نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home آخرت

موت وما بعد الموت | اٹھارھواں درس

قیامت کے دن کیفیت کے اعتبار سے کفار کی تیسری قسم: التخاصم:

انور العولقی by انور العولقی
30 جولائی 2024
in آخرت, جون و جولائی 2024
0

قیامت کے دن کیفیت کے اعتبار سے کفار کی تیسری قسم: التخاصم:

قیامت کے دن ہونے والی بحث و تکرار

مصنف نے چار قسم کے تنازعات بیان کیے ہیں :

  1. العباد والمعبودین: بندوں اور ان کے معبودوں کے درمیان نزاع
  2. الاتباع والمتبوعین: پیروکاروں اور جن کی وہ پیروی کرتے تھے کے مابین تکرار
  3. الانسان وقرینہ: انسان اور اس کے قرین کے مابین نزاع۔ قرین وہ شیطان ہے جو ہر انسان کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔
  4. الانسان واعضائہ: انسان اور اس کے اپنے اعضائے جسم کے مابین جھگڑا۔
  1. بندوں اور ان کے معبودوں کے درمیان نزاع:

اس موضوع کے تحت ہم انسانوں اور ان کے مختلف قسم کے معبودوں کے مابین جھگڑے کا ذکر کریں گے، یعنی بت اور ان کی پوجا کرنے والے، فرشتے اور ان کی عبادت کرنے والے، یسوع مسیح اور عیسی علیہ السلام اور ان کی پوجا کرنے والے۔ اللہ رب العزت بتوں کی پوجا کے حوالے سے فرماتے ہیں:

﴿وَيَوْمَ نَحْشُرُھُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَشُرَكَاۗؤُكُمْ ۚفَزَيَّلْنَا بَيْنَھُمْ وَقَالَ شُرَكَاۗؤُھُمْ مَّا كُنْتُمْ اِيَّانَا تَعْبُدُوْنَ ؀ فَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِيْنَ؀﴾ (سورۃ یونس: ۲۸، ۲۹)

’’ اور (یاد رکھو) وہ دن جب ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے پھر جن لوگوں نے شرک کیا تھا، ان سے کہیں گے : ذرا اپنی جگہ ٹھہرو، تم بھی اور وہ بھی جن کو تم نے اللہ کا شریک مانا تھا۔ پھر ان کے درمیان (عابد اور معبود کا) جو رشتہ تھا، ہم وہ ختم کردیں گے، اور ان کے وہ شریک کہیں گے کہ تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے! ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ بننے کے لیے کافی ہے ( کہ) ہم تمہاری عبادت سے بالکل بےخبر تھے ‘‘۔

ایک تفسیر کے مطابق اس آیت میں بتوں اور ان کی پوجا کرنے والوں کا ذکر ہے۔ پس اللہ رب العزت بتوں اور ان کی پوجا کرنے والوں کو ایک جگہ اکٹھا فرمائیں گے اور انہیں حکم فرمائیں گے کہ اپنی اپنی جگہ ٹھہرو! اور پھر اللہ رب العزت ان کے مابین جدائی ڈال دیں گے…… بت کہیں گے کہ تم ہماری پوجا نہیں کرتے تھے۔ جبکہ ایک اور تفسیر کے مطابق اس آیت میں شیاطین اور ان کے پیروکاروں کا ذکر ہے، پس شیاطین صاف انکاری ہوجائیں گے کہ تم ہماری پوجا نہیں کرتے تھے۔ وہ پتھر کہ جن کی ان کے پیروکار صبح و شام پوجا کرتے رہے، اس دن کہیں گے کہ ہم تو جانتے ہی نہیں کہ تم ہماری پوجا کرتے تھے،ظاہر ہے کہ ایک پتھر کیسے جان سکتا ہے کہ کوئی اس کی پوجا کررہا ہے؟ لہٰذا وہ ان پیروکاروں کی عبادت سے لاعلمی کا اظہار کریں گے، اور یہ ایک ایسا واقعہ ہو گا جو بتوں کی پوجا کرنے والوں کو ہلا کررکھ دے گا کہ جب قیامت کے دن وہ اپنے ’خدا‘ کے پاس آئیں گے کہ ہماری مدد کرو تو ان کا ’خدا‘ ان سے کہے گا کہ میں تو تمہیں جانتا ہی نہیں، میں تو محض ایک پتھر ہوں۔

