نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | پندرھواں درس

خواطر، نصائح اور تفسیر

احمد فاروق by احمد فاروق
12 اگست 2025
in حلقۂ مجاہد, اگست 2025
0

الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین محمد و علیٰ آلہ و صحبہ و ذریتہ اجمعین اما بعد

فقد قال اللہ سبحانہ وتعالیٰ فی کتابہ المجید بعد أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمان الرحیم

﴿ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ؀﴾ (سورۃ الانفال: ۴۱)

صدق اللہ مولانا العظیم

رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ، وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ، يَفْقَـــهُوْا قَوْلِيْ

اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:

وَاعْلَمُوا اور جان لو! أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ کہ تم جو کچھ بھی تھوڑا بھی غنیمت کرتے ہو، فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے، وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے اور قرابت داروں اور یتامٰی اور مساکین اور مسافر کے لیے ہے، إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو، وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ اور اس پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا، یوم فرقان یعنی بدر کے دن، يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ اس دن جب دونوں لشکروں کا آپس میں ٹکراؤ ہوا، وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والے ہیں۔

وہ بات جو سورۂ انفال کے آغاز میں شروع ہوئی، يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ کہہ کر کہ یہ آپ سے انفال کے بارے میں یعنی غنائم کے بارے میں سوال کرتے ہیں، اس بات کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ یہاں اس آیت مبارکہ میں مکمل فرماتے ہیں اور غنائم کے حوالے سے مختصر احکام بیان فرماتے ہیں۔ وہاں اصولی بات کہہ دی، قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ کہہ دو کہ انفال یا غنائم اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں، یعنی غنیمت کے مال کے بارے میں فیصلہ اللہ اور اس کے رسول کا ہوگا۔ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ بدر پہلی بڑی جنگ ہے مسلمانوں اور کفار کے درمیان اور پہلا موقع ہے جہاں غنیمت کا سوال پیش آیا اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے وہ سوال رسول اللہ ﷺ کے سامنے رکھا اور اس پس منظر کے ساتھ یہ آیات مبارکہ نازل ہوئیں۔ تو اللہ تعالی ٰ فرماتے ہیں کہ أَنَّمَا غَنِمْتُم جو تم نے غنیمت کیا۔

غنیمت کس کو کہتے ہیں؟

غنیمت اس مال کو کہتے ہیں جو کفار سے بزور قوت، قَھْراً وعُنْوَۃً،زور سے قوت سے چھینا جائے یا بعض علماء اس پر اضافہ کرتے ہیں کہ جو ان کی زمین کو گھوڑوں سے پامال کرکے ان سے چھینا جائے یعنی وہ علاقہ جس کے اندر گھس کر ہم قوت کے زور سے اسے فتح کریں اور وہاں کفار سے بزور قوت جو مال حاصل کریں اسے غنیمت کہا جاتا ہے۔ بعض علما ایک قید کا مزید اضافہ کرتے ہیں بات کی وضاحت کے لیے کہ بِحَقٍّ، یعنی وہ مال جو حق کے ساتھ بزور قوت کفار سے چھینا جائے؛ پس اس سے وہ مال خارج ہے جو کسی ذمی یا کسی معاہد سے ناحق کوئی شخص بزور قوت چھین لے، وہ قابل گرفت عمل ہے، اس کا ذکر نہیں ہورہا، یہ حربی کفار سے حق کے ساتھ جو مال بزور قوت چھینا جائے، قلیلاً کان او کثیراً، تھوڑا ہو یا زیادہ ہو، مال غنیمت کہلاتا ہے۔ہرمجاہد کو غنیمت کی یہ بنیادی تعریف معلوم ہونی چاہیے۔

مالِ فے

اسی طرح دوسرا عنوان فے کا مال ہے۔ یہ وہ مال ہے جو کفار سے چھینا جاتا ہے لیکن ان کی زمین کو اپنے گھوڑوں سے پامال کیے بغیر۔

