نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home تزکیہ و احسان

صبر اور مقامِ صدّیقین | دوسری (و آخری) قسط

شاہ حکیم محمد اختر by شاہ حکیم محمد اختر
30 جولائی 2024
in تزکیہ و احسان, جون و جولائی 2024
0

قلبِ شکستہ اور نزولِ تجلیاتِ الٰہیہ

اس لیے جو لوگ نظر بچاتے رہتے ہیں اور گناہ سے بچنے کا شدید غم اُٹھاتے رہتے ہیں، جو سینے میں ایسا دل رکھتے ہیں جو اللہ کو خوش کرنے کے لیے اپنی خوشیوں کا خون کرتا رہتا ہے تو ایسے دلوں پر اللہ تعالیٰ کی تجلیاتِ قربِ الٰہیہ متواترہ مسلسلہ وافرہ بازغہ عطا ہوتی ہیں۔ جن کے سینے ایسے دل کے حامل ہوں ان کے پاس بیٹھ کے دیکھو، ان کی شان ککر کی ہو جاتی ہے جو آج کل کی جدید ایجاد نے ثابت کردیا کہ جو بریانی پانچ چھ گھنٹے میں تیار ہوتی تھی اب چند منٹ میں تیار ہو جاتی ہے۔ پس ایسے دلوں کی صحبت بھی ککر کی شان رکھتی ہے کہ چند صحبتوں میں ان کے ساتھ رہنے والوں کو نسبتِ اولیائے صدیقین عطا ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہ غم اُٹھانے والے بندے اپنے سینے میں قلبِ شکستہ، ٹوٹا ہوا دل اور خونِ آرزو کا دریا رکھتے ہیں۔ ان کی صحبتوں میں بیٹھ پھر کر دیکھو گے کہ اللہ کے راستے کی جو مسافت دس سال میں طے ہوتی وہ چند گھنٹوں میں ان شاء اللہ طے ہو جائے گی۔ پس جو شخص صبر کی مذکورہ تینوں قسموں پر عمل کرے گا تو پھر اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ1 یعنی اللہ تعالیٰ کی معیت خاصہ کا انعام ہے اور صبر کی بدولت ہی ولایت کا سب سے اعلیٰ مقامِ صدیقیت نصیب ہوتا ہے۔ معیتِ خاصہ کا انعام جب ملتا ہے جب صبر کی تینوں قسموں پر عمل ہو۔ خصوصاً جو الصَّبْرُ عَنِ الْمَعْصِیَۃِ یعنی گناہوں کے تقاضوں پر صبر نہیں کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی ولایتِ علیا سے محروم رہے گا۔ ولایتِ عامہ تو ہر مومن کو حاصل ہے مگر میں جو یہ کہہ رہا ہوں کہ جو چاہے کہ میرے قلب میں شکستگی آجائے، میرا دل اللہ کی محبت میں جلا بھنا کباب ہو اور میرے قلب پر تجلیاتِ الٰہیہ متواترہ مسلسلہ بازغہ وافرہ عطا ہوں تو وہ گناہوں سے بچنے کا غم اُٹھا لے۔

ولایت و نسبت کی علامت

پھر وہ جہاں جائے گا اللہ کے عشق و محبت کے مشک کی خوشبو اُڑ جائے گی۔ بڑے بڑے علماء تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے کہ آہ! یہ علوم تو ہم نے بھی پڑھے ہیں، مگر اس کی زبان سے کیا بات نکل رہی ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ وہ ہرن ہے جس کے نافہ میں مشک ہے۔ دو ہرن کھڑے ہیں، ایک کے پیٹ سے مینگنی نکل رہی ہے، مشک سے اس کا نافہ خالی ہے اور دوسرا ہرن اپنے پیٹ میں آدھا کلو مشک رکھتا ہے، لاکھوں لاکھوں کا مشک ہے تو پھر یہ کھڑا رہتا ہے، لیٹ کر گہری نیند نہیں لیتا، کھڑے کھڑے اونگھ لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو قوت دیتا ہے، یہی ہلکی سی اونگھ اس کے لیے کافی ہے، کھڑا رہے گا، نہ لیٹے گا، نہ بیٹھے گا کیونکہ اس کے پاس ایک امانت آگئی اور دیکھتا ہے کہ شکاری لوگ مشک چھیننے کے لیے میری تاک میں ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ جس جو اپنے تعلق کی دولت، نسبت کی دولت، ولایت کی دولت، اپنے قربِ خاص کی دولت دیتے ہیں تو اس کے سامنے مشک کیا چیز ہے؟ پھر وہ بھی چوکنا رہتا ہے کہ کہیں کوئی حسین میری دولتِ نسبت کو چرا نہ لے یعنی مجھ سے گناہ صادر نہ ہو جائے۔ نسبت مع اللہ کے مشک کی حفاظت میں وہ ہر وقت بیدار و چوکنا رہتا ہے۔؎

