بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على نبينا وحبيبنا نبي الملاحم نبي الرحمة محمد وآله وصحبه أجمعين، أمابعد!
یہ دن بھی امت کو دیکھنا پڑا
کون سا ظلم ہےجو غزہ میں ڈھایانہیں گیا؟ امت محمدﷺکےنونہالوں کو نشانہ لے لےکر شہید کیا جا رہا ہے، تقریباًپانچ مہینوں کے اس عرصہ میں پندرہ ہزار تک صرف بچے شہید کیے گئے اوربچوں کے لقمۂ اجل بننے کی یہ تعداد اس حد تک زیادہ ہے کہ جنگوں کی جدیدتاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی1۔ شہداء اور زخمیوں کا شمار لاکھ سے تجاوزکرگیا ہے اور جس میں ستر فی صد سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کی منفردجنگ،بلکہ امت محمدﷺکا قتل عام اس لیے ہے کہ باوجود یہ کہ اسرائیل اور اس کے ہم نواؤں کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے کہ اگریہ چاہتے تو کوئی ایک بھی خاتون ، بچہ یا عام فرد شہید نہ ہوتا، مگر یہاں تو عوام اور ان کے رہائشی مکانات ، ہسپتالوں اور مساجد پرچن چن کربمباری کی جاتی ہے2اور اس سب پر کسی سے خوف وشرم بھی نہیں محسوس کی جاتی، بلکہ قہقہوں کے ساتھ خود ہی ان جرائم کی فلم بندی کی جاتی ہے ۔پھر جن پر ظلم کے یہ پہاڑ توڑے جارہےہیں، انہیں نہ باہرچھوڑا جارہاہے کہ وہ کسی محفوظ جگہ منتقل ہوں اور نہ ہی اتنی خوراک ان کے لیے اندر جانے دی جارہی ہے جس سے جسم وجان کا رشتہ وہ برقراررکھ سکیں؛ نتیجتاً جوبموں سے شہید نہیں ہوئے ،وہ بھوک سے شہید ہورہے ہیں اور ایسے کرب ناک مناظر اب میڈیا پرآرہے ہیں کہ بچے بلک بلک کر شہیدہورہے ہیں اور بڑے نڈھال ہوکر راستوں میں گررہے ہیں ۔
بے بسی کی یہ انتہا کیوں ؟
حیرانگی اس پر نہیں کہ یہودی یہ کررہے ہیں؛وہ قوم جوانبیاء کی قاتل ہے، آسمانی کتب کی تکذیب اور ان میں تحریف کرنے والی ہے؛ جس کی تاریخ ہی اللہ کی ناشکری و بغاوت اورفصل و نسل کی تباہی سے عبارت ہے…… اور جواللہ سے عداوت اور دل کی سختی کے باعث ’مغضوب علیھم ‘قرار پائی ہے، اس سے اسی کی توقع ہے ۔ تعجب اس پربھی نہیں کہ وہ طاقت جودنیا میں فتنہ وفساد کی جڑ ہےاور جس کے بل بوتے پر یہ شیطانی ریاست قائم ہےآج اسی کی مدد وہتھیار سےیہ بدترین مظالم ہورہے ہیں ……تعجب کی بات اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ دو ارب نفوس پر مشتمل امت مسلمہ کیوں اس حد تک گرگئی کہ اس کی نظروں کے سامنےاس کے بہترین لوگوں پر روح فرسا مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور وہ بے حس و حرکت اس سب کا تماشہ دیکھ ر ہی ہے ؟ کیوں یہ امت اُس بنیادی صفت سے آج محروم اور اہم ترین ذمہ داری سے آج غافل ہوگئی جو اس پر شرعاً، عقلاً اور اخلاقاً فرض ہے اور جس کی ادائیگی ہی کے سبب اس کاوجود قائم رہ سکتاہے اور ادا نہ کرنے کی پاداش میں ذلیل و رسوا ہوکر تباہی وبرباد ی اس کی یقینی ہے!!!جہاد فی سبیل اللہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی اس ذمہ داری سے جب منہ موڑاگیا ، اللہ کے لیے محبت اور اللہ ہی کی خاطر نفرت دلوں سے جب نکالی گئی اور چار دن کی زندگی کی محبت کو آخرت کی دائمی زندگی پر ترجیح دی گئی تو ایسے حکام و افواج ہم پر مسلط ہوگئے جن کا وجوددشمنان امت کی غلامی سے عبارت ہے اور جنہیں مسلط ہی اس لیے کیاگیاہےکہ وہ اسلام کی بیخ کنی ، اہل اسلام کے خلاف جنگ اور دشمنان اسلام کی بندگی کریں۔ آج ان افواج و حکام کی خدمات کا’ثمرہ‘ ہے کہ صہیونی شیاطین اس حدتک دنیا میں محفوظ ہوگئے کہ وہ ہماری عزت مآب ماؤں اور بہنوں پر شیر بن رہے ہیں اوریہ بدترین دن بھی امت کو دیکھنا پڑا کہ پانچ مہینوں سے محصور ومجبور ماؤں بہنوں کی دلوں کوچھلنی کرنے والی فریادیں سنائی دے رہی ہیں مگر کوئی نہیں جو حصار توڑ کر اس ظلم کا راستہ روک سکے ، بلکہ اس کے برعکس انتہائی درد اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جن کا حصار توڑنا اور مددکرنا امت پر فرض تھا ،آج انہی کومحصور رکھنا، ان کے قاتلوں تک امداد پہنچانا اور ان مظلومین کو بھوک وپیاس میں مبتلا رکھ کر اپنے آقاؤں کے سامنے جھکناامت ہی کے حکام وافواج کےحصے میں آیا اور بے شرمی وبے حیائی اس حد تک پہنچ گئی کہ مصری حکومت صہیونی آقاؤں ہی کے حکم پر مسلمانان غزہ پر قحط مسلط کیے ہوئے ہےمگر امریکہ و اسرائیل نے اہل ایمان کے زخموں پر نمک پاشی کی خاطر اس ظلم کو اکیلے مصری فوج کے سر ڈال دیا اور غلامی وگراوٹ کی انتہا دیکھیے کہ مصر ی صدرنے اس الزام کی تردید نہیں کی بلکہ آقاکے طبع نازک پر ناگوار گزرنے کے خوف سے اس کو بھی قبول کرلیا۔3
انتہائی حساس مرحلہ!
امت کی تاریخ کا یہ مرحلہ دو علیحدہ پہلو اپنے اندر لیے ہوئے ہے ، ایک پہلوانتہائی خوف ناک ، آخری حد تک پریشان کن اور درد وکرب سے بھرا ہوا ہے جبکہ دوسرا امید افزا ہے اور اس کو دیکھ کر یہ نازک مرحلہ بھی اہل ایمان کے لیے ایسا فیصلہ کن موڑبن جاتاہے کہ یہ انہیں عزم و عمل پرتحریض دیتاہے اور انہیں ان کی کامیابی کی نوید دیتاہے۔جہاں تک اس کی خوفناکی اورفرد و امت کے حق میں خطرناکی کا پہلو ہے تو وہ اب بہت واضح ہوگیا ہے اور وہ یہ کہ دشمنان دین ــ جن میں صہیونی سرفہرست ہیں؛ نے جس دنیا کےبنانے کی منصوبہ بندی کی تھی اب وہ ا ُس مرحلے پر آ گئی ہے کہ اسلام اور اہل اسلام کے خلاف جنگ میں پہلے سیکولرازم اور انسانی حقوق کے نام کے جن نعروں ، شعاروں اور اصولوں کو بطورِآڑ استعمال کیاجاتاتھا اور جن کی چاہتے نہ چاہتے انہیں کسی نہ کسی قدر لاج بھی رکھنی پڑتی تھی،آج ان سہاروں کالحاظ رکھنے کی انہیں ضرورت نہیں رہی اور اب اہل اسلام کو کچلنا اوراپنے آپ کو کسی قسم کے اصول و اخلاق کا پابند کیے بغیر بے رحمی کے ساتھ اس حد تک انہیں دباناان کے لیے ضروری ہوگیاہے تاکہ وہ مایوس ہوکر ، خود ہی اپنے حقوق سے پیچھے ہٹنے میں اپنی عافیت سمجھیں اور دین کے ساتھ لگاؤ ، اس پرفخر اور اسے قائم کرنے کے خواب سینوں سے نکال باہر کریں اور انہیں یہ صہیونی عالمی نظام اس حد تک قوی اور ناقابل تسخیر نظر آئے کہ اسی ہی کو بس واحدایسی زمینی حقیقت سمجھ لیں کہ فتنہ و فساد کی اس کی بھٹی میں چھلانگ لگاکرخود ہی غلامی و رسوائی کو قبول کرلیں۔گویا یہ مرحلہ پچھلے مراحل سے مختلف ہے۔اس سے قبل چہروں پر نقاب چڑھائےرکھنا اور اپنے ظلم اور اسلام دشمنی کو خوش نما پردوں کے پیچھے چھپانا لازمی تھا ، جبکہ اس نئے مرحلے میں یہ طرز عمل ایسا تکلف بن گیا کہ جس کاخیال اگررکھاجائےتو آگے کے منحوس مقاصد حاصل نہیں ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ اس نئے مرحلے میں غزہ کے اندر اوریہاں سے باہر عالم اسلام کے دیگر مناطق میں بھی ،جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ان کا مقصد اس کے سو اکوئی نہیں کہ مسلمانوں کی عزت نفس بالکل ختم ہو جائے ، اسرائیل ،امریکہ اور ان کے ہم نواؤں کی خدائی کے سامنے مسلمان سجدہ ریز ہوجائیں ، انہیں کےہاتھ میں وہ اپنی زندگی ، رزق اور عزت سمجھیں اور فلسطین، پورے جزیرۂ عرب اور باقی عالم اسلام میں بھی شرک و فساد کی حکمرانی کو تسلیم کرلیں؛ ایسا ہوگاتوپھر جب مسجدِ اقصی کو مسمارکرکے اس کی جگہ یہ اپنا ہیکل ( مندر)کھڑا کریں گے، تو اتنی بھی کوئی مزاحمت نہ کرسکے گاجتنی کہ بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیرکرتے وقت مسلمانان ہند نے کی۔
کٹائی صرف سروں کی نہیں!
