نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط

شیخ یحیٰ السنوار شہید رحمۃ اللہ علیہ کا شہرۂ آفاق ناول

یحییٰ سنوار by یحییٰ سنوار
14 جولائی 2025
in ناول و افسانے, جولائی 2025
0

مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ بطلِ اسلام، مجاہد قائد، شہیدِ امت، صاحبِ سیف و قلم شیخ یحییٰ ابراہیم السنوار رحمۃ اللہ علیہ کےایمان اور جذبۂ جہاد و استشہاد کو جلا بخشتے، آنکھیں اشک بار کر دینے والے خوب صورت ناول اور خودنوشت و سرگزشت ’الشوک والقرنفل‘ کا اردو ترجمہ، قسط وار شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ یہ ناول شیخ نے دورانِ اسیری اسرائیل کی بئر سبع جیل میں تالیف کیا۔ بقول شیخ شہید اس ناول میں تخیل صرف اتنا ہے کہ اسے ناول کی شکل دی گئی ہے جو مخصوص کرداروں کے گرد گھومتا ہے تاکہ ناول کے تقاضے اور شرائط پوری ہو سکیں، اس کے علاوہ ہر چیز حقیقی ہے۔ ’کانٹے اور پھول‘ کے نام سے یہ ترجمہ انٹرنیٹ پر شائع ہو چکا ہے، معمولی تبدیلیوں کے ساتھ نذرِ قارئین ہے۔ (ادارہ)


­ نویں فصل

اردن میں کرامہ کی فتح کے بعد شاہ حسین نے کہا : ہم سب فدائی ہیں اور اس فتح کی عزت کے جذبات کے ساتھ فلسطینی نوجوان ہزاروں کی تعداد میں عرب ممالک کے پناہ گزین کیمپوں سے نکل کر الفتح تحریک کے دفاتر میں شامل ہونے لگے ، اردن اور دیگر عرب ممالک میں فلسطینی انقلاب نے اپنی جڑیں مضبوط کرنی شروع کر دیں، اس کے رہنما اور قائدین، خاص طور پر یاسر عرفات، عرب دارالحکومتوں میں بڑے پرتپاک استقبال سے نوازے جانے لگے، خاص طور پر قاہرہ میں جمال عبد الناصر کے دور میں، جو عرب قوم کے رہنما سمجھے جاتے تھے۔

بہت سے فلسطینی خاندان مغربی کنارے اور پناہ گزین کیمپوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ نہ صرف وہ خاندان جو 1948ء میں ہجرت کر چکے تھے بلکہ وہ بھی جو 1967ء کی جنگ کے دوران بکھر گئے تھے ، اور اسرائیلی قبضے سے بچنے کے لیے فرار ہو گئے تھے۔ ان میں سے ایک خاندان تاجر احمد کا تھا جو الخلیل سے تھا۔ احمد کے چار بیٹے تھے، جن میں سے ایک الخلیل میں اس کے ساتھ رہا، جبکہ تین 1967ء میں اسرائیلی قبضے کے دوران اردن ہجرت کر گئے اور وہیں مقیم ہو گئے۔ ان میں سے دو نے اردن کے انقلاب میں شمولیت اختیار کی، جبکہ تیسرا وہاں ٹرک ڈرائیور کے طور پر کام کرتا تھا۔ جن دو نے انقلاب میں شمولیت اختیار کی تھی وہ کبھی بھی الخلیل واپس نہیں آ سکتے تھے ، کیونکہ انہیں گرفتار ہونے کا حقیقی خطرہ تھا ، جبکہ تیسرا احمد کبھی کبھار اپنے خاندان سے ملنے آتا تھا اور اپنے والد کے ساتھ دکان میں بیٹھتا تھا، جہاں وہ میری خالہ کے شوہر سے ملتا اور اردن میں فلسطینیوں کی حالت کے بارے میں بات کرتا۔

اردن میں فلسطینیوں کی حالت بلا شبہ فخر اور اعزاز کا باعث تھی ، لیکن احمد مستقبل کے بارے میں فکر مند تھا ، اسے یقین تھا کہ اردن میں فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی طاقت شاہ حسین کو پریشان کر رہی ہے اور اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ تھی کہ کچھ فدائی وہاں لوگوں کے جذبات کا لحاظ کیے بغیر اپنی کارروائیاں کر رہے تھے، جو ممکنہ طور پر انقلاب اور شاہ کے درمیان تصادم کا باعث بن سکتی تھیں۔ احمد نے متعدد بار اپنی تشویش کا اظہار کیا، لیکن بعض حاضرین خود کو تسلی دینے کی کوشش کرتے تھے کہ معاملات تصادم اور تنازع تک نہیں پہنچ سکتے، بلکہ یہ ناممکن ہے۔ اور اچانک خبریں آئیں کہ ۱۹۷۰ء کے ستمبر کی ان جھڑپوں کا آغاز ہوا جو ’’سیاہ ستمبر‘‘ کے واقعات کے نام سے جانی گئیں اور حقیقی جنگوں میں تبدیل ہو گئیں ، جن کی بازگشت پوری علاقے میں سنائی دی اور اس نے عرب رہنماؤں کی سطح پر سیاسی حرکات کو جنم دیا۔

ام احمد کے تین بیٹے اردن میں ان خونی جھڑپوں میں شامل تھے اور ان کے تینوں بیٹوں کی بیویاں اور کئی بچے تھے، اور وہ وہاں حقیقی خطرے میں تھے، جس کی وجہ سے ام احمد نہ سو سکتی تھی اور نہ ہی کچھ کھا سکتی تھی، بس ان کے لیے خوف سے کانپتی رہتی تھی۔ ابو احمد اسے تسلی دینے کی کوشش کرتے اور اللہ پر بھروسہ کرنے کی نصیحت کرتے کہ جو اللہ نے مقدر کیا ہے وہی ہو گا، لیکن ماں کے دل کو ایسی حالت میں سکون نہیں مل سکتا۔

اس کے پیش نظر ابو احمد نے مجبوراً اردن جانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اپنے بیٹوں اور ان کے خاندانوں کی خیریت معلوم کر سکے۔ ام احمد چیخ اٹھی : ’’کیا آپ اکیلے جائیں گے؟‘‘ ابو احمد نے جواب دیا : ’’ہاں!‘‘ ، ام احمد بولی : ’’اس کا کیا فائدہ ؟ میرا خوف اور فکر مزید بڑھ جائے گی‘‘، ابو احمد نے پوچھا: ’’تو پھر کیا حل ہے؟ کیا رائے ہے ؟‘‘ ام احمد نے جواب دیا : ’’ہم دونوں ساتھ جائیں گے‘‘ ، ابو احمد نے اسے اپنے ارادے سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے ، انہوں نے اپنے اور اس کے لیے پرمٹ تیار کیے اور اردن جانے کے لیے روانہ ہو گئے، جہاں حالت تقریباً ایک حقیقی جنگ کے مانند تھی۔

ان کے بیٹے ڈرائیور سعید کے گھر تک پہنچنے میں شدید خطرات حائل تھے، جب وہ گھر پہنچے تو بھی انہیں سکون نہیں ملا کیونکہ حالات انتہائی خطرناک تھے اور گولیوں کی بوچھاڑ بند نہیں ہو رہی تھی، جس کی وجہ سے انہیں کھڑکیاں بند کرنی پڑیں اور فرنیچر اور الماریاں ان پر رکھنی پڑیں تاکہ گولیاں گھر میں داخل نہ ہوں اور کسی کو نقصان نہ پہنچائیں۔ وہ مستقل جھک کر چلنے پر مجبور تھے، اور جب بھی کوئی اپنا سر اٹھا کر سیدھا چلنے لگتا تو سب اسے چیخ کر کہتے کہ سر نہ اٹھاؤ، کہیں کوئی بھٹکی ہوئی گولی نہ لگ جائے۔ ابو احمد کبھی کبھار بڑبڑاتے : ’’یہ سب تمہاری وجہ سے ہے، ہم وہاں محفوظ تھے‘‘ ، تو ام احمد جواب دیتی : ’’یہاں اپنے بیٹوں اور بچوں کے ساتھ، چاہے خطرہ ہو، وہاں انتظار کرنے سے ہزار گنا بہتر ہے۔‘‘ ابو احمد پھر سے بڑبڑاتے: ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، اللہ خیر کرے، یا ساتر، یا ساتر۔‘‘

ستمبر کے جرش اور عجلون کے واقعات ختم ہوئے اور تحریک لبنان منتقل ہو گئی ، جیسے ہی حالات پرسکون ہوئے، ابو احمد اور ان کی بیوی واپس الخلیل لوٹ آئے، اور ابو احمد اپنی دکان میں واپس جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے خوفناک واقعات اور حقیقی دہشت کے بارے میں بات کرتے اور اللہ کا شکر ادا کرتے۔ موجود لوگ ان کی سلامتی پر مبارکباد دیتے اور وہ دوبارہ اللہ کا شکر ادا کرتے کہ وہ، ام احمد، ان کے بیٹے اور ان کے بچے سب محفوظ رہے۔

زیادہ وقت نہیں گزرا کہ ریڈیو پر جمال عبد الناصر کی موت کا اعلان ہوا، جو فلسطینی عوام پر بجلی کی طرح گرا، جن کی اکثریت نے اسے عرب قوم کا رہنما اور امید سمجھا تھا ، اس پر ملک بھر میں، کیمپوں، شہروں اور دیہاتوں میں پر زور مظاہرے شروع ہو گئے ، مخیم الشاطئ میں کئی دنوں تک تعلیم معطل رہی، بھوک ہڑتال کا اعلان کیا گیا تو دکانیں نہیں کھلیں اور مظاہرے کیے گئے، جن کی قیادت کیمپ کے متعدد اساتذہ اور دانشوروں نے کی، جو عرب اتحاد کے حق میں نعرے لگا رہے تھے اور صدر کی تعریفیں کر رہے تھے، اور وہ عرب قومی شعارات اور جمال عبد الناصر کے لیے دعا کرتے ہوئے تصاویر اور بینرز بلند کر رہے تھے۔ ان مظاہروں میں کیمپ کے ہر فرد یا ان کی اکثریت نے شرکت کی، مرد رو رہے تھے اور عورتیں آہ و زاری کر رہی تھیں ، اور ان کی آہیں بلند ہو رہی تھیں۔ مظاہرہ اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا، یہ کیمپ سے نکل کر شہر کی اہم سڑکوں مرکزِ شہر اور شارع عمر مختار کی طرف بڑھا۔ ہم بھی بطور طالب علم ان میں شامل ہو گئے، چھوٹے بڑے لڑکے اور لڑکیاں سب نعرے لگا رہے تھے : تعيش الوحدة العربية… فلسطين عربية، بالروح بالدم نفديك يا جمال۔

