نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

خواطر، نصائح اور تفسیر

احمد فاروق by احمد فاروق
14 جولائی 2025
in حلقۂ مجاہد, جولائی 2025
0

الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین محمد و علیٰ آلہ و صحبہ و ذریتہ اجمعین اما بعد

فقد قال اللہ سبحانہ وتعالیٰ فی کتابہ المجید بعد أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمان الرحیم

﴿قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّنْتَهُوْا يُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ ۚ وَاِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ ؀وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ۚ فَاِنِ انْتَهَـوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ؀وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَوْلٰىكُمْ ۭنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ ؀﴾ (سورۃ الانفال: ۳۸ تا ۴۰)

صدق اللہ مولانا العظیم

رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ، وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ، يَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ

قُلْ، کہہ دیجیے، یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے، لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا ،ان لوگوں سے کہ جنہوں نے کفر کیا، اِنْ يَّنْتَهُوْا، کہ اگر وہ باز آ جائیں، یا اگر وہ رک جائیں، يُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ، تو جو کچھ پہلے گزر گیا وہ معاف کر دیا جائے گا، یعنی ان کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔

اہل کفر کے بعض جرائم

اس سے پچھلے درس میں ہم نے یہ بات پڑھی کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس بات کو بیان فرمایا کہ کافر اپنے اموال خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکیں ، اور اس میں اپنی ساری جدوجہد کھپاتے ہیں۔ اسی طرح اس سے پہلے کی آیات میں بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ ذکر فرماتے ہیں کفار کے مختلف جرائم کا، ان کی عبادت کا ذکر فرماتے ہیں کہ وہ اللہ کی قدر نہیں پہچانتے اس لیے مسجد حرام کے پاس تالیاں پیٹتے ہیں، سیٹیاں بجاتے ہیں اور اس کو عبادت سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اس سے پہلے ہم نے پڑھا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بتایا کہ ان کا کفر و عناد اور دین سے انکار اس درجے تک بڑھ چکا ہے کہ کہتے ہیں کہ اے اللہ! اگر جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں، وہ حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے۔

اللہ رب العزت کی بے پایاں رحمت

ان سارے جرائم کا ذکر کرنے کے بعد بھی اللہ کی رحمت ہے اپنے بندوں پر کہ پھر اللہ تعالیٰ انہیں ایمان کی طرف لوٹنے کی دعوت دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر اب بھی یہ باز آ جائیں، اب بھی رک جائیں تو پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ یہ وہی بات ہے جو قرآن میں ایک دوسری جگہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ :

﴿ مَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ ﴾ (سورۃ النساء: ۱۴۷)

’’اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا، (یا اللہ کا اس عذاب دینے میں کیا مفاد ہے) اگر تم شکر کرنے والے اور ایمان لانے والے بن جاؤ۔‘‘

پس اللہ رب العزت اپنے بندوں پر رحیم ہے اور بار ہا ا ن کے بڑے بڑے جرائم اور اللہ سے عذاب کا مطالبہ کرنے کے بعد بھی اللہ پھر ان سے کہتا ہے کہ نہیں! تم اگر پھر بھی باز آ جاؤ تو اللہ تعالیٰ پچھلا سب کچھ معاف کر دیں گے۔ جیسے حدیث میں آتا ہے کہ:

أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَهُ (صحیح مسلم)

’’کیا تم جانتے نہیں کہ اسلام اپنے سے پیچھے کے سارے گناہ ڈھا دیتا ہے۔‘‘

دلیلِ صداقتِ اسلام

یعنی اسلام لانا پچھلے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ تو یہ اس دین کی عظمت ہے۔ اگر کفار تھوڑی دیر کے لیے بھی اس پر غور کریں تو اسلام کی صداقت کی شاید سب سے بڑی دلیلوں میں سے ایک دلیل یہ ہے۔ مسلمان جب جنگ کرتے ہیں، جب دعوت دیتے ہیں تو ان کا مقصود محض اپنا انتقام لینا، محض اپنی قوت و طاقت کو بڑھانا اور دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرنا نہیں ہوتا۔ مقصود اللہ کے ایک حکم کو، ہمارے اور کفار کے رب کے، خالق کے حکم کو پورا کرنا ہوتا ہے اور اس کے دین کو پھیلانا ہوتا ہے۔ اسی لیے ہمارے حق میں بڑے سے بڑے جرائم کرنے والا شخص بھی جب توبہ کر لے تو ہم اپنی پچھلی ساری چیزیں بھلا کے اس سے اپنا ہاتھ روک لیں گے اور وہ ہمارا بھائی بن جائے گا۔ یہی اللہ کا حکم ہے چاہے کسی کا دل مانے یا نہ مانے۔

