نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home ناول و افسانے

سلطانئ جمہور | قسط نمبر: ۱۷

علی بن منصور by علی بن منصور
2 مارچ 2022
in ناول و افسانے, فروری 2022
0

گاڑی سنسان سڑک پر فراٹے بھررہی تھی۔ اور نبیلہ کی سوچیں بھی……ہاشمی ہاؤس جمہوری انقلاب سے لے کر آج تک کی تاریخ کے اپنے سب سے برے دن دیکھ رہا تھا۔ اور یہ نبیلہ کی بد قسمتی تھی کہ سٹئیرنگ وہیل کے سامنےوہ بیٹھی تھی۔ عثمان صاحب کو گھر منتقل ہوئے دو ہفتے ہو چلے تھے، ڈاکٹروں کے مطابق ان کی حالت اب نارمل اور مستحکم ہو جانی چاہیے تھی، مگر فائزہ بیگم کی تمام تر احتیاط اور تیمارداری کے باوجود ان کی طبیعت ہچکولے لیتی رہتی۔ فشارِ خون قابو میں آتا، تو دمہ حملہ کر دیتا، دمے سے سنبھل کر ذرا سانس لینے کے قابل ہوتے تو بخار آ لیتا۔ ایسے میں تیمارداری کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ گھر کی خواتین آنے جانے والوں کی خاطر تواضع کے ساتھ ساتھ عثمان صاحب کی تیمارداری کے دوہرے فرائض سے بوکھلا اٹھی تھیں۔

جب اوکھلی میں سر دیا تو موسلوں سے کیا ڈرنا۔ اس محاورے کا مفہوم نبیلہ کو اب بخوبی سمجھ آ رہا تھا۔ ان کے گھرانے کا ماہانہ بجٹ لاکھوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ گھر سے جو سامان چوری ہوا تھا، وہ ایسا نہیں تھا جو ان کے معمول کے بجٹ کو متاثر کرتا ۔ایک غیر معمولی خرچہ اس کے دور میں یہ ہوا تھا کہ گھر کا خشک راشن سارا نیا خریدا تھا، پھر دونوں سکیورٹی گارڈز کی تنخواہیں تھیں، ایک وہی تھے جو تیس فیصد کٹوتی سے مستثنیٰ تھے۔ پھر عثمان صاحب کے علاج پر بے تحاشا خرچہ ہوا تھا، مگر ان کا بینک بیلنس اسے سہار سکتاتھا۔یہ ضرور تھا کہ عثمان صاحب کی بیماری کی وجہ سے ان کا کاروبار متاثر ہوا تھا، لیکن اس کمی کو بھی ابوبکر صاحب اور جاوید اور کسی حد تک عمیر بھی، پورا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔ ولید کا بھی آخری سمسٹر شروع ہو چکا تھا، اس نے کچھ رقم مزید منگوائی تھی اپنے بعض اخراجات پورے کرنے کے لیے، جس پر پارلیمنٹ میں کافی لے دے ہوئی، مگر آخر میں ابوبکر اور جاوید صاحب کے پر زور اصرار پر نبیلہ کو جھکنا پڑا۔ لیکن یہ نبیلہ کے اصل اخراجات نہیں تھے۔

اصل خرچہ تو وہاں ہوا جب اس نے انسپکٹر رضوان سے اپنی مرضی کی رپورٹ بنوائی۔ پچھلی رپورٹ کے تمام نشانات اور ریکارڈ مٹانے سے لے کر، نئی رپورٹ کی تیاری تک، ایک طویل سفر تھا، جس کے ہر ہر مرحلے پر کہیں زباں بندی کی قیمت ادا کی اور کہیں چشم پوشی کی۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس سفر میں وہ اکیلی تھی۔ عمیر، زوار یا کوئی دوسرا اس کے ساتھ نہیں کھڑا تھا۔ یہ سارا گند عمیر کا پھیلایا ہوا تھا مگر وہ اسے سمیٹنے پر مجبور تھی۔ کتنی ہی دفعہ، رات کو فائلوں میں درج اعداد و شمار سے دماغ کھپاتے کھپاتے اس کی ذہنی رو بھٹک جاتی اور وہ یہ سوچنے لگتی کہ آخر وہ کیوں یہ سب کر رہی ہے۔ کیا اس کی نسبت یہ آسان تر نہیں کہ کھل کر ساری بات سارے گھر کے سامنے آ جائے۔ اصل مجرم تو عمیر ہے، قرضہ بھی اسی نے لیا اور اسی نے کھایا۔ گھر میں ڈاکہ بھی اسی نے ڈلوایا۔ اور یقیناً جتنی مالیت کا سامان وہ چوری کروا چکا تھا، اس کا آدھا بھی اس نے نبیلہ کو قرض اتارنے کے لیے امداد کے طور پر نہیں دیا تھا۔ اور شاید……عثمان چاچو کو گولی بھی اسی کے ایما پر ماری گئی……!

اپنی اس سوچ پر وہ لرز کر رہ جاتی ۔نہیں……! عمیر اس قدر بے رحم نہیں ہو سکتا تھا۔ آخر عثمان چاچو ان کے بڑے بھائی تھے……سگے بھائی…… گھرانے میں عزت، پیسہ اور اقتدار……یہ سب چیزیں ایسی تو نہیں تھیں کہ ان کو حاصل کرنے کے لیے کوئی اپنے سگے بھائی پر گولی چلا دے……! اس کو معذوری کی نہج پر پہنچا دے……!

ہاں مگر……ان چیزوں میں اتنی طاقت ضرور تھی کہ ان پر قابض رہنے کے لیے وہ اپنے دامن کے وہ داغ چھپائے رکھنا چاہتی تھی، جو عمیر کے اعمال کے چھینٹوں کی صورت میں اس کے دامن کو بھی داغدار کر گئے تھے۔ حقیقت سب کے سامنے لانے کا مطلب تھا کہ عمیر کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی آئندہ سربراہی کے لیے نا اہل قرار دے دی جاتی۔ پورے گھر اور خاندان میں جو رسوائی ہوتی وہ الگ تھی۔ پھر سزا اور جرمانے کے طور پر نجانے کیا کیا پابندیاں نہ جھیلنا پڑتیں۔ اور سب سے بڑھ کر، اس کی عزت اور ساکھ مٹی میں مل جاتی۔وہ ایک پبلک فِگر تھی، اس کی سوشل میڈیا پر لاکھوں میں فالوِنگ تھی……ایک زمانہ اس کو آئیڈیلائز کرتا تھا……کیا وہ ان سب کو مایوس کر دیتی؟ کیا وہ ناموری اور شہرت کے اس بلبلے کو اپنے ہاتھوں سے پھاڑ دیتی جس میں وہ جیتی تھی؟

یہ سب اس کا کیا دھرا نہیں تھا، بلکہ وہ تو خود عمیر کی سیاست کا شکار ہوئی تھی۔ وہ ظالم نہیں……مظلوم تھی! وہ جانتی تھی کہ عمیر اسے نا اہل ثابت کروانا چاہ رہا ہے۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ کسی طرح اپنی میعاد پوری کر کے وہ باعزت طور پہ اس آفس سے نکل جاتی تو ایک دو ٹرمز کے بعد شاندار واپسی کی راہیں روشن تھیں۔ مگر اس وقت عزت سے اپنی کرسی سنبھالے رکھنا ہی اس کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا۔ جب سے اس نے اخراجات قدرے کنٹرول کرنے کے لیے سب کے وظیفوں سے تیس فیصد کٹوتی کا اپنا فیصلہ نافذ کیا تھا، چھوٹے سے لے کر بڑے تک اور ملازم سے لے کر مالک تک……سبھی اس کی جان کو آ گئے تھے۔

ہر کوئی بقدرِ استطاعت اپنی ناراضگی کا اظہار کر رہا تھا۔سلطان اس کا ڈرائیور تھا، لیکن اسے لگنے لگا تھا کہ جلد ہی وہ اس کا قاتل ثابت ہو گا۔ راستے میں ایک لمبی تمہید کے بعد سلطان نے اشارے کنایے میں اپنی ضرورت کا اظہار کر کے پوری تنخواہ کا مطالبہ کیا تھا لیکن اس نے بے پروائی سے ٹال دیا ۔ تب سے سلطان کی گاڑی چلانے کی رفتار انتہائی تیز اور صلاحیت گویا صفر ہو کر رہ گئی تھی۔ اسے معجزہ ہی سمجھنا چاہیے تھا کہ وہ بغیر کسی حادثے کے گھر تک پہنچ گئے ورنہ سلطان تو تمام احتیاطیں اور اصول و قواعد اٹھا کر گاڑی کے کھلے شیشے سے باہر پھینک چکا تھا۔گاڑی اسی طرح فراٹے بھرتی ہوئی چلی آ رہی تھی جب اس کی نظراچانک راستے میں پڑی اینٹ پر پڑی۔ ایک اینٹ سے بچنے کی خاطر اس نے ایک بار پھر تیزی سے پہیہ گھمایا اور دائیں ہاتھ پرموجود چھوٹے سے سبز قطعے کو روندتے ہوئے گاڑی گھر کے سامنے بنی پتھر کی ڈھلان پر چڑھا دی۔ اس آخری جھٹکے پر پیچھے بیٹھی ڈولتی ڈگمگاتی نبیلہ کا سر کھڑکی سے جا ٹکرایا۔

’’……کیا ہے سلطان!؟…… پہلی دفعہ گاڑی چلا رہے ہو کیا……؟‘‘، اپنا پرس اور سکارف سنبھالتے ہوئے اس نے بھنّا کر پوچھا۔ اس سوال کا جواب دیے بغیر سلطان اب اپنا غصّہ ہارن پر نکال رہا تھا، سامنے سے آتے سکیورٹی گارڈ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے پورے زور سے ہارن دبا ڈالا۔گارڈ کے پیچھے پیچھے گارڈ کے کیبن سے نکلتے زوار کو دیکھ کر نبیلہ کی پیشانی بھی شکن آلود ہو گئی۔چہرے کے بگڑے زاویوں میں ناگواریت پھیل گئی۔ یہ یہاں کیا کر رہا تھا؟ اس کی یہاں موجودگی کسی مقصد سے خالی نہیں ہو سکتی تھی۔ آج کل وہ عمیر اور زوار کی ہر حرکت اور بات کو شک و شبہے کی عینک لگا کر دیکھا کرتی تھی، یوں تواس کے خلاف پورا گھر متحد تھا، لیکن چونکہ پورے گھر کو اس کے خلاف کرنے کے پیچھے ان دو کا ہاتھ تھا، لہذا ان کی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اس کے نوٹس میں آئے بغیر گزرنے نہ پاتی۔

سلطان گاڑی لے کر اندر آ گیا ۔ پورچ میں گاڑی کھڑی کرتے ہوئےاس نے ایک آخری کوشش کے طور پر بڑی لجاجت سے منمناتے ہوئے نبیلہ سے اس ماہ کی تنخواہ کے بقیہ حصّے کا مطالبہ کیا۔

’’……جب باقی سب کو پیسے ملیں گے تو تمہیں بھی مل جائیں گے……‘‘، وہ بیزاری سے کہتے ہوئے دروازہ کھول کر اتر گئی۔

