جس نے سورج کو مشرق سے نکالا اور مغرب میں غروب کیا، جو دنیا کو سورج کے گرد، چاند کو دنیا کے گرد اور نظامِ شمسی کو ہماری کہکشاں میں اور کہکشاں کو کائنات میں، ہر ہر شے کو اس کے اپنے اپنے مدار و محور میں گھما رہا ہے، ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ جس نے بہار سے گرمی پیدا کی اور گرمی سے خزاں اور خزاں سے سردی اور سردی سے پھر بہار کو لایا، ہم اسی کے بندے ہیں۔ جس نے عظیم ترین فضل و احسان یہ فرمایا کہ بہکتے بھٹکتے لوگوں کو صراطِ مستقیم کا پتہ اپنے محبوبؐ کے ذریعے بخشا اور پھر اپنے حبیب کی محبت کو عام فرما دیا، ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔
اور لاکھوں درود و سلام ہوں، ہمارے دلوں کی دھڑکن، آنکھوں کا نور و ٹھنڈک، ہمارے شافع و حبیب پر، اس ذاتِ اطہر پر کہ جن کے نام کے بارے میں کسی اللہ والے نے کہا کہ ’نامِ محمد زبان و دل سے ادا کرنے پر لب بھی مل جاتے ہیں اور ربّ بھی مل جاتا ہے‘، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
اللهم أصلح لنا ديننا الذي هو عصمة أمرنا وأصلح لنا دنيانا التي فيها معاشنا وأصلح لنا آخرتنا التي فيها معادنا واجعل الحياة زيادةً لنا في كل خير واجعل الموت راحة لنا من كل شر، آمین!
الحمد للہ لِرَبِّ الکعبۃ المشرفۃ
ہم اپنے رب کے بندے ہیں تو حرم سے بہت دور، لیکن دل ہم گنہگاروں کاوہیں اٹکا رہتا ہے۔ یقیناً کورونا کی وبا خطرناک بھی تھی اور شرعاً بھی اس کے سبب احتیاط لازم تھی، لیکن کورونا کی آڑ میں دشمنانِ حرم نے کعبۃ اللہ اور مسجد الحرام کو بند کر رکھا تھا جب کہ سینما گھر کھول دیے گئے تھے ۔ سبھی اہلِ ایمان کے دل حرم کے صحن کی ویرانی دیکھ کر سخت دکھی تھے اور آنکھیں بہتی تھیں۔
اللہ کا فضلِ محض اور احسانِ عظیم ہے کہ اس نے اپنی رحمت و کرم سے اور عاطفت و مہربانی سے اپنے کعبے کے دروازے پھر اپنے نبی کی امت پر کھول دیے ہیں، صلی اللہ وسلم علیٰ حبیبنا وقرۃ أعیننا محمد۔ کروڑوں اہلِ ایمان کی آنکھیں کعبے کے گرد صفیں باندھے اہلِ ایمان کو دیکھ کر جذبۂ شکر سے بھیگ گئی ہیں۔
یا اللہ تو نے حرم کو جہاں عابدوں سے آباد کیا ہے وہیں اس کی حفاظت کے لیے مچلتے مجاہدوں کو بھی اس کی پہریداری پر مامور کر دے تاکہ تیرے حرم سے چند کلومیٹر دور جو امریکی صلیبی اس کو گھیرے ہوئےہیں ، یہ مجاہد ان کو بھگا سکیں۔ آمین یا ربّ العالمین!
لقد جئناکم بالذبح!