ہم چیلنج کرتے ہیں اس بات پہ، دنیا کی کوئی قوم یہ کام کر کے دکھائے! کوئی اتنا سچا عقیدہ لا کے دکھائے کہ جس کی بنیاد پر وہ اتنی بڑی قربانی بھی دینے کو تیار ہو! کسی نے ان کی نسلیں شہید کی ہوں، ان کے بچوں کو قتل کیا ہو، ان کے گھر بار کاروبار تباہ کیے ہوں اور وہ محض اپنے عقیدے کی خاطر یہ سب ظلم معاف کرنے کو تیار ہو۔

حضرت ابو سفیانؓ اسلام لانے سے قبل تقریباً بیس سال تک یعنی تقریباً پورا مکی دور اور اس کے بعد مدنی دور کا بھی بیشتر حصہ، کیونکہ جب فتح مکہ ہوگئی تو اس کے بعد کیا بچا، تو اس پورے دور میں وہ کفار کی صف اول میں کھڑے رہے اور اسلام کے خلاف مستقل ہر جنگ کے اندر وہ قیادت کرتے رہے ، منصوبہ بندی میں شریک رہے۔ لیکن جس دن انہوں نے فیصلہ کیا کہ انہوں نے اسلام قبول کرنا ہے تو ان کا گھر امن کی جگہ قرار پایا اور پچھلے کسی گناہ اور کسی جرم کے اوپر ان سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی بلکہ وہ رضی اللہ عنہ کہلائے اور قیامت تک ایمان لانے والا ہر شخص انہیں صحابی ہی سمجھتا ہے اور ویسا ہی احترام ان کو دیتا ہے جیسا کسی دوسرے صحابی کو دیتا ہے۔

اسی طرح حضرت خالد بن ولیدؓ کا معاملہ ہے۔ اس کے باوجود کہ احد کے دن انہوں نے ستّر مسلمانوں پر ضرب لگائی اور تمام غزوات میں جو سب سے بڑا نقصان پہنچا مسلمانوں کو وہ ان کے ہاتھوں پہنچا۔ اس کے باوجود جب وہ اسلام لے کر آئے تو سیفٌ من سیوف اللہ ، اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار بن گئے۔

پس یہ اسلام کی صداقت کی دلیل ہے کہ مسلمان اپنے لیے نہیں لڑ رہا، وہ ایک سچے عقیدے کی خاطر لڑ رہا ہے جس کو وہ اپنی جان سے ، اپنی اولاد سے ، اپنے اہل سے، اپنے مال سے، ہر چیز سے زیادہ قیمتی جانتا ہے۔ تو کوئی کافر بھی رک کر اگر تھوڑی دیر بھی غور کرے تو وہ اس دین کی عظمت کا قائل ہو جائے گا اور اس پہ ایمان لے آئے گا۔

کیا اسلام مسلمانوں کا دین ہے؟

ہم ویسے بھی دعوت اپنے دین کی طرف نہیں دیتے، یہ مسلمانوں کا دین نہیں ہے۔ اہل کفر و شرک جیسے دیگر مختلف اصطلاحات ایجاد کرتے ہیں کہ جس سے حقیقت کو چھپائیں تو ان کا میڈیا اس بات کو بھی یونہی پیش کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں بانیٔ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم، بی بی سی تو اکثر اس بات کو دہراتا ہے۔ کیا مطلب ہے بانیٔ اسلام کا؟ اسلام ان کا ایجاد کردہ دین تو نہیں ہے ، یہ تو اللہ تعالیٰ کا دین ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نبی ہیں۔ اس کو قصداً ایسی اصطلاح دیتے ہیں کہ انسان جب سن رہا ہو تو غور نہیں کرتا کہ کیا اس کے معنی ہیں، لیکن اس کے اندر ایک پورا پیغام پوشیدہ ہوتا ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ کہیں کہ اللہ کا دین، اور اللہ کے دین کو نہ ماننا اور اللہ کے دین پر چلنے والے مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنا، وہ کہتے ہیں مسلمانوں کا دین، تو یہ مسلمانوں کا اپنا دین نہیں ہے، مسلمان تو خود اس کے سامنے جھکے ہوئے ہیں، وہ اس کے احکامات کو پورا کرنے کے پابند ہیں، دین تو رب کا ہے جو کافر کا بھی رب ہے اور مسلمان کا بھی۔

