نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home طوفان الأقصی

فلسطین: امن و جنگ کے ۷۵ سال

سیف العدل by سیف العدل
31 مئی 2024
in طوفان الأقصی, اپریل و مئی 2024
0

فلسطینی مجاہدین نے دعوتی، سیاسی اور عسکری میدانوں میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، آج تک کوئی قوم یا اسلامی تحریک ان کی نظیر پیش نہیں کر سکی۔

خصوصاً اپنے مسلمان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کے فرمان فكوا العاني1 (قیدیوں کو چھڑاؤ) کو من و عن عملی جامہ پہنایا۔ اس کے علاوہ دشمن کے مقابل جس جنگی اخلاقیات کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل تقلید اورمستحسن اقدام ہے ۔

فلسطینی مجاہدین کی تمام تر عسکری ، نشریاتی، دعوتی اور جنگی اخلاقیات کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے تمام تر اقدامات میں قدم قدم پر توفیق اور نصرت الٰہی شاملِ حال ہے ۔ اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب نیتیں صاف اور دل اللہ کی رضا و خوشنودی کے علاوہ کسی دنیاوی غرض سے ملوث نہ ہوں۔

مجاہدین نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور لاچار قیدی جن میں عورتیں، بچے اور بوڑھے شامل تھے ، ان کو آزاد کروایا۔

ان قیدیوں میں ایک عورت نے انتہائی دلگیر انداز میں نعرہ لگایا:

تلوار کے مقابلے میں تلوار ہی کار آمد ہے !

ہم محمدی جوانوں کے مہمان ہیں!

جب اس نعرے کو اردگرد کھڑے افراد نے سنا تو ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں، یہ مرحلہ تو ان لاچار قیدیوں کا تھا، اب مرحلہ ہے کہ جنگی قیدیوں کو آزاد کرایا جائے، دست بد عا ہوں کہ اللہ رب العزت اس سیاسی و عسکری مہم میں بھی انہیں کامرانی سے ہمکنار کرے۔

حالیہ غزہ کی جنگ میں فلسطینی مجاہدین سے ایسے تجربات اور دروس سیکھنے کو مل رہے ہیں جو اس فن کے ماہرین کے یہاں بھی نایاب و نادر ہیں ۔ انہوں نے اپنے قول و عمل سے ثابت کیا کہ یہ حالیہ غیر متوازن جنگ کے ماہر ہیں اور ان کا کوئی ثانی نہیں۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ گوریلا جنگوں کی تاریخ میں ایسی سرزمین جو بالکل ہموار ہو، جہاں چھپنے کی کوئی جگہ نہ ہو، اسلحہ اور دیگر وسائل محفوظ کرنے کے لیے گودام نہ ہوں، نہ ہی کوئی جدید ٹیکنالوجی ہو، جس علاقے کا کل رقبہ 9X40 کلومیٹر ہو، جو گاڑی کی رفتار سے فقط ایک گھنٹے میں طے کیا جا سکتا ہو، جس کے باشندے بے سروسامان ہوں نہ ہی کوئی حفاظتی حصار ہو اور نہ کوئی جدید اسلحے اور ٹیکنالوجی سے مسلح ہوں، ایسی حالت میں ان کا مقابلہ دنیا کی بہترین فوج سے ہو رہا ہے جو جدید اسلحہ، ریڈار، جنگی جہازوں، ہیلی کاپٹروں و دیگر جنگی سازو سامان سے لیس ہے، یہ مقابلہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے؟ اور اس جنگ میں اول الذکر منتشر ، بے سروسامان جماعت کیسے جنگ میں کامیاب ہے ؟!!

یہ ایک انتہائی دوررس، دور اندیش منصوبہ تھا جس کی تکمیل میں دو دہائیاں صرف ہوئیں، مجاہدین غزہ نے جدید سیٹلائٹ سسٹم اور جاسوسی کے ہمہ گیر جال کی موجودگی میں کیسے اور کب زیرِ زمین خندقیں کھودیں؟ کیسے ممکن ہو سکا کہ وہ اپنے اسلحے تیار کر سکیں؟

اپنی اسلحے کی فیکٹریوں کو اتنے زبردست جنگی حصار میں کیسے قائم رکھ سکے……؟ ایک طرف اسرائیلی حصار جبکہ دوسری جانب خائن مصری فوج کا محاصرہ……! مالی امداد کہاں سے آئی جبکہ تمام اطراف سے یا تو یہودی تھے یا نام نہاد یہود کے آلۂ کار مسلمان ممالک!!!

