نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home اداریہ

قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں!

مدیر by مدیر
30 جولائی 2024
in اداریہ, جون و جولائی 2024
0

کوئی شک کی بات نہیں کہ یہ زمانہ اسلام کے عروج کا زمانہ ہے، اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا زمانہ۔سبھی سروے اور سبھی انڈیکیٹرز(indicators) اسی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ آج جتنی بیداری امتِ مسلمہ میں موجود ہے، قبضۂ استعمار کے بعد سے کبھی اس قدر بیداری اور دین پر عمل کا جذبہ من حیث المجموع امت میں پہلے موجود نہیں رہا۔ علوم و فنونِ اسلامی کا فروغ، دعوت و تبلیغ کے قافلے، مجلسیں، محفلیں، حلقہ ہائے درس و تزکیہ، یہ سبھی ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ہیں اور اس کا ایک براہِ راست سبب امت مسلمہ کی آبادی ہے، جو دو ارب یعنی دو سو کروڑ نفوس کے قریب ہے یا اس سے تجاوز کر چکی ہے۔ دنیا میں دوسرا بڑا مذہب آج اسلام ہے۔ دنیا میں ستّاون اسلامی ممالک ہیں، صرف ہمارے خطّۂ برِّ صغیر یا جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی ایک تہائی آبادی بستی ہے یعنی لگ بھگ ستّر کروڑ مسلمان۔مشرقِ وسطیٰ کا سب سے بڑا مذہب اسلام ہے، مسلمانوں کی کل تعداد میں سے امتِ مسلمہ کا پندرہ فیصد یعنی تیس کروڑ یہیں بستے ہیں1۔

اتنی بڑی عددی قوت کے باوجود عالمی سطح پر مسلمان مجبور و مظلوم ہیں۔ برِّ صغیر میں عالمی سطح کا ظلم ملکِ ہندوستان میں انہی مسلمانوں کے ساتھ جاری ہے۔ پچھلے ایک سال میں سب سے زیادہ مسلمان مشرقِ وسطیٰ میں قتلِ عام کا نشانہ بنے ہیں۔ ستّاون اسلامی ممالک میں صرف ایک ملک میں اللّٰہ کی شریعت غالب ہے اور وہ بھی دہائیوں کی محنت کے بعد، ملکِ افغانستان میں۔ باقی سارا عالمی منظر نامہ شاہد ہے کہ مسلمان مجبور ہیں، مقہور ہیں، مظلوم ہیں اور ان کا دین حکومتی ایوانوں سے غائب ہے۔ آخر کیوں؟!

کرنے کو تو اس امر پر سو سو حجتیں پیش کی جاسکتی ہیں، مقالے و کتب لکھی جا سکتی ہیں بلکہ لکھی جا چکی ہیں، لیکن من حیث الامت اس مجبوری و مقہوری اور اللّٰہ ﷻ کے دین کی حکومت کے ایوانوں سے غیوبت کا سبب وہی ہے جو طبیبِ امت، رسالت پناہ محمدِ مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰ علیہ ألف صلاۃ وسلام نے فرمایا تھا:

’’عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوشِكُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ الْأُمَمُ مِنْ كُلِّ أُفُقٍ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ عَلَى قَصْعَتِهَا قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمِنْ قِلَّةٍ بِنَا يَوْمَئِذٍ قَالَ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنْ تَكُونُونَ غُثَاءً كَغُثَاءِ السَّيْلِ يَنْتَزِعُ الْمَهَابَةَ مِنْ قُلُوبِ عَدُوِّكُمْ وَيَجْعَلُ فِي قُلُوبِكُمْ الْوَهْنَ قَالَ قُلْنَا وَمَا الْوَهْنُ قَالَ حُبُّ الْحَيَاةِ وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ.‘‘ (مسند أحمد)

