نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!

قیمتی

حافظ صہیب غوری by حافظ صہیب غوری
31 جولائی 2022
in جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!, مئی تا جولائی 2022
0

مضمون ہٰذا تین سال قبل کا تحریر کردہ ہے۔ (ادارہ)


آئیے! آج امتِ مسلمہ کے ایک ایسے بیٹے کی داستان پڑھتے ہیں کہ جس نے اپنی جوانی کو اس امت کی سربلندی کے لیے گھلا دیا۔ جس نے دنیا کی پستیوں کو ٹھکرایا اور آخرت کی بلندیوں کی تلاش میں جنگلوں، پہاڑوں اور دشتوں سے گزرتا ہوا بالآخر اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرگیا۔ ایک ایسے زمانے میں کہ جب اس کے ہم عمر نوجوان دنیاوی مستقبل کو حسین بنانے کے منصوبے بناتے ہیں، وہ اپنے حقیقی مستقبل، ابد الآباد کی زندگی کے کیریئر کی تعمیر میں مگن تھا۔ اسلام کی لیلیٰ کا حقیقی عاشق، جس نے دنیا کی لذتوں کو اپنے پاؤں کی ٹھوکر پر رکھا اور جفاکشی، سخت جانی اور اعلیٰ عزم کو اپنا شعار بنا کر موت کی وادیوں میں کود کود کر اپنی آتشِ عشق کو بڑھکاتا رہا۔ یہ ایک ایسے عاشق کی کہانی ہے کہ جسے اپنے رب کو راضی کرنے کا عشق تھا، اپنے دین کو غالب کرنے کے لیے مچلتا تھا اور اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے پر ہردم تیار رہتا تھا۔ اس نوجوان کے کردار میں جوانی کی دہلیز میں قدم رکھنے والے ہر لڑکے کے لیے اسوہ ہے کہ آیا وہ دنیا کی ریل پیل اور چمک دمک کو اپنا ہدف و مقصد بنائے اور ’ٹِین ایج‘ کے ہلوں گلوں میں اپنی جوانی گزار ڈالے یا پھر اپنے جواں عزم و ہمت کو امتِ مسلمہ کو عروج دلانے اور اپنے لیے آخرت کی رفعتوں اور عزتوں کی تلاش میں کھپا ڈالے۔

خالد سے تعارف

یہ سن ۲۰۱۴ء کے موسمِ بہار کا ذکر ہے۔ ابھی پاکستانی فوج نے وزیرستان کے ظالمانہ آپریشن کا باقاعدہ آغاز نہیں کیا تھا۔ میران شاہ میں امیر المجاہدین مولانا عاصم عمر نے مجھے حکم دیا کہ میں ایک بھائی سے ملاقات کروں جس کا نام خالد ہے۔ امیرِ محترم نے بتایا کہ یہ نوجوان مجاہد سمجھدار اور باہمت ہے اور انٹرنیٹ اور رابطہ کاری کے دیگر وسائل کے استعمال میں بھی آپ کی مدد کرسکے گا۔ تعمیلِ حکم میں میران شاہ کے قصبے ڈانڈے درپہ خیل کی ایک چھوٹی سی مسجد میں میری خالد سے ملاقات ہوئی۔ میرے تصور میں ایک چھوٹے سے نوجوان کا نقشہ تھا کہ جسے ابھی جہاد فی سبیل اللہ کے تفصیلی موضوعات کو سمجھانا ہوگا اور کام کرنے کے لیے اس کی ہمت بڑھانی ہوگی۔ ملاقات میں، خالد کی سنجیدگی سے میں بہت متاثر ہوا اور اس کے حوصلے اور پختہ عزم سے بھی۔

ملاقات سے قبل اس کے ذہن میں تھا کہ شاید اسے اپنے گھر بھجوایا جائے کیونکہ ایک تو اس کے گھر میں اس کی شادی کی تیاریاں ہورہی تھیں اور دوسرا یہ کہ اسے گھر سے آئے ہوئے کافی عرصہ بھی ہوگیا تھا۔ میں نے بھی اس سےکہا کہ گھر کا چکر لگانا ہے تو لگا لو کیونکہ ایک دفعہ جب کام شروع ہوگیا تو کام کی نزاکتوں اور ضروریات کی وجہ سے شہروں کی طرف جانا مشکل ہوجائے گا۔ مگر خالد نے پختہ لہجے میں کہا کہ نہیں ابھی کام کی ضرورت ہے اور میں جہاد کی ضرورت کو ہر حال میں ترجیح دوں گا۔

یہ خالد سے میری پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد سے لے کر ۲۰۱۷ء کے موسمِ بہار تک، مستقل تین سال تک اللہ نے مجھے سفر و حضر میں، قتال و رباط میں، روز و شب اپنے اس ولی کی رفاقت کا شرف بخشا۔ اس چھوٹے سے نوجوان نے اس عرصے میں مجھے اپنے اعلیٰ اخلاق، اپنی اجلی سیرت و کردار، اپنی اولو العزمی، اپنی شجاعت، اپنی زندہ دلی اور اپنی انتھک محنت سے ایسا متاثر کیا کہ اس کی شہادت کے بعد لگتا ہے کہ جیسے:

؏وہ ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

اساس کی رفاقت و صحبت ہر مرکز اور ہر محاذ پر اپنا اثر ڈالتی۔ وہ جہاں ہوتا اخلاص و اصلاح کا پیکر ہوتا، سراپا خیر ہوتا، نیکیوں کو پھیلاتا اور خرابی کو مٹا ڈالتا۔ آج اس کو ہم سے بچھڑے پورے پانچ سال بیت چکے ہیں، مگر آج بھی جب کوئی مشکل پیش آتی ہے تو خالد کی یاد آتی ہے اور دل سے آہ نکلتی ہے کہ ’إنّا علی فراقک یا خالد! لمحزونون‘ کہ ’’اے خالد! ہم تیرے فراق پر بڑے غمگین ہیں‘‘۔ امت کا یہ ’قیمتی‘ ہیرا ۲۰۱۷ء کے موسمِ بہار میں محاذِ جنگ کی طرف بڑھتے ہوئے امریکیوں کے ایک ڈرون حملے میں اپنی مراد کو پاگیا، دینِ حق پر قربان ہوگیا، اسلام پر کٹ کر ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ نحسبہ کذالک ولا نزکي علی اللہ احدا۔ خالد ایسی حالت میں شہید ہوا کہ اس کی سواری بھی جل کر راکھ ہوگئی اور اس کے جسم کے بھی ٹکڑے میدان میں بکھر گئے۔ حدیث کے مطابق وہ شہید افضل شہید ہے کہ جو خود بھی کٹ جائے اور اس کی سواری بھی ختم ہوجائے۔ اللہ خالد سے راضی ہو اور اسے جنت الفردوس میں انبیاء کرام ﷩ کا ساتھی بنائے، آمین۔

حقیقی مجاہد کے اوصاف

اس سے پہلے کہ خالد کی باتیں کریں، پیارے نبی ﷺ کی دو احادیث کو پڑھتے ہیں جن میں ان مجاہدین کی صفات بیان کی گئی ہیں جن سے اللہ راضی ہوتا ہے اور جن کا جہاد قبول ہوتا ہے۔ یہ دونوں احادیث ایک مجاہد کے لیے راہِ عمل ہوتی ہیں اور ان میں بتائے گئے اعمال کو بجا لانے کی اور روکے گئے ہر عمل سے بچنے کی ہر حقیقی مجاہد کوشش کرتا ہے۔

حضرت معاذ بن جبل ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

’’جہاد دو طرح کا ہے۔ ایک وہ جہاد ہے جو رضائے الٰہی کی خاطر کیا جاتا ہے اور اس میں امام کی فرمانبرداری کی جاتی ہے اور بہتر سے بہتر مال اس میں خرچ کیا جاتا ہے، ساتھی کے ساتھ نرمی برتی جاتی ہے اور فساد سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ پس ایسے جہاد میں تو سونا اور جاگنا بھی عبادت ہے۔ دوسرا جہاد وہ ہے جس میں فخر شامل ہو اور جو دکھانے اور سنانے کی غرض سے کیا جاتا ہے جس میں امام کی نافرمانی ہو اور زمین میں فساد مطلوب ہو۔ ایسے جہاد کا کوئی اجر نہیں۔‘‘1

دوسری حدیث میں سیدنا ابوہریرہ ﷜ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’لوگوں میں سب سے اچھی زندگی والا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے اس کی پشت پر اڑ رہا ہو، اور جہاں دشمن کی آواز سنے یا مقابلے کا وقت آئے تو فوراً مقابلہ کے لیے اس جانب رخ کرتا ہو، اور موت یا قتل کی جگہیں تلاش کرتا پھرتا ہو۔‘‘2

ان دونوں احادیث میں جو حقیقی مجاہد کی صفات بیان کی گئی ہیں، ان پر اگر میں نظر دوڑاؤں اور خالد کے کردار کو دیکھتا جاؤں تو وہ مجھے ان تمام صفات میں بہت ممتاز نظر آتا ہے۔ درج بالا احادیث کے مطابق ایک حقیقی مجاہد فی سبیل اللہ میں یہ صفات ہونی چاہیے:

  1. اخلاص ہونا، ریاکاری اور شرکِ خفی سے بچنا اور ہر عمل محض اللہ کی رضا کے لیے کرنا۔

  2. اطاعتِ امیر کرنا، خواہ حکم پسند ہو یا ناپسند ہو۔

  3. اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔

  4. ساتھیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا اور بدسلوکی اور جھگڑے سے بچنا۔

  5. فتنے فساد سے دور رہنا۔

  6. ہر وقت جنگ پر جانے کے لیے تیار رہنا۔

  7. جہاں اسلام کو کوئی خطرہ ہو وہاں لپک کر پہنچنا۔

  8. اپنی شہادت اور دشمن کی تباہی کی تلاش میں رہنا۔

وہ کون تھا؟

اس کا حقیقی نام ’یاسر‘ تھا۔ مغل خاندان سے تعلق کی وجہ سے اس کے نام کے ساتھ ’مرزا‘ بھی لگتا تھا۔ یوں اس کا نام ’یاسر مرزا‘ بنتا تھا۔ اس کا آبائی تعلق ضلع چکوال سے تھا مگر اس کا گھرانہ راولپنڈی میں مقیم تھا جبکہ اس کے بچپن کا بڑا عرصہ سعودی عرب میں گزرا۔ جہاد میں جب آیا تو وہ ’خالد ‘ کہلایا اور اسی لیے ہم اسے اس مضمون میں ’خالد‘ ہی کہیں گے۔ خالد ابھی سترہ سال کا ہی تھا کہ قافلۂ حق میں شمولیت کے شوق میں وزیرستان ہجرت کرکے آگیا۔ پھر اٹھارہ سال کا ہوگا کہ اس سے میری شناخت ہوئی اور اکیس برس کو پہنچا تو سفرِ آخرت کی طرف روانہ ہوا۔ مگر اس مختصر سی عمر میں اپنے کمالات اور اعلیٰ صفات کی وجہ سے وہ اپنے سے عمر اور تجربے میں فوقیت رکھنے والوں کے لیے بھی نمونہ بنتا رہا۔ ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے وہ دیتا ہے۔

’قیمتی‘

مجاہدین میں رواج ہے کہ ایک دوسرے کی پہچان کے لیے اور مخابروں3 پر گفتگو کے لیے مختلف رمزی نام استعمال کرتے ہیں جنہیں ’تخلص‘ کہا جاتا ہے۔ وزیرستان میں تو یہ تخلصات بڑے دلچسپ اور انوکھے اپنانے کا رواج ہوتا تھا۔ انقلابی، سبحانی، ابدالی، تلوار، عزیزی، سیلاب، طوفان اور نہ جانے کیا کیا تخلص رکھے جاتے تھے۔ خالد چونکہ اپنی ہر صفت میں انوکھا تھا تو اس نے خود ہی مخابرے پر گفتگو کرنے کے لیے اپنا تخلص’قیمتی‘ رکھ لیا۔ شروع میں تو سب یہ سن کر ہنسے کہ یہ بھی کوئی تخلص ہوا؟ کسی نے کہا کہ ’بھائی کس کے لیے قیمتی ہو؟‘ کسی نے کہا ’ہوگا اپنے ماں باپ کا قیمتی!‘۔ الغرض شروع میں تو یہ تخلص بڑا عجیب لگا مگر بعد میں خالد کے نام کا حصہ اور پہچان ہی بن گیا۔ کہنے کو تو یہ محض اس کا ایک تخلص تھا مگر حقیقت میں اس کی بہت پیاری صفت تھی۔ یقیناً خالد بہت ہی قیمتی تھا۔