ان کے لیے کیسے ممکن ہو سکا کہ ممکنہ جنگ کے لیے وافر مقدار میں میزائیل اور گولہ بارود کا بندوبست کریں اور یہ کہ کہاں ان تمام وسائل کو محفوظ کیا……؟

بے شک یہ اللہ کی غیبی مدد و نصرت ہے جسے چاہتا ہے اپنی مدد و حفاظت عطا فرماتا ہے۔ یہ اسلام کا عظیم رشتہ اور مضبوط کڑا ہے جس نے انہیں اپنے رب سے جوڑے رکھا ہے، یہ ایک انسانی عزم مصمم ہے جو دستیاب وسائل اور حالات کا درست تجزیہ کرکے اپنے رب پر توکل کرتے ہوئے عمل کے میدان میں کود پڑتا ہے۔

ان مجاہدین نے زیر زمین خندقیں کھود کر میدان جنگ کو وسیع کر دیا۔ اپنی مرضی کا میدانِ جنگ سجا کر دشمن کو وہاں کھینچ لائے، دشمن جب میدان میں پہنچا تو یہ لوگ زمین کے نیچے سے نکل نکل کر دشمن پر ایسی ضربیں لگانے لگے جیسے کھجور کی کونپلیں نکلتی ہیں، یقیناً زمین ان کے لیے بہترین ٹھکانہ ثابت ہوئی، جہاں وہ رہتے، بستے اور وہیں سے دشمن پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہی اللہ کی سنت ہے جب ظاہری اسباب ختم ہو جائیں تو کمزوروں اور ضعفاء کا رب انہیں مدد و نصرت کے طریقے الہام فرماتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَّلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَيُؤْمِنُوْا بِهٖ فَتُخْبِتَ لَهٗ قُلُوْبُهُمْ وَاِنَّ اللّٰهَ لَهَادِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ (الحج: 54)

’’تاکہ جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے، وہ جان لیں کہ یہی (کلام) برحق ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے آیا ہے، پھر وہ اس پر ایمان لائیں، اور ان کے دل اس کے آگے جھک جائیں، اور یقین رکھو کہ اللہ ایمان والوں کو سیدھے راستے کی ہدایت دینے والا ہے۔‘‘

غزہ کی جنگ میں یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ اس جنگ میں وہ چھوٹی چھوٹی غیر منظم بے سروسامان تنظیمیں ہی یہود کے بالمقابل غالب اور فاتح ہیں، باقی اسرائیل کی برتری فقط شہری جنگ تک ہی محدود ہے اور ان کی فضائی قوت جنگ کے شعلوں کو مزید بھڑکانے، نہتے عوام کا قتل کرنے اور تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں، خصوصاً جب یہ قوت صہیونیوں کے ہاتھ میں ہے۔

یقیناً طوفان الاقصیٰ ایک تاریخی عسکری سبق ہے اور گزشتہ ادوار کے مقابلے میں ایک بڑی تبدیلی ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ جنگ جہاد سے پیچھے رہ جانے والے شکست خوردہ لوگوں کے لیے بھی اتمام حجت ہے، اسی طرح تمام عربی اور اسلامی ممالک کے لیے بھی یہ جنگ باعثِ ذلت اور عار ہے۔

فلسطینی مجاہدین نے فرضیت جہاد کے بعد وہی کیا جو ان کے بس میں ہے، اپنی استطاعت سے زیادہ کا ان سے پوچھا جا سکتا ہے نہ ہی وہ اس کے مکلف ہیں۔ اس کے مکلف تو فوجوں کے مالک اور محلات میں بیٹھے عیاش حکمران ہیں جو فرضیتِ جہاد کے فتوے صادر ہونے کے بعد بھی اہلِ غزہ کی مدد و نصرت تو کیا کرتے، الٹا دشمنانِ اسلام کی ہمنوائی و پشتیبانی میں مگن ہیں۔ باوجود اس کے کہ قطر میں موجود امریکی فوجی اڈے کے پڑوس میں عالمی جمعیت علماء المسلمین نے بالاتفاق یہ فتویٰ جاری کیا کہ تمام اہل حل و عقد بشمول اسلامی ممالک کے سربراہوں پر فرض ہے کہ وہ صہیونیوں کے جرائم کا سد باب اور اہلِ غزہ کے نہتے مسلمان بھائیوں کی ہر ممکن مدد کریں۔

مغرب کی پوری تاریخ جس کی صف اول میں برطانیہ اور امریکہ ہیں وحشت ناک جرائم سے بھری پڑی ہے۔ اس حوالے سے نہ کسی دین کی پاسداری کا خیال ہے اور نہ ہی کسی مذہب و نسل سے درگزر سے کام لیتے ہیں۔ امریکہ کے اصلی حقیقی باشندوں کے قتل عام سے لے کر بت پرست جاپان اور پروٹسٹنٹ عیسائی جرمنی کے شہروں کو ملیامیٹ کرنے تک، افغانستان کی تباہی سے لے کر آج فلسطین میں اپنی لے پالک صہیونی ریاست کے ذریعہ مسلمانوں کی نسل کشی تک یہ سب کا سب ان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے۔ ان کا دین اپنی خاص مصلحت میں ہے ان کے یہاں اخلاق کا کوئی دائرہ کار ہے نہ ہی کسی قدر کی پابندی……

آج عالم اسلام میں موجود مغربی دلدادہ اور ان کی آزادی، مساوات کی طرف دعوت دینے والے بھی حیرت زدہ ہیں اور اپنے مغربی آقاؤں کے اس مکروہ چہرے پر پردے ڈالنے سے عاجز ہیں بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ مسلمان ملکوں میں مغرب زدہ ٹولہ آج جمہوریت اور عالمگیریت کے مزعوم بت اور دینِ جدید سے نالاں ہیں۔

