ایک ایسے وقت میں جب امریکہ، یورپ اور ہندوستان کی پشت پناہی ، مالی و عسکری وسائل کی کمک کے ساتھ اسرائیل غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کررہا ہے، کچھ حضرات و جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ مسلم ممالک کی افواج بھی اس طرح اہلِ غزہ کی مدد کریں جیسے یہ کافر ممالک اسرائیل کی کررہے ہیں۔ جب مسلم ممالک کی افواج کی طرف نظر کی تو ان کو مکمل طور پر انہی کافر ممالک کی خدمت و غلامی میں پایا۔ پاکستانی افواج ہی کو دیکھ لیجیے۔ پچھلے تین مہینے میں پاکستان کی تینوں قسم کی افواج، بری، بحری اور فضائی، امریکہ و یورپی ممالک کے ساتھ مشقوں سے فارغ ہی نہیں ہوپارہیں ۔ ایسے میں ان کو غزہ کے مسلمانوں کی کیا فکر لاحق ہو سکتی ہے جب وہ خود غزہ کے مسلمانوں کے قاتلوں کے ساتھ مصروفِ اعداد و عمل ہوں؟ پھر پاکستانی افواج کی پچھلے کچھ عرصے میں امریکی افواج کے ساتھ تعلقات و ہمکاری بڑھتی ہی جارہی ہے۔ آخر افغانستان میں شکست خوردہ امریکہ اس خطے میں اپنا وجود اور اپنے وجود کا اظہار کیوں بڑھا رہا ہے؟ کیا کافر استعماری قوتوں کی صدیوں سے خدمت و غلامی کرنے والی افواج سے امتِ مسلمہ کے بنیادی مسائل جیسے مسئلۂ کشمیر یا حالیہ توجہ کا مرکز مسئلۂ فلسطین وغیرہ میں کسی بھی قسم کی خیر کی توقع کی جاسکتی ہے؟ اگر نہیں تو ان افواج کے اس شر کو روکنے کے لیے امت کو کیا کرنا چاہیے؟ نیز جو افراد اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور ان افواج میں کام کرتے ہیں ان کو کیا کرنا چاہیے ؟
افغانستان میں اللہ کے فضل، جہاد کی برکت اور مجاہدین کی قربانیوں کے نتیجے میں امریکہ کو شکست ہوئی۔ اس شکست کے بعد خطے میں ایک اور قوت جو یہاں کی اصل قوت ہے یعنی مسلمانوں کی قوت ’’ امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ کا وجود پھر سے قائم ہوا۔ امارتِ اسلامیہ کا استحکام اور اس کی سرپرستی میں مسلمانوں کے لشکروں کی پیش قدمی وہ اصل عوامل ہیں جو امریکہ کسی بھی حال میں برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے ظاہر ہے امریکہ نے بہر حال امارتِ اسلامی افغانستان کو غیر مستحکم کرنا، پاکستان میں امارت اسلامیہ کی فتح کے اثرات کو زائل کرنا اور خود پاکستان میں اسلامی نظام کو آنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی ہے۔ افغانستان سے نکلنے کے بعد امریکہ کے لیے امارت اسلامی افغانستان کے خلاف اور خود پاکستان کے مجاہدین کے خلاف کام کرنے کے لیے پاکستانی فوج کے ساتھ اپنے تعاون کو بڑھانا تھا۔ اس سب کام میں امریکہ کا خود کو ظاہر کرنا صرف اور صرف اس مقصد کے لیے ہے کہ امارت اسلامیہ کو اب بھی یہ تاثر دیا جاسکے کہ امریکہ اب بھی مورچہ زن ہے اور اس بار اس کا مورچہ ’’پاکستان‘‘ ہے۔