پورچ سے لے کر برآمدے کی سیڑھیوں تک، کتنے ہی ٹوٹے ہوئے گملوں کے بکھرے ہوئے ٹکڑے اس کے قدموں کے نیچے آ کر چرچرا کر رہ گئے۔ ان ٹوٹے ہوئے گملوں سے نکلی مٹّی سارے راستے میں پھیلی ہوئی تھی۔ لان کے سرے پر پتھر کے فرش پر رکھے گملوں کی اس قطار میں گنتی کے چند ایک خوش قسمت پودے ہی تھے جو اب بھی سہمے سہمے سے سر اٹھائے کھڑے تھے، ورنہ بیشتر تو پرسوں شام کواس کے خلاف ہونے والے ’پر امن احتجاج ‘ کی نذر ہو گئے تھے۔ پورچ کی چھت کو سہارا دیے ستونوں سے لے کر برآمدے کو جاتی ان دو تین سیڑھیوں تک……یہ وہ جگہ تھی جہاں مظاہرین نےموٹے پلاسٹک کی کوئی چیز جلائی تھی جسکی بدبو اس قدرپھیلی تھی کہ گھر کے افراد کے لیے تو برداشت کرنا مشکل تھا ہی، ہمسایوں نے بھی متعدد بار اس سے شکایت کی کہ ان کے گھر کے معاملات سے اب وہ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ پگھلے ہوئے پلاسٹک کی باقیات اب بھی جگہ جگہ جمی نظر آ رہی تھیں۔ اس نے بطورِ خاص سلمیٰ اور لبنیٰ کو بلا کر یہ جگہ صاف کرنے کو کہا تھا، لیکن ان کے بہتیرا رگڑنے کے باوجود یہ جگہ جوں کی توں تھی۔ سب کی تنخواہوں میں تیس فیصد کٹوتی کے اثرات بہت واضح طور پہ نظر آ رہے تھے۔

سیڑھیوں پر پہلا قدم رکھتے ہی اس کی نظرخود بخود سیڑھی کے کونے کی طرف اٹھ گئی۔ پرسوں شام کےمظاہرے کی ایک یادگار یہ سیڑھی بھی تھی۔ کسی بھاری چیز کی ضرب لگنے سے کونے سے ماربل کا ایک اچھا خاصا بڑا ٹکڑا ٹوٹ گیا تھا اور ایک طویل دراڑ سیڑھی کو عرض میں کاٹتی ہوئی نیچے تک چلی گئی تھی۔ ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو اگلے منظر کے لیے تیار کیا۔ برآمدے میں داخل ہوتے ہی سامنے سرخ سپرے پینٹ سے جلی حروف میں لکھا تھا:’’گو نبیلہ گو!‘‘۔

دیوار پر جگہ جگہ پوسٹرز، احتجاجی رقعے، اور اس کے خلاف زہر اگلتے نعرے چسپاں تھے۔ ’جونکوں کی حکومت……ہم نہیں مانتے!‘ ، ’’ووٹ کو عزت دو……نبیلہ کو رخصت کرو!‘‘، ’’چوروں کی حکومت……نہیں چلے گی ! نہیں چلے گی!‘‘ ، ’’عوام کا استحصال……نا منظور ! نا منظور!‘‘……

برآمدے میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر پہلا دروازہ عثمان اور جاوید صاحب کے پور شن کا مرکزی دروازہ تھا۔ اس سے اگلا دروازہ ڈرائنگ روم کا تھا جو دونوں پورشنز کا مشترکہ تھا۔ اور اس سے اگلا دروازہ جس کے فوراً بعد برآمدہ الٹے ہاتھ پر مڑ جاتا تھا، عثمان و جاوید صاحب کے پورشن کے مرکزی کمرے(لِوِنگ روم) کا تھا۔ دروازے سے متصل دیوار میں بڑی سی کھڑکی تھی جس کےسبز شیشہ میں نبیلہ کے ہر اٹھتےقدم کے ساتھ اس کا عکس بڑا ہوتا جا رہا تھا۔ شیشے کے اس پارلاؤنج میں صوفے پر بیٹھی ہادیہ کی نگاہیں نبیلہ پر جمی ہوئی تھیں۔ اس کی نگاہوں میں بے چینی تھی، اضطراب تھا۔ وہ کسی کی طرف بھی توجہ دیے بغیر یک ٹک نبیلہ کو تکے جا رہی تھی۔

تھکے تھکے قدم اٹھاتی نبیلہ برآمدے کے اس کونے میں پہنچی ہی تھی جہاں سے برآمدہ ابوبکر صاحب والے حصّے کی جانب مڑ جاتا تھا، کہ وہ ٹھٹک کر رکنے پر مجبور ہو گئی۔ اسے رکتے دیکھ کر ہادیہ کے چہرے پر بے ساختہ اطمینان بھری مسکراہٹ ابھری اور وہ ایک فاتحانہ انداز میں چاروں طرف دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

’آپی ادھر آ رہی ہیں……‘، اس نے دوسرے صوفے پر بیٹھی نور اور جویریہ کو اطلاع دینا ضروری سمجھا۔ سیڑھیوں سے اترتا اویس بھی سن کر لمحہ بھر کو رک گیا تھا۔ آخرکار وقت نکل آیا محترمہ سربراہِ خانہ کے پاس……

’’نور……جویریہ! دیکھو ابو سو تو نہیں رہے……؟ آپی ان سے ملنے آ رہی ہیں…‘‘کہتے ہوئے ہادیہ نبیلہ کے استقبال کے لیے لاؤنج کے برآمدے کی جانب کھلنے والے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔

نبیلہ اپنی جگہ حیران و ششدر کھڑی تھی، ابتدائی صدمہ کچھ کم ہوا تو اس کی جگہ شدید ترین طیش اور غیض و غضب نے لے لی۔ وہ لال بھبوکا چہرہ لیے لپک کر اس کھڑکی کی طرف بڑھی جس کا مرحوم شیشہ اپنے چوکھٹے کے بجائے، ہزار وں کرچیوں کی صورت میں برآمدے کے فرش پر بکھرا ہوا تھا۔

’’کس کی حرکت ہے یہ……؟‘‘، وہ غصّے سے دھاڑ ی۔صبح گھر سے نکلنے سے پہلے یہ شیشہ اپنی جگہ بالکل صحیح سلامت تھا، یہ تازہ شرارت کس کی تھی، اگر اسے پتہ چل جاتا تو وہ مجرم کو ایسی سزا دیتی جو اس کی سات نسلیں یاد رکھتیں۔’’کس نے توڑا یہ شیشہ……؟؟! کس جاہل……ایڈیَٹ نے توڑا ہے یہ شیشہ……؟؟‘‘، وہ غصّے سے پاگل ہوتے ہوئے حلق کے بل چلّا رہی تھی۔

نبیلہ کے چیخنے چلّانے کی آوازیں سن کر اندر سے صولت بیگم گھبرائی ہوئی نکلیں۔’’کیا ہوا ہے نبیلہ؟……کیوں چیخ رہی ہو ایسے؟‘‘، دروازہ کھول کر باہر آتے ہوئے انہوں نے پریشانی سے پوچھا۔ ’’یہ……‘‘، نبیلہ نے ٹوٹے ہوئے شیشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بمشکل اپنی آواز ذرا دھیمی کی ،’’کس نے کیا ہے یہ……؟‘‘، وہ اپنی زبان و انداز مہذب رکھنے کی سر توڑ کوشش کر رہی تھی۔

’’……مجھے نہیں پتہ……میں نے چھناکے کی آواز سنی تھی لیکن جب میں باہر نکلی تو یہاں کوئی نہیں تھا، ……پتہ نہیں کیسے ٹوٹا یہ……‘‘۔

’’……کیسے نہیں پتہ آپ کو؟ کیسے مان لوں میں؟!‘‘، وہ ایک بار پھر ضبط کھوتے ہوئے غصّے سے چیخ اٹھی،’’……آپ اس گھر میں ہوتی ہیں یا نہیں……؟!‘‘۔

نبیلہ کے طنز پر صولت بیگم کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ وہ واپس اندر جانے کے لیے مڑتے ہوئے خشک اور بے نیاز لہجے میں بولیں،’’……یہ گھر میری نہیں……تمہاری ذمہ داری ہے!‘‘۔

’’……اور اسی ایک بات کا غصّہ ہے ناں آپ کو……!‘‘، نبیلہ تیزی سےان کا راستہ کاٹتے ہوئے سامنے آئی،’’……اسی بات کا دکھ ہے آپ کو کہ میں نے آپ کو آپ کی پوزیشن سے ہٹا دیا ہے، اسی چیز کا بدلہ لیتی چلی آئی ہیں آپ مجھ سے کیونکہ پہلے تو اس گھر کی مالکن آپ تھیں، جیسے آپ چاہتیں، سب ویسے ہی کرتے، جو آپ کہتیں، وہی ہوتا تھا اس گھر میں……‘‘۔

’’……نبیلہ!‘‘، صولت بیگم نے حیرت اور صدمہ سے اس کی جانب دیکھا۔ ان کا چہرہ اب پیلا پڑ چکا تھا، جیسے کسی نے سارا خون نچوڑ لیا ہو، وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھیں لیکن نبیلہ نے ہاتھ اٹھا کر انہیں خاموش کرا دیا،وہ کچھ سننا نہیں چاہتی تھی، اس وقت وہ صرف کہنا چاہتی تھی۔ اپنے اندر بھرتا سارا غصّہ، سارا لاوا نکال دینا چاہتی تھی۔

’’……لیکن جب سے اس گھر کے افراد نے آپ کے بجائے میرے اوپر اعتماد کا اظہار کیا، اپنے معاملات میرے سپرد کر دیے، تب سے آپ کو لگا جیسے میں نے آپ سے آپ کا عہدہ اور مرتبہ چھین لیا ہے!……وہ مرتبہ جس کوحاصل کرنے کے لیے آپ کے پاس سوائے سینیارٹی (seniority) کے اور کوئی جواز بھی نہیں!…… ‘‘۔

’’……نبیلہ! پاگل پن کی باتیں مت ……!‘‘،انہوں نے کہنا چاہا، لیکن نبیلہ نے ایک بار پھر انہیں غصّے سے ٹوک دیا۔’’……پاگل میں نہیں، آپ سب ہیں……! ملے ہوئے ہیں آپ سب……! کیا میں نہیں جانتی، میری پیٹھ پیچھے کیا کیا سازشیں آپ سب کرتے رہتے ہیں……مجھے نیچا دکھانے کے لیے……‘‘، اس کی آواز میں غصّے کے ساتھ ساتھ دکھ اور بے بسی بھی گھل گئی تھی۔ اس وقت اسے کچھ بھی کہنا یا سمجھانا بے سود تھا، تاسف سے اسے دیکھتے ہوئے صولت بیگم اندر کی جانب بڑھ گئیں۔ وہ جانتی تھیں کہ غصّے کی حالت میں جو اس کے منہ میں آ رہا ہے وہ کہتی چلی جا رہی ہے۔ مگر غصّے میں کہی ہوئی باتیں ، سچی ہوں یا جھوٹی، برحق ہوں یا جذباتی و مبالغہ آمیز……دل پر تو بہر حال اثر کرتی ہی ہیں۔ اور ان کے دل میں بھی نبیلہ کے غصّے میں کہے ہوئے فقرے کسی برچھی کی طرح جا کر لگے تھے، جو ان کے دل کو لہو لہان کر گئے تھے۔