نہ کوئی راہ پا جائے نہ کوئی غیر آ جائے
حریمِ دل کا احمد اپنے ہر دم پاسباں رہنا

مشک تو مخلوق ہے، یہ خالق کا مشک لیے بیٹھا ہے، اللہ تعالیٰ کی خوشبو لیے ہوئے ہے۔ اسی لیے حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کی خوشبو دو سو میل حجاز مقدس تک گئی جبکہ رسولِ خداﷺ حالتِ سفر میں تھے اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ الرَّحْمٰنِ مِنْ قِبَلِ الْیَمَنِ2 یمن سے مجھے اللہ کے قرب کی خوشبو آ رہی ہے۔

مشک میں اتنی طاقت کہاں کہ دو سو میل تک اس کی خوشبو جائے، یہ حضرت اویس قرنی کے قلب کی خوشبو تھی جو اللہ کی محبت میں جل رہا تھا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبا کے ہاتھوں پر، ہواؤں کی کندھوں پر یمن سے مجھے اللہ تعالیٰ کی خوشبوآ رہی ہے۔ دیکھیے! اللہ والوں کی خوشبو کہاں تک پرواز کرتی ہے؟ بعض وقت اللہ والوں کی خوشبو سارے عالَم میں پھیلتی ہے اور ان کے انتقال کی خبر بغیر خبر کے نشر ہو جاتی ہے۔ جب سورج ڈوبتا ہے تو سب کو پتا چل جاتا ہے یا نہیں یا ریڈیو پر اعلان ہوتا ہے؟ سورج ڈوبتے ہی ہر آدمی اندھیرا محسوس کرتا ہے۔ اس لیے کہتا ہوں کہ اللہ والے ہو جاؤ، پھر دوبارہ زندگی نہیں ملے گی۔ اگر چاہتے ہو کہ تجلیاتِ قربِ الٰہیہ آپ کے دلوں پر متواترہ مسلسلہ وافرہ بازغہ عطا ہوں تو ذرا ہمت سے کام لو، مرنے کے بعد تو گناہ چھوڑ ہی دو گے، جیتے جی چھوڑ دو۔

گناہ چھوٹنے اور گناہ چھوڑنے کا فرق

تمہارا جنازہ بدنظری نہیں کر سکتا، مرنے کے بعد مردہ جسم کی قربانی اللہ کو قبول نہیں ہے، اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ ہم اُن پر زندہ فدا ہو جائیں، تم کس کا انتظار کر رہے ہو کہ مر جائیں گے تب گناہ چھوڑیں گے، اس وقت آپ چھوڑیں گے نہیں گناہ چھوٹ جائیں گے، اس کا نام چھوٹنا ہے چھوڑنا نہیں، جیتے جی گناہ چھوڑ دو تاکہ اللہ کی دوستی کا اعلیٰ مقام نصیب ہو جائے، گناہ چھوڑنے کی تکلیفیں اُٹھاؤ، جب اُلفت کرنا ہے تو کُلفت اُٹھاؤ اور جب اُلفت ہوگی تو کلفت محسوس بھی نہیں ہوگی۔

غمِ تقویٰ کی کیف و مستیاں

نظر بچا کر دل میں وجد آ جائے گا کہ واہ رے میرے مالک! آپ کی توفیق کی کیا شان ہے کہ آج سے بیس سال پہلے ہم ایک حسین کو بھی نہیں چھوڑتے تھے اور آج آپ نے یہ مقام دے دیا کہ ایک حسین کو بھی نہیں دیکھتے اور آپ کے راستے کا غم اُٹھانے میں وہ مستیاں مل رہی ہیں کہ کیا جانیں رِند اور کیا جانیں میخانے اور کیا جانیں جام و مینا اور کیا جانے ساقی اور یہ بات نہیں کہہ رہا ہوں اتفاقی۔ اس پر اولیاء کا اجماع ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے راستے میں جتنا غم اُٹھایا، ان میں اتنی ہی خوشبو پیدا ہوئی، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں سخت مجاہدہ کیا ان کو اللہ تعالیٰ کے قرب کا اتنا مشاہدہ ہوا، اتنی ہی خوشبو عطا ہوئی، اتنا ہی دردِ دل عطا ہوا۔ ؎