پچھلے تین مہینوں میں پاکستان اور امریکی افواج کے مابین تین قسم کی جنگی مشقیں ہوئی ہیں۔
بحری ایکسرسائز انسپائرڈ یونین(Exercise Inspired Union)
ان میں سب سے پہلی (Exercise Inspired Union 2024) انسپائرڈ یونین بحری مشقیں ہیں۔ ۲ مئی کو امریکی اور پاکستانی بحریہ کے مابین چار دنوں پر مشتمل یہ مشقیں مکمل ہوئیں۔ امریکی مرکزی کمان (US CENTCOM) منامہ بحرین کے اعلامیے کے مطابق ان مشقوں کا مقصد امریکی مرکزی کما ن کے زیرِ سرپرستی علاقے (Area of Operation) میں عسکری تیاری، سکیورٹی (امریکی قبضے کا ) استحکام اور یہاں ان کی نقل و حرکت کی آزادی کو مزید بہتر بنانا ہے1۔ایکسرسائز کی سرپرستی امریکہ کی طرف سے سی ٹی ایف ۱۵۲ (CTF-152) کے کمانڈنٹ کیپٹین رابرٹ ’’ پاکو‘‘ پورٹر (CAPT Robert “Paco” Porter) نے کی۔
کیپٹن رابرٹ نے کہا :
’’ انسپائرڈ یونین جیسی مشقیں میری ٹائم ڈومین میں ہماری تیاری ، باہمی تعاون کو بہتر بنارہی ہیں۔ پاکستان ایک اہم شراکت دار ہے ۔ ان مشقوں میں اور اس کی تیاری میں پاکستان بحریہ نے ہماری جو مہمان نوازی کی وہ ہمارے لیے ایک اعزاز ہے۔ ہم مستقبل میں بھی پاکستان جیسے اہم پارٹنر کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہیں۔‘‘
امریکی مرکزی کمان کے ماتحت امریکی پانچوی بحری فوج (US 5th Fleet) کے زیرِ قبضہ رقبہ 2.5 ملین مربع میل پر محیط ہے اور اس میں خلیجِ عرب(خلیجِ فارس)، خلیجِ عمان، بحیرہِ احمر اور بحر ہند سمیت دنیا کے تین بڑے اہم چوک پوائنٹس (choke points)’’آبنائے ہرمز، باب المندب اور نہرِ سویز‘‘ شامل ہیں۔
یاد رہے کہ سمندر میں آزادانہ نقل و حرکت کے لیے بھاگ دوڑ اور مشقیں امریکہ نے اسی لیے تیز کی ہیں کہ طوفان الاقصیٰ کے بعد جب امریکی واسرائیلی بحری جہازوں کو مسلم خطوں میں نشانہ بنایا گیا تو امریکہ نے اعلانیہ اس ضرورت کا اظہار کیا کہ اس کو خطے میں مزید بحری وسائل، افواج اور کارکردگی کی ضرورت ہے اور اس کے لیے وہ اپنے پارٹنرز سے رابطے میں ہے۔
فضائی ایکسر سائز فالکن ٹالن(Exercise Falcon Talon)
اس کے بعد جون کے مہینے میں امریکی فضائیہ اور پاکستانی فضائیہ نے مشترکہ جنگی مشقیں (Exercise Falcon Talon 2024) پاکستان میں منعقد کیں۔ ان مشقوں کو بھی دیکھنے کے لیے امریکی ایفسینٹ کمانڈر (US AFCENT2 COMMANDER) لیفٹیننٹ جنرل ڈیرل فرانس(Lt. Gen Derel France) آیا ہوا تھا 3۔ مذکورہ امریکی کمانڈر کی میزبانی ائیر فورس چیف بابر سدھو نے خود کی۔ ائیر فورس کے اعلامیے کے مطابق دونوں کمانڈروں نے مشترکہ اہداف تک رسائی کے لیے تعاون پر زور دیا۔ یہی ان مشترکہ مشقوں کا مقصد ہے کہ مشترکہ ہدف کو مل کر ٹارگٹ کیا جاسکے۔ امریکہ و پاکستان ائیر فورس کا مشترکہ ہدف آخر کون ہے؟