’’……ڈرتی نہیں ہوں میں کسی سے……اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں سے کوئی نہیں ہرا سکتا مجھے…… دیکھ لوں گی میں ایک ایک کو……!!‘‘، غصّے سے پاؤں پٹختی، وہ اب بھی اونچا اونچا چیخ رہی تھی۔ لاؤنج میں باہر کو کھلنے والے دروازے کے پاس کھڑی ہادیہ نے اپنا ہاتھ ہینڈل سے ہٹا لیا، شرمندہ شرمندہ سی نظریں اٹھا کر پیچھے دیکھا تو نور اور جویریہ چہرے پر دکھ اور تاسف کے تاثرات لیے اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔

اویس سیڑھیوں سے نیچے اتر آیا ، لاؤنج سے باہر نکلتے ہوئے اس نے ایک طنز آمیز مسکراہٹ سے ان سب کی طرف دیکھا، ’’جیسی کرنی……ویسی بھرنی!‘‘، وہ جیسے بڑے پتے کی بات کہہ کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔

٭٭٭٭٭

عثمان صاحب نے بے چینی سے دروازے کی جانب دیکھا۔ ان کے کمرے کا دروازہ بدستور بند تھا۔ کمر میں تکلیف اتنی بڑھ گئی تھی کہ برداشت سے باہر ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بچوں کو آوازیں دینے پر مجبور تھے۔ وقتاً فوقتاً دروازے کے اس پار تیز قدموں پر کسی کے گزرنے کی آواز آ جاتی، یا کہیں دور سے آتی باتوں کی آوازیں بھی سماعتوں سے ٹکرا جاتیں۔ مگر خود ان کی نقاہت بھری آواز شاید بند دروازے سے ہی ٹکرا کر واپس آ جاتی تھی۔ ورنہ پچھلے اڑھائی تین گھنٹے میں وہ تھوڑے تھوڑے وقفے سے گھر کے سبھی افراد کا نام لے کر پکار چکے تھے۔

وہ کروٹ لینا چاہتے تھے، لیکن پلستر میں جکڑی ٹانگ کی وجہ سے خود کروٹ لینے پر قادر نہ تھے۔ پچھلی دو راتوں سے انہیں پھر بخار ہو گیا تھا، جو کبھی چڑھتا ، کبھی اترتا، لیکن انہیں بالکل نڈھال کر چکا تھا۔کمر کے آخری مہرے سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں، جو نیچے کولہوں اور پھر ٹانگوں تک چلی جاتیں۔ ایسے میں ان کی بے چین نظریں دروازے سے کھڑکی، اور پھر کھڑکی سے واپس دروازے تک گردش کر رہی تھیں۔’’……فائزہ!! فائزہ……!‘‘، ایک بار پھر انہوں نے اپنی پوری طاقت مجتمع کرتے ہوئے زور سے آواز دی، لیکن شاید باہر کوئی تھا ہی نہیں جو ان کی پکار کا جواب دیتا۔

٭٭٭٭٭

’’آپ سب باشعور افراد ہیں……ایک جمہوری گھرانے کے با شعور افراد……میں پوچھنا چاہوں گا کہ آخر ہم جو ایک مستحکم معاشی حیثیت کے حامل ہیں……محض ایک ڈاکہ کی واردات سے ہماری اقتصادی حالت اس قدر متاثر ہو گئی ہے کہ ہمارے منہ کے نوالے بھی اب گنے جا رہے ہیں……؟‘‘۔

کچن میں چولہے کے سامنے کھڑی بینش نے چائے بناتے ہوئے لاؤنج سے آتی زوار کی آواز کو بغور سنا۔

’’……ذرا اس گھر کا جائزہ لیجیے……پھر ایک نظر اپنے آپ پر ڈالیں……اور سوچیں، کہ آپ لوگ کیا تھے……اور کیا ہو گئے ہیں……‘‘، زوار نے سب کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے ایک سنجیدہ نظر حاضرین پرڈالی۔ اس کے سامنے صوفے پر صہیب، اویس اور زین بیٹھے تھے۔ صوفے کی سیٹ پر پاؤں اور اس کے بازو پر تشریف رکھے، حال ہی میں لگنے والی عینک کے گول شیشوں کے پیچھے سے جھانکتا،دونوں ہاتھوں کے پیالے میں اپنی سنجیدہ سی صورت ٹکائے،شہیر بیٹھا تھا اور اتنی توجہ سے زوار کی تقریر سن رہا تھا گویا وہی اس تقریر کا اصل مخاطب تھا۔

’’……معاشی طور پہ آسودہ……اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ پوزیشنز کے حامل……معاشرے، دوست احباب اور خاندان میں منفرد اور یکتا……آپ وہ لوگ تھے جن کے پاس لوگ اپنے مسائل لے کر آتے تھے حل کروانے، جن کی دوستی اور جن سے تعلق قائم کرنے پر لوگ فخر محسوس کرتے تھے……جو جس جگہ جاتے ، اپنا اور اپنے گھرانے کا نام روشن کرتے……!! اور آج ، کیا ہیں آپ لوگ؟……الجھے ہوئے، پریشان حال……کسی کے سکول میں مسئلہ ہے تو کوئی کالج اور یونیورسٹی میں اپنے گرتے ہوئے گریڈز کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہے……اور یہ سب کیوں ہے؟ کیونکہ جب پیٹ میں روٹی نہ ہو، تو دماغ کیا خاک کام کرے گا……؟!‘‘، زوارنے آگے کو جھکتے ہوئے ان کی آنکھوں میں جھانکا، تینوں لڑکوں کی آنکھوں میں سوچ کی پرچھائیاں صاف دیکھی جا سکتی تھیں۔

’’……سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک اچھے چلتے ہوئے کاروبار، کرایے پر اٹھائے ہوئے مکانوں اور دکانوں کے ہوتے ہوئے……ایسا شدید ترین بحران کیسے پیدا ہو گیا کہ ہر شخص کی جیب سے تیس فیصد رقم نکال کر انتظامیہ کی جیب میں ڈالی جا رہی ہے؟ اور یہ سب کس کے نام پہ؟……اس کی وجہ کیا بتلائی جاتی ہے؟‘‘، وہ لمحے بھر کو رکا،’’ آپ کے والد اور ہمارے چچا،…… ہمارے وہ بہادر اور دلیر چچا جنہوں نے ڈاکوؤں اور لٹیروں سے لڑتے ہوئے اپنی جان کی پروا نہ کی……ان کے علاج کے نام پر یہ کٹوتی کی جا رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بار بار یہ بات جتائی جاتی ہے کہ علاج اتنا مہنگا ہے کہ سربراہِ خانہ اور اس کی ٹیم غیر رسمی فنڈنگ کرنے پر مجبور ہے……گویا بالواسطہ طور پہ بار بار ہمارے چچا کو بوجھ ، مصیبت، پریشانی اور بحران کہا جاتا ہے‘‘۔

’’……میں حیران ہوں…!‘‘، اس نے بھنویں اچکا کرذرا سا سر کو دائیں بائیں جنبش دی، اور پھر لہجے میں شدت پیدا کر تے ہوئے زور سے بولا،’’……میں حیران ہوں کہ اپنی آنکھوں سے دیکھنے، کانوں سے سننے اور سب کچھ سمجھتے بوجھتے ہوئے آپ سب یہ برداشت کر رہے ہیں……اگر اتنے وسائل رکھنے والا گھرانہ، اپنے ہی ایک ممبر کے ذرا سے علاج کا متحمل نہیں ہو سکتا، تو یہ ہماری انتظامیہ کی انتہا درجے کی نا اہلی کو ثابت کرتا ہے۔ اس گھر کے سیاہ وسفید کے جو لوگ آج مالک بنے ہوئے ہیں، یہ چیز ان کی ناکامی کا مظہر ہے……‘‘۔

’’……لیکن شاید، آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی……کہ جس ’بحران‘ اور ’مشکل وقت‘ اور ’پریشانی‘ کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے، یہ درحقیقت کہیں بھی نہیں ہے……اگر اس گھر میں کسی چیز کی کمی ہے، اگر ہمارے سربراہان میں کسی چیز کی کمی ہے تو وہ خلوصِ نیت اور گھرانے سے وفاداری ہے……!! ورنہ وسائل بہت ہیں، ذرائع آمدن بہتیرے ہیں، اور پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے……مسئلہ در اصل یہ ہے کہ ہمارا یہ پیسہ ……ہمارا یہ پیسہ کرپٹ لوگوں کے ہاتھ میں ہے، جن کی نظر میں پہلی ترجیح ان کی اپنی ذات ہے……! ان کے اپنے مفادات ہیں……! ‘‘۔

اپنے کمرے کے دروازے کے ساتھ جڑ کے کھڑی ہادیہ بے قراری سے زوار کی تقریر سن رہی تھی۔ اس نے مضطرب اور پریشان نظروں سے جویریہ کی جانب دیکھا لیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھی۔ وہ سائڈ ٹیبل پر لیپ ٹاپ رکھے، کہنی کے نیچے تکیہ دبائے، لیپ ٹاپ کی سکرین کو گھور رہی تھی، جس پرکھلی گیم کا ہائی سکور مستقل کوشش کے باجود ،وہ توڑنے میں ہنوز ناکام تھی۔

’’سن رہی ہو کیا کہہ رہے ہیں وہ……؟! ……اٹھو ، چلو ہمیں اپنی حکومت کا دفاع کرنا چاہیے……‘‘۔

’’……تم کرو دفاع……جس حکومت کو ہماری پروا نہیں، مجھے بھی اس کی پروا نہیں……‘‘، جویریہ نے ٹکا سا جواب دیا، ہادیہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے نبیلہ سے بے نیازی اور غیریت برتنے کا شکوہ نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود اس کی وفاداری اب بھی نبیلہ کے ساتھ ہی تھی۔ وہ کسی دوسری پارٹی کے ممبر کے سامنے اپنی پارٹی کے اندرونی اختلافات کا تذکرہ یا اظہار بدترین خیانت اور غداری کے مترادف سمجھتی تھی۔

’’میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عثمان چچا کا علاج سرے سے گھریلو بجٹ پر اثر انداز ہو ہی نہیں رہا……ہو رہا ہے، کیوں نہیں ہو رہا……لیکن اس معاملے کوسیاسی رنگ دے کر ہماری سربراہ جتنا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں وہ سراسر ناجائز اور غلط ہے……‘‘، لاؤنج میں زوار کی زبان رواں دواں تھی،’’……بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں کچھ نہ کچھ، کسی درجے میں چچا جان محترم کا بھی قصور ہے ……شاید اگر وہ قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کرتے ، بلکہ ملکی قوانین کے مطابق موقع ملتے ہی پولیس کی امداد حاصل کرنے کی کوشش کرتے، تو ایسی صورتحال پیدا ہی نہ ہوتی جس سے ہماری سربراہ کو ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا……‘‘۔