ہم نے لیا ہے داغِ دل کھو کے بہارِ زندگی
اِک گل ترکے واسطے ہم نے چمن لٹا دیا

کیونکہ دنیا کے پھول تو مرجھانے والے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے قرب کا پھول مرجھانے والا نہیں ہے۔ کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ3 ہر وقت، ہر لحظہ، ہر آن اللہ کی ایک نئی شان ہے۔ اس کے برعکس بڑے بڑے معشوقوں کو دیکھو گے کہ وہ حسین لڑکیاں جن پر لوگ ایمان بیچتے تھے، سو برس کی نانی اماں بن چکی ہیں اور نوجوان حسین لڑکے جن کو دیکھنے کو بڑے بڑے عقل والے پاگل ہوتے تھے اب وہی نانا ابا نظر آتے ہیں۔ ارے ظالمو! بڈھے حسن یا حسن زوال شدہ کو چھوڑ دینا تو کافر کا بھی کام ہے، ہندو بھی نہیں پوچھتا، یہودی بھی عاشق نہیں ہوتا کسی بڈھی بڈھے پر، تم مومن ہو کر اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں سلوک کا دعویٰ کر کے، گول ٹوپیاں پہن کر، اولیاء اللہ کی شکل بنا کر کس طرح ان بگڑنے والی شکلوں پر بگڑتے ہو اور لومڑیوں کی طرح راہِ فرار اختیار کرتے ہو، ہمت سے کام لو۔ تو اللہ تعالیٰ امتحان میں صبر کرنے والوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بشارت دلا رہے ہیں، وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ؁ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ؁ اے نبی! آپ صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجیے، جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کی مِلک ہیں اور ان ہی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔

استرجاع کی سنت

اور مصیبت کی چار تفسیر ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حسبِ ذیل مواقع پر صبر فرمایا اور اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ پڑھا۔ ان چار مقامات پر اِنَّا لِلّٰهِ پڑھ کر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو ہدایت کر دی کہ چھوٹی سے چھوٹی مصیبت پر بھی اِنَّا لِلّٰهِ پڑھ کر اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ یعنی معیتِ خاصہ کی دولت حاصل کر لو۔ وہ کیا ہیں؟

۱) عِنْدَ لَدْغِ الشَّوْکَۃِ کانٹا چبھ جانے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ پڑھا ہے۔ آیت اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ کی تفسیر میں صاحبِ تفسیر روح المعانی لکھتے ہیں کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چار مواقع پر بھی اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ پڑھ کر عمل کا راستہ کھول دیا تاکہ تمہارے اندر فہم پیدا ہو کہ کہاں کہاں پڑھنا چاہیے۔

۲) وَعِنْدَ لَسْعِ الْبَعُوْضَۃِ اور جب مچھر کاٹ لیتا تھا تب بھی آپ اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ پڑھتے تھے۔ یہ راستہ مل رہا ہے کہ چھوٹی مصیبت پر بھی فضیلت مل رہی ہے، ہے تو چھوٹی مصیبت مگر بڑی فضیلت لے لو، چھوٹے عمل پر اجر عظیم لے لو اور اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ کی معیتِ خاصہ حاصل کر لو اور آپ نے یہ خاموشی سے نہیں پڑھا ذرا بلند آواز سے پڑھا، جب ہی تو صحابہ نے سنا۔ بس صحابہ کا سننا دلیل ہے کہ آپ نے زبانِ نبوت سے جہراً پڑھا۔ جیسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کھڑے ہو کر پڑھتے تھے یا بیٹھ کر؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن شریف میں نہیں پڑھا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا خطبہ کی حالت میں آپ قائم تھے، جب اونٹوں کا قافلہ دیکھ کر گندم لینے کے لیے بعض صحابہ آپؐ کو چھوڑ کر چلے گئے۔ معلوم ہوا کہ آپؐ کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے۔ وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا میں قَآئِمًا حال ہے اور فعل حال سے مقید ہوتا ہے یعنی اس حالت میں آپ کو چھوڑا کہ آپ کھڑے ہوئے تھے۔ تو ایسے ہی صحابہ کا اِنَّا لِلّٰهِ سننا دلیل ہے کہ آپ نے جہراً پڑھا۔