امریکی مرکزی فضائیہ (US Air Forces Central) کے اعلامیے کے مطابق امریکی مرکزی فضائیہ کے ۳۷۸ مہم جو دستے (378th Air Expeditionary Wing) نے پاکستان فضائیہ کے ساتھ مل کر یہ مشقیں کیں۔ ان مشقوں کے بنیادی مقاصد حکمت عملی کی سطح پر انسدادِ دہشت گردی میں تعاون ، فضا سے زمین پر وار کرنے والے اسلحے کا (جہازوں پر) تعین کرنااور اسی موضوع کے ماہرین کا آپس میں تبادلۂ خیال کرنا تھا۔
یہ تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ کا ہدف اس خطے میں صرف مجاہدین ہیں۔ پھر امریکہ نے اپنے اعلامیے میں بھی واضح کردیا ہے کہ یہ مشقیں انسدادِ دہشت گردی میں تعاون کے لیے ہیں۔اب یہ تو ظاہر ہے دہشت گردوں سے امریکہ کی مراد نہ تو اسرائیل ہے جو غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اور نہ ہی پاکستان کا نام نہاد روایتی حریف انڈیا جو کشمیر و ہند میں مسلمانوں کی نسل کشی کررہا ہے۔ دہشت گردوں سے مراد خطے کے اسلام پسند ہیں جن سے امریکہ روزِ اول سے برسرپیکار ہے۔ اسی لیے ان مشقوں میں فضا سے زمین پر وار کرنے والے اسلحے کی تعیناتی و ٹریننگ پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اگر انڈیا یا کسی اور ائیر فورس کے خلاف تیاری کی بات ہوتی تو جدید میزائلز سسٹمز اور طریقہ کار مرکزی موضوع ہوتا لیکن واضح ہے کہ امریکہ نے کبھی بھی انڈیا کے خلاف پاکستان کا ساتھ نہیں دیا اور نہ دے گا اور یہی اظہار ان دنوں پاکستانی حکومت و فوج بار بار دھمکی کی صورت میں بھی کررہی ہے کہ ہم افغانستان میں بارڈر کے اس پار فضائی حملے کریں گے۔ اس کے جواب میں امارت اسلامیہ افغانستان کی وزاتِ دفاع نے بھی بیان جاری کیا کہ پاکستانی حکومت وہ عمل نہ کرے جس کے ردِ عمل کو پھر برداشت و قابو نہ کرسکے۔ اس کے بعد پاکستان میں امریکہ و پاکستان کی مشترکہ مشقیں منعقد کروائی گئیں۔
امریکی و پاکستانی بری افواج کی مشقیں(Infantry Rifle Company Exercise-2024)
29 جون سے شروع ہونے والی یہ زمینی فوج کی مشقیں نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم سینٹر، پبی کھاریاں میں دو ہفتے تک جاری رہیں۔ ان مشقوں کا معائنہ بھی پاکستانی جرنیلوں(کمانڈنگ آفیسر ۱۷ ویں ڈویژن) کے ساتھ ساتھ امریکی ۳۴ ویں انفنٹری ڈیویژن کے کمانڈنٹ میجر جنرل چارلس جی کیمپر نے کیا۔ دونوں افواج کی طرف سے جو اعلامیے نشر ہوئے اس میں ان مشقوں کا واحد مقصد خطے میں دہشت گردی(اسلام پسندی) کے خلاف تعاون کو مزید بہتر بنانا ہے۔ اعلامیے کے مطابق شہری جنگ سے کیسے نمٹا جاسکے، ان مشقوں کا مرکزی ہدف تھا۔
امریکی مرکزی کمانڈ کے کمانڈر کا دورہ پاکستان