تو پیارے بھائیو! یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اللہ کافروں کے لیے ان کے ان سارے جرائم کے بعد بھی کہتے ہیں کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ان سے کہہ دیجیے جنہوں نے کفر کیا کہ یہ اگر اب بھی رک جائیں، باز آ جائیں تو پچھلا جو کچھ گزرا وہ معاف کر دیا جائے گا۔

اور اگر باز نہ آئے تو!

﴿ وَاِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ ﴾

اور اگر یہ پھر واپس لوٹیں گے ، پھر اسلام کے مقابلے پر آئیں گے ، پھر کفر کریں گے، پھر سرکشی کریں گے، تو پچھلے لوگوں کی سنت گزر چکی ہے۔ یعنی پچھلے لوگوں کے ساتھ اللہ کہ سنت گزر چکی کہ جیسے پچھلی ساری اقوام نے جب جب اللہ سے سرکشی کی ، اللہ کے احکامات کی اور اللہ کے بھیجے ہوئے انبیا کی نافرمانی کی تو اللہ کی پکڑ نے ان کو دبوچ لیا اور وہ تباہ ہوئے، ان پہ عذاب آئے، تو اسی طرح اللہ کہ یہ سنت ان کے اوپر بھی پوری ہو گی، اور وہ پوری ہوئی ۔ مختلف غزوات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ہاتھوں سے کفار کو، مشرکین مکہ کو عذاب دیا۔ جو بھی ان میں سے کفر پہ قائم رہا تو یا وہ مسلمانوں کی تلواروں سے مارا گیا اور ہر طرح سے ذلت ان کے اوپر مسلط ہوئی۔ جو کل تک وہاں کے سربراہ تھے ، جو سارے عرب کا مرکز سمجھے جاتے تھے ان کی لاشیں میدانوں میں پڑی ہوئی ہوتی تھیں ۔ تو یہ اللہ نے فرمایا کہ اگر تم واپس لوٹو گے تو جو پچھلے گروہوں کے ساتھ ہوا، جو پہلے کفر کرنے والوں کے ساتھ ہوا، وہی تمہارے ساتھ بھی دہرایا جائے گا۔ اللہ کی سنت آج بھی وہی ہے۔ اس میں تا قیامت ہر ہر انسان کے لیے یہی پیغام موجود ہے کہ جو اللہ کے اصول اور سنتیں ہیں وہ اٹل ہیں اور جو بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین سے منہ پھیرے گا، اور جو بھی اس سے دشمنی لگائے گا، اس سے سرکشی کرے گا تو اللہ ڈھیل ضرور دیتے ہیں لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ کی پکڑ ان کے لیے آتی ہے جیسا کہ پچھلے گزرے ہوئے لوگوں کے لیے آئی۔

یہاں تک تو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے کفر کرنے والوں کو پیغام دیا کہ وہ ایمان لے آئیں، اس کے بعد یہاں اللہ اپنے مومن بندوں کی طرف متوجہ ہو کر فرماتے ہیں کہ تمہارے لیے حکم یہی ہے کہ:

﴿ وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ ﴾

’’تم ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کے فتنہ باقی نہ رہے ۔‘‘

یعنی دعوت دے دی گئی اور دعوت دی جاتی رہے، لیکن دعوت کے ساتھ ساتھ یہ قتال اس انتظار میں نہ رکے کہ کون ان میں سے ایمان لاتا ہے۔ جنگ کرتے رہو کیونکہ جنگ ہی فتنے کو روکنے کا ذریعہ ہے۔