۳) اور تیسرا موقع جب آپ نے اِنَّا لِلّٰهِ پڑھا وَعِنْدَ انْطِفَاءِ الْمِصْبَاحِ اور جب چراغ بجھ جاتا تھا تو بھی آپ اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ پڑھتے تھے۔ اس زمانے میں جب کبھی بجلی فیل ہو جائے تو اس سنت کو ادا کر لیا کریں۔ یہ نہیں کہ اب ہمارے پاس چراغ تو نہیں ہے، چراغ نہیں ہے تو بجلی تو ہے لہٰذا یہ سنت ادا کرو۔

۴) اور چوتھا موقع جب آپ نے اِنَّا لِلّٰهِ پڑھا وہ یہ ہے وَعِنْدَ انْقِطَاعِ الشَّسْعِ4 جب چپل کا فیتہ ٹوٹ جائے تب بھی پڑھو اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ، یہ چار مثالیں ہیں۔

تعریفِ مصیبت بزبانِ نبوت ﷺ

لیکن رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحمت دیکھیے کہ ان چار مثالوں پر عمل کر کے اُمت کو دکھا دیا لیکن پھر بھی آخر میں ایک قاعدہ کلیہ بھی بتا دیا چونکہ ہر شفیق اور مہربان استاد چند جزئیات کے بعد ایک کلیہ بیان کر دیتا ہے تاکہ شاگرد اس پر قیاس کر سکے لہٰذا رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کلیہ بیان فرما دیا تاکہ قیامت تک آنے والی اُمت اپنی ہر حالت کو اس پر منطبق کر سکے اور قیاس کر سکے کہ اِنَّا لِلّٰهِ پڑھنے کے کیا مواقع ہو سکتے ہیں لہٰذا آپ نے کلیہ کے طور پر مصیبت کی تفسیر بیان کر دی کہ کُلُّ مَا یُؤْذِی الْمُؤْمِنَ فَھُوَ مُصِیْبَۃٌ لَّہٗ وَلَہٗ اَجْرٌ5 ہر وہ چیز جو مومن کو تکلیف پہنچا دے وہ اس کے لیے مصیبت ہے اور اس پر اجر ہے۔ اور ایک بات اور بھی سن لو کہ اگر دس سال پہلے کی مصیبت یاد آجائے، جیسے دس سال پہلے کسی کا انتقال ہوا اور آج اس کا خیال آگیا اور دل میں تھوڑا سا غم آگیا تو پچھلی مصیبتوں پر بھی جو اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ پڑھے گا اس کو بھی اجر ملے گا۔

اس اُمت کی ایک امتیازی نعمت

سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری اُمت کو ایک ایسی چیز دی گئی ہے جو سابقہ اُمتوں میں سے کسی اُمت کو نہیں دی گئی اور وہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت تم اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ کہو۔ لہٰذا ہم سب کو اپنی قسمت پر شکر کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اور طفیل میں وہ نعمت دی جو پچھلی اُمتوں میں کسی کو بھی نہیں دی۔ اور فرمایا کہ اگر پہلے کسی کو یہ نعمت دی جاتی تو سب سے زیادہ حق حضرت یعقوب علیہ السلام کا تھا کہ جب ان کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام گم ہو گئے تو اس وقت وہ کہتے اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ لیکن چونکہ یہ نعمت کسی نبی کو نہیں دی گئی، اس لیے بیٹے کے گم ہونے پر آپ کو جو غم پہنچا تو آپ نے کہا یٰآسَفٰی عَلٰی یُوْسُفَ ہائے یوسف افسوس! لہٰذا اس اُمت کو اِنَّا لِلّٰهِ مابہ الامتیاز نعمت ہے جو سارے عالَم میں ہم کو امتیازی شرف دیتی ہے، اُممِ سابقہ سے ممتاز کرتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے صدقے میں اللہ تعالیٰ کے کیسے کیسے کرم ہمیں عطا ہوئے۔