موسیقی کی کلاس سے انکار

خالد ابھی چھوٹا ہی تھا تو گھریلو تربیت کی وجہ سے گناہوں سے نفرت اس کے مزاج میں بسی ہوئی تھی۔ وہ راولپنڈی کے ایک ایسے مشہور پرائیویٹ سکول میں پڑھتا تھا کہ جس کے ماحول میں بے دینی اور سیکولر نظریات چھائے ہوئے تھے۔ مگر خالد شروع سے ہی اپنے عزم میں پکا تھا اور اس کے مزاج میں کسی ناحق کے آگے جھکنا تو تھا ہی نہیں۔ خالد نے ہمیں خود بتایا کہ ابھی وہ تیسری جماعت میں تھا اور اس کی عمر محض آٹھ سال ہوگی کہ سکول میں موسیقی سیکھنے کے باقاعدہ پیریڈ کا آغاز ہوا۔ جب موسیقی کی کلاس کا وقت ہوا تو خالد نے صاف انکار کردیا کہ میں موسیقی کی کلاس میں نہیں بیٹھوں گا۔ اس کی استانیوں نے پوچھا کہ کیوں نہیں بیٹھو گے؟ تو خالد نے معصومیت سےکہا کہ یہ ہمارے دین میں حرام ہے۔ جس پر اس کی استانی نے اسے بہت ڈانٹا اور ’مولویانہ ذہنیت‘ اور ’تنگ نظری‘ کی مذمت میں اس کو بہت سخت کوسا۔ مگر خالد اپنی بات پر ڈٹا رہا البتہ میڈم کی شدید ڈانٹ کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ رونا شرو ع ہوگیا۔ خالد نے بتایا کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میری مسلمان میڈم تو مجھے ڈانٹتی رہیں اور میوزک کی کلاس میں شرکت کرنے پر مجبور کرتی رہیں مگر ایک عیسائی استانی کا دل خالد کی اس استقامت سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے خالد کی جان چھڑائی اور مسلمان استانی کو برا بھلا کہا کہ جب یہ بچہ اپنے دین پر عمل کرنا چاہتا ہے اور اس کے دین میں موسیقی سیکھنا حرام ہے تو پھر تم کیوں اسے اس کے دین کی مخالفت پر مجبور کرتی ہو۔ اس طرح خالد کی خلاصی ہوئی اور آٹھ سال کی عمر میں اس نے عیسائی خاتون کے دل میں اپنے عزم اور استقامت سے اسلام کا احترام ڈال دیا۔

مسلمانوں کے قاتلوں کو سلام نہیں کرسکتا

خالد کی جرأت و حوصلے اور اپنے دین پر اعتماد کا ایک اور واقعہ اس کی شہادت کے بعد علم میں آیا۔ خالد گیارہ بارہ برس کا تھا کہ ایک دعوت میں اس کے ایک عزیز نے جو کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتے تھے اپنے امریکی افسر سے خالد کا تعارف کراتے ہوئے خالد سے کہا کہ خالد! اِن سے ہاتھ ملاؤ۔ مگر خالد، جس میں بچپن ہی سے جہاد کا شوق اور مظلوم امتِ مسلمہ کا غم بسا ہوا تھا،نے بھری محفل میں صاف انکار کردیا اور کہا کہ ’’میں مسلمانوں کے قاتلوں کو سلام نہیں کرسکتا‘‘۔

فیلڈ کا انتخاب

خالد، عمر میں تو چھوٹا تھا مگر ذہنی پختگی اس میں بہت زیادہ تھی۔ اس نےجہادِ فی سبیل اللہ کے مقاصد کو بہت اچھی طرح سمجھا ہوا تھا۔ وہ شریعت کے اس متفقہ مسئلہ کو سمجھ کر آیا تھا کہ جب کفار مسلمانوں کی سرزمینوں پر حملہ آور ہوجائیں تو پھر مسلمانوں کے لیے جہاد سے دور رہنا جائز نہیں بلکہ ایسی حالت میں اپنی تمام صلاحیتوں اور طاقتوں کو کفار کے خلاف جہاد میں لگانا ایک مسلمان پر فرض ہوجاتا ہے۔ خالد نے اعلیٰ نمبروں سے ’اے لیولز‘4 کا امتحان پاس کیا اور اس کے پاس یونیورسٹیوں میں داخلے کے امکانات بہت روشن تھے۔ بعض احباب کی خواہش تھی کہ خالد میڈیکل کی فیلڈ میں جائے اور ڈاکٹر بنے اور پھر اس طرح اسلام اور مجاہدین کی خدمت کرے، کیونکہ یہ تو حقیقت ہے کہ محاذِ جنگ پر ڈاکٹروں کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے۔ مگر خالد کی خواہش تھی کہ ایک دفعہ مجاہدین کی صف میں شامل ہوجاؤں، امرائے جہاد کے ہاتھوں میں ہاتھ دے دوں اور اپنی زندگی جہاد کے لیے وقف کردوں، پھر اس کے بعد امرا ءمجھے جس کام کے لیے بھی بھیجیں میں اس کے لیے تیار رہوں گا۔ خالد کی ذہانت اور اعلیٰ صلاحیتوں کو دیکھ کر بعض مجاہدین کی بھی خواہش تھی کہ خالد کو ڈاکٹر بنانے کے لیے شہروں میں واپس بھیجنا چاہیے۔ مگر خالد کی خوبیوں اور اعلیٰ صفات پر غور کرکے امرائے جہاد نے یہی فیصلہ کیا کہ اسے میدانِ جہاد میں ہی رہ کر جہاد کو مزید سیکھنا چاہیے اور مجاہدین کے مختلف کاموں کو سنبھالنا چاہیے۔

یہاں مجھے خالد کے قریبی عزیز عمران بھائی شہید ﷫5 کا مشورہ یاد آتا ہے کہ جن کے مشورے نے خالد کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کو آسان کردیا جو کہ انہوں نے مجھے خالد کے بارے میں دیا۔ عمران بھائی ﷫ نے مجھےکہا کہ ’’خالد میرے بیٹوں کی طرح ہے اور اس سے مجھے ایسی محبت ہے کہ جیسے ایک باپ کو بیٹے سے ہوتی ہے، میرے لیے خالد کا ایمان سب سے اہم ہے لہٰذا اس کے بارے میں وہی فیصلہ کرنا چاہیے کہ جو اس کے ایمان اور اس کی آخرت کے لیے بہتر ہو۔ میرے نزدیک یہ اہم نہیں کہ خالد کوئی بڑا کام کر پائے یا نہیں، بلکہ یہ اہم ہے کہ خالد کا اللہ سے تعلق کیسا ہے، اس کی نمازیں کیسی ہیں، اس کی تلاوت کیسی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ پس جو فیلڈ خالد کی آخرت کے بارے میں زیادہ مفید اور محفوظ ہے اسی کو اختیار کرنا چاہیے۔‘‘۔

توپ خانے کا استاد

خالد کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے امراء نے اس کا انتخاب بھاری اسلحے کے ایک تفصیلی اور خصوصی دورے6 کے لیے کیا۔ اس کلاس کے استاد روس کے ایک مجاہد تھے۔ یہ روسی استاد ایک زمانے میں روس کی فوج میں توپ خانے کے شعبے سے منسلک رہے تھے، جس کی وجہ سے وہ توپ خانے میں کافی مہارت رکھتے تھے۔ بعد میں ان استاد نے توبہ کر کے جہاد میں شمولیت اختیار کرلی اور روس اور پھر امریکہ دونوں طواغیت کے خلاف جہاد میں کردار ادا کیا۔

وزیرستان میں جمع ہو کر امتِ مسلمہ کے ایک ہونے کا احساس بہت بڑھ جاتا تھا۔ مسلمانوں کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے مجاہدین کی قربت سے جہاں دنیا بھر میں مسلمانوں کے حالات و مشکلات کو جاننے کا موقع ملتا تھا، وہیں پوری دنیا میں جہاد کرنے اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کو غالب کرنے کا جذبہ بھی بڑھتا تھا۔ اس ایمانی ماحول میں کتنی دفعہ ایسا ہوتا کہ کسی کلاس میں ورزش کا استاد تُرک ہوتا اور اسلحے کا حجازی، بارود کا استاد شامی ہوتا تو برقیات کا پاکستانی۔ الغرض حرم کی پاسبانی کے لیے مسلمانوں کے ایک ہونے کا یہ منظر کتنا ایمان افروز ہوتا تھا اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے کہ جس نے اس حسین ماحول کی مہک سونگھی ہو۔

خیر، خالد نے تفصیلی دورے میں شرکت کی۔ حساب کے پیچیدہ فارمولے تو اس کے لیے زیادہ مشکل نہیں تھے مگر مختلف زاویوں سے توپوں کو نصب کرنے کا عمل بہت ہی باریکی، صفائی اور محنت طلب کام ہوتا تھا۔ خالد نے بہت محنت سے اس دورے میں شرکت کی اور سیکھنے میں کافی نمایاں رہا، حالانکہ وہ شرکاء میں سب سے کم عمر تھا۔ دورے کے بعد تو خالد مجاہدین میں توپ خانے کے ماہر کے طور پر جانا جانے لگا۔ جہاں مجاہدین کو ضرورت ہوتی وہ وہاں پر پہنچ جاتا، مجاہدین کو توپ خانے کا استعمال سکھاتا اور عام طور پر کی جانے والی غلطیوں کی اصلاح کرتا۔ خالد اس بات پر بہت کڑھتا تھا کہ توپ خانے کو سیکھے بغیر چلانے سے بیت المال کے گولوں کا بھی ضیاع ہوتا ہے اور دشمن کو ہنسنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ پس وہ ہر جگہ مجاہدین کو توجہ دلاتا کہ وہ توپ خانے کا تفصیلی دورہ کریں اور اس کی مشق کریں۔ خالد نے مجاہدین کی راہنمائی کے لیے توپ چلانے کے لیے بنائے گئے جدول7 کی بھی اصلاح کی اور توپوں کے حساب کتاب کے پیچیدہ نظام کو آسان اور عام فہم بنانے کے لیے نئے نئے کلیے اور طریقے ایجاد کیے۔

انتھک محنت

جہاد میں اپنی جان کو گھلانے کا سبق میں نے خالد سے سیکھا۔ خالد کبھی جہاد کے کاموں سے نہیں تھکتا تھا۔ اس کے ذمے مجاہدین کے لیے رابطہ کاری کا کام لگایا گیا۔ اس مقصد کے لیے اسے پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھنا پڑتا اور کبھی دشمن کے علاقے کے بہت قریب جانا پڑتا۔ مگر خالد کسی کام سے نہ جھجکتا اور نہ ہی انکار کرتا۔ شدید ترین سردی میں اور برفباری میں بھی اس کے قدم نہ رکتے اور وہ منہ پر مفلر باندھ کر اور کندھے پر کلاشن کوف اور گلے میں اپنا تھیلا لٹکا کر پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف روانہ ہوجاتا تھا۔ تھکنا یا مایوس ہوجانا تو جیسے اس کو آتا ہی نہ تھا۔ خالد بہت ہی ناز و نعم میں پلا بڑھا بچہ تھا۔ مگر اپنے ایمان اور نظریے کی مضبوطی نے اسے چٹانوں سے زیادہ سخت بنادیا تھا۔ اس کے کام کی نوعیت کے لحاظ سے اکثر اسےسفر کرنے ہوتے تھے اور وہ بھی موٹرسائیکل پر۔ پہاڑوں پر مستقل موٹرسائیکل چلانا اچھے اچھے سورماؤں کو تھکا ڈالتا ہے۔ مگر جہادی کام کرنے کے لیے خالد کے کبھی ماتھے پر شکن بھی نہیں پڑتی اور وہ ’’مشکل نہیں ہے‘‘ کہہ کر اگلے سفر پر روانہ ہوجاتا تھا۔

خالد نہ ہی تھکتا تھا اور نہ ہی پریشان ہوتا۔ چھوٹی سی عمر میں اتنے لمبے لمبے سفر اور ویران دشتوں اور پہاڑوں پر تنہا راتوں میں بھی سفر کرنا مقامی افراد کو بھی حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ صوبہ غزنی میں شدید سردیوں میں خالد مغرب کے وقت ہماری رہبری کرتے ہوئے ہمیں لے کر ایک انصار کے گھر پہنچا۔ غزنی کی سردی کی شدت کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ مغرب کی نماز کے بعد خالد نے کہا کہ میں واپس دو گھنٹے کے فاصلے پر اکیلا ہی پکتیکا جاتا ہوں، کیونکہ وہاں ایک مسجد میں ایک بھائی میرے انتظار میں ہوگا۔ سب نے اسے منع کیا مگر اس کا تو تکیہ کلام ہی ’’مشکل نہیں ہے‘‘ تھا۔ اتنی شدید سردی میں رات کو موٹرسائیکل پر سفر کرنا، وہ بھی اکیلے اور ایسے ویران دشتوں میں کہ جہاں سے گزرتے وقت دن میں بھی لوگ ڈرتے ہوں۔ خالد کے اس جذبے اور جرأت نے مقامی افغانیوں کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ کیسے یہ مجاہد اپنے ساتھی کا خیال رکھنے کے لیے اس سردی اور اندھیری رات میں اکیلے ہی اس مشکل سفر پر روانہ ہورہا ہے۔