پھر اللہ کی مخلوق میں سے بعض وہ بھی ہیں جو ہرگز نہیں چاہتے کہ ان کی پوجا کی جائے،مثلاً فرشتے۔فرشتوں نے کبھی نہیں چاہا کہ ان کی پوجا کی جائے مگر پھر بھی بعض لوگ ان کی پوجا کرتے رہے، مثلاً عرب کے بعض مشرکین فرشتوں کی پوجا کرتے تھے اور بعض دیگر اقوام میں بھی فرشتوں کی عبادت معروف ہے۔ اللہ رب العزت اس حوالے سے فرماتے ہیں:

﴿ وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ يَقُوْلُ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اَهٰٓؤُلَاۗءِ اِيَّاكُمْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ ﴾ (سورۃ سبا: ۴۰)

’’ اور وہ دن نہ بھولو جب اللہ ان سب کو جمع کرے گا، پھر فرشتوں سے کہے گا : کیا یہ لوگ واقعی تمہاری عبادت کیا کرتے تھے ؟ ‘‘

اللہ رب العزت فرشتوں کو بلائیں گے اور ان سے دریافت فرمائیں گے کہ کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کیا کرتے تھے؟کیا اللہ رب العزت نہیں جانتے؟ یقیناً اللہ رب العزت فرشتوں کے جواب سے واقف ہیں پھر اس سوال کا کیا مقصد ہے؟ اللہ رب العزت ان لوگوں کے سامنے، جو فرشتوں کی عبادت کیا کرتے تھے، فرشتوں سے سوال فرمائیں گے تاکہ وہ خود فرشتوں کے منہ سے ان کا جواب سن لیں۔ یہ ان کے خلاف گواہی ہوگی۔ اور قرآن بار بار یہ نقشے ہمارے سامنے رکھتا ہےکہ اللہ رب العزت ان معبودوں کو بلائیں گے اور ان کے پیروکار اپنے معبودوں کے منہ سے ان کا جواب سن لیں گے۔

﴿ قَالُوْا سُبْحٰنَكَ اَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ بَلْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ ۚ اَكْثَرُهُمْ بِهِمْ مُّؤْمِنُوْنَ ؀﴾ (سورۃ سبا: ۴۱)

’’ وہ کہیں گے کہ ہم تو آپ کی ذات کی پاکی بیان کرتے ہیں، ہمارا تعلق آپ سے ہے، ان لوگوں سے نہیں۔ دراصل یہ تو جنات کی عبادت کیا کرتے تھے۔ ان میں سے اکثر لوگ انہی کے معتقد تھے‘‘۔

فرشتے کیا جواب دیں گے؟ سب سے پہلے تو وہ اللہ رب العزت کی تقدیس بیان فرمائیں گے، یہ سبحانک کہنا، یہ تقدیس بیان کرنا تنزیہ الحق کہلاتا ہے یعنی یہ گواہی دینا کہ اللہ رب العزت تمام نقائص سے پاک ہے۔ جب آپ کہتے ہیں سبحان اللہ! تو اس کا معنی ہے کہ آپ اللہ رب العزت کی ذات میں ہر کمزوری اور ہر نقص کا انکار اور اللہ رب العزت کی ذات میں ہر خیر اور خوبی کی کاملیت کا اقرار کرتے ہیں۔

بہت سے لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں فرشتہ دیکھا، فرشتہ میرے پاس آیا، فرشتے نے مجھے یہ اور یہ کہا، میں نے فرشتے سے باتیں کیں وغیرہ …… یہ دراصل جنات کے ساتھ تعامل ہے۔

اللہ کے سوا بہت سے انسانوں کی بھی پوجا کی جاتی ہے مگر انسانوں میں سے جس انسان کی سب سے زیادہ پوجا کی جاتی ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کو روئے زمین کے سب سے عظیم شرک کے لیے استعمال کیا گیا۔ بہت سے شرک ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ منسوب کیے جاتے ہیں جب کہ عیسیٰ علیہ السلام ان سے مکمل طور پر بری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی عبادت کا علیحدہ سے ذکر فرمایا جبکہ دیگر جتنے انسانوں کی عبادت کی جاتی رہی ہے ان کا نام لے کر ذکر نہیں فرمایا۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں…… اور یہ آیات قیامت کا احوال بیان کرتی ہیں کہ اس دن یہ ہوگا:

﴿ وَاِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۭ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ ۤ بِحَقٍّ ڲ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ ۭ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ ۭاِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ ؁﴾ (سورۃ المائدۃ: ۱۱۶)