۷ مئی سے لے کر ۹ ن مئی تک ہمارے خطے کے امریکی سپہ سالار (جنرل مائک کوریلا)نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس کی مہمان نوازی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جی ایچ کیو میں کی۔ جی ایچ کیو کے ساتھ ساتھ جنرل کوریلا کو خیبر پختونخواہ اور افغانستانکی سرحد کا دورہ کرایا گیا۔ مغربی سرحد پر اس کا استقبال کور کمانڈر پشاور،کمانڈنٹ ایف سی اور ساتویں ڈیویژن کے کمانڈر نے کیا۔ یاد رہے کہ ایف سی اور ساتویں ڈیویژن قبائل میں مجاہدین سے مصروفِ جنگ ہیں۔
اعلامیے کے مطابق جنرل کوریلا نے پاکستان کا دورہ اس لیے کیا کہ اپنی زیرِ کمان علاقے کے مسائل کے حل کے لیے مقامی افواج سے تعاون کو بہتر بنایا جاسکے۔4
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ امریکہ کی مرکزی کمان میں امریکہ کےلیے مسائل کیا ہیں؟ کیوں مرکزی کمان کا کمانڈر اپنے مسائل کے حل کے لیے پاکستان، پھر پاکستان میں پختونخواہ ، اور پختونخواہ میں افغان سرحد کا دورہ کرتا ہے، وہاں مصروفِ جنگ فوجی کوروں اور ڈیویژنوں سے ملاقات کرکے آخر وہ کون سے امریکی مسائل کو حل کررہا ہے؟
بات بہت واضح ہے کہ امریکہ کا مسئلہ ہمارے خطے کے اسلام پسند ہیں۔ مجاہدین امریکہ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ افغانستان کی اسلامی حکومت امریکہ کا بڑا مسئلہ ہے۔ قبائل کے مجاہدین امریکہ کا اس خطے میں بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے وہ مجاہدین جو یہاں حقیقی معنوں میں اہلیانِ اسلام کی خود مختاری چاہتے ہیں اور امریکہ کو نکال باہر کرنا چاہتے ہیں وہ امریکہ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان تمام مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے امریکہ پاکستانی افواج کا استعمال کررہی ہے۔ اسی مقصد کے لیے وہ پاکستانی فوجیوں کی تربیت کرنا چاہتی ہے کہ وہ خود تو ناکام و شکست خوردہ بھاگ گیا، اب سارا بوجھ پاکستانی فوج پر ڈال کر اپنی شکست کا ازالہ کرے۔
پاکستانی فوج اپنے آقا کی غلامی میں ایک دفعہ پھر شاہ سے بڑھ کر شاہ کا وفادار والی کہاوت پر عمل کررہی ہے۔اسی غرض سے پاکستان نے مجاہدین کے خلاف ایک نئے آپریشن ’’عزمِ استحکام ‘‘ کا اعلان کیا ۔ملک میں برسرِ اقتدار سیاسی پارٹیوں کے علاوہ ہر طبقےنے، چاہے عوامی ہو یا پارلیمانی ، کھل کر اس آپریشن کی مخالفت کی لیکن ایک دفعہ پھر آقا اپنے غلام کی تائید میں کھل کر میدان میں آیا اور یہ اعلان کیا کہ امریکہ اس آپریشن کی تائید کرتا ہے۔ امریکہ کیوں کر تائید نہ کرے کہ یہ آپریشن شروع ہی امریکی آرڈر پر کیا گیا ہے۔
شکست خوردہ امریکہ پاکستان میں اپنی موجودگی کا اظہار کیوں کررہا ہے؟