جہاد کا مقصد

تو یہ آیت پیارے بھائیو! جہاد کے سب سے بڑے مقصد کو بیان کرتی ہے۔ جہاد کے دیگر ذیلی مقاصد بھی ہیں لیکن سب سے بڑا مقصد کہ جس کے حصول تک جہاد نے جاری رہنا ہے اور جو جہاد کی ایک اعلی و اشرف صورت ہے ، یعنی اقدامی جہاد ، یا جو فرض کفایہ ہوتا ہے جس کے لیے وہی نکلتا ہے جو خود شہادت کا طالب ہو، یہ جاننے کے باوجود کہ جہاد فرض عین نہیں ہے وہ پھر بھی نکلتا ہے۔ تو اس اقدامی جہاد کا مقصد کیا ہوتا ہے کہ جہاد جب دفاعی مرحلے سے نکل آئے جب زمینیں واپس مل جائیں ، قیدی چھوٹ جائیں، یہ سارے عارضی اسباب ختم ہو جائیں تو پھر ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔

﴿وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ﴾

’’اور دین سارے کا سارا اللہ کے لیے خالص ہو جائے۔‘‘

فتنہ کیا ہے؟

فتنے کی تفسیر میں بالعموم علما سے دو اقوال منقول ہیں:

  1. ایک یہ کہ فتنے سے مراد کفر و شرک ہے۔ کہ جنگ کرو یہاں تک کہ کفر و شرک باقی نہ رہے، یعنی کفر و شرک کے خاتمے تک جنگ نے جاری رہنا ہے۔

  2. اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد کفر کا غلبہ ، کفر کی سلطنت، کفر کی حکومت و شان و شوکت ہے کہ جب تک اس کے پاس شوکت و قوت موجود ہے اس وقت تک اس کے خلاف جنگ کرتے رہو۔ جب وہ ہاتھ سے جزیہ دینے لگے ، ذلیل ہو جائے، چھوٹا بن کے رہے تو تمہارے ماتحت اس کو برداشت کیا جائے گا ، بطور ذمی رکھا جائے گا اور جو اس کے حقوق بطور ذمی بنتے ہیں وہ اس کو دیے جائیں گے لیکن اللہ کی زمین پہ غیر اللہ کا نظام نہیں برداشت کیا جائے گا۔ اس وقت تک ان کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔

تو یہ ہے فتنہ۔ اور اس کے اندر یہ ضمنی پیغام بھی موجود ہے کہ سب سے بڑا فتنہ، اللہ کی نگاہ میں، اللہ کی کتاب کے مطابق ،کفر و شرک یا کفر و شرک کا غلبہ ہے۔ تو جو لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان علاقوں کے اندر قتال سے بہت فتنہ پھیلے گا، اس سے یہ ہو گا، اس سے وہ ہو گا، تو ان کو یہی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خون بہنا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتے ہیں، ﴿وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ﴾ کہ فتنہ تو قتل سے بھی بڑی چیز ہے۔ پس خون بہنے سے بھی بڑے مفاسد اور فتنے دنیا میں موجود ہیں۔ دہائیوں بلکہ صدیوں تک بعض علاقوں میں کفار کا غلبہ برداشت کرنا اور اللہ کے احکامات کو پامال ہوتے دیکھنا اور دہائیوں تک شریعت کا بالکلیہ معطل رہنا اور انسان کے بنائے ہوئے قوانین کا نافذ رہنا، اس سے جو جو فساد پھیلتا ہے ، عقیدوں کا فساد جو پھیلتا ہے، زمین میں جو ظلم پھیلتا ہے ، آخرتیں جو برباد ہوتی ہیں، وہ فتنہ اتنا بڑا ہے کہ اس کی خاطر کچھ قربانی دینی پڑے کچھ خون دینا پڑے تو وہ چھوٹا فتنہ ہے، وہ چھوٹا ضرر ہے، جس کو برداشت کیا جائے گا ۔

ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے یعنی کفر و شرک کا غلبہ باقی نہ رہے یا خود کفر و شرک ہی باقی نہ رہے۔ پس جہاد کے ذریعے کفر و شرک ختم ہوتا ہے اور دین کی دعوت پھیلتی ہے۔