رہے ان کے مغربی آقا، تو ان کے اپنے کرتوتوں کی بنا پر چہرے سیاہ، ان کے دل مسلمانوں سے بغض و عناد سے بھرے ہوتے ہیں۔ ان کی جانب سے منعقد کی گئی سلامتی کونسل (حقیقت میں ظالم و وحشی کونسل) میں کسی بھی طرح سے فلسطین میں جاری ظلم و بربریت روکنے کی قرارداد اس وقت تک پاس نہیں کی جاسکتی جب تک ان کے خلاف بعینہٖ اسی طرح کا ردعمل آ نہیں جاتا، اس کے بغیر یہ لوگ اپنے ظلم و عدوان سے باز نہیں آسکتے، یہی فطری راستہ ہے ایسے مظالم اور تباہی کو روکنے کا۔

آج ہم جس صورتِ حال کا غزہ میں مشاہدہ کر رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں، ہمیشہ استعمار کا کمزورں کے خلاف یہی وطیرہ رہا ہے۔ اہلِ غزہ سنہ اڑتالیس سے قبل بھی یہی جہاد کرتے رہے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ استعمار کی پوری تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ مظاہروں، مذمتی قراردادوں اور جلسے جلوسوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کا واحد راستہ اور منصفانہ حل جہاد فی سبیل اللّٰہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔یہود نے اپنے اندر ایسے فرقے پالے ہوئے ہیں جو خود اپنی تباہی کا سامان لیے ہوئے ہیں۔ ان کے مابین موجود اختلافات اور عداوت اس حد تک پہنچی ہوئی ہے جو کسی سے مخفی نہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

لَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ جَمِيْعًا اِلَّا فِيْ قُرًى مُّحَصَّنَةٍ اَوْ مِنْ وَّرَاءِ جُدُرٍ بَاْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيْدٌ تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا وَّقُلُوْبُهُمْ شَتّٰى ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ. (الحشر: 14)

’’یہ سب لوگ اکٹھے ہو کر بھی تم سے جنگ نہیں کریں گے، مگر ایسی بستیوں میں جو قلعوں میں محفوظ ہوں، یا پھر دیواروں کے پیچھے چھپ کر۔ ان کی آپس کی مخالفتیں بہت سخت ہیں۔ تم انہیں اکٹھا سمجھتے ہو، حالانکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں۔ یہ اس لیے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں عقل نہیں ہے۔ ‘‘

یہود ایسی قوم ہے کہ اپنے قرب و جوار میں رہنے والے ہر کسی سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ کبھی اپنے ہمسایوں سے امن و آشتی سے پیش نہیں آتے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ وَلَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَّكُفْرًا وَاَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِكُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَهَا اللّٰهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ. (المائدة: 64)

’’اور یہودی کہتے ہیں کہ : اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، ہاتھ تو خود ان کے بندھے ہوئے ہیں اور جو بات انہوں نے کہی ہے اس کی وجہ سے ان پر لعنت الگ پڑی ہے، ورنہ اللہ کے دونوں ہاتھ پوری طرح کشادہ ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ اور (اے پیغمبر) جو وحی تم پر نازل کی گئی ہے وہ ان میں سے بہت سوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کر کے رہے گی، اور ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک کے لیے عداوت اور بغض پیدا کردیا ہے۔ جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو بجھا دیتا ہے اور یہ زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، جبکہ اللہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘

یہود اگرچہ اللہ کے نبی ابراہیم علیہ السلام کی اتباع کے دعوے دار اور ان کی نسل سے ہیں۔ تمام انسانوں اور یہود میں کوئی امتیاز نہیں۔ اس کے باوجود یہ لوگ عام انسانوں خصوصاً مسلمانوں پر اپنی برتری، دھونس اور تکبر کا اظہار کرتے ہیں اور یہ باور کرواتے ہیں کہ وہی اللہ کے منتخب اور برگزیدہ قوم ہیں، حالانکہ وہ اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ یہ لوگ اللہ کے غیض و غضب کے مستحق ہیں لیکن ابلیس لعین کی مانند اپنے حسد، تکبر اور گھمنڈ میں غلطاں ہیں۔ یہ ایسی گمراہی ہے جس سے اللہ کے ارادے اور مشیت کے سوا کوئی نہیں نکل سکتا۔

غزہ میں موجود اللہ کی فوج مجاہدین اور شیطان کی فوج صہیونیوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیونکہ فتح و کامرانی یہی نہیں کہ دشمن پر غلبہ حاصل ہو جائے بلکہ حقیقی فتح اور کامرانی اخلاقیات اور اقدار کی ہے، بارہا ایسا ہوا ہے کہ طاقت ہونے کے باوجود افواج انسانیت اور اخلاقیات کا لحاظ کرتے ہوئے پیچھے ہٹ جاتی ہیں ۔

