نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | پانچویں قسط

معاصر جہاد کے لیے سیرتِ رسول ﷺ سے مستفاد فوائد و حِکَم!

منصور شامی by منصور شامی
30 جولائی 2024
in اُسوۃ حسنۃ, جون و جولائی 2024
0

زیر نظر تحریر شیخ منصور شامی (محمد آل زیدان) شہید ﷫ کے آٹھ عربی مقالات کا اردو ترجمہ ہے۔ آپ ﷫ محرم ۱۴۳۱ھ میں وزیرستان میں شہید ہوئے۔ یہ مقالات مجلہ ’طلائع خراسان‘ میں قسط وار چھپے اور بعد ازاں مجلے کی جانب سے محرم ۱۴۳۲ھ میں کتابی شکل میں نشر ہوئے۔ ترجمے میں استفادہ اور ترجمانی کا ملا جلا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ مترجم کی طرف سے اضافہ کردہ باتوں کو چوکور قوسین [] میں بند کیا گیا ہے۔ (مترجم)

گھمنڈ ہلاکت کا باعث ہے

[غزوۂ بدر میں] قریش کی ہلاکت وتباہی کا ایک بڑا سبب ان کا گھمنڈ تھا، تجارتی قافلے کے مسلمانوں کی زد سے بچ نکلنے کی خبر پہنچنے کے بعد وہ رک کر اس ہلاکت سے بچ سکتے تھے، لیکن قریش کا طاغوت ابوجہل گھمنڈ میں آکر کہنے لگا: بخدا! ہم یونہی نہیں لوٹیں گے، ہم بدر جا کر تین دن قیام کریں گے، اونٹ ذبح کرکے کھائیں گے اور کھلائیں گے، ہم شراب پئیں گے اور باندیاں ہمارے سامنے گانے گائیں گی، باقی عرب جب ہمارے اس جمِ غفیر کے نکلنے کا سنیں گے تو ہمیشہ ہم سے خوف کھاتے رہیں گے۔

اور بدر پہنچنے کے بعد بھی جب حکیم بن حزام اور عتبہ بن ربیعہ کے بار بار کہنے کے نتیجے میں قریش نے بِنا لڑے واپس جانے کا رادہ کرلیا تو ابو جہل نے عتبہ کے بارے میں کہا: بخدا! وہ تو بزدلی کا شکار ہوگیا ہے۔ تو جواباً عتبہ نے کہا: عنقریب یہ ذلیل انسان جان لے گا کہ بزدلی کا شکار وہ ہے یا میں ہوں؟ پھر ابوجہل نے عامر بن حضرمی [جس کا بھائی عمرو بن حضرمی سریہ عبد اللہ بن جحش میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا] کو پیغام بھیجا کہ وہ قریش کی حمیت کو بھڑکا کر انہیں جنگ پر آمادہ کرے۔ غرض قریش اپنے گھمنڈ میں رہے یہاں تک کہ شکست وذلت ان کا مقدر بنی، یہی متکبروں کی ابتدا ہوتی ہے اور ایسا ہی ان کا انجام ہوتا ہے۔

[امریکہ کا طرزِ عمل ابو جہل جیسا ہے، انجام بھی ان شاء اللہ ویسا ہی ہوگا]

متکبروں کی سرکشی اور ان کی ہلاکت کی مثالیں تاریخ میں بہت زیادہ ہیں، لہٰذا ہمیں یقین ہے کہ امریکہ کا بھی یہی انجام ہوگا، کیونکہ اس نے بھی محض اپنے کِبر وگھمنڈ کی وجہ سے مسلمانوں سے جنگ چھیڑ رکھی ہے اور امریکہ کا کِبر [اور اس کاخمیازہ] اس تک ہی محدود نہیں رہے گا، کیونکہ اس نے اپنے ساتھ بہت سے احمق ملکوں کو بھی اس جنگ میں شامل کر رکھا ہے جنہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ کیوں اپنے لوگوں کو اس جنگ میں مروا رہے ہیں؟ [اس جنگ میں امریکہ کے دکھائے سبز باغوں کے علاوہ ان ملکوں کا اپنا کیا مفاد ہے؟] سو ان سب کا انجام بھی ایک ہی ہوگا۔ [ان شاء اللہ]

تکبر انسان کا یہ حال کردیتا ہے کہ اسے اپنا ظلم عینِ انصاف اور اپنی خطا عینِ صواب دکھائی دیتی ہے، جیسا کہ ابو جہل نے غزوۂ بدر کے دن کہا: اے اللہ! ہم میں سے جو زیادہ قطع رحمی کرنے والا اور منکرات کا زیادہ بڑا مرتکب ہو اسے آج ہلاک کردے اور ہم میں سے جو تجھے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہو اسے آج فتح عطا فرما۔

