ایک اور حدیث سامنے لاتا ہوں، وہ حدیث بھی عجیب ہے۔ جس طرح ایک اور حدیث میں یہ بتایا کہ مجاہد دو طرح کے ہوتے ہیں، اسی طرح یہ حدیث بتاتی ہے کہ جہاد کے میدان میں قتل ہونے والے تین طرح کے ہوتے ہیں۔ حدیث کہتی ہے؛ اَلْقَتْلى ثَلَاثَة …… جہاد میں مارے جانے والے تین طرح کے ہیں، سب شہید نہیں ہیں۔
۱۔ رَجُلٌ مُؤمِنٌ جَاهَدَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فِي سَبِيلِ اللہ، ایک وہ بندۂ مومن جو اپنی جان و مال سے اللہ کے رستے میں لڑا…… حَتّٰی إذَا لَقِيَ الْعَدُو قَاتَلَھُمْ حَتّٰى يُقْتَل، یہاں تک کہ جب دشمن سے مقابلہ ہوا، تو ان سے لڑتا رہا یہاں تک کہ اس کو شہید کر دیا گیا…… فَذٰلِكَ الشَّهِيْدُ الْمُمْتَحَن، تو یہ وہ آزمائشوں سے گزر جانے والا، کامیابی سے گزر جانے والا شہید ہے کہ جو…… فِي خَيْمَةِ اللهِ، اللہ کے خیمے میں ہوگا…… تَحْتَ عَرْشِهِ، اللہ کے عرش تلے…… وَلَا يَفْضُلُهُ النَّبِيُّوْن إلَّا بِفَضْلِ دَرَجَةِ النُّبُوَّة، اور انبیاء کو اس پہ صرف نبوت کے اعتبار سے فضیلت حاصل ہوگی۔ اتنے اونچے مقام پہ ہوگا کہ انبیاء کو صرف نبوت کے درجے کے اعتبار سے اس پر فضیلت حاصل ہوگی۔
۲۔ دوسرا…… وَرَجُلٌ مُؤمِنٌ قَرَفَ عَلیٰ نَفْسِہِ مِنَ الذُّنُوْبِ وَ الْخَطَایَا، دوسرا وہ بندۂ مومن جس نے اپنی جان پر ظلم کیا، کچھ گناہ اور خطاؤں میں مبتلا ہوا، اللہ کی نافرمانیں کیں۔ اور بعض روایات میں آتا ہے کہ جو اپنے گناہوں سے ڈر گیا۔ اس کو یہ اندیشہ تھا کہ اس کے گناہ اس کو ہلاک کردیں گے، اس لیے اس نے میدان کا رخ کیا، ان گناہوں کو مٹانے کے لیے…… جَاهَدَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فِي سَبِيلِ الله…… پہلا وہ ہے کہ جس نے اپنی زندگی میں بھی اپنے آپ کو گناہوں سے بچایا اور جہاد بھی کیا اور شہید بھی ہوا تو اس کے تو کیا ہی کہنے۔ دوسرا وہ جو گناہ گار ہے لیکن اللہ کے رستے میں لڑتا ہے اپنے گناہوں کو مٹانے کے لیے، لڑتا ہے اللہ کے رستے میں اپنی جان و مال سے…… حَتّٰی إذَا لَقِيَ الْعَدُو قَاتَلَ حَتّٰى قُتِل، یہاں تک کہ جب اس کا دشمن سے سامنا ہوا تو وہ لڑتا رہا یہاں تک کہ شہید کر دیا گیا۔ حدیث کیا کہتی ہے…… فَتِلْکَ مَصْمَصَةٌ مَحَتْ ذُنُوْبَهُ وَخَطَايَاه، تو یہ شہادت اس کے گناہوں کو دھونے کا اور اس کی خطاؤں کو مٹانے کا ذریعہ بن جائے گی…… إنَّ السَّيْفَ مَحَاءٌ لِّلْخَطَايَا، کیوں؟ کیونکہ تلوار خطاؤں کو مٹا دیتی ہے، یہ شہادت جو ہے وہ اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گی۔ یہ دوسرا شہید ہے، اس کی فضیلت کیا ہے؟…… وأدْخِلَ مِنْ أيِّ أبْوَابِ الْجَنَّةِ شَاءَ، وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے گا داخل ہو جائے گا۔ وہ خود جس دروازے سے چاہے گا، اس کو چوائس دی جائے گی کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے…… فَإنَّ لَھَا ثَمٰنِیَۃَ أبْوَاب، اور سن لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں…… ولِجَھَنَّمَ سَبْعَۃُ أبْوَاب، اور جہنم کے سات دروازے ہیں…… وَبَعْضُھَا أفُضَلُ مِنْ بَعْض، اور جنت کے جو آٹھ دروازے ہیں، ان میں سے بھی بعض بعض سے افضل ہیں۔