مال سَلَب

غنیمت اور فے کے علاوہ ایک تیسری اصطلاح اس پس منظر میں سلب کی آتی ہے، وہ مال کہ جو حدیث میں آتا ہے کہ

مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ

’’جس نے کسی (کافر) کو قتل کیا، اور اس کے پاس اس کا ثبوت ہے تو اس کا سلب یعنی اس (مقتول کافر) کا مال اسی (قتل کرنے والے مجاہد) کے لیے ہے۔‘‘

آگے اس میں تفصیل ہے۔ سلب کہتے ہیں کافر کے جسم پر موجود اس مال کو جسے (اس کافر کو) قتل کرنے والا مجاہد اس سے چھینتا ہے۔ مثلاً اس کے جسم پر موجود کپڑے، اس کا اسلحہ، اس کے پاس موجود اموال وغیرہ۔ مجاہدین کی طرف سے جو قاتل ہے، وہ جو کچھ چھین رہا ہے قتل کیے جانے والے سے وہ سلب کہلاتا ہے۔

اس میں تفصیل یہ ہے کہ احناف کے نزدیک یہ مسئلہ اس طرح ہے کہ رسول اکرم ﷺ کا یہ فرمان ایک عمومی فرمان نہیں تھا بلکہ یہ کہ امام اگر کسی مخصوص جنگ سے پہلے یہ کہہ دے کہ اس جنگ کے اندر جس نے جس کو قتل کیا اس کا مال اس کا ہوگا تو وہاں تو یہ حکم منطبق ہوگا لیکن اگر یہ نہ کہا جائےتو یہ کوئی عمومی حکم نہیں ہے کہ ہر حال میں جو جس کو قتل کرتا ہے مال اس کا ہوتا ہے، بلکہ عام حالات میں وہ غنیمت ہی کا مال ہے، لوٹایا جائے گا اور تقسیم ہوگا۔ لیکن امام کو حق ہے کہ کسی جگہ وہ تحریض دینے کے لیے یہ عمومی اعلان کردے کہ اس جنگ کے اندر جس نے جس کو قتل کیا تو مقتول کا مال اس مجاہد کا ہوجائے گا تو اس طرح جو مال وہ حاصل کرے گا اس کو سلب کہتے ہیں جو قاتل کو ملتا ہے۔ اور بعض علمائے احناف کے یہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ بالاصل اعلان نہ ہو لیکن جنگ کے بعد انعام کے طور پر تحفے کے طور پر امام اعلان کردے کہ آج جس جس نے جس کو قتل کیا تھا تو مقتول کا مال اس کا ہوگیا تو یہ سلب کہلاتا ہے۔

تو یہ تین اصطلاحیں پیارے بھائیو ذہن میں رہنی چاہییں: غنیمت، فے اور سلب کی اصطلاح۔ یہ وہ اصطلاحیں ہیں جو امت بھول چکی ہے۔ جو کل تک امت کے معاش کا ایک اساسی ذریعہ ہوتا تھا، اور جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے عام مسلمان تک کو غنی کیا، وہ اصطلاحیں ہمارے یہاں سے مٹ چکی ہیں بلکہ ایک بڑا طبقہ ان کا ذکر کرنے میں بھی شرم محسوس کرتا ہے۔