حقیقی صبر کیا ہے؟

علامہ آلوسیؒ تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ صبر صرف زبان سے اِنَّا لِلّٰهِ پڑھنے کا نام نہیں سنتِ استرجاع یعنی اِنَّا لِلّٰهِ پڑھنے کی سنت حقیقی معنوں میں اس وقت ادا ہوگی جب زبان کے ساتھ دل میں شامل ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ کی مِلک ہیں، ملکیت ہیں، مملوک ہیں اور مالک کو اپنی ملک میں ہر قسم کے تصرف کا اختیار ہوتا ہے۔ مالک کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کو جہاں چاہے رکھے اور جب تک چاہے رکھے اور جہاں چاہے اُٹھا کر رکھ دے۔ اِنَّا لِلّٰهِ سے مراد یہی ہے کہ ہم ہر طرح سے اللہ تعالیٰ کی مِلک ہیں اور مالک کو ہم پر ہر طرح کے تصرف کا حق حاصل ہے۔ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ اور یہ جدائی عارضی ہے، ہم لوگ بھی وہیں جانے والے ہیں۔ یہ دو جملے ہیں، ان سے بڑھ کر کائنات میں صبر کو کوئی کلمہ نہیں ہو سکتا، مصیبت میں اس کلمہ سے زیادہ مفید و لاجواب موتی کا کوئی مفرح خمیرہ نہیں پیش کر سکتا۔

صبر پر تین عظیم الشان بشارتیں

رہا غم تو اس پر کتنی بڑی بشارت دی جا رہی ہے، وہ کیا بشارت ہے؟ فرماتے ہیں اُولٰىِٕكَ عَلَيْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ جو مصیبت کے وقت صبر سے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے راضی رہتے ہیں تو ان پر ان کے ربّ کی طرف سے خاص خاص رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ صلوٰۃ کے کئی معنیٰ ہیں، جب بندے کے لیے کہا جائے کہ صلوٰۃ پڑھ رہے ہیں، تو صلوٰۃ کے معنیٰ نماز کے ہیں اور جب دعا مانگ رہا ہو تو صلوٰۃ کے معنیٰ دعا کے بھی ہیں۔ صلوٰۃ کی نسبت جب مخلوق کی طرف کی جائے گی تو مراد ہے نماز اور دعا اور جب اللہ کی طرف نسبت کی جائے کہ اللہ تعالیٰ صلوٰۃ بھیج رہا ہے تو وہاں مراد نزولِ رحمت ہے۔ اسی طرح صلوٰۃ کے معنیٰ دعائے مغفرت کے بھی ہیں جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ جب کوئی بندہ اللہ کی محبت میں کسی بندے کے پاس جاتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے ساتھ چلتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ کے وعدوں پر ایمان لانا ضروری ہے کہ ستر ہزار فرشتے گھر سے ساتھ چلتے ہیں شَیَّعَۃٗ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ کُلُّھُمْ یُصَلُّوْنَ عَلَیْہِ اَیْ یَّسْتَغْفِرُوْنَ لَہٗ یعنی ستر ہزار فرشتے راستے بھر اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے نیک گمان سے کسی کو اللہ والا سمجھ کر محض اللہ کے لیے اس سے ملاقات کرنے آتے ہیں تو ستر ہزار فرشتوں کی ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے جو راستے بھر اس کے ساتھ چلتے ہیں اور اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور جب وہ مصافحہ کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے کہتے ہیں رَبَّنَا اِنَّہٗ وَصَلَ فِیْکَ اَیْ لِاَجْلِکَ یا اللہ! یہ آپ کے لیے مل رہا ہے، آپ کی وجہ سے محبت کر رہا ہے، فَصِلْہُ6 اس کو اپنے سے ملا لیجیے۔ اسی لیے جو لوگ اللہ والوں سے ملتے ہیں جلد اللہ والے ہو جاتے ہیں، کیونکہ ستر ہزار فرشتوں کی دعائیں لگتی ہیں۔ دیکھیے! صلوٰۃ کے معنیٰ ہر جگہ کے اعتبار سے بدل رہے ہیں، اس حدیث میں صلوٰۃ کی نسبت جب فرشتوں کی طرف ہوئی تو یہاں معنیٰ ہوئے دعائے مغفرت لیکن صلوٰۃ کی نسبت جب اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے تو اس کے معنیٰ ہوتے ہیں نزولِ رحمت۔