عنوان سخت ہے، لیکن جس بارے میں ہے وہاں اس سے زیادہ سخت ظلم و عدوان کیا گیا ہے۔ عنوان بھی دراصل حدیثِ نبوی (صلی اللہ ولیہ وسلم)سے اخذ کردہ ہے۔ جب کفارِ قریش کا کفر و فسادحد سے گزرا تو حضور علیہ الصلاۃ والتسلیم نے ایک دن کفارِ قریش سے فرمایا ’’لقد جئتکم بالذبح‘‘، ’بلا شبہ میں تمہیں ذبح کرنے کے لیے آیا ہوں‘۔
محمد بن سلمان آلِ سعود نہیں مثلِ یہود بلکہ شاید بدتر از یہود نے پچھلے دو ماہ میں درج ذیل بڑے جرائم کا سعودی عرب میں ارتکاب کیا:
مشرکانہ عیسائی تہوار ’ہیلو وین (Halloween)‘ پورے سعودی عرب میں منایا گیا اور بے چارے عقل کے مارے مسلمانوں نے منہ پر شیطانی ماسک چڑھا کر اور عیسائیت کے حضرتِ عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام سے منسوب جھوٹے قول کہ’اس روز اپنی شکل شیطان جیسی بناؤ تا کہ شیطان جب تمہیں بہکانے آئے تو وہ یہ دیکھ کر کہ تم خود بھی شیطان ہو تمہیں چھوڑ دے (اور نہ بہکائے)‘ پر عمل کرتے ہوئے ہیلووین سرکاری آشیرباد کے ساتھ مناتے رہے (نعوذ باللہ من ذلک)۔
۴ دسمبر ۲۰۲۱ء کو بدترین دشمنِ اسلام، رذیل ترین گستاخِ رسول اور جدید صلیبی جنگ کا ایک صلیبی سرغنہ فرانسیسی صدر میکرون سعودی عرب پہنچا اور محمد بن سلمان نے اس کا پرتپاک استقبال کیا اور شب و روز اس کے ساتھ بیتائے۔
حرمِ مکہ کے دروازے شہرِ جدہ میں ’Red Sea International Film Festival 2021‘ کا انعقاد کیا گیا جو ۶ دسمبر سے ۱۵ دسمبر ۲۰۲۱ء تک جاری رہا۔ اس فلم فیسٹیول میں دنیا جہان کی بدکاراؤں (اداکاراؤں)اور فاحشاؤں کو دعوت دی گئی اور سعودی قوم کے قومی نشان؍شعار سرخ رومال کو اوڑھے بعض (نام نہاد کلمہ گو)بدمعاش ان فاحشاؤں سے گلے ملتے دکھائی دیے۔
۶ دسمبر ۲۰۲۱ء کو سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی لگا دی گئی، سعودی عرب کے وزیرِ مذہبی امور عبد اللطیف آلِ شیخ نے بیان جاری کیا اور کہا کہ:
’’تمام مسجدوں کے خطیب ۶ جمادی الاولیٰ ۱۴۴۳ ھ کے جمعے میں لوگوں کو تبلیغی جماعت کے خطرے کے بارے میں آگاہ کریں اور خطبۂ جمعہ میں درج ذیل نقاط کو اٹھایا جائے:
اس جماعت کی گمراہی اور (دین سے)انحراف کی تفصیل بیان کی جائے، اور یہ بیان کیا جائے کہ یہ جماعت کس طرح دہشت گردی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے ،چاہے یہ (تبلیغی حضرات) بظاہر اس کے خلاف ہی دعویٰ کرتے ہیں۔
ان کی واضح ترین خطاؤں کے بارے میں بیان کیا جائے۔
معاشرے کو ان کے خطرے کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
اس بات کا اعلان کیا جائے کہ اس گروہ (تبلیغی جماعت) کے ساتھ جڑنے پر مملکتِ سعودی عرب میں پابندی ہے‘‘۔
جس دن تبلیغی جماعت پر سعودی عرب میں پابندی لگائی گئی، اسی دن مکہ معظمہ کے دروازے یعنی شہرِ جدّہ میں امریکہ میں رہائش پذیر کینیڈین عیسائی گلوکار جسٹن بیبر کا ایک ’عظیم الشان‘ کانسرٹ منعقد کیا گیا جس میں ستّر (۷۰) ہزار افراد نے شرکت کی۔
جس جمعے کے دن پورے سعودی عرب میں تبلیغی جماعت کے خلاف خطبے دیے گئے اس جمعے کی شب کو ریاض میں بالی ووڈ کے اداکار سلمان خان کے ساتھ ایک ہندو فاحشہ شلپا شیٹی نے اپنے ’فن‘ کا’مظاہرہ‘ ولی عہد محمد بن سلمان کی ’دعوت‘ پرکیا۔ نہایت نیچ ، گھٹیا اور ننگے بولوں پر ننگا ناچ جزیرۃ العرب کے مرکز میں ہوا۔
جس ہندو دیوتا رام کے نام پر ایودھیا میں ہماری مسجدِ بابری کو اسی دسمبر کے مہینے کی ۶ تاریخ کو گرا کر بعداً رام مندر تعمیر کیا گیا اسی رام کا نام لے کر ایک گانے میں فحش رقص کیا گیا۔ اور افسوس کا عالم یہ تھا کہ ’ہائے رام……‘ کا گھٹیا بول بولتے ہوئے کتنے ہی سعودی عرب کے کلمہ گو باشندوں نے سلمان خان کی آواز میں اپنی آواز ملائی اور کتنوں نے سلمان خان کی تقلید میں ’ہائے رام……‘ بکتے ہوئے ہندو مذہب میں نمسکار کے انداز میں ہاتھ جوڑے اور سر کو جھکایا، انّا للہ وانّا الیہ راجعون!1
اس ناچ گانے میں اسّی (۸۰) ہزار لڑکے لڑکیوں نے شرکت کی، جن کا کھوے سے کھوا چھل رہا تھا اور اس ’قربت‘ میں چونکہ مقصد فحاشی کا فروغ واظہار اور اللہ کے حکم سے بغاوت و انکار تھا اس لیے safe distancing کی ضرورت نہ تھی، کورونا، اس کی ڈیلٹا قسم اور اومیکرون کا کوئی خدشہ نہ تھا، قاتلھم اللہ!