اس منحوس منزل تک راستہ یا ماحول ہموار کرنے کے لیےکٹائی صرف سروں کی نہیں ہورہی ہے، بلکہ اس سے زیادہ خطرناک دلوں کے اندر ایمان کی کٹائی بھی جاری ہے جو زیادہ مؤثر بھی ہے اورانتہائی پریشان کن بھی۔ اس جنگ میں بھی ان کے دست وبازو کا کردار عالم اسلام پر مسلط ان کے اُن غلاموں کا ہے جنہوں نے ظلم وجبر اوردجل وفریب پرمبنی اپنے نظام اس حد تک اب قوی کردیے ہیں کہ بے خوفی اور ڈھٹائی کے ساتھ اپنے آقاؤں کی ہر ہرآرزو آج پوری کررہے ہیں ۔ زمین پر ان کی فتوحات دیکھیےکہ عین اس وقت جب غزہ کے اندر یہ بدترین مظالم ڈھائے جارہے تھے اور دنیا بھر کے اہل ایمان کے دل غزہ کے ساتھ دھڑک رہے تھے اس وقت نزول وحی کی سرزمین، جزیرۂ عرب میں ہندوؤں کے ایسے پر شکوہ مندر کا افتتاح کیا جارہاتھاکہ متحدہ عرب امارات کی حکومت کے مطابق پورے مشرقِ وسطی میں اس جیسابڑا مندر کہیں نہیں ہوگا جبکہ انہی ایام میں غزہ کے بالکل قریب پڑوس میں، مصر ی حکومت کی طرف سے ایک بہت بڑے یہودی عبادت خانے کا افتتاح کیاگیا۔اسی طرح انہی دنوں جب غزہ کے اہل ایمان کو اپنے شہداء دفنانے تک کی فرصت نہیں دی جا رہی تھی اور گلی کوچوں اور ہسپتالوں میں شہداء بے گوروکفن پڑے تھے ، سعودیہ اور دبئی میں حکومتی سرپرستی میں صہیونی فاحشاؤں کولاکر ناچ گانےکے کنسرٹ منعقد کیے گئےاور ان میں اسرائیلیوں کے قومی گانے گائے گئے ۔اللہ کے دین سے یہ ساری بغاوتیں اوراسلام کو سرزمین اسلام سے نکالنے کی یہ نمائشیں تو بڑی بے باکی اور بے شرمی کے ساتھ منعقد کی گئیں مگر دوسری جانب صہیونی جرائم کے خلاف احتجاج تک پر پابندی لگائی گئی ہے اور امت محمد ﷺ پر یہ دن بھی آیا کہ کفریہ ممالک میں تو غزہ کے مظلومین کے حق میں مظاہرے ہوئےمگر سعودیہ ، مصر اور عرب امارات میں اس قسم کی سرگرمیوں پرپابندی کے سبب کوئی ایک مظاہرہ بھی نہیں ہوا ۔ حکام عرب کی طرف سے غزہ کی جنگ ومحاصرے میں جوکردار ادا کیا گیا،یہ صرف اس کا اظہار نہیں ہے کہ یہ صہیونیوں کے ساتھ ایک صف میں کھڑے شریک ِ جنگ ہیں بلکہ اس نے یہ بھی واضح کیا کہ صہیونی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں انہیں مسلمان عوام کی طرف سے ایسی کسی مزاحمت کاخوف نہیں کہ جس کا انتظام انہوں نے پہلے سے نہ کررکھا ہو ۔
امت کا ایمانی روحانی وجودہدف ہے!
اس مرحلے میں اسلام سیاسی و فکری طورپر صرف ہدف نہیں ہے کہ اس لحاظ سے انہیں کسی بہت بڑی غیرمعمولی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہاہے ، جہادی تحریک کے خلاف جاری جنگ کے نتیجے میں وہ اپنے زعم میں اس خطرے کوایک خاص حد تک قابو کرچکے ہیں ،اس لیے موجودہ مرحلے میں اس جنگ کابنیادی ہدف معاشرتی سطح پر اسلام کا ایمانی اور روحانی وجود ختم کرناہے کہ اسی سے سیاسی وفکری غلبے کو تقویت ملتی ہے اور یہی مقصد ہے کہ جس کے لیے حرمین شریفین کی زمین میں فسق وفجور اور فحاشی و عریانی کو عرصہ دراز سے باقاعدہ حکومتی سرپرستی میں انتہائی منظم انداز سے فروغ دیا جارہا ہے ۔اسی طرح حرم شریف او روضہ ٔ رسول ﷺ تک بھی یہود وہنود کی نجس رسائی آسان کی گئی اور انہیں اجازت دی گئی ہے کہ وہ حدود حرم میں دکانیں اور مارکیٹیں لےکر کاروبار کریں ۔ان کوششوں کانتیجہ ہے کہ ارض حرمین میں ایک طرف بے حیائی کے مظاہرانتہائی سرعت کے ساتھ پھیل رہے ہیں جبکہ دوسری طرف مساجد کے اندر تلاوت و اعتکاف تک پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں ۔
صہیونی عزائم
غرض قتل عام وتباہی اور ظلم وجبر میں یہ جتنے بے خوف اور بے باک ہوگئے ہیں وہ غزہ میں نظر آیا؛ ہندوستان میں اس کی تیاری آخری مراحل میں ہے اور اس کی ریہر سل عرصہ سے جاری ہے جبکہ عالم اسلام میں حکام وافواج کی صورت میں ان کی ٹھونکی گئی میخوں کے باعث امت کی بے بسی یا بے حسی سے بھی انہیں مزیداطمینان ہوگیا ہے؛ نیز معاشرتی اور ثقافتی تباہی کی صورت میں ایمانی وروحانی تباہی کے میدان میں جو فتوحات انہیں مل رہی ہیں ،اس سب سے لگ رہاہے کہ آنے والے ایام میں صہیونی مزید زور لگائیں گے اور جنگ کے ان دونوں میادین میں تیزی لانے کی کوشش کریں گے۔ المناک یہ ہے کہ جس منزل تک پہنچنے کے لیے یہ سب کچھ کیاجارہاہے ،وہ کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں بلکہ ان کا اعلانیہ مقصد ہے اورہمارے حق میں انتہائی خطرناک ہے ، اس کے ہوجانے کے خدشہ سے ہی مجاہدینِ فلسطین نے طوفان اقصیٰ برپاکیا؛یہ مقصد مسجد ِاقصی کی مسماری اور اس کی جگہ یہودی مندر کی تعمیرہے، خاکم بدہن ،اگر مسجد اقصی کو کچھ ہوگیا،اس بدترین قیامت کادیکھنا بھی ہماری غفلت اور اعمال ِ بد کے باعث اگر امت کے حصے میں آگیا (والعیاذ باللہ ) توپھر تصور کیجیے کہ ہم مسلمانوں کا دنیا میں کیاحشر ہو گا اور آخرت میں ہم اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے ؟یہ سب سوچ کر معمولی ایمان رکھنے والے کا دل و روح بھی کانپ جاتی ہے۔یہ باتیں مبالغہ نہیں کہ جنہیں ناممکنات سمجھ کرنظر انداز کیا جاسکے، غزہ میں جو کچھ ہوتا ہوا امت نے بلا رکاوٹ ڈالے دیکھ لیا،کیا آج سے صرف چند سال پہلے اس کا تصورکیا جاسکتاتھا؟ ایمان وکفر کی سرحدات ختم کرنے کے لیے عالم عرب و اسلام کے گلی کوچوں میں جوکچھ کروایا جارہاہے کیا یہ سب کچھ دیکھ کر بھی کوئی کہہ سکتاہے کہ یہ باتیں بعیداز قیاس ہیں ؟
ہے اگر مجھ کوخطر کوئی تو اس امت سے ہے