جب مظاہرہ پہلی بار غزہ شہر کی مرکزی سڑک عمر المختار سٹریٹ پر پہنچا تو وہاں ان کا سامنا بڑی تعداد میں قابض فوج سے ہوا، جنہوں نے مظاہرین کو ڈرانے اور منتشر کرنے کے لیے ان کی جانب گولیاں چلانا شروع کر دیں۔ مظاہرین نے پتھراؤ شروع کر دیا تو فوج نے ٹانگوں پر گولیاں چلانا شروع کر دیں جس سے متعدد زخمی ہوئے جنہیں دار الشفاء ہسپتال اور ایجنسی کلینک لے جایا گیا جو ۱۹۶۷ء کے قبضے کے بعد اس دور میں علاج مہیا کرتی تھیں۔قابض فوج اور اس کے حکام نے علاقے کو کنٹرول کرنے اور مزاحمتی تحریک روکنے کے لیے متعدد اقدامات کیے تھے، جن میں شہریوں کی گنتی کرنا، بالغ مردوں اور عورتوں کو شناختی کارڈ جاری کرنا، بچوں کا اندراج کرنا اور پیدائش کا اندراج کرنا شامل تھا۔ اس مقصد کے لیے پاسپورٹ اور پرمٹ کا دفتر کھولا گیا جو شہری امور کی نگرانی کرتا تھا۔

انہوں نے علاقائی عمائدین اور معززین کے ساتھ رابطے اور سمجھوتے شروع کیے، جنہیں فوجی گورنر وقتاً فوقتاً بلاتا تھا ، تاکہ لوگوں کی زندگی کے معاملات پر تبادلۂ خیال کرے اور ان کے ذریعے لوگوں تک اپنی بات پہنچائے ، آپ دیکھتے کہ ان سرداروں یا معززین میں سے کئی افراد شہر کے فوجی گورنر کے دفتر جاتے، عربی قبا پہنے اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے، گورنر کے کمرے میں داخل ہوتے، جو عام حالات میں ان کے ساتھ احترام سے پیش آتا تھا، مگر مظاہرے یا آپریشن کی صورت میں غصے میں ہوتا اور ان پر چیختا چلاتا تھا اور وہ خاموش رہتے ، اگر کوئی ان میں سے بولتا تو ’’جناب حاکم‘‘ اور ’’جناب محترم‘‘ جیسے الفاظ سے بات شروع کرتا۔

یہ مختار لوگ اپنے ساتھ مختاری کی مہر رکھتے تھے، اگر کوئی بیرون ملک جانا چاہتا یا کوئی منصوبہ شروع کرنا چاہتا یا تعمیر کے لیے اجازت نامہ چاہتا یا کوئی بھی رسمی معاملہ کرتا تو اسے اپنے گاؤں کے مختار کے پاس جانا پڑتا، جو اس کاغذ پر اپنی مہر لگاتا اور عام طور پر اس کے بدلے میں کچھ پیسے لیتا۔

مقبوضہ علاقوں میں موجود فوجی گشت کر رہے تھے، ان کے پاس فوجی نقشے تھے اور وہ ان کے مطابق چلتے تھے تاکہ علاقوں کی خفیہ معلومات اور ان کی تفصیلات کو ہر وقت، دن رات جانچ سکیں ، وہ شہروں، دیہاتوں اور کیمپوں میں، میدانوں، وادیوں اور پہاڑوں میں چلتے پھرتے تھے۔ درجنوں فوجی دو، تین یا چار قطاروں میں چلتے نظر آتے، اور ہر ایک کے درمیان کچھ فاصلہ ہو گا۔ وہ اپنی رائفلیں اٹھائے ہوئے ہوتے تھے اور دائیں اور بائیں دیکھ رہے ہوتے تھے، جبکہ آخری قطار میں موجود فوجی کبھی کبھار مکمل گردش کرتے تھے ، تاکہ یہ جان سکیں کہ آیا ان کے پیچھے کوئی ان پر حملہ کرنے والا تو نہیں۔ وہ چلتے رہتے ، پھر کچھ دیر کے لیے رکتے ، افسر اپنے ہاتھ میں موجود نقشے کو دیکھتا اور پھر طے شدہ سمت میں بڑھتا ، اکثر وہ کسی نوجوان یا مرد کو روکتے ، اس کا شناختی کارڈ مانگتے ، تاکہ اس کی شناخت کر سکیں ، افسر اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالتا جس پر کچھ ان مطلوبہ افراد کے نام اور شناخت نمبر لکھے ہوتے، جنہیں گرفتار یا تحقیقات کے لیے بلایا جانا ہوتا تھا ۔ ہر روز یا کچھ دنوں کے بعد بڑی تعداد میں فوجی جیپیں نظر آتیں ، جن کے آگے ایک بے نشان شہری گاڑی ہوتی ، جس پر زرد لائسنس پلیٹ ہوتی ، اس کے پیچھے درجنوں فوجی جیپیں چلتیں۔ یہ سب کسی گھر، باغیچے یا جگہ پر چھاپہ مارنے جا رہی ہوتیں تاکہ کسی مطلوبہ فدائی یا ان کے مددگار کو گرفتار کر سکیں۔ کبھی کبھار وہ مطلوبہ شخص کو گرفتار کرنے کے بعد واپس جا رہے ہوتے، اس کے ہاتھ جیپ کی سیٹ کے ساتھ بندھے ہوتے ، اور اس کے سر پر موٹا کپڑے کا تھیلا ہوتا جو فوجی رنگ کا ہوتا ،کبھی اس شخص کو اس کے کپڑوں سے پہچانا جا سکتا تھا اور کبھی نہیں پہچان پاتے ۔ اس شخص کو تفتیش کے لیے لے جایا جا رہا ہوتا تھا۔

ان تمام کارروائیوں کے باوجود، مزاحمتی کارروائیاں جاری رہیں ، ہر چند دنوں بعد سننے میں آتا کہ کسی موبائل گاڑی پر بم پھینکا گیا جس سے کچھ فوجی زخمی ہوئے ، یا کسی فدائی نے کارلوستاف رائفل سے کسی فوجی جیپ یا پیدل گشت کرنے والے فوجیوں پر گولیاں چلائیں جس سے کچھ زخمی یا ہلاک ہوئے۔ لیکن اکثر ان مسلح فدائیوں کی واضح یا نیم واضح شکلیں نظر آتیں جو کھلے عام ہتھیار لے کر چلتے یا ان کے کپڑوں کے نیچے ہتھیار ہوتے یا بوریوں میں ہتھیار لے کر چلتے، اور عام لوگ جانتے تھے کہ یہ ہتھیار ہیں۔

یہ تمام مظاہر بتدریج غائب ہونے لگے اور فدائیوں کی تحریک زیادہ سے زیادہ خفیہ ہونے لگی۔ ستر کی دہائی کے اوائل میں جنرل ایریل شیرون کی قیادت میں یونٹ ۱۰۱ کا قیام عمل میں آیا، جس کی قیادت میجر مائیرداجن نے کی۔ یہ یونٹ سرخ ٹوپیاں پہننے کے حوالے سے مشہور ہوا اور عوام میں اسے ’’سرخ ٹوپیوں والے‘‘ کہا جانے لگا۔ یہ ایک خصوصی یونٹ تھا، جسے خصوصی تربیت دی گئی تھی ۔ یہ یونٹ کیمپوں کی گلیوں اور کھیتوں کے درمیان چھپ کر مشتبہ افراد پر گولیاں چلاتا، لوگوں پر حملہ کرتا، انہیں مارتا پیٹتا اور بغیر کسی ضابطے یا قانون کے تشدد کرتا تھا۔ اس یونٹ کا مزاحمت کے خلاف جنگ میں اہم کردار تھا اور اس نے بہت سے رہنماؤں اور کارکنوں کو مارا ۔ اس یونٹ کی ایک ٹیم تقریباً دس سے بیس فوجیوں پر مشتمل ہوتی تھی جو سب رسمی فوجی لباس میں ملبوس ہوتے تھے۔ یہ تمام جوان ہوتے تھے اور بہترین تربیت یافتہ تھے جن کے پاس نئے ہتھیار ہوتے تھے اور سرخ کپڑوں کی ٹوپیاں پہنتے تھے۔ ان کے پاس لکڑی کے چھوٹے ڈنڈے ہوتے تھے اور ان میں سے ایک سے زیادہ کے پاس بڑے وائرلیس آلات ہوتے تھے جن کے انٹینا اونچے ہوتے تھے اور ان سے مسلسل رہنمائی اور ہدایات کی آوازیں آتی رہتی تھیں۔

ایک دن اس یونٹ نے ایک فدائی کا پیچھا کیا جس کے پاس ایک بم تھا اور وہ کیمپ کی گلیوں میں بھاگنے لگا ، یونٹ کے فوجی اس کے پیچھے گولیاں چلاتے ہوئے بھاگے اور وائرلیس والا فوجی اپنی قیادت سے رابطہ کرنے لگا۔ انہوں نے اس علاقے کو پہچان لیا جہاں وہ نوجوان چھپا تھا اور انہوں نے اس علاقے کو گھیر لیا۔ جلد ہی بڑی تعداد میں اضافی فوجی فورسز پہنچ گئیں اور انہوں نے اس علاقے کو مکمل طور پر گھیر لیا۔ لوگوں کو اپنے گھروں سے نکلنے کا حکم دیا گیا اور انہیں سڑک کے کنارے بٹھا دیا گیا۔ جاسوسوں نے ایک ایک کر کے ان سے تفتیش شروع کی اور فوجی گھروں میں داخل ہو کر اس نوجوان یا اس کے چھپنے کی جگہ کی تلاش میں ہر چیز کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے۔ کسی طرح انہوں نے اس گھر کا سراغ لگا لیا جہاں وہ نوجوان چھپا ہوا تھا۔ افسران اور جاسوس اندر داخل ہوتے اور باہر آتے اور مشورہ کرتے رہے ، آخر کار انہوں نے اس پناہ گاہ کا مدخل پہچان لیا جہاں وہ نوجوان چھپا ہوا تھا اور انہوں نے لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے اسے باہر نکلنے کا حکم دیا، لیکن کوئی باہر نہیں آیا۔

وہ پناہ گاہ کے دروازے کے قریب پہنچے تو ان پر گولی چلائی گئی جس کی وجہ سے وہ واپس چلے گئے۔ پھر اس یونٹ کے کچھ فوجی چھپ کر آئے اور جگہ کو دھماکہ خیز مواد سے بھر دیا اور واپس چلے گئے۔ پھر انہوں نے دھماکہ کر دیا ، دھماکے کی آواز نے پورے کیمپ کو ہلا کر رکھ دیا ، پھر وہ ایک بلڈوزر لائے جس نے مکان کو مسمار کر دیا اور پناہ گاہ اور اس میں موجود چیزوں کو تلاش کرنے کے لیے کھدائی شروع کر دی۔ کچھ دیر بعد چار فدائیوں کی لاشیں نکالی گئیں جو اس پناہ گاہ میں چھپے ہوئے تھے۔

