یہ تحریر تنظیم قاعدۃ الجہاد في جزیرۃ العرب سے وابستہ یمن کے ایک مجاہدلکھاری ابو البراء الاِبی کی تالیف ’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)
اٹھائیسویں وجہ: تنقید اور ملامت کے سامنے انتہائی حساسیت
بعض افراد نہیں چاہتے کہ انہیں کوئی ملامت کرے، یا ان کا محاسبہ کرے یا ان پر نقد کرے۔ اور اگر ایسا ہو جائے تو ایسا شخص اپنے اوپر اثر طاری کر لیتا ہے، کام سے رک جاتا ہے اور راستہ سے پھر جاتا ہے۔ یا تو اس شعور کے تحت کہ وہ ناکام ہےاور کوئی کام درست نہیں کرسکتا، یا یہ کہ وہ اس مرتبہ تک پہنچ گیا ہے جہاں اس پر نقد نہیں کی جانی چاہیے۔ یا اس لیے کہ فلاں جیسا شخص کیوں اسے ہدایت دے رہا ہے یا نقد کر رہا ہے۔
کہاں یہ اور کہاں حضرت عمر جنہوں نے فرمایا: ”اللہ اس پر رحم کرے جو ہمارے عیب ہمیں بتلاتا ہے“۔
ایک دفعہ منبر پر چڑھے اور فرمایا: ”اے لوگو! سنو اور مانو“۔ تو ایک عام آدمی کھڑا ہوا اور کہا : نہ سنوں گا اور نہ مانوں گا۔ حضرت عمر نے فرمایا: کیوں؟ اللہ تم پر رحم فرمائے۔ تو اس شخص نے کہا: کیونکہ آپ نے ہمیں ایک ایک کپڑا دیا اور خود دو کپڑے پہنے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ”اٹھو! اے عبد اللہ بن عمر“۔ تب حضرت عبد اللہ بن عمر نے اٹھ کر بتایا کہ انہوں نے اپنے والد صاحب کو اپنے حصہ کا کپڑا دیا تھا کیونکہ ان کی جسامت بڑی ہے۔
ایک دفعہ فرمایا: ”اگر تم مجھ میں ٹیڑھ دیکھو [تو کیسا ہے]“۔ ایک شخص نے کہا: اگر آپ میں ٹیڑھ دیکھیں گے تو اپنی تلواروں سے سیدھا کر دیں گے۔
ابن قدامہ مختصر منہاج القاصدین میں لکھتے ہیں:
”اور جان لو: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے لیے خیر چاہتے ہیں تو اسے اس کے عیب دکھا دیتے ہیں۔ اب جس کو بصیرت حاصل ہو اس سے عیب چھپ نہیں سکتے۔ اور جب اسے عیب کا علم ہو تو علاج بھی کر سکتا ہے۔ لیکن اکثر لوگوں کو اپنے عیب کا علم ہی نہیں ہوتا۔ اپنے بھائی میں تنکا نظر آتا ہے اور اپنی آنکھ میں تنا نظر نہیں آتا۔
جو یہ چاہتا ہے کہ اپنے عیب کو جان لے تو اس کے چند طریقے ہیں۔
پہلا طریقہ: کہ ایسے شیخ کے سامنے بیٹھے جو نفس کے عیوب جانتا ہو۔ وہ شیخ اس کو اس کے نفس کے عیوب بھی بتائے اور علاج کا طریقہ بھی۔ لیکن اس دور میں ایسا ملنا بہت مشکل ہے۔ لیکن جو ایسے شیخ کو پالے تو حقیقت میں اس نے حاذق طبیب پا لیا ہے۔ اسے نہیں چاہیے کہ وہ اسے چھوڑے۔
دوسرا طریقہ: وہ ایسا سچا، با بصیرت، با شرع دوست ڈھونڈے، اور اسے اپنے اوپر نگران مقرر کر لے تاکہ اخلاق و افعال کے ہر برائی پر اسے خبردار کرے۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب فرماتے تھے: اللہ ایسے شخص پر رحم فرمائے جو ہم تک ہمارے عیوب پہنچاتا ہے۔ اسی طرح جب حضرت سلمان ان کے یہاں آئے تو انہوں نے اپنے عیوب کے بارے میں دریافت کیا۔ حضرت سلمان نے فرمایا: میں نے سنا ہے کہ آپ نے ایک دسترخوان پر دو سالن رکھے۔ اور آپ نے دو جوڑے رکھے ہیں، ایک رات کے لیے ایک صبح کے لیے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ اس کے علاوہ بھی کچھ تم نے سنا ہے؟ حضرت سلمان نے فرمایا: نہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا: اب یہ دونوں کام میں آئندہ نہیں کروں گا۔
حضرت عمر حضرت حذیفہ سے پوچھا کرتے تھے: آیا میں منافقین میں سے تو نہیں؟ یہ اس لیے کہ جس شخص کا بیداری میں مرتبہ جتنا بلند ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو ملامت زیادہ کرتا ہے۔ لیکن ہمارے زمانے میں ایسا دوست بھی نایاب ہے جو مداہنت نہ کیا کرے۔ عیب بتایا کرے اور حسد نہ کیا کرے۔ ضرورت سے زیادہ آگے نہ بڑھے۔ سلف صالحین ان لوگوں کو پسند کرتے تھے جو ان کے عیوب پر خبردار کریں۔ جبکہ آج کل کے زمانے میں ہم میں سے غالب ایسے ہیں جن کے لیے عیب بتانے والا سب سے زیادہ مبغوض ہوتا ہے۔ یہ ایمان کی کمزوری کی دلیل ہے۔ کیونکہ برے اخلاق بچھوؤں کی طرح ہوتے ہیں۔