جہاد: دعوت کا مؤثر ترین ذریعہ

ہم نے پہلے بھی ذکر کیا کہ جہاد دعوت کے سب سے مؤثر ذرائع میں سے ہے بلکہ بعض علماء نے تو صراحتاً لکھا ہے کہ جہاد دعوت کی سب سے اشرف و اعلیٰ صورت ہے اس لیے کہ جو دعوت جہاد کے زور سے پھیلتی ہے اور جب ضرب لگتی ہے تلوار کی یا لوہے کی تو جو تاثیر اس کی ہوتی ہے لوگوں کو نیند سے جگانے میں اور غفلت سے بیدار کرنے میں ، ویسی تاثیر کسی اور چیز میں نہیں ہوتی۔ جیسا کہ نائن الیون کے بعد ہوا، اور جیسا ایسے دیگر واقعات کے بعد ہوا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے بعینہ ویسے ہی جیسا کہ فتح مکہ کے بعد ہوا کہ ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ؀وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا﴾ لوگ فوج در فوج دین میں داخل ہونے لگے۔ تو جہاد کی برکت سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ دین کو قوت بخشتے ہیں، دعوت کو پھیلاتے ہیں، نشر کرتے ہیں۔

پیارے بھائیو! یہ وہ دو تفاسیر ہیں جو اس کے ذیل میں آتی ہیں۔ جنگ کرو ان سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔ پس اسی کی خاطر میرا اور آپ کا جہاد ہے کہ اس کفر و شرک کو ختم کیا جائے اور اس کے غلبے کو بھی مٹایا جائے۔ ﴿وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ﴾اور دین اللہ کے لیے خالص ہو جائے۔

یہ ایک تخریبی کام ہے کہ ہم نے پہلے کفر و شرک کے غلبے کو مٹانا ہے اور کفر و شرک کے جتنے مظاہر دنیا کے اندر ہیں نیز اس نوعیت کے جتنے بھی دیگر کام ہیں ، جو بھی بدعات و شرکیات ہیں، تو جب تمکین ملے تو پہلا کام ہی یہ ہے کہ ان چیزوں کا علاج کیا جائے کہ جہاد تو ہے ہی توحید کے قائم کرنے اور شرک کے مٹانے کے لیے۔ یہ فرائض میں سے ہے کسی بھی اسلامی نظام کے کہ وہ نا صرف کفر و شرک کو وہاں برداشت نہ کرے بلکہ اس کی طرف دعوت دینے والوں کی بھی خبر لے اور ان مظاہرو ان جگہوں کی بھی کہ جن کی پوجا کی جاتی ہے۔ تو یہ تخریب ایک جزو ہے۔

اور دوسرا جزو ہے ، ﴿وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ﴾، کہ دین پورے کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔ یہ تعمیری کام ہے کہ توحید کو نشر کیا جائے اور شریعت کا نظام دنیا کے اندر، اللہ کی زمین پر قائم کیا جائے ۔ یہ دوسرا جزو محنت طلب ہے اور مجاہدین کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی جدوجہد صرف ایک تخریبی عمل تک محدود نہیں ہے، وہ تو صرف ایک جزو ہے اس جدوجہد کا، جبکہ دوسرا جزو ضروری بھی ہے اور اس کے بغیر تعمیر شروع ہو بھی نہیں سکتی۔

اسی اعتبار سے وہ دوسرا جزو اہم بھی ہے اور اس کی تیاری بھی اسی سطح پر ہونی چاہیے۔ ایک شرعی نظام کو لانے کی تیاری ہو، ایک شرعی نظام کے لیے جو کچھ درکار ہے اس کے لیے محنت اور کوشش ابھی سے ہو۔ شرعی نظام یکایک ہوا سے تو نہیں آتا ہے۔ قضا کا شعبہ ہے تو اس کے لیے علماء درکار ہیں، شوری کے لیے اس سطح کے لوگ درکار ہیں، مختلف صلاحیتوں والے، مختلف علمی سطحوں والے لوگ درکار ہیں۔ تو اس سمت بھی محنت شروع ہو، اس سمت بھی اقدامات ہوں کہ شریعت زمین کے اوپر قائم ہو اور توحید اللہ تعالیٰ کی نشر کی جائے ۔ تو یہ دوسرا تعمیری جزو ہے جہاد کے مقصد کا کہ فتنے کا خاتمہ ، یعنی کفر و شرک کا خاتمہ اور توحید کو نشر کرنا، یا کفر کے نظام کا خاتمہ اور اس کی جگہ شریعت کے نظام کو قائم کرنا۔ یہ وہ مقصد ہے کہ جس کے حصول تک پیارے بھائیو جنگ نے جاری رہنا ہے خواہ وہ جنگ پاکستان کے اندر ہو یا افغانستان کے اندر ہو یا دنیا میں کہیں بھی ہو۔ وہ اسی مقصد کے حصول تک جاری رہنی ہے۔ وہ شروع لال مسجد سے بھی ہو تو اس کا اختتام اسی وقت پہ ہونا ہے جب یہ مقاصد پورے ہو جائیں اور جب اللہ کا دین غالب ہو جائے ۔

