وسطِ اگست ۱۹۴۷ء میں برِّ صغیر ہندو اور مسلم قومیت کی بنیاد پر تقسیم ہوا۔ اسی قومی نظریے کی بنیاد پر سندھ، پنجاب، کشمیر و بنگال تقسیم ہوئے اور پاکستان و بھارت کا حصّہ بن گئے۔بھارت سے پاکستان ہجرت کے دوران ان گنت مسلمانوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں۔ لیکن محض چوبیس سالوں میں ہی دو صدیوں کی محنت اور قربانیوں پر پانی پھیر دیا گیا اور بے شمار قربانیاں دے کر حاصل کیا گیا ملک اور وحدت اپنی سالمیت کھو بیٹھی۔
بھارتی ہندؤوں کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے بنگال کے جن مسلمانوں نے گیارہ سو میل دور دارالحکومت کا اختیار تسلیم کر کے مشرقی پاکستان تشکیل دیا تھا، وہ مشرقی پاکستان بھارت کی ایک غیر اعلانیہ باج گزار ریاست میں کیوں اور کیسے تبدیل ہو گیا؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے بے شمار تفصیلی تجزیے ہو چکے…… سٹیج پر نظر آتے کرداروں سے لے کر پسِ پردہ کرداروں تک……بہت سی کہانیاں ، تبصرے، تجزیے اور تنقید ہو تی رہی۔
ابھی چند ماہ پیشتر بنگلہ دیش کی حکمران جماعت عوامی لیگ کی صدر شیخ حسینہ نے اپنے باپ شیخ مجیب الرحمن کی یومِ پیدائش پر جشن منایا جس میں گجرات کے قصائی ہندوستانی وزیرِ اعظم نریندر مودی کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہونا فطری امر ہے کہ شیخ مجیب کی سالگرہ کی خوشی سے وزیرِ اعظم بھارت کا کیا تعلق ہے جو اسے بطورِ خاص مدعو کیا گیا؟
حقیقت یہ ہے کہ عوامی لیگ اور شیخ مجیب کی بھارت سے محبت اور یارانہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس کا اولین پھل مملکتِ پاکستان (مشرقی و مغربی) کی تقسیم ہے۔ یہ تاریخ اگر دل کی آنکھوں سے نہ پڑھی جائے تو اس خطے میں ہندو جارحیت کی حقیقت و نوعیت اور اس کی شدت کو محسوس کرنا اور اس کا ادراک کرنا مشکل ہے۔
اس مضمون میں ہم پاکستان کے دو لخت ہونے کے پیچھے کارفرما پاکستانی و ہندوستانی حکمرانوں کے کرداروں کے بارے میں مختصر گفتگو کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے رہنما شیخ مجیب کے کردار پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
اس بات کا انکار کرنا ناممکن ہے کہ پیدائشِ پاکستان کے وقت سے ہی پاکستان پر قابض حکمران طبقہ امریکہ کے لیے دلالی کر کے اقتدار حاصل کرنے اور اسے برقرار رکھنے کا برہنہ کھیل کھیلتا رہا ہے۔ اقتدار کے بھوکے ان حکمرانوں اور فوجی جرنیلوں نے اپنے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے ایک کفری آئین کو ملک میں نافذ کرتے ہوئے پاکستان کے طول و عرض میں ظلم کا بازار گرم کیا۔ مغربی خداؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جتنی پالیسیاں بنانا اور نافذ کرنا ممکن تھا، انہوں نے کر کے دکھائیں۔ اسی غلامی کے عوض اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور(Dwight D. Eisenhower) نے ۱۹۵۴ء میں پاکستان کو نہ صرف فوجی امداد فراہم کی بلکہ سیٹو (SEATO)میں بھی شامل کیا۔