’’حضرت ثوبان رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’عنقریب ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں دنیا کے ہر کونے سے مختلف قومیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کو اس طرح دعوت دیں گی جیسے دسترخوان کی طرف بلایا جاتا ہے‘، ہم نے عرض کیا ’یا رسول اللّٰہ ! (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کیا اس زمانے میں ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا ؟‘ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ’اس زمانے میں تمہاری تعداد تو بہت زیادہ ہوگی لیکن تم لوگ سمندر کے خس و خاشاک کی طرح ہوگے، تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال لیا جائے گا اور تمہارے دلوں میں ’’وہن ‘‘ڈال دیا جائے گا‘، ہم نے پوچھا کہ ’’’وہن ‘‘سے کیا مراد ہے ؟‘، نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ’زندگی کی محبت اور موت سے نفرت‘۔‘‘

ذرا آج ہم اپنے دلوں کا جائزہ لیں اور اپنے ارد گرد موجود ’بیانیوں‘ اور ’مناہج‘ کا جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے ہمیں کوئی بہت بڑا مدبر یا مفکر و دانش ور ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی، کہ ہمارے مناہج و بیانیوں کا اصل سبب یہی بیماریٔ وَہْن ہے۔ اسی بیماری کی دوسری تعبیر بھی طبیبِ امت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی:

قَالُوا: وَمَا الْوَهَنُ يَا رَسُولَ اللهِ!؟ قَالَ: ’’حُبُّكُمُ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَتُكُمُ الْقِتَالَ‘‘ (مسند أحمد)

’’پوچھا گیا کہ ’یا رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم)’’وہن ‘‘سے کیا مراد ہے ؟‘، نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ’دنیا سے تمہاری محبت اور قتال فی سبیل اللّٰہ (جہاد فی سبیل اللّٰہ) سے نفرت‘۔‘‘

اس دو ارب امت کی موجودگی میں ہماری آنکھوں کے سامنے محتاط اندازوں کے مطابق پچاس ہزار فلسطینی غزّہ میں ٹکڑے ٹکڑے کیے جا چکے ہیں لیکن ہمارے سامنے عجیب و غریب مصلحتیں اور عجیب و غریب فلسفے ہیں۔ امت کے مسائل کے حل کے لیے جب جہاد فی سبیل اللّٰہ کی دعوت دی جاتی ہے تو کبھی فرضِ عین و فرضِ کفایہ کی بحثوں میں ہم الجھتے ہیں تو کبھی ان دعوت دینے والوں کو جذباتی قرار دے دیا جاتا ہے۔بلاشبہ یہ فرضِ عین و فرضِ کفایہ کی بحثیں اللّٰہ کی شریعت کا ایک اہم حصہ ہیں ، لیکن ان کے خط و خال اور حدود اربعہ، حالات و سیاست اور فقہ الواقع کے لیے بھی اللّٰہ کے دین میں رہنمائی موجود ہے، حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرضِ کفایہ سرایہ روانہ کیے ہیں تو فرضِ عین احزاب و تبوک کے غزوے بھی لڑے ہیں۔ بے شک پچاس ہزار مسلمانوں کا قتل ہو جانا جذباتی بات بھی ہے اور اگر پچاس ہزار شہیدوں کی نعشیں دیکھنے کے بعد بھی کوئی جذباتی نہ ہو تو ایسی انسانیت سے اور ایسی مسلمانیت سے کسی کو کیا سروکار؟

