نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس:الزامات، حقائق اور حکومت و اسٹیبلشمنٹ کا کردار

حذیفہ خالد by حذیفہ خالد
31 مئی 2024
in عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!, اپریل و مئی 2024
0

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں اغوا کا واقعہ تو 2003ء میں ہوا البتہ 2008ء میں ڈاکٹر عافیہ کی موجودگی کی خبر کے بعد سے ڈاکٹر عافیہ کا ایشو وقتاً فوقتاً اخبارات اور نیوز چینلز میں خبروں کا حصہ بنتا رہتا ہے۔ چاہے لوکل میڈیا ہو یا عالمی میڈیا اس میں تواتر کے ساتھ ان الزامات کی تکرار اس طرح کی گئی اور آج تک کی جاتی ہے کہ بہت سے مسلمان بھی ان الزامات کو کسی قدر سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ دجالی میڈیا کا طریقہ واردات یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے کیس کے متعلق کوئی چھوٹی سی خبر یا اپڈیٹ ہے وہ جب بھی دیں گے چاہے وہ چند الفاظ پر مبنی ہو، اس کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ پر لگائے جانے والے الزامات کی پوری لسٹ بھی ضرور بیان کی جائے گی۔ اور ایسی مکروہ صحافت صرف امریکی یا بین الاقوامی میڈیا نہیں کررہا بلکہ ہمارے پاکستانی چینلز بھی اسی گھٹیا اصول کے پابند ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی نیوز چینل یا صحافی یہ نہیں بتائے گا کہ جو الزامات میڈیا پر 2003ء سے آج تک تسلسل کے ساتھ لگائے جاتے ہیں اگر ان میں ایک فیصد بھی سچائی تھی تو ان کی بنیاد پر ہی امریکیوں کو کیس بنانا چاہیے تھا۔ جبکہ ایسا نہیں ہوا۔

آخر ڈاکٹر عافیہ کا جرم کیا تھا؟

امریکی الزامات کے علاوہ کچھ سازشی نظریات بھی پھیلائے گئے جیسے اس کے پاس کوئی خطرناک کیمیائی فارمولا تھا جو وہ امریکہ کو نہیں دینا چاہتی تھیں ۔ بظاہر اس جھوٹ کو پھیلانے کا مقصد ڈاکٹر عافیہ کے کیس کو اتنا پیچیدہ اور خطرناک ظاہر کرنا تھا کہ لوگ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا خیال ہی دل سے نکال دیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی پی ایچ ڈی بچوں کی ذہنی استعداد کے حوالے سے تھی اس کا کسی کیمیائی ہتھیار سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے آخر ڈاکٹر عافیہ کیوں نشانہ بنیں۔ اس کی ایک معقول وجہ جو سمجھ آتی ہے وہ ڈاکٹر عافیہ کی دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے حوالے سے فلاحی سرگرمیاں تھیں۔ جس کو نائن الیون کے بعد بپھری ہوئی امریکہ کی سکیورٹی فورسز نے شدت پسندی سے تعبیر کیا۔ جن لوگوں نے ڈاکٹر عافیہ کے امریکہ میں معمولات دیکھے وہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک چھوٹے قد کی، خاموش طبع، باتہذیب اور شرمیلی خاتون تھیں، جنہیں محفل میں کوئی مشکل سے ہی نوٹ کرسکتا تھا۔ مگر یہی لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر موقع پر کچھ کہنے کی ضرورت پڑتی تو پیچھے بھی نہ ہٹتی تھیں۔ ایک مرتبہ وہ مسجد میں بوسنیا کے یتیم بچوں کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے تقریر کر رہی تھیں۔ تقریر کے دوران انہوں نے وہاں موجود مرد سامعین سے بھی گلہ کر ڈالا: ”کہاں ہیں مرد؟ مجھے ہی کیوں یہاں کھڑے ہو کر یہ کام کرنا پڑ رہا ہے؟‘‘ اور بات بھی ان کی ٹھیک تھی۔ وہ مسلمان بھائیوں سے بھرے معاشرے میں ایک بہن، ایک ماں، ایک بیوی اور ایک طالبہ ہی تو تھیں۔ وہ بھائی جو اسلام کے کسی کام کے نہ تھے……!