آج آپ امریکہ اور اس کے پیروکاروں کو بھی دیکھیں گے کہ وہ بھی اپنے ظلم کے باقاعدہ اصول گھڑ کر اس کے جواز کے ایسے ایسے دلائل پیش کرتے ہیں کہ لوگ انہیں ان کے جرائم کی بابت حق بجانب سمجھنے لگتے ہیں، بلکہ یہ پروپیگنڈہ علم و دعوت سے منسلک بعض حضرات پر بھی ایسا اثر انداز ہوتا ہے کہ وہ ہمارے خلاف ویسے ہی فتاویٰ صادر کرتے ہیں جیسے ’فتاویٰ‘ بش اور بلیئر جاری کرتے ہیں۔

متکبر انسان کا اپنے برے کرتوتوں پر اڑے رہنا صرف تب تک ہی محدود نہیں ہوتا جب وہ اپنی طاقت کے نشے میں اندھا ہورہا ہو، بلکہ شکست کھانے کے بعد بھی اس کا گھمنڈ باقی رہتا ہے اور شکست کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود اس کا دل اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔

ابو جہل نے جب دیکھا کہ اس کے لشکر میں بے چینی اور تشویش پھیل رہی ہے [اور ان کا ارادۂ جنگ کمزور ہورہا ہے] تو اس نے اس بے چینی کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کرتے ہوئے پوری وحشت اور تکبر کے ساتھ کہا: سراقہ کا تمہارا ساتھ چھوڑ دینا تمہارے حوصلوں کو پست نہ کرے، اس نے تو پہلے سے ہی محمد [ﷺ] سے سازباز کی ہوئی تھی، عتبہ، شیبہ اور ولید کے قتل سے خوف زدہ مت ہو، کیونکہ انہوں نے خود جلد بازی کی، لات اور عزیٰ کی قسم! ہم ان مسلمانوں کو رسیوں سے باندھ کر قید کیے بِنا واپس نہیں جائیں گے، اور میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ اس نے مسلمانوں کے کسی فرد کو قتل کیا ہو، بلکہ انہیں گرفتار کرو، تاکہ ہم انہیں ان کے کرتوت یاد دلائیں [اور شرمندہ کریں]۔ ابوجہل کا یہ گھمنڈ اس کی بدترین زندگی کی آخری رمق تک باقی رہا، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب اس کا سر اتارنے کے لیے اس کے سینے پر چڑھے [اور وہ معاذ و معوذ رضی اللہ عنہما کی ضربوں سے نڈھال وزخمی ہوکر گرا ہوا تھا] اس وقت بھی اس نے یہ کہا: کاش کسان کے علاوہ کسی اور نے مجھے قتل کیا ہوتا۔ [اشارہ انصار کی جانب تھا، جن کا پیشہ کھیتی باڑی اور باغ بانی تھا] اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے بکریوں کے حقیر چرواہے! تو ایک بہت دشوار بلندی پر چڑھ بیٹھا ہے۔ [اشارہ اپنے سینے کی طرف تھا کہ اس پر چڑھنا اتنا آسان نہیں تھا کہ تجھ جیسے معمولی یہ کام کرسکتے۔ سبحان اللہ! تکبر کس طرح عقل وشعور کو مسخ کرتا ہے۔ (خود حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں ابوجہل کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گیا، ابوجہل نے آنکھیں کھولیں اور کہا: اے بکریوں کے چَرانے والے! البتہ تو بہت اونچے مقام پر چڑھ بیٹھا ہے۔ میں نے کہا: حمد ہے اس ذاتِ پاک کی جس نے مجھے یہ قدرت دی۔ پھر کہا: کس کو فتح اور غلبہ نصیب ہوا؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسولﷺ کو۔ پھر کہا: تیرا کیا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: تیرا سر قلم کرنے کا۔ کہا کہ اچھا یہ میری تلوار ہے، اس سے میرا سر کاٹنا، یہ بہت تیز ہے، تیری مراد اور مدعا کو جلد پورا کرے گی، اور دیکھو میرا سر شانوں کے پاس سے کاٹنا تاکہ دیکھنے والوں کی نظروں میں ہیبت ناک معلوم ہو، اور جب محمد(ﷺ) کی طرف واپس ہو تو میرا یہ پیام پہنچادینا کہ میرے دل میں بہ نسبت گزشتہ کے آج کے دن تمہاری عداوت اور بغض کہیں زیادہ ہے۔1

سبحان اللہ! آج مجاہدین کے ہاتھوں اپنی ذلت ورسوائی اور شکست دیکھنے کے باوجود امریکہ جو ڈینگیں مارہا ہے، اگر ہم ان کا موازنہ ابوجہل کی باتوں سے کریں تو ان میں جوہری طور پر کوئی فرق نہیں۔

اَتَوَاصَوْا بِهٖۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ؀ (سورۃ الذاریات:۵۳)

’’کیا یہ [کفارِ سابقہ اور موجودہ] ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے چلے آئے ہیں [جس کی وجہ سے ان کی متکبرانہ باتوں میں اتنی مطابقت ہے]۔ نہیں، بلکہ یہ سرکش لوگ ہیں [اس سرکشی و کِبر نے ہی اگلوں سے یہ باتیں کہلوائیں اور یہی کبر پچھلوں سے بھی یہ باتیں کروارہا ہے]۔‘‘