کچن میں بینش نے چائے کاتیار کپ زور سے ٹرے میں پٹخا تھا۔ تھوڑی سی چائے چھلک کے پرچ میں جا گری، وہ غصّے سےکچھ بڑبڑائی اور ٹرے اٹھا کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔ بالائی منزل پر جاوید لاؤنج میں بیٹھا اسی کا منتظر تھا۔ اس نے کپ لے جا کر ایک بار پھر پٹخنے والے انداز میں میز پر رکھا۔ مزید چائے چھلک کر پرچ میں جا گری۔ جاوید نے ایک نظر چائے کی پیالی پر اور دوسری بیوی کے پھولے ہوئے چہرے پر ڈالی، جو اب اس کے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔ پھر احتیاط سے چائے کی پیالی اٹھائی اور پرچ کے کنارے پہ رکھتے ہوئے پیندے پر لگے چائے کے قطرے ٹپکنے دیے۔ دور و نزدیک کہیں کوئی ٹشو کا ڈبہ بھی نظر نہ آ رہا تھا، اور بینش سے کہہ کر وہ پچھتانا نہیں چاہتا تھا، ابھی اتنا وقت تو نہیں ہوا تھا ان کی صلح ہوئے۔

’’……مجھے واپسی پر شاید دیر ہو جائے……بھائی جان کَریم پر ائیر پورٹ چلے جائیں گے۔ میں یہاں سے سیدھا جوہر ٹاؤن ……اور پھر مغرب کے بعد وہاں سے مِنی مارکیٹ چلا جاؤں گا……بہت دنوں سے مِنی مارکیٹ والی برانچ میں نہیں گیا……‘‘، اس موضوع کو غیر متنازع اور محفوظ میدان سمجھتے ہوئے جاوید نےمحتاط انداز میں کہنا شروع کیا۔

’’……ہاں بس!ہم دونوں میاں بیوی ملے ہوئے ہیں اس پورے گھرانے کو……آپ، کولہو کے بیل اور …میں، کاٹھ کا الّو……!‘‘، بینش یکدم پھٹ پڑی۔ جاوید کے لیے گھونٹ نگلنا مشکل ہو گیا، گلے میں جیسے پھندا لگ گیا تھا۔وہ بے اختیار کپ رکھ کر کھانسنے لگا……بھلا بیل اور الّو کا بھی کوئی جوڑ ہے؟

’’……عین ان دنوں میں جب مشکلات عروج پر ہیں، ابوبکر بھائی کا کراچی میں کام نکل آیا ہے، اب وہاں سے واپسی بہت جلد بھی ہوئی تو دو ہفتے بعد ہی ہو گی……عثمان بھائی علیحدہ بستر پر پڑے ہیں……فائزہ باجی کو بھی ان کی وجہ سے اچھا بہانہ ملا ہوا ہے، شوہر کی بیماری کی وجہ سے باقی ہر ذمہ داری سے چھٹی مل گئی ہے…… بھلا کوئی پو چھے عثمان بھائی سے……انہیں کس نے کہا تھا سپر مین بننے کو؟!……ان کی وجہ سے چوروں کو بھاگنے کا موقع مل گیا، ورنہ اگر وہ خواہ مخواہ کے پنگے نہ لیتے تو ہم چوروں کے گھر سے نکلتے ہی پولیس کو انفارم کرتے اور چوروں کو پکڑنے کی کوشش کرتے……میرا اتنی قیمتی زیور……سب ان کی وجہ سے لُٹ گیا……‘‘، دکھ کے احساس سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔ جاوید ایک گہری سانس لے کر رہ گئے، ابھی یہ شکوہ انہیں مزید کئی بار سننا تھا، وہ جانتے تھے۔

’’……مگر آپ کو کیا فرق پڑتا ہے……آپ کی بلا سے زیور جائے یا میں……آپ تو اپنے بھائیوں کو ہی اچھا کہیں گے! اس میں میری امّی کا دیا ہوا وہ سچے موتیوں کا سیٹ بھی تھا جو مجھے اتنا پسند تھا…… اور وہ ائیر رِنگز جو آپ عمرہ سے لائے تھے……اور وہ سرخ پتھروں والا بریسلیٹ میری باجی نے خاص طور پہ شہیر کی پیدائش پر میرے لیے بنوایا تھا……اور……‘‘، وہ اب گن گن کر اس زیور کو یاد کر رہی تھی، جو جب سے اس سے چھِن گیا تھا، تب سے ایسا لگتا تھا کہ گویا زندگی کی سب سے قیمتی متاع وہی تھا۔ جاوید نے ایک بار پھر چائے کی پیالی لبوں سے لگا لی۔ کاموں کا انبار اس قدر زیادہ تھا کہ وہ کم سوچنے، زیادہ چائے پینے اور چائے پی کر واپس کاموں کی انجام دہی میں مشغول ہو جانے کو ترجیح دیتا تھا۔

’’……میں اس قدر تنگ آ گئی ہوں اس گھر سے اور اس کے کبھی ختم نہ ہونے والے مسائل سے……کہ میرا جی چاہتا ہے یہاں سے کہیں دور چلی جاؤں!!‘‘، جاوید نے ایک تکان بھری نظر بینش پر ڈالی، مگر کوئی تبصرہ کرنے سے احتراز کیا۔ وہ آج کل ہفتے کے تقریباً تین دن اپنے میکے میں گزار تی تھی، مگر گھر واپسی پر بمشکل ایک دن ہی اطمینان سے نکال پاتی، اور اس کے بعد پھر سے اگلے چکر کی باتیں شروع ہو جاتیں۔ انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا، ان کے پاس کسی بحث مباحثے کا وقت تھا نہ فرصت……

’’……جی چاہتا ہے، میرا اپنا گھر ہو……چاہے چھوٹا سا ہو ، مگر پورا میرا اپنا ہو!……اپنے حساب سے سیٹ کروں……جیسے چاہوں رہوں ، جیسے چاہوں رکھوں……‘‘، وہ خلا میں گھورتے ہوئے دھیمی آواز میں بولی، جیسے خود کلامی کر رہی ہو،لہجے میں حسرت ہی حسرت تھی۔اب کی دفعہ جاوید صاحب نے چونک کر اس کی طرف دیکھا……تو یہاں آ کر ٹوٹی تھی تان……

٭٭٭٭٭

دن کے بارہ بج رہے تھے۔ اپنے کمرے سے نکلتے ہوئے زوار نے جیب تھپتھپا کر والٹ کی موجودگی کا اطمینان کیا اور ایک انگلی میں چابی گھماتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔ وہ جینز اور شرٹ میں معمول کے حلیے میں تھا۔ لیکن کلائی میں مہنگی گھڑی، فراخدلی سے خود پر چھڑکا باڈی سپرے، جیل سے احتیاط سے سیٹ کیے بال اور آنکھوں پر لگا برانڈڈ دھوپ کا چشمہ……کسی خاص تیاری کا بھی پتہ دے رہے تھے۔

پورچ میں پہنچ کر وہ سیدھا اپنی بائیک کی طرف بڑھا۔ حسبِ معمول وہ چمک رہی تھی۔ ملازمین سے اچھے تعلقات رکھنا صرف ایک اعتبار سے مفید نہیں تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے اگنیشن میں چابی ڈالی۔

’’……کہاں جا رہے ہو ہیرو؟‘‘، اس آواز پر وہ چونکا، پھر تیزی سے پلٹا۔ چند قدموں کے فاصلے پر، پیچھے کھڑی گاڑی کے بونَٹ سے ٹیک لگائے وہ لاپروائی سے کھڑا سیگرٹ پھونک رہا تھا۔ وہ نجانے کہاں سے نکل آیا تھا، زوار کو اس کے آنے کا قطعی علم نہ ہو پایا تھا۔

’’……ایک منٹ……ایک منٹ……!‘‘، زوار نے ہاتھ اٹھا کر اسے کچھ بھی کہنے سے روکا، اور پھر دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت سے بائیں ہاتھ کی انگلیوں پر شمار کر تے ہوئے بولا ،’’۱۸ وَن آن وَن ٹاکس(one on one talks)……۱۰ گروپ ڈسکشنز……اعتماد بڑھانے کے لیے ۴ خفیہ تحفے……۲ احتجاجی جلوس…… ۶ ……‘‘، وہ ذرا سا رکا، پھر جتاتی نظروں سے عمیر کو دیکھتے ہوئے ہلکی آواز میں بولا،’۶……خصوصی کارروائیاں…… !پچھلے تین ہفتوں میں ، میں نے ہفتے کے آٹھ دن کام کیا ہے۔ سٹِکرز،بیجِز اور پوسٹر زمیں نے چھپوا لیے ہیں……نذیر، سلطان ، وزیر خان اور امانت……سب کے ساتھ سیٹنگ کر لی ہے……اور اب…… ‘‘، وہ ایک بار پھر رکا،عمیر چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے اسے سن رہا تھا۔ زوار اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے بولا،’’اور اب……میں کچھ ذاتی کمٹمنٹس نبھانے کے لیے جا رہا ہوں……!‘‘۔

’’……میں نے تم سے رپورٹ نہیں مانگی……صرف یہ پوچھنے کے لیے روکا تھا کہ ذاتی کمٹمنٹ پہ خالی ہاتھ جاؤ گے کیا؟‘‘، عمیر نے سیگرٹ ختم کرتے ہوئے پرے اچھالا، اور جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک ننھی سی سفید شیشے کی ڈبیا نکالی۔اس نے ڈبیا زوار کی طرف اچھالی جسے زوار نے ایک ہاتھ سے کیچ کر لیا، شیشے کی ڈبیا میں چھوٹے چھوٹے نیلم کے پتھروں سے مزیّن ٹاپس جگمگا رہے تھے۔ جانے کے لیے مڑنے سے پہلے عمیر نے یونہی پوچھ لیا، ’’گاڑی پر کیوں نہیں جا رہے؟‘‘۔

’’……بس ……کسی کی نظروں میں نہیں آنا چاہتا‘‘، زوار نے آنکھوں میں بے تحاشا حیرت ، تشکر اور خوشی کے ملے جلے جذبات لیے اس کی طرف دیکھا،’’……چاچو! اس کے لیے ……‘‘ ۔

’’اب شکریہ کہہ کر موڈ مت خراب کرنا! اور جلدی جاؤ ورنہ مِس کر دو گے…… ‘‘، عمیر نے اکتائے ہوئے لہجے میں بے نیازی سے کہا اورواپسی کے لیے مڑ گیا۔