جنگی اخلاقیات ہی وہ بیش قیمت زیور ہے جس سے حقیقی بہادر رہنما متصف ہوتے ہیں اور اپنے دشمن سے غیرت اور شرافت کی حد میں رہتے ہوئے برسرپیکار ہوتے ہیں، اہلِ غزہ اپنے صہیونی دشمن اور ان کے قیدیوں سے بعینہٖ اسی پیمانے اور اسی انداز سے مقابلہ کر رہے ہیں۔

دوسری طرف صہیونیوں نے جنگ کے میدان اور مسلمان قیدیوں سے جو سلوک اختیار کیا وہ انتہائی گھٹیا اور شرمناک ہے، ان سے گلہ بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہی ان کی حقیقت اور جبلت ہے۔ ان کی قید میں اسیروں سے جو سلوک روا رکھا جا رہاہے وہ ان کی کم ظرفی، کمینہ پن اور بدبختی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

اور ایسی نسل کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جس پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور ان کے مابین اختلاف و تفرقہ ڈال دیا گیا۔ یہ لوگ ہر وہ کام سرانجام دے رہے ہیں جو اللہ کے غیض و غضب اور پھٹکار کو دعوت دے رہا ہے۔

اور اللہ تعالیٰ ان کی سرکشی میں مزید بڑھاوا دے رہا ہے تاکہ جب ان کو اپنے عذاب میں جکڑے تو بچنے کا کوئی آسرا نہ ہو۔ ان کے سیاہ کارنامے اور کرتوت کو وہی لوگ پسند کرتے اور سند جواز عطا کر رہے ہیں جو ظلم و سرکشی میں ان ہی کے ہم پلہ ہیں جیسے امریکہ اور برطانیہ و دیگر یورپی غلام۔

ان مقبوضہ ملکوں اور ان کی عوام کے ساتھ یہی ان کا فلسفہ اور طرزِ عمل ہے تو کیا یہ ظالم وحشی درندے صہیونیوں کو ان جرائم سے روکنے کی کوشش کر سکتے ہیں؟

ان اقوام میں کوئی انسانیت نام کے اصول ہیں نہ ضابطے…… ان کے تمام تر اقدامات اور سرگرمیاں درندوں جیسی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُوْنَ اَوْ يَعْقِلُوْنَ اِنْ هُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ سَبِيْلًا. (الفرقان: 44)

’’یا تمہارا خیال یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں ؟ نہیں ! ان کی مثال تو بس چار پاؤں کے جانوروں کی سی ہے، بلکہ یہ ان سے زیادہ راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ ‘‘

جہاں تک عرب اور دیگر مسلم حکمران ہیں تو وہ اپنی فطرت کے مطابق اپنے اوپر عائد فریضہ سے چشم پوشی اور راہ فرار اختیار کر رہے رہیں۔ کیا غزہ میں جاری بمباری، قطر میں موجود امریکی اڈے عدید سے نہیں ہو رہی……؟ کیا اس تمام تر تباہی کا گولہ بارود ترکی کے امریکی فوجی اڈے انجرلیک اور سعودیہ، امارات کے اسلحہ خانوں سے نہیں پہنچ رہا……؟ ابھی بھی ترکی حکومت یہود کی تمام تر ضروریات چاہے وہ ملبوسات ہوں یا خوراکی مواد اور دیگر ضروریاتِ زندگی پوری تندہی سے پوری کر رہی ہے۔

ایک طرف تو یہ پالیسی ہے جبکہ دوسری جانب مگرمچھ کے آنسو بہا کر جلسے جلوس اور مظاہروں میں اسرائیل کے خلاف لمبے لمبے بیانات داغے جا رہے ہیں۔ مظاہرے تو عوام کی طرف سے کیے جاتے ہیں تاکہ اپنی حکومت کو ضروری اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا جائے، نہ کہ حکومتیں، حکومت بھی وہ جو غزہ کے مجاہدین کو اکیلا چھوڑےہوئے ہے، دوسری طرف یہودیوں کو مسلسل ضروریاتِ زندگی پہنچائی جا رہی ہیں۔ کیا ایسی حکومت سے توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ مجاہدین سے تعاون کرے؟ یا سفیروں کو ملک بدر کرے؟ یا سفارتی تعلقات منقطع کرے؟ ایسی حکومتوں کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

میں نے اپنے بھائیوں کو اپنے لیے ڈھال جانا
ہاں وہ تھے مگر دشمنوں کے لیے
میں نے انہیں قاتل تیر سمجھا
ایسے ہی تھے مگر میری جان کے لیے
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم جہدِ مسلسل میں ہیں
میں نے کہا: جی ہاں! میری تباہی کے واسطے