جب وہ MIT یونیورسٹی (امریکہ میں واقع دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک) میں طالبہ تھیں تو انہوں نے مقامی جیلوں میں قید مسلمانوں تک قرآن کریم اور دیگر اسلامی مواد پہنچانے کا پروگرام مرتب کیا۔ یہ مواد وہ ایک مقامی مسجد تک پہنچانے کا بندوبست کرتیں اور پھر خود ہی مسجد جا کر وہ بھاری بکسے تنہا اٹھا کر سیڑھیوں سے تین منزلیں نیچے رکھ کر آتیں۔

یونیورسٹی کے اندر بھی ان کی اسلام سے لگن نمایاں تھی۔ 2004ء میں Boston Magazine (بوسٹن میگزین) میں شائع ہونے والےایک مضمون میں لکھا ہے:

”جو ممبران دوسروں کو اسلامی تعلیم دینا چاہتے تھے، ان کے لیے عافیہ نے تین گائیڈ بکس (معلوماتی کتابیں) لکھیں۔ گروپ کی ویب سائٹ پر انہوں نے (اسلامی) دعوت ٹیبل چلانے کا طریقہ بیان کیا۔ یہ ٹیبل دراصل ایک معلوماتی اور استقبالیہ میز تھی جو کہ اسکولوں میں لگائی جاتی۔ اس میز پر موجود مسلمان غیر مسلموں کو اسلام کے بارے میں بتاتے اور انہیں مسلمان ہونے پر آمادہ کرتے۔“

مضمون نگار مزید لکھتا ہے کہ وہ گائیڈ بکس جو عافیہ نے لکھیں، ان میں سے ایک میں لکھا تھا:

”ذرا سوچیں! ہمارا یہ حقیر مگر پر خلوص دعوتی کام اگر کل کو اس ملک کی ایک بڑی دعوتی تحریک بن جائے! بس ذرا سا تخیل کریں! اور ہم کتنا ثواب کما لیں گے ان تمام لوگوں کا جو ہماری اس تحریک کے ذریعے آنے والے سالوں میں مسلمان ہوں گے۔ بڑی سوچ رکھیں اور بڑے منصوبے بنائیں۔ اللہ ہمیں یہ قوت اور اخلاص عطا فرمائے کہ ہم اپنے مخلصانہ اور خاکسار کام کو جاری رکھیں اور اسے پھیلائیں یہاں تک کہ امریکہ ایک مسلمان ملک بن جائے!“

ہفتے میں ایک مرتبہ اتوار کے روز وہ اپنے راستے سے قدرے ہٹ کے مقامی مسلمان بچوں کو پڑھانے گاڑی چلا کے جاتی تھیں۔ ایک مسلمان بہن نے بتایا جو کہ عافیہ کے حلقوں میں حاضر ہوا کرتی تھیں کہ:

” عافیہ محض اس لیے یہاں آتی تھیں کہ لوگوں کو اسلام کی تعلیم دیں، حالانکہ انگریزی ان کی مادری زبان بھی نہ تھی۔ “

ایک اور بہن جو عافیہ کے حلقے اٹینڈ کرتی تھیں، کہتی ہیں:

’’وہ ہمیں کہا کرتی تھیں کہ کبھی اس بات پر ( پشیمان ہو کر) بہانے نہ بنانا کہ تم کون ہو (یعنی مسلمان ہونے پر)۔ امریکی کمزور لوگوں کی کوئی عزت نہیں کرتے۔ امریکی صرف تب ہماری عزت کریں گے جب ہم کھڑے ہوں اور مضبوط ہوں۔‘‘