ظلم فوق ظلم، ظلمات فوق ظلمات، جس وقت تحریرِ ہٰذا شائع ہونے کو جارہی ہے تو ریاض میں چار دن تک موسیقی و فحش ناچ کے فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا جس میں ساری دنیا کے مشہور ترین DJs نے میزبانی کی۔ اور اس چند سال سے برپا طوفان میں پہلی بار اہلِ اسلام کے مرکز جزیرۃ العرب کی با حجاب عورتوں کو بے حجاب نہیں چند چیتھڑوں میں لپیٹ کر، برہنہ کر کے مجمع میں جمع کیا گیا اور مردوں کے ساتھ مغربی دھنوں پر نچوایا گیا۔ اہلِ کفر کے ایک میڈیا ادارے کی خاتون صحافی نے جب اس خبر کو پیش کیا تو یہ کافر خاتون بھی حیران و ششدر تھی اور اس نے کہا:
“and let me say this upfront, you should brace yourself for what’s coming next from this story. The defacto leader of the Islamic world, the guardian of the two holiest sites in Islam, Saudi Arabia did the unexpected this weekend. It threw a giant rave party…”
’اور میں آپ کو پہلے ہی خبردار کر دوں کہ اس کہانی کی اگلی خبر سننے کے لیے تیار ہو جائیے……! زمینی حقائق کے اعتبار سے دنیائے اسلام کے بادشاہ، اسلام کی دو مقدس ترین جگہوں کے محافظ سعودی عرب نے اس ویک اینڈ (ہفتے کے اختتام پر)کچھ انتہائی غیر متوقع کر دکھایا! اس نے ناچ گانے اور شراب و موسیقی سے بھرپور ایک عظیم الشان پارٹی کا اہتمام کیا……‘‘
اے ایمان والو! اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کا دم بھرنے والو! کعبۃ اللہ کی حرمت پامال ہو رہی ہے۔ علمائے اسلام نے تو فرمایا کہ سورۃ الحجرات کی آیت ’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ ‘ کا آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی رحلت کے بعد بھی ویسا ہی اطلاق ہے، آج روضۂ رسولؐ کے پڑوس میں آوازیں اہلِ ایمان کی نہیں مشرکین کی بلند ہو رہی ہیں اور مشرکین کی فقط آوازیں نہیں ہیں گھٹیا گانوں کے بول ہیں۔ جامِ کوثر کے پیاسو! صاحبِ کوثرؐ کو تکلیف پہنچ رہی ہے! یہ کیا ہو رہا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے روضۂ اقدس میں تکلیف سے ہیں، ان کے پڑوس میں یہ فحاشی و ناچ گانا ہو رہا ہے اور لوگوں کو اصلاحِ نفس کی دعوت دینے والوں پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ اب شبِ جمعہ کو اصلاحِ احوال و اعمال کا ذکر نہیں، دعوت و تبلیغ کی ایمان افروز کارگزاریاں نہیں ، جھوٹے رام، رام مندر والے رام، بابری مسجد کے دشمن رام کے نام والے گانوں سے شبِ جمعہ برباد کی جارہی ہے۔
حرمین شریفین کی حرمت پامال ہو رہی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبۃ اللہ میں بتوں کو گرایا تھا، لات و منات کو تباہ کیا تھا آج وہاں رام و سومنات کے پجاری وہاں کے بادشاہ کی دعوت پر پہنچ گئے۔
مسلمانو! اگر دل میں کچھ باقی ہے تو سنو اللہ کا قرآن پوچھ رہا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پوچھ رہا ہے، اللہ کا کعبہ پکار رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے سے آواز آ رہی ہے، من انصاری الی اللہ؟!