عسکری اور اسٹریٹجک اعتبار سے مجاہدینِ فلسطین اخلاقی میدان میں فاتح بن کر ظاہر ہوئے ہیں۔ اس اخلاقی جنگ میں ساری دنیا نے متعصب مغربی صہیونی دجالوں کا قبیح چہرہ بخوبی دیکھ لیا کہ ان کے تمام نشریاتی اداروں نے کیسے انسانیت کی دھجیاں اڑائیں، اپنے تئیں لگائے جانے والے انسانی، نسوانی، حیوانی اور بچوں کے حقوق کا پول اپنے ہاتھوں کھول دیا۔ اس دوران غیر جانبدار میڈیا کے ذریعہ ہر عام و خاص کو پتہ چلا کہ مغرب نے اپنے عوام اور تمام دنیا کو کیسے جھوٹے پروپیگنڈوں کے ذریعے اپنا ہمنوا بنایا ہو اہے…… کیسے مغربی میڈیا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے…… یہ تو بالکل ابتدائی اور سطحی ذرائع سے علم میں آیا…… جہاں تک اندرونِ خانہ منصوبے اور حقائق ہیں وہ اس سے کافی زیادہ ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی عبادت گاہ2 میں جب تمام دنیا کی طرف سے اسرائیلی وحشت و درندگی بند کرنے کے مطالبے نے زور پکڑا تو امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اس مطالبے کو رد کرتے ہوئے اسرائیلی مظالم کی حمایت کی اور اس ظلم کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ کچھ دن بعد فرانس نے اپنے فیصلے سے رجوع اور برطانیہ نے خاموشی اختیار کر لی، مگر امریکہ اپنے فیصلے پر قائم رہا۔ وہی امریکی جو متعصب مجرمین کی اولاد، اوباش، انسانی خون کے تاجر، دنیا کے امن کو اپنے کیمیاوی ہتھیاروں اور بموں سے سبوتاژ کرنے والے وحشی درندے ہیں۔ اس پالیسی نے ان کے نام نہاد آزادی، انصاف، مساوات اور انسانی حقوق کے تمام نعرے خاک میں ملا کر اپنی حقیقت دنیا کو آشکارا کر دی۔ اسی بنا پر ہم ان کی طرزِ زندگی، ان کی تہذیب کے خلاف برسرپیکار ہیں تاکہ یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز آ جائیں۔ اس فیصلے کے نتیجے میں تمام مسلمان اہلِ غزہ کے ساتھ کھڑے ہو گئے، سوائے معدودے چند یہود نواز سیاسی اور صحافتی افراد کے جن کا اوڑھنا بچھونا ہی مغرب کی کاسہ لیسی ہے۔

۷ اکتوبر کے معرکے میں مجاہدین کا اہم ہدف3 فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے نکالنا تھا، دوسرا یہ کہ میڈیا پر اس کارروائی کو صحیح یا غلط قرار دیے بغیر اپنے اہداف تک پہنچنا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تمام تر معاملات پیچھے رہے گئے اور جنگ کے تمام فوائد مجاہدین کے حق میں تمام ہوئے، خصوصاً دنیا پر مجاہدین کی جنگی اخلاقیات کی پاسداری کا سکہ بیٹھ گیا۔ اس کے بعد دشمن اپنے حلیفوں کے ساتھ مجاہدین کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو بے چین ہو گیا اور اس مرحلے کا اختتام اس بات پر ہوا کہ مکمل جنگ بندی، فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور مسجدِ اقصیٰ سے متعلق آئے روز ہونے والے بےحرمتی کے خاتمے تک مجاہدین کے ہاتھوں قید کسی بھی اسرائیلی کو رِہا نہیں کیا جائے گا۔

جہاں تک تباہی کی بات ہے تو اس حوالے سےیہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آئے روز کی ذلت، موت کے خوف اور دین کے متعلق دل آزاری کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔

مجاہدین بارہا اس بات پر زور دے رہیں ہیں کہ اس جھگڑے کا حل مذاکرات ہیں نہ کہ عسکری کارروائیاں……کیا مجاہدین اپنے اس مطالبے میں کامیاب ہو سکیں گے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ یہودی قوم تحریف شدہ تورات کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ عرب خصوصاً اہلِ فلسطین کو ختم کرنے، ان کو نیست و نابود کرنے کو اپنا فرضِ منصبی سمجھتی ہے، یہود اپنی حکومت کے ساتھ اہلِ غزہ کی تباہی میں برابر کے شریک ہیں، جیسا کہ خبیث لیند سی جراہم کیونکہ بقول رکن امریکی کانگریس لیندسی جراہم : ’’یہ مذہب اور عقیدے کی جنگ ہے‘‘۔ نیتن یاہو کی حکومت ختم کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آئندہ حکومت مسلمانوں کی خیرخواہ ہوگی۔ کیونکہ یہود کی پوری تاریخ وحشت و درندگی سے عبارت ہے۔ تاریخ میں ایسی کون سی یہودی حکومت رہی ہے جو مسلمانوں کی ہمدرد اور خیر خواہ تھی؟