مگر عوام کو عدل و مساوات سے محروم کر کے اور ان پر ظلم وجبر کر کے کب تک ان کو اپنا تابع فرمان بنا کے رکھا جا سکتا ہے؟ بالخصوص جب حکمرانوں اور عوام کے مابین گیارہ سو میل کا فاصلہ بھی حائل ہو(یہاں ہماری مراد ’حکمران‘ ہی ہیں، مغربی پاکستان کے عوام کو حکمران نہ سمجھا جائے)۔پھر وہ ملک کہ جس کو بنانے کے لیے لوگ اسلام کے نام پر جمع ہوئے تھے، جس کی اساس لا الٰہ الا اللہ تھی، اور جس کی خاطر مسلمانانِ برِّ صغیر نے بے شمار قربانیاں دی تھیں، اس ملک کے حکمرانوں نے محض اقتدار کی خاطر نہ صرف امریکی خداؤں کی غلامی کی، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ دنیا کی دوسری سپر پاور روس اور ہمسایہ ملک چین کی خوشنودی حاصل کرنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی پاک سرزمین پر کمیونزم کا باطل نظریہ پھیلنے لگا۔ مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلہ دیش) میں کمیونسٹوں کا اثر و رسوخ بہت بڑھ گیا اور وہاں سوویت پسند کمیونسٹوں کو ایک مضبوط پناہ گاہ میسر آ گئی۔
دوسری جانب تقسیمِ ہند کے کچھ ہی عرصے بعد چین سے شکست خوردہ بھارت نے شکست کے جھٹکے سے سنبھلنے کے لیے کسی بھی سپر پاور سے الحاق نہ کرنے کے اپنے فیصلے سے تائب ہو کر سوویت روس کے ساتھ ایک اتحاد قائم کیا۔ پھر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے بعدتو امریکہ نواز پاکستان کے خلاف قوت و امداد حاصل کرنے کی خاطر بھارت روس کے اس قدر قریب آ گیا کہ خطے میں سوویت یونین کا قریب ترین حلیف گردانا جانے لگا۔ ۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۷ء تک کے اس دور کو ہندو سوویت تعلقات کا سنہرا دور سمجھا جاتا ہے۔
اپنے پیدائشی دشمن پاکستان کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی بھارتی سازش کتنی پرانی ہے، اس کا ایک ثبوت ۱۹۶۵ءکی جنگ میں ملتا ہے جب مغربی پاکستان کے ساتھ براہِ راست جنگ و تصادم شروع ہونے کے باوجود بھارت نے مشرقی پاکستان کو نشانہ نہیں بنایا۔
۱۹۷۱ء کے مارچ میں شروع ہونے والے واقعات میں مغربی پاکستان کے حکمرانوں، بھارتی سرکار اور شیخ مجیب کی عوامی لیگ، سب کے بنیادی مقاصد گو کہ جدا جدا تھے، مگر ان مقاصد کا حصول ایک ہی طریقے سے ممکن تھا اور وہ تھا مملکت ہائے متحدہ پاکستان کی مرکز سے دور، ۷ کروڑ بنگالی مسلمانوں پر مشتمل چھوٹی آبادی (مشرقی پاکستان) کو الگ کر دینا۔
مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی مشرقی پاکستان کے خلاف تفریق و امتیاز پر مبنی پالیسیوں اور رویّے کے نتیجے میں……بالخصوص جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کی پالیسیوں نے ……مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت اور شیخ مجیب کی عوامی لیگ کی سربراہی میں ایک جمہوری، سوویت نواز ملک کی بنیاد رکھی۔ تاریخ جو ثبوت فراہم کرتی ہے ان کی روشنی میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت و سوشلزم جیسے نظریات کو اساس بناتے ہوئے، بنگلہ دیش کے نام سے جس ریاست کی بنا رکھی گئی، اس ریاست کو بنانے کے خفیہ منصوبے میں پہلا قدم شیخ مجیب اور اس کے قریبی ساتھیوں نے اٹھایا۔ جبکہ اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بھارتی و پاکستانی حکومتیں ’کنٹرولر‘ کا کردار ادا کرتی رہیں۔
