الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین محمد و علیٰ آلہ و صحبہ و ذریتہ اجمعین اما بعد
فقد قال اللہ سبحانہ وتعالیٰ فی کتابہ المجید بعد أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم، بسم اللہ الرحمان الرحیم
﴿ اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ وَاِنْ تَنْتَهُوْا فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ وَلَنْ تُغْنِيَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْاً وَّلَوْ كَثُرَتْ وَاَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ ﴾ (سورۃ الانفال: ۱۹)
صدق اللہ مولانا العظیم
رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ، وَيَسِّرْ لِيْٓ اَمْرِيْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ، يَفْقَهُوْا قَوْلِيْ
کل کی آیات مبارکہ کے ذیل میں ہم نے یہ بات پڑھی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو مومن سے عاجزی اور تواضع مطلوب ہے اور بالخصوص رب کے راستے میں جہاد کرنے والوں سے کہ وہ ہر حال میں اللہ کے سامنے جھکتے رہیں اور اپنا چھوٹا پن ، اپنی کمزوریاں اور اپنے گناہ جو ہیں وہ اپنی نگاہ میں رکھیں۔
یہاں مومنین کی صفت کے بر عکس ان آیات میں اللہ تعالیٰ کافروں کاحال بیان فرماتے ہیں اِنْ تَسـْتَفْتِحُوْا اگر تم اللہ سے فیصلہ مانگتے ہو یا اللہ سے فیصلہ مانگ رہے تھے فَقَدْ جَاۗءَكُمُ الْفَتْحُ تو فیصلہ آگیا۔ اللہ سے فیصلہ مانگنے سے کیا مراد ہے ؟ اس سے مراد، سورۃ انفال ہی میں جس کی طرف اشارہ آتا ہے یا بدر کے پس منظر میں بات کریں تو اس واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ جنگ پہ نکلنے سے قبل ابو جہل جاتا ہے اور جا کے کعبہ کے پردے پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ جو گروہ حق پہ ہے تو اس کی مدد فرما۔ تو اس حد تک تکبر اور اکڑ میں آگے ہونا کہ صریح شرک اور کفر پہ کھڑا ہے اور پہچانتا ہے کہ کفر پر کھڑا ہے، اس طرح نہیں ہے کہ حسن نیت سے بات کی جا رہی ہے ، جانتا ہے کہ کفر پہ کھڑا ہے لیکن یہ اعتماد یا over confidence ہے کفر کے معاملے میں اور بات تکبر میں اس حد تک آگے گئی ہوئی ہے کہ سورہ انفال ہی میں اللہ آگے فرماتے ہیں کہ کافروں نے کہا:
وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ
وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ اگر تیری طرف سے حق بات یہی ہے یعنی یہ جو کتاب اتری ہے ، یہ جو رسول اکرم ﷺ ہیں، یہ اگر حق پہ ہیں تو آگے دعا کیا ہونی چاہیے ؟ دعا تو یہ ہونی چاہیے کہ ہمیں اسے سمجھنے کی توفیق دیں، ہمارا سینہ اس کے لیے کھول دیں ، ہم پہ اسے وضح کردیں……؛ مگر ان کی دعا کیا تھی؟ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ آسمان سے ہمارے اوپر پتھر برسادیں اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ یا درد ناک عذاب ہمارے اوپر نازل فرما۔ تو یہ وہ تکبر اور غرور کا درجہ ہے ۔ وہ اس بات کو یوں پیش کرتے تھے۔ اس دعا کا بھی کیا مطلب تھا کہ نہیں ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ وہ حق پہ نہیں ہیں اور ہم حق پہ کھڑے ہیں اور اسی لیے ہم یہ دعا کر رہے ہیں ۔ تو یہ کیفیتوں کا فرق ہے۔ مومن کا حال قرآن یہ بتاتا ہے کہ وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا کہ مومن کاحال یہ ہوتا ہے کہ وہ جو بھی نیک اعمال کرے یا اللہ کے راستے میں جو کچھ بھی دے، دینے کے بعد اس کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ وَقُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ ان کے دل اس کے بعد بھی کانپ رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے لوٹ کے اللہ کے پاس جانا ہے۔ کانپ اس لیے رہے ہوتے ہیں کہ پتا نہیں اللہ کے ہاں قبول ہوا بھی کہ نہیں، پتا نہیں اس میں ریا کتنی شامل تھی ، پتا نہیں منافقت کا کتنا دخل تھا، پتا نہیں نیت کے اندر کیا کچھ درمیان میں شامل ہوا، پتا نہیں یہ سنت کے مطابق کما حقہ فعل ہوسکا کہ نہیں ہو سکا۔ مومن بڑے بڑے پہاڑ جیسے اعمال کرتا ہے پھر بھی اللہ کے سامنے جھکا رہتا ہے ، پھر بھی دل کانپتا رہتاہے اور پھر بھی زبان سے بڑا بول بولنے سے ڈرتا ہے ۔ کافر کا حال اس کے بالکل برعکس ہے کہ کفر پہ کھڑا ہے ، اللہ کے نبی ﷺ سے لڑنے کے لیے نکل رہا ہے ، صحابہ ؓ کے خلاف قتال کرنے جارہا ہے اور اللہ سے دعا کر رہا ہے کہ ہم اگر حق پہ ہیں تو ہماری مدد فرما!