بائیڈن کی نیتن یاہو سے ناراضگی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ صہیونیت کے خلاف ہے کیونکہ وہ تو ان کا فرمانبردار، ان کے مفادات کا پاسدار اور ان کا غلام ابن غلام ہے، ذاتی اختلافات اس حوالے سے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ نیتن یاہو ان کے لیے اب ایک ناکارہ جوتے کی مانند ہے جس سے استفادہ ممکن نہیں۔ اب یہ چاہتے ہیں کہ اس پر جنگ چھیڑنے کا الزام لگا کر جان چھڑا لیں کیونکہ نیتن یاہواس جنگ میں بری طرح ناکام ہوا ہے، اپنے قیدیوں کو نکالنے میں ناکامی، فلسطینی قیدیوں سے انسانیت سوز سلوک، غزہ میں وحشت و بربریت کا انتہا کو پہنچنا جس کی وجہ سے اس نے اپنے آپ اور اپنے آقاؤں کو اپنی عوام کے سامنے شرمندہ کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس جنگ کا ہدف اپنے قیدیوں کو رہا کروانا ہے تو پھر اتنے بڑے پیمانے پر بمباری اور آپریشن کا کیا مقصد……؟ بستیوں کی بستیاں ملیامیٹ کرنے کا کیا ہدف ہے ……؟ اتنے بڑے پیمانے پر بمباریاں، ہلاکتیں…… اس سب کے باوجود یہودی اپنے اہداف میں کامیاب ہو سکے ہیں؟ کیا وہ مزعومہ کامیابی حاصل کر پائے جو حقیقت میں انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے؟

کیا فلسطینیوں کی نسل کشی سے مستقبل میں خطہ پُرامن رہ سکتا ہے؟ کیا اس ظلم کے نتیجے میں مسلمان صہیونی یہودی وائرس کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے منظم،ہمہ جہت اور فیصلہ کن تیاریاں نہیں کریں گے؟

درج بالا اور دیگر بہت سے سوالات ہیں جو آئندہ حالات کا نقشہ پیش کرتے ہیں کہ سرزمینِ انبیاء (مشرقِ وسطیٰ) میں یہود کو ختم کیے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا ، یہ ایک اٹل فیصلہ ہے۔ اس حوالے سے مسلمان یہود اور عیسائی ، تمام ادیانِ سماویہ کے ماننے والے اس فیصلہ کن مرحلہ کو اپنے عقیدے کا حصہ گردانتے ہیں۔ آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ مستقبل کی جنگوں کا پیش خیمہ ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَجَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا۝اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا فَاِذَا جَاءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْءٗا وُجُوْهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّلِيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا۝ (الإسراء: 6-7)

’’پھر ہم نے تمہیں یہ موقع دیا کہ تم پلٹ کر ان پر غالب آؤ، اور تمہارے مال و دولت اور اولاد میں اضافہ کیا، اور تمہاری نفری پہلے سے زیادہ بڑھا دی۔ اگر تم اچھے کام کرو گے تو اپنے ہی فائدے کے لیے کرو گے، اور برے کام کرو گے تو بھی وہ تمہارے لیے ہی برا ہوگا۔ چنانچہ جب دوسرے واقعے کی میعاد آئی (تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کردیا) تاکہ وہ تمہارے چہروں کو بگاڑ ڈالیں، اور تاکہ وہ مسجد میں اسی طرح داخل ہوں جیسے پہلے لوگ داخل ہوئے تھے، اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے، اس کو تہس نہس کر کے رکھ دیں۔‘‘

امام بخاریؒ نے اپنی کتاب صحیح الجامع میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل کی ہے کہ کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا الْيَهُودَ حَتَّى يَقُولَ الْحَجَرُ وَرَاءَهُ الْيَهُودِيُّ يَا مُسْلِمُ هَذَا يَهُودِيٌّ وَرَائِي فَاقْتُلْهُ.

’’ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم یہود سے جنگ نہ کر لو، اس دوران پتھر بھی پکاریں گے، اے مسلم! میری اوٹ میں یہودی چھپا ہے، اسے قتل کر ڈالو۔‘‘

عالمی صہیونی تحریک کے حوالے سے خوب جان لیں کہ وہ جنگ، قتل اور اپنے دشمنوں کو تہِ تیغ کرنے سے کبھی بھی نہ رکیں گے یہاں تک کہ انہیں اپنا باج گزار غلام نہ بنا لیں۔ آج اگر غزہ کی باری ہے جسے مسلم حکمرانوں نے اکیلا بے سروسامان دشمن کے مقابل چھوڑ دیا ہے تو کل دیگر خطوں کی باری ہوگی۔ اس موقع پر ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے میں مختلف محاذ کھول دیں تاکہ ان کی توانائیاں منتشر ہو کر ضائع ہو جائیں اور انہیں ایک گوریلا جنگ میں پھنسا دیں۔ نہ یہ کہ ہم پر یہ مقولہ ثابت ہو: ’’پھر پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا ں چگ گئیں کھیت‘‘۔

جو لوگ حکمت اور مصلحت کے نعرے لگا رہے ہیں، وہ اپنے گھروں تک جنگ کے شعلے پہنچنے کے منتظر ہیں، یقیناً وہ خسارے میں ہیں۔ باقی رہے ہمارے حکمران تو ان کا انجام دنیا اور آخرت دونوں میں بد سے بدترین ہوگا۔