۳۔ تیسرا بندہ جو جہاد ہی میں مارا جا رہا ہے…… وَرَجُلٌ مُنَافِقٌ، بندۂ منافق…… جَاهَدَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فِي سَبِيلِ اللہ، جس نے اپنی جان اور مال دونوں سے اللہ ہی کے رستے میں بظاہر قتال کیا…… حَتّٰی إذَا لَقِيَ الْعَدُو، یہاں تک کہ جب دشمن سے مقابلہ ہوا…… قَاتَلَ حَتّٰى قُتِلْ، لڑتا رہا یہاں تک کہ مارا گیا…… فَذٰلِكَ فِي النَّار، تو اس کا انجام جہنم ہے…… إنَّ السَّيْفَ لَا يَمْحُو النِّفَاق، حدیث کا آخری جملہ یہ کہتا ہے کہ تلوار بھی نفاق کو نہیں مٹا سکتی، منافقت کا علاج تلوار بھی نہیں کر سکتی۔ شہادت بھی مل جائے اس کو ظاہراً تو دل میں منافقت ہوگی تو اللہ کے ہاں وہ شہادت قبول نہیں ہوگی۔
پیارے بھائیو! یہ حدیث ہم پہ یہ بات واضح کرتی ہے کہ ہر میدان جہاد میں مرنے والا، ہر کافر سے لڑنے والا شہید نہیں ہوتا، مجاہد نہیں ہوتا۔ اُس کے لیے کچھ صفات ہیں جو شریعت کو مطلوب ہیں، جو اللہ کو مطلوب ہیں۔ وہ پوری کی جائیں گی تو اللہ تعالیٰ راضی ہوں گے، جہاد قبول ہوگا، شہادت قبول ہوگی۔ تو ہر ایک ہم میں سے اللہ سے ڈرے اور ان چاروں صفات کو اپنے اندر پورا کرنے کی کوشش کرے۔
اس سے اگلا جو نکتہ ہے اس حدیث کا وہ اس سے بھی زیادہ ڈرانے والا ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ یہ ساری بات فرما کے دوبارہ پوچھتے ہیں کہ تم نے کیا سوال پوچھا تو صحابی دوبارہ سوال دہراتے ہیں کہ میں نے یہ پوچھا کہ اگر میں اللہ کے رستے میں قتل کر دیا جاؤں تو کیا میری بخشش ہو جائے گی، سارے گناہ بخش دیے جائیں گے؟ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ہاں اگر تم یہ صفات پوری کرو تو بخشش ہو جائے گی…… سوائے قرضے کے، قرضہ معاف نہیں ہوگا…… کیونکہ مجھے جبرائیل علیہ السلام نے ابھی ابھی آکر یہ بات بتائی ہے کہ سب گناہ معاف ہو جائیں گے لیکن قرضہ معاف نہیں ہوگا۔
تو قرضے کے حوالے سے پہلے تو ایک اصولی بات سمجھ لیں۔ شارحین نے، علامہ قرطبیؒ، ملا علی قاریؒ اور دیگر حضرات نے اس کے ذیل میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ اس سے تین طرح کے قرض مراد ہیں۔ ایک وہ قرضہ جو کسی نے بلا ضرورت لیا فضول کاموں میں خرچ کرنے کے لیے، عبث کاموں میں خرچ کرنے کے لیے۔ اس کو کوئی حقیقی ضرورت نہیں تھی، ایسے ہی فالتو قرضہ لیا پھر اس سے ادا نہیں ہوسکا اور شہید ہو گیا تو شہادت قبول ہو گی، یہ شہادت میں مانع نہیں ہے، یہ نکتہ ذہن میں واضح رکھیں۔ اُن چاروں شرطوں میں سے ایک شرط بھی کم ہوگئی تو شہید نہیں ہوگا۔ لیکن قرضے کے معاملے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ بعض قرضے ایسے ہیں کہ جو شہادت میں تو مانع نہیں ہے، بندہ شہید ہے، اس کے باقی سب گناہوں کی مغفرت ہو جائے گی لیکن یہ قرضہ معاف نہیں ہوگا۔کون سا قرضہ……؟
۱۔ وہ قرضہ جو بلا ضرورت فضول کاموں میں خرچ کرنے کے لیے لیا، اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ تو قرض اتنا چھوٹا معاملہ نہیں ہے، اللہ کے یہاں ایک بوجھ ہے، تو اس لیے اس کو ایسے ہی کھیل تماشے میں نہیں لینا چاہیے۔ یہ جو ہمارے یہاں رواج بن گیا ہے لِیزِنگ کا، مغرب کی دیکھا دیکھی اب فریج بھی لیزنگ پہ، گھر بھی لیزنگ پہ، زمین بھی لیزنگ پہ، گاڑی بھی، کرتے کرتے سارا کچھ ہی لیزنگ پر آنا شروع ہو گیا ہے۔ تو یہ دین کا سکھایا ہوا طریقہ نہیں ہے، ضرورت کے بغیر یوں ہاتھ پھیلانا درست نہیں۔ تو شریعت نے ہمیں یہ بات سکھائی کہ اگر شہید بھی یہ والا قرضہ لے کر شہادت پائے گا تو قرضہ معاف نہیں ہوگا، اس کو کسی اور طرح وہاں پہ حساب دینا پڑے گا، کہ جو قرضہ بلا ضرورت لیا۔