میں نے خالد کی اس صفت پر بہت غور کیا۔ کاموں کی کثرت سے ہر انسان تھک جاتا ہے۔ پھر تھکاوٹ کے اثرات کبھی کبھار چڑچڑاہٹ کی شکل میں ظاہر بھی ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں اپنے مقصد سے شدید لگاؤ اور اللہ سے اجر کی امید انسان کو ثابت قدم اور مضبوط بنادیتی ہے۔ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ خالد اپنی نیت کی پاکیزگی میں بہت آگے تھا۔ دین کو غالب کرنے کی تڑپ اسے بیٹھنے نہیں دیتی تھی اور فرض کی ادائیگی کا احساس اسے مضبوط کردیتا تھا۔

فراغت شیوۂ مومن نہیں

خالد کو اس سے بہت چڑ ہوتی تھی کہ کوئی مجاہد فارغ بیٹھ کر اپنا وقت ضائع کرے۔ میں نے اس پورے عرصے میں کبھی اسے فارغ یا بیکار بیٹھے نہیں دیکھا۔ ایسا نہیں کہ سارا وقت ہی وہ سفر میں رہتا تھا۔ بعض اوقات حالات اور برفباری کی وجہ سے کئی ہفتے ایک جگہ پر ٹکنے کے بھی مل جاتے تھے۔ جب کبھی خالد کو فارغ وقت ملتا، وہ تلاوت کرتا، اذکار کرتا اور پھر اپنے مطالعے میں غرق ہوجاتا۔ مطالعے میں بھی یا تو عسکری فنون کے بارے میں پڑھتا اور اس حوالے سے مجاہدین کے لیے رہنمائی کے امور ڈھونڈتا یا پھر کسی تفسیر یا مسائلِ شرعیہ کی کتاب کا مطالعہ کرتا۔ شرعی مسائل جو پڑھتا تو اسے لکھ کر رکھ لیتا اور عمل کی باتیں نوٹ کرتا جاتا۔ پھر عربی زبان سیکھنے میں مصروف ہوجاتا، عربی سے فارغ ہوتا تو پشتو زبان کے اسباق شروع کردیتا۔ مطالعے سے فارغ ہوتا تو اپنے ہاتھ سے کسی اسلحے کی مرمت یا کسی لباس کی گانٹھ میں مصروف ہوجاتا۔ اس سے فارغ ہوتا تو لکڑی کاٹنے یا کسی تعمیراتی کام میں مصروف ہوجاتا۔ ہاں کبھی کبھار کچھ دیر وہ کسی گہری سوچ میں غرق رہتا اور جب اس سوچ و فکر سے نکلتا تو جہاد کو آگے بڑھانے کا ایک نیا منصوبہ اس نے سوچا ہوا ہوتا اور وہ اپنے ذمہ داروں کے سامنے پیش کرتا۔ بے کار بیٹھنا اور فارغ اپنا وقت ضائع کرنا اس کو نہ آتا تھا اور نہ ہی کسی ساتھی کو ایسا کرنے دیتا تھا۔ وہ ساتھیوں کو نصیحت کرتا تھا کہ اپنا وقت قیمتی بنائیں اور کچھ نہ کچھ سیکھتے رہیں کہ جو دین کے کام آسکے۔

سخت جان بلند ہمت

مجاہدین فی سبیل اللہ کی صف میں شمولیت خالد کا بچپن سے ہی ارمان تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے آپ کو سخت جان بنانے اور محنت و مشقت کا عادی بنانے کا کام اس وقت سے ہی شروع کر دیا تھا کہ جب وہ گھر میں تھا۔ اللہ نے اسے جسمانی طور پر مضبوط تو بنایا ہی تھا مگر اپنی محنت اور لگن سے اس نے اپنی جسمانی قوت پر اتنی توجہ دی تھی کہ دیہات اور پہاڑوں کی سخت زندگی گزارنے والے ساتھی بھی اس کا محنت و مشقت میں مقابلہ نہیں کر پاتے تھے۔

ابھی اس سے ابتدائی شناسائی ہی ہوئی تھی کہ ہمیں ایک جگہ مرکز بنانے کی ضرورت پڑی۔ میں نے خالد سے کہا کہ چھت بنانے اور بیت الخلا ء وغیرہ کی تعمیر کے لیے کسی مستری کا بندوبست کرو۔ خالد کہنے لگا مشکل نہیں، یہ میں کرلوں گا۔ میں حیرت سے اس کا منہ تکنے لگا کہ یہ لڑکا ابھی شہروں کی نزاکتوں والی زندگی چھوڑ کر آیا ہے، یہ ریت اور گارے کا کام کیا جانے۔ مگر اس نے کہا کہ میں نے ایک اور مرکز میں بھی بیت الخلاء کی تعمیر کا کام کیا ہے اور مجھے سیمنٹ کرنا بھی آتا ہے۔ الغرض اس نے خود ہی سے کچھ اور بھائیوں کو جمع کرکے سارا تعمیراتی کام کر ڈالا۔ اس کے بعد تو ہم جہاں گئے کہیں بھی مراکز میں تعمیراتی کام کرنا ہوتا، کمروں کی چھتیں ڈالنی ہوتیں، دیواریں کھڑی کرنی ہوتیں یا فرش پر سیمنٹ ڈالنا ہوتا، خالد ان کاموں میں سب سے آگے ہوتا۔

پامردیٔ مومن

اس کی محنت و مشقت کی انتہا تو اس وقت نظر آئی کہ جب اس نے خندقوں کی تعمیرات شروع کیں۔ خندق میں کدال چلانے کا کام سب سے مشکل کام ہوتا ہے جس کے لیے مضبوط جسم والا ساتھی درکار ہوتا ہے۔ خالد بڑے عزم اور جذبے سے خندقوں کو کھودا کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ مجاہدین کی حفاظت کے لیے ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور اس میں تھکنا نہیں چاہیے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی وہ طویل خندقوں کی کھدائی میں مشغول تھا۔ مٹی میں اٹا ہوا وہ اس کام میں منہمک رہتا تھا اور کوئی ساتھ دے یا نہ دے وہ بیلچہ اور کدال پکڑ کر سخت پہاڑوں کو تراشنا شروع کر دیتا تھا۔ اسی دوران وہ ساتھیوں کے ساتھ دل لگی اور ہنسی مذاق بھی کرتا تاکہ یہ مشکل کام خوش گواری کی وجہ سے آسان نظر آئے۔ خندق کی تعمیر کے آخری دنوں میں ایک دفعہ کدال کی چوٹ لگنے سے ایک پتھر اچھل کر اس کے پاؤں پر لگا جس سے اس کا پاؤں کافی زخمی ہوگیا۔ پاؤں کے زخم کی وجہ سے جب اسے امیر کی طرف سے آرام کرنے کا کہا گیا تو اس نے ضد کر کے ساتھیوں کی خدمت اپنے ذمہ لے لی۔ علی الصبح اٹھ کر وہ آٹا گوندھتا، ساتھیوں کے لیے پراٹھے بناتا، خندق میں کام کرنے والوں کے لیے شربت اور چائے فراہم کرتا رہتا اور ان کے لیے مزیدار کھانے بناتا۔

مزیدار کھانے بنانے سے یاد آیا کہ خالد جب ساتھیوں کے لیے کھانا بناتا تو بہت ہی محنت اور توجہ سے بناتا، ویسے بھی جہاں خالد ہوتا بالعموم وہاں پر کھانا وہی بناتا۔ ساتھیوں کا خیال رکھنے اور ان کو خوشی دینے کا جذبہ کھانا بناتے وقت اس پر سوار ہوتا۔ خالد اتنے مزے دار کھانے بناتا کہ ایک بھائی نے کہا کہ میں نے دنیا کے کئی ملکوں میں کھانا کھایا ہے لیکن جتنا لذیذ کھانا خالد بناتا ہے ویسا کہیں نہیں کھایا۔

محاذوں کے لیے مچلنے والا

خالد کی صفتِ شجاعت بہت متاثر کن تھی۔ خوف اور گھبراہٹ کا اثر اس پر نظر نہیں آتا تھا۔ میدانِ جنگ سے اس کے لگاؤ کے لیے محض لفظِ ’محبت‘ کافی نہیں۔ جب اسے علم ہوتا کہ کہیں مجاہدین جنگ کے لیے جارہے ہیں تو وہ مچلنا شروع ہوجاتا۔ اس پر ایسی کیفیت طاری ہوجاتی کہ جیسے وہ نشے میں ہے اور اپنے قابو سے باہر ہے۔ جانے کی اتنی ضد کرتا کہ جنگ سے روکنا اسے مشکل ہوجاتا۔

یہ ۲۰۱۵ء کی بات ہے۔ صوبہ پکتیا کے فلک بوس پہاڑوں میں سے گزرتے ہوئے ایک سہ پہر ہم ’دریائے منگل‘ کے کنارے ایک بستی میں پہنچے۔ ہمارا سفر طویل تھا اور ہمیں یہاں سے گاڑی کا بندوبست کرکے اگلے صوبے کی طرف جانا تھا۔ گاڑی کے انتظار میں ہم ایک حجرے میں جا بیٹھے۔ اچانک ہمیں قریب سے گولہ باری اور فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ قریب میں مجاہدین نے دشمن کے قلعوں پر حملہ کیا ہوا ہے۔ یہ سننا تھا کہ خالد مچلنا شروع ہوگیا اور کہنے لگا کہ میں نے بھی اس جنگ میں جانا ہے، کیا پتہ طالبان کو ہماری مدد کی ضرورت ہو۔ ہم نے سمجھایا کہ بھائی! ہم تو سفر پر جارہے ہیں اور ہم تو یہاں صرف گاڑی کے انتظار میں ٹھہرے ہیں۔ مگر جس کا دل محاذ پر جانے کے لیے تڑپ رہا ہو اسے روکنا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ خالد نے کہا کہ یہاں گاڑی کے انتظار میں رات گزارنی ہی ہے تو میں رات میں جنگ پر چلا جاتا ہوں اور اگر زندگی رہی تو صبح آجاؤں گا۔ ابھی یہ بحث جاری تھی کہ کارروائی میں شریک طالبان مجاہدین ہانپتے ہوئے آئے اور انہوں نے کہا کہ دشمن کے قلعے کے دروازے پر کچھ مجاہدین شہید ہوگئے ہیں اور کچھ زخمی ہیں اور دشمن نے انہیں گھیر لیا ہے، اب انہیں گھیرے سے نکالنے کی اس کے علاوہ کوئی سبیل سمجھ نہیں آتی کہ کوئی ماہر توپچی مارٹر توپ سے دشمن کے قلعے پر گولے برسائے جس کی وجہ سے دشمن اپنے مورچوں میں دبکنے پر مجبور ہوجائے اور مجاہدین اپنے شہداء کی لاشیں اور گھیرے میں پھنسے ہوئے ساتھیوں کو نکال سکیں۔ خالد کی تو سمجھیں دل کی آرزو پوری ہوگئی۔ اس کی تو بنیادی صفت ہی یہ تھی کہ جہاں بھی کہیں اسلام اور مسلمانوں کو ضرورت پڑی، اس کا بس چلے تو اڑ کر وہاں پہنچ جائے۔ خالد نے جلدی جلدی اپنا سامان سمیٹا اور ہماری نظروں کے سامنے دوڑتا ہوا اس پہاڑ پر چڑھتا گیا کہ جس پر مجاہدین برسرِ پیکار تھے۔ پھر اس نے مارٹر کے کچھ گولے ہی فائر کیے تھے تو اللہ کی نصرت آئی اورمجاہدین حصار میں پھنسے اپنے ساتھیوں کو نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔

اسی طرح پکتیکا میں قیام کے دوران ایک دن خبر آئی کہ مجاہدین کے گاؤں کے قریب دشمن کی افواج نے پیش قدمی کی ہے۔ اس خبر کا سننا تھا کہ خالد کچھ ساتھیوں کے ساتھ موٹرسائیکلوں پر نکلا اور دشمن کے علاقے کی طرف دیوانہ وار بڑھتا گیا۔ مجاہدین کی آمد کا سن کر دشمن نے پلٹ جانے میں ہی عافیت جانی۔

پکتیکا ہی میں دشمن نے طالبان پر رعب ڈالنے کے لیے اور محاصرے میں گھرے اپنے کیمپوں کو رسد پہنچانے کے ایک بڑے کانوائے8 کو تیار کیا اور اسّی کے لگ بھگ ٹینکوں کا قافلہ لے کر اپنے کیمپوں کی طرف روانہ ہوا۔ مجاہدین کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے قلتِ وسائل کے باوجود ابرہہ کے اس لشکر کو روکنے کی ٹھانی۔ ’ہندی‘ نامی دشوار گزار پہاڑی سلسلے میں چند مجاہدین اپنے محدود اسلحے کے ساتھ دشمن کے لیے گھات میں بیٹھے۔ خالد بھی ان مجاہدین میں شامل تھا۔ اس کارروائی میں اللہ نے مجاہدین کو فتح دی، دشمن کے کئی ٹینک تباہ ہوئے اور پچاس کے قریب دشمن کے فوجی مارے گئے۔ خالد بہت جوش کے ساتھ اس کارروائی میں شریک ہوا اور تاک تاک کر دشمن کا نشانہ لے کر ان کا شکار کرتا رہا۔ کارروائی کے بعد خالد ملا تو خوشی سے اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ کہنے لگا کہ اپنے بھائیوں کا انتقام لے کر دل ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ یاد رہے کہ اس کارروائی سے کچھ عرصے قبل ہی قندھار کے ضلع شورابک میں القاعدہ برصغیر اور طالبان مجاہدین کے مراکز پر امریکیوں نے حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں سو سے زائد مجاہدین شہید ہوئے تھے۔ اس اندوہناک واقعے کے کچھ ہی عرصے بعد ’ہندی‘ کی اس کارروائی نے دوبارہ سے مجاہدین کے حوصلے مضبوط کردیے۔