’’ اور (اس وقت کا بھی ذکر سنو) جب اللہ کہے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے علاوہ دو معبود بناؤ ؟ وہ کہیں گے : ہم تو آپ کی ذات کو (شرک سے) پاک سمجھتے ہیں۔ میری مجال نہیں تھی کہ میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو آپ کو یقینا معلوم ہوجاتا۔ آپ وہ باتیں جانتے ہیں جو میرے دل میں پوشیدہ ہیں اور میں آپ کی پوشیدہ باتوں کو نہیں جانتا۔ یقینا آپ کو تمام چھپی ہوئی باتوں کا پورا پورا علم ہے‘‘۔

اللہ رب العزت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور قیامت تک قرآن پڑھنے والوں سے مخاطب ہیں ، فرماتے ہیں: ’’ اور یاد کرو جب کہ اللہ پوچھے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تم نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا کے سوا معبود بناؤ؟ ‘‘……آپ کسی ایسی چیز کو کیسے یاد کرسکتے ہیں جو ابھی تک واقع ہی نہ ہوئی ہو؟ اللہ رب العزت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پڑھنے والوں کو کیونکر فرماتے ہیں کہ ’’اور یاد کرو!……‘‘۔ ایک مفسر نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے تو وقت ان کے لیے ماضی حال اور مستقبل میں منقسم ہے۔ وقت کے یہ تین درجے ہیں ہم انسانوں کے لیے۔بحیثیت انسان ہمارا مستقبل پر کوئی زور نہیں، ہم مستقبل میں واقع ہونے والے نتائج پر اختیار نہیں رکھتے ، مستقبل ہم پر مخفی ہونے کی یہی وجہ ہے کہ نتائج پر ہمارا اختیار نہیں ہے۔ اگر آپ ابھی اٹھنے اور اس کمرے سے باہر نکلنے کا ارادہ کریں تو اس ارادے کے نتیجے پر آپ کا کوئی اختیار نہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی وجہ آپ کو اس ارادے سے باز رکھے،ہوسکتا ہےکہ آپ کے ساتھ کچھ ایسا ہوجائے کہ آپ اس ارادے پر عمل نہ کرسکیں،آپ کی موت واقع ہوسکتی ہے، آپ گر کر چوٹ کھا سکتے ہیں، اپنا ارادہ تبدیل کرسکتے ہیں…… ہمارے پاس مستقبل کو قابو کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، یہ ہمارے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔ ہم منصوبہ بندی کرسکتے ہیں، اپنی پوری کوشش کرسکتے ہیں مگر نتیجہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوگا…… یعنی مستقبل ہمارے لیے نامعلوم ہی رہتا ہے۔ مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے یہ معاملہ اس طرح نہیں ہے۔ اللہ رب العزت کے لیے ماضی حال اور مستقبل سب ایک سا ہے، جو ہوچکا ہے اور جو ہونا ہے…… اللہ کے لیے اس کا علم یکساں ہے۔ اللہ رب العزت کے لیے تو یہ ایک کھلی ہوئی کتاب ہے کیونکہ وہ عالم الغیب ہے وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ اور اسی نے تمہیں اور تمہارے تمام اعمال کو پیدا کیا۔ ہر چیز کا پیدا کرنے والا تو اللہ ہی ہے اللہ رب العزت کو مستقبل کا حال معلوم ہے لہٰذا اللہ پاک اس کے بارے میں اس طرح ذکر فرماتے ہیں گویا وہ ماضی ہو…… اسی لیے جب اللہ رب العزت فرماتے ہیں اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ، ’’اللہ کا حکم آن پہنچا ہے پس تم جلدی مت مچاؤ‘‘، مستقبل کے وہ واقعات کہ جو ابھی تک پیش نہیں آئے لیکن چونکہ اللہ رب العزت نے انہیں مقدر فرمایا ہے اور اللہ جانتے ہیں کہ حالات و واقعات کے کیا نتائج برآمد ہوں گے ، لہٰذا اللہ رب العزت انہیں اس طرح بیان فرما سکتے ہیں کہ جیسے وہ واقع ہوچکے ہوں۔ پس اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

﴿ وَاِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ﴾ (سورۃ المائدۃ: ۱۱۶)

’’ اور (وہ وقت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے) جب اللہ فرمائے گاکہ اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ ” خدا کے علاوہ مجھے اور میری والدہ کو بھی معبود بنالو‘‘؟ ‘‘