اس بات میں شک نہیں ہے کہ امریکہ پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان میں اپنی عسکری موجودگی کا کھلم کھلا اظہار کررہا ہے۔ مختلف مشقوں کے ذریعے، افغانستان پر امریکی ڈرونز کی سرویلنس کے ذریعے، جس کے بارے میں باقاعدہ وہاں کے وزیرِ دفاع مولوی یعقوب نے بھی تشویش ظاہر کی تھی، اور اب پاکستانی عسکری آپریشنز کے تائید کے ذریعے۔ امریکہ یہ سب کیوں کررہا ہے؟ خطے میں امریکہ کے مفادات اور بھی ہوسکتے ہیں لیکن یہاں اسلام کے غلبے کو روکنا ، اسلام پسندوں کو طاقت حاصل کرنے سے روکنا، امریکہ کا سب سے بڑا مفاد و مقصد اس لیے ہے کہ اسلام اور اس کے چاہنے والوں کا غلبہ امریکہ کے تمام مفادات کو نہ صرف خطرے میں ڈال سکتا ہے بلکہ ختم کرسکتا ہے۔ اس لیے سب سے بڑا مقصد اور مفا د امریکہ کا یہی ہے کہ اسلام کے غلبے کا راستہ روک لے۔
اس حوالے سے امریکہ کو بڑا جھٹکا تب لگا جب امریکہ کو افغانستان میں شکست ہوئی۔ امریکہ کو اس شکست کا اندازہ و یقیناً بہت پہلے ہوچکا تھا لیکن اس نے صرف اس کوشش میں دو دہائیاں یہاں گزار دیں کہ کیسے اس شکست کا دائرہ کم و محدود کیا جائے ۔ جس میں امریکی ناکام رہے اور افغانستان سے ان کا مکمل انخلاء دیکھنے میں آیا۔ اس کے بعد امریکہ کی کوشش ہے کہ کیسے افغانستان میں مجاہدین کی اس فتح کو صرف افغانستان تک ہی محدود رکھا جاسکے۔ اس کے لیے انہوں نے اپنی پرانی اور ڈالروں کی وفادار غلام پاکستان فوج کو کام پر لگانا چاہا لیکن یہ بات بھی ان کی نظر میں ہے کہ یہ اسلامی انقلاب جو افغانستان میں کامیاب ہوچکا ہے اور وہاں سے آگے بھی بڑھے گا، اس کی وسعت کو روکنا صرف پاکستان فوج کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے امریکہ ہی نے اشرف غنی کے دور سے بارڈر پر باڑ ، کیمرے اور پوسٹیں بنانے میں پاکستان کی مدد کی، پھر انخلاء کے وقت بہت سارا ساز و سامان پاکستان کے حوالے کرنا چاہا (جس میں بھی وہ ناکام رہا بس کچھ حد تک ہی کرپایا) اور انخلاء کے بعد یہاں سے پاکستان فوج کو سپورٹ فراہم کررہا ہے۔ صرف اسلامی انقلاب کو پھیلنے سے روکنے کے لیے۔ اسی مقصد کے لیے امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنی عسکری موجودگی کا مظاہرہ بار بار کررہا ہے کہ مجاہدینِ پاکستان و امارتِ اسلامیہ پر اس بات کا اثر قائم کیا جاسکے کہ اس سب شر و فساد میں امریکہ کی قوت ہماری پشت پر ہے۔ لیکن امریکی دانشور اور اس کے پاکستانی غلام کیوں اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ جس اسلامی انقلاب کا رستہ افغانستان میں خود امریکہ اور اس کے ۴۴ اتحادی نہ روک سکے اس کو مزید پھیلنے سے کیسے ایک کمزور معیشت والی حکومت و فوج اور اس کی پشت پناہ شکست خوردہ عالمی قوت روک سکے گی؟
کیا مسلم ممالک کی افواج امتِ مسلمہ کے مسائل میں کوئی خیر کا کردار ادا کر سکتی ہیں؟