اسی طرح جب ۲۰۱۶ء میں طالبان نے افغانستان کے صوبہ ارزگان کے صدر مقام ترین کوٹ شہر پر دھاوا بولا اور ایمان و کفر کا ایک بڑا معرکہ برپا ہوا تو خالد اس میں بھی پیچھے نہ رہا۔ عین جنگ کے بیچ میں وہ محاذ پر دیگر بھائیوں کے ساتھ پہنچا اور سنائپر گن اور گرنیڈ لانچر کا دشمن کے خلاف استعمال کیا۔ پھر اللہ نے اس کو ترین کوٹ کی تاریخی فتح میں شرکت کی توفیق بھی بخشی کہ جب صلیبیوں کی چھاؤنی جوکہ ’نظمِ عامہ‘ کے نام سے مشہور تھی، فتح ہوئی اور طالبان کو بیسیوں ٹینکوں اور گاڑیوں سمیت کروڑوں کا سامان غنیمت میں وصول ہوا۔

اسی طرح پکتیکا کے ضلع ’اومنہ‘ پر جب طالبان نے حملہ کیا اور اسے فتح کیا تو اس فاتح لشکر کے سب سے اگلے دستے میں خالد موجود تھا۔ رات کی تاریکی میں خالد اپنی نائٹ وژن والی بندوق کے ساتھ دشمن کی پوسٹوں کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا۔ مگر دشمن پر اللہ نے رعب ڈالا اور وہ رات کی تاریکی میں شرمناک شکست کھا کر اپنے کیمپوں اور پوسٹوں کو چھوڑ کر فرار ہوا۔

ننھا سا خالد قتال فی سبیل اللہ کا عاشق تھا۔ یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ کسی کارروائی سے پیچھے رہ جائے اور اگر ایسا ہوجاتا تو اس کا غم کے مارے برا حال ہوتا۔ بعض ساتھی اس پر اعتراض کرتے کہ خالد کیوں ہر جنگ میں چلا جاتا ہے، تو خالد کہتا کہ بھائی تم بھی کوشش کرلو اور شوق کا اظہار کرو، امیر جنگ کے لیے اسی ساتھی کو لے جانے میں ترجیح دیتا ہے کہ جو اپنے جذبے اور شوق کا اظہار کرتا ہے۔ وہ محاذ پر جانے کے لیے ضد بھی اسی لیے کرتا تھا کہ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ بھی نوجوان صحابہ کرام ﷡ اصرار کیا کرتے تھے کہ ہمیں ضرور جنگ میں جانے کا موقع دیں۔ بلکہ جس طرح ایک نوجوان صحابی ﷜ کو رسول پاک ﷺ نے ان کی نوعمری کی وجہ سے غزوے سے واپس بھیجنا چاہا تو انہوں نے مچل کر کہا کہ آپ کشتی کروا کر میری قوت کا اندازہ کرلیں کہ کیا میں جنگ میں جاسکتا ہوں یا نہیں؟۔ بالکل اسی طرح جب بھی کبھی ہم نے خالد کو کسی کارروائی سے روکنے کی کوشش کی تو اس نے فوراً اس کارروائی میں استعمال ہونے والے اسلحے اور دوسری ضروریات سے اپنی واقفیت بتا کر کارروائی میں شرکت کی ضد کی۔ یاد رہے کہ یہ ضد کسی تمغے کے حصول یا غنیمت کی چاہت میں نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ تو موت کے منہ میں اور گولوں اور میزائلوں کی بارش میں جانے کی ضد ہوتی تھی۔ خالد جانتا تھا کہ محاذوں پر جانا جنت کے درجات کی بلندی کا باعث بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قربت کی سب سے اہم گھڑی وہ ہوتی ہے کہ جب اسلام اور کفر کا لشکر ٹکراتا ہے۔ محاذِ جنگ میں قیام کی ایک گھڑی اگلے اور پچھلے گناہ معاف کرادیتی اور اللہ کی رضا دلاتی ہے۔

خالد نے محاذوں میں اپنے دل کی کیفیات ایک عزیز کے نام خط میں اس طرح بیان کیں:

’’پچھلے دنوں رمضان میں کچھ کاموں9 کا موقع بھی ملا۔ بہت مزہ بھی آیا۔ ہمارے کاموں کا تو عجیب نشہ ہوتا ہے۔ ابھی کام کے دوران گرج اور گونج سب سے محبوب آواز ہوتی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سے اپنے دین کا کام لے لے۔ اپنے دشمن کو ذلیل کرے اور اپنے دوستوں کو فتح یاب کرے، آمین۔‘‘

خالد پر محاذ پر جانے کی لگن اس طرح سوار ہوتی تھی کہ بعض اوقات کسی دوسرے کام کے لیے جاتے ہوئے اگر موقع مل جائے تو وہ جنگ پر جانے کے لیے کوئی بہانہ ڈھونڈ ہی لیتا تھا۔ ایک دن مجھےکہنے لگا کہ جہاں بھی ساتھی کارروائی کے لیے جائیں وہاں مجھے ضرور بھیجیےگا۔ میں نے کہا کہ بھئی کیوں؟ کہنے لگا کہ دراصل پچھلی دفعہ ایک کارروائی میں مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ اب آپ کو چاہیے کہ میری تربیت کرنے کے لیے اور مجھ میں بہادری پیدا کرنے کے لیے مجھے بار بار کارروائی میں بھیجیں۔ میں اس کی دلیل اور شرکت کے بہانے کا سوچ کر مسکرا کر رہ گیا۔

اسی طرح ۲۰۱۴ء میں اسے افغانستان کے صوبہ ننگرہار کی طرف مجاہدین کے مواصلاتی کاموں کے لیے بھیجا گیا۔ ننگرہار کے جس گاؤں میں اس کا قیام تھا وہاں کے طالبان منظم نہیں تھے اور جہادی کاموں میں بھی سستی کرتے تھے۔ خالد گیا تو وہاں کسی اور کام سے تھا مگر جاکر ان کو ابھارنے لگا کہ تم کیوں اپنے علاقے میں مائن کاری نہیں کرتے اور کیوں کاموں میں سستی کرتے ہو۔ یوں اس نے طالبان کےساتھ مائن کاری کی کارروائیوں میں شرکت شروع کر دی اور مجاہدین کا حوصلہ بڑھانا شروع کردیا۔ بالکل اسی طرح ایک دفعہ اسے کابل کے قریب ایک علاقے میں کسی کام سے جانا پڑا۔ وہاں سے واپس آیا تو اپنے ذمے کا کام تو کر ہی آیا مگر ساتھ ساتھ اس علاقے میں دشمن کے کیمپ پر حملے کا منصوبہ بھی بنا آیا اور اس میں سب سے پہلے اپنا نام بھی لکھوا آیا۔

خالد کی بہادری، جنگ سے اس کی لگن، محاذوں سے اس کا عشق اور شہادت کی تمنا دوسرے ساتھیوں کے اندر بھی ایمانی آگ کو بھڑکاتی اور وہ جس مرکز میں جاتا وہاں آگے بڑھنے اور کبھی نہ تھکنے کا سبق چھوڑ کر آتا۔

خالد کی سیرت کے اس پہلو میں خالد کے ہم عمر امتِ مسلمہ کے اُن نوجوانوں کے لیے بڑا سبق ہے کہ جن کی زندگیوں کے قیمتی اوقات ویڈیو گیم کھیلنے، انٹرنیٹ کی تفریحوں اور لہو لعب میں صَرف ہوتے ہیں۔ خالد نے اس عمر میں اپنا شوق اور محبوب مشغلہ اپنے رب کی رضا کو پانے کے لیے میدانِ جنگ میں جانے کو بنایا اور بالآخر اپنی مراد کو پاگیا۔ خالد بالکل ان مجاہدینِ اسلام کی طرح تھا کہ جو اپنے گھوڑےکی لگام تھامے ہر اس مقام کی طرف اڑے جاتے ہیں جہاں پر اسلام کو ان کی ضرورت ہو۔

حسنِ خُلق کا پیکر

خالد کی شجاعت و بہادری کے بعد دوسری ممتاز ترین صفت اس کے اعلیٰ اخلاق تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کامل اہلِ ایمان وہ ہیں جو کہ اعلیٰ اخلاق والے ہیں10۔ یہ بھی گزر چکا ہے کہ مجاہدین کا آپس میں حسنِ سلوک کا رویہ رکھنا جہاد کی قبولیت کی شرائط میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خالد کو اعلیٰ اخلاق کا پیکر بنایا تھا۔ دوسروں کا خیال رکھنے میں بہت منفرد تھا۔ کسی ساتھی کی تکلیف پر وہ تڑپ اٹھتا تھا اور اس وقت تک بے چین رہتا تھا جب تک اپنے بھائی کی مدد نہ کرلے۔ اپنے معصومیت بھرے انداز میں مجاہدین کے ہر خاندان کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھتا اور دوڑ دوڑ کر کرتا۔ کسی ساتھی کے گھر جائے تو وہاں پر اپنی خوشی سے کنویں سے پانی نکالتا اور لکڑیاں کاٹ کر دیتا۔ اور یہ سب کام کسی حکم کی تعمیل میں نہیں بلکہ محض مسلمان بھائی سے حسنِ سلوک کی نیت سے ہوتا تھا۔ ایک دفعہ مجھ سے کہنے لگا کہ مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ بعض بھائی ایک دوسرے کی خدمت کو عار سمجھتے ہیں اور مجاہدین کے گھرانوں کے چھوٹے چھوٹے کاموں کو بوجھ سمجھتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں اور ہر بھائی کی مدد کریں، بالخصوص وہ مجاہد جو کہ کمزور ہوں، یا بیمار و زخمی ہوں یا پھر سفر پر ہوں وغیرہ، ان کے گھروں کے کاموں کو تو ہمیں جہاد سمجھ کر کرنا چاہیے۔

خالد کی نیک سیرتی پر ہم حیران رہ جاتے تھے۔ حالانکہ وہ عمر میں اکثر ساتھیوں سے چھوٹا تھا مگر جب کسی کے گھر جاتا تو گھر والوں کے لیے کچھ ہدیہ تحفہ لے کر جاتا۔ ایک جگہ پر مجاہدین کے تین گھرانے اکٹھے رہتے تھے اور اس جگہ پر اکثر خالد بھی رات گزارنے آتا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ خالد جب بھی آتا تو ایک بڑے سائز کا تربوز یا کوئی موسمی پھل خرید کر لاتا۔ پھر اس پھل کے چار حصے کرتا اور تین حصوں کو برابر برابر ہر گھرانے کو ہدیہ کرتا اور چوتھا حصہ خود بیٹھ کر کھاتا۔ اسی طرح افغانستان کے بعض دشوار گزار علاقوں میں بالعموم سبزیاں نہیں مل پاتی تھیں۔ وہیں بعض پہاڑوں پر موسمِ بہار میں ساگ نما سبزیاں اگتی تھیں جو پک کر بہت خوش ذائقہ ہوتی تھیں۔ خالد کو ساتھیوں کی سہولت کا اتنا احساس ہوتا تھا کہ اس موسم میں جب کسی ساتھی کے گھر جاتا تو پہلے کچھ دیر پہاڑوں پر گھوم کر وہ ساگ جمع کرتا اور پھر اپنی چادر میں اس ساگ کی ایک گٹھری باندھ کر لاتا اور پھر ساتھیوں کو اپنی طرف سے ہدیے میں پیش کرتا۔