﴿ فَاِنِ انْتَهَـوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ﴾

اللہ فرماتے ہیں:

پس اگر یہ رک جائیں، اگر یہ باز آجائیں تو بلاشبہ جو اعمال یہ کررہے ہیں ، اللہ تعالیٰ اس پہ نگاہ رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس پہ بصیر ہیں، اللہ تعالیٰ سے وہ چھپے ہوئے نہیں ہیں۔

﴿ وَاِنْ تَوَلَّوْا ﴾

اور اگر انہوں نے منہ پھیرا، یعنی اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے ان کفار نے منہ پھیرا اور دین کی طرف اس کے بعد بھی نہ آئے، جہاد سے بھی سیدھے نہ ہوئے،

﴿ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَوْلٰىكُمْ ﴾

تو جان لو اللہ تعالیٰ تمہارا مولی تمہارا مددگار ہے، تمہارا پشت پناہ ہے ،

﴿ نِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُ ﴾

اور اللہ تعالیٰ بہترین مولی ہے اور بہترین مدد کرنے والا ہے۔

تو جو لوگ سرکشی پہ پھر بھی قائم رہیں اور مسلمانوں کے جہاد پر نکلنے کے باوجود بھی ان کے رستے سے ہٹنا نہ قبول کریں، ان کے رستے میں کھڑے رہیں تو پھر اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ اہل ایمان کا مولی اور نصیر ہے اور وہ ان کی مدد کرے گا چاہے کفار کے لشکر کتنے ہی بڑے اور بھاری کیوں نہ ہو جائیں۔ جیسا کہ ہم نے سورۂ انفال کی ابتدائی آیات کے اندر یہ بات پڑھی:

﴿ وَلَن تُغْنِيَ عَنكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْئًا وَلَوْ كَثُرَتْ ﴾

’’تمہارا گروہ جتنا بھی پھیل جائے اور تمہارا لشکر کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہوجائے وہ تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گاچاہے وہ کتنا بھی کثیر کیوں نہ ہو۔‘‘

تو یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہمارے ساتھ وعدہ ہے کہ اگر وہ کھڑے رہیں گے رستے میں تو اللہ کی مدد اور نصرت سے جہاد نے جاری رہنا ہے یہاں تک کہ یہ مقاصد پورے ہو جائیں ۔

مسلمان کی زندگی کا مقصد کیا ہو؟

پس ہر بھائی، ہر مجاہد اور اصولاً ہر مسلمان کو یہ نیت اور یہ عزم کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کی زندگی اس مقصد کے لیے ہے کہ اس نے اللہ کی توحید کو پھیلانا اور کفر و شرک کو مٹانا ہے اور اس کی زندگی اس مقصد کے لیے ہے کہ اس نے کفر کا غلبہ ختم کرنا اور شریعت کا نظام قائم کرنا ہے۔