[واضح رہے یہ سطور تیرہ چودہ برس پہلے لکھی گئی ہیں، آج امریکہ کو افغانستان سے ذلت آمیز شکست کے بعد نکلے تین سال پورے ہونے والے ہیں اور ہر نیا دن اس کی ذلت میں مزید اضافہ کرتا ہے، اس کے سپر پاور ہونے اور یک قطبی دنیا کا اکلوتا قطب ہونے کے دعوے کھٹائی میں پڑگئے ہیں، اس کے دیرینہ حریف جو موقع کے تلاش میں دم سادھے بیٹھے تھے، موقع دیکھ کر اس کو آنکھیں دکھانے لگے ہیں……لیکن اس سب کے باوجود اس کے بیانات دیکھیں تو ان کا طنطنہ وہی ہے جو خلیج کی جنگ کے بعد تھا جب اس نے نئے عالمی نظام (نیو ورلڈ آرڈر) کا اعلان کیا تھا، سو اس میں خوشخبری اور نیک فالی ہے مجاہدینِ اسلام کے لیے کہ امریکہ کا حشر بھی ان شاء اللہ ابو جہل جیسا ہی ہوگا، بس ہمیں صبر کے ساتھ اس پر چند ضربیں اور لگانی ہوں گی، پھر اس کا اپنا وزن اور قد کاٹھ اسے ڈبونے کے لیے کافی ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ]

[عملی شرکت کے ساتھ زبانی اختلاف کا کوئی فائدہ نہیں]

قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ کبر و گھمنڈ پورے لشکر میں نہیں تھا، بلکہ لشکر میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے بِنا جنگ واپس لوٹنے کی ترغیب دی اور امن کو ترجیح دی، لیکن ابوجہل نے ان ساری کوششوں کو ناکام بنادیا، کچھ نے واپس جانے کا ارادہ بھی کرلیا (جیسا کہ بنی ہاشم نے کوشش کی) لیکن ابو جہل نے بطورِ سردار اعلان کردیا کہ ہمارے واپس لوٹنے تک یہ گروہ ہم سے جدا نہ ہونے پائے۔ اور جو واقعتاً عقلمند تھا اور عملاً واپس لوٹ گیا تو یہ اس کے لیے بہتر رہا، جیسے اخنس بن شریق بنی زُہرہ کو واپس لے گیا، بنو زہرہ کے کسی فرد نے غزوۂ بدر میں کفار کی طرف سے شرکت نہیں کی، اخنس بنو زہرہ کا حلیف تھا اور اس مہم میں ان کا سردار بھی، بعد میں بنی زہر ہ اخنس کے اس فیصلے پر فخر کرتے رہے اور اخنس ان کے یہاں مزید محترم ہوگیا۔

ہمارا مقصد اس سے یہ ثابت کرنا ہے کہ فردِ واحد ابوجہل نے سب لوگوں کو بے وقوف بنایا [اور بے مقصد جنگ میں جھونک دیا]، لیکن یہ ان کے لیے کوئی کارآمد عذر نہ بن سکا، بلکہ عذاب ان سب پر ہی آیا۔

آج کی دنیا میں بھی اس قدیم تصویر کے بنیادی نقوش اور خاکہ ہر بینا شخص پر واضح ہے [بس کردار بدل گئے ہیں، کہانی وہی پرانی ہے]، عصرِ حاضر کا ابو جہل بش [اور اس کے جانشین] اپنے تکبر کی وجہ سے اپنی قوم کو ہلاکت وبربادی کی طرف لے جارہے ہیں، ہمیں یہ علم ہے کہ اس کی قوم میں ایسے لوگ ہیں جو جنگ اور ظلم کے خلاف ہیں، امن کو ترجیح دیتے ہیں، یہی بات امریکی جھنڈے تلے دیگر اقوام اور ملکوں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے کہ ان میں سے بعض امن کو پسند کرتے ہیں، لیکن امریکہ کی انانیت نے انہیں ایسی جنگ میں دھکیل دیا ہے جس میں ان کا اپنا کوئی فائدہ نہیں، لیکن کیا جنگ میں شمولیت کے بعد بھی ان کی یہ امن پسندی ان کے کچھ کام آئے گی؟! ہرگز نہیں!! اس جنگ کا خمیازہ انہیں بھگتنا ہوگا، انہیں پچھتانا ہوگا، لیکن تب پچھتاوا کچھ کام نہ آئے گا۔ گزشتہ متکبرین [اور ان کے اتحادیوں کو] کو جو سزائیں مل چکی ہیں وہ لامحالہ انہیں بھی مل کر ہی رہیں گی۔

اَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ اُولٰۗىِٕكُمْ اَمْ لَكُمْ بَرَاۗءَةٌ فِي الزُّبُرِ۝ اَمْ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَــصِرٌ؀ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ؀ (سورۃ القمر:۴۳–۴۵)