۱۹۶۱ء کے اواخر میں،مشرقی پاکستان کی آزادی کا مطالبہ کرنے والا ایک پرچہ ’’مشرقی بنگال آزادی فرنٹ‘‘ کے نام سے انگریزی و بنگالی زبانوں میں چھاپا گیا۔ شیخ مجیب الرحمان کے قریبی اور قابلِ اعتماد ساتھی شیخ معظم حسین کے مطابق، شیخ مجیب خود سائیکل پر بیٹھ کر پریس تک جاتے اور اس پرچے کی کاپیاں چھپوا کر لاتے، جنہیں پھر رات کی تاریکی میں بہت سے طلبہ رہنماؤں میں اور اہم مقامات پر تقسیم کیا جاتا۔
لگ بھگ انہی دنوں میں، شیخ مجیب نے کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، مگر اصولی طور پہ آزاد مشرقی پاکستان کے مطالبے کی حمایت کرنے کے باوجود کمیونسٹ پارٹی نے عملی طور پر کسی قسم کے تعاون سے معذرت یہ کہتے ہوئے کی کہ حالات ابھی ایسے کسی کام کے لیے سازگار نہیں ہیں۔شیخ مجیب نے وقت آنے پر ساتھ دینے کے مطالبے پر یہ مجلس ختم کی۔
اس واقعے کے دو یا تین ماہ بعد ہی ملک میں حکومت کے خلاف ایک شدید تحریک زور پکڑ گئی جس کے نتیجے میں حکومتِ پاکستان پیچھے ہٹ گئی۔اس تحریک سے حاصل ہونے والے نتائج کو دیکھتے ہوئے اقتدار کا بھوکا ااور ہندوستان کا عاشق،شیخ مجیب الرحمان مزید پر امید ہو گیا، اور اسی سال (یعنی ۱۹۶۲ء) کے دسمبر میں ڈھاکہ میں موجود اس وقت کے ہندوستانی ڈپٹی ہائی کمشنر کے پولیٹیکل آفیسر شیکھربینر جی کو آدھی رات میں بلا کر اس سے ایک خفیہ ملاقات کی۔ اس ملاقات کا مقصد بینر جی کے ذریعے بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو تک ایک خفیہ پیغام پہنچانا تھا، جس میں ایک منصوبے کا ذکر کیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے آزاد کرانے کا تھا۔ منصوبے کے مطابق مجیب بنگال میں تحریکِ آزادی کی قیادت کرنا چاہتا تھا جبکہ مانک میاں اتحاد رسالے کے ذریعے اس تحریک کو پھیلانے کا کام کریں گے۔ ۱۹۶۳ء کے مارچ میں شیخ مجیب لندن میں بنگلہ دیش کی آزادی کے اعلان کے ساتھ ملک میں ایک غیر ملکی حکومت قائم کرنا چاہتا تھا۔ اپنے اس خط میں مجیب الرحمان نے نہرو سے اخلاقی، سیاسی اور سفارتی امداد کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کو قابلِ عمل بنانے کے لیے ساز و سامان اور امداد کی درخواست کی تھی، نیز اس معاملے پر مشاورت کے لیے نہرو سے خفیہ ملاقات کی اجازت مانگی تھی۔
یہ خط ایک ایسے وقت میں بھیجا گیا جب ہندوستان حال ہی میں چین سے جنگ میں شکست کھا چکا تھا۔ اس شکست کے بعد نہرو اپنے لیے ایک اور محاذ نہیں کھولنا چاہتا تھا۔ دہلی سے اس پیغام کا جواب یہ آیا کہ ابھی مجیب کچھ اور انتظار کرے۔ لیکن محض ہندوستانی امداد کی امید نے ہی مجیب کو اس قدر بے صبرا بنا دیا کہ وہ مزید انتظار کرنے کے بجائے سرحد عبور کر کے ہندوستان کی ریاست تریپورہ کے دارالحکومت اگرتلہ جا پہنچا، جہاں اس نے وزیرِ اعلیٰ تریپورہ سچندر لال سنگھ سے ملاقات کی اور اسے نہرو تک پیغام رسانی کے لیے آمادہ کیا۔