پہلی بشارت ’’رحمتِ خاصہ‘‘

تو صابرین کے لیے اللہ کی طرف سے جو بشارت دی جارہی ہے وہ کیا ہے؟ اُولٰٓىِٕكَ عَلَيْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَةٌ صلوات جمع ہے صلوٰۃ کی معنیٰ خاص خاص رحمتیں یعنی اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں پر خاص خاص رحمتیں نازل فرمائے گا لیکن آگے وَرَحْمَةٌ نازل فرما کر بتا دیا کہ میں رحمت عامہ سے بھی اپنے صبر کرنے والے بندوں کو محروم نہیں کروں گا۔ یہ تعمیم بعد التخصیص ہے کہ صابرین پر خاص خاص رحمتیں تو اللہ برسائے گا ہی مگر رحمتِ عامہ بھی دے گا یعنی رحمتِ خاصہ کے آبشار کے تسلسل کے ساتھ رحمتِ عامہ بھی ملے گی۔ پے در پے صلوات اور رحمت پہ رحمت نازل ہوگی۔ یہ تفسیر بیان القرآن ہے جو پیش کر رہا ہوں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ صلوات سے مراد خاص خاص رحمتیں ہیں۔

دوسری بشارت ’’رحمتِ عامہ‘‘

اور جو بعد میں وَرَحْمَةٌ ہے یہ تعمیم بعد التخصیص ہے یعنی رحمتِ عامہ مراد ہے اور اس کی وجہ حضرت نے عجیب فرمائی کہ چونکہ حکمِ صبر پر عمل کر نے میں تمام صابرین مشترک ہیں، اس لیے اس کا بدلہ رحمتِ عام ہے لیکن چونکہ ہر صابر کے صبر کی کیفیت و خصوصیت و کمیت جدا ہے لہٰذا ان خصوصیات کا صلہ بھی جدا جدا خاص عنایتوں سے ہوگا، جتنا جس کا صبر ہوگا اتنی ہی عنایتِ خاصہ اس پر مبذول ہوگی۔ اُولٰٓىِٕكَ عَلَيْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ اور یہ نزولِ رحمت تمہارے رب کی طرف سے بدون واسطہ ملائکہ ہوگا یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست رحمتیں نازل ہوں گی۔ مِنْ رَّبِّھِمْ فرمایا کہ تمہارا ربّ براہِ راست تم پر رحمت نازل کرے گا۔ دیکھو! کوئی دوست کسی کو براہِ راست کوئی چیز دے اور خود نہ دے بلکہ کسی کے ذریعے سے دے فرق ہے یا نہیں؟ تو مِنْ رَّبِّھِمْ سے اللہ تعالیٰ نے مزہ بڑھا دیا اور صبر کو میٹھا کر دیا کہ تمہارے ربّ کی طرف سے بدون واسطہ ملائکہ رحمتِ خاصہ بھی ملے گی اور رحمتِ عامہ بھی۔

تیسری بشارت ’’نعمت اِھْتِدَاء‘‘

وَاُولٰٓىِٕكَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ اور یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا راستہ بھی دکھایا اور مطلوب تک بھی پہنچا دیا یعنی اس حقیقت تک ان کی رسائی ہوگئی کہ حق تعالیٰ ہی ہمارے مالک اور نقصان کا تدارک کرنے والے ہیں۔ ہدایت کے دو معنیٰ ہیں ایک تو اراءۃ الطریق یعنی راستہ دکھانا اور دوسرا ایصال الی المطلوب یعنی مطلوب تک پہنچا دینا۔ اراءۃ الطریق یہ ہے کہ جیسے کوئی راستہ دکھا دے کہ وہ فلاں چوک ہے اور ایصال الی المطلوب یہ ہے کہ اس چوک تک پہنچا دیا۔ پس صبر کی دو برکات ہیں، ایک تو اللہ کا راستہ نظر بھی آئے گا اور دوسرا اللہ تک رسائی بھی ہوگی۔ یہ ہے مُھْتَدُوْنَ کا ترجمہ۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں کہ جن کو اپنے مِلک ہونے اور حق تعالیٰ کے مالک ہونے کا یقین آگیا اور جو سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ ہر نقصان کا تدارک فرما دیتے ہیں۔