مسلمانو! جواب دو! کہو: نحن انصار اللہ! کہو نحن انصار رسول اللہ!
مسلمانو! جن گستاخوں، کافروں اور کافروں کے ٹوڈیوں، غلاموں، دم چھلوں اور کاسہ لیسوں نے وطنِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ کفر و ظلم کا ہنگامہ مچایا ہے، ان کو بتا دو کہ تم اگر اس کفر و فساد سے باز نہ آئے تو عاشقانِ مصطفیٰ کا اعلان سن لو: ’’لقد جئناکم بالذبح‘‘، ’بلا شبہ ہم تمہیں ذبح کرنے کے لیے آ رہے ہیں‘۔ اور اس اعلان کو اپنے اعلانوں کی طرح نہ لینا، ہم یہ اعلان کلاشن کوفوں کے قبضوں کو اپنے ہاتھوں میں کس کر کر رہے ہیں!
کشمیر سے دہلی تک، یہ ملک ہمارا ہے!
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ۲۰۲۱ء میں، پاکستان نے انڈیا کے مقابلے میں کرکٹ میچ جیتا۔ کرکٹ میچوں میں ہار جیت کا تعلق حقیقی زندگی جیتے حقیقی لوگوں سے کم کم ہی ہوتا ہے، خصوصاً آج کی ’کیپٹل اسٹ‘دنیا میں۔کرکٹ میں فتح یا شکست سے عسکری تو دور کی بات، سیاسی بلکہ سفارتی میدانوں میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن بہر حال کرکٹ آج کی دنیا کا بڑا موضوع ہے اور اس موضوع کے ذیل میں بہت کچھ سمجھا جا سکتا ہے۔ ہندوستان پاکستان کا کرکٹ میچ بھی بہت سے اسباق لیے ہوئے ہے۔
اودے پور، راجستھان کے ایک پرائیویٹ سکول کی مسلمان خاتون ٹیچر نے اپنے پرائیویٹ واٹس ایپ نمبر پر ’ہم جیت گئے‘ کا ’پرائیویٹ‘ سٹیٹس لگایا تو انہیں نوکری سے نکال دیا گیا اور انڈین پینل کوڈ کی ایک شق کے مطابق ’انتشار پھیلانے‘ کا پرچہ کاٹ دیا گیا۔ بعد میں یہ بے چاری خاتون ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے نظر آئی۔
آگرہ، یو پی کے انجنیئرنگ و ٹیکنالوجی کالج کے سات نوجوانوں کو کرکٹ میں پاکستانی حمایت (support) کے جرم میں دھر لیا گیا ، جن میں تین کشمیری ہیں اور ان تینوں کو کالج سے نکال (expel کر) دیا گیا ہے۔
سری نگر، کشمیر میں ایک میڈیکل کالج کی طالبات نے پاکستان کے حق میں والہانہ نعرے لگائے ، ڈاؤن ٹاؤن اور اولڈ ٹاؤن سری نگر میں کچھ نوجوانوں نے پاکستان کے میچ جیتنے کی خوشی میں ایک ریلی نکالی، ان میں سے اکثر حوالات میں بند ہیں اور ان کے خلاف کہیں انتشار پھیلانے اور کہیں غداری اور بغاوت کے پرچے کاٹے گئے ہیں ۔
درج بالا جرائم اور ان پر درج کیے گئے مقدمات کا نتیجہ تاحیات عمر قید بھی ہو سکتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے مسلمان کھلاڑی محمد شامی کو اس ہار کا سبب بھی بتایا گیا اور انتہائی گھٹیا قسم کی گالم گلوچ کا سامنا بھی کرنا پڑا اور وہ بھی صرف اس لیے کہ وہ ایک مسلمان ہے۔
کشمیر و ہندوستان میں ہونے والے یہ واقعات چار قسم کے لوگوں کے تین رویوں اور ایک مشکل کی نشاندہی کرتے ہیں اور آخر میں ایک مشہور حقیقت بھی دیکھتے ہیں:
کشمیری و ہندوستانی مسلمان:
جناب سیّد علی شاہ گیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’پاکستانی‘ ہونے کو جس نسبت سے بیان کیا کہ ’اسلام کی نسبت سے ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘، یہ نسبت پاکستان سے دنیا کے ہر مسلمان کو ہے۔ اقبالؒ نے ایسی ہی نسبت اپنے درجنوں اشعار میں بیان کی ہے اور یہی نسبت اگر حاصل ہو رہے تو نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر ایک ہی امت ہے، ایک ہی قوم ہے اور سارا ہی اسلامی جغرافیہ پاکستان ۔