قیامت کے دن عیسیؑ اللہ رب العزت کے سامنے کھڑے ہوں گے اور اللہ رب العزت تمام مخلوق کے سامنے ان سے دریافت فرمائیں گے کہ اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ ” خدا کے علاوہ مجھے اور میری والدہ کو بھی معبود بنالو‘‘؟ ضمناً یہ کہ یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا ذکر بھی کیا گیا جبکہ ان کی عبادت نہیں کی جاتی، لیکن چونکہ انہیں نعوذ باللہ خدا کی ماں کا درجہ دیا جاتا ہے اور اس طرح انہیں خدائی صفات میں شریک کیا جاتا ہے اس لیے اللہ رب العزت نے یہ فرمایا کہ یہ بھی گویا ان کی عبادت ہی ہے۔ عیسیؑ اپنے رب کے سوال کے جواب میں کیا فرمائیں گے؟

﴿ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ ۤ بِحَقٍّ ڲ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ ۭ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ ۭاِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ ؁﴾ (سورۃ المائدۃ: ۱۱۶)

’’ (عیسیٰ ؑ)عرض کریں گے: پاک ہے تو! میرے لیے یہ کسی طرح بھی ممکن نہ تھا کہ میں ایسی بات کہہ دیتا جس کا مجھے کوئی حق ہی نہ تھا،اگر میں نے کہا ہوتا تو یقیناً تجھے اس کا علم ہوتا، تو جانتا ہے جو کچھ میرے دل میں ہے، اور میں نہیں جانتا جو کچھ تیرے دل میں ہے، بےشک تو ہی تو ہے پوشیدہ چیزوں کا خوب جاننے والا ‘‘۔

دوسرے لفظوں میں گویا حضرت عیسی علیہ السلام فرمائیں گے کہ یہ بات تو میرے خواب و خیال میں بھی کبھی نہیں آئی۔ آپ میرے دل کے حال سے بخوبی واقف ہیں…… میرے دل میں کبھی ایسا خیال تک نہیں آیا۔ اللہ رب العزت اپنے سوال کا جواب پہلے سے جانتے تھے مگر عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے کہلوانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ مخلوق کے سامنے حق کا اظہار ہو اور عیسیٰؑ نے جو جواب دیا اس سے واضح ہے کہ میں محض ایک انسان ہوں اور غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے، اللہ جانتے ہیں جو میرے دل میں ہے جب کہ میں نہیں جانتا جو اللہ کے علم میں ہے اور بے شک تو ہے ہر غیب کا علم رکھنے والا ہے۔ اس کے بعد عیسیٰؑ نے فرمایا:

﴿ مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِيْ بِهٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ ۚ ﴾ (سورۃ المائدۃ: ۱۱۷)

’’ میں نے ان لوگوں سے اس کے سوا کوئی بات نہیں کہی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا، اور وہ یہ کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار ‘‘۔

اور پھر عیسیٰؑ نے فرمایا:

﴿ اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ؁﴾ (سورۃ المائدۃ: ۱۱۸)

’’ تو اگر انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں۔ اور اگر تو انہیں بخش دے تو بھی تو زبردست ہے حکمت والا ہے‘‘۔

عیسیٰؑ ان سب باتوں کا ببانگ دہل اظہار فرمائیں گے اور واضح فرمائیں گے کہ آج کے دن ہر فیصلے کا اختیار محض اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے، میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اگر آپ انہیں عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں، آپ کے غلام ہیں اور آپ کو ان کے اوپر پورا پورا اقتدار حاصل ہے اور اگر آپ انہیں معاف فرمانا چاہیں تو آپ عزیز و حکیم ہیں۔

﴿ قَالَ اللّٰهُ هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ ۭ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ؁﴾ (سورۃ المائدۃ: ۱۱۹)

’’ اللہ فرمائے گا: یہ وہ دن ہے جس میں سچے لوگوں کو ان کا سچ فائدہ پہنچائے گا۔ ان کے لیے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے خوش ہے اور یہ اس سے خوش ہیں۔ یہی بڑی زبردست کامیابی ہے‘‘۔

وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی صحبہ وسلم

٭٭٭٭٭

Previous Post

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | پانچویں قسط

Next Post

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: اٹھائیس (۲۸)

Related Posts

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | پچیسواں درس

14 اگست 2025
موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس

14 جولائی 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | تئیسواں درس

9 جون 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | بائیسواں درس

25 مئی 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | اکیسواں درس

14 مارچ 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | بیسواں درس

15 نومبر 2024
Next Post
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: ستائیس (۲۷)

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: اٹھائیس (۲۸)

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version