خالد کے اعلیٰ اخلاق کا ایک اور واقعہ بھولے نہیں دیتا۔ ایک دفعہ ہمارے پاس آیا تو اس کے پاس ایک بہت ہی خوبصورت سی سفید رنگ کی دیسی مرغی تھی۔ کہنے لگا کہ یہ میری مرغی ہے اور یہ میری ذاتی ہے اور آپ لوگ اس کو ذبح نہیں کرسکتے۔ ہاں اگر انڈے دینے لگے تو پھر انڈے آپ لوگ کھا لیجیے گا۔ ہمارے لیے خالد کا یہ رویہ حیران کن تھا مگر پھر بھی مرغی رکھ لی۔ ہماری قسمت کہ اس مرغی نے نہ انڈہ دینا تھا اور نہ دیا۔ خالد اکثر اس مرغی کے انڈے دینے کے بارے میں دریافت کرتا رہتا۔ پھر جب کافی عرصے تک اس نے انڈے نہ دیے تو ایک دن آکر کہنے لگا کہ بھائی! یہ تو انڈے نہیں دیتی آپ اس کو ذبح کیوں نہیں کردیتے! ہم نے کہا کہ یہ تو تمہارا ہی سخت آرڈر تھا کہ یہ میری ذاتی ہے اور اسے کوئی ذبح نہ کرے، اس لیے ہم سب اسے ذبح کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اس پر خالد نے جو بات بتائی وہ بہت ہی عجیب تھی۔ خالد کہنے لگا کہ بھائی! آپ لوگوں کے گھر میں مرغی بچتی نہیں ہے اور اکثر ہی کسی نہ کسی بہانے سے ذبح ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے آپ کے بچے انڈے نہیں کھا پاتے، تو میں نے سوچا کہ میں ایک مرغی لیتا ہوں اور اسے اپنے نام کرلیتا ہوں، تاکہ آپ اس کو ذبح نہ کرسکیں اور یوں آپ کے بچوں کو انڈے ملتے رہیں۔ اللہ اس سے راضی ہو، آمین۔

خالد کے حسنِ خلق کا ایک اور واقعہ یاد آتا ہے تو لبوں سے بے ساختہ نکلتا ہے کہ خالد! اللہ تم سے راضی ہوجائے۔ ہوا یوں کہ پاکستان افغانستان کے سرحدی علاقے انگور اڈہ میں شدید سردی کی وجہ سے میں سینے کی تکلیف اور انفیکشن کا شکار ہوکر بخار میں مبتلا ہوگیا۔ ہر قسم کی دوا استعمال کی مگر افاقہ نہ ہوا۔ شہد کی افادیت اور اس میں شفا ہونے پر ایمان تو الحمدللہ تھا ہی مگر اپنے معدے کے مزاج کی وجہ سے مجھ سے شہد نہیں کھایا جاتا تھا بلکہ شہد کو سونگھنے سے ہی جی متلانے لگتا تھا۔ خیر خالد اور دیگر ساتھیوں کے اصرار پر ایک دفعہ چائے میں شہد ڈال کر پیا تو وہی ہوا کہ جی متلانے لگا اور میں نے سختی سے خالد کو کہا کہ آئندہ مجھے شہد نہیں کھلانا۔ شام کو چائے ہمیشہ خالد ہی بناتا تھا۔ ایک دن مجھے چائے پیتے ہوئے شک ہوا تو میں نے پوچھا کہ خالد تم نے چائے میں شہد تو نہیں ملایا؟ جس پر اس نے بات کو گھما کر اس طرح جواب دیا کہ ’’کس نے کہا ہے کہ میں نے چائے میں شہد ملایا ہے؟‘‘۔ خیر وقت گزرتا گیا اور آہستہ آہستہ میں شفایاب ہوتا گیا۔ پندرہ بیس دن بعد جب میری طبیعت مکمل بحال ہوئی تو خالد از راہِ مزاح کہنے لگا کہ بھائی شکر ہے کہ اب آپ بالکل ٹھیک ہوگئے ہیں اور آپ تو چائے میں شہد ملا کر بھی پی سکتے ہیں۔ میں نے انکار کیا اور کہا کہ بالکل بھی نہیں پی سکتا۔ اس پر خالد کہنے لگا کہ یہ جو اتنے عرصے سے روزانہ آپ چائے پیتے ہیں اس میں میں خود شہد ملاتا ہوں مگر آپ کو بتاتا نہیں تاکہ آپ انجانے میں پی جائیں اور آپ کو اس کا فائدہ بھی ہو اور شہد پینے سے حساسیت بھی ختم ہوجائے۔

ایک دفعہ ہمارے ایک ساتھی کے گھر میں بیماری تھی۔ خالد اپنے بھولے پن اور معصومیت کی وجہ سے ایسے سوال کرلیتا تھا کہ جسے دوسرے نہیں کرپاتے تھے۔ خالد نے ساتھی سے پوچھا کہ گھر والوں کی کیسی بیماری ہے؟ اس ساتھی نے بتایا کہ بس کمر میں تکلیف رہتی ہے اور کام کاج میں مشکل ہوتی ہے۔ خالد نے کہیں سن رکھا تھا کہ خواتین کو فولک ایسڈ کی گولیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ دن بعد ہماری ملاقات مجاہدین کے ایک ڈاکٹر صاحب سے ہوئی۔ خالد ان سے پوچھنے لگا کہ اگر خواتین کو فولک ایسڈ کی گولیاں دی جائیں تو اس کا کوئی سائیڈ افیکٹ تو نہیں ہوتا اور خواتین کو جو کمزوری اور کمر میں تکلیف ہوتی ہے اس کے لیے فولک ایسڈ کی گولیاں دینا کیسا ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ہاں! خواتین کو یہ گولیاں کھانی چاہیے اور ان کا ان شاء اللہ سائیڈ افیکٹ نہیں ہوتا۔ میں قریب ہی بیٹھا خالد کی گفتگو سن رہا تھا۔ میں نے خالد کو ٹوکا کہ یہ کیا تم الٹے سوالات کرتے ہو اور جس کو گولی چاہیے ہوگی وہ خود لے آئے گا، تمہارا کیا کام خواتین کی بیماریوں سے؟ اس پر خالد گویا ہوا کہ بھائی! مجھے پتہ ہے کہ خواتین میں اکثر کمزوری آئرن کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے، یہ گولی بہت اچھی ہوتی ہے، میرا دل کرتا ہے کہ میں اس بھائی کو یہ ضرور دوں۔ پھر خالد بازار گیا، فولک ایسڈ کی گولیاں خریدیں اور پھر لاکر اس بھائی کو دیں بھی اور اس گولی کی افادیت بھی بتائی۔ وہ بھائی کہنے لگا خالد تم تو بچے نہیں بلکہ ’بزرگ‘ ہو۔ اس کے بعد اکثر ہم خالد کو از راہِ مذاق ’بزرگ‘ کہا کرتے تھے۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہمیں ننگرہار میں پیش آیا۔ ہم ایک انصار کے ساتھ رہتے تھے۔ ایک دن علم ہوا کہ انصار کی اہلیہ بیمار ہیں۔ خیر کھانا وغیرہ تو ہمسائے کے دوسرے گھر سے آگیا۔ دن میں جب ہمارا انصار ساتھی ہمارے پاس آیا تو خالد اس کو سائیڈ پر لے گیا اور اس سے کہا کہ بھائی! آپ کا جو بچہ ہے اس کے جتنے بھی میلے کپڑے ہوں وہ لا دیں۔ اس پر اس مقامی انصار نے حیرت سے پوچھا کہ تم نے کیا کرنا ہے؟ خالد بولا کہ دراصل آپ کی اہلیہ بیمار ہیں تو میں نے سوچا کہ میں آپ کے بچے کے کپڑے دھو دیتا ہوں۔ وہ انصار تو انکار کرتا اور شرماتا ہوا رخصت ہوگیا مگر قریب کھڑے ساتھیوں نے خالد کی یہ ساری گفتگو سن لی تھی۔ بس انہوں نے تو خالد کو آڑے ہاتھ لیا اور سخت سنایا کہ یہ بھی کوئی کرنے والی بات تھی، مقامی افغانیوں کے لیے تو یہ بڑے عیب کی بات ہے کہ وہ اپنے بچے کے کپڑے کسی اور کو دیں، وغیرہ وغیرہ۔ خیر شام کو مجھ سےخالد ملا تو بہت پریشان تھا، میں نے پوچھا تو روہانسا ہوگیا اور کہنے لگا کہ پتہ نہیں بھائی اس بات کو برا کیوں سمجھ رہے تھے۔ میں تو سوچتا تھا کہ یہ انصار ہماری اتنی خدمت کرتے ہیں تو کیا ہوا کہ ایک دن میں بھی ان کے گھر کا کچھ کام کردوں۔

اسی پر بس نہیں، خالد کا ہر انصار سے خصوصی تعلق ہوتا تھا۔ وہ ان کے معاملات میں دلچسپی لیتا، ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا اور ہر ممکن طریقے سے ان کی مدد کرتا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ہم ایک مقامی افغانی انصار کی طرف گئے تو ان کے بوڑھے والد صاحب کے پاس سردی سے بچاؤ کے لیے کوٹ یا جیکٹ وغیرہ کا انتظام نہیں تھا۔ خالد نے جب یہ دیکھا تو ان کو اپنی جیکٹ دے دی۔ اور بس یہی نہیں جب بھی کبھی ان کو کوئی ضرورت پیش آتی خالد ان کی حاجت پوری کرتا۔

اللہ نے خالد کو فطری طور پر غیر معمولی ذہانت سے نوازا تھا۔ اب انصار سے تعلق کی وجہ سے وہ ناصرف یہ کہ افغانستان کی زبانوں کے مقامی لہجے سے واقف ہوتا تھا بلکہ وہ علاقے کے رواج و عادات اور قبیلوں کی تقسیم سے بھی واقف ہوتا تھا۔ وہ انصار کے بزرگوں کے ساتھ ایسے اخلاق سے پیش آتا کہ بعض ایسے حضرات جو کہ پاکستانی مجاہدین سے کفار کے پیدا کردہ علاقائی تعصب کی وجہ سے ناخوش رہتے تھے، جب خالد ان سے ملتا اور گفتگو کرتا اور ان کے دلچسپی کے امور میں دلچسپی لیتا تو وہی حضرات ہمارے پاکستانی ساتھیوں کے انصار بن جاتے۔

اسی طرح کا ایک واقعہ صوبہ غزنی میں پیش آیا جہاں پر ایک محلے کے ایک بزرگ ہمارے ساتھیوں کے ساتھ مناسب رویہ نہیں رکھتے تھے۔ مسجد میں ان سے سامنا ہوتا تو بس بے دلی سے سلام کرتے اور بعض طنزیہ جملے بول کر رخصت ہوجاتے تھے۔ پھر ایک دن اتفاق سے خالد کا اس علاقے میں جانا ہوا۔ نماز کے بعد خالد ان بزرگ سے بڑی خندہ پیشانی سے ملا اور مسجد سے ملحقہ حجرے میں ان سے بیٹھنے کی درخواست کی۔ وہ بزرگ بادل نخواستہ بیٹھ گئے۔ پھر خالد نے ان سے ان کے علاقائی موضوعات پر بات چیت شروع کی، پشتو زبان کی تاریخ اور افغانستان کی تاریخی جنگوں کے قصے ان سے سنانے کی درخواست کی۔ ساتھ ساتھ خالد انہیں پنجاب کی صورتِ حال اور وہاں پر غلبۂ اسلام کی کوششوں سے بھی مطلع کرتا رہا، اور نظامِ پاکستان کی اسلام دشمنی اور ظلم و وحشت سے آگاہ کرتا رہا۔ مغرب سےعشاء کے درمیان چلنے والی اس نشست سے وہ بزرگ اتنے متاثر ہوئے کہ اس کے بعد وہ اس علاقے میں ہمارے سب سے زیادہ مدد و نصرت کرنے والے انصار بن گئے۔ اپنے حجرے کو انہوں نے ہمارے لیے وقف کردیا، سخت ترین حالات اور امریکی چھاپوں میں بھی وہ مہاجر مجاہدین کی مدد سے پیچھے نہ ہٹے اور خالد کے اخلاق سے اتنا متاثر ہوئے کہ وہ اس کے بعد کہتے تھے کہ حقیقی مجاہد تو بس یہی لوگ ہیں۔ اسی طرح ایک افغانی انصار نے مجھ سے کہا کہ خالد کے اخلاق و کردار اور اس کی سیرت کو دیکھتے ہیں تو بالکل صحابیٔ رسول سیدنا مصعب بن عمیر ﷜ کی شخصیت یاد آتی ہے۔ اللہ اس سے راضی ہو۔

حساس دل

خالد کی شخصیت ساتھیوں میں محبتیں بکھیرنے والی تھی۔ اسے لڑائی جھگڑے سےبہت کوفت ہوتی تھی اور جہاں کہیں کوئی اختلاف یا جھگڑا ہوتا تو وہ اس کے حل پر کمربستہ ہوجاتا۔ خالد کی صحبت کا ساتھیوں پر اتنا اثر ہوتا کہ اس کی موجودگی میں غیبت کرنے اور فتنہ انگیز گفتگو کرنے کی کسی کو جرأت نہ ہوتی۔ اس کی بڑی کوشش ہوتی کہ کسی طرح ناراض دلوں کو جوڑ دے اور غلط فہمیوں کو دور کروائے۔ حقیقت میں اکثر و بیشتر جھگڑوں کی بنیاد غلط فہمی اور بدگمانی ہی ہوتی ہے۔ خالد کا یہ کمال ہوتا کہ وہ غلط فہمیوں کو دور کرتا اور ناراض ساتھی کے دل کو دوسرے ساتھی کے بارے میں صاف کرتا۔ اسی طرح خالد مرکز میں رہتے ہوئے بڑی حکمت اور محبت کے ساتھ ساتھیوں کے اخلاق و عادات کی اصلاح کی کوشش کرتا اور خالد کی موجودگی کا نمایاں اثر مراکز میں دیکھنے کو ملتا۔