شرح حدیث ’’اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ‘‘

اب حدیثِ پاک کا ترجمہ کرتا ہوں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ تعزیت میں جو تسلی ہے وہ دنیا بھر کے کلام میں نہیں ہو سکتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہٗ مَا اَعْطٰی وَکُلٌّ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمًّی7اللہ نے جو چیز ہم سے لے لی وہ اللہ ہی کی تھی۔ لِلّٰہِ میں لام تملیک کا ہے کہ اللہ ہی اس کا مالک ہے۔ اگر کوئی امانت کے طور پر کوئی چیز آپ کو دے کہ اس کو اپنے پاس رکھو پھر جب وہ واپس لیتا ہے تو آپ کو غم نہیں ہوتا۔ ہم کو جو مرنے والوں کا حد سے زیادہ غم ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ اس کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں حالانکہ وہ ہماری ملکیت نہیں تھی بلکہ اللہ کی امانت تھی۔ وَلَہٗ مَا اَعْطٰی اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ لہٰذا جو نعمتیں ہمارے پاس ہیں جو اعزا موجود ہیں، سب نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے یہاں ہر چیز کا وقت مقرر ہے جو کچھ اللہ لیتا ہے اور جو کچھ عطا فرماتا ہے، ہر چیز کا وقت اللہ کے یہاں مقرر ہے کہ فلاں وقت اس کو فلاں چیز عطا ہوگی اور فلاں وقت فلاں چیز واپس لی جائے گی۔ پس عطا پر شکر کرو اور مافات پر صبر کرو اور ثواب کی اُمید رکھو۔

اور مرنے والے کو ایصالِ ثواب کریں، جانی بھی اور مالی بھی یعنی عباداتِ نافلہ و تلاوت وغیرہ کا ثواب بھی پہنچائیں اور مال خرچ کرکے صدقۂ جاریہ کا ثواب بھی پہنچائیں اور مالی ثواب مردے کے لیے زیادہ نافع ہے۔

بس اب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ ہم سے اپنے دین کے ایسے بڑے بڑے کام لے لے کہ قیامت تک اس کے نشانات باقی رہیں اور دنیا سے خوب خوب کما کر جائیں اور اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائیں اور ہم سب کو اے اللہ! نسبتِ اولیائے صدیقین عطا فرما یعنی اللہ کی دوستی کا سب سے اعلیٰ مقام صدیقین کا ہے، صدیقیت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، نبوت کا دروازہ بند ہوا ہے لیکن اللہ نے اپنی دوستی کا دروازہ قیامت تک کے لیے کھولا ہوا ہے۔ اللہ! ہمیں اپنے دوستوں کا اعلیٰ مقام نسبتِ اولیائے صدیقین عطا فرما دے۔ وہ کیا ہے کہ ہر سانس ہم آپ پر فدا کریں اور آپ کو خوش رکھیں، ایک لمحہ آپ کو ناراض کر کے اس کمینے پن، بے غیرتی اور خباثتِ طبع سے ہم اپنے دل کو حرام خوشیوں سے خوش نہ ہونے دیں۔ آمین!

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ


1البقرۃ: ۱۵۳

2 التشرف بمعرفۃ احادیث التصوف: ۴۷، ۱۹۰، مؤلفہ التھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ

3 الرحمٰن: ۲۹

4 روح المعانی: ۲/۲۳، البقرۃ(۱۵۶)، مکتبۃ دار احیاء التراث، بیروت

5 روح المعانی: ۲/۲۳، البقرۃ(۱۵۶)، مکتبۃ دار احیاء التراث، بیروت

6 شعب الایمان للبھیقی: ۱/۴۹۳(۹۰۲۴)، قصۃ ابراھیم فی المعانقۃ، مکتبۃ دار الکتب العلمیۃ

7 صحیح البخاری: ۱/۱۷۱ (۱۲۸۵)، باب یعذب المیت ببعض بکاء اھلہ علیہ، المکتبۃ المظھریۃ

Previous Post

قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں!

Next Post

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | پانچویں قسط

Related Posts

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | آٹھویں قسط

14 اگست 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | ساتویں قسط

14 جولائی 2025
اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | چھٹی قسط

9 جون 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | پانچویں قسط

25 مئی 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | چوتھی قسط

31 مارچ 2025
اصلاحِ معاشرہ | پہلی قسط
تزکیہ و احسان

اصلاحِ معاشرہ | تیسری قسط

14 مارچ 2025
Next Post
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | پانچویں قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version