یہ تحریر یمن کے ایک مجاہد مصنف ابو البراء الاِبی کی تصنیف’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)
آٹھویں وجہ: امنیات کے بہانے حرام میں پڑ جانا
بعض مجاہد جو امنیات کے نام پر بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ مثال کے طور پہ امنیات کی خاطر منہ میں ’قات ‘رکھنا شروع کر تے ہیں، پھر اس کے عادی بن جاتے ہیں۔ اسی طرح سگریٹ پیتے ہیں، داڑھی مونڈتے ہیں، پینٹ پہنتے ہیں اور اسی طرح کی دیگر نا پسندیدہ حرکتیں شروع کردیتے ہیں۔ اور کتنے ایسے ساتھی ہیں جو ان کاموں کی وجہ سے جہاد چھوڑ بیٹھتے ہیں۔
امنیاتی اقدامات اٹھانے میں اسراف اور افراط بسا اوقات شرعاً یا عقلاً حرام یا منع کردہ کاموں کی طرف لے جاتا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حرام اقدامات اٹھانا ناجائز ہے خاص کر اگر شرعاً مباح یا مکروہ راستے موجود ہوں۔ داڑھی مونڈنے جیسے حرام کا ارتکاب در اصل دو برائیوں میں سے کم برائی اختیار کرنے کے اصول کے تحت ہے۔ دنیا بھر میں اپنے بھائیوں کی مدد کرنا لازم فرض ہے، اور یہ فرض اعداد کے بغیر ادا نہیں ہو سکتا۔ لیکن اعداد کی سرزمین تک پہنچنے کے لیے داڑھی مونڈنی پڑتی ہے۔
مناسب ہو گا کہ یہاں کچھ مثالیں پیش کریں تاکہ نکتہ واضح ہو جائے اور اس پر بھائی قیاس کریں تاکہ اس جیسی حرکت سے بچ سکیں۔
اسلام میں داڑھی مونڈنے کا حکم ہر کوئی جانتا ہے۔ مجاہد ساتھیوں کو اس کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ اللہ کے دشمنوں کے نزدیک محض داڑھی رکھنا ان پر الزام لگانے کے لیے ایک نشانی ہے اور اسے گرفتار کرنے اور جیل میں ڈالنے کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ اس لیے شریعت میں ’الضرورات تبیح المحظورات‘ کے قاعدے کے تحت داڑھی مونڈنا جائز بن جاتا ہے (یعنی ضرورت کے تحت منع کردہ کام جائز ہو جاتا ہے)۔ لیکن اس شرط پر کہ ضرورت یقینی یا یقینی کی طرح ہو، نہ کہ خیالی ہو۔
لیکن اس میں اسراف یہ ہوتا ہے کہ ایسا ساتھی مسلسل مونڈتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ ایسی عادت بن جاتی ہے جیسا کہ باقی دنیا دار کرتے ہیں۔ صالح مجاہد کو چاہیے کہ وہ نہ بھولے کہ اجازت بقدر ضرورت ہوتی ہے۔ پس اگر ہر تین دن میں ایک دفعہ مونڈنا کافی ہو تو اس کے لیے ہر دوسرے دن مونڈنا جائز نہیں۔
نیز اگر داڑھی کو کم کرنا کافی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعض ملحدین کی طرح اس کا کچھ حصہ مونڈے اور دوسرا رہنے دے جسے بعض ملکوں میں ’فرنچ کٹ‘ کہا جاتا ہے۔