وقت کے ساتھ ساتھ ’’الجبھۃ الشعبیۃ‘‘ کے جنگجوؤں کی موجودگی کم ہو گئی اور زیادہ تر مزاحمت کار فتح تحریک سے وابستہ ہو گئے۔ کچھ علاقوں میں جبھہ کی اکثریت تھی اور مردوں اور نوجوانوں کی گرفتاریاں کبھی نہیں رکیں۔ ہر روز درجنوں افراد کو گرفتار کیا جاتا، خاص طور پر فدائی کارروائیوں کے بعد، اور ہمیشہ کچھ ایسے ہوتے تھے جنہیں رہا کر دیا جاتا تھا۔ ایک طرف یہ منظر ہوتا کہ ایک عورت اپنے شوہر یا بیٹے کے رات کے وقت گرفتاری کے غم میں رو رہی ہوتی اور نہیں جانتی کہ کیا کرے اور دوسری طرف یہ منظر کہ کوئی عورت اپنے شوہر یا بیٹے کے جیل سے چند دنوں ، مہینوں یا سالوں تک تفتیشی کمروں اور جیلوں میں غائب رہنے کے بعد واپسی پر زغردہ بلند کر رہی ہوتی۔

الخلیل شہر میں گرفتاری کا سلسلہ قبضے کے ابتدائی دنوں سے ہی شروع ہو گیا تھا، جب اسرائیلی اعلیٰ حکام شہر کے میئر اور بزرگ رہنما شیخ محمد علی الجعبری کے گھر آئے اور ان سے خاص احترام اور تعریف کا اظہار کیا اور ان سے ان کی خواہش کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے سپاہی لوگوں کی عزت اور مال پر حملہ نہ کریں ، ان حکام نے یقین دلایا کہ ایسا ہی ہو گا اور ان کے سپاہیوں نے اس کا معقول حد تک احترام بھی کیا۔ لیکن اگلے دنوں میں وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا گیا، جن میں زیادہ تر علاقے الجعبری خاندان کے تھے اور کچھ دیگر خاندانوں کی زمین بھی شامل تھی۔ ان زمینوں پر کریات اربع کالونی کی تعمیر شروع ہوئی اور اسی وجہ سے خالد بن ولید مسجد کی تعمیر روک دی گئی جو ان مقبوضہ زمینوں کے قریب تھی۔ اسی طرح اسامہ بن منقذ اسکول، پرانا بس اسٹینڈ، اور الدبوئیہ عمارت پر بھی قبضہ کر لیا گیا، جہاں فوجی مراکز قائم کیے گئے جو وقت کے ساتھ ساتھ آباد کاری کے مراکز اور حرم ابراہیمی کی جانب مستوطنین کی نقل و حرکت کے مراکز بن گئے۔

دشمن وقت کے ساتھ ساتھ فوجی تحرکات کو بڑھاتا گیا، لیکن اس نے ہمیشہ کوشش کی کہ مقامی لوگوں کے ساتھ ٹکراؤ نہ ہو اور ان کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جائیں اور جہاں تک ممکن ہو اچھے تعلقات قائم رکھے جائیں، یا کم از کم دشمنی کا تعلق نہ ہو۔ کچھ فوجیوں کی مدد سے عرب اور یہودی بچوں کے درمیان کچھ جھڑپیں بھی ہوئیں، بڑے آباد کار جیسے ’’ربی حاخام لیونگر‘‘ اور دیگر علاقے کے معززین کے پاس آتے تھے تاکہ عربی روایات کے مطابق صلح کی جا سکے۔ ان کا اصرار ہوتا تھا کہ اچھے ہمسائے اور برادرانہ تعلقات قائم رہیں، وہ ’’عطوہ‘‘ لیتے اور جرمانہ طے کرتے اور اگر ضروری ہوتا تو دیت بھی ادا کرتے۔ اہم بات یہ تھی کہ عرب لوگوں کو پرسکون اور صلح پسند حالت میں رکھا جائے۔

کچھ علاقے جہاں مزاحمت کی حرارت برقرار رہتی تھی، وہ قریب کے کیمپوں میں تھے جہاں دہیشہ اور العروب کیمپ مرکزی سڑک پر واقع تھے جو یروشلم اور بیت لحم کے درمیان تھے۔ جب فوجی حکام، فوجی ملازمین، آباد کار یا سیاح اس سڑک پر حرکت کرتے، تو انہیں ان کیمپوں سے کچھ فدائی حملوں کا سامنا کرنا پڑتا، جس کے بعد وہاں کے رہائشیوں کے سروں پر آسمان ٹوٹ پڑتا، کرفیو نافذ کیا جاتا، مردوں کو حراست میں لیا جاتا، انہیں مارا پیٹا جاتا اور لمبے عرصے تک گرفتار رکھا جاتا۔

شہری علاقوں کے لوگ، خاص طور پر الخلیل شہر کے لوگ، ہمیشہ ان کیمپوں کے باشندوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے، کیونکہ مہاجرین یا پناہ گزینوں کو ہمیشہ کمتر سمجھا جاتا تھا، اگرچہ انہیں بھی اسی قبضے نے ان کے دیہات اور شہروں سے بے دخل کیا تھا جو اب سب کے سروں پر مسلط ہے، اسی طرح دیہات کے اور اطراف کے لوگوں کو بھی شہر کے لوگ حقارت کی نظر سے دیکھتے، جیسا کہ وطن کے مختلف علاقوں میں دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں شہر کا باشندہ دیہاتی باشندے کو حقارت سے دیکھتا ہے اور خود کو اس سے برتر سمجھ کر اس سے پیش آتا ہے، سوائے کچھ نادر مواقع کے۔ دیہاتی لوگ اور ان کی عورتیں کھیتی باڑی، پیداوار، مویشی پالنے اور دودھ دہی بنانے کا کام کرتے ہیں، اور پھر شہر میں آ کر اپنے سامان جیسے ٹوکریوں میں انجیر، انگور اور مختلف پھل وغیرہ بیچتے ہیں یا دودھ، دہی یا مکھن بیچتے ہیں، اور شہر سے اپنی ضرورت کی اشیاء جیسے کپڑے، جوتے، صابن وغیرہ مہنگے داموں خریدتے ہیں، اور چند پیسوں کے ساتھ خوش و خرم اپنے دیہات واپس جاتے ہیں۔

آپ کو صبح سویرے گاؤں کے بیچ میں دیکھنے کو ملے گا کہ کوئی بچہ یا عورت ٹوکری میں انجیر یا انڈے لے کر بس کے انتظار میں ہوتی ہے ، وہ اپنے سامان کو سینے سے لگائے ہوتے ہیں، اور جب بس آتی ہے تو ان کی لمبی سفر پر روانگی ہوتی ہے۔ شہر کے بازار میں اتر کر تاجر ان سے ان کا سامان خرید لیتے ہیں، اور وہ شہر کے بازار میں گھومتے ہیں، شہر کی اشیاء دیکھتے ہیں اور اپنی پسند کی چیزیں خریدتے ہیں، پھر بس کے انتظار میں واپس آتے ہیں تاکہ اپنے گاؤں واپس جا سکیں۔ جب وہ گاؤں کے بس اسٹاپ پر اترتے ہیں تو پھر انہیں لمبی مسافت طے کرنی پڑتی ہے، اور اگر ان کا بوجھ بھاری ہوتا ہے تو وہ گھنٹوں انتظار کرتے ہیں تاکہ کوئی رشتہ دار یا جاننے والا آ کر ان کی مدد کرے ، اس کے باوجود وہ خوش و خرم اور مطمئن ہوتے ہیں۔

جب 19۶8ء میں مقبوضہ علاقوں کے اندر فلسطینی مزدوروں کے لیے کام کرنے کا دروازہ کھولا گیا تو ان مزدوروں نے یہودی معاشرے کی تفصیلات، عادات و روایات اور مذہب کے بارے میں بہت کچھ جاننا شروع کیا۔ جمعہ کی دوپہر کے بعد یہودیوں کے ہاں ہفتہ کا آغاز ہوتا ہے جو غروب آفتاب کے کچھ وقت بعد تک رہتا ہے۔ لیکن ان میں سے بہت سے لوگ اس کی پابندی اپنی نجی زندگی اور گھروں میں نہیں کرتے، لیکن سرکاری ادارے بند ہوتے ہیں اور آگ یا بجلی کی کسی چیز کو جلایا یا بجھایا نہیں کیا جاتا۔ یہ سختی یوم کپور1یوم کپور (Yom Kippur) یہودی کیلنڈر کا ایک سب سے اہم مذہبی موقع ہے، جو عموماً ستمبر یا اکتوبر میں آتا ہے ، اسے “توبہ کا دن” یا “عیدِ کفّارہ” بھی کہا جاتا ہے۔ یوم کپور کا مقصد اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا اور توبہ کرنا ہے۔ یہ دن اس حقیقت کی یاد دلاتا ہے کہ انسانی زندگی میں ندامت اور اصلاح کی ضرورت ہے ، یوم کپور کے دوران، یہودی لوگ روزہ رکھتے ہیں، دعا اور عبادت کرتے ہیں، اور اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگتے ہیں۔ یہ دن نرمی، خود احتسابی اور دوسروں کے ساتھ خوشگوار روابط قائم کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ یوم کپور سے پہلے ایک دن، ’’رش ہشانہ‘‘ کے موقعے پر نئے سال کا جشن منایا جاتا ہے، جس سے یوم کپور کے بعد کی مدت کے لیے حساب کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔ اس دن کی اہم رسومات میں عبادت گاہوں میں خصوصی خدمات اور دعائیں شامل ہوتی ہیں، اور لوگ ایک دوسرے سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگتے ہیں۔ یوم کپور کے اختتام پر، لوگ دوبارہ ملتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ (یوم الغفران) کے دن ہوتی ہے۔

یوم کپور سے کچھ دن پہلے، جو 6 اکتوبر 1973ء کو تھا، مزدور واپس آئے تاکہ وہ بھی چھٹی کریں کیونکہ کارخانے، کاروبار اور ادارے بند تھے۔ یہ مزدور اپنے گھروں کے سامنے جمع ہو کر باتیں ، مذاق اور چائے پینے لگے، اسی طرح ہمارے محلے کے کچھ مزدور بھی 6 اکتوبر کی دوپہر کو بیٹھے ہوئے تھے، جب ایک ہمسایہ اپنے گھر سے ریڈیو لے کر بھاگتا ہوا آیا اور چیخا: ’’عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑ گئی ہے۔‘‘ سب لوگ چونک گئے اور کہنے لگے: ’’کیا کہہ رہے ہو؟ عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ؟ کون سے عرب؟‘‘ اس نے اپنے ریڈیو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : سن لو! مصری نشریاتی ادارے کی آواز گرج رہی تھی، جو مصر کی مسلح افواج کی قیادت کا پہلا فوجی بیان پڑھ رہا تھا، جس میں سینا اور سویز نہر کے ساحلوں پر مصری حملے اور بار لیف لائن پر قبضے کا اعلان کیا گیا تھا۔ کئی لوگوں نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے دیکھا کہ کیا وہ سچ سن رہے ہیں! جب مزید فوجی بیانات نے جنگ میں شامی شرکت اور معرکوں میں عربوں کی پیش قدمی کی تصدیق کی ، مصری اور شامی فضائی دفاع نے بڑی تعداد میں اسرائیلی طیارے گرائے اور بڑی تعداد میں ٹینک تباہ کیے تو جشن کی آوازیں اور خوشی کے اظہار شروع ہو گئے۔