کافی سال قبل برطانیہ میں ایک مظاہرے کے دوران ٹونی بلئیر کی سسٹر اِن لاء نو مسلم خاتون لارین بوتھ کہتی ہیں:

’’ ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ نے اس لیے نہیں گرفتار کیا کیونکہ وہ دہشت گرد تھیں بلکہ انہیں اس لیے گرفتار کیا کیونکہ وہ گرفتاری (اغوا) سے پہلے کئی سال تک بوسنیا کے مسلمانوں کے لیے فنڈ ریزنگ کرتی رہیں، امریکہ کے افغانستان و عراق پر حملے کے خلاف آواز اٹھاتی رہیں، She was one of the best of us۔‘‘

ایک الزام ڈاکٹر عافیہ کے حوالے سے میڈیا میں تو بار بار بیان کیا جاتا ہے البتہ کورٹ کی کارروائی میں اس کا کہیں بھی ذکر نہیں، وہ یہ کہ خالد شیخ محمد فک اللہ اسرہ نے ڈاکٹر عافیہ کا نام لیا۔ وہ بھی 17 دفعہ واٹر بورڈنگ کی ٹارچر تکنیک ان پر آزمائی گئی تب۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اس حوالے سے ترک نشریاتی ادارے ٹی آرٹی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کی تحقیق کے مطابق خالد شیخ محمد ایک دعا پڑھ رہے تھے، اللّٰھم إنی أسئلک العافیۃ (اے اللہ! میں آپ سے عافیت کا طلبگار ہوں)، بس امریکی تفتیش کاروں کا خالد شیخ محمد کی زبان سے لفظ عافیہ کا سننا، عافیہ کو قصوروار ٹھہرانے کے لیے کافی تھا۔

گزشتہ دنوں ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو سمتھ کیس کے حوالے سے تحقیق و تفتیش کی غرض سے افغانستان کے دورے پر تھے۔ ایک پوڈکاسٹ میں اس دورے میں ملنے والی معلومات بھی شیئر کیں۔ ان کے مطابق جن دنوں ڈاکٹر عافیہ کی بگرام میں موجودگی کی خبر میڈیا پر آچکی تھی اور یہ پاکستانی حکومت کے لیے ذلت و شرمندگی کا مقام تھا۔ اس وقت ڈاکٹر عافیہ کو قتل کرنے کی مکمل منصوبہ بندی ہوئی۔ ڈاکٹر عافیہ کو قید سے نکال کر بتایا گیا کہ وہ غزنی جائیں، وہاں ان کی بیٹی انہیں مل جائے گی۔ ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ ان کے بیٹے کو بھی روانہ کیا جو پانچ سال الگ قید رکھا گیا تھا۔ انہیں ٹارچر کرکے سمجھایا گیا تھا کہ وہ کسی کو اپنا اصل نام نہ بتائیں۔ اب ڈاکٹر عافیہ کئی گھنٹے ایک مسجد کے سامنے انتظار کرتی ہیں، اتنے میں وہیں کا رہائشی ایک شخص محمد اجمل جسے اردو آتی تھی وہ ڈاکٹر عافیہ سے پوچھتا ہے وہ یہاں کیوں کھڑی ہیں، یہ جنگ زدہ علاقہ ہے اور محفوظ نہیں۔ اتنے میں افغان پولیس جنہیں فون پر اطلاع دی گئی ہوتی ہے کہ فلاں مقام پر خودکش بمبار ہے یہاں پہنچ جاتی ہے اور بندوقیں تان لی جاتی ہیں۔ اس وقت محمد اجمل پولیس اور ڈاکٹر عافیہ کے درمیان سینہ تان کر کھڑا ہوجاتا ہے اور انہیں گولی چلانے سے روکتا ہے۔ یہ نوجوان ڈاکٹر عافیہ کی جان بچانے کا سبب بنا ورنہ ڈاکٹر عافیہ کو بچے سمیت قتل کرکے خودکش بمبار ثابت کرنے کے تمام لوازمات اور منصوبے مکمل تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی مقصود تھا۔ اب اس کے بعد ڈاکٹر عافیہ کو پولیس سٹیشن لے جایا جاتا ہے، انہیں کمرے میں بٹھایا جاتا ہے جسے ایک پردے سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ جب امریکیوں کی آواز سنتی ہیں تو پریشان ہوتی ہیں کہ یہ دوبارہ پکڑنے آئے ہیں۔ پردہ ہٹا کر دیکھتی ہیں تو امریکی فوجی ڈاکٹر عافیہ کو دیکھ کر فائر کھول دیتے ہیں۔ امریکی اپنے جرائم چھپانے کے لیے قصہ گھڑتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ نے ان کی ایم فور رائفل اٹھائی اور فائر کیے۔ جبکہ اس کاکوئی فارنزک ثبوت نہیں، نہ ہی ڈاکٹر عافیہ کی انگلیوں کے نشان، نہ گن شاٹ ریزیڈیو، یا گولیوں کے شیلز۔ تمام فوجیوں کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف تھے، اس کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کو 86 سال سزا سنائی جاتی ہے۔