یہاں سے ایک پوری نفسیات کا فرق ہے کہ جو واضح ہوتا ہے اور اسی کی روشنی میں قرآن کے تبصرے عمومی تبصرے ہوتے ہیں جو کسی واقعے کے ساتھ خاص نہیں ہوتے ہیں بالعموم۔ بیشتر اس کے تبصرے ایسے ہیں کہ جو تاقیامت رہنمائی فراہم کرتے ہیں؛ وہی سورتیں ہیں اور گہرے تبصرے ہیں ، سطحی تبصرے نہیں ہوتے ہیں ۔ اس رب کے تبصرے ہوتے ہیں کہ اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۭ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ، کہ کیا وہی نہ جانے گا کہ جس نے تمہیں پیدا کیا! جس نے تمہاری تخلیق کی! اور وہ باریک بین باخبر ہے۔ وہ گہرائیوں میں ہمارے دلوں کی اٹھنے والے وسوسوں تک کو جانتا ہے۔ وہ ہماری نفسیات کو جانتا ہے ۔ وہ انسان کی طبیعت کو جانتا ہے کیونکہ انسان اس کی مخلوق ہے۔ وہ اپنی کائنات کو جانتا ہے۔ تو اس کے تبصرے ایسے ہیں کہ جو تاقیامت ، دلو ں کے اندر جو کچھ آنا ہے ، گہرائیوں کے اندر کفار کی نفسیات میں جو کچھ پیوست ہے یا اہل ایمان کے سینوں میں جو کچھ آرہا ہے وہ سب کے اوپر ایک تبصرہ ہوتا ہے۔ تو اس لیے ان تبصروں کی روشنی میں پیارے بھائیو ! یہ صرف ماضی کے ابوجہل پہ تبصرہ نہیں ہے، یہ آج کے بھی ابوجہل پہ یا آج کے بھی فراعنہ پہ تبصرہ ہے ۔
قرآن مثال دیتا ہے کہ فرعون اپنی قوم کو مخاطب کرتا ہے تو عجیب انداز ہے کہ مَآ اُرِيْكُمْ اِلَّا مَآ اَرٰى ، ( اپنی قوم سے کہہ رہا ہے کہ ) میں تمہیں وہی راستہ دکھا رہا ہوں ، میں تم سے وہی بات کر رہا ہوں جو میں حقیقتاً سمجھتا ہوں ۔ یعنی اپنی دل کی صفائی پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اسی میں میں تمہارا بھلا سمجھتا ہوں ، اسی لیے یہ بات کر رہا ہوں وَمَآ اَهْدِيْكُمْ اِلَّا سَبِيْلَ الرَّشَاد اور میں تمہیں سیدھے راستے کی طرف، جو میرے نزدیک سب سے بہترین راستہ ہے اس کی طرف ہی ، جو بہترین اقدار ہوسکتی ہیں اور بہترین لائحہ عمل ہوسکتا ہے اسی طرف تمہاری رہنمائی کر رہا ہوں ۔
تو آپ کو بو آتی ہے ان کے اندر سے ۔ آج کے فرعونوں کے جملے وہی ہیں۔ یعنی حتیٰ کہ اسی طرح فرعون کا جملہ قرآن کہتا ہے کہ اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيْلُوْنَ کہ یہ چھوٹا سا ایک شرذمہ ہے، ایک چھوٹا سا گروہ ہے ۔ چند لوگ ہیں مٹھی بھر جو کھڑے ہوگئے۔ یہ جملہ اسی طرح ملک عبداللہ دہراتا ہے، پاکستان آکر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہ چھوٹا سا شرذمۃ من الارھابیین چھوٹا سا گروہ ہے دہشت گردوں کا کہ جو تھوڑا سا تنگ کر رہا ہے۔ اور اسی طرح کہ وَاِنَّا لَجَمِيْعٌ حٰذِرُوْنَ ہم سب کے سب alert ہیں۔ ہم سب کے سب، وہ جو امریکہ ہر چوتھے دن کہتا ہے کہ ہر وقت خطرے کی حالت میں ہیں ، alert کردیا گیا ہے؛ تو یہ چند لوگ ہیں کہ جنہوں نے ہمیں غصہ دلایا ہوا ہے؛ یہ ہماری اقدار کے دشمن ہیں؛ یہ ہمارے طریق زندگی کے دشمن ہیں؛ یہ بھی قرآن، فرعون کے جملے بتا تا ہے کہ وہ دو اللہ کے بندے حضرت موسی ؑ اور حضرت ہارون ؑ آتے ہیں اور آکے دربار میں چند باتیں کرتے ہیں ۔ کچھ بھی قوت نہیں ہے ، کچھ بھی طاقت نہیں ہے ان کے پاس۔ مگرفرعون کہتا ہے کہ یہ ہمارا طریق زندگی بدلنا چاہتے ہیں! فرعون کہتا ہے کہ یہ تمہیں تمہاری زمین سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی عجیب بات ہے کہ تمہارے پاس لشکر ہیں ، تمہارے پاس پوری قوت اور طاقت ہے اور دو بندے آئے اور تم کہہ رہے ہو قوم کو کہ یہ تمہیں تمہاری زمین سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں! تو جملے آج تک فراعنہ کے وہی ہوتے ہیں ، طواغیت کے جملے وہی ہیں اور آج اہل ایمان کو بھی قرآن کی روشنی میں دیکھیں تو وہی سارا قصہ ہے ، وہی سارا اسلوب ہے وہی ساری سیرتیں ہیں کہ جو دہرائی جارہی ہیں۔
تو یہاں بھی دیکھنے کی بات ہے کہ امریکہ آپ کو اسی تکبر اور اکڑ کے ساتھ دعوے کرتا نظر آتا ہے۔ وہ اپنی عوام کے سامنے اور دنیا کے سامنے یوں بات کرتے ہیں کہ نا صرف امریکہ حقیقت ہے بلکہ امریکہ کی اقدار کا حق ہونا بھی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور مسلمانوں کا جرم ہی یہی ہے یا مجاہدین کا جرم ہی یہی ہے کہ انہوں نے ان کی اس حق اقدار کو غلط سمجھا اور ان کے خلاف قتال کرنے کو نکل آئے۔
تو عجیب بات ہے وہ اس اعتماد کے ساتھ بات کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ تو ہیں ہی ہیں ، وہ تو مسلّم بات ہے کہ وہ حق کے اوپر ہیں یہ پتا نہیں درمیان میں کہاں سے آگئے اور کوئی اور بات انہوں نے شروع کردی اور ہمارے اس نظام کے لیے خطرہ بر پا کردیا۔ یہی اکڑ یہی تکبر ، یہ اوباما کی پہلی تقریر جس نے سنی ہو اس کے لفظ لفظ اور جملے جملے قرآن کے تبصروں والے نظر آئیں گے کہ محسوس ہوتا ہے کہ بالکل یہی پیغام ہے جو وہ convey کرتا ہے اپنی عوام کو۔
ا سی طرح پاکستان کو دیکھیے۔ پاکستان کی فوج دس سال سے امریکہ کی گود میں بیٹھی ہے؛ کم از کم دس سال سے! پیچھے کی تاریخ میں جائیں تو سن اکاون باون میں یہ شامل ہوگئے تھے سیٹو ، سنٹو میں اور امریکہ کی گود میں اس وقت سے بیٹھے ہوئے ہیں؛ لیکن کم از کم پچھلے دس سال سے تو بالکل صریح اور عیاں ہے کہ کافروں کا ساتھ دے رہے ہیں مسلمانوں کے خلاف۔اس کے بعد جب بھی آپ ان کے اطہر عباس (آئی ایس آئی چیف) کا بیان سنیں، ان کے کور کمانڈر پشاور کا بیان سنیں، کیانی (آرمی چیف) کا بیان سنیں ، تو (وہ یہ کہتے سنائی دیں گے کہ) انشاءاللہ ہم نے فلاں جگہ سے دہشت گردوں کا صفایا کردیا اور الحمدللہ ہم نے ان کی کمر توڑ دی اور اللہ کے فضل و احسان سے ہم اگلا……، یعنی گویا وہ کوئی بڑا نیک کام کرنے چلے ہیں۔ علماء کہتے ہیں کہ کوئی شخص شراب پینے سے پہلے بسم اللہ پڑھے تو کافر ہوجاتا ہے، اس لیے کہ وہ اللہ کے ساتھ گستاخی کر رہا ہے کہ وہ ایک حرام کام کے آغاز سے پہلے اللہ کا نام ( لیتا ہے)، گویا اللہ سے استہزاء کر رہا ہے۔ ایک فوج جو ہے اس کی قیادت اللہ سے لڑنے نکلی ہے، اسلامی امارت کو گرانے نکلی ہے، اس کے پاس دنیا بھر سے سمٹ کر آئے ہوئے مہاجرین مجاہدین سے لڑنے نکلی ہے اور پھر وہ کہے کہ انشاءاللہ ہم یہ کریں گے، انشاءاللہ ہم ان کو ماریں گے، انشاءاللہ ہم ان کی کمر توڑیں گے اور الحمدللہ ہم نے یہ کردیا…… یہ اللہ کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں؟ یہ کیا کھیل کھیل رہے ہیں؟