صالح انسان کو یہ بھی چاہیے کہ وہ ہر دفعہ مونڈتے وقت اپنے دل میں اللہ رب العزت کے سامنے ذلت اور عاجزی کو حاضر کرے۔ جیسے کہ وہ بزبانِ حال یہ کہہ رہا ہو: اے اللہ! میں ضرورت کی وجہ سے ایسا کر رہا ہوں نہ کہ انبیاء کی سنت کو نا پسند کرتے ہوئے۔ ہر دفعہ ایسا کرے تاکہ کچھ عرصے کے بعد اسے اس حرکت میں عار محسوس ہونا ختم نہ ہو جائے۔
(ہم دوبارہ یہاں دہراتے ہیں کہ مونڈنا ضرورت کی بنا پر ہے، نہ کہ جیسے بہت سے لوگ مجاہدین سے رابطے رکھنے اور ہجرت کرنے سے پہلے ہی اپنےوطن میں شروع کر دیتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اگر ان سے کوئی سرگرمی ہوتی ہو تو وہ زبان سے حق بات کہنا ہے۔ اور اپنے لیے ایک بہانہ بنا دیتے ہیں کہ جب ان سے کوئی پوچھے تم ایسا کیوں کرتے ہو تو کہتے ہیں : امنیات کی خاطر! وہ ہمیں تو اس بہانے سے دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن اللہ رب العزت کو کیسے دھوکہ دیں گے؟)
بسا اوقات سرحد پار کرتے ہوئے ’چیونگم‘ چبانا پڑ جاتی ہے۔ تو اس میں حرج نہیں۔ لیکن صالح انسان کو چاہیے کہ اسے عورتوں اور فاسقوں کی طرح عادت نہ بنا دیں۔
کسی جگہ تہمت سے بچنے کے لیے ہاتھ میں سگریٹ یا فحش رسالہ پکڑنا۔ یا اسی طرح کی کوئی اور حرکت۔ اس حوالے سے کچھ ٹھہر کر یہ کہیں گے کہ اگر سگریٹ پکڑنا ناگزیر ہی ہو تو محض پکڑے لیکن آگے بڑھتے ہوئے جلائے نہ، اور اگر ایک کش کافی ہو تو دو تین دفعہ کش نہ لے۔ یہ اسی طرح ہے جیسا کہ اگر زندگی بچانے کےلیے شراب کا ایک گھونٹ پینا ضروری ہو تو دوسرا گھونٹ پینا جائز نہیں (یہ حکم اس بنا پر ہے کہ سگریٹ نا جائز ہو)۔
اور اگر ایجنسی اہلکاروں کے سامنے سگریٹ اٹھانا کافی ہو تو فحش رسالہ خریدنے کا کوئی جواز نہیں۔ اور اگر سونے کی زنجیر ہاتھ میں پکڑنا کافی ہو تو اسے گلے میں ڈالنے یا ہاتھ میں ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کھانے پینے کے بارے میں باتیں کرنا کافی ہوں تو شک دور کرنے کے بہانے گالی گلوچ اور فحش باتیں کرنا جائز نہیں۔ اپنے آپ کو چھپانے کی خاطر حرام کے اندر پڑ جانا ناقابل قبول ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی مجلس سے نکلتے ہوئے شراب اور زناکاری کی باتیں کرے تاکہ مجلس کی امنیت برقرار رہے۔ اسی طرح اگر کھانے پینے کی باتیں کرنا کافی ہیں تو فرضی میچ کی باتیں کرنے کی ضرورت نہیں۔ وعلیٰ ھذا القیاس!
(بحوالہ الموسوعۃ الامنیۃ)
نویں وجہ: مباحات میں حد سے زیادہ بڑھ جانا
سلف امت کو علم تھا کہ مباحات میں اسراف اور حد سے بڑھ جانے سے بندہ کو کتنا نقصان ہوتا ہے اس لیے انہوں نے اس سے خبردار کیا۔
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
أول بلاء حدث في هذه الأمة بعد نبيها الشبع، فإن القوم لما شبعت بطونهم سمنت أبدانهم فضعفت قلوبهم و جمحت شهواتهم.