جنگ جیتنے اور واپسی کے خواب ہر ایک کے دل میں جگمگانے لگے، جسے صرف قابض فوجوں کے لاؤڈ اسپیکر سے نکلنے والی آواز نے توڑا، جو کرفیو اور گھروں میں رہنے کا اعلان کر رہے تھے۔ لوگ گھروں میں رہنے لگے، یہ خواب دیکھتے ہوئے کہ یہ آخری بار ہے کہ ان پر کرفیو لگایا جا رہا ہے، سب خاندان ریڈیو کے گرد جمع ہو گئے، اور ہم بھی ریڈیو کے گرد بیٹھے تھے۔

دسویں فصل

اگلے دن جب میرا بھائی محمود مصر سے اپنی پڑھائی مکمل کر کے غزہ آیا، ایک اور طالب علم جو مصر سے گرمیوں کی چھٹیوں پر آیا تھا، اس کے سامان کی تلاشی کے دوران ایک خط پکڑا گیا ، جس میں ان فلسطینی نوجوانوں کی فہرست تھی جو مصر میں فتح تحریک کے لیے منظم کیے گئے تھے ، تاکہ غزہ کے علاقے میں فدائی کام کی تنظیم شروع کریں۔ اس فہرست میں محمود کا نام بھی تھا، جس کی بنا پر اسے گرفتار کر لیا گیا اور اس سے تفتیش شروع ہو گئی۔ غزہ کی جیل میں تفتیشی شعبے کو ’’مسالخ‘‘ کہا جاتا تھا کیونکہ وہاں جو بھی داخل ہوتا تھا ، اس پر بے پناہ تشدد اور ظلم ہوتا تھا۔ یہ ایک عمارت تھی جس کے بیچ میں ایک راہداری تھی، جس کی چوڑائی تقریباً چار میٹر اور لمبائی بیس میٹر تھی ، اس کے دونوں طرف مختلف سائز کے کمروں کے دروازے کھلتے تھے ، جہاں تفتیش ہوتی تھی۔ اس لمبی راہداری میں قیدیوں کو زمین پر بٹھایا جاتا یا دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑا کیا جاتا تھا اور ان کے سروں کو موٹے کپڑے کے تھیلوں سے ڈھانپ دیا جاتا تھا جو کندھوں تک ہوتے تھے اور ان کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوتے تھے۔ سپاہی ان کے درمیان گھومتے رہتے، وہ انہیں مارتے، ٹھوکر مارتے اور تھپڑ مارتے رہتے تھے۔ اگر سپاہیوں کو لگتا کہ کوئی لمحہ بھر کے لیے بھی سو گیا ہے یا اونگھ گیا ہے تو اس پر ٹھنڈا پانی انڈیل دیتے تھے۔ وقتاً فوقتاً کسی قیدی کو گھسیٹ کر ایک طرف کے کمروں میں لے جایا جاتا، جہاں اس کے سر سے تھیلا ہٹا دیا جاتا اور اس کےسامنے چند تفتیشی افسران ہوتے جو عبرانی لہجے میں عربی بولتے تھے اور اس سے ہزاروں سوالات کرتے تھے۔ اس دوران لاتیں، مکے اور تھپڑ مارتے رہتے تھے ، ایک تفتیشی افسر دوست بن کر قیدی کی مدد کرنے کا ڈرامہ کرتا تھا، وہ اسے مارنے والے ظالم افسران سے بچاتا تھا اور کہتا تھا : اسے چھوڑ دو، میں اس سے بات کروں گا، مجھے معلوم ہے کہ مار پیٹ سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اور مجھے معلوم ہے کہ وہ اعتراف کرنا چاہتا ہے ، وہ ظالموں کو کمرے سے باہر نکال دیتا تھا اور پھر میٹھے بول بول کر قیدی کو اعتراف کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا تھا کہ انکار کا کوئی فائدہ نہیں، سب کچھ معلوم ہے، اور وہ پھر اسے ماریں گے اور اذیت دیں گے یہاں تک کہ وہ اعتراف کر لے، تو اس تکلیف کا کیا فائدہ؟ اور اسی طرح کی میٹھی باتیں کرتا تھا ، کبھی اسے سگریٹ دیتا تھا یا چائے کا کپ پیش کرتا تھا۔ اگر وہ اعتراف کروانے میں کامیاب ہو جاتا تو اس سے لکھوا لیتا، اور اگر ناکام رہتا تو دوبارہ ظالم افسران کو بلا لیتا جو اپنی طاقت سے اعتراف کروانے کا کام جاری رکھتے تھے۔

قیدی کو اس کی پیٹھ پر لٹایا جاتا اور اس کے ہاتھ پیچھے ہتھکڑیوں سے بندھے ہوتے ، اس کے چہرے اور سر پر کپڑے کی بوری ہوتی ، اور ایک شخص اس کے سینے پر بیٹھ جاتا ، تاکہ اس کا گلا گھونٹے اور بوری پر پانی ڈالے۔ دوسرا شخص اس کے پیٹ پر کھڑا ہوتا ، جبکہ تیسرا شخص کرسی کو اس کی ٹانگوں کے درمیان رکھ کر بیٹھ جاتا ، تاکہ اس کی ٹانگوں کو الگ کر سکے، اور چوتھا شخص اس کے خصیوں کو دباتا ، دو اور افراد اس کے دونوں پیروں کو پکڑے ہوتے ، اسی طرح ایک راؤنڈ کے بعد چند سیکنڈ کا وقفہ ہوتا اور پھر دوبارہ اسی طرح تشدد کیا جاتا۔ کبھی کبھار اس کے ہاتھوں کو پیچھے ہتھکڑیوں سے باندھ دیا جاتا اور اسے حلقے میں یا دیوار پر لگے پائپ سے باندھ دیا جاتا، جہاں وہ تقریباً معلق ہوتا اور اس کی انگلیوں کے سرے زمین کو چھوتے ، اس دوران اس کے سر پر ایک یا زیادہ بوریاں ڈال دی جاتیں، اور پھر اس کے پیٹ میں مکوں اور جسم کے دیگر حصوں میں لاتوں سے مارا جاتا اور اس پر ٹھنڈا پانی ڈالا جاتا کبھی کبھار اس پر پنکھا بھی چلایا جاتا ، جس سے وہ سردی سے کانپنے لگتا اور اس کا جسم جم جاتا ۔

اس سارے سلوک سے محمود کو غزہ کی جیل کی سلاخوں میں تفتیش کے دوران گزرنا پڑا ، اس کا جسم ڈھانچا بن گیا اور وہ پہچانا نہیں جا سکتا تھا۔ چالیس دن تک یہ سلسلہ جاری رہا جس میں اسے کم ہی نیند میسر آئی یا کھانا نصیب ہوا۔ جب کبھی وہ چاہتے کہ وہ کچھ دیر آرام کرے تاکہ وہ مر نہ جائے تو اسے ایک چھوٹے سے سیل میں ڈال دیا جاتا جو ڈیڑھ میٹر چوڑا اور ڈھائی میٹر لمبا ہوتا۔ وہاں وہ پانچ یا چھ دوسرے قیدیوں کے ساتھ ہوتا جنہیں تفتیش اور کم نیند نے کمزور کر دیا ہوتا۔ وہ ایک دوسرے کے اوپر گر کر سو جاتے اور صرف جلادوں کے ہاتھوں سے ہی بیدار ہوتے جو انہیں دوبارہ تفتیش کے لیے لے جاتے۔ ہفتوں کے انکار کے بعد کہ محمود کا کسی تنظیم یا فتح سے کوئی تعلق نہیں، اس کے سامنے ایک طالب علم کا ذکر کیا گیا جو مصر سے آیا تھا اور جس کے پاس اس کے اور دیگر لوگوں کے ناموں کی فہرست تھی۔ محمود نے انکار جاری رکھا اور کہا کہ یہ سب جھوٹ ہے ، اس کے بعد اسے دوبارہ پرانے طریقوں سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بالآخر محمود نے اعتراف کیا کہ مصر میں کسی نے اسے فتح کے لیے منتخب کیا تھا اور کہا کہ وہ اس سے رابطہ کریں گے۔ محمود نے سوچا کہ اس کے بعد معاملہ ختم ہو جائے گا، لیکن تفتیش دوبارہ شروع ہو گئی۔ کیا تم نے کسی ہتھیار کی تربیت لی ہے؟ تم سے کس مشن کی توقع کی گئی؟ تمہارے ساتھ کون شامل تھا؟ کیا تم نے کسی اور کو شامل کیا؟ اور وہ کون تھے؟ ہزاروں سوالات تھے، اور اس کے انکار کے باوجود کہ اس نے کچھ نہیں کیا، تفتیش دوبارہ شروع ہوئی اور زیادہ سخت اور اذیت ناک ہوگئی۔ محمود نے تب سمجھا کہ اس نے غلطی کی ہے۔ اس نے اپنا پہلا اقرار کر لیا تھا اور وہ ویسے بھی اسی عذاب میں مبتلا رہتا، لہذا اسے اپنے اقرار پر قائم رہنا چاہیے، تاکہ وہ خود کو زیادہ عرصے قید میں نہ پھنسا لے۔ اسی طرح تفتیش کار محمود اور دوسرے قیدیوں کو اذیت دیتے رہے جہاں سارا دن اور رات قیدیوں کی چیخیں اور تفتیش کاروں کی گالیاں اور شتم سنائی دیتی رہتیں ۔

تقریباً چالیس دن بعد تفتیش کاروں نے سمجھا کہ انہیں محمود سے مزید کچھ حاصل نہیں ہو گا، لہذا اسے خصوصی قید میں منتقل کر دیا، چند ہفتوں بعد اسے عام جیل میں منتقل کر دیا۔ وہ جیل کے ایک سیکشن میں ایک کمرے میں داخل ہوا تو اسے کچھ کپڑے، کمبل، دو پلاسٹک کی پلیٹیں اور ایک چمچ ملا، وہاں تقریباً بیس قیدی اور بھی تھے، جن میں سے کچھ کو وہ کیمپ کے بیٹوں کے طور پر جانتا تھا۔ وہاں اس کے بھائیوں نے اس کا خیر مقدم کیا اور اس کو تسلی دی ، سب نے اپنا تعارف کروایا، نام، علاقہ اور الزام وغیرہ بتایا۔

محمود کو سب سے زیادہ پریشانی اور فکر اپنی ماں اور ہمیں دیکھنے اور یہ یقین دہانی کرانے کی تھی کہ وہ ابھی زندہ ہے، اور ٹھیک ہے۔ اسے امید تھی کہ اسے زیادہ عرصے کے لیے قید نہیں کیا جائے گا، جیسے کہ بہت سے لوگ جو قید ہو کر جیل میں داخل ہوتے ہیں اور پھر کبھی باہر نہیں آتے۔ اس نے پہلے لمحے سے ہی اہل خانہ کی ملاقاتوں کے بارے میں پوچھا، تو نوجوانوں نے اسے بتایا کہ غزہ کے علاقے کے لیے ملاقات ہر مہینے کے پہلے جمعہ کو ہوتی ہے۔ اس نے تاریخ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اسے مزید دو ہفتے انتظار کرنا ہو گا۔