واقعہ یہ ہے کہ ہم اہل ایمان اپنی حقیقت سے غافل ہیں مگر یہود و ہنود اور ان کے ہم رکاب عبادِ صلیب اس امت کی اہمیت سے بے خبر نہیں ۔ اس کرۂ ارض پر وہ کسی مسلمان کو اس کے ایمان کی حقیقت سمیت برداشت نہیں کرسکتے ہیں، اس لیے کہ اس کے ایمان اور اس کے دین کو ہی وہ اپنی شیطانی دنیا کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ امت ِ خیر کی بنیادی صفت اور اہم ذمہ داری امربالمعروف ، نہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ ہے اور ان کی اپنی کتابوں سے بھی واضح ہے کہ اسلام نے بالآخر ان کے فتنہ وفساد کو ختم کرناہے۔ پھر جس طرح فرعون کواس کے کاہنوں نے بتادیاتھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے سبب اس کی بادشاہی تباہ ہوگی، مگراس کے باوجود بھی وہ آخری حد تک اپنی اُس تباہی کو روکنے کی کوشش کرتارہا اوراس کے لیے ہزاروں لاکھوں بچوں کو اس نے خون میں نہلایا……بالکل اسی طرح عصرِ حاضر کے ان صہیونیوں کواس امت کی حقانیت اور اس دین میں موجود اُس طاقت کا علم ہے جو ان کے ظلم وظلمات کی تباہی کا پیش خیمہ بنے گی ، مگراس کے باوجودیہ تسلیم ہونے والے نہیں بلکہ انہوں نے اہل ایمان کے خون کے دریا بہانا اور ان کے لیے دین و عزت کے ساتھ زمین پر چلنا ناممکن بنانا اپنا اولین ہدف بنایا ہوا ہے اور یہی وہ مقصد ہے کہ جس کے لیےواشنگٹن سے لندن اور دہلی سے تل ابیب تک سب دشمنان خدا متفق ومتحد ایک لشکر بن کر ایک ہی منصوبے پر انتہائی عرق ریزی اور جامعیت (sophistication) کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔شیطان انہیں اُسی طرح کامیابی کی امید دلاتاہے جس طرح ابوجہل کے لشکر کو آخری وقت تک حوصلہ وامید دلاتارہا۔پھر ایسے وسائل و ہتھیار ان کے پاس ہیں اور قوت واختیار میں ایسی وسعت و تاثیر بھی اللہ نے انہیں دےدی ہے کہ انہیں بہت حدتک امید ہے کہ وہ اس نور کوبجھالیں گے، مسجداقصی کو مسمار کرلیں گے،نیل سے فرات تک گریٹر اسرائیل بنادیں گے اور عالم عرب سے لے کر برصغیر اور پوری دنیا میں وہ شیطانی حکومت قائم کرلیں گے کہ جس کا خواب ان بندگان شیطان کو ان کے شیاطین نے کتابوں میں تحریف کرواکر سمجھادیاہے۔
تصویر کا دوسرا رخ
حالات کا یہ رُخ ، اس انداز سے دیکھناڈراؤنا ہےکہ اس میں دین ودنیا دونوں کے لیے خطرہ ہی خطرہ ہے اور ہونے کے لحاظ سے اب ایسا بعیداز حقیقت بھی نہیں کہ واقعات سے یہ بات عیاں ہے کہ اس کے لیے کس حد تک جامع تیاری کی گئی ہےاور کس طرح ایک ایک رکاوٹ ومزاحمت کو غیرمؤثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔مگر یہ واحد اور بالکل اٹل حقیقت نہیں بلکہ ایک دوسری حقیقت بھی ہے ،دیکھنے کا ایک دوسرا زاویہ ، تصویر کا دوسرا رُخ بھی ہے اور اس کو دیکھنے سے اللہ کے اذن سے دلوں میں ایمان بڑھتاہے۔ بس یہ دیکھنے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ہم واقعی اہل ایمان ہوں اور اللہ کے ساتھ اپنی جان ومال کا صحیح معنوں میں سودا کرنے والے ہوں ، اس لیے کہ اس پہلو سے دیکھیے تو صرف وہ افراد ہی اس خطرناک فتنے میں محفوظ رہ پائیں گے جنہیں جان ،مال ، اولاد اور دنیا ومافیہا سے زیادہ اپنے ایمان و آخرت کی فکر ہو، جو اللہ کو راضی کرنا اپنا مقصد وہدف رکھتے ہوں ،پھر اس کے لیے عزم و عمل اپنا راستہ سمجھتے ہوں اور قدم قدم پر وہ صفات اپنے اندر ڈالنے کا تہیہ رکھتے ہوں جو سور ۂ عصر نے ایمان وعمل صالح کے بعد وتواصوا بالحق و تواصوا بالصبر سے تعبیر کی ہیں ۔
ایمان افروز مرحلہ
رحمانی حقیقت یہ ہے کہ ا للہ نے اس مرحلے میں اہل ایمان پر جو ذمہ داریاں عائد کی ہیں اگر انہیں بہرصورت اٹھانے کا تہیہ کر لیاجائے ،اللہ سےاس فرض کی ادائیگی میں مدد ونصرت مانگ کر،اس پر توکل کے ساتھ میدان عمل میں اترا جائے تو یقین جانیے کہ یہ مرحلہ خوفناک سے زیادہ ایمان افروز ثابت ہوگا ، یہ غم وخوف کے باعث بیٹھنے ،گرنے اور ذلت ورسوائی کے ساتھ ایمان کے بغیر چلے جانے کی بجائے ایمان کی حفاظت کے لیے اٹھنے اور آخری دم تک لڑنے کی تحریض دیتاہے ،بلکہ یہ، یہ بھی بتاتاہے کہ وہ نفوس و ارواح خوش نصیب ہیں جنہیں امت محمدﷺ کودرپیش اس نازک وقت میں دینِ متین پرعمل اور اس کی نصرت کے لیے رب کریم نے موقع دیاہےاور اپنے عبادوجنود میں شامل کرکے بندگان ِ خدا کی ہدایت ونصرت اور تاریخ کے بدترین مجرموں کاتکبر وغرور خاک میں ملانےکے عظیم کام میں حصہ ڈالنے کے لیے چن لیاہے۔جب عزم ہو کہ ایمان کے ساتھ اس دنیا سے جاناہے ، ایمانی مطالبات پورا کرنے کے لیے بہرصورت کھڑا رہنا ہے اور اس راہ میں جو بھی پیش آئے گا پیچھے نہیں ہٹوں گا، نشیب کی طرف نہیں دیکھوں گا بلکہ اللہ کو اپناآپ سپردکرکے اس سے مدد مانگوں گا ، بندے کے ذمہ اطاعت وسپردگی ہے، چلتے رہنے کاعزم و کوشش ہے اور اسی کا اللہ سے وعدہ کیاجائے ،عزم ہوکہ اس عہد کو نبھاؤں گا ،پھر اللہ جہاں رکھے جیسے رکھے یقین ہو کہ اسی میں میرے لیے خیر ہوگی ……ساتھ یہ امید و دعا بھی ہوگی کہ اللہ نفس و شیطان اور بندگان شیطان کے حوالے نہیں کرےگا بلکہ قدم قدم پر نصرت ومحبت سے نوازے گا… …جب یہ ایمان و یقین اور یہ آس و امید دل میں بسا ئی اور اتاری جائے تو پھر صہیونیوں کے ظلم و جبر میں یہ بےباکی ، آخری حد تک یہ درندگی اور اہل ایمان کا دنیا بھر میں یہ ضعف ، بے بسی اور آہ و زاری، یہ سب دیکھ کر ایسی مایوسی نہیں آئے گی جوخوف اور بے عملی کو جنم دے اور دنیا وآخرت کی ناکامی اور تباہی کا باعث ہوجائے بلکہ یہ سب پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ اٹھنے اور مقابلہ کرنے پر ابھاریں گے،اس لیے کہ اللہ کی کتاب بتاتی ہے کہ دشمنان اسلام اسلام کے خلاف جس سطح کی بھی جنگ کررہے ہیں یہ اللہ کی بادشاہی سے باہر نکل کر نہیں کررہے ہیں ﴿وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ﴾ ’’اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کر سکتے‘‘، یہ سب اللہ کی مشیت سے ہورہاہے اور اس سارے کامقصد یہ ہےکہ اللہ ایک طرف ان شیاطین کی خباثت و بدبختی کھول کر رکھ دے، اور دوسری طرف اہل ایمان کا امتحان لے کہ کون حق کی نصرت کرتاہے اور کون اللہ کے بجائے غیراللہ کی ترہیب و ترغیب دیکھ کر راہ حق چھوڑدیتاہے؛ ﴿ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لِيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ﴾’’ اگر اللہ چاہتا تو خود ان سے انتقام لے لیتا، لیکن (تمہیں یہ حکم اس لیے دیا ہے) تاکہ تمہارا ایک دوسرے کے ذریعے امتحان لے ‘‘۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے اعلان کیاہے کہ وہ دین اسلام کے اس نور کوپورا کرکے رہے گا،چاہے کافر اس کو ختم کرنے کے لیے جتنی بھی کوشش کریں؛فرمایا:
﴿يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴾ (سورۃ التوبۃ: ۳۲)
’’یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں، حالانکہ اللہ کو اپنے نور کی تکمیل کے سوا ہر بات نامنظور ہے، چاہے کافروں کو یہ بات کتنی بری لگے۔‘‘
اللہ رب العزت کااعلان ہے:
﴿وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ﴾ (سورۃ الصافات: ۱۷۱ تا ۱۷۳)