یہ دنوں کی بات نہیں ہے، مہینوں کی بات نہیں ہے، سالوں کی بھی بات نہیں ہے، شاید زندگی بھر کا سودا ہے لہٰذا جو اس راہ پہ چلے وہ سوچ سمجھ کر اس رستے کو اختیار کرے کہ اس میں پھر واپسی کا رستہ ہے ہی نہیں کیونکہ واپس پلٹنے کے حوالے سے ہم نے سورۂ انفال ہی کے آغاز میں وعیدیں پڑھ لیں جو پیچھے ہٹنے والے اور فرار کی راہ اختیار کرنے والے کو مخاطب ہیں۔ تو انسان اپنے آپ کو صبر کا عادی بنائے ۔ اور صبر میں سب سے مشکل صبر ایک تو جو وقتی آزمائشیں اور سختیاں آٗئیں ان پہ صبر کرنا ہے لیکن سب سے بڑا صبر یہ ہے کہ انسان اس رستے سے بور نہ ہو، تھکے نہ، سالوں گزرنے کے بعد بھی وہ یہ نہ کہے کہ یار بہت ہو گیا، بس ہو گئی، پانچ سال ہو گئے ، دس سال ہو گئے، کافی ہو گیا۔ تو یہ کہنے کو آسان بات ہے لیکن گر اللہ کی توفیق نہ ہو تو بہت مشکل کام ہو جاتا ہے کہ انسان مثلاً شیخ اسامہ ﷫ کی طرح ایک ہی رستے پر تیس سال تک چلتا چلا جائے ، اس کے جاننے والا کوئی بچا ہی نہ ہو۔ اس کی ہم عصر پوری نسل ختم ہو چکی ہو۔ شیخ کی زندگی کے آخری دنوں میں جن لوگوں سے ان کی خط و کتابت تھی ان میں سے بیشتر سے شیخ کی ملاقات بھی کبھی نہیں ہوئی تھی یا کسی کسی سے شیخ کی ایک یا دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ شیخ ایمن الظواہری کے علاوہ شاید باقی جتنے لوگ ان کے ماتحت تھے، حتی کہ شیخ عطیۃ اللہ و شیخ ابو یحییٰ تک، ان میں سے بیشتر حضرات وہ تھے کہ جن سے کم تعلق رہا شیخ کا اور جن سے کبھی کبھار ہی افغانستان کے دور میں ملاقاتیں ہو سکیں۔ شیخ کا وقت تو ان لوگوں کے ساتھ گزرا تھا جو روس دور کے آغاز میں آئے تھے، کون ان میں سے باقی بچا تھا؟ جو چند لوگ باقی تھے ان میں سے، وہ بھی پچھلے سالوں کے اندر شہید ہو گئے اس محاذ پر ۔ شیخ ایمن خود بھی اپنے عہد کی چند یادگاروں میں سے ہیں، لیکن پھر بھی ان کی گفتگو میں، ان کے کلمات میں، اللہ ان کی نصرت فرمائے، حفاظت فرمائے، ان کی باتوں کے اندر جو عزم محسوس ہوتا ہے وہ کسی تھکے ہوئے بوڑھے انسان کا عزم نہیں بلکہ وہ ہم میں سے ہر جوان سے بڑھ کر عزم ہوتا ہے۔ جیسے ابھی بھی ساٹھ سال مزید آگے جانے کا ارادہ ہو۔ تو ایسا عزم ہونا کہ انسان تھکتا نہ ہو اس رستے سے ۔ بہت سے ساتھیوں کو دیکھا ہے کہ کچھ عرصہ بعد آہستہ آہستہ ہمتیں پست اور جذبے ٹھنڈے پڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔ شروع میں انسان بڑا گرم گرم آتا ہے اور سارا کچھ ٹھیک چل رہا ہوتا ہے لیکن ایک ہی چیز کر کر کے وہ آہستہ آہستہ بور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ تو یہ اللہ سے توفیق مانگنے کی بات ہے۔ لوگ واپس لوٹ جاتے ہیں۔ دس دس سال گزار کے پھر پیچھے ہٹ جاتے ہیں جہاد سے۔ یہ اللہ کی توفیق ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو ایسا اس پہ ثبات دیں کہ وہ زندگی بھر اس رستے کو تھامے رکھے اور زندگی بھر اس کے اوپر چلتا رہے ۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو موت تک یہ ثبات نصیب فرمائیں اور ایمان پہ خاتمہ نصیب فرمائیں۔

سبحانک اللھم و بحمدک ونشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک و نتوب الیک و صلی اللہ علی النبی

٭٭٭٭٭

Previous Post

عمر ِثالث | آٹھویں قسط

Next Post

امنیت (سکیورٹی) | پہلی قسط

Related Posts

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اگست 2025

17 اگست 2025
نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری
حلقۂ مجاہد

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری

17 اگست 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: پینتیس (۳۵)

14 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | پندرھواں درس

12 اگست 2025
احکامِ الٰہی
گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال

احکامِ الٰہی

15 جولائی 2025
ٹیلی گرام: پرائیویسی کا فریب
اوپن سورس جہاد

ٹیلی گرام: پرائیویسی کا فریب

14 جولائی 2025
Next Post
امنیت (سکیورٹی) | پہلی قسط

امنیت (سکیورٹی) | پہلی قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version