٭٭٭٭٭

ابوبکر صاحب کو کراچی گئے چار دن ہو گئے تھے۔ اور ان چار دنوں میں روزانہ گھر میں کوئی نیا مسئلہ سر اٹھاتا تھا۔پہلے ہی دن نجانے کس بات پر خفا ہو کر بینش کمرہ بند کر کے بیٹھ گئی۔ وہ سب سے ناراض تھی اور بول چال بھی بند کر رکھی تھی۔ نبیلہ، نسرین، صولت بیگم اور فائزہ بیگم، سبھی اسے راضی کرنے ، بلکہ اس کا مسئلہ جاننے کی کوشش کر چکی تھیں، مگر وہ کسی سے بھی بات کرنے پر تیار نہیں تھی۔ صرف ایک ہی بات کہتی کہ وہ گھر اور گھر والوں، سب سے شدید تنگ آ چکی ہے، لہٰذا کوئی اسے مزید تنگ نہ کرے، بلکہ اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ وہ اگر کمرے سے نکلتی تو صرف رات کو، جب جاوید کی واپسی پر اس کے لیے کھانا گرم کرنا اور چائے بنانا پڑتی۔ ورنہ اپنا اور بچوں کا کھانا بھی وہ کمرے میں ہی لے جاتی، اور شہیر اور بتول کو بھی زیادہ باہر نہ نکلنے دیتی۔ اس کی ناراضگی سے سب سے زیادہ فائزہ بیگم متاثر ہو رہی تھیں۔

وہ شوہر کے ساتھ ساتھ بچوں کا کھانا پینا ، گھر کی صفائی اور مینٹیننس، اور افرادِ خانہ کی دیگر ضروریات پوری کرنے کی حتی المقدور کوشش کر رہی تھیں۔ گو کہ مدد کے لیے سلمیٰ اور لبنیٰ گھر میں موجود تھیں، مگر ان سے کام لینا بذاتِ خود ایک چیلنج بن گیا تھا۔ لبنیٰ نے تواگلے ہی دن صاف کہہ دیا کہ اس کا باپ کہتا ہے کہ وہ آدھی تنخواہ کے ساتھ دوگنا کام نہیں کرے گی۔ پیچھے جویریہ، ہادیہ اور نور رہ جاتیں، فائزہ بیگم کی امداد کے لیے ، اور انہی کے سہارے جیسے تیسے وہ اپنے پورشن کا نظم و نسق چلا رہی تھیں۔ صولت بیگم اور نسرین عثمان صاحب کی دیکھ بھال اور گھر کے کاموں میں ان کی مددکرنے کی کوشش کرتیں،مگر ان کے اپنے پورشن میں ڈھیروں کام ان کے منتظر ہوتے۔ پھر نسرین نے تو اپنا تقریباً تمام وقت ہی عبداللہ اور ابّا جی کے لیے وقف کر رکھا تھا، اور ابّا جی کی کمزور صحت اس کی مکمل توجہ کی متقاضی بھی تھی۔

دوسرے دن کی بڑی سرخی کا سبب پرویز مالی بنا۔ اس نے پورے لان میں جھاڑو پھیر کر سوکھے پتّوں اور جھاڑ جھنکار پر مشتمل کچرا ایک کونے میں جمع کر دیا اور پھر نجانے اسے کیا ہوا کہ ہمیشہ کی طرح کچرا سمیٹ کر باہر پھینکنے کے بجائے اس نے وہیں لان کے کونے میں آگ لگا دی۔ اتمامِ حجت کو اس نے کچرے پر تھوڑ اسا مٹی کا تیل بھی چھڑک دیا تاکہ اچھی طرح سب جل جائے۔ لیکن پھر جو کالا کالا دھواں اٹھا اور سارے میں پھیلا تو ان کے پہلے ہی ناراض ہمسایوں کی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔ ٹاؤن انتظامیہ کے اہلکار شکایت لے کر نبیلہ کے پاس آئے۔ ان کے مطابق مختلف وجوہات کی بنیاد پر ان کے گھرانے کو پہلے بھی تین بار وارننگ جاری کی جا چکی تھی۔ گو کہ نبیلہ نے معافی بھی مانگی اور آئندہ شکایت کا موقع نہ دینے کا وعدہ بھی کیا، لیکن انتظامیہ نے ایک بھاری بھرکم چالان اسے کاٹ کر دیا اور آئندہ کالونی کے قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں ان کے خلاف سخت اقدامات کرنے کی دھمکی بھی دی۔

تیسرے دن کی سہ پہر بغیر کسی مشکل یا پریشانی کے گزر گئی تو نبیلہ نے سکھ کا سانس لیا۔ ابّا جی کی طبیعت قدرے سست سی تھی اور نسرین پچھلے چند دنوں سے اسے بار بار ابّا جی کو چیک اَپ کے لیے لے جانے کی یاد دہانی کروا رہی تھی، مگر اتنے بکھیڑوں میں یہ کام بار بار نبیلہ کے ذہن سے نکل جاتا۔ آج صبح سے ان کی طبیعت معمول سے زیادہ مضمحل لگ رہی تھی۔ ان کے اصرار پہ نسرین ان کو وہیل چئیر پہ بٹھا کر عثمان صاحب کے پاس بھی لے گئی، مگر وہاں بھی وہ بمشکل آدھ گھنٹہ ہی بیٹھ پائے۔ پھر طبیعت میں بے چینی اور گھبراہٹ محسوس کرتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں آ گئے اور مسکن دواؤں کے زیرِ اثر سو گئے۔ مگر نسرین کو مسلسل ان کی جانب سے تشویش لاحق تھی، اور نبیلہ کی لاپرواہی پر سخت غصّہ بھی آ رہا تھا۔ اگر کل بھی نبیلہ نے ابّا جی کے چیک اَپ کے معاملے میں سنجیدہ و ذمہ دار رویے کا مظاہرہ نہ کیا تو اسے خود ہی کچھ کرنا ہو گا، وہ طے کر چکی تھی۔

رات کے نو بج رہے تھے، اور وہ سب کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اب اپنے اپنے کمروں میں اپنے معمولات میں مصروف تھے کہ نبیلہ کی کھڑکی کو کسی نے اضطراری انداز میں بجایا۔

’’……نبیلہ باجی!! نبیلہ باجی!! دروازہ کھولیں……‘‘، ساتھ ہی سلمیٰ کی آواز آئی، جو اونچی آواز میں پریشانی و بوکھلاہٹ کے عالم میں انہیں آوازیں دے رہی تھی،’’……نبیلہ باجی!!……آپا!!……‘‘۔ نبیلہ جو سونے کے ارادے سے ابھی بستر پہ لیٹی ہی تھی، جلدی سے اٹھ بیٹھی۔ فاطمہ بھی اپنا ٹیبلِٹ چھوڑ کر حیرت سے کھڑکی کی جانب دیکھ رہی تھی، پھر جلدی سے اٹھی اور پردہ ہٹا کر باہر جھانکا، گھپ اندھیرے میں کچھ بھی نظر نہ آ رہا تھا۔

’’فاطمہ باجی!!……دروازہ کھولیں جی……‘‘، سلمیٰ نے ایک بار پھر ان کی کھڑکی پر ہاتھ مارتے ہوئے پریشانی سے کہا، اس کی آواز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی رو دے گی۔

’’کک……کیا بات ہے سلمیٰ؟……‘‘، فاطمہ نے سلائیڈنگ وِنڈو کو دھکیل کر کھولتے ہوئے حیرت اور پریشانی کے عالم میں پوچھا،’’کیا ہوا ہے؟……‘‘۔ باہر سلمیٰ وسیم کو گود میں لیے عجیب پریشان صورت لیے کھڑی تھی، سر سے دوپٹہ بھی غائب تھا۔اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی، نبیلہ بھی کھڑکی تک پہنچ گئی ،’’……تم کچن کی طرف آؤ میں دروازہ کھولتی ہوں، اندر آ کر بتاؤ کیا ہوا ہے‘‘۔ نبیلہ اس کو ہدایت دیتی، پیروں میں چپلیں اڑستی ،کچن کی سمت بھاگی۔

چند لمحے بعد سلمیٰ لاونج میں صوفے پر بیٹھی، دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے زار و قطار رو رہی تھی۔ وسیم نیچے قالین پر اس کی ٹانگوں کے درمیان خوفزدہ اور سہما ہوا سا بیٹھا تھا۔ چھوٹی چھوٹی مٹھیوں میں ماں کی قمیص کا دامن مضبوطی سے پکڑےوہ حیران پریشان ماں کو روتا سسکتا دیکھ رہا تھا۔ نبیلہ سلمیٰ کے قریب کھڑی اسے دلاسہ دینے کی کوشش کر رہی تھی، ساتھ ساتھ پریشانی سے بار بار اس سے پوچھتی کہ آخر اسے ہوا کیا ہے؟ فاطمہ خاموشی سے مخالف صوفے پر بیٹھی یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں صولت بیگم کے کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ اپنا مصحف ہاتھ میں اٹھائے، آنکھوں پہ چشمہ لگائے نمودار ہوئیں۔ شاید شور سن کر باہر آئی تھیں۔ لاؤنج کا منظر دیکھ کر انہوں نے استفہامی انداز میں فاطمہ کی جانب دیکھا، جس نے ذرا سے شانے اچکا کر اپنی لا علمی کا اظہار کیا۔

’’کیا بات ہے سلمیٰ؟ کیوں روتی چلی جا رہی ہو……؟‘‘، انہوں نے مصحف احتیاط سے لاؤنج کے وسط میں رکھی میز پر رکھا اور سلمیٰ کے قریب بیٹھتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔ سلمیٰ کے رونے میں مزید تیزی آ گئی۔ ’’میں بڑی بد نصیب ہوں جی……بڑی کالی قسمت ہے میری……‘‘، سسکیوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے وقفوں میں وہ بمشکل بولی۔

’’اچھا چل……اب چپ کر جا!……فضول باتیں مت کر……‘‘صولت بیگم نےسلمیٰ کو گھرکتے ہوئے فاطمہ کا لایا ہوا پانی کا گلاس زبردستی اسے تھمایا،’’لو پانی پیو……اور بس کر اب یہ رونا دھونا……بتا بات کیا ہوئی ہے؟‘‘۔

سلمیٰ نے سسکیوں اور ہچکیوں کے درمیان، ہولے ہولے لرزتے ہاتھوں سے گلاس پکڑ لیا تھا۔ اس نے چہرہ اٹھایا تو پہلی بار لاؤنج میں جلتی تیز روشنیاں اس کے چہرے پر پڑیں، اور اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی وہ تینوں دھک سے رہ گئی تھیں۔ ایک آنکھ قدرے سوجی ہوئی سی لگ رہی تھی، اور اس کے نیچے جلد بے حد سرخ تھی۔ ٹھوڑی پر کسی زخم کا نشان تھا، زیادہ گہرا تو نہیں لگتا تھا مگر اتنا ضرور تھا کہ خون نکل کر اس پر جم چکا تھا۔ پورا چہرہ یوں سوجا ہوا لگ رہا تھا جیسے کسی نے بے دردی سے اسے پیٹا ہو، جا بجا مار پیٹ کے نشانات بھی نظر آ رہے تھے۔ گردن پر پڑی خراشیں، دوپٹہ ندارد، ایک آستین پھٹی ہوئی، اور پیر سے چپلیں بھی غائب تھیں۔ شاید وہ یہاں تک آتے ہوئے گری بھی تھی، کیونکہ اس کے ہاتھ بھی خاک آلود تھے۔

’’……کس نے کیا ہے یہ سلمیٰ؟‘‘، صولت بیگم نے حیرت اور صدمے سے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا۔

