زیرِ نظر مقالہ سقوطِ ڈھاکہ کے موقع پر مولانا سید حامد میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مجلے انوارِ مدینہ میں بطورِ اداریہ سپردِ قلم کیا تھا۔ (ادارہ)
گزشتہ ایک ہی مہینہ میں ملک جس بھیانک دور سے گزرا ہے اس کے بارے میں جتنا بھی افسوس کیا جائے بجا ہوگا۔ یہ حادثۂ عظیمہ ایک درسِ عبرت ہے کہ اگر اللہ پر بھروسہ نہ ہو تو کتنی بھی بڑی طاقت کیوں نہ ہو بے کار جاتی ہے اور جو نقصان ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ اس دفعہ اس جرمِ غفلت میں پوری قوم ملوث تھی۔ اس لیے پوری قوم کو اس کی سزا ملی ۔ قوم نے چین پر بھروسہ کیا۔ امریکی بحری بیڑے پر نظر رکھی۔ مگر خدا کی طرف رجوع نہ ہوئی۔ لہٰذا ملک کا آدھا حصہ کٹ کر رہ گیا اور ہماری طاقت، جو پچھلی جنگ کی بنسبت کم از کم تین یا چار گنا زیادہ تھی، بے سود ثابت ہوئی۔ اللہ کا وعدہ ہے مگر نیکو کار اور اطاعت شعار مُسلمانوں سے وعدہ ہے ۔
﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾
’’ تم میں سے جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے کام کیے اُن سے اللہ نے وعدہ فرمالیا ہے کہ اُن کو ملک میں ضرور حکمران بنادے گا ۔ جیسے اُن سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ضرور اُن کے لیے ان کا دین جمادے گا جو اُن کے واسطے پسند کر دیا ہے اور اُن کو خوف کے بجائے امن دے گا۔ وہ میری بندگی کریں کسی کو میرا شریک نہ کریں گے، اور جو کوئی اُس کے بعد ناشکری کرے گا سو وہی نافرمان لوگ ہوتے ہیں۔‘‘
افسوس کہ ہمارے دل سے شرکِ خفی نہیں مٹا۔ ہم نے سامان پر بھروسہ کیا، بڑی طاقتوں پر بھروسہ کیا، عملِ صالح سے غفلت برتی، حتیٰ کہ نمازوں کی طرف بھی، جو کہ نہایت ضروری فریضہ ہے، کوئی توجہ نہیں دی۔ اس دفعہ مساجد بھی اسی طرح خالی رہیں جس طرح جنگ سے پہلے تھیں۔ سول ڈیفنس کی ٹریننگ جا بجا ہوتی رہی، اگر چہ یہ بھی اس پیمانہ پر نہ تھی کہ جس پیمانہ پر ہونی چاہیے تھی، کیونکہ ہم میں جذبۂ خدمتِ خلق وايثار کم ہوتا جا رہا ہے، لیکن سول ڈیفنس کے رضا کار جو بھی اور جتنے بھی تھے وہ بھی یادِخدا سے غافل رہتے تھے، انہوں نے نماز کے فریضے کی طرف قطعاً التفات نہ کیا۔
ظاہر ہے جب پوری قوم غفلت شعار ہو تو خدا کی رحمت بھی ہم سے رخ پھیر لے گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔
ہمارے حکام اس شرکِ خفی اور فسق و فجور میں عوام سے بہت ہی زیادہ آگے تھے۔ انہوں نے ہو سکنے والی فتح کو شکست میں بدل دیا۔ فسق و فجور کا کچھ حال تو اخبارات نے ظاہر کر ہی دیا ہے اور جو نہیں ظاہر ہوا ، اندازہ یہ ہے وہ زیادہ ہی ہو گا کم نہ ہوگا۔ صرف ذاتِ ستّار العیوب نے اس کی پردہ پوشی فرمائی ہوئی ہے۔ ہم بھی اس سے بحث نہیں کرتے۔ ہم شرکِ خفی کے نتائج بد ہی سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے وقت سب سے زیادہ کام مسلم لیگ اور علامہ عثمانی کی قائم کردہ جماعت علماء نے کیا تھا۔مسلم لیگ چند عناصر سے مرکب تھی، اس میں نواب، جاگیردار، دفتری عملے، ملازم طبقے اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ تھے۔ ان میں سے اکثر سیاست میں یا تو نا پختہ تھے یا پھر ان کے ذہن میں انگریز کی اطاعت رچی ہوئی تھی۔ ان میں حریتِ فکر کے بجائے اطاعت شعاریٔ فرنگ موجزن تھی۔ ان کے ذہن اس تمیز سے یکسر خالی تھے کہ ان کا سب سے بدترین دشمن وہی ہے جسے یہ اپنا آقا سمجھتے ہیں۔ انہیں یہ جاننا چاہیے تھا کہ یہ آقا ہم سے دشمنی رکھتا ہے۔ اگر ہم اس سے وفاداری کریں گے تو وہ اپنے مفاد کے لیے ہمیں قربانی کا بکرا بنادے گا۔ وہ صرف اپنے مفادات کو ملحوظ رکھے گا نہ کہ ہماری وفاداری کو۔
شروع میں پاکستان کے حکمران بہتر رہے،مگر وہ معدودےچند تھے۔ اس کے بعد آخر حکمران تو اسی طبقہ میں سے آنے تھے، وہ آئے اور اپنی ذہنی غلامی سمیٹ آئے ۔ جس کا خاصہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی کو اپنے ذہن میں اپنا آقا تصور کیا جاتا رہے۔ زمانۂ جاہلیت میں خانہ بدوشوں کو جو خوبصورت پتھر نظر آجاتا تھا اُسے اٹھا لیتے تھے اور اس کی پوجا پاٹ شروع کر دیتے تھے، گویا اس طرح اپنے شرک کی پیاس بجھاتے تھے۔
بالکل یہی حال ہمارے حکام کا رہا کہ بجائے اس کے کہ ہم اپنے لیے کسی بڑی طاقت کو نفع بخش طریقوں پر پابند کر سکیں، ہم خود ہی اپنےذہن میں ان کے غلام ہو گئے اور آزادی جیسی نعمت سے بہرہ ور ہونے کے باوجود آزاد نہ ہوئے۔ ہماری خارجہ پالیسیاں صحیح نہیں رہیں۔ بتِ افرنگ کے سامنے جھکاؤ زیادہ رہا، حالانکہ اپنے مفاد اور قوم کی ترقی کے لیے بڑی طاقتوں سے صرف نفع حاصل کرنے کی ضرورت تھی، یہی ان آقاؤں کے رویہ کا جواب ہو سکتا تھا۔
آخر یہ منحوس گھڑی بھی آگئی کہ جس میں خلافِ عقل کام ایک غدّارانہ سازش کے تحت کیے جانے لگے، مگر مارشل لاء اور سنسر کی پابندیوں کی بناء پر کوئی لب کشائی نہ کرسکتا تھا ۔ مثلاً :
شیخ مجیب الرحمن کو چھ نکات پر انتخاب لڑنے کی اجازت کیوں دی گئی ؟
انتخابات جیتنے کے بعد انہیں اقتدار کیوں نہیں دیا گیا ؟ جبکہ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ حالات خراب ہو جائیں گے، وہ یہ بھی کہتے تھے کہ یہ چھ نکات حرفِ آخر نہیں، ان میں ردو بدل ہوسکتا ہے، لیکن نہ انہیں اقتدار دیا گیا نہ ان سے بات کی گئی۔
اسی دور میں ہندوستانی مداخلت کار مشرقی پاکستان داخل ہوئے، مگر ان مداخلت کاروں کے داخلے اور ان کی کارروائیوں کی ذمہ داری اس حکومت پر کیوں نہ آئی جو یحییٰ خاں کی نمائندہ تھی اور اسے مارشل لاء کی قوت حاصل تھی؟ اور شیخ مجیب پر کیوں ڈالی گئی جن کی اس وقت تک حکومت ہی قائم نہ ہوئی تھی اور وہ رعایا کے ایک فرد تھے اور انہیں اقتدار دیا ہی نہ گیا تھا؟اگر دنیا میں اصول چلتے ہیں تو اصولاً مجیب حاکم تھے اور بقول یحییٰ خاں وہ ملک کے ہونے والے وزیر اعظم اور محب وطن پاکستانی تھے، مگر چند ہی روز بعد وہ غدّار کہلائے گئے اور جیل بھیج دیے گئے۔ کوئی بتلائے کہ ان دونوں میں اصولاً کون حاکم ہونا چاہیے تھا اور کون غدار تھا؟