’’کیا تمہارے یہ [موجودہ] کافر اُن [پرانے کافروں] سے اچھے ہیں [کہ انہیں ان کے کیے کی سزا نہ ملے] یا تمہارے لیے [اللہ کی کتابوں میں] کوئی بے گناہی کا پروانہ لکھا ہوا ہے؟ یا ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم ایسا گروہ ہیں کہ [الٰہی عذاب سے] اپنا بچاؤ آپ کرلیں گے؟ [جبکہ حقیقت جس سے یہ انجان ہیں یہ ہے کہ] اس گروہ کو عنقریب شکست ہوگی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر [دُم دبا کر] بھاگیں گے۔‘‘

لیڈروں کے قتل کی اہمیت

مشرکینِ قریش کو لاحق ہونے والی شکست کوئی عام شکست نہیں تھی، بلکہ فیصلہ کن شکست تھی، جس کی سب سے نمایاں علامت ان کے سرداروں اور لیڈروں کا قتل تھا، اس بات کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑے2 تمہاری طرف پھینک دیے ہیں۔3

سرداروں کے قتل سے دشمن کے حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں، جنگ کا پانسہ پلٹ جاتا ہے، باقی بچ جانے والے سردار خوف زدہ رہتے ہیں [کہ کب میری باری آجائے!] اسلام اور اہلِ اسلام کو تکلیف پہنچانے والا کوئی منصوبہ بنانے سے پہلے وہ ہزار دفعہ جان جانے کا خوف کھاتے ہیں، پس جنرل پرویزمشرف جیسے کسی ایک بھی خبیث لیڈر کا قتل جنگ کی صورتحال اور اس کے نتائج میں باذن اللہ بہت تبدیلی لائے گا، اس لیے اللہ رب العزت نے کفر کے سرداروں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔

فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ اِنَّهُمْ لَآ اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ؀ (التوبۃ:۱۲)

’’سو [اے مسلمانو!] تم کفر کے سرداروں سے جنگ کرو، کیونکہ ان کی قسموں [اور معاہدوں] کی کوئی حقیقت نہیں [سب زبانی جمع خرچ ہے] تاکہ [جنگ کی وجہ سے اور قتل ہونے کے خوف سے] یہ [کفر کے سردار عہد شکنی اور دین پر زبان درازی سے] باز آجائیں [کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے]۔‘‘

دوستی اور دشمنی کا پیمانہ

غزوۂ بدر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا، حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا بھائی ابو عزیر مشرکوں کے لشکر کے ساتھ آیا تھا، جنگ کے خاتمے پر قید ہوا ، حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ایسے وقت اس کے پاس سے گزرے جب ایک انصاری صحابی اسے گرفتار کرکے باندھ رہے تھے، تو انہوں نے انصاری سے کہا: اسے مضبوطی سے باندھو [کہیں یہ بھاگ نہ جائے] اس کی ماں کے پاس بہت مال ودولت ہے، وہ پیسے دے کر اسے چھڑا لے گی [ایسا نہ ہو کہ یہ بھاگ جائے اور مسلمان مالی فائدے سے محروم ہوجائیں]۔ ابو عزیر نے تعجب سے کہا: تم میرے بارے میں اسے یہ مشورہ دے رہے ہو!! [حالانکہ میں تمہارا سگا بھائی ہوں]، حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اسے ایمان سے سرشار جواب دیا: میرا بھائی تمہیں باندھنے والا یہ انصاری ہے، نہ کہ تم!

[جنگی قیدیوں کا قضیہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے]

رسول اللہ ﷺ نے جب جنگی قیدیوں کے بارے میں حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مشورہ فرمایا تو آپ نے عرض کیا: اللہ کی قسم! میری وہ رائے نہیں جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہے [یعنی قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیاجائے] بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ فلاں کو (اپنے ایک رشتے دار کا نام لے کر کہا) میرے حوالے کریں اور میں اس کی گردن اتاروں، عقیل کو [جو تاحال مسلمان نہیں ہوئے تھے] ان کے سگے بھائی علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کریں اور وہ اس کی گردن ماریں، اور فلاں کو (حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ایک رشتے کے بھائی کا نام لے کر کہا) حمزہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کریں اور وہ اسے قتل کریں، تاکہ اللہ کے دشمن یہ بات اچھی طرح سمجھ جائیں کہ ہمارے دلوں میں مشرکوں کے لیے کوئی نرمی نہیں، اور یہ گرفتار شدگان تو مشرکوں کے سردار، لیڈر اور بڑے ہیں [بھلا انہیں کیسے زندہ چھوڑا جاسکتا ہے!؟] قرآنِ کریم بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق نازل ہوا۔

[سورۃ الانفال کی آیات ۶۷ تا ۶۹ میں اس کا بیان موجود ہے، ذیل میں یہ آیات مع ترجمہ درج کی جارہی ہیں۔

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ؀ لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِــيْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ؀ فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَيِّبًا ڮ وَّاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ؀ (الانفال: ۶۷–۶۹)