’’ اور ہمارا (یہ) قول ہمارے بندگان مرسل کے لیے پہلے سے مقرر ہوچکا ہے کہ بےشک غالب وہی کیے جائیں گے اور ہمارا ہی لشکر غالب رہتا ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے اہل ایمان کو خوش خبری دی ہے کہ اس دین کی نصرت کرنے والا ایک گروہ ہمیشہ رہے گا،دشمن کی قوت و طاقت اور اپنوں کا انہیں چھوڑجانا ، یہ ان پر اثر نہیں کرے گا ، وہ غالب ہوگا ،کوئی اس کو ختم نہیں کرپائے گا، یہاں تک کہ قیامت آجائے،فرماتےہیں:
لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَائِمَةً بِأَمْرِ اللهِ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ أَوْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ (صحیح مسلم)
’’ میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے حکم کو قائم کرتی رہے گی؛ جو ان کوبے یار ومددگار چھوڑنا چاہے گا یا مخالفت کرے گا ، ان کا کچھ بھی نقصان نہ کر سکے گا اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گےیہاں تک کہ اللہ کا حکم (یعنی قیامت )آجائے۔‘‘
مگر ان تمام بشارتوں کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
﴿ أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ﴾ (سورۃ البقرۃ: ۲۱۴)
’’ کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ جنت میں چلے جاؤ گے؟ حالانکہ تم پر ان لوگوں جیسےحالات نہیں گزرےجو تم سے پہلے تھے، انہیں سختی اور تکلیف پہنچی اورہلامارے گئے ،یہاں تک کہ کہنے لگے رسول اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے، کہ کب آئے گی اللہ کی مدد؟جان لو! اللہ کی مدد قریب ہے۔‘‘
گویااللہ نے اپنے دین کو غالب کرنے اور دائمی جنتوں میں بسانے کے لیے جن عباد الرحمان کا انتخاب کرناہے، اللہ چاہتاہے کہ ان میں سے ہر ایک کی نظر ودل کا مرکز مکمل طورپر اللہ بن جائے ،اسی کی خاطر وہ کھڑا رہے اور اسی کے لیے دکھ وغم وہ برداشت کرے، آزمائشوں کے ایسے پہاڑان پر توڑے جاتے ہیں کہ ان میں موجود اعلیٰ ترین اور بہترین افراد بھی مَتَى نَصْرُ اللَّهِ کہہ کر چیخ اٹھتے ہیں اور ایسی ہی حالت کے بعد جب ہر طرف مایوسی ڈیرے ڈالنے والی ہوتی ہے، اللہ زبان حال سے فرمادیتاہے: أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ!
پھر قابل توجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کو اللہ نے آزمائش والی یہ آیات نازل فرما کر بتادیاتھا کہ تم پر یہ حالت آئےگی اور پھر جب وہ وقت آیا، سختی آگئی، اسلام و مسلمانوں کا وجود خطرے میں پڑ گیا، توجوظاہربین تھے ، اسباب و ظواہر کے جواسیر منافقین تھے ، انہوں نے کہا ﴿مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا﴾ ’’اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا ہے وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں‘‘، مگر جن کا ایمان اللہ پر تھا، ان کا ایمان بڑ ھ گیا اور وہ پکار اٹھے، ﴿ هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا﴾ ’’ یہ تو وہی چیز پیش آئی جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کر رکھا تھا۔ اور اللہ اور اس کے رسول نے بالکل سچ کہا۔ اور اس چیز نے ان کے ایمان و اطاعت ہی میں اضافہ کیا‘‘۔
اسی کا اللہ نے وعدہ کیا تھا!
دشمن کی طاقت ،حق کے خلاف دشمن کے منصوبوں و حملوں کو دیکھ کر صحابہ کرام کا ایمان بڑھتاتھا ، وہ نئے عزم اور قوی ایمان کے ساتھ میدان عمل میں اتر جاتے تھے اوراس یقین کے ساتھ ڈٹ جاتے تھے کہ اللہ کی نصرت جلد یابدیر آکر رہے گی ۔امت کے ہر فرد ،ہر مومن کو حالیہ آزمائشوں کو بھی اسی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور یہی طرز عمل اپنانا چاہیے، اس لیے بھی کہ ان آزمائشوں کے متعلق بھی قرآن واحادیث خاموش نہیں ہیں ۔آج جوکچھ ہورہاہے ، اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث اٹھاکر جب ایک مومن دیکھتاہے تو بہتی آنکھوں اور کٹتے دل کے ساتھ بھی وہ بول اٹھتاہے کہ ﴿هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ﴾،وہ دیکھتاہے کہ عین وہی ہورہاہے جو چودہ سو سال پہلے ہمیں بتایاگیاتھا۔آپ ﷺ نے فرمایا:
يُوشِكُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمُ الْأُمَمُ كَمَا تَدَاعَى الْقَوْمُ إِلَى قَصْعَتِهِمْ،’’وہ وقت آنے والا ہے کہ (کافر ) قومیں (تم کو مٹانے کی غرض سے) ایک دوسرے کو ا س طرح بلائیں گی جس طرح کھانے والے ایک دوسرے کو پیالے کی طرف بلاتے ہیں‘‘، فَقَالَ قَائلٌ: وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ؟کہنے والے نے کہا: ’’کیا اس دن ہماری قلتِ تعداد کی وجہ سے ایسا ہوگا ؟‘‘رسول اللہﷺ نے فرمایا: لَا! وَلَكِنَّهُ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَیَنْزِعَنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّکُمُ اَلْمَھَابَۃَ مِنْکُمْ، وَلَیَقْذِفَنَّ فِیْ قُلُوْبِکُمْ الْوَھْنَ، ’’نہیں! بلکہ اﷲ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے قلوب سے تمہارا رعب نکال دیں گے، اور تمہارے قلوب میں وہن (ایک طرح کا ضعف اور سستی ) ڈال دیں گے‘‘، قَالَ قَائلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَمَا الْوَھَنُ؟ ’’ کسی نے عرض کیا: ’’حضور! یہ وہن کیا چیز ہے؟‘‘ قَالَ: حُبُّ الدُّنْیَا وَ کَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ! فرمایا: ’’دنیا کی محبت اور موت سے بے زاری و نفرت!‘‘4۔نیز ایک دوسری روایت میں ہے کہحُبُّكُمُ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَتُكُمُ الْقِتَالَ5 ، ’’دنیا کی محبت اور قتال سے بے زاری و نفرت‘‘۔
اسی طرح آپﷺنے ہمیں خبر دی تھی کہ:
إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ، سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ (سنن ابی داود)
’’ جب تم بیع العینہ کرنے لگو گے اور گائے بیل کی دُمیں پکڑے رہو گے اور کھیتوں پر خوش رہو گے اور جہاد کو ترک کر دو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر ذلت طاری کر دے گا؛ یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف لوٹ جاؤ ۔ ‘‘
عَلم کبھی گرےگانہیں!