سچندر مجیب کو اگرتلہ میں چھوڑ کر دہلی پہنچا اور وہاں نہرو سے ملاقات کرنے کے بعد لوٹا۔ اگرتلہ واپسی پر سچندر نے مجیب الرحمان کو بتایا کہ اس کے ساتھ مدد و تعاون کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور ڈھاکہ میں موجود بھارتی ڈپٹی ہائی کمیشن کو اطلاع کی جا چکی ہے۔ نہرو کا مشورہ تھا کہ اس کے بعد شیخ مجیب رابطے کے لیےاگرتلہ کے بجائے ڈھاکہ میں موجود بھارتی سفارت خانے ہی کو استعمال کرے۔
بھارت سے گرین سگنل ملنے کے باوجود شیخ مجیب پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے لیے بعض بنگالی فوجی گروپوں کی خواہش کے مطابق مسلّح جد وجہد کے ارادے کو عملی جامہ نہ پہنا سکا۔ اس کی وجہ جہاں بعض بین الاقوامی قوانین تھے ، وہیں سب سے بڑی اور فیصلہ کن وجہ یہ تھی کہ گو کہ بھارت مدد و تعاون کے لیے تیار تھا، مگر ایک بھرپور مسلّح جد و جہد یا پاکستان کے ساتھ ایک مکمل جنگ کا محاذ کھولنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ بھارت کے بغیر شیخ مجیب کچھ بھی نہ تھا۔ اس نے اپنے فوجی گروپ کے کمانڈر، پاکستان نیوی کے بنگالی افسر لیفٹیننٹ کمانڈر معظم حسین کو بتا دیا کہ وہ ’’……ملک کو پاکستانی فوجی جنتا کے ہاتھوں سے نکال کر بنگالی فوجی جنتا کے سپرد نہیں کر سکتا ……‘‘۔
شیخ مجیب کی اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مطلوب و مقصود بنگالی مفادات کا تحفظ نہیں بلکہ ہندوستانی مفاد کا تحفظ تھا۔ اگرتلہ کا سفر بھی اسی الزام کو ثابت کرتا ہے اور بعد میں اسی بنیاد پر جنرل ایوب خان نے اسے گرفتار بھی کیا اور اس پر مقدمہ چلایا۔
اگرتلہ سازش کے مقدمے میں شیخ مجیب کے ساتھ ۳۴ دیگر افراد کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ مقدمے میں ان کے مقابل ریاستِ پاکستان خود تھی۔ اس مقدمے میں شیخ مجیب اور اس کے ساتھیوں کو بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کی سالمیت پر حملہ کرنے اور مشرقی پاکستان کوایک فوجی تحریک کے ذریعے علیحدہ کرنے کی ایک سازش میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ مگر چونکہ مشرقی پاکستان کی عوام پہلے ہی حکومت کے رویّے سے نالاں اور بد ظن تھی، اور جانتی تھی کہ شیخ مجیب کو علیحدگی پسند اور بھارت نواز ثابت کرنا حکومت کے مفاد میں ہے لہٰذا ملک بھر میں اس مقدمے کو مشرقی پاکستان کی تحریکِ خودمختاری کے خلاف ایک سازش کے طور پر دیکھا جانے لگا اور اس کے نتیجے میں مظاہرے ،احتجاج اور فسادات برپا ہو گئے، جن کی وجہ سے حکومتِ پاکستان کو مجبور ہو کر یہ مقدمہ بند کرنا پڑا اور شیخ مجیب باعزت بری ہو گیا۔
اس کے باوجود ۲۲ فروری ۲۰۱۱ء کو ، اس مقدمے کو واپس لینے؍ ختم کرنے کی برسی کے موقع پر، ملزمین میں سے زندہ بچ جانے والے ملزم اور اس وقت کے بنگلہ دیش پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر شوکت علی نے کھلے بندوں یہ اعتراف کیا کہ’اگرتلہ مقدمہ سازش نہیں بلکہ حقیقت تھی۔ ہم پر (شیخ مجیب اور اس کے ساتھ ۳۴ دیگر ساتھیوں پر) جو الزامات مقدمے میں عائد کیے گئے تھے، وہ سب درست تھے‘۔