یہاں ہم غنیمت کے حوالے سے احکام پڑھ رہے ہیں، باقی چیزوں کے احکام ان کی جگہوں پر آتے ہیں۔اللہ فرماتے ہیں کہ جان لو کہ جو کچھ بھی تم نے غنیمت کیا، مِّن شَيْءٍ تھوڑا بھی ہوا۔ حدیث میں غنیمت کے مال کو چھپانے یا اس میں خیانت اور غلول کرنے کے حوالے سے بہت سخت وعیدیں آتی ہیں اور وہ حدیث معروف ہی ہے اس شخص کے بارے میں جو صحابہ کے ساتھ کسی جنگ میں شریک ہوتا ہے اور مارا جاتا ہے اور اس کے بارے میں صحابہ کہتے ہیں کہ وہ شہید ہوگیا، وہ جنتی ہوا تو نبی کریم ﷺ ٹوکتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ وہ رومال جو اس نے غنیمت کے مال میں سے ناحق لیا تھا،میں اس کو اس کے جسم کے گرد آگ کا رومال بن کر لپٹا ہوا دیکھ رہا ہوں۔غنیمت کے مال سے چھوٹی سی چیز چھپا لینا بھی اجر ضائع کرنے اور جہاد میں جو کچھ بھی کمایا ہے اسے گنوا دینے والی چیز ہے۔ اسی لیے دوسری جگہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ أَدُّوا الْخَيْطَ وَالْمِخْيَطَ، سوئی دھاگہ بھی ہو تو وہ بھی ادا کردو وہ بھی جمع کرادو۔ کوئی چھوٹی سی چھوٹی چیز بھی ملے تو وہ بھی انسان امیر لشکر کے سامنے لاکر رکھےپھر وہ شرعی تقسیم کے مطابق اس کو تقسیم کرے اور جس کا جو حق بنتا ہے۔ جو شریک ہے اس کو ویسے بھی اس کا حصہ ملنا ہے، لیکن قبل از تقسیم ناحق کوئی چیز چھپا لینا اور اسے امیر لشکر کے سامنے پیش نہ کرنا بہت بڑی خیانت ہےاور اس پہ بہت سی وعیدیں موجود ہیں۔

وہ مراحل کوئی بہت دور نہیں ہیں، ابھی بھی پیش آجاتے ہیں ایسے معرکے کہ جہاں غنیمت ملتی ہے لیکن ان شاءاللہ وہ وقت بھی زیادہ دور نہیں جب اس سے زیادہ بڑے غنائم کے مرحلے آئیں گےاور ہر مجاہد کے ہاتھ کچھ نہ کچھ غنیمت لگے گی ان شاء اللہ۔ تو ان سارے مراحل کے لیے یہ احکام ذہن میں رہنے چاہییں۔

غنیمت:نعمت یا ابتلا

غنائم نعمت بھی ہیں اور ابتلا بھی۔ جب یوں دروازے چوپٹ کھلتے ہیں، شہروں کے شہر اور ولایتوں کی ولایتیں فتح ہوتی ہیں تو پھر غنائم بھی اسی حساب سے بڑے بڑے آتے ہیں، تو وہاں اپنی توجہ اللہ کی طرف مرکوز رکھنا اور اللہ کی کھینچی ہوئی حدود پر اپنے آپ کو روک دینا، ابتلا اور آزمائش ہوتی ہے۔ اسی لیے ساتھ ہی فرمادیا گیا کہ جان لو کہ جو بھی تم نے غنیمت کیا، چاہے تھوڑا بھی کیا تو فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ،اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہے۔

اللہ کے حصے سے کیا مراد ہے؟

یہاں جمہور علما کرام کی رائے یہ ہے کہ اللہ کے حصے سے مراد یہ نہیں کہ باضابطہ اللہ کا کوئی حصہ ہے، اللہ غنی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ جو سب تقسیم بیان ہونے چلی ہے اس سے پہلے یہ تسلیم کرو کہ بالاصل یہ اللہ کا حصہ ہے، اللہ کا مال ہے، اللہ کی نعمت ہے، اللہ کی عطا ہے اس کا دیا ہوا تحفہ ہے۔ تو علما یہ کہتے ہیں کہ یا تبرکاً یہاں اللہ کا نام ذکر کیا ہےیا پھر اسی نکتے کی یاددہانی مقصود ہے جو سورت کے آغاز میں یاد دلایا گیا تھا کہ یہ اصل میں اللہ کا مال ہے اور اس نے تمہیں عنایتاً دیا ہے، ورنہ تو تم اللہ کے دین کی سربلندی اور جنت و شہادت پانے کے لیے نکلے تھے۔تو پہلی بات یہ مانو کہ یہ سب اللہ کا ہے۔اس کے بعد پھر تقسیم بتائی جاتی ہے کہ اس کو عملا ًکیسے تقسیم کرنا ہے، ورنہ اللہ کے حصے سے بیشتر علما کے نزدیک کوئی مخصوص حصہ مراد نہیں ہے۔

وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ، حصے یہ ہیں۔ جب غنیمت کا مال آتا ہے تو اسے پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یا یہ کہیں کہ پانچ میں سے چار حصے ایک طرف اور پانچواں حصہ علیحدہ کردیا جاتا ہے۔ پھر یہ جو پانچواں حصہ ہے اس کے پانچ مصارف ہیں:

  1. رسول اللہ ﷺ کا حصہ
  2. رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں کا حصہ
  3. یتیموں کا حصہ
  4. مساکین کا حصہ
  5. اور مسافر کا حصہ

اس پانچویں حصے کے یہ پانچ مصارف ہیں یا یہ کہیں کہ وہ پانچواں حصہ ان پانچ سمتوں میں خرچ ہونا ہے۔اور جو باقی چار حصے ہیں وہ معرکے میں شریک مجاہدین پر تقسیم ہوں گے۔آگے اس میں بھی تفصیل ہے۔ بعض علماء کے نزدیک جو دارالحرب میں داخل ہوا جنگ لڑنے کے لیے ان سب لوگوں پر وہ مال تقسیم ہوگا خواہ وہ لڑائی میں شریک ہوا یا نہیں ہوا۔بعض کے نزدیک جو اس معرکے میں شریک ہوا، چاہے اس کو لڑنے کا موقع ملا یا وہ پچھلی صف میں بیٹھا رہا، لیکن جو بھی اس معرکے میں شریک شخص ہے اس کو اس میں سے حصہ دیا جائے گا۔ ہمارے حالات میں اس کی تطبیق کیسے ہوگی؟ یہ تفصیل لمبی ہوجائے گی، اس کو چھوڑتے ہوئے ایک اصولی بات پر رکتے ہیں یہاں کہ پانچ میں سے چار حصے واپس لوٹ کر انہی لوگوں میں تقسیم ہوں گے جو اس جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ تو یہ اللہ کی عطا اور نعمت ہے۔ ہم نے پہلے بھی سورۂ انفال کی ابتدائی آیات پر بات کرتے ہوئے یہ بات کی کہ اللہ کا دین سراپا رحمت و آسانی کا دین ہے، اللہ کا دین یُسر ہے، آسان ہے،یہ اتنی بڑی نعمت ہے،آپ خود تھوڑی دیر کے لیے تصور کریں اس کو، فتوحات کی روشنی میں تصور کریں کہ پانچ میں سے چار حصے واپس اسی لشکر میں تقسیم ہوں تو مجاہدین کتنے اغنیا ہوکر باہر نکلیں گے ان جنگوں کے اندر سے۔ بعض اوقات پورے پورے خزانے، بینکوں کے بینک اور ریاستوں کے اموال ہاتھ میں آجاتے ہیں تو اس کا پانچ میں سے صرف ایک حصہ ہے جو دیگر مصارف میں صرف کیا جانا ہے، باقی چار حصے واپس اس لشکر میں تقسیم ہونے ہیں تو بے چارے شریف شرفا مجاہدین راتوں رات ارب پتی کھرب پتی بن سکتے ہیں، یہ اللہ کی عطا ہے۔ اللہ نے نا صرف اس کو حلال کیا بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خصائص گنواتے ہیں کہ مجھے باقی انبیاء پہ اور میری امت کو باقی امتوں پہ کن چیزوں کے ذریعے فضلیت دی گئی تو اس میں سے ایک یہ ہے کہ میرے لیے غنائم حلال کیے گئے، وَأُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ، جو پچھلی امتوں کے لیے حلال نہیں تھے۔ تو یہ اللہ کی عطا ہےاپنے آخری نبی ﷺ پہ اور اس کی امت پہ اور یہ اس کے لیے خصوصی انعام ہے اللہ تعالیٰ کا۔ نیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس امت کا جو مقام ہے، رسول اللہ ﷺ سے منسوب ہونے والوں کا جو مقام ہے، یہ اس کا ایک اظہار بھی ہے کہ اللہ ان کو باقی امتوں کے اوپر فضیلت دیتے ہوئے ان کو یہ تحفہ دیتے ہیں، ان کو یہ عطا دیتے ہیں کہ ان کے لیے غنائم کو حلال کیا جاتا ہے۔ قرآن میں بھی اللہ اس کو حلال و طیب مال قرار دیتے ہیں، صرف حلال نہیں، بلکہ حلال بھی اور پاکیزہ بھی۔

فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَيِّبًا

’’تم نے جو کچھ بھی غنیمت کیا اس کو کھاؤ، وہ حلال اور طیب مال ہے۔‘‘

یہ اللہ کی عطا ہے۔ تو یہ چار حصے وہاں چلے گئے اور جو پانچواں حصہ باقی رہ گیا اس نے پانچ سمتوں یا پانچ مصارف میں خرچ ہونا ہے:

  • رسول اللہ ﷺ کا حصہ

احناف کے نزدیک یہ آپ ﷺ کی زندگی تک موجود تھا اور اس کے بعد یہ حصہ ساقط ہوگیااور جمہور کے نزدیک یہ حصہ ابھی بھی باقی ہے اور یہ حصہ خرچ ہوگا مسلمانوں کی عام مصلحت میں۔ یہ بیت المال میں جائے گا اور مسلمانوں کے عام مصالح میں، ان کی عام ضروریات میں استعمال کیا جائے گا۔

  • قرابت داروں کا حصہ

قرابت داروں سے مراد رسول اللہ ﷺکے قرابت دار ہیں۔ یہ حصہ بھی رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں بنو مطلب کو ملا کرتا تھا، کیونکہ انہوں نے نصرت کی رسول اللہ ﷺ کی جاہلیت میں بھی اور اسلام میں بھی تو اللہ کی جانب سے ان کا حصہ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ کہہ کر، وحی کے ذریعے مقرر کیا گیا۔ اس میں آگے پھر اختلاف ہے۔ احناف کہتے ہیں کہ یہ حصہ بھی رسول اللہ ﷺ کی وفات کے ساتھ ہی، چونکہ رسول اللہ ﷺ ہی کی نصرت سے مخصوص تھا، تو آپ کی وفات کے ساتھ یہ حصہ بھی موقوف ہوگیا۔ جب کہ جمہور کہتے ہیں کہ یہ حصہ آج تک باقی ہے اور بنو مطلب کو آج بھی دیا جائے گا۔

  • یتیموں، مساکین اور مسافر کا حصہ

اسی طرح اگلا حصہ یتیموں کا، اس سے اگلا مساکین کا اور اس سے اگلا حصہ مسافر کا کہ جو اپنے علاقے سے نکل کر کٹ چکا ہو اور اس کے پاس اسباب و وسائل نہ موجود ہوں تو عملاً گویا احناف کے نزدیک اس وقت صرف تین حصے بچتے ہیں: یتیموں، مساکین اور مسافر کے جبکہ جمہور کے نزدیک یہ پانچوں حصے باقی ہیں اس تفصیل کے ساتھ کہ رسول اللہ ﷺ کا حصہ اب مسلمانوں کی عام مصلحتوں میں خرچ ہوگا۔