میری ماں نے کچھ پڑوسیوں سے پوچھا، جن کے بیٹے قید میں تھے، خاص طور پر ہماری پڑوسن ام العبد سے، کہ کیا ہم کھانے پینے اور کپڑے وغیرہ جیل لے جا سکتے ہیں اور کیا انہیں اندر لے جانے کی اجازت ہو گی؟ تو جواب نفی میں ملا۔ انہوں نے پوچھا کہ کتنے لوگوں کو ملاقات کی اجازت ہے؟ تو پتہ چلا کہ تین بڑے یا دو بڑے اور ایک چھوٹے کو اجازت ہے۔ پہلی ملاقات سے پہلے کی رات، ہم نے بہت بحث کی کہ ماں کے ساتھ محمود سے ملنے کون جائے گا۔ ہر کوئی چاہتا تھا کہ وہ جائے۔

آخر ماں نے میری بہن فاطمہ، مجھے اور مریم کو منتخب کیا ، حسن ناراض ہوا اور اسے برا لگا، لیکن ماں نے اسے سمجھایا کہ وہ اسے فوجیوں اور جیلروں کے ساتھ جھگڑے سے بچانا چاہتی ہیں اور یہ کہ پہلی ملاقات ہے، ہم جائیں گے، صورتحال کو جانچیں گے، پھر فیصلہ کریں گے۔ حسن نے مایوسی کے ساتھ اس بات پر رضامندی ظاہر کی۔

جمعہ کی صبح جب سورج طلوع ہو رہا تھا، ہم غزہ سینٹرل جیل کی عمارت سرايا کے سائیڈ گیٹ کے باہر کھڑے تھے۔ وہاں پہنچنے پر ہم نے دیکھا کہ سینکڑوں خاندان دیوار کے ساتھ انتظار کر رہے تھے۔ وہاں آہنی پائپوں کی ایک رکاوٹ تھی تاکہ قطار کو منظم کیا جا سکے۔ ہم سب ایک مخصوص انتظار گاہ میں بیٹھ گئے ، دروازے میں ایک کھڑکی کھلی اور ایک سپاہی نے جھانک کر دیکھا، پھر دروازہ کھولا اور ہاتھ میں ایک رجسٹر لے کر باہر آیا اور نام پکارنے لگا۔ جب بھی کسی قیدی کا نام پکارا جاتا، اس کے اہل خانہ کھڑے ہو کر ’’جی‘‘ کہتے اور آہنی حد فاصل کی ابتدا کی طرف بڑھ جاتے تاکہ عمارت میں داخلہ کی منتظر قطار میں کھڑے ہو سکیں۔ جب بھی وہ نام پکارتا تو ان کے اہل خانہ قطار میں کھڑے ہو جاتے، وہ انہیں تلاشی کے لیے اندر لے جاتے، مردوں اور عورتوں کو الگ کرنے کے بعد دوبارہ ملاتے اور ملاقات کے لیے لے جاتے۔

ہم شدت سے انتظار کر رہے تھے، پھر میرے بھائی محمود کا نام پانچویں گروپ میں پکارا گیا۔ ہم نے ’’جی‘‘ کہا اور قطار میں کھڑے ہو گئے، پھر انہوں نے ہمیں اندر داخل کرنا شروع کیا۔ ہمارے ساتھ کوئی بالغ مرد نہیں تھا، اس لیے ہم سب خواتین کی تلاشی کے حصے میں چلے گئے، جہاں خواتین سپاہیوں نے میری والدہ، بہنوں اور میری تلاشی لی۔ پھر ہمیں ایک صحن میں لے گئے ، جہاں ہم نے دوسروں کی تلاشی مکمل ہونے تک انتظار کیا۔ ہم نے دیکھا کہ ہم سے پہلے کا گروپ ملاقات سے واپس آ رہا تھا، پھر ہمیں لمبے، مدھم روشنی والے راستوں سے گزار کر ملاقات کے سیکشن تک لے جایا گیا، جہاں ایک سیمنٹ کی دیوار میں لوہے کی جالیوں سے ڈھکی کھڑکیاں تھیں جو دیوار کے دونوں طرف ہمیں قیدیوں سے جدا کرتی تھیں۔ بچے پہلے دوڑتے ہوئے داخل ہوئے اور بڑے آہستہ چلتے ہوئے ، میں بھی بچوں کے ساتھ دوڑتا ہوا داخل ہوا اور سب اپنے والد یا بھائی کو تلاش کرنے لگے۔ میں نے اپنے بھائی محمود کو ایک کھڑکی کے پیچھے بیٹھا ہوا دیکھا اور چلانے لگا : یہاں ہے محمود ، یہاں ہے محمود۔ شور بلند ہو گیا تھا اور میری ماں نے مجھے نہیں سنا لیکن انہوں نے مجھے کھڑکی کے سامنے کھڑے دیکھا تو وہ میری بہنوں فاطمہ اور مریم کے ساتھ آگے بڑھیں۔ میری ماں نے محمود پر ہزاروں سوالوں کی بارش کر دی۔ اس کی حالت، صحت، کیا انہوں نے اسے مارا ؟ کیا اسے کھانا دیا ؟ اس کے جسم کا حال ؟ کیا اس کی ٹانگیں یا ہاتھ شل ہو گئے؟ بے انتہا سوالات بغیر کسی جواب کا انتظار کیے! اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ محمود انہیں پرسکون کرنے کی کوشش کرتا ہوا ہاتھ کے اشارے سے کہتا : ماں، میں ٹھیک ہوں، سب ٹھیک ہے، دیکھو میں تمہارے سامنے ہوں ، میری صحت ٹھیک ہے، میرے پاؤں ٹھیک ہیں، سب کچھ ٹھیک ہے۔ آپ کیسی ہیں؟ اور میرے بہن بھائی کیسے ہیں؟ فاطمہ تم کیسی ہو؟ مریم تم کیسی ہو؟ فاطمہ نے آنسو پونچھتے ہوئے جواب دیا : بھائی میں ٹھیک ہوں اور مریم نے کہا : الحمد للہ ۔

میری والدہ نے ان سے ان کے کیس اور عدالت کے بارے میں پوچھنا شروع کیا اور انہوں نے جواب دیا کہ یہ ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے اور ان شاءاللہ سزا ایک سال یا ڈیڑھ سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔ میری والدہ نے یہ سن کر ایسی چیخ ماری کہ جیسے ان کی روح ان کے جسم سے نکل رہی ہو اور بولی : ایک سال یا ڈیڑھ سال؟ ہائے اللہ! تو محمود نے انہیں تسلی دینا شروع کی اور انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ انہوں نے ایک وکیل مقرر کر دیا ہے، پھر وہ جیل کے محافظ جو ہمارے پیچھے کھڑے تھے، اور ان کے پیچھے دوسری طرف موجود لوگ زور زور سے تالیاں بجانے اور چلانے لگے: ملاقات ختم، ملاقات ختم! ہم نے دوبارہ الوداعی سلام کیا، اور محافظوں نے محمود اور دوسرے قیدیوں کو پکڑ لیا اور انہیں دروازے کے پیچھے گھسیٹتے ہوئے لے گئے اور ہمیں یعنی اہل خانہ کو، باہر دھکیلنے لگے ۔

اس ملاقات سے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ میں نے محمود کو دیکھا، اس نے میری خیریت معلوم کی اور میں نے اس کی خیریت معلوم کی۔ جب اس نے میری والدہ کو الوداع کہا تو مجھے بھی بلایا اور بولا : الوداع احمد۔ اس پورے وقت میں میری والدہ کے سوالات اور محمود کی تسلیاں چلتی رہیں، اور کیس اور سزا کے بارے میں بات ہوتی رہی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس ملاقات کے بعد ہماری والدہ کی نفسیاتی حالت بہتر ہوگئی اور وہ کسی حد تک اپنی معمول کی حالت میں واپس آنے لگیں۔

محمود غزہ کی جیل کے سیکشن (ب) میں تھا ، جو آٹھ کمروں پر مشتمل تھا ، ان کمروں کے دروازے تین میٹر چوڑی راہداری پر کھلتے تھے۔ ہر کمرے کا رقبہ پندرہ مربع میٹر سے پچیس مربع میٹر تک ہوتا تھا ، ان کمروں میں چھوٹی کھڑکیاں اور لوہے کی سلاخوں والے دروازے تھے۔ ایک کونے میں بیت الخلاء ہوتا تھا ، ہر کمرے میں کم از کم بیس قیدی ہوتے تھے ، جو زمین پر کمبل بچھا کر ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے سوتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک آدمی اپنی پیٹھ کے بل نہیں لیٹ سکتا تھا اور اگر وہ کروٹ بدلنا چاہتا تو اسے اٹھ کر کھڑا ہونا پڑتا اور پھر کروٹ بدل کر لیٹنا پڑتا۔ اگر کسی کو بیت الخلاء جانے کی ضرورت ہوتی تو اسے سوئے ہوئے لوگوں کے اوپر سے گزر کر جانا پڑتا اور جب وہ واپس آتا تو اس کی جگہ دوسرے لوگ لے چکے ہوتے۔ صبح چھ بجے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہوتا کہ کچھ دیر میں گنتی شروع ہو گی اور روشنیوں کو جلا دیا جاتا۔ محافظ دروازوں پر دستک دیتے اور قیدیوں کو جگاتے ، ہر قیدی کو جاگ کر اپنی چیزیں سمیٹنی اور ترتیب دینی پڑتی تھی اور گنتی کے انتظار میں بیٹھنا پڑتا تھا۔ اگر کوئی قیدی دیر سے جاگتا اور اس کے ساتھی اسے نہ جگاتے، تو محافظ دروازہ کھول کر اندر آتے اور اسے بے دردی سے مارنے لگتے۔ بہت سارے محافظ ایک افسر کی قیادت میں آتے، وہ قیدیوں کی گنتی کرتے، قیدیوں کو دو قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا تھا ، محافظوں کے پاس لاٹھیاں ہوتی تھیں، ہیلمیٹ پہنے ہوتے تھے اور ان میں سے ایک کے پاس آنسو گیس کی گن بھی ہوتی تھی۔ وہ ہر کمرے میں جا کر قیدیوں کی گنتی کرتے اور پھر دوسرے سیکشنز کی گنتی کے لیے نکل جاتے ۔ آخر میں لاؤڈ اسپیکر سے گنتی ختم ہونے کا اعلان ہوتا ، جس کے بعد قیدیوں کو ناشتے کے لیے کھانا پیش کیا جاتا۔ یہ عام طور پر دو یا تین سلائس بریڈ، تھوڑا سا مکھن وغیرہ ہوتا تھا۔ کبھی کبھار اس کے ساتھ آدھا ابلا ہوا انڈا بھی ہوتا ، اور ایک کپ ایسی چیز ہوتی جو ذائقے اور خوشبو میں چائے جیسی ہوا کرتی تھی۔ قیدی اپنا کھانا کھاتے، پھر وہ بار یباری باتھ روم جاتے۔