جہاد کو ’حرام‘ قرار دینے کے لیے استعمار نے مرزا قادیانی کو پیدا کیا تھا، دورِ جدید میں ہم ایسے بیانیے کل تک صرف قادیانی کے ’مشن ِ(حرمتِ جہاد)‘ کو چلانے والے ’غامدی‘ سے سنتے تھے کہ ’خلافت مسلمانوں کا رومانس ہے‘، لیکن آج یہی رومانس کا طعنہ ہمیں ان جگہوں سے بھی سننے کو ملتاہے جو کل تک قادیانی و غامدی بیانیے کے آگے صفِ اول میں ڈٹے ہوئے تھے۔بے شک دین اور دین کے اہم تر شعبے جہاد اور اقامتِ دین دیوانوں کی بڑھکوں اور جذباتی لوگوں کے چند اعمال کا نام نہیں، لیکن ایسی فرزانگی جو ہمیں ’ وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا ‘ سے نکلنے پر آمادہ نہ ہو نے دے تو ایسی فرزانگی سے وہ دیوانگی بھلی جو اللّٰہ کے دین پر کٹ مرنے کا جذبہ عطا کرنے والی ہو۔ ہم یہ بیانیہ آج اپنے کانوں سے واضح سنتے ہیں کہ اقامتِ خلافت کی محنت اگر آج کے حالات میں کی گئی تو اس کا نتیجے خون کا بہنا اور جنگیں ہو گا۔ پھر حل یہ ہے کہ انگریز کی بنائی قومی ریاستوں میں محدود ہو کر آئینی جد و جہد کی جائے۔ بے شک قتل و قتال پسندیدہ امر نہیں ہے، لیکن وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ، قتل و قتال سے بڑھ کر فتنہ ہے اور اس فتنے کو قابو کرنے کے لیے جہاد و قتال کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہاں بھی علمائے کرام و مفسرینِ عظام نے وضاحت کی ہے کہ اس مقام پر بھی فتنے سے مراد شرک و کفر کا فساد ہے۔انگریز کی بنائی یہ قومی ریاستیں اسی فتنے کا شاخسانہ ہیں، دنیا میں نافذ یہ عالمی نظام، یہ نیو ورلڈ آرڈر میں قومی ریاستوں کی حد تک ہی نہیں، بلکہ یہ نظام ایک عام آدمی کی انتہائی نجی زندگی میں بھی بطورِ ’حاکم‘ دخیل ہے۔ اس عالمی نظام کو توڑے اور اس سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر قومی ریاستوں میں انگریز ہی کے Precedent پر قائم آئین و قانون کے مطابق نفاذِ اسلام کی جدو جہد تو چھوڑیے اور اس بے باکی پر ہمیں عذر دیجیے کہ آپ کی نجی خواب گاہ بھی پرائیویٹ نہیں ہے۔

نفاذِ اسلام کا راستہ تو بےشک شرعِ متین واضح کرتی ہی ہے، خالص عقل و فلسفہ و علمِ دنیا کی رو سے دیکھیے تو بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ آج کے عالمی نظام کے پنجے کس قدر ہماری ذاتی و اجتماعی زندگیوں میں گہرے گڑے ہوئے ہیں اور اگر یہ نظام اتنا ہی گھناؤنا ہے تو اس سے نجات کا طریق و منہج کیا ہو گا؟!

اقباؔل رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ارمغانِ حجاز میں کہا تھا:

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبّیریؓ
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالمِ پیری
شیاطینِ ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو
کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوقِ نخچیری

بے شک تزکیہ و احسان اور سلوک و طریقت کی بے پناہ عظیم خدمات ہیں جو انہی خانقاہوں سے جاری ہیں۔ یہاں مقصود و مراد تو وہ رہبانی جمود ہے جو مردِ مسلمان کو ذات میں اور معاشرۂ مسلمانی کو اجتماع میں مفلوج کر دیتا ہے۔ اس فالج زدگی اور جمود کا علاج تو فقرِ شبّیر، باب العلم حضرتِ علی کرم اللّٰہ وجہہ کی رسمِ تیغ بازی میں ہے، وہ باب العلم جو درِ خیبر اکھاڑنے والا ہے۔ پھر یہ جمود ہی ہے کہ سالک طُرقِ احسان طے کرتا جائے لیکن اس کی عملی زندگی میں فقر و زہد ِ صحابہؓ پیدا نہ ہو سکے۔ یہ جمود ہی ہے کہ طالبِ علم، علم و فن پڑھتا رہے لیکن یہ علم عمل کا روپ نہ دھار سکے۔ ہر وہ عمل جو جمود کو نہ توڑے موت ہے۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا کامل و اکمل نمونۂ زندگی تزکیہ و تربیت، علم و سیاست اور دعوت و جہاد کا ایک حسین اجتماع ہے۔ آپؐ کے صحابہؓ میں فقر و طریقتِ سلمانیؓ کی ایک صورت غزوۂ احزاب میں فنِ حرب کی اعلیٰ مثال خندقیں کھودنا بھی ہے۔ ابی بن کعب اور معاذ بن جبل رضی اللّٰہ عنہما جیسے فقہاء بھی ہیں جو میدان و علم کے چوٹی کے شہسوار ہیں، جن جیسی مثال قیامت تک دوبارہ چشمِ فلک نہ دیکھ سکے گی۔