ڈاکٹر عافیہ کو جب افغانستان سے امریکہ لے جایا گیا اور کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چینلز پر یہ خبر چلائی گئی کہ وہ اپنی لیگل ٹیم سے تعاون نہیں کرتی ہیں، ان سے ملنا نہیں چاہتی ہیں۔ یہ خبر پاکستان میں بھی چلائی گئی اور پھر سالوں تک وقفے وقفے سے میڈیا پر چلوائی جاتی رہی کہ ڈاکٹر عافیہ وکیل سے ملنا نہیں چاہتیں، وہ پاکستان نہیں آنا چاہتیں۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ امریکی جیل قوانین کے مطابق ڈاکٹر عافیہ سے جب بھی کوئی ملاقات کے لیے آتا تو ڈاکٹر عافیہ کو ملاقات سے قبل اور ملاقات کے بعد برہنہ تلاشی سے گزرنا پڑتا۔ اس طریقۂ کار کے متعلق یوان ریڈلی نے بھی تصدیق کی۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے اس طریقہ کار کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی ہے، اگر اس برہنہ تلاشی کے دوران کوئی مزاحمت یا روکنے کی کوشش کرے تو پھر چار مرد گارڈز مزید سختی سے تلاشی لیتے جس میں شرمگاہ تک کو سرچ کیا جاتا ہے اور یہ کسی ریپ سے کم نہیں ہے۔ یوان ریڈلی کا یہ بیان ڈاکٹر عافیہ کی سزا کے ابتدائی دنوں کا ہے۔ اس طریقہ کار کی تصدیق چند سال قبل امریکہ میں انسانی حقوق کے ایک مسلم ایکٹوسٹ موری سلاخان نے بھی کی کہ یہ ابھی تک جاری تھا۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کا کردار

اگرچہ قومی اسمبلی میں ڈاکٹر عافیہ کے لیے قرارداد پاس ہوئی، انہیں قوم کی بیٹی کہا گیا اور مختلف سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ کے لیے آواز بلند کرتی رہیں، البتہ حکومت میں آکر تقریباً سب نے ہی بھولنے کی منافقانہ پالیسی اپنائی۔

  1. امریکی صدر کے پاس اپنے دور اقتدار کے آخر میں صدارتی معافی کا اختیار ہوتا ہے۔ ایک خبر کے مطابق اوبامہ دور حکومت کے آخر میں پاکستانی حکام سے پوچھا بھی گیا لیکن حکومت پاکستان کی جانب سے آفیشلی کوئی درخواست نہیں کی گئی۔