گویا آپﷺ نےامت کی ذلت و پستی کی آخری کھائی دکھادی ہے کہ اس میں تم نے گرنا ہے اور گرنے کے اسباب بیان کرکے یہ بھی بتادیا کہ اس سے نکلنے کا راستہ کیاہے ۔پھر اللہ کافضل ہے ، احسان ہے کہ ایسا بھی نہیں کہ صرف تم تنہا ہو گے اور کوئی دوسرا نہیں جس نے اندھیروں کے خلاف اٹھ کر جنگ لڑنی ہے…… اگرچہ اکیلے تنہا بھی…… اگر اللہ کی رضا و تائید ساتھ ہو……نصرت ِ دین کی سعادت کوئی کم خوش نصیبی نہیں ،مگر دل کی خواہش ہوتی ہے کہ حق کا قافلہ کبھی رکے نہیں ، دین وجہاد کا جھنڈا کبھی گرے نہیں اور دشمنان دین کو کبھی اس قافلہ ٔ خیر کو ختم کرنے کا موقع نہ ملے تو یہ اطمینان بھی نبی کریم ﷺ نے دلادیا کہ دشمنان دین جتنا بھی اس جہاد کو ختم کرنا چاہیں گے، یہ ختم نہیں ہوگا! وہ اسے محدود کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ مزید پھیلےگا؛ اسے دبائیں گے یہ ابھرے گا ، کسی کے چھوڑجانے ، اس کی مدد و تائید سے ہاتھ کھینچ لینے یا اس کی مخالفت کرنے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے بھی کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ أَوْ خَالَفَھُمْ ،اس کی دعوت مرےگی نہیں زندہ رہےگی ، یہ غالب رہے گا اور آگےبڑھتا جائےگایہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آجائے اور فتنہ وفساد ختم ہوکرپوری دنیا میں اللہ وحدہ لاشریک کی حاکمیت قائم ہوجائے ۔
وقت بیٹھنے کانہیں کھڑے ہونےکاہے!
یہ دیکھ کر اپنے حال ومستقبل کے لیے فکرمند شخص مایوس نہیں ہوتا، اس کے دل میں حوصلہ بڑھتاہے ، امید بڑھتی ہے کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں مگر اللہ کی رحمت کا دامن تھاما جائے، اس کی محبت حاصل کرنے اور اس کے مستحق بننے کی سعی کی جائے ، جہاد و قتال کے اُن میادین میں اترا جائے جن میں اترناعرصہ دراز سے فرض عین ہوچکاہے …… تو یہی نازک صورت ِ حال کامیابی و کامرانی اور نصرتِ امت اور قربت الہٰی کاسنہری موقع ثابت ہو گی۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: عِظَمَ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَاءِ،’’جتنی آزمائش بڑی ہوتی ہے اتنا اس کا اجر زیادہ ہوتاہے‘‘، اور آپﷺ نے فرمایا: عِبَادَةٌ فِي الهَرْجِ وَالْفِتْنَةِ كَهِجْرَةٍ إلَيَّ6، یعنی ’’مصیبت اور فتنے میں عبادت میری طرف ہجرت کے مترادف ہے‘‘۔ سبحان اللہ! یہ حدیث بتاتی ہے کہ جس نےفتنوں اور مصائب کے طوفانوں میں اللہ کی عبادت کا دامن تھامے رکھا، جہاد و قتال کا راستہ نہیں چھوڑا ،اللہ نے جو طاقت ، صلاحیت اور مواقع دیے انہیں مسلمانوں کی خیر وصلاح اور دفاع و نصرت میں لگالیا ، تو چاہے جس قدر بھی مصائب و فتن ہوں ، انہیں اس کے لیے رسول اللہﷺ کی قربت اور درجات میں بلندی کا سبب اللہ بنا ئیں گے ،اس کا اجر اُن سے زیادہ ہوگا جنہوں نے یہ درد، غم اور امت مظلومہ کی یہ کلیجے پھاڑ ڈالنے والی صورت حال نہ دیکھی ہو……پس یہ وقت دل پکڑ کر بیٹھنے کا نہیں بلکہ کھڑے ہونے اور کھڑے رہنے کاہے؛ بےکار ی اور مایوسی کا نہیں، عزم و عمل ، دعوت وقتال اور صبر وثبات کا ہے اور اس یقین کے ساتھ میدان میں اترنے کاہےکہ میری کوشش واخلاص ضائع نہیں ہوں گے ،بلکہ اللہ میراشمار اُن خوش نصیبوں کے ساتھ کرے گا جن کی تشکیل وتیاری، جہاد وقتال اور آگے بڑھنے سے ہی ذلت و آزمائش کی یہ رات ختم ہوگی اور جن کے ساتھ اللہ رب العزت نے اپنے رضوان اوردائمی نعمتوں کا وعدہ کیاہے۔
امت مسلمہ کےخطرناک بدخواہ
محترم بھائیو! موجودہ حالات کے تناظر میں ایک موضوع ایسا ہے کہ جس پر تذکیراً کچھ عرض کرنا ضروری لگ رہاہے۔ حدیث میں امت مسلمہ کی مغلوبیت اور اس کی ذلت ورسوائی کا سبب اوپر ذکر ہوا ۔ یہی سبب متعدد آیاتِ قرآن میں بھی اللہ نے مختلف پیرایوں میں یاد کیاہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اگر اس بیماری سے چھٹکارا نہیں پاؤگے تو دو سزاؤں کے لیے تیار رہو؛ دردناک عذاب اور استبدال ؛ یعنی تمہاری جگہ کسی اور کو لایاجائےگا! پھر اہل ایمان میں سے جن اقوام کو اٹھاکراللہ نصرت دین کاموقع دیں گےاور عزت و قوت سے نوازیں گے ان کی صفات بھی اللہ نے بیان کی ہیں جن میں اہم صفات اللہ کے ساتھ محبت اوردنیا کی پرواہ کیے بغیر جہاد فی سبیل اللہ ہیں۔
پس جب اللہ کی کتاب اور آپﷺ کی سنت وسیرت بہت ہی جلی اور واضح انداز میں بتاتی ہیں کہ امت محمدیہﷺ کی رسوائی،زوال اور مغلوبیت کا سبب ’وہن ‘ ہے، دنیا کی محبت اور جہاد و قتال سے نفرت ہے،ایسے میں جو لوگ امت محمد ﷺ کو اس بیماری میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں اور جن کے علم و ہنر اور سعی و مہم کامقصد ہی یہ ہو کہ کیسے نوجوانان امت کے دلوں میں دنیا کی محبت اور جہاد سے نفرت پیدا کی جائے، وہ کس قدر بدنصیب اور امت مرحومہ کے حق میں کس حد خطرناک ہوں گے! دوسری طرف ، جو اس بیماری سے امت کونکالنے کے لیے قربانی دیں گے وہ اس امت کے حق میں کس حد تک عظیم رحمت ثابت ہوں گے اور ہماری طرف سے کس قدر محبت ، عزت اورمدد ونصرت کے مستحق قرار پائیں گے۔ اور بڑی بات یہ کہ وہ اللہ کے ہاں کس حد تک عظیم مقام کے حامل ہوں گے۔پھر جب اللہ کے ہاں وہ محبوب ہوں گے تو وہ لوگ پھر کس حد تک بدنصیب اور عزت و شرف سے عاری ہوں گے جو ایسے عظیم الشان اللہ کے اولیاء کے خلاف دلوں میں نفرت و حقارت بٹھاتے ہوں ۔
مجاہدین ِ غزہ کا اصل کارنامہ
مجاہدین غزہ امت کے محسن ہیں ، یہ مجاہدین اور غزہ کے عوام پورے عالم اسلام کے لیے نمونہ عمل ہیں ؛ یہ اس لیے بھی عظیم اورآخری حد تک لائق احترام ہیں کہ یہ جانتے تھے کہ اسرائیل کیا ہے اور امریکہ کی کتنی طاقت ہے ، انہیں ان دونوں کی اسلام دشمنی اور تکبر کا بھی یقین تھا ، یہ بھی معلوم تھا کہ امت مسلمہ کے رگ وپے میں کس طرح وہن کی بیماری سرایت کرگئی ہے اور ہمارے حکام وافواج کا بھی انہیں ادراک تھا کہ یہ ذلت ورسوائی کی آخری حد کو پار کرتے ہوئے صہیونیوں سے بڑھ کر صہیونی ہیں ۔وہ یہ بھی جانتے تھےکہ یہ اسرائیلیوں پر نائن الیون کریں گے تو اس کی کیا قیمت چکانی پڑے گی؛ دشمن کیا ردعمل دکھائےگا اور کہاں کہاں سے کون ان کی طرف آنے والی مدد روکےگا۔اس سب کچھ کا انہیں اندازہ تھااور کیوں نہ ہوتا کہ اس دشمن کی درندگی وہ پوری زندگی سہتے آئے تھے ۔مگر اس سب کے باوجود انہیں یہ بھی علم تھا کہ جہاد فرض عین ہے،اور مسجدِ اقصی کی آزادی اور اسرائیل کو اپنی زمین سے نکالنے کے لیے یہ جہاد اگر ابھی نہیں ہوا، توپھر کبھی نہیں ہوسکے گا۔انہیں فلسطین کے اندر وباہر ، پورے جزیرہ عرب میں جہاد ومزاحمت بلکہ ایمان و اسلام کوختم کرنے کی وسیع اور مؤثر جنگ آنکھوں سے نظر آرہی تھی…… ایسے میں انہیں کیاکرنا چاہیے تھا؟ شریعت انہیں کیا راستہ بتاتی ہے؟ یہی کہ جتنی استطاعت ہو، اور جس قدر ممکن ہو اچھی تیاری کی جائے اورپھر دشمن پر حملہ کیا جائے،اس لیے کہ انہیں معلوم تھاکہ اللہ کایہ حکم انہیں مخاطب ہے کہ:
﴿فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا﴾ (سورۃ النساء: ۸۴)
’’لہٰذا ( اے پیغمبر) تم اللہ کے راستے میں جنگ کرو، تم پر اپنے سوا کسی اور کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہاں مومنوں کو ترغیب دیتے رہو، کچھ بعید نہیں کہ اللہ کافروں کی جنگ کا زور توڑ دے۔ اور اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست ہے اور اس کی سزا بڑی سخت ۔‘‘
یہی کچھ مجاہدین غزہ نے کیا؛ انہوں نےامت کی بیداری کے لیے اپنی خوشیاں دفن کردیں اور اللہ کے دشمنوں پر ایسی ضربیں لگائیں کہ جوان کی تاریخ میں کبھی انہیں نہیں لگی تھیں اور اس انداز سے ان کے سر وں پر یہ ایمانی مکے برسے کہ ریاستِ شیطان کامستقبل خود اس کی قیادت کےسامنے عین الیقین حد تک تاریک نظر آیا، اورپھر جس استقامت و اولوالعزمی کے ساتھ پانچ ماہ انہوں نے مقابلہ کیا اور ابھی تک کررہے ہیں ، دنیا کی سب سے بڑی طاقت صہیونی اتحاد کے مقابل چند سو مجاہدین نے جو استقامت اور شجاعت دکھادی ،اس سے نہ صرف یہ کہ کفارِ عالم کے سامنے دین اسلام کی عظمت اور اہل اسلام کی بڑائی و کرامت واضح ہوئی بلکہ اس سے امت محمد ﷺکو بھی نشیب سے فراز کا راستہ دکھائی دیا اور جس بیماری سے شفایابی کی اس مریض امت کو ضرورت تھی اہل غزہ نے خون دےکر اور کلیوں جیسے معصوم خوبصورت بچے قبر میں دفنا کر اس کا انتظام کیا۔
غزہ امت کے لیےنصائح واسباق اور تحریض وترغیب کی پوری داستان لیےہوئےہے؛ اپنے پیاروں کے کفن میں ملفوف لاشوں کے سامنے ان کی زبان سے حسبنا اللہ و نعم الوکیل جب سناگیا تو دیکھنے والوں کو دین اسلام کی حقیقت نظر آئی ، اور ایمان و صبر کے یہ پیکر دیکھ کر کتنے سارے کفار کو قرآن عظیم الشان کھولنے کی دعوت مل گئی ، انہوں نے ڈھونڈا کہ وہ کیاچیز ہے کہ سب کچھ سے محروم ہوکر بھی یہ محروم نہیں ، اور اتنی بڑی آزمائش سے گزر کر بھی وہ جھکنے کے لیے تیار نہیں ، بلکہ پہاڑوں کی طرح جم کر کھڑے اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ یہ سب دیکھنا تھاکہ مغرب میں چند مہینوں کے اندر ہزارہا لوگوں نے اسلام قبول کیا اور اس سے کہیں زیادہ نے اسلام کا مطالعہ شروع کیا۔
پھر بڑی بات یہ ہے کہ اہل غزہ کے صبر وجہاد کی بدولت رسول اللہﷺ کے کتنے ایسےامتی ہیں کہ جن کے سامنے حق و باطل واضح ہوا ، دین ِاسلام کی نصرت کا غم و فکر ان کے قلوب میں پیدا ہوا اور بڑی بات یہ کہ ان کے دلوں سے وہن کی بیماری نکل گئی اور اللہ نے انہیں جہاد و شہادت کی محبت عطاکردی …… یہ مجاہدین فلسطین کی ایسی بڑی کامیابی ہے کہ جو دیگر تمام کامیابیوں کے اوپر بھاری ہے ، اس لیے کہ جس بیماری نے امت کواپاہج کررکھاتھا اور جس کے باعث اس پر حقیرترین اور غلیظ ترین مخلوق مسلط ہوگئی ہے، مجاہدین غزہ نے عین اسی بیماری کا علاج مہیا کیا ۔
برطانوی میگزین The Economist میں ’A religious revolution is under way in the Middle East‘کے عنوان سے ایک مضمون نشر ہوا؛ مضمون نگار نے لکھا: جزیرۂ عرب کی معاشرت تبدیل کرنے کے لیے بڑی محنت کی گئی ، اس کے نتائج کھلی آنکھوں سے دکھائی دے رہے ہیں؛ طلاقوں کی تعداد میں اضافہ اور غیر قانونی جنسی تعلقات کاتناسب مغربی ممالک سے بھی تجاوز کرچکااور نظر آرہاتھا کہ دینی تحریکات اپنی موت آپ مر رہی تھیں مگر طوفان اقصی کے باعث دینی تحریکات کو نشاۃ ثانیہ کا موقع مل گیا اور نوجوان پھرسے دین وجہاد کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ یہ رپورٹ بھی بتارہی ہے کہ امت محمدکی تباہی کاجو ’وائرس ‘ امت میں عام ہوچکا تھا اہل غزہ نے اس کا علاج اپنے جنازے اٹھواکر اور پوراغزہ ملبے میں تبدیل کرواکر فراہم کردیا ۔
کیا مجاہدین غزہ بھی قصور وار ہیں؟
یہ تفصیل اس لیے عرض کرنی پڑی کہ بعض دل کے مریض اہل غزہ کی آزمائش دیکھ کر مجاہدین غزہ کو الزام دینے لگے ہیں؛ ’فرماتے‘ ہیں جب حماس کو دشمن کی قوت و غضب کا اندازہ تھا اوراسرائیل کے مقابل اپنی کمزوری بھی ان کی نظر میں تھی تو پھر کیوں اسرائیل پرحملہ کیا؟!کہتے ہیں: غزہ کی تباہی کا ذمہ دار صرف اسرائیل نہیں ،حماس بھی اس میں برابرشریک ہے! ……یہ باتیں کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوئیں، یہ تب بھی ہوئی تھیں جب غزوہ احدمیں صحابہ کرام شہید ہوئےتھے ، کہا گیاتھا؛ ﴿لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا﴾ ،’’ہماری بات مانتے توکبھی اس طرح نہ مارے جاتے‘‘!اللہ نے مومنین کی طرف سے جواب دیا کہ یہ موت سے بچنے کو کارنامہ سمجھتےہیں؟ ﴿قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ﴾ ۔’’ کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو اپنے اوپر سے موت کو ٹال دینا ‘‘۔
اس وقت بھی اس طرح کی باتیں ہوئی تھیں جب آپﷺ غزہ بدرمیں چند سو صحابہ کولےکر لشکرِجرار کے خلاف نکلے، تب انہوں نے کہا: ﴿غَرَّ هَؤُلَاءِ دِينُهُمْ﴾، ’’انہیں ان کے دین نے (نعوذ باللہ ) پھنسادیا ، دھوکے میں ڈال دیا،تب بھی اللہ نے انہیں خاموش کیا،فرمایا: ﴿وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾ ’’جو اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں تووہ جان لیں کہ اللہ عزیز اور حکیم ہے ‘‘۔
اللہ نے راہ جہاد کے ساتھ موت کو نتھی کرنے اور پھر اس طرح منفی سوچنے سے منع کیاہے ،فرمایاہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَوْ كَانُوا عِنْدَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ وَلَئِنْ قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ﴾ (سورۃ آل عمران: ۱۵۶، ۱۵۷)