اس کے بعد شیخ مجیب ہر کام ہندوستانی سرکار کے مشورے و رضامندی سے کرنے لگا۔ ابتدا میں حکومت سے محض مشرقی پاکستان کو خود مختار کر دینے کا مطالبہ کیا گیا، مگر اس کے ذہن میں جو منصوبہ پرورش پا رہا تھا، اسے مد نظر رکھ کر ملک میں ایک قوم پرست سوچ و فکر پھیلائی جانے لگی۔ کچھ ہی عرصے بعد شیخ مجیب نے اپنی جماعت ’عوامی مسلم لیگ‘ کے نام سے ’مسلم‘ ہٹا کر فقط ’عوامی لیگ‘کر دیا، حالانکہ جماعت کی تشکیل کے موقع پر یہ نام بھی خود شیخ مجیب ہی کا تجویز کردہ تھا۔یہ مشرقی پاکستان میں مجیب کی سیکولر سوچ و فکر کا عکاس پہلا قدم تھا۔
بھارت کے لیے مشرقی پاکستان میں اپنے مفادات کا تحفظ ایک ہی طریقے سے ممکن تھا، اور وہ تھا مشرقی پاکستان میں ایک خود مختار ، بھارت نواز حکومت کا قیام۔ اس سلسلے میں شیخ مجیب بھارت کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ شیخ مجیب کے چھ نقاط جن کا بنیادی مطالبہ حکومتِ پاکستان سے مشرقی پاکستان کے لیے خود مختاری کا حصول تھا، نے تقریباً ہر جماعت کو قائل کر لیا، حتیٰ کہ کمیونسٹ پارٹی بھی شیخ مجیب کا ساتھ دینے پر تیار ہو گئی۔ یہ بات اس وقت بھی یقینی تھی کہ مشرقی پاکستان کے پاکستان کا ایک خود مختار صوبہ بننے کی صورت میں وہ درحقیقت بھارت کی ایک غیر رسمی و غیر اعلانیہ ریاست میں تبدیل ہو جائے گا۔ شیخ مجیب بظاہر تو بنگالی مسلم عوام کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے بنگالی قومیت کا نعرہ بلند کرتا مگر بالاصل اس نعرے کے پیچھے ایک دوسری جدو جہد بھی جاری تھی۔ اور وہ جدوجہد تھی ہندؤوں کو اپنے ساتھ ملا کر بھارت کی اخلاقی، فوجی و سفارتی حمایت حاصل کر کے مشرقی پاکستان میں اقتدار کے حصول کی۔
مجیب الرحمٰن کی منزلِ مقصود تو ہمیشہ سے ہی بھارت کی مدد سے مشرقی بنگال میں ایک آزاد و خود مختار حکومت قائم کرنا اور اس حکومت کے ذریعے اپنے سیکولر افکار و نظریات کو فروغ دینا تھا۔ سمندری لہروں سے مغلوب مشرقی بنگال کے تباہ حال مسلمانوں کے لیے مغربی پاکستان کے حکمرانوں کا سلوک سوتیلی ماں سے بد تر تھا۔ ۱۹۷۰ء میں آنے والے اور بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے سمندری طوفان ’بھولا‘ کے نتیجے میں ہزاروں بنگالی متاثر ہوئے تھے، اور ان مظلوم و مسکین بنگالیوں کے ساتھ حکومت کا رویہ بے رحمی کی حد تک لا پروا و نظر انداز کرنے والا تھا۔ اس رویّے و سلوک کا نتیجہ جلد ہی انتخابات میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ کی زبردست کامیابی کی صورت میں سامنے آیا۔ اس وقت اگر شیخ مجیب کو انتخابات کے نتائج کے مطابق پورے پاکستان کا اقتدار حاصل ہو جاتا تو وہ ایک خود مختار مشرقی پاکستان کا مطالبہ بھی ترک کر دیتا،یا اگر محض مشرقی پاکستان کا اقتدار ہی حاصل ہو جاتا تو وہ ایک بھارت و سوویت نواز وزیرِاعلیٰ بننے پر قانع ہوتا۔ مگر اس وقت کا حکمران جنرل یحییٰ خان اور مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کا لیڈر ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر لیڈر نہیں چاہتے تھے کہ مشرقی پاکستان کا کوئی لیڈر پاکستان میں حکومت و اقتدار کی مسند تک پہنچے۔ لہٰذامارچ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان میں اس جنگ کا آغاز ہو گیا جس میں لاکھوں مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ پاکستان کی فوجی حکومت کی جانب سے فوج کو اشارہ دے دیا گیا اور ایک ہی رات میں مختلف مقامات پر ہزاروں بنگالی مسلمان قتل ہوئے اور عورتوں کو بے رحمی سے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
اس جارحیت کے جواب میں پاکستانی حکمرانوں اور جرنیلوں نے مشرقی پاکستان کی عوام کے پاس جنگ کے سوا کوئی دوسرا راستہ چھوڑا ہی نہ تھا۔ ان حکمرانوں اور جرنیلوں کی بد اعمالیوں ، ان کے ظلم و ستم اور ان کی دھوکہ دہی کا شیخ مجیب نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور برِّ صغیر میں موجود اسلام اور مسلمانوں کے ازلی و کٹر دشمن ’ہندو‘کے لیے مغربی پاکستان کے مسلمانوں کی مدد و حمایت سے جدا، ہندؤوں کی غلامی و بالا دستی قبول کرنے والا ایک ملک وجود میں لاناممکن ہو گیا ۔ پہلے سے طے شدہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز ہوا۔ بھارت کی براہِ راست مداخلت اورمشرقی بنگال کے بے شمار مسلمانوں کی جانوں کی قربانیوں کے بعد آزاد بنگلہ دیش قائم ہوا۔ بھارت کا ماتحت ایک ایسا ملک جس کے پانی، فصلوں، وسائل اور مال و دولت میں سے آج بھارتی حکمران مغربی پاکستان کے حکمرانوں سے کہیں زیادہ سختی سےاپنا حصّہ وصول کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے مظلوم مسلمان پاکستانی حکمرانوں کے ظلم و ستم سے نکل کر بھارتی ہندؤوں کی لوٹ مار کا شکار ہونے لگے جس کا سلسلہ بد قسمتی سے آج تک جاری ہے۔
اس خطے میں دین سے محبت رکھنے والے مسلمانوں کا بنگالی قومیت کا خواب بہت جلد ختم ہو گیا۔ریاستی اعتبار سے ہندوستانی نظر بندی کی ذلت آمیز حقیقت ان کےسامنے آ گئی، شیخ مجیب ایک بھارتی ایجنٹ کے طور پر شناخت ہوا، اور بارہا اس کے سیکولر سیاسی اقدامات کو عوام کی جانب سے احتجاج اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر ساڑھے تین سال اقتدار میں رہنے کے بعد شیخ مجیب الرحمان اپنے خاندان کے ۴۰ دیگر افراد کے ساتھ قتل ہوا اور پورے ملک میں کسی کوّے نے بھی اس کے لیے آنسو نہ بہائے۔ جس قوم نے پاکستانی ظلم و استبداد تلے زندگی گزارنا قبول نہیں کیا تھا، وہ ہندؤوں کے غلام و ماتحت کے ماتحت رہنا کیسے قبول کر لیتی؟ آج ، گو بنگلہ دیش میں بھارت نواز ہندُتوا سرکار کی پرچارک، شیخ مجیب کی بیٹی شیخ حسینہ کی ظالمانہ حکومت قائم ہے، مگر عنقریب دنیا اس کا زوال دیکھے گی۔ضرورت محض چند ہوشمندانہ اقدامات کی ہے۔بے شک اللہ تعالی جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلت سے دوچار کرتا ہے۔
بھائی ’ابو ہود بنگالی‘ کا تعلق ’حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے ‘ہے، جسےآج بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