  2. دوسری دفعہ ٹرمپ کے دور اقتدار کے آخر میں ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ نے اپنے وکلاء کے ذریعے اپنے طور پر صدارتی معافی حاصل کرنے کے لیے کاغذات تیار کروائے۔ اب حکومت پاکستان یہاں دوبارہ مداخلت کرتی ہے اور ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ سے وہ فائل اس بنیاد پر لے لیتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اس کا جمع کروایا جانا مؤثر ہوگا۔ اب ان کاعذات میں ردوبدل کردیا جاتا ہے اور اسے صدارتی معافی کی بجائے سزا میں تخفیف کے دستاویز بنا دیا جاتا ہے۔ بہرحال کسی طرح دوبارہ کوشش کی جاتی ہے کہ ٹرمپ تک صدارتی معافی کے لیے فائل پہنچے لیکن تب تک دیر ہوچکی ہوتی ہے اور ٹرمپ کی حکومت ختم ہوجاتی ہے۔
  3. یہ بات بھی سامنے آئی کہ امریکی حکام نے ڈاکٹر عافیہ کی جانب سے اپنے اہل خانہ کے لیے لکھے گئے خطوط پاکستانی سفارت خانے کے حوالے کیے اور پاکستانی سفارتخانہ ان خطوط سے ہی انکاری ہوگیا۔ یہ راز پاکستانی عدالت میں ایک سماعت کے موقع پر ظاہر ہوا کہ پاکستانی سفارتخانہ ڈاکٹر عافیہ کے لکھے گئے خطوط بھی نہیں دیتا۔
  4. کورونا کی وبا کے دوران جب امریکہ میں موجود غیرملکی قیدیوں کو ان کے اپنے ممالک کے حوالے کیا جارہا تھا، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی اپیل کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کی حوالگی کے لیے حکومت پاکستان نے آفیشلی کوئی درخواست نہیں کی۔
  5. امریکی قیدی کے تبادلے کی ڈیل یوان ریڈلی کے مطابق افغان طالبان کے درمیان فائنل ہوچکی تھی یہاں تک کہ یہ طے ہورہا تھا کہ ہیلی کاپٹر کس جگہ ڈاکٹر عافیہ کو اتارے گا اور امریکی قیدی کو لے جائے گا، کہ آئی ایس آئی کو پتہ لگ جاتا ہے اور وہ یہ ڈیل ناکام بناتی ہے۔
  6. اس پورے عرصے میں ڈاکٹر عافیہ کا خاندان ایک طرف تو جہاں ڈاکٹر عافیہ کی امریکہ میں قید کا دکھ سہتا رہا وہیں وقتاً فوقتاً ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور بچوں کو مستقل ڈرایا اور دھمکایا جاتا رہا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی کوششوں سے باز آجائیں۔ 2016ء میں ایک دفعہ ڈاکٹر فوزیہ کے گھر کے چوکیدار سے بچوں کی تفصیلات لینے کی کوشش کی گئی، اس نے انکار کیا تو اس غریب کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
  7. ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی سینیٹر مشتاق کے ہمراہ امریکہ روانگی سے قبل بھی بچوں کو ڈرایا دھمکایا گیا۔ اس سے متعلق سینیٹر مشتاق نے ویڈیو بیان بھی دیا۔
  8. حال ہی میں ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو سمتھ نے انکشاف کیا کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے منہ پر (کسی مجرم کی مانند) کپڑا چڑھا کر دھمکایا گیا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی کوششوں سے باز آجائیں۔
  9. ریمنڈ ڈیوس کے علاوہ شکیل آفریدی کے معاملے میں بھی اب خود امریکی ہی ڈاکٹر عافیہ کے تبادلے کی بات کررہے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے مکمل خاموشی ہے۔ چند سال قبل امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کا ایک آنلائن پروگرام ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور پاک امریکہ تعلقات کے موضوع پر ہوا۔ وکالت کے پیشے سے منسلک داؤد غزنوی نے جو ڈاکٹر عافیہ پر ایک کتاب Aafia Unheard لکھ چکے ہیں کسی قدر بہتر انداز میں ڈاکٹر عافیہ کے کیس پر بات کی۔ بظاہر پروگرام کا میزبان بھی ڈاکٹر عافیہ کے حق میں دیے گئے دلائل سے متفق نظر آیا لیکن ستم ظریفی دیکھیے واشنگٹن میں ARY کا نمائندہ جہانزیب علی وہی روایتی زہر اگلتا ہے۔
  10. ایک گھٹیا حرکت جو آئی ایس پی آر کی سوشل میڈیا ٹیم تواتر سے کرتی آرہی ہیں وہ وقتاً فوقتاً ڈاکٹر عافیہ کی موت کی یا رہائی کی افواہ اڑانا ہے۔ اکثر یہ حرکت ایسے موقعوں پر کی گئی جب کسی اہم ایشو یا سکینڈل سے توجہ ہٹانا مقصود ہوتا ہے۔