نشریاتی اداروں کا چہرہ

متعصب صہیونی حکومت نے دونوں اطراف سے رہائی پانے والے قیدیوں اور ان کے اہلِ خانہ کے نشریاتی اداروں کو دیے گئے بیانات اور انٹرویو شائع کرنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ لیکن مجاہدین کے اہل خانہ نے اپنے قیدیوں کی رہائی پر تقریبات بھی منائی اور کھل کر ذرائع ابلاغ کو اپنے اوپر روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کا ذکر بھی کیا۔ رشتہ داروں کی رہائی پر اہل خانہ نے مجاہدین کا شکریہ ادا کیا۔ دوسری جانب یہودی قیدیوں کے اہل خانہ نے تقریبات منائی نہ ہی ذرائع ابلاغ کو بیانات دیے، کیونکہ انہیں ہمارے اخلاق اور حسن سلوک سے ڈر لگتا ہے۔ ہم صہیونی حکومت کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ رِہا ہونے والے اپنے یہودیوں کو کھل کر میڈیا پر آنے دیں تاکہ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی اور تمام عالم کو حق و باطل کا پتہ چل جائے۔

اس کے باوجود یہودی دجالی میڈیا نے دھڑلے سے قیدیوں کی وکالت کرتے ہوئے، یہودی عورتوں کی ۷ اکتوبر کو مجاہدین کے ہاتھوں اغوا کی بے بنیاد خبریں نشر کیں۔ اس طوفانی یلغار میں جب مجاہدین اپنے رب سے فتح یا شہادت کی دعائیں مانگ رہے تھے اور ایک گھمسان کی جنگ کا نظارہ پوری دنیا نے دیکھا۔ کیا ایسے میں ممکن ہے کہ مجاہدین عورتوں کے اغوا کے متعلق سوچ سکیں؟

سوشل میڈیا اور خود صہیونی چینلز پر ہونے والے پروگرام اور مباحثوں میں خود یہودیوں نے اپنے مکروہ چہرے سے نقاب اتار دیا ہے۔ مزید برآں آزاد سوشل میڈیا اور مسلمانانِ عالم نے اپنے اپنے حلقہ احباب اور ذرائع ابلاغ میں جلتی پر تیل کا کام کیا، جو آنے والے دنوں میں یہودیوں کے لیے وبالِ جان اور مسلمانوں کو مسجد ِ اقصیٰ کی حفاظت کے لیے مہمیز فراہم کرے گا۔ اس پورے سرکل نے عالمی میڈیا کو بھی صہیونیوں کے خلاف کر دیا۔

صیہونیوں نے اپنے کالے کرتوتوں سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ انسانی جسم میں ایک ناسور کی مانند ہیں جس کا قلع قمع کرنا اور صفحۂ ہستی سے مٹانا ازحد ضروری ہے۔ ہٹلر نے جو کچھ بھی ان کے ساتھ کیا آج اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان کے خبثِ باطن اور بدکرداری سے با خبر تھا، کاش کہ وہ ان کی جڑ ہی کاٹ ڈالتا۔

نازی جرمنی اور ہٹلر کی جانب سے صہیونیوں پر روا رکھے جانے والے سلوک بلکہ پوری تاریخِ انسانی میں جو تعامل ان کے ساتھ ہوا یہ لوگ بالکل اس کے مستحق تھے بلکہ اس سے زیادہ کے۔ آج صہیونیوں (امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی، جرمنی) نے اپنے مظالم اور شرمناک کردار سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ انسان نما درندے ہیں جو دوسرے کے خون کے پیاسے اور غیروں کے وسائل پر قابض ہیں۔ پوری دنیا پر قبضہ کر کے ان کے دنیا اور دین کو تباہ کر دیا۔ یہ قوتیں اپنی امدادبھی اپنے مقاصد جیسے مقبوضہ ملکوں کی عوام کو غلام اور اپنا دست نگر بنانے، ان کے وسائل کو ہڑپ کرنے، ان کی تہذیب و تمدن کو تہ و بالا کرنے، الحاد و بے حیائی کو فروغ دینے، معاشرے کو مادر پدر آزاد بنانے کے لیے دیتی ہیں۔ جان لیجیےکہ یہ قوتیں جسمانی اور روحانی ہر اعتبار سے انسانیت کی قاتل ہیں۔ اس (صہیونی) گروہ میں شامل ہونے کے لیے یہودی ہونا ضروری نہیں، کیونکہ صہیونیت ایک عالمگیر سوچ اور فکر کا نام ہے، جس میں بائیڈن جیسے یورپی و امریکی اور دیگر بین الاقوامی احمق شامل ہو سکتے ہیں۔

مجاہدینِ اسلام نے اپنی حقیقت اور حقانیت پوری دنیا کو آشکارا کر دی ہے اور ان سے متعلق پھیلائے گئے تمام شکوک و شبہات ریت کا ڈھیر ثابت ہوئے ہیں۔ مجاہدین نے اپنے اور امت مسلمہ کے مابین بوئے گئے نفرت کے بیج جڑ سے اکھاڑ پھینکے ہیں۔ کتنے ہی قیدی مجاہدین کے ہاتھوں ان کے حسنِ سلوک کے سبب اسلام قبول کر چکے ہیں۔ باقی رہا صہیونیوں کا معاملہ تو یہ فقط آج جھوٹے دجال اور فریب کار کے مترادف ٹھہر چکا ہے۔