اس سوال کا جواب اس لیے ضروری ہے کہ امتِ مسلمہ میں بہرحال یہ بیداری کسی حد تک موجود ہے کہ ہمیں بطورِ امت اپنے مسائل کے حل کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہاں ایک طبقہ اس حل کے لیے ان افواج کا سہارا لینا چاہتا ہے جو خود امت کے لیے بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ ان افواج کی تربیت اور نظم ایسا ہے کہ بطورِ ادارہ یہ امر ناممکن ہے کہ وہ امت کے لیے کچھ کرسکیں۔ مسلم امت کی افواج مصر و ترکی سے لے کر پاکستان و سعودیہ تک خطے میں امریکہ و یورپ کے مفادات کی محافظ ہیں۔ اس کی ادنیٰ سی مثال پاکستان فوج کی لیجیے۔ اس فوج نے پاکستان کی نام نہاد آزادی سے پہلے براہ راست انگریز کی اطاعت کرکے خطے میں انگریز کی حکمرانی کو تحفظ فراہم کیا۔ اس فوج نے انگریز مخالف ہرتحریک کو بزورِ قوت دبایا۔ پھر ۱۹۴۷ء کے بعد اسی فوج نے پاکستان میں امریکہ کی نمائندگی میں ہر اسلامی تحریک کا راستہ بزورِ قوت روکے رکھا۔ حالانکہ خطے کے مسلمانوں نے یہ ملک بنایا ہی اس لیے تھا کہ یہاں اسلامی نظام رائج ہو۔
آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے یہ فوج صرف چار مرتبہ اپنے روایتی حریف انڈیا سے جنگ کے میدان میں کودی ہے اور ان چار جنگوں کا مجموعی دورانیہ دو ماہ کا بھی نہیں بنتا۔ اس کے برعکس اپنے مسلمانوں کے خلاف یہ فوج ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک ۱۷ بڑے آپریشنز کرچکی ہے اور لاتعداد چھوٹے آپریشنز۔ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان کے نیچے یہ فوج پچھلے تئیس سال سے اپنے مسلمان عوام کے خلاف برسرپیکار ہے۔
اس لیے یہ بات غلط ہے کہ ان افواج سے امتِ مسلمہ کے لیے کچھ کرنے کی توقع رکھی جائے ۔ بطورِ ادراہ یہ افواج ایسی ہی ہیں جیسی امریکی یا اسرائیلی افواج۔ ہاں ان افواج میں سے ہر وقت انفرادی طور پر کچھ غیور مسلمانوں نے اپنے اصل فرضِ منصبی کو پہچان کر اگر کچھ کیا ہے تو اس کے ہم معترف ہیں اور اسی بنیاد پر ان افواج میں کام کرنے والے ان افراد کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی نجات کے لیے، امتِ مسلمہ کو ذلت کی اس چکی سے نکالنے کے لیے، فوج میں رہ کر ایسے مواقع سے فائدہ اٹھائیں جس میں وہ امت کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔
کیا ہمارے ملک کی افواج سے فلسطینیوں کی مدد کا مطالبہ معقول ہے؟
جو ریاست اپنی عوام کا یہ مطالبہ پورا نہیں کرسکتی کہ وہ فلسطین کے چالیس ہزار شہداء اور خود غزہ کے سابق پارلیمانی طریقے سے منتخب وزیرِ اعظم اسماعیل ھنیہ کے خاندان کی شہادت پر ایک فون کال یا خط اسماعیل ھنیہ کو لکھ دیں کہ اس میں شہادتوں پر تعزیت ہو بس۔ اس ریاست اور اس امریکی غلام فوج سے آپ کس خیر کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ جو ریاست اتنی غلام ہو کہ وہ فلسطین کے لیے اتنا بھی نہیں کرسکتی جتنا کافر ملک (جنوبی افریقہ) نے کیا کہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف درخواست دائر کی، تو اس سے آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ امت کو کسی موڑ پر فائدہ پہنچاسکے گی؟ حالانکہ یہ سب دنیا کی نظر میں ’لیگل ایکشنز ‘ میں شمار ہوتا ہے۔ پاکستان فلسطین کے ساتھ اپنی ادنیٰ ہمدردی ظاہر نہ کرسکا۔ کم از کم افریقہ کے کیس میں افریقہ کا ساتھی ہی بن جاتا۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ صاف ظاہر ہے کہ ریاستِ پاکستان (جس کے اصل حاکم جرنیل ہیں) نے فلسطین کے بجائے اسرائیل کے ساتھ رہنا ، لانگ ٹرم میں ساتھی بننا پسند کیا ہے۔
یہاں میں سیو غزہ مہم کے تیسرے مطالبے پر بھی بحث کروں گا، حالانکہ وہ کتنا لیگل مطالبہ ہے لیکن ریاستِ پاکستان امریکہ کے سامنے بالکل سجدہ ریز ہے کہ دنیا کے قانون کے مطابق بھی پاکستان امریکہ سے پوچھے بغیر، امریکہ کی اجازت کے بغیر نہیں چل سکتا۔ سیو غزہ مہم کا تیسرا مطالبہ تھا کہ غزہ کے زخمیوں کے لیے پاکستان فیلڈ ہسپتال قائم کرے ۔ اس کے لیے ڈاکٹرز پہلے سے رضاکارانہ خدمات کے لیے تیار ہیں۔ ریاستِ پاکستان کو صرف اقوامِ متحدہ کے لیگل سٹرکچر کے تحت وہاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہسپتال قائم کرنے کی منظوری دلانی تھی۔ وہاں نہیں تو مصر میں تو ممکن تھا؟ لیکن نہیں! فلسطینیوں کے ساتھ کوئی ادنیٰ سی، دنیا کے قوانین کے مطابق بھی، ادنیٰ سی ہمدردی ہماری ریاست کو منظور نہیں۔ ہماری ریاست امریکہ کی مکمل غلام ریاست ہے اور امریکہ اس جنگ میں اسرائیل کا سب سے پڑا پشت پناہ ہے۔
اس لیے اس ریاست(فوج) کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو افغانستان میں امریکی غلام افغانی فوج کے ساتھ کیا گیا۔ ہماری بدقسمتی تھی کہ پاکستان کے قیام کے بعد ہم نے ملک کی تقدیر اسی فوج کے ہاتھ میں تھما دی جو پہلے سے انگریز کی غلام اور اسی کی فوج تھی۔ اس کے برعکس افغانستان سے جب امریکہ کو نکالا گیا تب مجاہدین نے اپنے ملک کے تمام امریکی غلاموں کے لیے عام معافی کا اعلان تو کردیا لیکن اقتدار و عسکری معاملات سے ان کو مکمل طور پر باہر رکھا ۔ جس سے ایک آزاد و خود مختار مملکت کا وجود عمل میں آیا۔ہمیں بھی اصل آزادی کے حصول کے لیے اپنے ملک سے امریکی موجودگی کوختم کرنے کے ساتھ ساتھ اختیار ان کے غلاموں سے چھیننا ہوگا اور اہلِ دین و مخلصین کے ہاتھوں میں تھمانا ہوگا۔ اس لیے ان امریکی غلام افواج سے نجات ضروری ہے اور اس کا واحد راستہ دعوت و جہاد ہے۔
ان افواج میں اسلام کا دعویٰ کرنے والے افراد کے نام پیغام
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہی امریکی جو آپ کے ساتھ سمندر، فضا اور خشکی پر ہاتھ میں ہاتھ ملائے مشقیں کررہے ہوتے ہیں، یہی غزہ، شام، عراق، صومالیہ اور دیگر مسلم خطوں میں مسلمانوں کا خون بھی بہا رہے ہیں ۔ پھر کیسے آپ اور ان کا ہدف ایک ہوسکتا ہے؟
اے پاکستان نیوی میں کام کرنے والے اسلام کے دعویدارو!