چوہتّر برس قبل جس لاالٰہ الا اللہ سے نسبت جوڑی گئی تھی اسی نسبت کا جدید زمانے میں ایک اظہار پاکستان کے کرکٹ میچ جیتنے کی صورت میں اہلِ ہند و کشمیر کے یہاں نظر آیا۔
ہندوستان و کشمیر کے باشندے آج بھی اسی لا الٰہ الا اللہ کے بندھن میں جڑے ہوئے ہیں اور اس پاکستان (بمعنیٰ ریاست و حکومت نہیں) سے اپنی محبت کا اظہار کر رہے ہیں جس کے اداروں نے ان کو غداری کے سوا کبھی کچھ نہیں دیا۔ بلکہ ان اداروں نے تو اپنا ہی جسم دو لخت کیا اور مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کو ہندوؤں اور ہندو نواز عوامی لیگ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، باقیوں کا تو قصہ ہی کیا؟
گھس بیٹھیے سے دفعہ 370 کے خاتمے اور این آرسی جیسے ہتھکنڈوں کے بعد بھی کشمیر و ہند میں بلند ہوتے ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے ان کے جذبۂ ایمانی کی دلیل ہیں۔
حکومت و ریاستِ ہند:
دوسرا گروہ حکومت و ریاست ہند کا ہے، وہاں کے اداروں کا۔ ان کا چہرہ کسی نقاب میں چھپا ہوا نہیں ہے۔ وہ اینٹی مسلم ہیں اور پاکستان کو جو نسبت (عوام اور نام کی حد تک)اسلام سے ہے اسی کے سبب وہ اینٹی پاکستان بھی ہیں، ورنہ بنگلہ دیش میں بھی تقریباً سولہ کروڑ لوگ مسلمان ہیں لیکن وہاں کا ریاستی مذہب و بیانیہ چونکہ روزِ اول سے وطنیت و سیکولرازم ہے تو یہی بنگلہ دیش (دھونس کے ذریعے) ہندُتوائی بھارتی ریاست کا درجہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
تیسرا گروہ پاکستان کی حکومت اور اداروں کا ہے، جن کی کشمیریوں سے خیانت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اور جن کا اندر باہر منافق ہے۔ مسئلۂ کشمیر اور کشمیر کے کے مسلمانوں کی عزت اور جان و مال کی ان کے یہاں قدر کا اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر کی قائمہ کمیٹی کا سربراہ لاابالی پن اور دروغ گوئی میں شہیر شہریار آفریدی ہے ،وزیرِ امور کشمیر ’شہد خوار‘ علی امین گنڈا پور۔
چوتھی مشکل کشمیر و ہند کے مسلمانوں کی ہے کہ ان کی زبان سے حمایتِ اسلام یا حمایتِ پاکستان بنسبتِ اسلام کوئی لفظ نکلتا نہیں کہ ہندُتوا دہشت گرد یوگی ادتیا ناتھ سے سدھارتھ ناتھ سنگھ اور امت شا تک سبھی پہلے سے کمین لگائے بیٹھے ہوتے ہیں اور مسلمانانِ ہند و کشمیر کو اپنی جان و عزت اور مال و روزگار کی حفاظت کے لیے طرح طرح کے جتن نہایت ذلت کے ساتھ کرنا پڑتے ہیں۔
مشہور حقیقت یہ ہے کہ برطانوی انگلش پریمئر لیگ کی آرسنل، مانچسٹر یونائیٹڈ، چیلسی، لِوَر پُول…… ہسپانوی لا لِیگا کی بارسالونا، رئیل میڈریڈ، ویلنشیا، سیولیا (جو کبھی اشبیلیہ ہوتا تھا)…… اور ہندوستان کی انڈین پریمئر لیگ کی چینئی، ممبئی، دہلی، پنجاب و کلکتے کی ٹیموں کو، پاکستان سپر لیگ کی ٹیموں بلکہ اب تو کشمیر پریمئر لیگ تک کی ٹیموں کو بھی ساری دنیا کے لوگ (internationally)سپورٹ کرتے ہیں2 اور ان کے فین کلبز کا حصہ ہوتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ کھیل کو کھیل کے طور پر لیا جائے، لیکن یہی کھیل جب ہندوستان پہنچتا ہے تو واجپائی سے مودی تک کی وحشت کا شکار ہو جاتا ہے؟!
سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کا قتل
اس واقعے کے دو پہلو ہیں:
قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ سری لنکن شہری کو گستاخی کے جرم کے سبب قتل نہیں کیا گیا بلکہ اس کے قتل کا سبب کوئی ذاتی رنجش تھی اور اس ذاتی انتقام کے لیے اس کو قتل کیا گیا اور پھر جلایا گیا اور اس سب کو جواز بخشنے کے لیے بعض ظالموں نے اہانتِ انبیا علیہم السلام سے جوڑ دیا۔ ناحق قتل جہاں بھی اور جس صورت میں بھی اور جس طرح بھی ہو وہ قابلِ مذمت ہے۔ اس واقعے کی مذمت تمام اہلِ دین کے تمام مکاتبِ فکر نے کی۔
دوسرا پہلو ان لادینوں کا ہے جنہوں نے اس واقعے کو فوراً اٹھایا اور فوراً قانونِ توہینِ رسالت کے خلاف بات کرنے لگے اور صحافی سلیم صافی نے اس سیکولر فکر اور قانونِ توہینِ رسالت کو ختم کرنے کے سیکولر و لادین مطالبے کو ’دین‘ کا تڑکا لگانے کی کوشش کی اور یہ ساتھ میں کہا کہ جو توہینِ رسالت کا جھوٹا الزام لگائے تو اس پر ’قذف‘ کا اطلاق ہونا چاہیے، جس کا جواب حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب (حفظہ اللہ) نے شریعت کی روشنی میں دیا ۔
کہا جاتا ہے کہ قانونِ توہینِ رسالت کو غلط استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا اس کو ختم کیا جائے (یا جیسے سلیم صافی نے شریعت و فہمِ غامدی کی روشنی میں تڑکا لگانے کی کوشش کی)۔ اس کا جائزہ ذرا ’سیکولر‘ بنیادوں پر ہی لیتے ہیں۔ یہ بتایا جائے کہ آج تک کتنے توہینِ رسالت کے مرتکب لوگوں کو آئینِ پاکستان کے اس قانون کے تحت سزا دی گئی ہے؟ ہاں یہ مثال ضرور موجود ہے کہ گستاخِ رسول کے قاتل (ممتاز قادری) کو اس آئین کے تحت ضرور سزا دی گئی ہے۔ پاکستان کے آئین کے سیکڑوں قوانین کو چوکوں چوراہوں پر کھڑے پولیس والوں سے لے کر آرمی چیف و صدر و وزیرِ اعظم غلط استعمال کرتے ہیں، نیب کے تحت کتنوں کو ’ناحق‘ سزا دی جاتی ہے تو کیا کبھی ان قوانین کو ختم کرنے کی بات کی گئی ہے یا وہاں rule of law وغیرہ کے منجن بیچے جاتے ہیں؟ دراصل یہ سیکولر لوگ دین دشمن اور پیغمبرِ دین (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دشمن ہیں اور ان کی تان اگر کہیں ٹوٹتی ہے تو اس نکتے پرکہ اسلامی شقیں ختم کر دی جائیں، حدود ختم کر دی جائیں اور یہ قوانین پہلے ہی یا تو لولے لنگڑے ہیں یا ان کا اطلاق ممکن ہی نہیں اور ممکن ہے تو کبھی ہوا ہی نہیں۔ کسی نے صحیح ہی پوچھا تھا کہ یہ سیکولر ہیں یا منافق؟
٭٭٭٭٭
1 اپنی حیا کے سبب ہم قاصر ہیں کہ گانے کا وہ گھٹیا بول یہاں تحریر کریں!
2 ان ٹیموں کے ذکر کا مطلب ہمارا ان کو سپورٹ کرنا قطعاً نہیں!