اس سے اگر کوئی ناراض ہوجائے یا ناراضگی کا امکان بھی ہوجائے توبہت پریشان ہو جاتا اور ناراضگی پیدا کرنے والے سبب کی تلافی کی ہر ممکن کوشش کرتا۔ ایک دفعہ اس کی تشکیل خطۂ محسود کے دشوار گزار درّے میں تھی۔ مجاہدین وہاں پر اپنی عسکری مشقیں بھی کرتے اور وہاں دین دشمن پاکستانی فوج کے خلاف دفاعی محاذ پر بھی رہتے تھے۔ اسی دوران میران شاہ میں اسے ایک انتہائی ضروری ذاتی کام پڑ گیا جس کے لیے بڑے امراء نے اس کو میران شاہ کی طرف بلا لیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ محاذ کے ذمہ دار کو نہ ہی خالد کے ذاتی کام کی اہمیت کا اندازہ تھا اور نہ ہی خالد رازداری کی وجہ سے انہیں یہ کام بتا سکتا تھا۔ اس کے پاس جانے کے لیے یہ عذر موجود تھا کہ بڑے امراء نے مجھے بلایا ہے۔ مگر خالد اس بات پر بہت پریشان تھا کہ میرے اس طرح جانے سے محاذ کے امیر کا دل دکھے گا اور اسے افسوس ہوگا۔ پس اس احساس سے خالد نے نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں جب میں نے اس سے پوچھا کہ جب وہ اپنے ذاتی کام کی شدید اہمیت سے واقف تھا اور بڑے امیر کی اجازت تھی تو کیوں نہیں گیا تو وہ کہنے لگا کہ میرے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ میں کسی بھائی کا دل توڑوں اور اسے ناراض کروں۔

اپنی اصلاح کی فکر کرنا

خالد کو اپنی اصلاح کی بہت فکر ہوتی تھی اور اسی طرح ہر دینی، شرعی اور اخلاقی معاملے میں اپنے آپ کو مزید بہتر کرنے کے لیے وہ ساتھیوں سے پوچھا کرتا کہ مجھ میں کوئی غلطی ہو تو مجھے بتائیں۔ اور اپنی کسی غلطی کا اگر علم ہوجائے تو فوراً اصلاح کرنے پر کمربستہ ہوجاتا۔ خالد کے مزاج میں بے تکلفی بھی تھی اور معصومیت بھی، اور اسے اپنے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے اچھے طریقے سے بات کرنی بھی آتی تھی۔ لہٰذا اگر اسے احساس ہوتا کہ میں نے کوئی غلطی کی ہے تو فوراً اس کی تلافی کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اپنی شہادت سے چند دن قبل مجھ سے کہنے لگا کہ ’’آپ نے چند سال پہلے مجھے کچھ نصیحتیں کی تھیں، کیا آپ کو یاد ہیں؟‘‘۔ میں تو وہ واقعہ بھلا چکا تھا۔ پھر مجھے یاد کرا کے کہنے لگا کہ بھائی جب میں نے فلاں غلطی کی تھی اور آپ نے مجھے اس حوالے سے نصیحت کی تھی۔ مجھے واقعہ یاد آیا تو کہنے لگا کہ کیا آپ نے مجھ میں کوئی تبدیلی دیکھی ہے؟ کیا میں اب بھی ویسا ہوں یا میں نے اپنے آپ کو تبدیل کرلیا ہے؟، میرے اخلاق کیسے ہیں؟ اور آپ مجھے پھر نصیحت کریں کہ مجھے کیسا بننا چاہیے اور مجھ میں کیا کیا غلطیاں اور کمزوریاں ہیں۔ اللہ اس کو جنتوں کا سردار بنائے، آمین۔

دعوتی خطوط

خالد کے دل میں جہاد کی دعوت اور محاذوں کی تازہ صورتِ حال دیگر مسلمانوں تک پہنچانے کی بہت تڑپ تھی۔ اس کا دل مچلتا تھا کہ کسی طرح اپنے دیگر مسلمان عزیزوں، دوستوں اور رشتہ داروں تک اپنے دل کی تڑپ اور امت کا غم منتقل ہوجائے۔ خالد کو جب بھی فارغ وقت ملتا تو وہ اپنے جاننے والوں کو خطوط لکھتا اور اس میں جہاد کی دعوت ضرور دیتا اور جہاد کے بارے میں جو شبہات لوگوں کے دلوں میں ہوتے ہیں ان کو رد کرتا۔ مجھ سے پوچھتا کہ میں کیسے ایک اچھا دعوتی خط لکھ سکتا ہوں۔ پھر کتابوں کا مطالعہ کرتا اور بعض اوقات جہاد کی کتابوں میں سے اقتباسات بھی اپنےخطوط میں لکھتا۔ اس مقصد کے لیے اس نے بہت توجہ سے شیخ عبداللہ عزام ﷫ کی کتاب’’ایمان کے بعد اہم ترین فرضِ عین‘‘ کا مطالعہ کیا اور اہم باتوں اور جملوں کو نوٹ کیا۔ محبت بھرے انداز سے جہاد کی دعوت اپنے جاننے والوں تک پہنچاتا اور مخاطب کے ساتھ ادب اور احترام کا رویہ رکھتا۔ جہادی محاذوں کی خبریں سناتا اور جہاد میں شمولیت کے لیے ابھارتا۔

خالد انتہائی محبت اور احترام سے اپنے بڑوں کو مخاطب کرتا اور سادہ اور معصومانہ طریقے سے جہاد کی محبت ان کے دل میں ڈالتا۔ اپنی والدہ کو لکھے گئے ایک خط میں کہ جس میں وہ فدائی حملہ کرنے کی اجازت ان سے مانگتا ہے، لکھتا ہے کہ:

’’اماں جان! اصحاب الاخدود کا قصہ بھی تو آپ ہی سنایا کرتی تھیں ناں۔ اللہ کہتا ہے کہ وہ کامیاب ہوگئے تھے۔ علماء کہتے ہیں کہ جو اپنی زبان سے اپنے آپ کو شہید کروائے یا ہاتھ سے برابر ہے۔ اُن حضرات نے بھی تو بادشاہِ وقت کو اپنی موت کا طریقہ خود سکھایا تھا ناں……… اللہ کا نام لے کر مجھ پر تیر چلاؤ میں شہید ہوجاؤں گا۔ اماں! جو لوگ اس آیت کو کہ ’اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘ کو اِس ’عمل‘11 پر فِٹ کرتے ہیں، اس آیت کی تفسیر تو بالکل الٹ ہے۔ یہ آیت تو تب آئی کہ جب بعض لوگ خود دنیا میں لگ گئے تھے اور جہاد سے غفلت کر رہے تھے تو نازل ہوا کہ اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو۔ یعنی جہاد چھوڑ دینا ہی اصل میں ہلاکت ہے۔ اور دلیل یہ بھی تو ہے ناں کہ اللہ تعالیٰ تو خود دوسری جگہ اس کو کامیابی کہہ رہے ہیں۔ دنیا ابدی نہیں ہے، سب نے فنا ہوجانا ہے۔ جب موت لکھی ہوگی تو خود ہی مرجاؤں گا اور اگر نہ آنی ہو تو فدائی کے ارادے سے بھی نہ آئے گی۔ میرے لیے شہادت کی دعا کریں۔‘‘

اسی طرح خالد کے ایک محبوب دوست نے محض ایک سال کے لیے جہاد میں آنے کا ارادہ ظاہر کیا تو خالد نے اس کو خط میں کچھ یوں لکھا:

’’جب میں جہاد میں آیا تو میں نے بھی ایک شرط رکھی تھی گو کہ میری نیت تو صرف یہ تھی کہ اتنے عرصہ میں اپنے گروپ کے معاملات دیکھوں گا اور پھر فیصلہ کروں گا کہ اگر یہ حق پر دکھے تو میں دائمی ان کے ساتھ ہوں اور اگر نہیں تو راستہ کھلا رکھوں۔ چنانچہ میں نے فاروق بھائی12 سے جہاد میں ایک سال رہنے کی شرط رکھی۔ تو جواب کیا آیا؟ فاروق بھائی نے فقط یہ کہا کہ ’پیارے! جہاد تو ایک سال کے لیے نہیں ہوتا۔ جہاد تو فرض ہے، فرض کو مکمل کرنا پڑے گا۔ جہاد تو اس وقت ہی مکمل ہوگا کہ جب اللہ پاک خود ہی اپنی جنتوں کے لیے چن لے‘۔ بھائی !جہاد تو اللہ کے لیے ہے تو اللہ پر شرطیں نہ ڈالیں۔‘‘

خالد کو اس بات کا بہت شوق تھا کہ اپنے اقرباء اور دوستوں کو جہادی میدان کی تازہ صورتِ حال اور خوشخبریاں سناتا رہے۔ وہ ان کو عسکری کارروائیوں کی تفاصیل لکھتا اور مجاہدین کی فتوحات اور راہِ جہاد میں آنے والی آزمائشوں اور ان آزمائشوں کے باوجود سکون و اطمینان کی کیفیات لکھتا۔ اپنے ایسی ہی ایک خط میں وہ اپنے اقربا کو افغانستان میں مختلف محاذوں کی کارگزاری کچھ ایسے بیان کرتا ہے۔

’’عید کے آگے پیچھے گیارہ ساتھی شہید اور زخمی ہوئے۔ ان میں سے دو اسلام آباد کے، ایک کراچی کے، ایک کشمیر کے، ایک برما کے اور باقیوں کا مجھے نہیں پتہ۔ میرے استاد قتادہ بھائی اور امجد بھائی13 بھی شہید ہوگئے۔ پکتیکا کا ضلع جانی خیل فتح ہوا، اس فتح میں ہمارے دو ساتھی ایک کراچی اور دوسرے پنڈی کے شہید ہوئے۔ ننگرہار کا ضلع حیسارک فتح ہوا اور اس فتح میں پانچ ساتھی ہمارے شہید اور دو زخمی ہوئے۔ باقی قندھار اور ہلمند میں بھی فتوحات ہوئیں۔

عید سے دو تین دن پہلے ہم پکتیکا کے ضلع اومنہ گئے ہوئے تھے۔ ولسوالی14 فتح ہوئی اور ایک مجاہد شہید ہوا۔ پہلے دن میں تعارض15 میں نہیں تھا البتہ ہمارے اور ساتھی تھے۔ عبدالشہید بھائی رحمہ اللہ کا چھوٹا بھائی اور ایک اور ساتھی اور کچھ طالبان Humvee (بکتر بند) گاڑی میں بیٹھ کر رات کو پوسٹ کی طرف جارہے تھے کہ دشمن نے ان پر ۳۰ کے قریب راکٹ کے گولے مارے جن میں سے تین گولے پوسٹ سے ۱۰۰ میٹر دور بکتربند گاڑی کو لگ گئے۔ بہرحال ساتھی باہر کودے اور واپس ہوئے۔ اس واپسی میں کچھ ساتھی زخمی ہوئے اور ان زخمیوں میں سے ہی ایک بعد میں شہید ہوگیا۔ البتہ جب یہ واپس ہوئے تو حملہ کرنے والی دوسری پارٹی کُودی اور پھر اس پوسٹ کو دشمن سے چھین لیا۔ اس حملے میں دشمن کا بڑا ’خونمیر‘ نام کا مارا گیا۔

دو دن بعد ولسوالی اور باقی پوسٹوں پر بڑا حملہ تھا۔ ہم پوسٹ کی طرف تھے۔ میرے پاس نائٹ وژن اور نائٹ لیزر تھی اور میں دوئم تعارضیوں16 میں سے تھا۔ جبکہ اول تعارضیوں میں ہمارے تین ساتھی تھے۔ محمد عسکری رحمہ اللہ کا بھائی بھی تھا۔ بہرحال رات کو دشمن کے قریب ہوتے گئے۔ شروع میں پوسٹ اور ولسوالی سے روشنی کے گولے اور فائر بھی آیا مگر جب ہم دشمن کے قریب پہنچے تو کوئی جواب نہیں آیا۔ تھوڑی بہت فائرنگ کرتے ہوئے اول تعارضی جب پوسٹ پر پہنچے تو پتہ چلا کہ پوسٹ میں کتوں کے علاوہ کوئی نہیں۔ ولسوالی میں بھی جب مجاہدین گھسے تو وہاں سے بھی دشمن بھاگ چکا تھا۔ بہرحال اس کارروائی میں دو رینجر ڈبل کیبن، ایک ہائیلکس، کلاشن کوفیں، ۳۰ گولے راکٹ، ۶۰ ہزار گولیاں کلاشن کوف، اتنی ہی پیکا کی گولیاں، وردیاں، ٹی وی، جنریٹر، ٹیبلیں، موٹرسائیکل، کباڑ وغیرہ ملا۔ ابھی تک فقط گولیوں کی غنیمت بنٹی ہے جس میں ایک مجاہد کے حصے میں ۵۳۰۰ روپے آئے ہیں۔ باقی ابھی بٹے گی۔