اسی امریکی بحریہ کے سپاہی جو آپ کے ساتھ سمندر میں جوائنٹ ایکسر سائز کررہے ہیں یہی ایک مہینہ پہلے براہ راست غزہ کے سمندر سے امداد کے بہانے ٹرکوں سے گھس کر فقط ایک گھنٹے میں ۲۲۰ مسلمانوں کو شہید کرچکے ہیں۔ ان کے بحری جہاز غزہ کے ساحل کے سامنے ہر ضرورت کی چیز سے لیس اسرائیل کی خدمت میں کھڑے ہیں۔ کیا آپ اور ان کا ہدف ایک ہے جو مشترکہ ہدف کے خلاف مشق کرکے عمل کے لیے تیار ہورہے ہیں؟ ایک مسلمان جس کے ہاتھ میں ہتھیار ہو اس کا اولین ہدف تو خود یہی امریکی ہے جن کے ہاتھ واضح طور پر ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ایک مسلمان کے اولین ہدف تو وہ امریکی ہیں جنہوں نے نبیِ آخر الزمان، سید الانبیاء علیہم السلام ، رحمت اللعالمین ، رسول الکریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بار بار گستاخیاں کیں۔ پھر کیسے آپ ان امریکیوں کے ساتھ مل کر کسی مشترکہ ہدف کے خلاف تیاری کررہے ہیں؟
اے پاکستان ائیرفورس میں کام کرنے والے اسلام کے دعویدارو!
پاکستان ائیر فورس کے ان آفیسرز اور ائیر مین سے کہوں گا کہ آپ اور ان امریکیوں کا ہدف کیسے ایک ہوسکتا ہے جبکہ ان کے جہاز وں کا بیس سالہ ریکارڈ یہ ہے کہ انہوں نے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا ہے اور ان کی بستیاں اجاڑی ہیں؟ ایک مسلمان پائلٹ کا ہدف وہ امریکی ہونے چاہییں جن کے جہاز وں نے سب سے زیادہ قتل عام مسلمانوں کا کیا ہے یا آپ کی قوم کے وہ مسلمان افراد جو اسلامی نظام کے خواہاں ہیں؟
اے پاکستان آرمی میں کام کرنے والے اسلام کے دعویدارو!
پاکستان آرمی میں وہ افراد جو ان مشقوں کا حصہ ہیں ان سے سوال کروں گا کہ جس امریکہ کے ساتھ اپنے ایک مشترکہ ہدف کو ختم کرنے کے لیے مشقیں کیں کیا اس امریکہ کی خباثت کا آپ کو علم نہیں ہے؟ کیا ان یہود و نصارٰ ی سے دوستی کے بارے میں مسلمانوں کی ہدایت کے لیے ان کے رسولﷺ پر نازل کتاب، کلام اللہ میں کوئی ہدایت نہیں ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہود و نصارٰی کے ہدف کو اپنا ہدف سمجھنا کتنی بڑی گمراہی ہے؟
سوچیے اور امت کے لیے نہیں تو کم از کم اپنی خیر کے لیے فیصلہ کیجیے کہ آپ کس صف میں شریک ہیں۔ جن امریکیوں کے ساتھ آپ مشترکہ ہدف کے خلاف مشق کررہے ہیں اسلام کے مطابق ان کے خلاف جہاد و قتال فرضِ عین ہے۔ ان کو مارنا ہم سب پر فرض ہے۔ غزہ کے بچوں کی خاطر ان کو مارنا ضروری ہے۔ غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنے کے لیے ان کو سبق سکھانا لازم ہے۔ پس خوش قسمت ہے وہ مسلمان جو اپنے مظلوم مسلمان بہن بھائیوں کی خاطر اپنے اسلحے کا رخ ان امریکی ظالموں کی طرف پھیر لے اور ان کو مار کر اپنے رب کے حضور سرخرو ہوکر حاضری دے ۔
وما توفیقی الا باللہ العظیم
٭٭٭٭٭
http://www.navy.mil/Press-Office/News-Stories/Article/376293/us-pakistan-forces-complete-exercise-inspired-union-2024/ 1
2 United States Air Force Central (US AFCENT)
3 ڈی جی پی آر ائیر فورس
4 www.centcom,mil/MEDIA/PRESS-RELEASES/Press-Release-View/Article/3770726/uscentcom-commander-visits-pakistan/