’’ اے اہل ایمان ! تم ان لوگوں کی مانند نہ ہوجانا جنہوں نے کفر کیا اور جنہوں نے اپنے بھائیوں کے بارے میں جبکہ وہ زمین میں سفر پر نکلے ہوئے تھے یا کسی جہاد میں شریک تھے (اور وہاں ان کا انتقال ہوگیا) کہا کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے ‘ نہ قتل ہوتے (یہ بات اس لیے ان کی زبان پر آتی ہے) تاکہ اللہ اس کو ان کے دلوں میں حسرت کا باعث بنا دے اور دیکھو اللہ ہی زندہ رکھتا ہے اور وہی موت وارد کرتا ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘
یعنی زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ،مگر جہاد فی سبیل اللہ میں قتل ہوجانے کی صورت میں جو مغفرت ملتی ہے وہ پوری دنیا کی نعمتوں سے اعلیٰ وارفع ہے۔ اللہ کو تویہ بھی پسند نہیں کہ جہاد میں قتل ہونے والوں کو مردہ کہا جائے اور اس موت کے لیے شوق و تڑپ میں کہیں کمی آجائے،اس لیے فرمایا :
﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ﴾ (سورۃ البقرۃ: ۱۵۴)
’’ اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ نہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے ۔ ‘‘
یہ باتیں کرنے والے لوگ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو جان بچانے ہی کو کامیابی سمجھتی ہے، چاہے ذلت و رسوائی اور ایمان سے محرومی کا وبال بدلے میں ملتاہو؛ جبکہ اللہ کی راہ میں جان دےدینے کو یہ ہلاکت کہتی ہے، چاہے اس کے باعث پوری کی پوری امت میں روح ِجہاد پیدا ہو اور اسلام و نفاق کے بیچ فرق واضح ہو! جبکہ سبحان اللہ! اللہ کا دین ایسا نہیں؛ ہزاروں لاکھوں کے لشکر پر اگر ایک مجاہد بھی یہ سوچ کر چڑھائی کردیتاہے کہ اس سے دوسرے اہل ایمان کے دلوں سے دشمن کا رعب ختم ہو، تو ایسی’جذباتیت ‘ کوبھی یہ دین عظیم کامیابی سے موسوم کرتاہے اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ایسے جلیل القدرصحابی اس مجاہد کی فضیلت سنانے کے لیے میدان میں اترآتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ہلاکت دشمن کے خلاف اکیلے میدان میں کودنے میں نہیں ، بلکہ جہاد چھوڑ کر دنیا کی طرف جھکنے اور اسی کے غم وفکر میں خود کو ہلکان کرنے میں ہے ۔
کامیابی ناکامی کاپیمانہ
اس دین کاتو مزاج ہے کہ حق کی شہادت کی خاطر پوری کی پوری قوم جب آگ کے گڑھوں میں جل کر راکھ ہوئی تو اللہ کی کتاب نے اس ’اجتماعی موت ‘ کو بھی ﴿ذَلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ﴾ ’’یہ بہت بڑی کامیابی ہے ‘‘،سے موسوم کیا اور تاقیامت کامیابی وناکامی کاپیمانہ بتاکر امت کواسی راستے پر چلنے کا سبق دیا۔ اگر تو یہ عالی شان دماغ اُس وقت ہوتے تواُس وقت بھی یہ ان اہل ایمان کی ’تباہی‘ کا الزام کافر بادشاہ اور اس کی قوم کو نہ دیتے بلکہ قصوروار ان اہل ایمان کو قرار دیتے کہ انہوں نے کیوں ایسےوقت کلمہ حق پڑھا ، بلکہ شاید آگے بڑھ کریہ مبصرین یہ مشورہ بھی پیش کرتے کہ آگ دیکھ کر اس میں چھلانگ لگانا کہاں کی دانش مندی ہے؟ کیا مسئلہ ہے اگر ایمان سے پھرا جائے ، بادشاہ کے کفر وظلم پر خاموشی ، بلکہ رضامندی اختیار کی جائے اوردیگر اہل ایمان کے خلاف جنگ میں شرکت بھی کرنی پڑے تواس میں بھی کیا مضائقہ ہے ، کہ اس سے قوم کی زندگی تو بچ جائےگی7۔ اللہ کے دین میں کامیابی و ناکامی صرف مادی پیمانوں سے نہیں ناپی جاتی؛ اس دین میں معنوی کامیابی کی اہمیت مادی کامیابی سے زیادہ ہے اور یہی معنوی کامیابی ہی ہے جو مادی کامیابیوں کا پھر راستہ ہموار کرتی ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح اصحاب اخدود نے معنوی کامیابی کو ترجیح جب دی اور جس طرح فرعون کے دربار میں نومسلم ساحروں نے اپنے اسلام کا اعلان کرکے فرعون کی تعذیب کے لیے اپنا آپ پیش کیا ،یوں پھر نتیجے میں یہ دونوں گروہ قیامت تک کی دعوت وعزیمت کی تحریکوں کے لیے نمونہ عمل بن گئے ۔اس دین میں اجر و ثواب اور اللہ کی رضاو خوش نودی اعلیٰ مقاصد ہوا کرتے ہیں اور انہی کوتحریض دینے کے لیے استعمال کیا جاتاہے، نہ کہ دنیا کی مادی کامیابی کو اہم ترین ٹھہرایاجاتاہے۔آپ ﷺ کا فرمان مبارک ہے:
مَا مِنْ غَازِيَةٍ ، أَوْ سَرِيَّةٍ ، تَغْزُو فَتَغْنَمُ وَتَسْلَمُ ، إِلاَّ كَانُوا قَدْ تَعَجَّلُوا ثُلُثَيْ أُجُورِهِمْ ، وَمَا مِنْ غَازِيَةٍ ، أَوْ سَرِيَّةٍ، تُخْفِقُ وَتُصَابُ ، إِلاَّ تَمَّ أُجُورُهُمْ (صحیح مسلم)
’’ جس غزوہ یا لشکر کے لوگ جہاد کریں پھر وہ مال غنیمت حاصل کر کے سلامتی سے واپس آجائیں تو انہیں ثواب کا دو تہائی حصہ اسی وقت مل جاتا ہے اور جس غزوہ یا لشکر کے لوگ خالی واپس آئیں اور نقصان اٹھائیں تو ان کا اجر وثواب پورا پورا باقی رہ جاتا ہے۔‘‘
رسول اللہﷺ سمجھاتے ہیں کہ جس لشکرنے جہاد کیا ،خودکوئی نقصان نہیں اٹھایا ، دشمن کا نقصان کیا ، فتح یاب ہوا اور غنائم لےکر واپس لوٹااُ س کو اس کے اجر میں سے تیسراحصہ دنیا میں ہی مل گیا مگر جو لشکرہزیمت و آزمائش سے دوچار ہوا اور فتح کے بجائے شہادتوں اور نقصان کا سامنا کیا ، اُس کو پورا کا پورا اجر مل گیا۔یہ ہے اللہ کا دین اور رسول اللہﷺ کی امت ، یہاں نصرت وکامیابی کی تعریف وہ قطعاً نہیں جو اہل کفر و نفاق کے ہاں ہوتی ہے۔
اہل ایمان واہل نفاق کا فرق
واقعہ یہ ہے کہ اس امت کے اہل ایمان اور اہل نفاق کے بیچ بڑا فرق ہی کامیابی وناکامی کی تعریف اور اس کےپیمانے مقرر کرنے میں ہے۔اہل ایمان اللہ کی راہ میں، اللہ کے دین کی نصرت اور امت کے دفاع کی خاطر لٹنے اور کٹنے کوکامیابی سمجھتے ہیں مگر اہل نفاق جان بچانے اور بچاکر دنیا کےحقیر سامان ملنے کو اپنا کارنامہ کہتے ہیں ۔اہل ایمان دین و امت کے دفاع و غلبہ کی خاطر قربانی دینے والوں کی اعلیٰ ظرفی، عظمت اور بلندنظری کو دل وجان سے تسلیم کرتے ہیں ، انہیں اپنے لیے نمونہ عمل بتاتے ہیں اور قربانی و اقدام کے اس عملِ عظیم سے پیچھے رہ جانے پر حسرت و حزن کا شکار ہوتے ہیں مگر اہل نفا ق دینِ متین کی خاطر مصائب کا سامنا کرنے اور اس کے لیے محنت وانفاق کرنے والوں کی ناقدری اور تحقیر کرتے ہیں ، ان کے اس فعل عظیم کامذاق اڑاتے ہیں اور انہیں سادہ لوح و بے وقوف بتاکر ان کے نفسِ مقصد کی اہانت کرتے ہیں ۔حقیقت یہ ہےکہ جس کو ہادیٔ امت ﷺ نے امت مسلمہ کی بدترین بیماری سے موسوم کیااور جسے امت کی ذلت ورسوائی اور ان کی جانوں اورعزتوں کے کفار کی نظر وں میں بے وقعت ہونے کی وجہ بتایا ، اہل نفاق عین اُس بیماری کو امت کی زندگی اور اس کی صحت مندی بتاتے ہیں ، یوں جس بیماری کے سبب امت قبرمیں پاؤں لٹکائے ہوتی ہے اہل نفاق اُسی بیماری میں امت کو مبتلاکرنے میں بندگان شیطان کی مدد کرتے ہیں ۔
دین وایمان زیادہ اہم ہے !