تو یہ وہ شرعی تقسیم ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمارے لیے مقرر کی اور فرمایا کہ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّهِ، اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یعنی یہ وہ تقسیم ہے کہ اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اس کی پابندی کرو گے اور اس حد پر رک جاؤ گے، اپنی خواہش کو اس کے اندر دخل نہیں دو گے اور اس کے اندر کسی قسم کی خیانت اور غلول کا ارتکاب نہیں کرو گے۔

ایمان کی نشانی

ایمان کی نشانی بتائی گئی، ایمان کے ساتھ مشروط کیا گیا کہ جو صاحب ایمان ہے وہ غنیمت کی تقسیم میں اپنے ہاتھ کو روکے گا۔ جس طرح میں نے کہا کہ یہ بات ابھی ہلکی لگ رہی ہے، جب یہ ابتلا آئے گی تو پھر اندازہ ہوگا کہ یہ واقعتاً کتنی خطرناک چیز ہے۔ مال چیز ایسی ہے کہ وہ آپس میں لڑائی اور منافست پیدا کرتی ہے۔ مختلف مجموعے ایک ہی کارروائی میں شریک ہوں اور دونوں کے پاس اس میں سے غنائم آئیں تو اتنا اللہ کے لیے تجرد ہونا، اتنا اللہ کے لیے اپنے آپ کو خالص رکھنا کہ ان کے درمیان اس کے اوپر کسی قسم کا اختلاف نہ پیدا ہونے پائے اور جس کا جو حق بنتا ہے وہ اس کو اسی تفصیل کے ساتھ دیا جائے اور کوئی شک ہو تو دوسرے کے حق میں تنزل کیا جائے، اس کو دے دی جائے اپنے حصے کی کوئی چیز تو اس کے لیے اخلاص کا ایک خاص مرتبہ اور اللہ کے ساتھ ایک خاص قسم کا صدق درکار ہے۔ اور اسی طرح افراد کے درمیان بھی یہ منافست کا اور کھینچا تانی کا ذریعہ بن سکتا ہے الا یہ کہ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھیں، تو یہ نعمت بھی ہے اور ساتھ ہی یہ ابتلا بھی ہے۔

اگر تم اللہ پہ ایمان رکھتے ہو وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ اور اس پہ ایمان رکھتے ہو جو ہم نے اپنے بندے پہ یوم فرقان نازل کیا۔اپنے بندے سے مراد رسول اللہ ﷺ ہیں اور کیا نازل کیا اللہ نے؟ اپنی نصرت نازل کی اللہ نے، ملائکہ نازل کیے، تائید و سکینت نازل کی جس کے ذریعے سے ایک قلیل لشکر کو ایک کثیر لشکر کے اوپر اللہ نے فتح عطا فرمائی۔ تو اللہ پر ایمان ہے اور اللہ کی اس دن نازل کردہ نصرت پر ایمان ہےکہ واقعتاً اللہ کی مدد سے تم جیتے تھےتو پھر اللہ جو تقسیم دے رہے ہیں اس کے اوپر رک جاؤ، پھر اللہ نے جو حدود بیان کیں ان کو تسلیم کرلو۔

یہاں ایک ضمنی بات پیارے بھائی کہ جب بھی اللہ تعالیٰ محبت بھرے انداز میں رسول اللہ ﷺ کا قرآن میں ذکر کرتے ہیں تو آپ کی جو شان بتاتے ہیں وہ یہ کہ وہ اللہ کےعبد تھے۔ یہاں پہ بھی ذکر اسی طرح عبدنا کہہ کر آیا اور سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ …، پاک ہے وہ ذات جو رات میں لے کر گیا اپنے بندے کومسجد حرام سے مسجد اقصیٰ، تو اس قربت والے سفر کا بھی جب ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ کی جو صفت بتائی وہ آپ کا عبد ہونا بتایا، اللہ کا غلام ہونا بتایا۔