پہرے دار ایک ایک کر کے کمروں میں آتے ، تاکہ قیدیوں کو دو دو کمروں کے حساب سے (فورہ) نامی صحن میں لے جائیں۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جو اونچی دیواروں سے گھری ہوئی تھی ، جس کی چھت پر خاردار تاریں تھی ، اور اس کا رقبہ تقریباً ایک سو بیس مربع میٹر تھا ۔ قیدی ایک ایک کر کے اپنے ہاتھ پیچھے باندھے اور سر جھکائے ہوئے صحن میں جاتے ، وہاں پہرے دار لاٹھیوں کے ساتھ کھڑے ہوتے اور قیدی حلقے کی شکل میں چلنے لگتے جو بھی اپنا منہ کھول کر کسی ساتھی سے بات کرتا ، یا پیچھے رہتا یا آگے بڑھتا تو ، اسے لاٹھیوں، ٹھوکروں اور تھپڑوں سے مارا جاتا۔ قیدی اس حالت میں ایک گھنٹہ یا اس سے کم وقت تک گھومتے، پھر واپس اپنے کمروں میں چلے جاتے۔ ہر قیدی کو اپنے تہہ کیے ہوئے کمبل پر بیٹھنا ہوتا، اور انہیں گروپوں یا حلقوں میں بیٹھنے یا بات چیت کرنے کی اجازت نہیں تھی ، اگر وہ ایسا کرتے تو پہرے دار کمرے میں گھس کر انہیں مارتے اور بسا اوقات کچھ کو سزا کے سیل جنہیں (سنوکات) کہا جاتا ہے، میں لے جاتے تھے۔

دوپہر کی گنتی کے بعد دوپہر کے کھانے کا اعلان ہوتا ، جو کچھ سلائس بریڈ اور سبزیوں کا شوربہ ہوتا۔ کبھی کبھار اس میں کچھ سبزیاں جیسے گاجر بھی ہوتیں اور کبھی کبھی یہ صرف گرم پانی ہوتا جس میں نمک کا ذائقہ ہوتا۔ کبھی کبھار آلو کا بھرتہ، چاول یا بینگن کے ٹکڑے آتے۔ قیدیوں کو جو بھی ملتا اسے بمشکل ہی چھوتے۔ کچھ قیدی برتن دھوتے اور دوسرے دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ، نیند کے مارے ان کی پلکیں بھاری ہونے لگتیں۔ اگر کوئی پہرے دار، جو کمروں کے سامنے راہداری میں چکر لگاتا رہتا ، انہیں سوتے ہوئے دیکھ لیتا تو زور سے چلاتا تاکہ وہ نہ سوئیں، کیونکہ سونے کی صرف رات میں اجازت تھی ۔

گھنٹے بوجھل گزرتے تھے جب تک کہ رات کا کھانا نہ آ جائے، جو پلیٹ میں بمشکل نظر آتا۔ قیدی شام پانچ بجے کے قریب کھانا کھاتے، پھر غروب آفتاب کا انتظار کرتے، غروب آفتاب کے ایک یا ڈیڑھ گھنٹے بعد اور شام کی گنتی اسی طرح کرنے کے بعد، پہرے دار روشنی بند کر دیتے اور قیدی ایک دوسرے کے قریب سو جانے کی تیاری میں لیٹ جاتے۔ پہرے دار ہمیشہ کمروں کی نگرانی کرتا اور اس کے جوتوں کی آواز زمین پر گونجتی ، جیسے کہ وہ انہیں رات میں بھی سونے کی اجازت نہ دینا چاہتا ہو۔

جمعرات کے دن قیدیوں کو چار چار کے گروپ میں حمام لے جایا جاتا ، جہاں ہر قیدی کو ہفتے میں پانچ منٹ نہانے کے لیے ملتے۔ پانی شاذ و نادر ہی گرم ہوتا اور ایک ہی بیکار صابن کی ٹکیا تمام قیدیوں کے لیے کافی ہونی ضروری تھی (یعنی سیکشن کے ایک چوتھائی قیدیوں کے لیے)۔ نہانے کے بعد جیل کا داروغہ ہر کمرے کو ایک استرا دیتا جس سے سب کو باری باری اپنی داڑھی مونڈنی ہوتی تھی۔ جمعہ کا دن اہل خانہ کی ملاقاتوں کا دن ہوتا ، ہر علاقے کے قیدیوں کے اہل خانہ اس دن ملاقات کے لیے آتے تھے، جس جمعہ کی صبح جن قیدیوں کے اہل خانہ ملاقات کے لیے آ رہے ہوتے وہ تیار ہو جاتے اور لاؤڈ اسپیکر کی آواز کا انتظار کرتے جو دیواروں پر نصب ہوتا اور ایک گروپ کے بعد دوسرے گروپ کے زائرین کے ناموں کا اعلان کرتا۔ جن کے نام بلائے جاتے وہ اپنی کوٹھریوں سے باہر آتے۔ جب جیل کے داروغہ ان کے لیے دروازے کھولتے تو انہیں تمام سیکشنوں سے اکٹھا کر کے ایک انتظارگاہ میں لے جایا جاتا ، جہاں ان کی جامہ تلاشی لی جاتی ، پھر انہیں ملاقات کے سیکشن میں لے جایا جاتا ، جہاں دوبارہ تلاشی لی جاتی ، ہر سیکشن کے قیدیوں کو الگ الگ رکھا جاتا اور بعد میں انہیں دوبارہ ان کی کوٹھریوں میں واپس بھیج دیا جاتا۔ وہاں ان کے ساتھی انہیں ملاقات کی مبارکباد دیتے ، اور وہ جواب دیتے ’’اللہ آپ کو برکت دے ، آپ کی بھی باری آئے‘‘۔

میرے بھائی محمود نے اس کٹھن اور تلخ حقیقت کا سامنا کیا اور اس نے غزہ کی اس جیل میں زندگی گزاری جو مختلف علاقوں سے آئے ہوئے سینکڑوں قیدیوں سے بھری ہوئی تھی۔ جیل انتظامیہ کسی بھی منظم اجتماعی سرگرمی کی اجازت نہیں دیتی تھی اور قیدیوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھتی تھی، جو انسانی حقوق اور جنیوا کنونشن کے تحت فراہم کیے گئے تھے۔ اگر کوئی بھی اعتراض کرنے کی کوشش کرتا تو اسے ایسی سختی اور مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑتا جو کسی انسان کے تصور سے بھی باہر ہو۔

عدالت کے دن جیل کے داروغہ محمود اور دیگر قیدیوں کو بتاتے کہ انہیں عدالت جانے کے لیے تیار ہونا ہے، چند منٹوں میں انہیں کوٹھریوں سے نکالا جاتا ، ان کی مکمل تلاشی لی جاتی ، ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگائی جاتیں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال دی جاتیں۔ پھر انہیں گھسیٹ کر جیل کی عمارت کے دوسرے کونے میں واقع فوجی عدالت میں لے جایا جاتا، وہاں انہیں انتظارگاہ میں بٹھایا جاتا اور ایک ایک کر کے عدالت کے کمرے میں لایا جاتا، جہاں انہیں قیدیوں کے پنجروں میں بند کر دیا جاتا اور فوجی ان کی نگرانی کرتے۔ عدالت کے کمرے کے وسط میں ایک بڑی میز ہوتی جس کے پیچھے تین کرسیاں ہوتیں اور ان کے پیچھے اسرائیل کا جھنڈا ہوتا۔ جب جج، جو فوجی افسران ہوتے تھے، کمرے میں داخل ہوتے تو ایک فوجی زور سے حکم دیتا ، ’’کھڑے ہو جاؤ!‘‘ جس پر کمرے میں موجود ہر شخص کو کھڑا ہونا ہوتا ، یہاں تک کہ وہ اہل خانہ بھی جو کمرے کے دوسرے کونے میں بیٹھے ہوتے اور ان پر فوجیوں کی بندوقیں تنی ہوتیں، عدالت کی کاروائی شروع ہوتی اور وکیل کا کردار نہ ہونے کے برابر ہوتا ۔

محمود درجنوں فوجیوں میں سے اپنی ماں، ماموں اور بھائی حسن کی طرف دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا جو دوسرے لوگوں کے درمیان بیٹھے تھے۔ وہ اپنے چہرے پر اطمینان کی مسکراہٹ لانے کی کوشش کر رہا تھا، جس کا جواب ماں ایک ہلکی اور پریشان مسکراہٹ سے دیتی تھیں، جو اس کی فکر اور مستقبل کے بارے میں خوف کو چھپانے میں ناکام رہتی تھی۔ عدالت کی کاروائی بار بار بغیر کسی نتیجے کے جاری رہتی تھی، اور ہر مرتبہ قیدیوں کو دوبارہ جیل واپس لے جایا جاتا تھا جہاں ان کے ساتھی ان سے پوچھتے کہ کیا ہوا، تسلی دیتے اور اگر کسی کو سزا مل جاتی تو اسے حوصلہ دیتے کہ آزادی قریب ہے اور قید مردوں کو متاثر نہیں کرتی، یہ قومی وابستگی کی قیمت ہے۔

جیل کے حالات ناقابل برداشت حد تک سخت تھے، اور جیلر کا کسی بھی اعتراض پر ردعمل ہر تصور سے زیادہ سخت تھا۔ اکثر ایک قیدی کا سر اس لیے توڑ دیا جاتا تھا کیونکہ اس نے کھانے کے بارے میں سوال کیا تھا کہ کیا یہ انسانوں کے کھانے کے لائق ہے؟ اور کیا یہ بیس لوگوں کے لیے کافی ہے؟ اکثر کسی کی ہڈیاں اس لیے توڑ دی جاتی تھیں ، کیونکہ اس نے دوسرے کمروں کے دروازے کی طرف دیکھا تھا جب وہ قطار میں میدان کی طرف جا رہا تھا۔ اکثر ان کی آنکھوں پر نیل پڑ جاتے تھے؎ کیونکہ تین یا چار دوسرے قیدی اپنے کمرے کے کونے میں بیٹھ کر بات چیت کر رہے تھے۔ کچھ نہ کچھ کرنا ضروری تھا تاکہ جیلر کا ان کے ساتھ یہ برتاؤ کو ختم کر سکیں۔ محمود کے ساتھ تین یا چار قیدی اس مسئلے پر بات چیت کر رہے تھے اور ہر کوئی اپنی جگہ بیٹھا تھا تاکہ جیلر کو شک نہ ہو۔ اس برتاؤ کو ختم کرنے کا طریقہ تلاش کر رہے تھے ، ان سب پر یہ واضح تھا کہ تشدد اور طاقت کا استعمال ان کے حق میں نہیں ہو گا، کیونکہ ان کے پاس صرف اپنے ہاتھ تھے جبکہ جیلر کے پاس لاٹھیاں، ڈھالیں، ہیلمیٹ اور آنسو گیس تھی، اور مکمل بربریت اور بے حسی تھی۔ تو کیا کرنا چاہیے؟ آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس برتاؤ کو تبدیل کرنے کا واحد طریقہ کھانے سے مکمل انکار کرنا ہے، کیونکہ بھوک ہڑتال کے ذریعے آپ تکلیف اور بھوک کا سامنا کرتے ہیں، اور موت کا انتظار کرتے ہیں تاکہ جیلر کی سختی اور ظلم کو شکست دے کر اسے ہمارے ساتھ برتاؤ کے طریقے کو تبدیل کرنے پر مجبور کریں۔