یہی وجہ ہے کہ دین اسلام کے خلاف جنگ اور اسلامی تہذیب و ثقافت پر غلامانِ صیہون کی طرف سے ركیک حملوں پر ایسے اہل نفاق کو کوئی رنج نہیں تھا، اسرائیل وامریکہ کے مظالم اور ارض اسلام پر جارحیت ختم کرنے کے لیے انہوں نے کبھی نہیں سوچا ،اسلام آئے روز مغلوب سے مغلوب تر جبکہ کفر ونفاق کو تقویت مل رہی تھی ، ان کے نزدیک یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں تھا مگر جب اہل ایمان نے کتاب اللہ کے حکم پر کھڑے ہوکر دین اسلام اور مقدسات کا دفاع کیا تو آج ان کی توپوں کارُخ دشمنان دین کے بجائے مجاہدین کی طرف ہوگیا ۔اس طرز عمل اور طریق فکر کا باعث یہ ہےکہ ایسی مخلوق کے نزدیک ایمانوں کی تباہی کوئی اہمیت نہیں رکھتی ،مگرجانوں کی تباہی اہم ترین ہوا کرتی ہے ،ان کے ہاں دین وعزت سے محرومی آسان ہے مگر جان ومال کی قربانی مشکل ہے، حالانکہ اللہ کادین ضروریات خمسہ( دین ،جان ، عقل، عزت اورمال ) کی حفاظت لازم قرار دیتاہے تو ان میں اہم ترین پھر دین کوٹھہراتاہے کہ دین پر اگر آنچ آرہی ہو تو باقی چار اسی کی حفاظت کی خاطر قربان کیے جائیں گے اور تاریخ نے دکھادیا ہے کہ کسی قوم نے جب دین کی خاطر جان ومال کی قربانی دی ہے تو ان کا سب کچھ محفوظ ہوگیالیکن جان و ما ل بچانے کے لیے دین کو اگر قربان کیاگیا تو پھر نتیجے میں کچھ بھی سلامت نہیں رہتا؛ افغانستان کی مثال ابھی حال ہی کی ہے کہ کیسے جب دین کا دفاع کیاگیا اور کفر کاغلبہ تسلیم نہیں کیاگیاتو اللہ نے ایسی فتح ،عزت اور امن سے اس قوم کو نوازا کہ عصر حاضر میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
اہل غزہ کامیاب ہیں!
اہل غزہ کامیاب ہیں ، غزہ ان کے ہاتھوں میں رہے یا نہ رہےــ اللہ سے دعا ہے کہ کبھی بھی ان کے ہاتھوں سے نہ نکلے،لیکن اگر خدانخواستہ اللہ کوکچھ اور منظور ہوا اور وقتی طورپر ان کے ہاتھوں سے یہ نکل بھی گیا تو اللہ کی قسم وہ کامیاب ہیں؛ ناکام تو ہم ہیں کہ ہم دوارب کی امت اپنا فرض پورا نہیں کرسکی ،ان کی مدد نہیں کرسکی اوران سے اُن مصائب کو نہ ہٹاسکی جو ہماری ہی نصرت ودفاع کی خاطر ان کے اوپر آن پڑے ہیں ۔مجاہدین غزہ کی کامیابی کا اس کے ساتھ قطعا ًاور قطعاً تعلق نہیں کہ وہ اس مرحلے میں صہیونیوں کوغزہ سے نکالتے ہیں یانہیں ، وہ اس لیےناکام نہیں کہ انہوں نے طوفان اقصی برپاکرکے اُس عظیم لشکر کوتقویت دی اور اس کی تشکیل میں اپنا اور اپنی اولاد کاقیمتی خون دیا جس نے آج نہیں تو کل تل ابیب فتح کرناہے ، واشنگٹن کو زیر وزبرکرنا ہے اور مسجدِاقصی میں نماز فتح پڑھنی ہے۔نفاق و کفر کی نگاہیں بہت کوتاہ ہوا کرتی ہیں مگر اہل ایمان کی نگاہ کبھی کمزور نہیں ہو تی؛ اللہ کی قسم! ہمیں رتی برابر شک نہیں کہ اس نشیب کے بعد، اہل غزہ کی قربانی و ثبات کی بدولت ، بہت تیزی کے ساتھ فرازواونچائی کا سفر شروع ہوگا اور اُس کامیابی ، کامرانی اور عظمت وغلبے والے سفر میں غزہ کے اندر بہا یا خون اُن فاتحین کے عزائم کے لیے ایندھن کاکردار ادا کرے گا۔غزہ میں بہے یہ آنسو ، یہ آہیں اور بھوک و خوف کے مارے بچوں کایہ بلک بلک کررونا ، اُس لشکر جرار کے جذبے اور حوصلے بلند کرنے کا باعث بنے گا۔ اہل غزہ کی یہ قربانی اور ثبات تاقیامت اہل ایمان کے لیےہدایت و رہنمائی کاباعث ہوگا جبکہ کفر ونفاق والوں کے لیے یہ ہمیشہ ہی آگ وتباہی ثابت ہوگا ۔ اہل غزہ خوش نصیب ہیں کہ اللہ نے انہیں انتہائی عظیم، انتہائی قیمتی ایساتحفہ امت کو دینے کے لیے چنا کہ جس کی اس امت کو واقعی ضرورت تھی اور جس کے باعث زمین وآسمان کے اہل خیر ان پر رشک کرتے ہیں ،پھر خوش نصیب ہیں غزہ سے باہر وہ اہل ایمان جو اہل غزہ کی قربانی اور ان کی شجاعت واقدام کو اپنے لیے نمونہ عمل بنائیں اور جہاد و قتال ، صبر وثبات اور ایمان و ہدایت کا جوجھنڈا اہل غزہ نے اونچا کیا ، اس کو تھام لیں اور دنیا بھر میں اس عظیم خیر کی دعوت کولےکر اُس قافلہ جہاد میں اپنا خون ، پسینہ، صلاحیت اور وقت صرف کریں جس کااٹھنا اللہ نے سات آسمان اوپر لکھ دیا ہے اور جس کے اٹھانے کے لیے ہی دنیا بھر میں مسلمانوں سے قربانی لےکر انہیں جھنجھوڑا جارہاہے۔
یہ تحریر اس دعا پرختم کرتاہوں کہ اے ہمارے رب ! اے رب المستضعفین! اہل غزہ کی نصرت فرما، وہ بھوکے ہیں ، انہیں رزق عطا کر، وہ خوف زدہ ہیں، ان کاخوف امن میں تبدیل کر، ان کی بے عزتی کی گئی انہیں دنیا میں بھی عزت عطا کیجیے اور آخرت میں بھی ، ان کی ہدایت میں اضافہ فرما،غیب سے ان کی نصرت فرما ، یا اللہ! ان کے قدموں کو جمادے، ان کے دشمنوں پران کا رعب بٹھادیجیے ،یا اللہ! امت مسلمہ کی طرف سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی کیجیے، کفار ومنافقین کی سازشوں سے ان کی حفاظت فرما!جس نے یا اللہ انہیں اکیلے چھوڑا ، انہیں تواکیلا چھوڑ دے،جس نے ان کے خلاف مدد کی یا اللہ تو ان کے خلاف مددکیجیے!یا اللہ! اہل غزہ سے ہماری محبت ہے، اس محبت کو قبول کیجیے اور ہمیں توفیق دے ، موقع دے کہ ان کے ٹوٹےدلوں کے لیے مرہم بن جائیں ، ان کے دشمنوں پر تیرے عذاب کاکوڑا بن جائیں اوراللہ شہادت کی موت سے ہمیں محروم نہ فرما، ہمارا خون قبول کیجیے ، ہمیں اپنے عرش تلے، ان مجاہدین وشہداء کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی معیت میں اکٹھا فرما ……آمین یا رب العالمین۔
وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔
٭٭٭٭٭
1 روس اور یوکرین جنگ میں ،کہ جس میں دونوں فریقوں کی طرف سےخطرناک مہلک ہتھیار استعمال ہورہے ہیں ، اکیس مہینوں میں پانچ سو بچے ہدف بنے ہیں جبکہ غزہ کی جنگ کے اندر صرف ساڑھے تین ماہ کے اندر چودہ ہزاربچے شہیدہوئے ہیں ۔
2ابھی تک دولاکھ پچاس ہزار گھربمباری کا نشانے بنائے گئے ہیں، ایک ہزارمساجد شہید ہوئیں،۲۶۶سکول ، ۲۶بڑے ہسپتال اور ۵۵میڈیکل کلینک بمباری کا نشانہ بنائے گئے ہیں ،شہداء کی تعدادآج ۲۶ فروری تک ۳۰ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ زخمی ۷۵ہزار سے بڑھ گئے ۔
3 ظلم کی انتہا دیکھیے کہ رفح بارڈر کے ایک پار مصر میں ہزاروں ٹرک خوراکی سامان سے لدے کھڑے ،ہفتوں سے غزہ میں داخل ہونے کا انتظار کررہے ہیں، انہیں مصری فوج نے روکا ہوا ہے جبکہ اسی بارڈر؍ دیوار کی دوسری طرف ، غزہ میں انتہائی چھوٹے سے علاقے رفح میں سترہ لاکھ مسلمان بھوک سے باقاعدہ تڑپ رہے ہیں اور سیکڑوں بچے بھوک ہی کے سبب شہید بھی ہوچکے ہیں ۔
4 أبوداود والبیھقی فی دلائل النبوۃ/ مشکوۃ
5 مسندأحمد
6 المعجم الصغير
7 اضطرار کے ساتھ کلمۂ کفر کہنے کامسئلہ بالکل الگ ہے اور کفر وظلم کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی طورپر سمجھوتہ کرنے کامعاملہ دوسرا ہے، یہاں اس دوسرے معاملے کا ذکر ہے۔