تو یہ اعتماد جو آپ کو نظر آتا ہے آپ کو لگتا ہے اس کا بیان سن کر کہ وہ اپنے آپ کو بالکل حق پہ سمجھتا ہے۔ حالانکہ اس کو پتا ہے، اس مجرم کو پتا ہے ، ان جرنیلوں کو پتہ ہے کہ وہ کس کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کو تنخواہ وہاں سے ملتی ہے، ان کی postings (تبادلے) وہاں سے ہوتی ہیں، ان کی ترقی ان کے فیصلوں پہ کھڑی ہے۔ یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینے والی بات ہے کہ وہ جانتے نہیں کہ وہ کس کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ ان کو بخوبی پتہ ہے لیکن دوسروں کے سامنے……! یہ تکبر ہے ۔ اللہ تعالیٰ جب دلوں پر مہر لگادیتے ہیں تو پھر اند ر سے یہ کفر سامنے آتا ہے۔ دوسروں کے سامنے وہ اپنے آپ کو اتنا معصوم ہی پیش کر تے ہیں۔ چھ ستمبر کے show اٹھا کے دیکھ لیں تو وہ اپنے شہداء کا تذکرہ کرتے ہیں، کون سے شہداء ؟ جو ادھر مردار ہوئے وزیرستان میں ، جو مردار ہوئے سوات میں شریعت کا نام لینے والوں کے خلاف؛ ان کو ایسے شہید کے طور پے پیش کر رہے ہوتے ہیں! اب تو عرصہ ہوگیا پاکستان کی فوج نے ہندوستان سے، کسی کافر سے لڑائی نہیں لڑی۔ یہ اور بات ہے کہ وہ جو کافر سے لڑائی ہے وہ دینی نیت سے ہوتی ہے یا وطنی جذبے سے ہوتی ہے لیکن چلیں اس میں کسی عام فوجی کے لیے گنجائش نکلتی ہو ، راستہ نکلتا ہو کہ پاکیزہ نیت سے لڑا ہو۔ آخری جنگ کارگل کی جنگ تھی۔ باقی جو پینسٹھ ، اکہتر والی نسل ہے وہ تقریباً ختم ہوچکی ہے باقی نہیں بچی۔ تو اب وہ چھ ستمبر کو کس چیز کا رونا روئیں گے یا وہ کس چیز کی بات کریں گے کہ ہم نے کیا کیا تھا! کارگل کی جنگ میں تو مار پڑی تھی اس میں تو دکھانے کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ وہ جو واحد کامیابی جو دکھا سکتے ہیں وہ سوات آپریشن، وزیرستان آپریشن ، باجوڑ آپریشن اور مہمند آپریشن ہیں۔ تو یہی وہ آپریشن ہیں کہ جن کا وہ ذکر کر سکتے ہیں اسی لیے ایک آرہا ہوگا اس کی ٹانگیں کٹی ہوں گی، کہاں؟ جنوبی وزیرستان میں مائن پھٹنے سے۔ دوسرا ہوگا اس کے ہاتھ ضائع ہوئے ہوں گے سوات میں کچھ کرتے ہوئے۔ ایک آرہا ہوگا اس کا کوئی بھائی مارا گیا ہوگا یہاں کچھ کرتے کرتے ۔ تو یہ وہ شہداء اور زخمی ہیں جن کے لیے وہ سٹیج سجا ہوا ہے اور پیچھے بیٹھ کے آنسو بہائے جارہے ہیں، ہلکی ہلکی موسیقی کی دھنوں کے ساتھ اور ہلکی سی تاریکی کر کے ایک رونے والا ماحول بنایا جاتا ہے اور اس میں بیٹھ کے وہ شیعوں کی طرح ماتم ہوتا ہے اور وہ آنکھوں سے آنسوں بہا کے ، اپنے شہداء کو خراج عقیدت پیش کر کے وہاں سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ تمہیں کیا پتہ کہ شہید کیا ہوتا ہے! تم کیا جانو! تمہیں تو شہید کی تعریف ہی نہیں معلوم ؟ اور ترس آتا ہے وہاں بیٹھنے والوں پر۔ یہ بات صرف غصّے اور غیض کی نہیں ہے۔ ترس آتا ہے ان والدین پر جن کے بچے اس جنگ کے اندر مارے گئے اور وہ وہاں کھڑے ہوکے آنسو بہاتے بہاتے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ شہید ہوگیا۔ کیسے شہید ہوگیا؟ یعنی اس ماں کو دیکھ کے دکھ ہوتا ہے ، اس باپ کو دیکھ کے دکھ ہوتا ہے کہ جو اس کو جہاد سمجھ رہی ہے۔ جس کو یہ باور کرایا ہے اس فوج کی قیادت نے کہ کوئی ڈھنگ کا کام ہے جس میں یہ بچے مارے گئے۔ حالانکہ وہ جہنم کا ایندھن بننے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تو دیکھ کے دکھ ہوتا ہے کہ کاش کسی طرح اس کو سمجھا سکیں کہ یہ جہاد نہیں ہے، یہ فساد ہے اور اللہ کے دین سے دشمنی ہے اور اس کا انجام جہنم ہے لیکن یہی والا اعتماد وہاں نظر آرہا ہوتا ہے کہ اللہ سے وہاں کھڑے ہوکر فیصلے بھی مانگے جارہے ہوتے ہیں اور انشاءاللہ اللہ ہماری مدد کرے گا اور ہمارے شہداء اور ہمارے شہداء……۔ حالانکہ خالص کفر کی راہ ہے جس کے اندر کوئی شک و شبہے کی بات نہیں۔
تو پیارے بھائیو! یہ وہ نفسیات کا فرق ہے ۔ الحمدللہ آپ کو مجاہدین کی صفوں سے ایسے دعوے کبھی نہیں ملیں گے اور مجاہدین میں جو بندہ واقعتاً اللہ کے راستے میں جہاد کر رہا ہوتا ہے تو وہ ڈرتے ڈرتے اور جھکتے جھکتے اللہ سے یہی مانگتا ہے کہ اللہ حسن ِ خاتمہ دے دیں، اللہ ایمان پہ موت دے دیں ، اللہ اس جہاد کی ٹوٹی پھوٹی کوشش قبول کرلیں۔ حالانکہ ان شاء اللہ اس میں کوئی ادنیٰ سا بھی شک شبہ نہیں ہے کہ وہ جس رستے پہ چل رہا ہے ، اس سے کوئی کمزوری ہوسکتی ہے اس رستے کا حق ادا کرنے میں لیکن وہ راستہ حق راستہ ہے۔ وہ راستہ دین کا راستہ ہے ۔ وہ راستہ جہاد کا راستہ ہے اور وہ فی سبیل اللہ راستہ ہے ۔ اس کے باوجود اس کا رویہ یہ نظر آتا ہے اور دوسری طرف کفر کے راستے میں ، داڑھیاں منڈھی ہوئی ہیں ، نماز پڑھنے کی توفیق نہیں ہے، جرنیلوں کی postings کے لیے وہ جب باہر جاتے ہیں تو شرابیں پیے بغیر وہ اپنے وہاں بیٹھے امریکی اور برطانوی آقاؤں کو راضی نہیں کرسکتے۔ مخلوط محفلوں کے اندر جب تک شریک نا ہوں ان کی ترقی نہیں ہوتی ہے۔ بریگیڈئیر سے اوپر بالخصوص جتنے درجات ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ سب کچھ کر کے دکھائیں۔ ان کو مطمئن کریں کہ ہمارا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ تو اس کے بارے میں یہ توقع رکھنا کہ اس کو نہیں پتہ کہ یہ کیا ہے اور واقعتا ً یہ بھی اسلام کے کوئی علم بردار ہیں اور یہ بھی ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ کھیل رہے ہیں، تماشے کر رہے ہیں اپنی قوم کے ساتھ جیسے اپنے اپنے وقت کے فرعونوں نے کیا ہے ۔