”اس امت پر نبی کے بعد سب سے پہلی آفت شکم سیری تھی۔ جب لوگوں کے پیٹ بھر گئے تو ان کے جسم بھاری ہو گئے، ان کے دل کمزور ہو گئے اور ان کی شہوتیں تیز ہو گئیں۔‘‘
ابو سلمان دارانی فرماتے ہیں:
”جس کا پیٹ بھر جائے تو وہ چھ آفتوں میں مبتلا ہوتا ہے:
مناجات کی لذت ختم ہو جاتی ہے۔
دانائی کی باتیں یاد نہیں رہتیں۔
خلق خدا پر شفقت سے محروم ہو جاتا ہے۔ خود شکم سیر ہونے سے سمجھتا ہے کہ لوگوں کا پیٹ بھی بھرا ہے۔
عبادت بھاری ہو جاتی ہیں۔
شہوتیں زیادہ ہو جاتی ہیں۔
تمام مؤمن مسجدوں کے گرد گھومتے ہیں اور شکم سیر کوڑا کرکٹ کے گرد۔“
شیخ الاسلام ابن تیمیہ اپنے شاگرد کو مباحات میں بڑھ جانے سے منع کرتے ہیں۔ چنانچہ ابن القیم فرماتے ہیں:
”ایک دن مجھے شیخ الاسلام نے مباحات کے حوالے سے کچھ نصیحت کی کہ یہ اونچے مرتبوں کے خلاف ہے، اگرچہ انہیں چھوڑنا نجات کے لیے شرط نہیں ہے۔ یعنی کہ مباحات میں بڑھنا جائز تو ہے لیکن اسے چھوڑنا اولیٰ ہے۔ کیونکہ وہ بندہ کو اس سے اہم اور افضل چیز سے مشغول کر دیتی ہے۔
بعض مجاہد جوان مباحا ت میں بہت افراط کرتے ہیں۔ آسائشوں اور سہولتوں میں بہت آگے بڑھ جاتے ہیں۔ مہنگا اور نفیس لباس پہننے میں مبالغہ کر تے ہیں۔ جس سے ان کی طبیعت زنانہ پن کا شکار ہو جاتی ہے۔ ان کا شعور کند ہو جاتا ہے۔ ان کا دین کمزور ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے لباس و پوشاک میں ہی مشغول رہتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
البذاذة من الإيمان.
”شکستہ حالی ایمان کا حصہ ہے۔“
یعنی کہ لباس کے معاملہ میں زاہدانہ اور عاجزانہ رویہ اپنانا اور مقابلہ بازی اور فخر چھوڑنا۔ انہوں نے امیر المؤمنین حضرت عمرؓ بن خطاب کی وصیت کو نہیں اپنایا کہ:
وإياكم والتنعم، وزي العجم, وتمعددوا واخشوشنوا.
”آسودہ حالی اور عجم کے لباس سے بچو۔ (قبیلہ معد کی طرح) اکھڑ اور موٹے رہن سہن کے عادی بنو۔ خشک اور سخت زندگی گزارو۔“
سلف صالحین یعنی صحابہ، تابعین اور متقی اور پرہیزگار علماء مباحات میں حد سے تجاوز نہ کرتے تھے۔ انہوں نے کھانے پینے، سواری اور رہائش میں آسائشیں چھوڑ دیں۔
مباحات میں توسع بسا اوقات برے اخلاق کا عادی اور اچھی خصلتوں سے چھٹکارے کا سبب بنتا ہے۔ اسی لیے قاضی عیاض نے فرمایا:
”تمام برائی کو ایک گھر میں رکھا گیا اور اس گھر کی چابی حب دنیا بنائی گئی۔ اور تمام خیر کو ایک گھر میں رکھا گیا اور اس کی چابی زہد بنائی گئی۔“
کتانی صوفی نے فرمایا:
”جس چیز پر نہ کوفی اور مدنی کے درمیان اختلاف ہوا، نہ عراقی اور شامی میں؛ وہ دنیا سے بے رغبتی، سخاوت نفس اور لوگوں کو نصیحت کرنا ہے۔“
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ما ملأ آدمي وعاء شرا من بطنه.
”کسی انسان نے اپنے پیٹ سے بڑھ کر بری طرح کوئی برتن نہیں بھرا۔“
(بروایت ترمذی)
معدہ جب بھر جاتا ہے تو سوچ سو جاتی ہے اور اعضاء خدمت کرنے سے رہ جاتے ہیں۔
امام غزالی فرماتے ہیں:
”بعض شیوخ ہر رات دستر خوان پر کھڑے ہوتے اور کہتے تھے: زیادہ مت کھاؤ، تاکہ زیادہ نہ پیو، تاکہ زیادہ نہ سو، تاکہ موت کے وقت زیادہ حسرت زدہ نہ ہو۔“
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں:
إياكم والبطنة في الطعام والشراب، فإنها مفسدة للجسد، مورثة للسقم، مكسلة عن الصلاة، وعليكم القصد فيهما. فإنه أصلح للجسد ، وأبعد من السرف، وإن الله تعالى ليبغض الحبر السمين، وإن الرجل لن يهلك حتي يؤثر شهوته على دينه.