یہ بھی نہایت افسوسناک بات ہے کہ جو مذہبی سیاسی جماعتیں سٹریٹ پاور رکھتی ہیں انہوں نے کبھی بھی اس ایشو کو لے کر حکومت کو ٹف ٹائم نہیں دیا۔ بالفرض قیادت گرفتار ہوجائے تو تب کارکنوں کا کیا ردعمل ہوگا۔ کیا ڈاکٹر عافیہ کے لیے بھی ویسا ہی ردعمل ہے ان کا؟

صرف کراچی جیسے شہر میں ایسے تہجد گزار سرمایہ داربھی موجود ہیں جن کے لیے ڈاکٹر عافیہ کے کیس کی وکالت کے اخراجات برداشت کرنا کچھ مشکل نہیں۔ کیا ان میں سے کسی ایک نے بھی زحمت کی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کی جانے والی کوششوں میں تعاون کریں۔ ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو سمتھ کے مطابق انہیں ڈاکٹر عافیہ کا کیس لڑنے کے لیے مالی معاونت کی ضرورت ہے کیونکہ امریکی نظام انصاف میں کسی کا کیس لڑنا کافی مہنگا ہے۔

وقت کی اہم ضرورت یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس میں اب تک جو کچھ ہوا، جس طرح حکومت اور فوج نے منافقانہ کردار ادا کیا ہے، یہ معلومات پھیلائی جائیں۔ علماء اور خطیب حضرات کو یہ تفصیل فراہم کریں اور انہیں راضی کریں کہ اس بابت نماز جمعہ کے خطبے میں بات کریں۔ اس طرح تمام لوگ ہی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

سورۃ الانفال | ساتواں درس

Next Post

بہاولنگر واقعہ: ایک دراڑ جو دور تلک جائے گی

Related Posts

عافیہ
عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!

کاش ہم میں بھی کوئی ’پینگوئن‘ ہوتا

31 مارچ 2025
عافیہ
عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!

عافیہ

31 مارچ 2025
عافیہ صدیقی: بیٹی فروشوں اور صلیبی درندوں کے ظلم کی داستان
عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!

عافیہ صدیقی: بیٹی فروشوں اور صلیبی درندوں کے ظلم کی داستان

14 مارچ 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط

31 مئی 2024
صبر اور مقامِ صدّیقین | دوسری (و آخری) قسط
تزکیہ و احسان

صبر اور مقامِ صدّیقین | پہلی قسط

31 مئی 2024
فلسطین: امن و جنگ کے ۷۵ سال
طوفان الأقصی

فلسطین: امن و جنگ کے ۷۵ سال

31 مئی 2024
Next Post
بہاولنگر واقعہ: ایک دراڑ جو دور تلک جائے گی

بہاولنگر واقعہ: ایک دراڑ جو دور تلک جائے گی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version