’’نن…نذ……نذیر نے ……‘‘، سلمیٰ ایک بار پھر سسکیوں سے رونے لگی۔

’’……مگر کیوں……؟‘‘، نبیلہ کے لہجے میں بے یقینی تھی۔

’’وسیم بیمار ہے جی……میں نے کہا اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ، وہ کہنے لگا جی کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں، ڈاکٹر کے پاس کیسے لے جاؤں؟ میں نے کہا کہ میرا بچہ کب سے تکلیف سے تڑ پ رہا ہے……بس پھر وہ غصّے ہو گیا……‘‘، اتنا بتا کر ایک بار پھر سلمیٰ ہچکیوں اور سسکیوں میں بہہ گئی۔ نبیلہ بے چینی سے اس کے خاموش ہونے اور بات مکمل کرنے کا انتظار کر رہی تھی۔ ’’پھر؟……پھر کیا ہوا؟‘‘۔

’’پھر جی……بس کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ وسیم کا میں خود گلا گھونٹ دوں گا، کم بخت ہر دوسرے دن بیمار پڑ جاتا ہے۔ اس نے وسیم کو پکڑ لیا اور اس کا گلا دبانا شروع کر دیا، میں جلدی سے بچانے کے لیے آئی تو اسے چھوڑ کر مجھے مارنا شروع ہو گیا……‘‘سلمیٰ نے آنسو صاف کرتے ہوئے ، زمین پر بیٹھے وسیم کو گود میں اٹھا لیا اور اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔صولت بیگم نے دکھ اور تاسف کے جذبات میں گھِر کر ایک شفقت بھرا ہاتھ وسیم کے سر پر رکھ دیا۔

’’……وہ کہتا ہے جی، میرے پاس پیسے نہیں ہیں، تنخواہ پوری نہیں ملی…… اس نے اپنی موٹر سائیکل کی قسط بھی ادا کرنی ہے۔ اس کی آخری تاریخ آنے والی ہے، اتنے دنوں سے مجھے کہہ رہا ہے کہ اپنا زیور اتار کے دے، میں بیچ کر قسط ادا کروں گا۔ میں نے نہیں دیا نبیلہ باجی! میری مری ہوئی ماں کی نشانی تھی میرا زیور……مگر آج وہ مار پیٹ کر زبردستی لے گیا ہے، ‘‘، سلمیٰ کے لہجے میں زمانوں کا دکھ بول رہا تھا۔

’’آپائی……آپائی کدھر ہیں؟‘‘، صولت بیگم کو اچانک خیال آیا۔

’’وہ دوا کھا کے سوئی تھیں آپا……انہیں تو کچھ بھی پتہ نہیں چلا……‘‘۔

٭٭٭٭٭

اگلا دن نبیلہ کے لیے مزید مشکلات لے کر آیا۔رات سلمیٰ کو صولت بیگم نے تسلّی و دلاسہ دے کر واپس بھیج دیا تھا۔ نذیر گھر میں نہیں تھا اور سلمیٰ کا خیال تھا کہ وہ رات کو گھر آئے گا بھی نہیں۔ لہٰذا وہ خود بھی واپس اپنے کوارٹر میں جانا چاہتی تھی ۔ وہ وسیم کو لے کر چلی گئی تو صولت بیگم بہت دیر نرمی و رسان سے اسے معاملات سمجھاتی رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چند ہزار کی کمی زیادتی سے امیر اور کھاتے پیتے لوگوں کو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا، مگر غریب کو بہت زیادہ فرق پڑتا ہے۔ غریب کی تو ایک ایک روپے سے ضروریات و خواہشات جڑی ہوتی ہیں۔ اس نے ایک ایک پیسے کے لیے محنت کی ہوتی ہے، اپنا خون پسینہ ایک کیا ہوتا ہے، اور پھر اس مہنگائی کے زمانے میں اپنا اور اپنوں کا پیٹ بھرنے اور بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے پائی پائی جوڑی ہوتی ہے۔جیسے تنکا تنکا جوڑ کے چڑیا آشیانہ بناتی ہے۔ پھر اگر ذرا سی بھی اونچ نیچ ہو جائے تو امیروں کو توفرق نہیں پڑتا، لیکن غریب کی جھونپڑی زلزلوں کی زد میں آ جاتی ہے۔ اس کے لیے بنیادی ضروریات پوری کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

نبیلہ یہ سب جانتی تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ وہ سب سمجھتی ہے۔ بھلا کوئی آج تو پیدا نہیں ہوئی تھی وہ……مگر جو بات صولت بیگم نہیں سمجھتی تھیں وہ یہ تھی کہ نذیر اپنی پریشانی لے کر اس کے پاس آ سکتا تھا، اس سے قرض مانگ سکتا تھا۔ وہ اس کا مسئلہ حل کر دیتی۔ ایسے بھی کوئی ان کے کوارٹر میں فاقے نہیں پڑے ہوئے تھے، وہ جانتی تھی۔ لیکن نذیر نے یہ سب نہیں کیا۔ بلکہ اس نے اپنے گھر میں ایسا تماشہ لگایا جس کے اثرات وہ جانتا تھا کہ اس کے مالکان تک ضرور پہنچیں گے۔

یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں تھا جتنا بظاہر نظر آتا تھا۔میاں بیوی کا آپسی جھگڑا جو مار پیٹ اور تشدد تک پہنچ گیا۔ وہ مان ہی نہیں سکتی تھی کہ اس سارے تماشے کے پیچھے اس پر پریشر ڈالنے کی بھونڈی خواہش کار فرما نہیں تھی۔

اگلے روز صبح ہاشمی ہاؤس میں سست روی سے اتری۔ ہفتے کا دن تھا، ایک جاوید صاحب کے علاوہ باقی سب آج گھر پہ تھے۔رات کی سوچوں سے کھولتا دماغ لے کر نبیلہ کچن میں پہنچی تو خلافِ معمول کچن سنسان پڑا تھا۔ شاید سب لوگ ناشتہ کر کے فارغ ہو چکے تھے……حتیٰ کہ آپائی بھی موجود نہیں تھیں، حالانکہ وہ روزانہ دیر تک ناشتہ کے بعد کچن میں چیزیں سمیٹنے، صفائی کرنے اور دوپہر کے کھانے کی تیاری کے چھوٹے موٹے کاموں میں مصروف رہتی تھیں۔ نبیلہ نے بے زاری سے فریج کھولا، سب سے اوپر والے خانے میں دودھ ، دہی، مکھن، بالائی……سب چیزیں سلیقے سے رکھی تھیں۔ اس سے نیچے گوندھے ہوئے آٹے کا برتن، اور چند پرانے سالن اور چٹنیاں چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں ڈھک کر رکھی ہوئی تھیں۔ فریج کے دروازے میں بنی شیلف میں انڈے، ڈبل روٹی کا ایک تھیلا اور جوس اور پانی کی بوتلیں رکھی تھیں۔ مگر وہ کیا کھائے……؟ تنوّع زیادہ ہو تو بھی فیصلہ مشکل ہو جاتا ہے کہ کیا کھایا جائے اور کیا چھوڑا جائے۔

یکایک ہی اس کے دل میں خوب اچھا سا ناشتہ کرنے کی خواہش نے سر اٹھایا۔ ذہن کے پردے پر ایک یاد ابھری، کرن کے ہاتھ کا بنا چکن چیز سینڈوچ اور ساتھ میں چائے یا کافی کا بھاپ اڑاتا مَگ……وہ ایک ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئی

وہ بھی کیا دن تھے، جب ہم جِن تھے
اب ہم دیو ہیں، جنّوں کے بھی پیو ہیں

اپنی سوچ پر محظوظ ہوتے ہوئے وہ خود ہی مسکرا دی۔اسے نذیر کو بلا کر صحیح سے اس کی طبیعت صاف کرنے کی ضرورت تھی۔ وہ عمیر کا لاڈلا تھا اور ضرورت سے زیادہ ہی سر چڑھتا جا رہا تھا۔ وہ کافی عرصے سے محسوس کر رہی تھی کہ نذیر اس کو کچھ خاص خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ مگر یہ عمیر کی نہیں ،نبیلہ کی حکومت تھی، اور نذیر سمیت سب کو یہ بات تسلیم کرنا ہو گی۔وہ مزید کسی کو بھی اپنی نرمی سے ناجائز فائد ہ اٹھانے کی اجازت نہیں دے گی ۔وہ دل ہی دل میں اپنا منصوبہ طے کر رہی تھی…… سب سے پہلے نذیر کی پیشی ہو گی، پھر اویس سے ملاقات ضروری تھی۔وہ گھر کے لڑکوں میں سب سے تیز اور ہوشیار تھا، اور باقی سب کے آگے آگے ہوتا تھا۔ اسے لڑکوں میں چند حلیف بھی چاہیے تھے، محض لڑکیوں کی حمایت ان کی پارٹی کو بہت جانبدار بنا دیتی تھی۔

مگر اس سب سے پہلے……ناشتہ!……جی چاہا کہ اپنے لیے خوب اہتمام سے ناشتہ تیار کرے، ویسا ہی جیسا کرن اس کے لیے تیار کرتی تھی۔ مگر پھر سینڈوِچ کے لوازمات پر غور کیا تو تیار کرنے والی اشیاء کی فہرست ذرا طویل سی لگی۔ چھوڑو! خالی چیز سینڈوِچ بنا لیتی ہوں۔ وہ سر جھٹک کر فریج سے دو ڈبل روٹی کے سلائسز اور پنیر کا ایک سلائس لے کر چولہے کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ ایک ساس پین میں چائے کا پانی ڈال کر چولہے پر رکھا۔ دوسرے چولہے پر توا پہلے سے دھرا تھا، اس کے نیچے آگ جلائی اور ڈبل روٹی کے سلائس سینکنے لگی۔ وہ تیار ہو گئے تو اچانک خیال آیا، پتہ نہیں کرن پنیر بھی سینکا کرتی تھی یا نہیں……؟ سینکتی ہی ہو گی، کھانے پکانے وغیرہ میں تو ویسے بھی جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا ہوتا ہے۔ یہ سوچ کر اس نے پنیر کا لفافہ چاک کیا اور آنچ ہلکی کرتے ہوئےسلائس توے پر رکھ دیا۔ چائے کَھول چکی تھی، وہ فریج سے دودھ نکال کر لائی اور ساس پین میں انڈیلا، ساتھ ہی کہیں سے بو آتی محسوس ہوئی تو سر اٹھا کر دیکھا۔ توے پر رکھا پنیر کا سلائس ……اب سلائس نہیں رہا تھا، بلکہ پگھل کر آملیٹ کی شکل اختیار کر گیا تھا۔

بوکھلا کر اس نے جلدی سے چمٹے کی مدد سے اسے پلٹنا چاہا، مگر پنیر پلٹنے کو تیار نہ تھا، کچھ چمٹے کے ساتھ اور باقی توے کے ساتھ چپک گیا ۔ جلنے کی بو اب پورے کچن میں پھیل رہی تھی۔ اور کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے ڈبل روٹی کے ٹکڑے توے پر پھیلے پنیر پر رکھ دیے ، اس امید پر کہ پنیر اسی کے ساتھ چپک جائے گا……لیکن ابھی یہ مسئلہ حل نہ ہوا تھا کہ سسس……کی آواز کے ساتھ ساس پین سے چائے ابل ابل کے گرنے لگی۔