ہم جب جہاد کے فرضِ عین ہونے اور امت کے غموں کا مداوا ہونے کا بیان کرتے ہیں تو ہمارے کچھ احباب شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جہاد کے سوا باقی سب خدماتِ دینی کو غیر اہم یا کم تر سمجھتے ہیں، حالانکہ جہاد تو سبھی امورِ دین کا نگہبان و محافظ ہے اور کبھی نگہبان و محافظ بھی اپنے گھر میں جاری دیگر سرگرمیوں اور محنتوں کو غیر اہم اور کم تر سمجھ سکتا ہے؟ جہاد کے لیے نکلنے کا معنیٰ یہ ہے کہ امت کے اہم ترین محاذ جہاد فی سبیل اللّٰہ کے ساتھ امت من حیث الامت جڑ جائے، امت کے سبھی طبقات جہاد و مجاہدین کی پشتی بانی کریں۔ امت کی سبھی محنتیں ایک دھارے میں لگیں اور یہ سب دھارے مل کر ایک ایسی موج بنیں جو سب سے پہلے دنیا کے عالمی نظام کو اکھاڑ پھینکے۔ وہ عالمی نظام جس کے سبب ہم اہلِ اسلام دین پر کاملاً عمل نہ ذاتی زندگی میں کر سکتے ہیں اور نہ اجتماعی زندگی میں۔ وہ عالمی نظام جو فلسطین میں آج پچاس ہزار شہیدوں اور لاکھوں کو جسمانی یا ذہنی طور پر اپاہج کر دینے کا سبب ہے۔ وہی عالمی نظام جو آج ڈھاکہ میں دو سو مقتولین اور ڈھائی ہزار زخمیوں پر ظلم و جبر کے باوجود خاموش تماشائی بلکہ اس ظلم و جبر کا رکھوالا ہے۔ وہی عالمی نظام جو آج پاکستان میں براہِ راست اپنے فوجی پاکستان کی حساس ترین چھاؤنی کھاریاں کی ۱۷ ڈویژن میں پاکستان فوج کے ساتھ جنگی مشقوں میں وہی ڈھائی دہائی پرانے ’بیانیے‘ اور ’ڈاکٹرائن‘ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی خاطر اتارے ہوئے ہے۔ وہ عالمی نظام جس کا دوسرا نام امریکہ ہے، رأس الأفعى، سانپ کا سر جو ہمارے بچوں کا فلسطین میں قیمہ کر رہا ہے، سوڈان میں جس کے سبب مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ وہ امریکہ، وہ عالمی طاغوتی نظام، وہ نیو ورلڈ آرڈر جس کے تحت دنیا امریکہ کی سات کمانوں میں تقسیم ہے اور امریکی سینٹ کام (CENTCOM)غزہ تا سرینگر اور بیت المقدس تا وزیرستان کے امور کو دیکھتی ہے۔وہ عالمی نظام جو حرمین شریفین سمیت پورے جزیرۃ العرب میں بدمعاش، دین و ملت فروش حکمرانوں کو مسلمانوں پر مسلط کیے ہوئے ہے۔ سفاک نیتن یاہو کا وکیل عالمی نظام!