۲۔ دوسرا، استطاعت کے باوجود جو قرضہ ادا نہیں کیا۔ استطاعت تھی لیکن اس نے قرضہ ادا نہیں کیا اور جہاد پہ چلا گیا حالانکہ پیسے تھے اس کے پاس، دے سکتا تھا، تو یہ قرضہ بھی معاف نہیں ہوگا۔
۳۔ تیسرا، وہ قرضہ کہ جس کو لیتے وقت ہی نیت تھی کہ ادا نہیں کرنا اور جہاد کو اس نے صرف بہانہ بنایا قرضہ نہ ادا کرنے کا۔ اس کی نیت ہی پہلے وقت سے یہی تھی کہ اس نے قرضہ ادا ہی نہیں کرنا۔ تو اگر وہ اس طرح مر گیا تو یہ کوئی عذر نہیں ہے۔ اس قرضے کا اللہ کے یہاں جواب دینا پڑے گا، ان تینوں طرح کے قرضے کا۔
لیکن اگر کسی نے حقیقی ضرورت سے قرضہ لیا اور حقیقی ضرورت سے قرضہ لینے کے بعد اس کی نیت بھی یہ تھی کہ وہ ادا کرے گا اس کو، اور پھر اس کے بعد جس وقت جہاد کی فرضیت اس کو سمجھ میں آئی کہ جب جہاد اس پہ فرض ہوا تو اس وقت اس کے پاس عملاً استطاعت نہیں تھی، نہیں ادا کر سکتا تھا۔ تو یہ نیت رکھتے رکھتے کہ جب بھی میرے پاس کہیں سے پیسے آئے تو میں ادا کروں گا اور کسی فضول کام کے لیے نہیں لیے تھے۔ اس شخص کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اس کا قرضہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ معاف کریں گے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن مقروض اور قرض خواہ دونوں کو کھڑا کریں گے اور مقروض کی طرف سے قرض خواہ کو اتنا دیں گے، اتنا دیں گے، اتنا دیں گے، کہ وہ راضی ہوکے اس کو بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ اس کی بخشش کر وادیں گے۔
اور اسی طرح حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن حرام الانصاریؓ کا کہ جو قرضہ لے کر شہید ہوئے اور رسول اکرم ﷺنے خود گواہی دی ان کی شہادت کی قبولیت کی اور اتنے اعلیٰ الفاظ میں گواہی دی کہ…… مَا زَالَتِ الْمَلَائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأجْنِحَتِهَا حَتّٰى رُفِعَ، کہ فرشتوں نے ان کے بلند ہوجانے تک، ان کے اٹھا لیے جانے تک ان کے اوپر اپنے پروں سے سایہ کیا ہوا تھا۔ حالانکہ وہ قرضہ لے کر شہید ہوئے تھے۔ اس لیے کہ وہ قرضہ اس قسم کا تھا جو میں نے آپ سے ذکر کیا کہ حقیقی ضرورت کے تحت لیا گیا اور نیت بھی تھی ادائیگی کی لیکن مالی قلت کی وجہ سے وہ نہ ادا کر سکے۔
تو یہ حکم قرض کے حوالے سے ذہن میں رکھیں، بہرحال قرض ہلکا معاملہ نہیں ہے۔ لیکن جو خطرناک پہلو ہے پیارے بھائیو! اس کا کہہ رہا ہوں وہ ہم سب کو، ہر ہر مجاہد کو اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اور وہ یہ کہ تمام شارحینِ حدیث نے اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے کہ یہاں اِلَّا الدَّیْن(سوائے قرضے) کا جو لفظ آیا ہے، اس سے مراد صرف قرضہ نہیں ہے۔ علامہ نوویؒ لکھتے ہیں…… اس سے مراد ہے کہ انسانوں کے حقوق کے سوا سب معاف ہو گا۔ یعنی شہید نے حقوق العباد میں جو تقصیر کی ہوگی وہ نہیں معاف ہوگی۔ یہی بات ہے جو علامہ نوویؒ بھی لکھتے ہیں، یہی بات ہے جو ابنِ حجرؒ بھی لکھتے ہیں، یہی بات ہے جو ملا علی قاریؒ بھی لکھتے ہیں۔ تمام معروف شارحینِ حدیث اس بات پہ متفق ہیں کہ شہید کے سب گناہ معاف ہوتے ہیں سوائے حقوق العباد کے۔