باقی ارزگان میں جنگ جاری ہے۔ صوبائی مرکز پکڑنے کا ارادہ ہے۔ دو تین دنوں میں میں بھی جاؤں گا۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ خصوصاً شہادت اور فتح کی۔ سب کو عید مبارک۔‘‘

اسی طرح خالد کو اللہ نے موقع دیا کہ ایک ساتھی کے ساتھ مل کر اس نے شیخ عبداللہ عزام ﷫ کی سورۂ توبہ کی معرکۃ الآراء تفسیری دروس کا مطالعہ کیا۔ خالد ان دروس سے بہت متاثر ہوا۔ جہاں اس تفسیر میں جہاد کی دعوت ہے وہیں پر جہاد پر اٹھنے والے اعتراضات کا رد، دنیا کی حقیقت اور اس کے فتنوں کا رد، اور منافقین کی علامتوں کا بیان ہے۔ ساتھ ساتھ مجاہدین کی تربیت اور ان کو افراط و تفریط سے بچانے کے لیے بھی بڑا مفید مواد ہے۔ بالخصوص غلو و تشدد اور مسلکی تعصبات کی اصلاح میں تو یہ کتاب بہت ہی نافع ہے۔ اس مقصد کے لیے خالد یہ سمجھتا کہ اس کتاب کا ہر مجاہد کو مطالعہ کرنا چاہیے اور خاص طور پر اسے تو ضرور کرنا چاہیے کہ جو ہمارے دین کی جہادی فکر کو صحیح طرح نہ سمجھا ہو۔ اسی لیے اس نے اپنے ایک بہت ہی محبوب دوست کے لیے یہ کتاب بھجوائی جو جہاد سے محبت تو کرتا تھا مگر مجاہدین سے براہِ راست رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کے افکار میں اہلِ غلو کے افکار کی آمیزش کا خطرہ تھا۔

اہلِ غلو کے سدباب کی کوششیں

خالد کو جب ۲۰۱۵ء میں مجاہدین کے مواصلاتی نظام کے سلسلے میں افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں قیام کا موقع ملا تو وہاں پر اسے اہلِ غلو و فساد کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ افغانستان میں دولتِ اسلامیہ(داعش) نامی گروہ نے سر اٹھایا تھا اور اس گروہ کا مرکز و منبع بھی صوبہ ننگرہار ہی تھا۔ یہاں قیام کے دوران خالد نے نہ صرف اس گروہ کے افکار و نظریات کو تفصیل سے جانا بلکہ ان کے کردار و عمل کا بھی قریب سے مشاہدہ کیا۔ بظاہر شریعت اور خلافت کے نام پر اٹھنے والے گروہ نے اپنی اٹھان کے ساتھ ہی اہلِ ایمان سے جنگ شروع کی، مسلمانوں کو معمولی باتوں پر کافر قرار دینے کو اپنا شعار بنایا، امارتِ اسلامیہ کی مدد کرنے کے الزام میں مجاہدین کے انصاروں کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور اردگرد سے بری شہرت رکھنے والے اور مجرمانہ کردار کے حاملین افراد اس گروہ میں شامل ہونے لگے۔ خالد نے کئی ایسے افراد سے جو داعش کے گمراہ کن نظریات سے متاثر تھے، گفتگو کی۔ ان سے بحث مباحثہ کیا اور اس کی کوششوں کی وجہ سے بہت سے افراد دوبارہ سے امارتِ اسلامیہ سے جڑے۔ ننگرہار کے اس تجربے کے بعد خالد کی بڑی کوشش ہوتی کہ تمام مجاہدین اور ان کے احباب کو اس فتنے کے خدوخال سے آگاہ کرے اور اس کی گمراہی کو واضح کرے۔ اس سلسلے میں وہ اپنے خطوط میں بھی اپنے عزیزوں کو راہنمائی دیتا اور مطالعے کے لیے مواد بھجواتا۔ خالد کہتا تھا کہ فکری طور پر اس حوالے سے مضبوطی کے لیے بھی مجددِ جہاد شیخ عبداللہ عزام ﷫ کی تحریرات بہت نافع ہیں۔ اپنے ایک عزیز کو لکھے گئے ایک خط میں داعش کے فتنے کے حوالے سے تحریر کرتا ہے:

’’آپ نے داعش کے بارے میں پوچھا تھا۔ علماء اور بڑوں سے کچھ سنا اور ان لوگوں کو خود کچھ دیکھا ہے، اپنی کم فہمی کے باوجود چند باتیں عرض کرتا ہوں۔ سب سے پہلے تو یہ ہے کہ عرب کے بہت مشہور جہادی علماء نے ان کو خوارج کہا ہے کیونکہ یہ داعشی اپنے ہر مخالف کی تکفیر کرتے ہیں اور اس کو بہت ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔ ایک عالم کہتے ہیں کہ پہلے زمانے کے خوارج ان سے اچھے تھے کہ جو کم از کم گناہِ کبیرہ کرنے پر تکفیر کرتے تھے۔ یہ داعشی تو ان کی تکفیر کرتے ہیں جو جہاد کرتے ہیں اور محض اس بات پر کہ ان کی بیعت نہیں کرتے (ان تکفیر کرتے ہیں)۔ ظالموں نے ہزاروں مجاہدین کا شام و افغانستان میں لہو بہایا۔ یہاں تک کہ شیخ اسامہ رحمہ اللہ کے قریبی دوست شیخ خالد سوری پر بھی خودکش حملہ کرکے شہید کیا، حالانکہ خالد سوری رحمہ اللہ تو معاملہ حل کرنے کے لیے ثالث بن کر گئے تھے۔ یہ امارتِ اسلامیہ کی تکفیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سب مشرک ہیں۔ ان کا ایک مفتی جو کہ تیونس کا ہے اس نے ملا عبدالسلام ضعیف کی تکفیر کی کیونکہ وہ (اس کے مطابق) اقوام متحدہ میں طالبان کے سفیر تھے (اس کو یہ نہیں پتہ کہ وہ تو پاکستان میں طالبان کے سفیر تھے)۔ اور اس نے امیر المومنین ملا عمر رحمہ اللہ کی تکفیر کی کیونکہ وہ ان کے امیر تھے (یعنی ملا عبدالسلام ضعیف کے)۔ اور شیخ اسامہ رحمہ اللہ ان کے مطابق اس لیے کافر ہوئے کہ انہوں نے ایک کافر17 کی بیعت کی۔ ان کے علاقوں میں مسلمان بہت مشکل میں ہیں۔ مجاہدین اور ان کے حامیوں کو مائنوں پر بٹھا بٹھا کر شہید کیا۔ کچھ کو درختوں کی شاخوں کے بیچ میں ان کی گردن رکھ کر کلہاڑا مار کر شہید کیا۔ بہرحال ان ظالموں لٹیروں نے مجاہدین، اسلام اور خلافت کے نام کو بہت بدنام کیا ہے۔ الحمدللہ افغانستان میں ان کی کوئی خاص جگہ نہیں بن سکی اور انہوں نے اپنے آپ کو خود ہی بدنام کردیا ہے۔ تفصیل کے لیے پھر لکھوں گا۔ اللہ ہمیں ان سے نجات دلائے، آمین۔‘‘

میرے وطن میں بھی یہ نور پھیل جائے گا

خالد کو پنجاب میں دعوت دینے اور پنجاب کے مقتدر طبقوں کو دین سے جوڑنے کا بڑا شوق تھا۔ خالد منصوبے بناتا تھا کہ ہم پنجاب میں جہاد کریں گے اور وہاں کے جنگلات و بیابانوں میں اپنے ٹھکانے بنائیں گے۔ اس طرح ایک تو دین دشمنوں کی سرکوبی آسان ہوگی اور دوسرا یہ کہ ہم کھل کر عام مسلمانانِ پنجاب کو دعوت دے سکیں گے۔ خالد کا آبائی علاقہ ضلع چکوال تھا۔ ضلع چکوال ان اضلاع میں سے ایک ہے جو پاکستانی فوج کو سب سے زیادہ افرادی قوت فراہم کرتے ہیں۔ مگر خالد کو اپنی سرزمین سے بہت محبت تھی۔ وہ کہتا کہ آپ دیکھیں گے ایک وقت آئے گا کہ چکوال میں جہاد کھڑا ہوگا اور ہم وہاں بیٹھ کر دشمنانِ اسلام کے خلاف منصوبے بنائیں گے۔ وہ چکوال کا اتنا ذکر کرتا کہ ساتھیوں نے اس کی چھیڑ ہی چکوال بنا دی تھی۔ ساتھی چِڑ کر کہتے کہ بھائی! چکوال کی یا تو صرف ریوڑی مشہور ہے یا پھر ظالم فوجی۔ اس پر خالد بہت تلملاتا اور کہتا کہ دیکھنا! جس طرح چکوال والے فوج میں سب سے آگے ہیں، جب ان میں دعوت پھیلے گی تو یہ جہاد میں بھی سب سے آگے ہوں گے۔ پھر کہتا کہ چکوال میں جہاد کی دعوت پھیلانے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس طرح ہم فوجیوں کے گھروں میں دین کی دعوت پھیلا دیں گے اور ان کے بچوں کو اسلام کا حقیقی سپاہی بنا دیں گے، پس ہمیں وہاں دعوت کو ترجیح میں رکھنا چاہیے۔ جہاں کہیں افغانستان میں طالبان کی فتوحات کی خبر ملتی یا اس میں شرکت ہوتی تو خالد ضرور کہتا کہ ایک دن ہمارا چکوال بھی اسی طرح فتح ہوگا اور اسلام کے شیر اس میں بھی ٹینکوں پر بیٹھ کر داخل ہوں گے۔ خیر، ساتھیوں میں خوش طبعی کے لیے برادرانہ نوک جھونک تو چلتی رہتی تھی مگر خالد بہت سنجیدگی سے اور پرعزم ہو کر پنجاب میں دعوتی کام منظم طریقے پر کھڑا کرنے اور عسکری ٹھکانے بنانے کے منصوبے بناتا۔

خالد مجھ سے کہتا کہ ہم کیسے اپنے شہداء کا بدلہ لے سکتے ہیں اور کیسے اپنے قیدیوں کو رہا کروا سکتے ہیں۔ سوچتا رہتا اور پھر کہتا کہ چکوال میں اس کے بڑے مواقع بن سکتے ہیں۔ وہ فکر مند رہتا کہ جس فوج نے سینکڑوں مسلمانوں کو شہید کرکے پنجاب کی سڑکوں پر جا پھینکا ہے، اس سے کیونکر انتقام نہ لیا جائے۔ یہ اس کی بڑی پختہ فکر تھی۔ ایک دن مجھ سے بحث کرنے لگا کہ بھائی! جب ہمارے ساتھی شہید ہوتے ہیں تو ان کا غم نہیں کرنا چاہیے اور تعزیت کے بجائے انتقام کی بات کرنی چاہیے۔ میں نے کہا کہ غم ہوگا تو ہم ان کو یاد رکھیں گے اور انتقام لینا نہیں بھولیں گے۔ کہنے لگا کہ آپ کی بات درست ہے مگر میں یہ سوچتا ہوں کہ ہر شہید کے بعد ہمیں آگے بڑھ کر اس کا بدلہ لینے اور دشمن کو مزید سبق سکھانے کی تیاری کرنی چاہیے، اس احساس سے دشمن پر کارروائی کرنے میں بڑا سکون ملتا ہے۔ کہنے لگا کہ جب قندھار کے امریکی چھاپے کے بعد ۲۰۱۶ء میں ہم نے پکتیکا میں صلیبی فوج کے قافلے کو نشانہ بنایا تو دل بہت ٹھنڈا ہوا اور مزید آگے بڑھنے کا عزم پیدا ہوا۔

آخری تشکیل

خالد کے اسی عزمِ پیہم اور بلند حوصلے کی وجہ سے بالآخر ۲۰۱۷ء کے موسمِ بہار میں اس کی تشکیل شمالی وزیرستان کے محاذ پر کر دی گئی۔ خالد اس تشکیل کے لیے بہت پرعزم تھا۔ اس نے اس کے لیے کافی تیاری کی۔ اپنے لیے نیا اسلحہ خریدا اور عسکری فنون کے علم کی دہرائی کرکے تازہ کیا۔ خالد ایک استاد کی حیثیت سے اس تشکیل میں جارہا تھا۔ جہاں وہ نہ صرف مجاہدین کو اسلحہ سکھائے گا بلکہ ان میں جہاد کی لگن اور آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی پیدا کرے گا۔ اس کا جو مزاج تھا اور جس طرح کی اس میں عادتیں تھیں وہ دیکھتے ہوئے اس کے ذمہ داروں کویہ اعتماد تھا کہ خالد مشکل ترین حالات میں بھی کام جاری رکھ سکتا ہے۔ نہ برفباری اور سردی اس کی راہ میں مزاحم ہوگی اور نہ ہی ڈرون اور چھاپوں کو وہ خاطر میں لائے گا۔ الغرض خالد جب خندق کی تعمیر سے فارغ ہوا اور وزیرستان کے پہاڑوں پر موسمِ بہار کی آمد ہوئی تو خالد اپنی سنائپر اور نائٹ وژن دوربین سے لیس ہوکر محاذ پر جانے کے لیے تیار ہوا۔