’’یہ کسی نبی کے شایانِ شان نہیں کہ اس کے پاس قیدی رہیں جب تک کہ وہ زمین میں [دشمنوں کا] خون خوب اچھی طرح نہ بہا چکا ہو [جس سے ان کا رعب ودبدبہ خاک میں مل جائے] تم [فدیے کی صورت میں] دنیا کا ساز وسامان چاہتے ہو اور اللہ [تمہارے لیے] آخرت [کی بھلائی] چاہتا ہے اور اللہ صاحبِ اقتدار ہے [چاہے تو دیگر امور کی طرح اس معاملے میں بھی ایک واضح حکم دے کر تم پر لازم کرسکتا تھا] حکمت کا مالک ہے [تمہیں بعض امور کا اختیار دے کر آزماتا ہے اور تمہارے سامنے تمہاری رائے کی خرابیاں اور نقصان ظاہر کرتا ہے] اگر اللہ کی طرف سے ایک لکھا حکم پہلے نہ آچکا ہوتا [کون سا حکم مراد ہے؟ اس کی تفسیر میں دو رائے ہیں۔ اول یہ کہ رسول اللہﷺ کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا عذاب نہیں آئے گا۔ دوم یہ کہ ان قیدیوں میں سے بعض کا مسلمان ہونا اللہ کی تقدیر میں طے تھا، نیز اس رائے کو رسول اللہ ﷺ کی تصویب حاصل تھی، اس لیے اس پر پکڑ نہیں ہوئی، ورنہ فی نفسہ یہ فعل قابلِ مواخذہ تھا] تو جو راستہ تم نے اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے تم پر کوئی بڑی سزا آجاتی۔ [لیکن چونکہ یہ فیصلہ اصولاً ناپسندیدہ ہونے کے باوجود قانوناً باقی رکھا جارہا ہے] سو تم نے جو مالِ غنیمت [فدیے کی صورت میں] حاصل کیا ہےاسے حلال پاکیزہ مال کے طور پر کھاؤ اور [آئندہ] اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔‘‘]

[سب سے پہلے ہے اسلام]

ایمان پر مبنی دوستی اور دشمنی کی اصل حقیقت اس معرکے غزوۂ بدر میں ظاہر ہوئی، اس ایمانی جذبے کی ہی بدولت اہلِ ایمان اپنے ہی ہم قوم کفار سے نبرد آزما ہونے کے قابل ہوئے، اگر ایمان کا یہ معیار اور سطح نہ ہوتی تو مومنین کبھی بھی اپنی قوم سے نظریاتی اختلاف کے باوجود لڑنے کے قابل نہ ہوپاتے۔

[خاندانی تعلقات کی مضبوطی عینِ فطرت ہے]

[آج جب کہ چند ٹکوں کی خاطر بھائی اپنے سگے بھائی اور بیٹا باپ کا گلا کاٹ رہا ہے، شیخ منصور شامی شہید رحمہ اللہ کی یہ بات کسی کو مبنی بر مبالغہ محسوس ہوسکتی ہے، جبکہ درحقیقت ایسا نہیں، پرانے وقتوں کے جاہلی معاشرے اگرچہ ہدایت سے دوری میں معاصر جاہلی معاشروں جیسے ہی تھے، لیکن ان کے یہاں خاندانی نظام اپنی فطری حالت میں تھا اور مضبوط تھا، ایک قوم دوسری قوم کے مقابلے میں اپنے فرد کا ساتھ دیتی تھی، گو اس فرد سے ان کا نظریاتی اختلاف ہو، لیکن کسی دوسرے کو اپنے ہم قوم پر ظلم کی اجازت نہیں دیتے تھے، خود شعبِ ابی طالب میں بنو ہاشم کے کفار بھی رسول اللہ ﷺ کی حمایت میں معاشی و معاشرتی بائیکاٹ سہتے رہے، ہجرت کے موقع پر بنو ہاشم کے انتقام کے خوف سے ہی ابو جہل نے یہ مشورہ دیا کہ رسول اللہﷺ کو (نعوذ باللہ) قتل کردیا جائے اور قتل میں ہر قبیلے کا ایک ایک فرد شریک ہو تاکہ بنو ہاشم انتقام کی سوچ ترک کردیں کہ تمام قبیلوں سے بیک وقت دشمنی کیسے مول لیں! اور دِیَت لینے پر راضی ہوجائیں، پھر خود سیرت میں ہی اس کی ایک اور مثال بھی ہے کہ جب ایک مرتبہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبی کی گستاخیوں کا ذکر چل رہا تھا تو اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! اگر آپ حکم دیں تو ہم اسے قتل کردیں۔ اس پر خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا اور آپ نے کہا کہ یارسول اللہ! اگر آپ کا حکم ہوتو ہم خزرج خود اسے قتل کردیں گے، لیکن دوسری قوم کے ہاتھوں ہماری قوم کا فرد قتل نہ ہو۔ عبد اللہ بن اُبی کا نسبی تعلق قبیلہ خزرج سے تھا۔ اور پیچھے جائیں تو حضرت لوط علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام کے واقعات کے ضمن میں قرآن اس بات کی طرف ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے جب قوم کو ایمان اور مکارمِ اخلاق کی دعوت دی، قوم نہ مانی، لیکن دلیل سے آپ کی کسی بات کو رد بھی نہ کرسکی تو کہا: ﴿وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ﴾ (ھود:۹۱) ’’[اے شعیب!] اگر تمہارا خاندان [تمہارا پشت پناہ] نہ ہوتا تو ہم تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کردیتے‘‘۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا کہ حضرت شعیب علیہ السلام کا پورا خاندا ن مسلمان تھا، بلکہ محض خاندانی تعلق کی وجہ سے انہیں گوارا نہ تھا کہ کوئی انہیں نقصان پہنچائے، ورنہ نظریاتی طور پر وہ خود حضرت شعیب ؑکی دعوت کے حامی نہیں تھے۔ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے نو(۹) فاسد و مُفسد سرداروں نے جب آپ کو قتل کرنے کی سازش کی تو باہم یہ طے کیا کہ حضرت صالح علیہ السلام کے وارثوں کے سامنے ہم انکار کردیں گے کہ ہم وہاں تھے ہی نہیں، یہ قتل ہم نے نہیں کیا، اور رازداری کی قسم اٹھائی۔ یہ قسم اٹھانے کی بات انہوں نے اسی لیے کی تھی کہ انہیں پتہ تھا کہ حضرت صالح علیہ السلام سے نظریاتی اختلاف کے باوجود ان کی قوم ان کے قتل کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں کرے گی۔ ارشادِ باری ہے:

قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ لَـنُبَيِّتَـنَّهٗ وَاَهْلَهٗ ثُمَّ لَـنَقُوْلَنَّ لِوَلِيِّهٖ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ اَهْلِهٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ؀ (سورۃ النمل:۴۹)

’’ان [نو سرداروں] نے کہا کہ سب مل کر اللہ کی قسم کھاؤ کہ ہم صالح اور اس کے گھر والوں پر رات کے وقت حملہ کریں گے پھر اس کے وارث سے کہہ دیں گے کہ ہم ان کے گھر والوں کی ہلاکت کے وقت موجود ہی نہیں تھےاور یقین جانو ہم بالکل سچے ہیں۔‘‘

حضرت لوط علیہ السلام کے پاس جب فرشتے خوبصورت آدمیوں کی شکل میں مہمان بن کر آئے اور قوم نے حضرت لوط علیہ السلام کے سمجھانے کے باوجود ان سے بدکاری کا ارادہ ترک نہ کیا تو فرطِ غم میں آپ علیہ السلام نے کہا:

قَالَ لَوْ اَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً اَوْ اٰوِيْٓ اِلٰي رُكْنٍ شَدِيْدٍ ؀ (سورۃ ھود:۸۰)

’’لوط نے کہا کہ کاش! میرے پاس تمہارے مقابلے میں کوئی طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا۔‘‘

حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے، اور جس قوم میں مبعوث ہوئے تھے، وہاں ان کا خاندان نہیں تھا، تفسیر ِ مظہری میں لکھا ہے کہ مضبوط سہارے سے مراد برادری کی قوت ہے، امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں مرفوع حدیث نقل کی ہے: اللہ رحم فرمائے میرے بھائی لوط پر بے شک وہ مضبوط سہارے [یعنی اللہ جل شانہ] کی پناہ میں تھے، پس ان [لوط علیہ السلام] کے بعد اللہ نے ہر نبی کو اس کی قوم کے باحیثیت خاندان میں بھیجا۔

اسلام نے آکر اس نظامِ فطرت کو ختم نہیں کیا، بلکہ مزید مضبوط کیا، صلہ رحمی کو تقویٰ کی علامت قرار دیا، البتہ سب سے بالاتر ایمان کو رکھا، باقی خاندان سمیت ہر چیز کو اس کے تابع کردیا۔ ارشادِ باری ہے:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَاۗءَكُمْ وَاِخْوَانَكُمْ اَوْلِيَاۗءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَي الْاِيْمَانِ ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ؀ (سورۃ التوبۃ:۲۳)

’’اے ایمان والو! اگر تمہارے باپ اور بھائی کفر کو ایمان کے مقابلے میں ترجیح دیں تو تم انہیں دوست وسرپرست نہ بناؤ۔‘‘

اور خاندانی تعصب میں فطرت سے تجاوز کرتے ہوئے انتہا پر پہنچے اس جاہلی معاشرے میں ایسا گروہ تشکیل دیا جس کے لیے ایمان کے آگے سب ہیچ تھا۔

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ (سورۃ المجادلۃ:۲۲)

’’جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، ان کو تم ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ اُن سے دوستی رکھتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے، چاہے وہ [مخالفت کرنے والے] ان کے باپ ہوں، یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے۔‘‘

اور اسی گروہ کو رہتی انسانیت تک کے لیے نمونہ ہدایت اور معیارِ ایمان قرار دے دیا۔ ارشادِ باری ہے:

فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا (سورۃ البقرۃ:۱۳۷)

’’پھر اور لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم [اے اصحابِ رسولؐ] ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت پا جائیں گے۔‘‘]

[یورپی استعمار اور ولاء وبراء کے مفہوم میں تحریف و ’تجدید‘]

یہی وجہ ہے کہ کفار جب یورپی استعمار کی شکل میں عالمِ اسلام پر قابض ہوئے تو انہوں نے دوستی اور دشمنی کے اس ایمانی معیار کو بدل کر اس کا ایسا مسخ شدہ معیار متعارف کرایا اور نافذ کیا جس کی بنیاد دین کے بجائے قومیت، وطنیت اور زبان وغیرہ پر رکھی گئی تھی، اسی کی خاطر اس نے یہ سرحدی لکیریں [ڈیورنڈ لائن، ریڈ کلف لائن،سائکس پیکو] کھینچیں اور ان خودساختہ ’وطنوں‘ میں نقل وحرکت کے لیے شرائط [پاسپورٹ، ویزہ] لاگو کردیں، اور صرف اسی سیاسی اقدام پر بس نہیں کی بلکہ ان مفاہیم کو تعلیمی اداروں کے نصاب میں داخل کرکے پوری نسل کے دماغو ں کو زہر آلود کیا، رہی سہی کسر ذرائع ابلاغ کے ذریعے پوری کردی، سو اب حال یہ ہوگیا ہے کہ ایک مصری کی محبت ہر اس شخص سے ہے جو مصر کا باشندہ ہو، خواہ اس کے افکار واعمال کیسے ہی ہوں [سیکولر، ملحد یا قبطی ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا]، صرف اس وجہ سے کہ وہ مصر کا رہنے والا ہے، لیبیا، سوڈان اور دیگر ملکوں کے مسلمانوں سے ایمانی رشتے کا اسے احساس تک نہیں ہوتا، خواہ ان پر کیسی ہی مصیبت ٹوٹ پڑے!

[سرحدی لکیر سے احکام میں فرق]

یہ مفاہیم اتنے عام ہوگئے ہیں کہ علم ودعوتِ دین سے منسوب حضرات پر بھی اثرانداز ہوتے جارہے ہیں، آپ آئے روز ایسے مضحکہ خیزاقوال وفتاویٰ سنتے رہتے ہیں جن کی بنیاد یہ سرحدی لکیریں ہوتی ہیں، ایک ہی علاقہ جس کو محض ڈیورنڈ لائن کی ایک فرضی سرحدی لکیر جدا کرتی ہے [اور بسااوقات سرحد کے دونوں طرف نام بھی ایک ہی ہوتا ہے] اس کے افغانستان والی طرف کے مسلمان عید منا رہے ہوتے ہیں اور پاکستان والی طرف کے مسلمان روزہ دار ہوتے ہیں!

افغانستان والی طرف جہاد فرضِ عین ہے اور پاکستان والی طرف فرضِ کفایہ، مجاہدین کے مقابل لڑنے والی افغانی فوج مرتد اور مباح الدم ہے، جبکہ یہی کام پاکستانی فوج کرے اور مجاہدین کی پیٹھ میں چھرا گھونپے تو وہ مسلمان ہے، اس سے لڑنا جائز نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

انہی فاسد مفاہیم کی وجہ سے مسلمان ثابت شدہ کافر کی تکفیر سے بھی گریز کرتے ہیں [مشہور بات تھی کہ کافر کو بھی کافر نہ کہو] اور جن مرتد حکام اور ان کے لشکروں سے قتال اللہ نے واجب کیا ہے اسے خود پر حرام کرتے ہیں، بڑی بڑی دینی جماعتوں کے لیے یہ ایک اصول بن گیا، ان کا ایک مشہور مفکر کہتا ہے: ہم اپنی ہم وطن حکومتوں کے ساتھ کبھی بھی مسلح تصادم کا راستہ نہیں اختیار کریں گے، ہماری بندوقوں کے دہانے غیر ملکی وطن دشمنوں کی طرف رہیں گے۔

[ان ’تازہ ‘ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے]

اس مسخ و محرَّف مفہوم کے نتیجے میں مسلمان ہر اس شخص کا بھائی قرار پایا جو اس کے وطن کی چھتری تلے ہو، خواہ مسلمان ہو یا کافر [صالح اور فاسق کی تو بات ہی نہ کریں] اور اس میں اسے کوئی برائی یا ناگواری محسوس نہیں ہوتی، ایک بہت بڑی دینی جماعت کہتی ہے: مصر اور عرب دنیا میں بسنے والے ہمارے مسیحی بھائیوں کے بارے میں ہمارا موقف پرانا، مشہور اور واضح ہے کہ ہمارے جو حقوق ہیں، وہی ان کے بھی ہیں اور ہم پر جو ذمے داریاں ہیں وہی ان پر لاگو ہیں، وہ ہمارے ہم وطن اور آزادی وطن کی طویل جدوجہد میں ہمارے ساتھی ہیں[للأسف، ایسے ہی اقوال ہمیں ہندوؤں کے حوالے سے آج ہندوستان میں بھی سننے کو ملتے ہیں، وإلی اللہ المشتکیٰ]۔