تو اللہ فرماتے ہیں کہ اگر تم نے اللہ سے فیصلہ مانگا تھا بدر میں آنے سے پہلے تو فَقَدْ جَاۗءَكُمُ الْفَتْحُ تو تمہیں آگیا اللہ کی طرف سے فیصلہ۔ یہ جو تمہارے ستّر مارے گئے۔ یہ جو تمہاری لاشیں گریں یہ اللہ کی طرف سے فیصلہ ہے۔ یہ اللہ کا عذاب ہے جو تمہارے اوپر مسلط ہوا۔ تو آنکھیں کھولنے والوں کے لیے آج بھی یہ سارے واقعات موجود ہیں۔ امریکہ کے لیے بھی پیغام موجود ہے ، نیٹو کی فوجوں کے لیے بھی پیغام موجود ہے۔ اس ذلت میں جو عراق میں انہیں اٹھانی پڑی، اس ذلت میں جواس سے پہلے صومالیہ میں انہیں اٹھانی پڑی تھی، اس ذلت میں جو آج افغانستان میں وہ اٹھا رہے ہیں…… عقل ہو ، ادنیٰ عقل موجود ہو ، ذرا سی بھی آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو سمجھنے کے لیے یہ واقعات کافی ہیں کہ یہ اللہ کا عذاب ہے۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ تم نے اگر اللہ سے فیصلہ مانگا تھا اور اگر تم یہ سمجھتے تھے، جیسے کہ بش نے اعلان کیا تھا ، وہ ہمیشہ اپنی تقریروں میں کہتا تھا کہ ہم نیکی کی قوت ہیں جو بدی کی قوت سے لڑنے جارہے ہیں۔ evil کے خلاف ہماری جنگ ہے ۔ اسexcess of evil کے خلاف ہماری جنگ ہے۔ تو وہ اس طرح پیش کرتا تھا۔ ان کے جرنیل کہتے ہیں کہ ہم روحانی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ تو اس روحانی جنگ، اس نیکی کی جنگ پر واقعتاً تمہیں اللہ سے اجر کی امید تھی ، اللہ سے فیصلہ چاہیے تھا تو اللہ نے تو فیصلہ فرما دیا۔
اسی طرح ہماری اپنی فوج کے لیے بھی یہی پیغام ہے؛ پیغام، ان واقعات میں! ایک ہے آمنے سامنے کی لڑائی میں ، اس میں کبھی کسی کا پلڑا بھاری رہ سکتا ہے کبھی کسی کا۔ لیکن جو کچھ سیاچن گلیشئر میں ابھی ہوا، تو وہ واقعہ کھلی آنکھوں کے ساتھ ، جس کو ادنیٰ سی بھی بصیرت ہو اس کو سمجھنا چاہیے کہ اللہ کی طرف سے پکڑ ہے۔ اسی طرح اس سے پہلے جب زلزلہ آیا تو پہاڑ کا ٹوٹ کر ان کے ڈیویژنل ہیڈ کوارٹر پر گرنا، کیا اس کے اندر بھی کوئی سبق نہیں تھا۔ جب سیلاب آیا تو مجاہدین کو الحمدللہ نہ زلزلے نے چھوا نہ سیلاب نے ان کو چھوا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مجاہدین بہت کوئی اونچی چیز ہیں یا خطاؤں سے پاک ہیں۔ ہم بہت کمزور ہیں ۔ اللہ کے بندے ہیں۔ اللہ سے آئندہ کے لیے بھی عافیت مانگتے ہیں۔ لیکن انشاءاللہ اللہ سے امید ہے کہ اللہ کے راستے میں ہیں، اللہ کی محبت میں نکلے ہیں ، اللہ کی رضا کے لیے نکلے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان آفتوں سے بچا کے رکھا ہے۔ جب سیلاب ان پر آیا تو ان کا پورا نوشہرہ کینٹ اس کے اندر ڈوبا۔ ان کا یہاں پر جنوبی وزیرستان کے قریب جو ٹانک کا علاقہ ہے وہاں پر ، سیلاب کے اندر ان کی مائنیں اور بہت سا اسلحہ بہتا بہتا چشمہ کے علاقے تک گیا جہاں پاور پلانٹ ہے۔ تو یہ ساری ضربیں ان کو لگیں۔ سوات میں جو انہوں نے عسکری مقاصد سے پُل بنائے تھے وہ سارے بہہ گئے۔ سوات میں ان کو اچھی بھاری ضربیں لگیں۔ ان کے بہت سارے مراکز ڈوب گئے۔ کیا اس میں سے کسی بھی واقعے میں فیصلے نہیں ہیں؟ آنکھیں کھلی ہوں تو! آپ اس کے بعد آئی ایس پی آر کے بیان اٹھا کے دیکھیں تو اس طرح باتیں کر رہے ہوتے ہیں جیسے کہ ا س کائنات میں اللہ کا یا کسی خالق کا ،کسی مالک ، تدبیر چلانے والے کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یوں بات کر رہے ہوتے ہیں کہ یوں ہوا ۔ خود بول رہے ہوتے ہیں کہ پہلی مرتبہ ہے پچھلے تیس سال کی تاریخ میں ، جب سے سیاچن کھلا ہے کہ اس علاقے میں آکے، اتنا پیچھے آکے کوئی برف کا تودہ گرا ہو۔کبھی چھوٹا تودہ بھی کہتے تھے کہ وہاں نہیں گرتا تھا۔ وہ ہمیشہ اگلی پوسٹوں پہ ہوتا تھا۔ تو پیچھے جو main ہیڈ کوارٹر ہے اس کے اوپر آکر گرنا اور اس کے بعد مہینے تک تم اس کو ڈھونڈتے رہو اور ایک لاش اس میں سے نہ نکال سکو۔ تو یہ کوئی نشانی ہے اور ایسے موقع پر آکر اس کا گرنا ۔ وہ کہتے ہیں کہ صبح کے بعد کہ جب سارے کے سارے اس کے اندر موجود تھے کوئی ایک بھی اس سے باہر نہیں تھا۔ تو نشانیاں اللہ کی طرف سے ہیں اگر آنکھیں کھلی ہوں۔
تو اللہ فرماتے ہیں کہ اگر فیصلہ چاہیے تھا تو فیصلہ تو آگیا وَاِنْ تَنْتَهُوْا اور اگر اب باز آجاؤ، ابھی اس اکڑ سے باز جاؤ، ان بڑے بڑے دعووں سے اب باز آجاؤ تو فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ تو اس میں تمہاری بہتری ہے، وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ اور اگر تم پھر لوٹو گے، پھر اللہ سے ایسا فیصلہ مانگو گے ، اللہ پھر ایسا عذاب مسلط کریں گے۔ پھر اللہ کے راستے میں لڑنے والوں کے خلاف لڑنے نکلو گے تو اللہ تعالیٰ پھر تمہارے ساتھ جو بدر میں تمہارے ساتھ ہوا دہرائیں گے اور تمہیں اسی طرح کی ضرب لگے گی۔ وَلَنْ تُغْنِيَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَـيْــــًٔـا اور تمہارا گروہ جب تھا ، مددگار نصرت کرنے والے یہ تمہیں شَـيْــــًٔـا تھوڑا سا بھی نفع نہیں پہنچا سکیں گے وَّلَوْ كَثُرَتْ چاہے یہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ تو اگر کثرت سے ہی فیصلہ ہونا ہوتا تو امریکہ تنہا نہیں گھسا افغانستان کے اندر۔ امریکہ کی کوشش پر جنگ شروع ہوئی ۔ نائن الیون تو امریکہ پر ہوا۔ برطانیہ وہاں کیا کر رہا ہے ؟ پولینڈ وہاں کیا کر رہا ہے؟ جرمنی وہاں کیا کرہاہے؟ فرانس وہاں کیا کر رہاہے؟ ان سب کو امریکہ وہاں کھینچ کر لایا۔ ترکی وہاں کیا کررہاہے؟ عرب امارات وہاں کیا کررہا ہے؟ تو یہ سارے جو وہاں گھسے ہیں یہ امریکہ نے جا کر ایک ایک کی منت کی ہے کہ اکیلے نہیں لڑنی ہم نے۔ تو اپنے ساتھ ایک بڑا فئۃ لے کر، ایک بڑا گروہ لے کر میدان میں اترا۔ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ گروہ تمہارے کسی کام نہیں آسکے گا۔ وَّلَوْ كَثُرَتْ، چوالیس ، پینتالیس مزید ملک ساتھ لے کر آگئے ، کیا بچا لیا اس نے تمہارا؟ کتنا تمہیں نفع پہنچا لیا؟ ان کو بھی ضرب پڑی تمہیں بھی ضرب پڑی۔
وَاَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ اور یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے ساتھ ہیں۔ تو یہ پیغامات ہیں۔ ہم نے کہا ، پہلے بھی بات ہوئی کہ جنگ کے اندر اللہ کی عجیب حکمتیں ہیں۔ جو جہاد کے پورے سجے اس میدان کو دیکھے، اللہ پر ایمان اس کو لے آنا چاہیے ان پورے واقعات پر غور کرنے کے بعد۔ اللہ کی توحید کے سب سے واضح دلائل میں جو دلیل ہے وہ روس کے خلاف اور امریکہ کے خلاف جہاد ہے؛ پچھلے بیس تیس سال پر اگر نگاہ ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قوت کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹِک سکتی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان والے حق پر ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی نصرت فرما رہے ہیں چاہے وقتی طور پر ان پہ آزمائشیں ہی کیوں نہ آئیں۔ تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے دروازے کھول رہے ہیں وَاَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ اور اللہ مومنین کے ساتھ ہیں۔ اس آیت میں ا یک پیغام یہ بھی ہے کہ اللہ مومنوں کے ساتھ ہے یعنی ان کی اس صفت کا اللہ نے ذکر کیا جس کی وجہ سے اللہ ان کی نصرت کرتے ہیں اور وہ ان کا ایمان ہے۔ جو جتنا ایمان میں قوی ہوگا اتنا اللہ کی نصرت اس کے ساتھ ہوگی۔ جو جتنا اپنے ایمان سے غافل ہوگا ، اپنے ایمان کو بڑھانے کی فکر چھوڑدے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی نصرت سے دور ہوتا جائے گا۔ تو یہ ایمان کے ساتھ جڑی ہوئی چیز ہے اور جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ تمہار ے سینوں میں ایمان اسی طرح بوسیدہ ہوجاتا ہے کہ جس طرح کپڑا بوسیدہ ہوجاتا ہے ، تو تم میں سے ہر شخص اس کا اہتمام کرے کہ اپنے ایمان کی تجدید کرتا رہے۔ اپنے ایمان کی حفاظت بھی کرے اور اپنے ایمان کو تازہ بھی کرتا رہے۔ اور جیسا کہ صحابہ ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ حضرات بیٹھ جاتے اکثر اور کہتے کہ ھیا بنا نؤمن ساعۃ، اجلس بنا نؤمن ساعۃ کہ آؤ تھوڑی دیر کے لیے ایمان لائیں یعنی ایمان کو تازہ کریں ، ایمان کو بڑھانے کے اسباب اختیار کریں ، قرآن کو اکٹھے بیٹھ کر پڑھیں اور اللہ کی نعمتوں کا ذکر کریں، اللہ تعالیٰ نے جس طرح اس راستے کی طرف ہدایت دی اس کا تذکرہ کریں اور حدیث کا مطالعہ کریں ۔ تو ان چیزوں سے ، سیرت کو پڑھیں ، ان سے ایمان میں ہمارے اضافہ ہو۔ تو جب ایمان کی حفاظت کریں گے ، جتنی حفاظت کریں گے ، اتنا اللہ تعالیٰ کی نصرت ، اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہوگی۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان آیات کو سمجھنے اور ان کے اوپر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سبحانک اللھم و بحمدک نشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک و نتوب الیک و صلی اللہ علی النبی
٭٭٭٭٭