سب کی رائے لی گئی اور اتفاق رائے کر لیا گیا۔ اسیر کارکن سے جو کھانا تقسیم کرنے کے لیے باہر جاتا تھا، کہا گیا کہ جیلر سے ایک قلم چوری کرے اور کچھ کاغذوں کا انتظام کرے ، کئی کوششوں کے بعد وہ اس میں کامیاب ہو گیا، اس نے قلم اور کاغذ کئی دنوں تک چھپائے رکھے اور کمرے کے ایک کونے میں رکھا جہاں جیلر انہیں آسانی سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ کمرے میں خطوط لکھنے کا آغاز ہوا جو دوسرے حصوں میں بھیجے جائیں گے تاکہ اجتماعی طور پر ہڑتال کی جا سکے، اور یہ سب ایک ہی وقت میں شروع ہو۔

یومِ ملاقات کو کچھ قیدیوں نے خطوط اٹھائے اور انہیں تفتیشی عمل سے گزارا ، خطوط کو پلاسٹک میں لپیٹا گیا تھا اور انہیں منہ میں چھپانا آسان تھا، انتظار کے کمرے میں خطوط کو دوسرے سیکشن کے نوجوانوں میں بانٹ دیا گیا۔ ہر ایک نے خط اپنے منہ میں چھپایا اور وہ انہیں بہت احتیاط سے آپس میں بانٹتے رہے۔ اگر کسی نے دیکھا کہ ایک محافظ راہداری میں حرکت کر رہا ہے اور قریب آ رہا ہے، تو وہ کھنکھار لیتا یا زمین پر اپنے پیر مارتا، اور خط چھپا لیا جاتا۔ جب کمرہ خالی ہو جاتا تو خط کو دوبارہ لپیٹ لیا جاتا اور اگلی کھانے کی قسط کا انتظار کیا جاتا ، پھر وہ انہیں خط دیتا اور وہ اسے پڑھنے اور بانٹنے لگتے ، اس طرح دو ہفتوں کے اندر تمام قیدیوں کو اطلاع مل گئی اور انہوں نے ہڑتال کی تیاری کر لی۔

اتوار کی صبح گنتی اور کھانا آنے کے بعد، محافظوں نے معمول کے مطابق قیدیوں کو کھانا تقسیم کرنے کے لیے باہر نکالا ، اس نے کھانا اٹھایا اور پہلے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا: ’’کھانا‘‘ نوجوانوں نے جواب دیا ’’ہم نہیں چاہتے، ہم ہڑتال پر ہیں!‘‘ محافظ حیران ہوا اور اپنے ساتھی کو بلایا تاکہ اعلیٰ حکام کو اطلاع دے سکے۔ پھر قیدی نوجوان کو دوسرے کمرے میں جانے کا حکم دیا۔ ’’کھانا‘‘ قیدیوں نے جواب دیا ’’ہم نہیں چاہتے، ہم ہڑتال پر ہیں!‘‘ اسی طرح تیسرے، چوتھے اور باقی کمروں میں بھی یہی ہوا، اور اسی طرح دوسرے سیکشنز میں بھی۔

محافظوں کا دماغ خراب ہو گیا اور جیلر اور اس کے افسران بڑی تعداد میں محافظوں کے ساتھ لاٹھیاں، ڈھالیں اور گیس لے کر سیکشنز کی طرف دوڑتے ہوئے آئے۔ جیلر نے محافظ پر چیخ کر کہا ’’دروازہ کھولو‘‘، محافظ نے پہلا دروازہ کھولا ، ڈائریکٹر نے چیخ کر کہا : ’’کھانا لے آؤ‘‘ قیدی کھانا لایا اور جیلر نے قیدیوں سے ایک ایک کر کے پوچھنا شروع کیا : ’’کیا تم کھانا چاہتے ہو؟‘‘ جواب ملا : ’’نہیں‘‘ دوسرے سے پوچھا ، جواب ملا : ’’نہیں‘‘، تیسرے اور چوتھے سے بھی یہی سوال کیا اور مختلف کمروں میں گھوما، مگر کوئی بھی کھانا لینے یا کھانے کے لیے تیار نہیں تھا وہ صرف پانی پیتے اور چند نمک کے دانے لیتے ، دوپہر کا کھانا آیا، لیکن کسی نے نہیں لیا۔ رات کا کھانا آیا، لیکن کسی نے نہیں لیا۔ ایک دن، دوسرا دن، تیسرا دن گزر گیا ، ایک ہفتہ اور دو ہفتے گزر گئے، قیدی کمزور ہونے لگے، ان کے جسم ڈھلنے لگے اور آنکھیں اندر دھنسنے لگیں۔ ہر روز یا کچھ دنوں بعد جیلر یا اس کے کسی افسر نے آ کر کوشش کی کہ کوئی ٹوٹ گیا ہو یا ہار مان گیا ہو اور کھانا کھانے کے لیے تیار ہو، مگر ایسی کوئی صورت حال نہ ہوئی ، واضح ہو گیا کہ قیدی مقابلہ کرنے اور آگے بڑھنے پر مصر ہیں ، یہ معاملہ یقیناً اعلیٰ حکام تک پہنچا دیا گیا۔جیلر نے آ کر قیدیوں سے مطالبات پوچھے تو سب کا ایک ہی جواب تھا : میں بات کرنے کا مجاز نہیں ہوں، کمیٹی سے بات کریں ، محمود صالح ، حسن ثبات اور عبدالعزیز شاہو۔ جیلر چیخا : یہاں کوئی کمیٹیاں نہیں ہیں، ہم کسی کمیٹیوں کو نہیں مانتے، تم سب تخریب کار اور مجرم ہو۔

ایک تیسرا ہفتہ گزر گیا اور یہ واضح ہو گیا کہ بھوک ہڑتال نے اثر کرنا شروع کر دیا ہے، یہ واضح ہو گیا ہے کہ قیدیوں کی زندگیوں کو حقیقی خطرہ لاحق ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے عالمی میڈیا اور بین الاقوامی مجالس میں اسرائیل پر شدید دباؤ پڑے گا ، یہ مناسب نہیں ہے کہ یہ قیدی بھوک سے مر جائیں، فلسطینیوں کی ایسی بہادری اور عظمت کی تصویر سامنے آنا بھی مناسب نہیں ہے۔ مذاکرات کا آغاز ہوا اور کمیٹی کو جیلر کے دفتر میں بلایا گیا ، میز پر لذیذ کھانے کی پلیٹیں رکھی گئیں اور جیل انتظامیہ کی ٹیم جیلر کی قیادت میں بیٹھی، اور ان کے سامنے تینوں قیدی بیٹھے تھے، ان میں سے کوئی بھی اپنی کرسی پر ٹھیک سے بیٹھ نہیں پا رہا تھا لیکن پھر بھی وہ ہمت کر رہے تھے اور اپنی جسمانی طاقت کی آخری رمق کو جمع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جیلر نے انہیں کھانا کھانے کی پیشکش کی، لیکن انہوں نے ادب اور نرمی سے انکار کر دیا وہ بھی اپنے بھائیوں کی طرح ہڑتال پر ہیں اور اگر مطالبات پورے ہو جائیں تو وہ سب سے آخر میں کھانا کھائیں گے۔

مطالبات کیا ہیں؟ جسمانی تشدد اور مار پیٹ کی پالیسی کا خاتمہ، کمروں میں آزادانہ بیٹھنے کی اجازت، دن میں سونے کی اجازت، فوارہ میں آزادانہ چلنے، بیٹھنے یا جمع ہونے کی آزادی، ہمیں نیند کے لیے مناسب گدے فراہم کیے جائیں، کھانے کی مقدار بڑھائی جائے، صفائی کے سامان کی مقدار دوگنی کی جائے، اور غسل خانے کا وقت بڑھا کر ہفتے میں دو بار کیا جائے، دفاتر، قلم اور کتابوں کی اجازت دی جائے اور دیگر مطالبات ، مطالبات کو نوٹ کیا گیا اور ان پر بعد میں جواب دینے کا وعدہ کیا گیا۔ تینوں قیدیوں نے بمشکل خود کو اٹھایا اور انہیں محافظوں نے ساتھ لیا جن کے چہروں پر حیرت کے آثار تھے کہ انہوں نے ان مردوں کے عزم اور ارادے کو روز بروز بڑھتے ہوئے دیکھا۔ دو دن بعد کمیٹی کو دوبارہ بلایا گیا اور جیلر نے ان مطالبات پر اپنا مؤقف بتایا، کچھ مطالبات کو منظور کر لیا گیا اور کچھ کو مسترد کر دیا گیا۔کمیٹی کے اراکین نے جاتے ہوئے اعلان کیا: ’’یہ کافی نہیں ہے اور ہڑتال جاری رہے گی‘‘ ، انہیں بٹھا کر مزید مطالبات پر بات چیت کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن جواب ملا : ’’ہمیں اپنے تمام مطالبات کی مکمل منظوری چاہیے۔‘‘ اگلے دن کمیٹی کو دوبارہ بلایا گیا اور ان مطالبات پر جواب دیا گیا جن میں سے زیادہ تر کو منظور کر لیا گیا تھا ، کمیٹی نے ہڑتال ختم کرنے پر اصولی طور پر رضامندی ظاہر کی، لیکن انہوں نے قیدیوں کے سیکشن میں جا کر انہیں نتائج سے آگاہ کرنے اور ان کی رائے سننے کی اجازت مانگی، اس درخواست کو مسترد کر دیا گیا تو کمیٹی نے ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کیا اور باہر نکل گئی۔ چند گھنٹوں بعد انہیں دوبارہ بلایا گیا اور انہیں ایک افسر کی معیت میں سیکشن میں جانے کی اجازت دی گئی۔ انہوں نے سیکشن کا دورہ شروع کیا، ایک کے بعد ایک کمرے میں داخل ہوئے، قیدیوں سے ملے، انہیں ہونے والے واقعات سے آگاہ کیا اور ہڑتال ختم کرنے پر ان کی رضامندی حاصل کی، یہاں تک کہ انہوں نے پورے جیل کا دورہ مکمل کر لیا۔