انسان کے لیے سب سے اونچا مقام کون سا ہے؟

تو پیارے بھائیو انسان کے لیے سب سے اونچا مقام، مقام عبودیت ہے۔ اللہ کے یہاں وہ شخص سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے اور انسانوں میں سب سے زیادہ معزز ہوتا ہے جو جتنا سچا اللہ تعالیٰ کا عبد ہو، جو جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہو اور جتنا زیادہ اس کے احکامات کو پورا کرتا ہو۔ یہ سو فیصد عکس ہے اس جمہوری اور سرمایہ دارانہ فکر کا جو آج ہمیں دی جاتی ہےجہاں انسان ہی سب کچھ ہے، انسان ہی الہ ہے اور انسان آزاد ہے، انسان کو کوئی پوچھنے والا نہیں، انسان ہی قانون بناتا ہے، انسان ہی کی خواہشوں کو پورا کرتا ہے، انسان کی رائے حاکم ہے، انسانوں کی خواہش کے مطابق چلنا ہے، تو ایک یہ پورا تصور ہے کفر و شرک پہ مبنی، اور ایک یہ تصور ہے کہ جہاں نبی کی شان بھی محبت سے جب بتائی جاتی ہے تو عبد ہونا بتائی جاتی ہے، یہ اس کی عظمت ہے۔ انسان جتنا جھکتا ہے اتنا اللہ کے ہاں وہ بلند ہوتا ہے، جتنا وہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے اتنا اس کا مقام دنیا و آخرت میں اونچا کیا جاتاہے۔ تو یہ وہ مقام ہے کہ جس کے لیے میں نے اور آپ نے جدوجہد کرنی ہے اپنی زندگی میں کہ اللہ کے سچے عبد بن جائیں، اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بن جائیں جیسا کہ اللہ کے نبی نے فرمایا کہ أَفَلَا أَکُونُ عَبْدًا شَکُورًا، کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟ راتوں کو کیوں نہ جاگوں میں، کیوں نہ اللہ کے سامنے گڑگڑاؤں، میرا بھی حق ہے کہ میں اللہ کا شکر گزار بندہ بنوں۔ ایک فرد کا بھی ہدف یہ ہے اور ایک اجتماعیت کا بھی ہدف یہ ہے کہ وہ اللہ کی عَبِید بن جائے وہ اللہ کے غلاموں کی اجتماعیت ہو جو اللہ کے احکامات پہ رکنے والی ہو۔ نظام نافذ کریں گے تو اس نظام کے اندر بھی یہی عبودیت والی صفت پائی جانی چاہیےکہ وہ اللہ کی عبادت کرنے والا نظام ہو کہ جہاں خلیفہ بھی اگر حکومت چلاتا ہے تو عبادت سمجھ کے، جہاں کوئی جنگ کرتا ہے تو وہ بھی ہوائے نفس کے لیے نہیں بلکہ عبادت سمجھ کے، جہاں قاضی فیصلہ کرتا ہے تو عبادت سمجھ کے، مفتی فتوی دیتا ہے تو عبادت سمجھ کے، اور جہاں وزرا ءاور مشیر رائے دیتے ہیں تو عبادت سمجھ کے، یہ سب کچھ ایک عبادت کی شان ہے۔ وہ جس معاشرے میں زندہ ہو وہ اسلامی معاشرہ کہلاتا ہے، وہ جس نظام میں زندہ ہو وہ اسلامی نظام کہلاتا ہے، وہ جس فرد میں زندہ ہو وہ ایک اسلامی سیرت و کردار والا مسلمان کہلاتا ہے۔