تو پیارے بھائیو! مسئلہ بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔ شہادت قبول ہوگی، اس کے باقی گناہ معاف ہو جائیں گے لیکن اس کے ساتھ پھر معاملہ کیا ہونا ہے؟ تو معاملہ یہ ہونا ہے… ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں کہ سب کچھ معاف ہوگا مسلمانوں کے حقوق کے علاوہ۔ ابنِ حجرؒ کہتے ہیں کہ ہوگا یہ اس کے ساتھ پھر کہ وہاں جانے کے بعد اس کے حقوق العباد کے علاوہ اس کے جتنے گناہ تھے وہ اس کے معاف ہو جائیں گے شہادت کی وجہ سے، پھر دیکھا جائے گا کہ ان گناہوں کی معافی کے بعد اب اس کی نیکیاں ایک طرف رکھی جائیں گی اور اس کی حقوق العباد میں تقصیر دوسری طرف رکھی جائے گی یا حقوق العباد میں جو کوتاہی ہوئی وہ دوسری طرف رکھی جائے گی۔ اگر نیکیاں غالب آگئیں تو پھر اللہ کے یہاں وہ بغیر جہنم میں جائے جنت کا مستحق ٹھہرےگا اور اگر اتنا بدبخت تھا کہ اتنے حقوق العباد میں اس نے کمزوری دکھائی اور اتنے انسانوں کے حقوق ضائع کیے کہ باقی سب گناہ معاف ہونے کے بعد بھی اس کی نیکیاں نہیں غالب آسکی، تو ابنِ حجرؒ کہتے ہیں کہ پھر اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے کہ اللہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں۔ اگر میں اسی سوال کو یوں رکھوں سامنے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص شہید ہونے کے بعد بھی سیدھا جنت نہ جائے، اس کو پہلے جہنم سے سزا کاٹنی پڑے……؟ تو یہ ممکن ہے۔ تو بھائیو! یہ نکتہ بہت خطرناک ہے اور اس کی طرف ہر مجاہد کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاد میں آنے کا اور شہادت کی راہوں پہ چلنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو بلینک چیک مل گیا ہے کہ جو مرضی کرو اب، جس طرح مرضی لوگوں کے حقوق پامال کرو، گناہ تو معاف ہو جانے ہیں۔ انسانوں کے حقوق کی عظمت اتنی زیادہ ہے اور اتنا خطرناک معاملہ ہے کہ قیامت کے دن اس کا حساب اپنی جگہ باقی رہے گا۔
تو یہ میں نے کہا کہ یہ کوئی شاذ رائے نہیں ہے، اس لیے کہ سب ہی محدثین نے اس کے ذیل میں یہی بات لکھی ہے۔ تو ملا علی قاریؒ یہ بات لکھتے ہیں کہ یہ بات اس لیے بھی معقول ہے کہ اگر قرضہ نہیں معاف ہو رہا تو اگر کسی شخص نے ناحق قتل کیا ہو تو وہ معاف ہو جائے گا……؟ صرف پیسے لے کے جس نے واپس نہیں کیے، اس پہ معافی نہیں مل رہی شہید کو، تو اگر اس نے قتل کیا ہو، اس نے چوری کی ہو، اس نے ڈاکہ ڈالا ہو، اس نے عزتوں پہ ہاتھ ڈالا ہو، اس نے عزت اچھالی ہو، اس نے غیبتیں کی ہوں، کہ جس کو حدیث زنا سے بھی زیادہ شدید قرار دیتی ہے، تو وہ کس طرح معاف ہو گا……؟
تو پیارے بھائیو! معاملہ یہ ہے۔ ہر شخص، ہر مجاہد اپنی اپنی زندگیوں میں جھانک کے دیکھ لے اور جو نجات کا متمنی ہے وہ حقوق العباد کی اہمیت اچھی طرح پہچان لے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