یہ ہے اس پورے معاملے کا نچوڑ اور لب لباب! ہم مسلمان پورے عالم کی ہدایت، امن اور سلامتی کےخواہاں ہیں اور یہ امتیاز پوری تاریخ انسانی میں سوائے مسلمانوں کے اور کسی کے پاس نہیں۔ کیونکہ مسلمانوں کا مقصدِ اصلی اللہ کی رضا ہوتی ہے، اسی لیے ہم آج کل کے رائج مفادات اور مصلحتوں کو نظر انداز کر کے انسان اور انسانیت کے خیر خواہ ہیں۔

٭٭٭٭٭


1 عَنْ أَبِي مُوسَی عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فُکُّوا الْعَانِيَ وَأَجِيبُوا الدَّاعِيَ وَعُودُوا الْمَرِيضَ

2 مجاہدین کے نزدیک اس ادارے اور اس کی ذیلی شاخوں کی کوئی حیثیت نہیں، ہم تو ان سرکشوں کو انہی کے بنائےہوئے قوانین اور عدالتوں میں، ان ہی کے دینِ جدید جمہوریت کے تناظر میں پیش کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا اپنا من گھڑت دین اس حوالے سےکیا رہنمائی کرتا ہے۔ یہ وہ دین ہے جس میں اقدار ہیں نہ اخلاقیات نام کی کوئی چیز، اس کا مقصد استعمار کے مقبوضہ ملکوں کی عوام کو غلام بنانا، ان کا استحصال ، ان کے حقوق چھیننے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ عالمی ادارہ کبھی بھی خود مختار فیصلے نہیں کر سکتا الا یہ کہ اس کے تمام ارکان کو مساوی حقوق حاصل ہو جائیں اور یہ تب ہو سکتا ہے جب ویٹو کا حق ختم کر دیا جائے۔ اور اگر ایسا ہوا بھی تو تمام ایٹمی ممالک اس کی رکنیت سے نکل جائیں گے اور یہ ادارہ برائے نام ہی رہ جائے گا کیوں کہ ہر وہ معاہدہ جس میں ان کی ترقی یافتہ ایٹمی ممالک کو امتیاز حاصل نہ ہو، یہ ممالک کبھی بھی اس کا حصہ نہیں بن سکتے۔

3 جنگ کی اسٹریٹجی میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں، مگر مرحلہ وار اہداف میں ضروری ہے کہ اس حوالے سے خوب سوچ بچار اور غور وخوض سے کام لیا جائے، اس لیے اس باب میں بہتر مشورہ دینا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے کہتا ہوں کہ مکمل فلسطین کی آزادی کے لیے اہداف متعین کیے جائیں نہ کہ اضافی اور مقاصدِ حقیقی سے ہٹ کر دیگر امور کو زیرِ نظر رکھا جائے۔ کیونکہ صہیونی دشمن کی مکاری، غدر و خیانت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ دشمن صرف قوت اور طاقت کی زبان سمجھتا ہے، یہ اپنے سے طاقتور قوت کے سامنے جھکتا ہے اور بس۔ باقی ۷ اکتوبر کے تمام کارنامے بلا اختلاف محمود اور مطلوب تھے، ہیں اور رہیں گے۔ جہاں تک مجاہدین کی استطاعت تھی، انہوں نے بے دریغ قربانی دی۔ اللہ کے یہاں بھی اپنی استطاعت سے بڑھ کر کچھ نہ کرنے پر معذور و ماجور ہیں، انہوں نے اقصیٰ کی حفاظت میں بالکل بھی سستی و لاپروائی نہیں دکھائی اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانیاں، شہادتیں اپنی بارگاہ میں قبول فرما کر اس کا بہترین نعم البدل عطا فرمائے۔ مجھے امید ہے کہ ان کی تمام تر کارروائیاں جنگی اخلاقیات کے دائرے میں اور فلسطین کی حقیقی آزادی کے لیے سنگِ میل ثابت ہوں گی۔

Previous Post

پیامِ غزّہ: تصویر کے دو رُخ

Next Post

اپریل و مئی 2024ء

Related Posts

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

کوئی غنڈہ اپنے بل پر غنڈہ نہیں ہوتا

13 اگست 2025
غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!
طوفان الأقصی

غزہ: خاموشی جرم میں شرکت ہے!

13 اگست 2025
مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!
طوفان الأقصی

مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!

13 اگست 2025
فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت
طوفان الأقصی

فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت

13 اگست 2025
اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل
طوفان الأقصی

اہلیانِ غزہ کی فوری مدد کے لیے ہنگامی اپیل

13 اگست 2025
طوفان الأقصی

قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان – مراکش

12 اگست 2025
Next Post

اپریل و مئی 2024ء

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version