یوم الفرقان

یوم الفرقان کا ذکر کیا اللہ نے، بدر کے دن کو یوم فرقان کہا، یوم فرقان اس لیے کہا کہ اس نے حق و باطل میں تفریق کردی۔ کمزور و بے سروسامان لشکر کو اللہ تعالیٰ نے ایک قوت و طاقت والے لشکر پر فتح دی جس سے واضح ہوگیا سب کو کہ دونوں میں کوئی معنوی فرق ایسا تھا۔ مادی اعتبار سے تو کافر غالب تھے لیکن کوئی معنوی فرق ایسا تھا، دونوں کے سینوں میں موجود عقیدے میں کوئی فرق ایسا تھا جس کی وجہ سے کمزور طاقتور پر غالب آگیا۔ اس سے مسلمانوں کی دعوت اور اہل ایمان کے دلوں میں موجود ان کے عقیدے کی سچائی واضح ہوگئی اور اس فرق کو اس سچائی کو اللہ تعالیٰ نے علیحدہ کردیا کافروں کے دلوں میں موجودکفریہ اور شِرکیہ غلیظ عقیدے سے۔تو یہ دن جس میں حق و باطل واضح ہوا جس میں اہل حق اور اہل باطل میں اور سچے اور جھوٹے عقیدے میں فرق کردیا گیا، اور ان لوگوں کو کہ جو دعائیں کرتے تھے کہ ہم پہ پتھر برسا آسمان سے، ان لوگوں سے کہ جو اللہ تعالیٰ سے آخری وقت تک گڑگڑاتے رہے، بدر کے دن بھی اللہ سے رو رو کر دعائیں کرتے رہے،علیحدہ کردیا اور دونوں میں سے حق و باطل کو چھانٹ کر اللہ تعالیٰ نے واضح کیا، اس لیے اس کو یوم فرقان کہا جاتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے اس دن جڑ سے اکھاڑا مشرکین مکہ کو، ان کو جو ضرب بدر کے دن لگی، اس سے وہ آخر تک، فتح مکہ تک سر نہیں اٹھا سکے۔ حملے ہوتے رہے لیکن ان کے جو بڑے بڑے سردار اس دن ذبح ہوگئے یہ ضرب ایسی تھی کہ ان کو اس سے اٹھنے کی اور پہلی سی قوت کی طرف دوبارہ لوٹنے کی پھر طاقت نہیں مل سکی۔ پس یہ اللہ کی عطا تھی کہ ضعف میں اللہ نے اپنے بندوں کی مدد کی۔ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ، اس دن جب دونوں لشکر آپس میں ٹکرائے یعنی ایمان والوں کا لشکر اور کفر والوں کا لشکر۔

وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں۔ اللہ نے پھر اشارہ کردیا کہ یہ بندوں کی فتح نہیں تھی، یہ اللہ کی قدرت سے، اللہ کی طاقت سے اللہ کی نصرت سے فتح نصیب ہوئی تھی۔

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس آیت کو سمجھنے اور اس میں موجود احکامات پر عمل کرنے کی توفیق دیں۔

سبحانک اللھم و بحمدک ونشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک و نتوب الیک و صلی اللہ علی النبی

٭٭٭٭٭

Previous Post

امنیت (سکیورٹی) | دوسری قسط

Next Post

غزہ کی حالیہ جنگ سے متعلق مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت کا بیان

Related Posts

فراستِ مومن
نقطۂ نظر

فراستِ مومن

17 اگست 2025
نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری
حلقۂ مجاہد

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری

17 اگست 2025
اوطان کی جنگیں
نقطۂ نظر

اوطان کی جنگیں

17 اگست 2025
احکامِ الٰہی
گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال

سلطان ٹیپو کی وصیت

17 اگست 2025
مع الأستاذ فاروق | انتیسویں نشست
صحبتِ با اہلِ دِل!

مع الأستاذ فاروق | اکتیسویں نشست

17 اگست 2025
علاجے نیست
عالمی منظر نامہ

علاجے نیست

17 اگست 2025
Next Post
غزہ کی حالیہ جنگ سے متعلق مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت کا بیان

غزہ کی حالیہ جنگ سے متعلق مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت کا بیان

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version