’’……نبیلہ! تم یہاں کھڑی ہو……کیا کر رہی ہو؟‘‘، باہر سے گزرتی نسرین آپا اسے دیکھ کر کچن میں چلی آئیں۔ ’’کیا ہوا؟……اتنا دھواں کیوں پھیل رہا ہے؟‘‘، پھر ایک ہی نظر میں معاملہ سمجھتے ہوئے وہ تیزی سے چولہے کی طرف آئیں اور دونوں چولہے بجھا دیے۔ ’’اگر کوئی مسئلہ ہو جائے تو سب سے پہلے چولہا بند کرتے ہیں……تاکہ مسئلہ بڑھنے نہ پائے……‘‘، اس کے جلے ہوئے سلائسز اور ابلی ہوئی چائے کو افسوس سے دیکھتے ہوئے وہ بولیں۔

’’……افوہ!! آپا……کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا……میں دیکھ رہی تھی سب کچھ……سب سنبھال رہی تھی……‘‘، نبیلہ نے جھنجھلا کر ساس پین اٹھایا اور سِنک میں لے جا کر پٹخ دیا۔ پتہ نہیں ہر شخص اسے بیوقوف سمجھ کر سمجھانے کیوں چلا آتا تھا۔

’’اچھا……؟‘‘، نسرین نے ایک ابرو اچکائی،’’……پھر یقیناً سب کچھ سنبھلا ہوا ہی تھا، تمہاری پلاننگ ہی جلے ہوئے ٹوسٹ کھانے کی ہو گی……لیکن اگر تم فارغ ہو گئی ہو تو پہلے ذرا باہر آ کر نذیر کا مسئلہ نمٹا دو، اپنا یہ ……’لذیذ‘ ناشتہ بعد میں کر لینا……‘‘۔

’’کیا ہوا؟……کون سا مسئلہ……؟‘‘، نبیلہ نے چونک کر پوچھا۔

’’تمہیں نہیں پتہ……؟‘‘،نسرین آپا جیسے شدید حیرت کا شکار ہوئی تھیں۔’’……تمہیں یقین ہے تمہیں نہیں پتہ؟……کسرِ نفسی کا مظاہرہ مت کرو نبیلہ، تمہیں پتہ ہی ہو گا……آخر تم نبیلہ ہو، تمہیں تو سب پتہ ہوتا ہے……!‘‘۔

’’آپا……! بس کریں……‘‘، نبیلہ نے زِچ ہو کر ہاتھ اٹھائے،’’……اگر یہ رات والا ہی مسئلہ ہے تو نذیر سے کہیں وہ ایک گھنٹے بعد میرے آفس میں آ کر ملے مجھ سے……‘‘

’’……نذیر بال بچوں اور آپائی سمیت گھر سے جانے کے لیے تیار ہو کر ، باہر برآمدے میں بیٹھا ہے۔ باہر سے ایک ٹیکسی لا کر اپنے گھر کا سامان بھی لوڈ کر چکا ہے، اب صرف تم سے یہ تقاضا کرنے بیٹھا ہے کہ اس کا حساب بے باق کرو تو وہ یہاں سے جائے……‘‘، نسرین نے بات کاٹتے ہوئے اونچی آواز میں اسے مطلع کیا۔ وہ حق دق نسرین کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔

’’……کیوں؟ ایسی کیا آفت آ گئی ہے کہ وہ یہاں سے جانا چاہتا ہے……؟‘‘

’’……وہ کہتا ہے آج کے زمانے میں اتنے کم معاوضے پر کوئی کسی کی اتنی خدمت نہیں کرتا جتنی وہ اس گھر کی کرتا آیا ہے۔ اور اب جب سے تنخواہ بھی آدھی ہو گئی ہے تو گزارا بالکل ہی مشکل ہو گیا ہے……‘‘

’’……آدھی؟!! ……آدھی نہیں، تیس فیصد کم……‘‘، نبیلہ کا پارہ چڑھنا شروع ہو گیا تھا، یہ نذیر نے اپنے آپ کو سمجھنا کیا شروع کر دیا تھا جو یوں سر چڑھتا چلا جا رہا تھا،’’……جاتا ہے تو جائے……میں ابھی جا کر اس کا دماغ ٹھکانے لاتی ہوں……اونہہ ! حساب پاک کروں……حساب تو اس کا ایسا پاک کروں گی کہ ساری زندگی یاد رکھے گا……‘‘وہ غصّے سے بڑبڑاتی ہوئی باہر کی جانب لپکی۔

برآمدے سے باہر نکلتے ہی وہ لمحہ بھر کو ٹھٹکی۔ برآمدے میں دیوار کے ساتھ ترتیب سے رکھی کرسیوں میں سے ایک پر صولت بیگم بیٹھی تھیں۔ ان کے ساتھ والی کرسی پر سلمیٰ بیٹھی تھی، وسیم اس کی گود میں تھا۔ اس کا چہرہ اب بھی سوجا ہوا تھا اور آنکھ کے نیچے پڑا نیل اب گہرا جامنی رنگ اختیار کر چکا تھا۔ وہ وقفے وقفے سے اپنی اوڑھنی سے آنکھوں میں آئے آنسو پونچھتی، ناک صاف کرتی یا کوئی سسکی دباتی۔ اس کے ساتھ والی کرسی پر سر جھکائے، چپ چاپ آپائی بیٹھی تھیں اور زمین کو تک رہی تھیں۔ ان کے دوسری طرف، کرسی ذرا اس طرح کھسکائے کہ کرسیوں کی ترتیب سیدھی لکیر کے بجائے ذرا سی گولائی اختیار کر گئی تھی، فائزہ بیگم بیٹھی تھیں۔نذیر ان سب سے ہٹ کر برآمدے کے ستون کے ساتھ کھڑا تھا۔ نبیلہ کو ایسا لگا جیسے کسی مقدمے کی سماعت کے لیے پورا پینل بیٹھا ہو۔ مگر اس مقدمے میں مدّعی کون تھا اور ملزم کون……؟یہ فیصلہ نہ ہو پا رہا تھا۔

وہ تھورا سا آگے بڑھی تو اسے احساس ہوا کہ حاضرین و ناظرین میں صرف وہ پانچ، چھ افراد نہیں تھے۔ بلکہ ان سے ذرا سے فاصلے پہ پورچ میں اویس، صہیب، زین، حسن اور حسین کھڑے تھے۔ ان سے تھوڑی دور سلطان گاڑی پر کپڑا پھیرتا نظر آ رہا تھا۔ جبکہ فائزہ بیگم کے لاؤنج کی کھڑکی میں نور، جویریہ اور ہادیہ، تینوں کے سر صاف نظر آ رہے تھے۔ نبیلہ کو یقین تھا کہ بینش بھی قریب ہی کہیں ہو گی۔ اسے کسی گڑبڑ کا احساس ہوا، لمحے بھر کو وہ ذرا سا گھبرائی۔ پھر اپنی ازلی خود اعتمادی بحال کرتے ہوئے مضبوط قدم اٹھاتے نذیر کی طرف بڑھی۔

’’سلام صدر بی بی!!……‘‘، اسے آتا دیکھ کر نذیر نے نظریں جھکا کر ادب سے سلام کیا۔

’’وعلیکم…… ہاں نذیر…! کہو کیا مسئلہ ہے؟‘‘، نبیلہ نے خشک و سنجیدہ انداز میں سوال کیا۔

’’……باجی میرا حساب کر دیں، بقایا رقم دے دیں، مجھے دوسری جگہ نوکری مل گئی ہے……اس لیے جا رہا ہوں……‘‘۔

’’……ہوں! ……ہمیں کیوں چھوڑ کر جا رہے ہو؟ اتنے سال تم نے یہاں کام کیا ہے……‘‘، وہ اخلاقاً اصرار نہیں کر رہی تھی، اسے روکنا نہیں چاہتی تھی، محض حجت تمام کر رہی تھی۔

’’……بس جی……وارا نہیں کھاتا……‘‘، نذیر منہ میں بدبدا کر بولا۔

’’ہوں!……اچھا! ٹھیک ہے پھر……چلےجاؤ……‘‘، نبیلہ نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا اور اجازت دی، پھر ایک شانِ بے نیازی سے واپس جانے کے لیے مڑی۔

’’مگر جی……وہ میرے پیسے……؟‘‘، نذیر نے حیرانی سے اسے پکارا۔

’’……کون سے پیسے؟‘‘، نبیلہ نے مڑ کر اسے دیکھا۔

’’……میری تنخواہ……ابھی آپ نے تیس فیصد ادا کرنی ہے ناں‘‘، نذیر نے اسے یاد دلایا۔

’’میں نے تمہیں کچھ نہیں ادا کرنا نذیر……شاید تم بھول رہے ہو مگریہاں سے جانے سے کم از کم ایک مہینہ پہلے مجھے اطلاع دینے کے پابند ہو کہ تم میری ملازمت چھوڑ رہے ہو۔ اگر تم اس اصول کی پاسداری نہیں کرو گےاور مہینے کے بیچ میں اٹھ کر یکایک یہاں سے جانے کا فیصلہ سناؤ گے تو میں بھی تمہاری تنخواہ یا دیگر کوئی بھی واجبات ادا کرنے کی پابند نہیں ہوں……‘‘، نبیلہ نے ٹھنڈے انداز میں واضح کیا۔ نذیر کے چہرے پر غصّہ بھری سرخی پھیلی۔

’’……میں غریب آدمی ہوں باجی……میرے گھر کے خرچے پورے نہیں ہوتے۔ ہم میاں بیوی دن رات آپ کے خاندان کی خدمت کرتے ہیں مگر بدلے میں اتنا بھی نہیں ملتا کہ عزت کی روٹی کھا سکیں یا بیمار بچے کا علاج کرا سکیں……‘‘، نذیر نے غصّے سے کہنا شروع کیا۔

’’……غریب آدمی دنیا کے اصول و قوانین سے مستثنیٰ نہیں ہوتا نذیر……تم میرے سامنے یہ غربت اور مسکنت کے ڈرامے نہ کرو……پوری تنخواہ چاہیے تو پہلے پورا کام کرو، ورنہ……‘‘، اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا، ’’دروازہ کھلا ہے، تم جا سکتے ہو……‘‘۔

اپنی بات کہہ کر وہ سکون سے اندر جانے کے لیے مڑ گئی۔ اپنے پورشن کی طرف بنے برآمدے میں مڑ کر وہ رک گئی۔ وہ نذیر کو جاتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی۔ پیچھے نذیر نے غصّے سے سلمیٰ اور آپائی کی طرف دیکھا اور ان کے قدموں کے پاس رکھا بیگ اٹھاتے ہوئے سخت لہجے میں مخاطب ہوا،’’چل اٹھ سلمیٰ……چلیں یہاں سے……‘‘۔ مگر وہ ابھی بمشکل پورچ تک ہی پہنچا تھا کہ سامنے کھڑے اویس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر روک لیا۔

