہ کرنا دانشمندی نہیں۔
بے شک اسلام و مسلمانوں کے دفاع کا شرعی و عقلی طریقہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، خاص کر مقدسات، اسلامی سرزمینوں کا دفاع، اہلِ اسلام و مظلومین کی نصرت اور اس سب میں سرِ فہرست قبلۂ اول مسجدِ اقصیٰ کی آزادی کا حقیقی راستہ جہاد فی سبیل اللہ ہی ہے، اور یہ جہاد آج امتِ مسلمہ کے ہر ہر فرد پر فرضِ عین ہے، جو اس جہاد بمعنیٰ قتال فی سبیل اللہ میں عملی شرکت کی راہ و استطاعت نہ پاتا ہو تو جہاد و مجاہدین کی اپنے اموال سے نصرت، دعوت و بیان، قلم و تحریر، کفار خاص کر صہیونیوں کا معاشی بائیکاٹ اور اگر اس سب کی استطاعت بھی نہ ہو تو مظاہرے اور دھرنے، الغرض ہر ایسا قدم جو میدان میں ڈٹے دفاعِ اسلام و اہلِ اسلام کی جنگ لڑتے مجاہدین فی سبیل اللہ کو قوت پہنچانے کا سبب ہو……یہ امور امت کے ہر ہر فرد پر بقدرِ استطاعت لازمی ہیں۔
مظاہروں اور دھرنوں کا اصل مقام دنیا بھر میں امریکی سفارت خانے اور قونصل خانے ہیں۔ مسجدِ اقصیٰ کی آزادی کا راستہ تل ابیب نہیں واشنگٹن سے ہو کر گزرتا ہے۔ یوں دنیا بھر میں اسلامی تحریکات کے قائدین سے ہماری گزارش ہے کہ
وہ اپنے کارکنان میں یہ شعور عام کریں کہ بازیابیٔ قدس کا اصلی طریقہ عالمی طاغوتی نظام کے سر غنہ یعنی امریکہ کو گرانا ہے ۔
اپنی ایک عالمی کونسل تشکیل دیں اور پھر اپنے کارکنان کو عالمی سطح پر منظم و فعال کریں اور ایک ہی نعرے، ایک ہی شعار، ایک ہی انداز اور دنیا بھر میں ایک ہی مقام (انقرہ تا جکارتہ، ڈھاکہ تا اسلام آباد، قاہرہ تا خرطوم، لندن تا پیرس) یعنی ’امریکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں‘ کا گھیراؤ کریں اور وہاں دھرنا دیں جس کے نیتجے میں امتِ مسلمہ کے اندر وہ بیداری پیدا ہو سکے جو صہیونی امریکہ اور اس کے نیو ورلڈ آرڈر کے خلاف دشمنی اور جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ و شعور اجاگر کرنے میں ممد و معاون ہو، اس لیے کہ فراعنۂ وقت حقیقت میں ظلم و عدوان سے تبھی باز آتے ہیں جب ان کی گردنوں کے سریے کو لوہے کی تلواروں سے توڑا جائے اور ان کو سمندر برد کر دیا جائے۔
اللہ پاک ہم تمام اہلِ اسلام کو ایک کلمے کی دعوت کے گرد جمع فرمائیں، اہلِ اسلام کی قیادت کو حالات اور دین کے تقاضوں کا بہترین شعور عطا فرمائیں، انہیں بہترین حکمتِ عملی الہام فرمائیں اور ان کو صحیح فیصلوں کی توفیق دیں، یہاں تک کہ القدس سمیت اہلِ اسلام کی ساری سرزمینیں بازیاب ہو سکیں اور اللہ وحدہٗ لا شریک کا کلمہ بلند ہو جائے، آمین!
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ تعالیٰ علی نبینا الأمین!
_____________________________