خواہ اس وطنی معیارِ محبت کے نتائج جو بھی ہوں، لیکن یہ معیار درست بلکہ واجب ہے، خواہ اس میں اللہ اور اس کے رسول سے جنگ اور بغاوت ہو، امریکی فوج میں شامل بعض خود مسلمان کہنے والوں نے ایک استفتا بھیجا کہ کیا ہمارے لیے امریکی فوج میں شامل ہوکر افغانستان جاکر مسلمانوں سے لڑنا جائز ہے؟ اس کے جواب میں بعض فتویٰ فروشوں نے جو جواز کا فتویٰ دیا وہ کسی سے مخفی نہیں، لیکن اس جواز کی بنیاد اس برائے فروخت فتوے میں کیا بیان کی گئی ہے؟ یہی کہ یہ قتال ان کے لیے جائز ہے تاکہ وطن کے لیے ان کی وفاداری پر کوئی شبہ پیدا نہ ہو! اس طرح کے دین دشمن فتووں کی گونج [انڈونیشیا مشائخ کانفرنس سنہ ۲۰۱۹ اور پیغامِ پاکستان] اب دنیا کے دیگر خطوں میں بھی سنائی دے رہی ہے۔

[اس طرح کا ایک واقعہ مترجم کو بھی اپنے تخصص فی الافتاء کے دوران پیش آیا، وطنی افواج کی بات چل رہی تھی، قبائل میں پاکستانی فوج کے مجاہدین پر حملوں کی بات کے ضمن میں جہادِ کشمیر کا ذکر آیا، احقر نے عرض کیا کہ ہند کے کئی اہلِ علم مقبوضہ کشمیر کے جہاد کے خلاف ہیں، اور یہ بات میں نے بعض فتاویٰ اور ایک آدھ سفرنامے میں خود پڑھی تھی، پھر بات اس پر آئی کہ اچھا! اگر کوئی ہندوستانی مسلمان انڈین فوج میں شامل ہو کر پاکستانی فوج سے لڑنے آئے تو کیا اس کا یہ فعل جائز ہے؟ اس پر ہمارے ایک محترم شریکِ تخصص کہنے لگے کہ بھئی جب وہ ایک ملک میں رہتے ہیں اور اس کی فوج میں شامل ہیں تو ڈیوٹی میں جو بھی کام ہوگا وہ اس کے لیے جائز ہوگا، کیونکہ شمولیت جو جائز ہے۔ خیر! بڑی بحث اور حوالے دکھا کر انہیں اس موقف سے ہٹایا، لیکن اصل بات پھر رہ گئی کہ جس کو انڈین فوج میں شمولیت کی حرمت کے لیے (واضح کفر اور مظالم کے باوجود) اتنے دلائل کی ضرورت پڑی، اسے پاکستانی فوج میں شمولیت کی حرمت پر قائل کرنا میرے بس سے باہر تھا۔ لیکن یہ سب ہے کیا!؟ وطنیت کا وہ ناسور ہے جو ہمارے ایمان کو گھُن کی طرح چاٹ رہا ہے۔]

سو لازم ہے کہ ہمارے پیمانے درست اور حق کے مطابق ہوں [نہ کہ وطنیت پیمانہ و کسوٹی ہو]، دوستی اور دشمنی کا ایمانی معیار ہر مسلمان کی زندگی میں جلوہ گر ہو، کیونکہ ولاء وبراء کو قائم کیے بغیر اسلام کو شوکت وقوت حاصل نہیں ہوسکتی۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 سیرتِ مصطفیٰﷺ از مولانا محمد ادریس کاندھلوی ج ۲ ص ۹۸ ط:کتب خانہ مظہری کراچی

2[یہ عربی محاورہ ہے، اردو کے برعکس اس میں صرف محبوبیت کو بیان کرنا مقصود نہیں ہوتا، بلکہ سرکردگی و اہمیت کا بیان بھی مقصود ہوتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے۔]

3 سیرت ابنِ ہشام بحوالہ تفسیر ابنِ کثیر سورۃ الانفال، آیت ۴۲

Previous Post

صبر اور مقامِ صدّیقین | دوسری (و آخری) قسط

Next Post

موت وما بعد الموت | اٹھارھواں درس

Related Posts

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | دسویں قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | دسویں قسط

14 جولائی 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | نویں قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | نویں قسط

9 جون 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | آٹھویں قسط

25 مئی 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | ساتویں قسط

31 مارچ 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چھٹی قسط

15 نومبر 2024
نشریات

اسلام آباد دھرنے میں’صہیونی‘ فورسز کی جارحیت کی بابت

31 جولائی 2024
Next Post
موت وما بعد الموت | سترھواں درس

موت وما بعد الموت | اٹھارھواں درس

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version