یہ ایک مشکل اور خطرناک تشکیل تھی مگر خالد جیسے جواں عزم اور مضبوط نوجوان ہی وہ ہوتے ہیں کہ جو اپنی جانوں کو سپر کرکے اسلام کاحقیقی دفاع کرتے ہیں۔ ایسے نوجوان کہ جن کا عقیدہ یہ ہو کہ ہماری جانوں کا تو بس سودا ہوچکا ہے۔ خریدار خالقِ سماوات ہے اور صلے میں جنت الفردوس ہے۔ یہ خالد جیسے نوجوان ہی ہوتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر ’جان ہتھیلی پر رکھنے‘ کے محاورے کا حقیقی مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ خالد کا جذبہ دیدنی تھا اور وہ جوش و خروش سے اس تشکیل کی تیاری میں منہمک تھا۔

مجھے جانا ہے بہت دور بہت دور تلک

خالد جب وزیرستان آیا تھا تو اس وقت اس کی نسبت اس کی ایک کزن سے طے پاچکی تھی۔ ۲۰۱۴ء میں وزیرستان آپریشن کے بعد جہادی کاموں کی صورتِ حال کچھ ایسی بنی کہ خالد کی شادی جلدی کروانا ممکن نہیں ہوسکا۔ خالد کہتا کہ مجھے جہاد میں ابھی بہت کام کرنے ہیں اور شادی کی مجھے کوئی جلدی نہیں ہے مگر چونکہ لڑکی والے پریشان ہوں گے اس لیے ان کو کوئی جواب دینا چاہیے۔ مگر حالات کی وجہ سے شادی کا معاملہ لٹکتا ہی رہا۔ بالآخر ۲۰۱۷ء کے موسمِ سرما میں اس کی شادی کرنا طے پایا اور خالد کو اس سے مطلع کیا۔

اس کے کچھ عرصے بعد مجھے خالد ملا تو اس نے مجھے بہت عجیب بات کہی۔ کہنے لگا کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں شادی نہیں کروں گا۔ میں نے حیرت سے اس سے سبب پوچھا تو کہنے لگا کہ بات یہ ہے کہ یہ کام کا وقت ہے اور ویسے بھی سردیوں تک میں نے شہید ہوجانا ہے تو خوامخواہ شادی کرکے کسی کو کیوں تکلیف میں ڈالوں۔ میں نے غصے سے کہا کہ تمہیں کیسے پتہ کہ تم نے شہید ہوجانا ہے؟ کہنے لگا کہ مجھے ایسا ہی لگتا ہے لہٰذا میرا شادی نہ کرنا بہتر ہے۔

بچھڑ کے بھی ایک دوسرے کا خیال ہوگا یہ طے ہوا تھا

جس دن خالد اور دیگر ساتھیوں کی روانگی تھی، تمام مرکز میں گہما گہمی تھی۔ ساتھی اپنے محبوب بھائیوں کو الوداع کہنے کے لیے جمع تھے۔ اس موقع پر ساتھیوں کی خصوصی دعوت کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ ساتھیوں کی کیفیت خوشی اور غم میں ملی جلی تھی۔ خوشی اس بات کی کہ ہمارے بھائی محاذِ جنگ پر دین دشمنوں سے مقابلے کے لیے روانہ ہورہے ہیں اور غم اس بات کا کہ اپنے پیارے بھائیوں سے جدائی کا وقت قریب آرہا تھا۔ پھر جن بھائیوں کا نام محاذ پر جانے والے مجاہدین میں شامل نہیں تھا، ان کا پیچھے رہ جانے کا غم بھی نمایاں تھا۔ لبوں پر اپنے بھائیوں کے لیے دعائیں تھیں، فتح و نصرت کی اور دوبارہ ایمان و سلامتی کے ساتھ ملاقات کی۔

خالد اور دیگر بھائی نہا دھو کر تیار ہو کر آئے تو لگتا تھا کہ دولہے ہیں جو بارات کے ساتھ روانہ ہو رہے ہیں۔ میدانِ جنگ کے عاشق امت کے ان شیر صفت بیٹوں کے چہرے خوشی سے ایسے دمک رہے تھے کہ واقعتاً ناواقف شخص محفلِ عروسی کا گمان کر بیٹھے۔ خالد کی اس تشکیل کے امیر بنوں کے مجاہد، جرأت و اعلیٰ کردار کے پیکر کماندان ناصر قریشی تھے جو ’جانان‘ کے تخلص سے مجاہدین میں مشہور تھے۔ جانان کی خوشی کو دیکھ کر تو ایک بھائی نے بے ساختہ کہہ ہی دیا کہ جانان! لگتا ہے کہ اپنی شادی پر روانہ ہورہے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے جہاد اور بالخصوص محاذِ جنگ پر جانے کی جو فضیلتیں بیان کیں ہیں، ان کو سوچنے سے ہی دل خوشیوں سے بھر جاتا ہے۔ اس عظیم راہ میں شہید ہونے یا محض اپنے آپ کو غبار آلود ہی کروا لینے سے اللہ کی رضا و محبت کا حصول، گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کے حصول کے احساس سے ہی ایک مجاہد کو جسم و جان میں خوشی اور اطمینان نصیب ہوجاتا ہے۔ فرمانِ رسول اللہ ﷺ ہے کہ: ’’جہاد کیا کرو کیونکہ یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ غم و پریشانی کو دور کردیتا ہے‘‘۔18

مجاہدین ایک دوسروں کے لیے دعائیں، نصیحتیں اور نیک تمناؤں کا اظہار کر رہے تھے۔ کوئی اپنے بھائیوں کی تیاری کروا رہا تھا اور کوئی اپنی عزیز چیز اپنے کسی روانہ ہونے والے بھائی کو ہدیے میں پیش کر رہا تھا۔ ایک دوسروں کو نہ بھولنے، دعاؤں میں یاد رکھنے اور اگر شہادت ملی تو شفاعت کے وقت یاد رکھنے کے وعدے لے رہے تھے۔ دیگر مجاہدین دعوت کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ موقع کو غنیمت جان کر درختوں کے سائے میں ایک جگہ پا کر کچھ اہم الوداعی باتوں کے لیے میں اور خالد بیٹھ گئے۔ پہلے کی طرح پھر خالد نے نصیحت کرنے کا مطالبہ کیا۔ پھر اپنے عزائم پر گفتگو کرنے لگا۔ خاص طور پر اپنی نائٹ وژن دوربین کے واسطے سے اللہ کے دشمنوں کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے مشورے دینے لگا۔ اس کا عمامہ چند دنوں سے میرے استعمال میں تھا۔ میں اتار کر اسے واپس کرنے لگا تو کہنے لگا کہ نہیں یہ آپ ہی رکھیں کیونکہ یہاں آپ کو اس کی ضرورت ہے جبکہ ہم جہاں جا رہے ہیں وہاں عمامہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ پھر مجھے کچھ حوالوں سے نصیحتیں کیں، اپنی سابقہ تشکیلات کے مشاہدات اور تجربات بیان کیے اور پھر جب مجاہدین نے کھانے کی تیاری کا اعلان کیا تو ایک دوسرے کو دعا دے کر ہماری یہ آخری دنیاوی ملاقات اختتام پر پہنچی۔ اللہ تعالیٰ جنت میں ایک دوسرے کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔

شہید ہو کے ہاں مگر نشاط دل میں بھر گیا

مجاہدین دعوت سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ فضا میں ڈرون طیاروں نے منڈلانا شروع کردیا۔ کسی بدبخت جاسوس نے امریکیوں کو مجاہدین کے جمع ہونے کی اطلاع دے دی تھی۔ لہٰذا ایسے میں جلدی جلدی خالد اور دیگر بھائی اپنی گاڑی پر سوار ہوکر وزیرستان کے سفر پر نکلے مگر یہ سفر ان کا آخری سفر ثابت ہوا۔ سفر مختصر تھا مگر ان کو بہت بلندی پر لے گیا۔ اتنی بلندی پر کہ جہاں انبیاء و رسل رہتے ہیں، جہاں حور و غلمان کی رونقیں ہیں، جہاں سلسبیل کا چشمہ ہے اور جہاں نہ کوئی خوف ہے اور نہ غم۔ گاڑی کو روانہ ہوئے ایک گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ ڈرون طیارے نے ان پر وار کیا۔ گاڑی میں موجود تمام کے تمام چھ ساتھی شہید ہوگئے۔ خالد بھی شہداء میں شامل تھا۔ ان کے اجسام دشت میں بکھر گئے اور جہاں جہاں بکھرے وہاں وہاں مشک کی خوشبو بھی بکھر گئی۔ یہ واقعہ افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے ضلع ’وازے خواہ‘ کا تھا اور امت کے ان قیمتی جگر پاروں کی قبریں وہیں بنیں۔ کئی ماہ بعد بھی اس علاقے سے شہداء کی خوشبو آتی تھی اور گاڑی کے جلے ہوئے ٹکڑوں سے مہکِ مشک پھوٹتی رہی۔ خالد کے اعلیٰ اخلاق کا آخری واقعہ اس کی شہادت سے محض دس منٹ پہلے کا ہے۔ شہادت سے کچھ دیر پہلے راستے میں ایک افغانی مجاہد ساتھیوں کو ملا۔ خالد نے اس مجاہد کو دیکھ کر اپنا گولیوں کا جعبہ 19اس کو ہدیے میں دے دیا اور کہا کہ آپ کو اس کی ضرورت ہے اور میں جہاں جا رہا ہوں وہاں اور مل جائے گا۔ اللہ ہمارے ان محبوب بھائیوں سے راضی ہوجائے، ہمیں ان کا انتقام لینے کی توفیق دے اور امتِ مسلمہ کے تمام نوجوانوں کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ میں خالد کے کردار و سیرت پر غور کرتا ہوں تو علامہ اقبال مرحوم کے یہ اشعار یاد آتے ہیں کہ:

 

یہ غازی، یہ تیرے پراسرار بندے
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
دو عالم سے کرتی ہے بےگانہ دل کو
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن

جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

 

وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم

٭٭٭٭٭


1 سنن ابی داؤد

2 سنن ابنِ ماجہ

3 وائرلیس سیٹ

4 A Levels: برطانوی تعلیمی درجہ جو کہ پاکستان میں بارہویں جماعت کے برابر شمار کیا جاتا ہے۔

5 شہید عادل عبد القدوس جو کہ ’عمران بھائی‘ کے نام سے مجاہدین میں جانے جاتے تھے، پاکستانی فوج کے سابقہ میجر تھے۔ سن ۲۰۰۳ء میں عرب مجاہدین کی مدد کرنے کے الزام میں آپ کا کورٹ مارشل ہوا۔ ۲۰۰۹ء میں آپ چھ سال کی قید کاٹ کر رہا ہوئے اور پھر وزیرستان کی طرف ہجرت کر گئے۔ ۲۰۱۴ء میں پاکستانی فوج کے وحشیانہ آپریشن کے بعد آپ افغانستان کی سرحد پر موجود ایک بستی میں منتقل ہوئے جہاں پر امریکی چھاپے میں آپ شہید ہوئے۔ آپ﷫ خلوص و وفا، تعلق باللہ اور لازوال استقامت کی تصویر تھے۔ اللہ آپ سے راضی ہو۔ آمین!

6 کلاس

7 Tables

8 Convoy

9 یعنی کارروائیوں

10 سنن ابی داؤد

11 یعنی فدائی حملہ کرنے کا عمل

12 استاد احمد فاروق رحمہ اللہ

13 قاری انجنیئر اسامہ ابراہیم غوری رحمہ اللہ

14 ضلعی ہیڈکوارٹر

15 دھاوا بولنا

16 دوسرے مرحلے پر دھاوا بولنے والی ٹیم

17 شیخ اسامہ رحمہ اللہ کی جانب سے امیرالمومنین ملا عمر رحمہ اللہ کی بیعت کی طرف اشارہ ہے۔

18 مسند احمد

19 Pouch

Previous Post

سحر ہونے کو ہے | آخری قسط(۱۵)

Next Post

چند یادیں | مئی تا جولائی 2022

Related Posts

اسلام کا مسافر! | دوسری قسط
جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!

اسلام کا مسافر! | تیسری(و آخری) قسط

31 مئی 2024
اسلام کا مسافر! | دوسری قسط
جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!

اسلام کا مسافر! | دوسری قسط

30 مارچ 2024
اسلام کا مسافر! | دوسری قسط
جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!

اسلام کا مسافر! | پہلی قسط

28 فروری 2024
شہیدِ ازل
جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!

شہیدِ ازل

31 جولائی 2023
جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!

آخرت کے راہی: دو شہید بھائی

9 فروری 2023
جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!

جن سے وعدہ ہے مرکر بھی جو نہ مریں!

31 دسمبر 2022
Next Post

چند یادیں | مئی تا جولائی 2022

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version