”خبردار کھانے پینے میں زیادتی نہ کرو۔ کیونکہ وہ جسم کو خراب کرتی ہے، بیماریاں پیدا کرتی ہے، نماز میں سستی کا سبب ہے۔ کھانے پینے میں میانہ روی اختیار کرو۔ کیونکہ وہ جسم کے لیے بہتر ہے، فضول خرچی سے بچے رہو گے۔ اللہ تعالی موٹے عالم کو پسند نہیں کرتا۔ شخص ہلاکت میں تب ہی پڑتا ہے جب اپنے دین کے مقابلے میں اپنی شہوت کو ترجیح دیتا ہے۔“
بعض مجاہدین لوگوں کے گھروں میں جاتے ہیں تو وہاں سجاوٹ دیکھتے ہیں۔ پھر چاہتے ہیں کہ اپنے گھر میں بھی ایسا کریں۔ بعض کے ہاں ڈیکوریشن کا سامان دیکھتے ہیں تو اسی طرح اپنے گھر میں بھی لانا چاہتے ہیں۔ اس کی بیوی عام لوگوں کے گھروں میں جاتی ہے جہاں اسے برتن اور تحفے نظر آتے ہیں تو اسی طرح اپنےگھر کے لیے بھی چاہتی ہےاور مجاہد اس کی بات مان لیتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ حضرت فاطمہ کے گھر گئے لیکن داخل نہ ہوئے۔ حضرت علیؓ آئے تو انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا۔ حضرت علی نے آپ ﷺ سے ذکر کیا اور فرمایا: اے اللہ کے رسولﷺ آپ ہمارے گھر میں کیوں نہ داخل ہوئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
إني رأيت على بابها سترا موشيا، ثم قال: مالي وللدنيا.
”میں نے دروازے پر گلدار پردہ دیکھا۔“ پھر فرمایا: ”مجھے دنیا سے کیا سروکار۔“
حضرت علیؓ نے واپس آکر بتایا تو حضرت فاطمہؓ نے فرمایا: جیسے کہتے ہیں ویسے کر لیتی ہوں۔ تو انہوں نے کہا: اسے فلاں کے گھر بھیج دو کیونکہ انہیں ضرورت ہے۔“
ممکن ہے کہ یہ حرام نہ ہوتا۔ اس لیے کہ اگر حرام ہوتا تو دوسرے کو بھی دینا نا جائز ہوتا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کو ایسے چیزیں اپنے گھر والوں اور عالی مرتبت والوں کے لیے نا پسند تھیں۔ آپ ﷺ کا گھر سادہ تھا۔ جیسے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا:
میں نے آپ ﷺ کے گھر میں نگاہ اٹھا کر دیکھی تو اللہ کی قسم مجھے تین چمڑوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا، تو میں نے آپ ﷺ سے فرمایا: آپ اللہ سے دعا کریں تاکہ وہ آپ کی امت کے لیے کشادگی فرمائیں۔ اب فارس اور روم بھی فراخی میں ہیں، انہیں دنیا ملی ہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت بھی نہیں کرتے۔ پیغمبر پاک ﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے تو فرمایا:
أو في شك أنت يا بن الخطاب! أولئك قوم عجلت لهم طيباتهم في الحياة الدنيا.