جب افسران نے اس بات کی تصدیق کر لی کہ ہڑتال ختم ہو گئی ہے اور قیدی کھانا قبول کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں، تو لازمی تھا کہ پہلے تین دنوں میں صرف مائع غذا تک ہی محدود رہیں۔ اس کے بعد غذا کو جامد اور سخت کھانوں میں تبدیل کیا جائے گا کیونکہ معدہ اور آنتیں جو کئی ہفتوں سے کام نہیں کر رہی تھیں، وہ عام کھانے کے لیے تیار نہیں تھیں، اور انہیں بتدریج فعال کیا جانا ضروری تھا جیسا کہ قید میں موجود ایک ڈاکٹر نے مشورہ دیا تھا ۔

پہلی غذا کھانے کے بعد، تمام قیدی ہر کمرے میں ایک اجتماعی نشست میں بیٹھ گئے ، کمرہ (٧) بلاک (ب) میں ایک حلقے کی شکل میں بیٹھے، محمود نے اس نشست میں اس فتح کے بارے میں بات چیت کی جو حاصل ہوئی تھی اور کہا کہ اگر مردوں کا عزم اور موت کے لیے تیاری ہو تو کوئی چیز ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی، اور فتح ضرور ان کا مقدر ہو گی۔ اس نے فلسطینی انقلاب کے بارے میں بات کی جو صرف مردوں کے عزم اور تیاری سے شروع ہوا تھا اور اعلان کیا کہ فتح تحریک کا ایک نعرہ ہے کہ ’’زمین کو صرف اس کے مرد آزاد کرا سکتے ہیں‘‘ بالکل جیسے ہمارے اجداد نے کہا تھا کہ ’’زمین کو صرف اس کے بیل جوت سکتے ہیں۔‘‘ اگلے دن، قیدی صحن میں باہر نکلے جبکہ پہرے دار ڈنڈوں کے ساتھ موجود نہیں تھے۔ اور ہر ایک نے بغیر کسی مداخلت کے جو چاہا کیا، چلا یا بیٹھا، ایک پہرے دار قریب کی چھت پر کھڑا ہو کر بغیر کسی مداخلت کے صورتحال کو دیکھ رہا تھا۔

اگلے عرصے میں سلاخوں کے پیچھے ثقافتی، مذہبی اور تعلیمی نشستیں عام ہو گئیں۔ ایک کمرے میں ایک نشست ہو رہی تھی ، جس میں فلسطینی تاریخ کے بارے میں بات کی جا رہی تھی، دوسرے کمرے میں ایک سیاسی نشست ہو رہی تھی جس میں تازہ ترین حالات پر بات ہو رہی تھی، تیسرے کمرے میں فتح تحریک کے اصول، نعرے اور مقاصد پر بات ہو رہی تھی، اور چوتھے کمرے میں اشتراکی فکر اور مارکسی فلسفے پر بات ہو رہی تھی۔ اس طرح جیل ایک ترقی یافتہ اسکول میں تبدیل ہو گیا جہاں سیکھنے والا دوسروں کو سکھاتا تھا اور نا تجربہ کار لوگوں کو مناظرے اور سیاسی تفکر کی تربیت دی جاتی تھی اور قیدیوں کے درمیان واضح سیاسی اور نظریاتی فکر تشکیل پانے لگی۔ ان کی سیاسی وابستگیوں کے مطابق تین واضح گروپ نمایاں ہو گئے: لینن ازم کے ساتھ عوامی آزادی کے دستے ، قومی تحریک کے ساتھ فتح اور مارکسی یساری کے ساتھ عوامی محاذ۔2لینن ازم: ایک سیاسی نظریہ ہے جو روسی رہنما ولادیمیر لینن کی تعلیمات اور نظریات پر مبنی ہے ، یہ نظریہ مارکسزم کے اصولوں کو وسعت دیتا ہے اور کمیونزم کے قیام کے لیے مخصوص حکمت عملیوں پر زور دیتا ہے۔ لینینزم کا بنیادی مقصد سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا اور ایک سوشلسٹ ریاست کے قیام کو ممکن بنانا ہے۔
قوات التحریر الشعبیۃ: ایک عسکری گروپ قوات التحریر الشعبیۃ کے حوالے سے معروف ہے جو فلسطینی آزادی کے لیے کام کرتا ہے ،یہ تنظیم 1960ء کی دہائی میں تشکیل پائی اور اس کا مقصد فلسطینی عوام کے حقوق کا دفاع کرنا اور اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کرنا ہے۔اس کی بنیاد مارکسی-لنینی نظریات پر رکھی گئی تھی، اور یہ فلسطین میں کمیونسٹ تحریکوں کا حصہ رہی ہے۔
الوطنی المجرد : ایک فلسطینی سیاسی تحریک ہے جو فلسطینی خودمختاری اور حقوق کے حصول کے لیے کام کر رہی ہے ، یہ تحریک بنیادی طور پر ایک سیاسی اور سماجی تحریک ہے جس کا مقصد فلسطینی عوام کے حقوق اور ان کی خودمختاری کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔
تحریک فتح : فلسطینی سیاسی اور فوجی تنظیم ہے جس کی بنیاد 1965ء میں یاسر عرفات اور ان کے ساتھیوں نے رکھی۔ یہ تنظیم فلسطینی قومی تحریک کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کا مقصد فلسطینی عوام کے حقوق کی جدوجہد اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کام کرنا ہے۔
المارکسی الیساری : ایک خاص تنظیم نہیں ہے بلکہ یہ ایک نظریاتی دھارے یا سیاسی تحریک کی نمائندگی کرتی ہے جو مارکسزم پر مبنی سوشلسٹ خیالات کو فروغ دیتی ہے۔
’’الجبهة الشعبية لتحرير فلسطين‘‘ (Popular Front for the Liberation of Palestine – PFLP) ایک فلسطینی سیاسی اور فوجی تنظیم ہے، جو 1967ء میں تشکیل دی گئی۔ یہ تنظیم فلسطینی آزادی کی تحریک کا حصہ ہے اور اس کا مقصد فلسطینیوں کا حقوق اور خود مختاری حاصل کرنا ہے۔ یہ تنظیم مختلف طریقوں سے اپنی جدوجہد کرتی ہے، جن میں سیاسی فعالیت، عوامی تحریکیں، اور کبھی کبھار مسلح کارروائیاں شامل ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس تنظیم نے فلسطینی تنازع کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا اور اس کے کئی ادوار میں مختلف روابط اور اتحاد بنائے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

  • 1
    یوم کپور (Yom Kippur) یہودی کیلنڈر کا ایک سب سے اہم مذہبی موقع ہے، جو عموماً ستمبر یا اکتوبر میں آتا ہے ، اسے “توبہ کا دن” یا “عیدِ کفّارہ” بھی کہا جاتا ہے۔ یوم کپور کا مقصد اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا اور توبہ کرنا ہے۔ یہ دن اس حقیقت کی یاد دلاتا ہے کہ انسانی زندگی میں ندامت اور اصلاح کی ضرورت ہے ، یوم کپور کے دوران، یہودی لوگ روزہ رکھتے ہیں، دعا اور عبادت کرتے ہیں، اور اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگتے ہیں۔ یہ دن نرمی، خود احتسابی اور دوسروں کے ساتھ خوشگوار روابط قائم کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ یوم کپور سے پہلے ایک دن، ’’رش ہشانہ‘‘ کے موقعے پر نئے سال کا جشن منایا جاتا ہے، جس سے یوم کپور کے بعد کی مدت کے لیے حساب کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔ اس دن کی اہم رسومات میں عبادت گاہوں میں خصوصی خدمات اور دعائیں شامل ہوتی ہیں، اور لوگ ایک دوسرے سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگتے ہیں۔ یوم کپور کے اختتام پر، لوگ دوبارہ ملتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
  • 2
    لینن ازم: ایک سیاسی نظریہ ہے جو روسی رہنما ولادیمیر لینن کی تعلیمات اور نظریات پر مبنی ہے ، یہ نظریہ مارکسزم کے اصولوں کو وسعت دیتا ہے اور کمیونزم کے قیام کے لیے مخصوص حکمت عملیوں پر زور دیتا ہے۔ لینینزم کا بنیادی مقصد سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا اور ایک سوشلسٹ ریاست کے قیام کو ممکن بنانا ہے۔
    قوات التحریر الشعبیۃ: ایک عسکری گروپ قوات التحریر الشعبیۃ کے حوالے سے معروف ہے جو فلسطینی آزادی کے لیے کام کرتا ہے ،یہ تنظیم 1960ء کی دہائی میں تشکیل پائی اور اس کا مقصد فلسطینی عوام کے حقوق کا دفاع کرنا اور اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کرنا ہے۔اس کی بنیاد مارکسی-لنینی نظریات پر رکھی گئی تھی، اور یہ فلسطین میں کمیونسٹ تحریکوں کا حصہ رہی ہے۔
    الوطنی المجرد : ایک فلسطینی سیاسی تحریک ہے جو فلسطینی خودمختاری اور حقوق کے حصول کے لیے کام کر رہی ہے ، یہ تحریک بنیادی طور پر ایک سیاسی اور سماجی تحریک ہے جس کا مقصد فلسطینی عوام کے حقوق اور ان کی خودمختاری کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔
    تحریک فتح : فلسطینی سیاسی اور فوجی تنظیم ہے جس کی بنیاد 1965ء میں یاسر عرفات اور ان کے ساتھیوں نے رکھی۔ یہ تنظیم فلسطینی قومی تحریک کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کا مقصد فلسطینی عوام کے حقوق کی جدوجہد اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کام کرنا ہے۔
    المارکسی الیساری : ایک خاص تنظیم نہیں ہے بلکہ یہ ایک نظریاتی دھارے یا سیاسی تحریک کی نمائندگی کرتی ہے جو مارکسزم پر مبنی سوشلسٹ خیالات کو فروغ دیتی ہے۔
    ’’الجبهة الشعبية لتحرير فلسطين‘‘ (Popular Front for the Liberation of Palestine – PFLP) ایک فلسطینی سیاسی اور فوجی تنظیم ہے، جو 1967ء میں تشکیل دی گئی۔ یہ تنظیم فلسطینی آزادی کی تحریک کا حصہ ہے اور اس کا مقصد فلسطینیوں کا حقوق اور خود مختاری حاصل کرنا ہے۔ یہ تنظیم مختلف طریقوں سے اپنی جدوجہد کرتی ہے، جن میں سیاسی فعالیت، عوامی تحریکیں، اور کبھی کبھار مسلح کارروائیاں شامل ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس تنظیم نے فلسطینی تنازع کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا اور اس کے کئی ادوار میں مختلف روابط اور اتحاد بنائے۔
Previous Post

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | بارہویں اور آخری قسط

Next Post

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025

Related Posts

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اگست 2025

17 اگست 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | ساتویں قسط

12 اگست 2025
احکامِ الٰہی
گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال

احکامِ الٰہی

15 جولائی 2025
ٹیلی گرام: پرائیویسی کا فریب
اوپن سورس جہاد

ٹیلی گرام: پرائیویسی کا فریب

14 جولائی 2025
امنیت (سکیورٹی) | پہلی قسط
الدراسات العسکریۃ

امنیت (سکیورٹی) | پہلی قسط

14 جولائی 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

14 جولائی 2025
Next Post
اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version