’’……بیس سال ساتھ گزارنے کے بعد اس گھر سے یوں غیروں کی طرح چلے جاؤ گے……‘‘، اویس کے سوال پر نذیر کی آنکھیں بھر آئیں۔’’……میں نے اپنی زندگی آپ لوگوں کے ساتھ ہی گزاری ہے اویس صاحب، ……اچھے برے سب حالات میں آپ لوگوں کا ساتھ دیا ہے……مگر اب……اب آپ کےگھر میں رہنا بہت مشکل ہو گیا ہے……‘‘۔

’’……یہ صرف ہمارا نہیں……تمہارا بھی گھر ہے!‘‘، اویس نے مضبوط لہجے میں جواب دیا۔

’’……ہم تمہیں ایسے نہیں جانے دیں گے نذیر……آپائی ہماری ماں کی طرح،……دادی کی طرح ہیں……‘‘، زین بھی آگے بڑھ کر جذباتی انداز میں بولا۔ اور پھر پتہ نہیں کیا ہوا، مگر اچانک ہی وہ سب مل کر ’’نہیں جانے دیں گے……نہیں جانے دیں گے!!‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ نبیلہ چونک کر اپنی جگہ سے ہلی اور برآمدے کو کونے سے مڑ کر صورتحال کا جائزہ لیا۔ صہیب نے نذیر کا بیگ پکڑ رکھا تھا۔ اویس اور زین اس کے دائیں بائیں کھڑے تھے، حسن اور حسین آپائی کے دونوں ہاتھ تھامے کھڑے تھے اور وہ سب مل کر، مکّے ہوا میں لہراتے ہوئے ’’……نہیں جانے دیں گے،……نہیں جانے دیں گے!!‘‘، کے نعرے لگا رہے تھے۔ نبیلہ پر نظر پڑتے ہی وہ ایک چھوٹے سے جلوس کی صورت میں اس کی طرف بڑھے۔ ان کی آوازوں پر نور، جویریہ ہادیہ، بینش ، شہیر اور بتول بھی باہر نکل آئے تھے۔ بتول اور شہیر تو گہما گہمی دیکھ کر اس میں شامل ہونے کے لیے دوڑے۔ مگر دھچکا نبیلہ کو تب لگا جب، ان کے پیچھے پیچھے جویریہ اورنور بھی چل پڑیں۔ وہ دونوں سلمیٰ کے ساتھ جا کھڑی ہوئی تھیں، ایک نے وسیم کو اپنی گود میں لے لیا ، جبکہ دوسری نے سلمیٰ کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔

نذیر جلوس کے انتہائی بائیں کونےمیں تھا، آگے آگے خواتین تھیں جن کو حسن، حسین ، نور اور جویریہ لا رہے تھے، ان کے پیچھے اونچے اونچے نعرے لگاتے، صہیب، زین اور اویس چلے آ رہے تھے۔نبیلہ نے دیکھا، سب سے پیچھے …… سلطان اور پرویز بھی جلوس میں شامل ہو گئے تھے۔ یہ سب صورتحال دیکھ کر حیران و ششدر بیٹھی فائزہ بیگم اور صولت بیگم اپنی جگہوں سے اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔

’’……ظلم کے یہ ضابطے……ہم نہیں مانتے……‘‘، وہ چیختے چلّاتے اس کی جانب بڑھ رہے تھے۔ جویریہ نےاپنی کلائی پہ بندھا کالا اور گلابی رِبن سےبنا بریسلِٹ، نوچ کے اتارا اور اس کی جانب اچھال دیا۔’’کرپشن کا یہ ناسور……دور کرو، دور کرو!!‘‘۔ نجانے ہجوم میں سے کس نے مشتعل ہو کر کنارےرکھا ایک گملہ پاؤں کی ٹھوکر مار کے اس کی طرف لڑھکا دیا۔ ’’لوٹ کھسوٹ……بند کرو، بند کرو!!‘‘۔

وہ اب اس سے چند قدم کے فاصلے پر تھے، نبیلہ ساکت و جامد کھڑی اپنے گھر کے افراد کو جارحانہ انداز میں اپنی جانب بڑھتا دیکھ رہی تھی۔ وہ ان کے نعرے سن رہی تھی، مگر اس کا ذہن ایک مبہم سے شور کے علاوہ کسی چیز کا بھی ادراک کرنے سے قاصر تھا۔ وہ ان کے چہروں پر اپنے لیے غصّے اور نفرت کی تحریر پڑھ سکتی تھی، مگر آنکھوں کو سب چہرے یکساں طور پہ خالی نظر آ رہے تھے۔ جذبات سے خالی……شناسائی سے عاری……عزت، احترام، مقام و رتبے کا لحاظ……ہر جذبےسے یکساں طور پہ نابلد……

اور پھر ……وہ اس کے سر پر پہنچ چکے تھے! زین اور اویس اس کو دونوں بازؤوں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے اندر لے جا رہے تھے۔ ’’کیا کر رہے ہو تم لوگ……؟!……چھوڑو مجھے……!‘‘، وہ اپنے آپ کو چھڑانے کی جدو جہد کر رہی تھی۔ صولت بیگم کچھ کہہ رہی تھیں……نسرین بھی ……۔ مگر ’’جونکوں کی حکومت……ہم نہیں مانتے……ہم نہیں مانتے!!‘‘ کے شور میں کچھ بھی سنائی نہ دے رہا تھا۔ وہ سب گھر کے اندر داخل ہو چکے تھے۔ زین نے کچھ اس زور سے اس کی کلائی کھینچی کہ وہ بلبلا اٹھی۔اس کی زبان سے گالیاں اور بد دعائیں، جبکہ آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا۔ ’’چھوڑو مجھے……!! میں کہہ رہی ہوں چھوڑو مجھے!!……‘‘، وہ چیخ رہی تھی۔

پھر اچانک نجانے کہاں سے عمیر اور زوار نکل آئے تھے۔ شاید شور سن کر نیچے آ ئے ہوں گے۔ مگر زوار نے آتے ہی اسے زین اور اویس کی گرفت سے چھڑایا تھا۔ عمیر اونچی آواز میں چلّا چلّا کر لاؤنج میں داخل ہونے والے ہجوم کو پر سکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ ان کو باہر نکلنے کو کہہ رہا تھا۔ نبیلہ اسے نہیں سن رہی تھی، وہ اپنی دُکھتی ہوئی کلائی دوسرے ہاتھ سے مسلتی، آنسو پینے کی کوشش کر رہی تھی۔ زوار نرمی سے اسے کندھوں سے تھام کر اس کے کمرے میں لے جا رہا تھا۔

اپنے کمرے میں آ کر وہ بیڈ پہ گر سی گئی۔ دکھ، صدمہ، غصّہ اور توہین……جذبات آنسوؤں کی صورت میں امڈ امڈ کر آ رہے تھے اور اس کی آنکھوں سے بہتے چلے جا رہے تھے۔ زوار نے پانی سے بھرا گلاس اسے تھمایا۔

’’……میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی……میرے گھر والے……اتنے بے غیرت نکلیں گے…!!‘‘، بڑی دیر بعد وہ کچھ کہنے کے قابل ہوئی تو اس کی زبان سے نکلا۔ زوار نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ مصروف سا اس کے بیڈ کےساتھ رکھی میز کی درازوں میں کچھ تلاش کر رہا تھا۔ ’’ایک ملازم کی خاطر وہ مجھ پر ہاتھ اٹھائیں گے……!‘‘، دکھ اور صدمے سے اس کی آواز پھٹ سی گئی تھی۔

’’مل گئی……!‘‘، زوار کے جواب پر نبیلہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ اس کا ہینڈ بیگ کھولے کھڑا تھا۔’’کیا مل گئی……؟ اور یہ تم میرے بیگ کے ساتھ کیا کر رہے ہو……؟‘‘۔

’’یہ مل گئی……!‘‘، زوار نے مسکرا کر ہاتھ اونچا کر کے اسے دکھایا۔ اس کے ہاتھ میں نبیلہ کی چابیوں کا بٹوہ تھا۔ اس بٹوے میں پورے گھر اور آفس کی چابیاں موجود تھیں۔ اسی میں ایک کی چین سے لٹکتی، گھر کے سربراہ کی خصوصی مہر بھی موجود تھی۔

’’آج بروز۱۶مارچ، ۲۰۱۹ء……بوقت گیارہ بج کر اڑتالیس منٹ……‘‘،اس نے اپنی گھڑی کی جانب دیکھا،پھر چہرے پر پراسرار مسکراہٹ لیے اس سے مخاطب ہوا ،’’……آپ کو آپ کی ذمہ داری بحیثیت سربراہ ہاشمی ہاؤس سے معطل کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ آپ اس گھر کو سنبھالنے کی اہل نہیں!!……آپ اپنے آپ کو نظر بند تصور کیجیے……!‘‘۔

وہ جا چکا تھا۔ نبیلہ نے لاک میں چابی گھومنے کی آواز سنی، مگر شل اعصاب کے ساتھ اپنی جگہ بیٹھی رہی۔

٭٭٭٭

جہاز سے نکلتے ہی اس نے ایک محبت بھری نظر چاروں طرف ڈالی۔ پھر ایک گہری سانس لے کر تازہ ہوا اپنے پھیپھڑوں میں کھینچی، جیسے اندر تک سے اپنے آپ کو اس فضا سے معطر کرنا چاہتا ہو۔ پاسپورٹ چیکنگ، اور دیگر مراحل سے گزر کے، کنوئیر بیلٹ سے اپنا سامان وصول کر کے وہ ایک بار پھر باہر کھلے آسمان تلے آ کھڑا ہوا۔ بہت سے ٹیکسی کیب والے پر امید نظروں سے اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔ مگر وہ یوں بے فکری سے کھڑا تھا جیسے منزل پر پہنچنے کی کوئی جلدی نہ ہو۔ اسے تھی بھی نہیں۔کتنا عرصہ……کتنے مہینے……کتنے دن وہ اپنے وطن پر چھائے اس خوبصورت آسمان سے محروم رہا تھا، وہ دل ہی دل میں حساب لگا رہا تھا۔ کتنے عرصے بعد اس مٹّی پر اس نے قدم رکھا تھا۔ متجسس نظریں چاروں اَور گھوم رہی تھیں، جیسے اپنے غیابت کے زمانے میں آنےوالی تبدیلیاں تلاش کرنا چاہتی ہوں۔مگر سب کچھ ویسا ہی تھا جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا……یا شاید پہلے سے بھی بہتر……! اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی، آنکھیں چمک اٹھیں۔اسے اب گھر جانا تھا۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Previous Post

سوشل میڈیا کی دنیا سے…… | فروری 2022

Next Post

سحر ہونے کو ہے | قسط نمبر: ۱۳

Related Posts

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | آٹھویں قسط

26 ستمبر 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | ساتویں قسط

12 اگست 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط

14 جولائی 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط

9 جون 2025
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چوتھی قسط

27 مئی 2025
مسلم روح
ناول و افسانے

مسلم روح

27 مئی 2025
Next Post

سحر ہونے کو ہے | قسط نمبر: ۱۳

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version