پھر ایک طاقتور ور دفاع کی قوت مشرقی پاکستان منتقل کر دی گئی اور یہ اعلان کیا گیا کہ اگر مشرقی پاکستان پر حملہ ہوا تو سارے پاکستان پر حملہ سمجھا جائے گا، مگر جب انڈیا نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو ہم مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کی سپاہ کی قوت ٹوٹنے کا محض تماشہ دیکھتے رہے۔ حتیٰ کہ جنگ کے شعلے مغربی سرحدوں پر بھی بھڑکنے لگے۔ افواجِ پاکستان نے مغربی محاذوں پر دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے اس کے علاقے میں پیش قدمی شروع کی، لیکن صرف چند گھنٹے بعد افواج کی پیشقدمی روک دی گئی اور جہاں افواج پاکستان زیادہ آگے بڑھ گئی تھیں وہاں سے فوری حکم کے ذریعے پیچھے ہٹا دیا گیا۔ یہ ممکن تھا کہ مشرقی پاکستان کے شرقی جانب جو ہندوستان کا علاقہ تھا گھیرے میں آجاتا ، اگر یہ منظوری دی جاتی کہ جنرل نیازی اپنے شمال میں پیش قدمی کریں اور چین کی سرحد تک بڑھ جائیں۔ دوسری طرف فوراً ہی مغربی محاذ پر پیش قدمی کر کے کشمیر لے لیا جاتا۔
یہ دونوں صورتیں یقیناً ممکن تھیں اور اسی طرح مشرقی پاکستان میں چین سے معاہدہ کر کے براہ راست امداد جاری رکھنی ممکن تھی اور ایسی صورت میں ہندوستان لاچار ہوجاتا اور بڑی طاقتوں کا خواب پراگندہ ہوجاتا، وہ سب اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے اور پاکستان کے آگے انہیں جھکنا پڑتا، لیکن اس کے برعکس مشرقی پاکستان میں مدد کا بندوبست نہیں کیا گیا اور ہتھیار ڈلوا کرپاکستان کے چہرے پر قیامت تک رہنے والا داغ لگایا گیا اور ملک کے علاوہ افواج کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچایا گیا اور ہوسکنے والی فتح کو شکست میں بدل کر رکھ دیا ۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ جو جان بوجھ کر کیا گیا ہے؟ اس کی اصل علت کیا ہے؟ ہمارے خیال میں اصل علت ’’شرکِ خفی‘‘ ہے۔ یعنی بیرونی عالمی بڑی طاقتوں کے سامنے جھکنا اور ان کے منشاء پر چلنا ہے ۔ انہوں نے مل کر ہماری اطاعت شعاری سے فائدہ اٹھایا اور خدا نے بھی ہمارے ان حکام کو ایسے ہی چھوڑ دیا جیسے انہوں نے خدا کو چھوڑا۔ان کی خودی اور غیرت سب فنا ہو کر رہ گئی۔
﴿نَسُوا اللهَ فَانْسٰهُمْ انْفُسَهُمْ اُولٰئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ﴾
’’انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے ان کو اپنی جان بھلائی۔یہی لوگ وہ ہیں جو نافرمان ہیں۔‘‘
آخر ان ممالک کو اگر وہ بڑے بھی ہیں، ہمارے معاملے اور داخلی امور میں مداخلت کی ضرورت کیا ہے؟ اور کیوں ہم اتنے مجبور بنتے ہیں کہ ان کی مداخلت بسروچشم قبول کرتے ہیں اور خود کو آئے دن طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا کرتے ہیں؟ اگر ہم نے اب بھی اپنے آپ کو نہ سنبھالا تو مغربی بازو کا بھی خدا ہی حافظ ہے۔
غرض مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالوانے اور مغربی پاکستان میں افواج کی پیش قدمی کو روکنا یا تو، یحییٰ کی کمزور فطرت کے باعث جو سازش کی گئی اس کا نتیجہ تھا یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی اور بات ہے ،اور ملک کو ذاتی نفع کے عوض، چاہے وہ کتنا بھی بڑا نفع کیوں نہ ہو، بیچا گیا ہے۔ اور ایسی صورت میں جو تحقیقی کارروائی ہو رہی ہے اسے خفیہ رکھنے کا مطلب یہ ہو گا کہ آئندہ بھی ایسے مجرم جری ہوجائیں اور ملک کے ساتھ غداری کی رسم بے عیب بن جائے۔
٭٭٭٭٭