یہ عالمی نظام مسلمانوں کے عزمِ جہاد سے ہی ٹوٹ سکتا ہے۔ اگر امتِ مسلمہ دامے، درمے، قدمے، سخنے اپنے مجاہد بیٹوں کی پشت پناہ بن جائے تو تل ابیب و واشنگٹن کا سقوط مزید قریب تر ہو جائے گا۔ دعوت الی اللّٰہ، اللّٰہ کی عبادت کی دعوت، اس کے دین کے قیام کی دعوت، امورِ عدالت و معیشت اور سیاست و معاشرت میں اللّٰہ کے دین کی پیروی کی دعوت، اللّٰہ کے دشمنوں اور ان کے بنائے جدید و قدیم نظاموں اور ادیان کے انکار اور طواغیت کے خلاف بغاوت کی دعوت، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی دعوت اور پھر اسی دعوت کے ساتھ جو دعوت ہم دے رہے ہیں اس کے نکتۂ انتہا یعنی جو نظام اس دعوت الی اللّٰہ کے راستے میں رکاوٹ ہے اس سے لڑنے کے لیے تیاری و اعداد، یہ سبھی جہاد فی سبیل اللّٰہ کے شعبے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک داعی دعوت دیتا رہے اور طواغیتِ زمانہ اس کے ساتھ وہ سلوک نہ کریں جو نوح و ابراہیم، لوط و صالح، شعیب وہود، ہارون و موسیٰ، زکریا و یحییٰ اور عیسیٰ ابنِ مریم علیہم السلام کے ساتھ کیا گیا۔ ہمارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اللّٰہ ﷻ نے جب توحید و آخرت کی دعوت کے ساتھ رسالت دے کر بھیجا تو ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ اب میرا یہ دین دنیا کے ہر دین و نظام پر غالب ہو گا اور پھر کتاب یھدی وسیف ینصر، وہ کتاب دی جو سامانِ ہدایت ہے، دعوتِ دین کا سرچشمہ ہے اور ساتھ میں دین کو قائم کرنے کے لیے تلوار بھی دی جو فرعونوں اور ابو جہلوں کی گردنوں کا سریہ توڑتی اور اللّٰہ کے دین کو نافذ کرتی ہے۔ پس انبیاء علیہم السلام کا اسوہ ہر داعیٔ دین کو بتا رہا ہے کہ تمہاری دعوت ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کی جائے گی، ملک بدریاں بھی آئیں گی، دربدریاں بھی آئیں گی حتیٰ کہ وقت کے کافر و ظالم بادشاہ مثلِ یحییٰؑ سراتار کر طشت میں بھی رکھ دیں گے۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت یہ بتاتی ہے کہ ان طواغیت کے سامنے ڈٹ جانا، دعوت دیتے رہنا اور جب زبانی دعوت کارگر نہ رہے تو میریؐ بتّار و ذوالفقار سے ان کے سر اتار دینا۔ دعوت کا پہلا نہیں تو آخری مرحلہ ہمیشہ قتال فی سبیل اللّٰہ ہی ہوتا ہے ۔

ہمیں کسی دعوت واصلاح کی محنت کا انکار نہیں۔ لیکن بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک بہت عظیم محنت و خدمت ہےجس سے امت کے کثیر حصے میں غفلت پائی جاتی ہے۔ امام مالکؒ نے بہت خوب فرمایا تھا کہ: ’’لَا یَصْلُحُ اٰخِرُ ہٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلُحَ بِہٖ اَوَّلُھَا‘‘ ’’اس امت کا آخری حصہ بھی اسی چیز سے اصلاح پا سکتا ہے جس چیز سے اس کے اول حصے نے اصلاح پائی‘‘۔

آج امت کے پاس اصلاح کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہ طاغوت کے انکار اور توحید کے اقرار کے تقاضوں کو پورا کرے ، فکر و عمل میں کفار کی مشابہت سے بچے اور وقت کی جاہلی تہذیب کی اقدار اور اس کے مظاہر سے اپنی جان چھڑائے، ظاہر و باطن میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت اور شریعتِ مطہرہ سے چمٹ جائے ، دنیا کی امامت و سیادت کے لیے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے منہج کو اپنا اسوہ بنائے،کامیابی اور فلاح کے دجّالی تصورات کو ردّ کرے اور جن و انس کو جس مقصد کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے ،اسی کو اپنا مقصودِ زندگی بنائے: وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۝’’ا ور میں نے جن اور انسان کو اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کیا کریں ۔‘‘

جس اللّٰہ نے شہادتَین، نماز، روزہ، زکاۃ اور حج جیسی عظیم عبادات کو اپنے دین کی بنیادیں قرار دیا ہے ، اسی ربّ نے دین کے غلبے اورحفاظت کے لیے جہاد بھی ہم پر فرض قرار دیا ہے۔