”کیا تمہیں کوئی شک ہے اے ابن خطاب! وہ تو وہ لوگ ہیں جن کے لیے نعمتیں اسی دنیا میں دے دی گئی ہیں۔“
تو میں نے کہا: اے رسول اللہ! میرے لیے مغفرت طلب کریں۔“
نبی اکرم ﷺ ریتیلے بستر پر سوتے تھے یہاں تک کہ اس کا اثر ان کے پہلو پر پڑ جاتا تھا۔
بعض صحابہؓ ان گھروں سے لوٹ جاتے تھے جس کی دیواروں کو پردوں سے ڈھانپا جاتا تھا۔ حضرت سہل بن عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں: میں نے اپنے والد کے زمانے میں شادی کی، تو میرے والد نے لوگوں کو دعوت دی۔ ان میں ابو ایوبؓ بھی تھے۔ لوگوں نے میرے گھر کو سبز پردوں سے سجایا تھا۔ حضرت ابو ایوبؓ آئے اور دیکھ کر کہا: اے عبداللہ دیواروں کو ڈھانپتے ہو۔ میرے والد کو شرم آئی اور کہا: اے ابو ایوب ہم پر عورتیں غالب آ گئیں۔ حضرت ابو ایوبؓ نے فرمایا: مجھے توقع نہ تھی کہ تم پر بھی غالب آ جائیں گی…… اور داخل ہونے کے بجائے وہیں سے لوٹ گئے۔
گویا مباحات میں توسع پایا جاتا ہے۔ بعض مجاہدین کے گھر میں اگر داخل ہو تو لگتا ہے کہ راستہ غلط کر دیا ہے۔ آیا یہ وزیر کا گھر ہے، یا امیر کا،یا بڑے تاجر کا۔ اتنی فضول خرچی اور اسراف۔ ممکن ہے اس میں سے بعض جہاد میں سے کچھ چوری کیا ہوا سامان بھی ہو۔
بعض ایسے ہیں جو اپنے گھر کے سامان کی خاطر طاغوت کے سامنے تسلیم ہو جاتے ہیں، والعیاذ باللہ۔ کل کو وہ ایسے کمرے میں سوتا تھا جو لاکھوں میں فروخت ہوتا اور آج وہ کسی درخت کے نیچے، یا کسی غار میں یا کسی چھوٹے سے جھونپڑے میں رہتا ہے تو اس سے صبر نہیں ہوتا اور تسلیم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ثابت قدمی کی دعا کیجیے۔
اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کر رہے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کو حلوہ اور شہد پسند تھا، پانی سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے، مشک کی خوشبو لگاتے تھے۔ ہمارا مقصد آسائش میں مبالغہ اور دکھاوے کے اہتمام سے پرہیز کرنا ہے۔
مباحات میں توسع بلکہ مکروہات میں سے رات کو جاگنا ہے۔ رات کو جاگنا الٰہی سنت کے خلاف ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَ هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِبَاسًا وَّ النَّوْمَ سُبَاتًا وَّ جَعَلَ النَّهَارَ نُشُوْرًا(سورۃ الفرقان: ۴۷)
’’اور وہی تو ہے جس نے رات کو تمہارے لیے پردہ اور نیند کو آرام بنایا اور دن کو اُٹھ کھڑے ہونے کا وقت ٹھہرایا۔‘‘
اور فرمایا:
هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ(سورۃ یونس: ۶۷)
’’وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں آرام کرو اور دن روشن بنایا (تاکہ اس میں کام کرو)۔‘‘
اللہ تعالی نے رات کو آرام اور پردہ بنایا ہے جو پوری دنیا پر چھا جاتی ہے تو ہل چل ختم ہو جاتی ہے۔ جانور اپنے ٹھکانوں میں چلے جاتے ہیں، پرندے اپنے گھونسلوں میں۔ اس میں انسان کو سکون ہوتاہے اور وہ دن بھر کام اور تھکاوٹ کے بعد آرام کرتا ہے۔ پھر جب آرام اور نیند پوری ہو جاتی ہے اور کام کاج اور روزی کا وقت آ جاتا ہے تو نور پھیلانے والا اللہ سبحانہ وتعالیٰ صبح کر دیتا ہے۔ جانور اپنے کھانے کے لیے نکلتے ہیں اور پرندے اڑ جاتے ہیں۔ تو تم اے مسلم مجاہد! اس الٰہی سنت اور ربانی حکمت کی خلاف ورزی کیوں کرتے ہو؟
ڈاکٹر فہد خضیری فرماتے ہیں:
”جدید تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ رات کو جاگنا دفاعی نظام پر اثر انداز ہونے والے عوامل میں سے اہم ترین ہے۔ رات کو جاگنا دفاعی نظام کے خلیوں کی حرکت اور ان کی یادداشت کو کمزور کر دیتا ہے۔ اور یہ بھی ثابت شدہ ہے کہ رات جاگنا اعصابی نظام اور احساس کے خلیوں کے کام میں خلل ڈالتا ہے۔ جس سے اعصابی نظام اور دماغ پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے۔ رات جاگنے سے ترکیز، یاداشت اور رد عمل کمزور ہو جاتے ہیں۔ جو شخص نئی چیزیں ایجاد کرنا چاہتا ہے، زیادہ پیداوار چاہتا ہے، عقلی اور جسمانی قوت میں زیادتی چاہتا ہے، اسے سفارش کی جاتی ہے کہ وہ عشاء کے بعد جلدی سوئے اور جلدی اٹھے تاکہ اس کی زندگی منظم ہو اور صحت مستحکم ہو۔“
مباحات میں توسع کی ایک اور مثال جہادی ترانوں کی کثرت ہے۔ شیخ ابو یحیی اللیبی فرماتے ہیں:
”طلب علم کے لیے فراغت حاصل کرنا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے راستہ کھولا ہے تو اللہ پر توکل کرتے ہوئے اس راستے میں جتنا بڑھ سکتے ہو بڑھو۔ اس کے بجائے کہ تم اپنے دن کے اور عمر کے ایک حصے کو ترانے سننے میں لگا دو، جس سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہونا۔ تو اس کے بجائے یہ وقت کسی درس یا وعظ یا فتاویٰ سننے میں صرف کرو۔ یا اپنے اسباق کے اعادہ میں، یا کسی دوست کے ساتھ دہرائی میں۔ اگر کوئی اور دورہ میسر آئے تو اس میں شریک ہونےکی پوری کوشش کرو۔ اس لیے کہ علم تو درجہ بدرجہ بڑھتا ہے، علم ایک دن یا یکدم حاصل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ١ۙ وَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ(سورۃ المجادلہ: ۱۱)
’’جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجات بلند کرے گا۔‘‘
شیخ محمد ناصر الدین البانی فرماتے ہیں:
”اگر ان ترانوں میں اسلامی مفاہیم ہوں،اور ان میں ساز اور ڈھول اور دف جیسے آلات استعمال نہ ہوں تو ان میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن ان کے جواز کے لیے ایک اور اہم شرط ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہوں، جیسے کہ غلو وغیرہ۔ اور ایک اور شرط کہ اسے اپنا مشغلہ نہ بنایا جائے، کیونکہ اس طرح قرآن کریم کی تلاوت رہ جاتی ہے، جس پر سنت نبویﷺ میں بہت تاکید ہے۔ اور اس سے علمِ نافع کا حصول اور اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت بھی رہ جاتی ہے۔“ (بحوالہ مجلہ الاصالہ، عدد دوم)
مباحات میں توسع کی ایک اور مثال نیند کی زیادتی ہے۔ اوراد ابی داؤد کے شرح میں لکھا ہے :
”زیادہ سونے کی کئی آفتیں ہیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ یہ بزدلی ، کمزوری ، کم عقلی اور بے وقوفی کی دلیل ہے۔ اس سے سستی ، کاہلی اور بے ہمتی کی عادت پڑ جاتی ہے۔اور عمر کو بے سود گزرانے کی عادت بن جاتی ہے۔ اس سے دل سخت ، غافل اور مر جاتا ہے۔ اس پر دلیل بضرورت ہر ایک کو معلوم ہے اور دیکھا جا سکتا ہے۔ اور اقوام کے محاوروں، حکماء کے اقوال، عرب کے اشعار ، صحیح احادیث ، سلف و خلف کے آثار سے بالتواتر منقول ہے۔ اختصار کی خاطر اور بر مشہور و معلوم ہونے کے سبب یہاں اس پر دلیل ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔“
(جاری ہے، ان شاء اللہ)