پس آج جس چیز پر سب سے بڑھ کر ، قلم والوں کو لکھنے کی ، زبان دانوں کو بولنے کی ،جان والوں کو کھپنے کی اور مال والوں کو خرچنے کی ضرورت ہے وہ وہی فریضہ ہے جس کو سب سے بڑھ کر بھلا دیا گیا ہے۔یہ بھلایا گیا فریضہ،الفریضۃ الغائبۃ جہاد ہے۔

قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات

جہاد میں ایمان ہے ،زندگی ہے، نجات ہے۔ اس کے ترک میں نفاق ہے،موت ہے،عذاب ہے۔ چنانچہ اللّٰہ کے راستے میں جان و مال خرچ کرنے کی ضرورت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک ہمیں ایمان مقصودہے،زندگی درکارہے اور نجات پیاری ہے۔ مطلوب شخصی و گروہی یا تنظیمی یا کسی خاص مکتبِ فکر یا کسی جماعت کی بالادستی نہیں بلکہ اللّٰہ کے دین کی نصرت ہے۔2

ہم کچھ ہمت کریں تو خشک و تر کا ربّ وہی ہے جسے زوال نہیں۔ ہم اس کی راہ میں کچھ خون پسینہ بہائیں تو ہم پر تنی مظلومیت و جبر کی چادر بھی ہٹے گی، اللّٰہ کا دین حکومت کے ایوانوں میں بھی پہنچے گا، لیکن ہمیں فقر و جاں بازی کا اسوہ اپنانا ہو گا، آزادی و رفعت ہو یا کوئی بظاہر چھوٹی سی نعمت، طشتری میں رکھی نہیں ملا کرتی’إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ‘۔

اللھم اهدنا فيمن هديت وعافنا فيمن عافيت وتولنا فيمن توليت وبارك لنا فيما أعطيت وقنا شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تبارکت ربنا وتعاليت!

اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم اهدنا لما اختلف فيه من الحق بإذنك. اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!




1 بطورِ جملۂ معترضہ یہ جاننا اچھا ہے کہ اسی مشرقِ وسطیٰ میں آبادی کے اعتبار سے دنیا کا ۹۳ واں بڑا ملک قریب قریب ایک کروڑ کی آبادی کے ساتھ اسرائیل ہے، یعنی مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل تیس کروڑ مسلمانوں کے درمیان گھرا ہوا ہے۔

2 یہ نثر پارہ اور پچھلے دو تین نثر پاروں میں اکثر الفاظ داعیٔ جہاد شیخ احسن عزیز شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ہیں جو ان کی تحریر ’اجنبی کل اور آج‘ سے لیے گئے ہیں۔

Previous Post

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط

Next Post

صبر اور مقامِ صدّیقین | دوسری (و آخری) قسط

Related Posts

جگر کے خوں سے اب یہ داغ دھونے کی تمنا ہے
اداریہ

جگر کے خوں سے اب یہ داغ دھونے کی تمنا ہے

12 اگست 2025
اداریہ

اور قافلہ سالار حسینؓ ابنِ علیؓ ہے!

10 جولائی 2025
اپنا اپنا اسماعیل پیش کرو!
اداریہ

اپنا اپنا اسماعیل پیش کرو!

4 جون 2025
گر جرأ ت ہو تو سر ڈالو!
اداریہ

گر جرأ ت ہو تو سر ڈالو!

23 مئی 2025
راہ روی کا سب کو دعویٰ، سب کو غرورِ عشق و وفا
اداریہ

راہ روی کا سب کو دعویٰ، سب کو غرورِ عشق و وفا

31 مارچ 2025
ہمیشہ سے بپا اک جنگ ہے ہم اس میں قائم ہیں!
اداریہ

ہمیشہ سے بپا اک جنگ ہے ہم اس میں قائم ہیں!

14 مارچ 2025
Next Post
صبر اور مقامِ صدّیقین | دوسری (و آخری) قسط

صبر اور مقامِ صدّیقین | دوسری (و آخری) قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version